• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنت فجر کی قضا نماز فجر کے بعد

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
بعض احادیث کے الفاظ سے بظاہر کہنے والے کے تأثر کی رہنمائی نہیں ملتی مگر بغور اس کی جزئیات اور اس سے برآمدہ نتائج سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ اس مذکورہ حدیث میں بھی کچھ اسی قسم کا معاملہ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان " مَا هَاتَانِ الرَّكْعَتَانِ ؟ " ایک ڈانٹ والا فقرہ ہے۔ اس ڈانٹ کے بعد کسی صحابی سے ممکن نہیں کہ جانتے بوجھتے اس کا اعادہ کرے۔ یہی وجہ ہے کہ کسی اور صحابی سے یا اسی صحابی سے اعادہ ثابت نہیں۔
یہ ڈانٹ والا فقرہ ہوسکتا ہے ، لیکن صحابی نے جب وجہ بیان کی ، اور اپنا عذر پیش کیا تو پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا سکوت اختیار کرنا ، اس فعل کے جواز کی دلیل ہے ، گویا تقریری حدیث ہے ۔ اگر یہ کام ناجائز یا غلط ہوتا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس کو منع کرتے ۔ فلا يجوز تأخير البيان عن وقت الحاجة ۔ اس حدیث کے رواۃ میں سے ایک مفتی مکہ عطاء بن ابی رباح بھی ہیں ، وہ باقاعدہ اس حدیث کے مطابق جواز کا فتوی دیا کرتے تھے ، گویا انہوں نے بھی اس حدیث سے جواز ہی سمجھا تھا نہ کہ عدم جواز ۔
علامہ معلمی رحمہ اللہ نے اس حدیث کے معنی پر بڑی نفیس گفتگو فرمائی ہے ۔ اور علامہ انور شاہ کاشمیری نے اس کے بعض الفاظ کی جو دور از کار تاویلات کی ہیں ، ان کی تردید کی ہے ۔ دیکھیے ( آثار المعلمی ج 13 ص 144 ۔ 145 )
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
292
پوائنٹ
165
انتہائی تعجب ہوتا ہے کہ صحیح بخاری کی صحیح صریح مرفوع غیر مجروح حدیث کو چھوڑ کر ادھر اُدھر کیوں بھاگ دوڑ کی جارہی ہیں؟ خود بعض مسائل میں قید لگا دیتے ہیں ”صحیح بخاری اور صحیح مسلم“ کی اور یہاں سنن الترمذی کی مشکوک حدیث سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے واضح فرمان کو چھوڑ کر اپنا مقصد نکالنے کے لئے کس قدر جتن کیئے جارہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی حفظ و امان میں رکھے (آمین)۔
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
انتہائی تعجب ہوتا ہے کہ صحیح بخاری کی صحیح صریح مرفوع غیر مجروح حدیث کو چھوڑ کر ادھر اُدھر کیوں بھاگ دوڑ کی جارہی ہیں؟ خود بعض مسائل میں قید لگا دیتے ہیں ”صحیح بخاری اور صحیح مسلم“ کی اور یہاں سنن الترمذی کی مشکوک حدیث سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے واضح فرمان کو چھوڑ کر اپنا مقصد نکالنے کے لئے کس قدر جتن کیئے جارہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی حفظ و امان میں رکھے (آمین)۔
انتہائی تعجب ہے کہ اس فورم کے اہل علم جامع ترمذی کی اس حدیث کو پہلے ہی صحیح ثابت کرچکے ہیں - لیکن اپنے امام کی اندھی تقلید نے آپ کو بھی اندھا کردیا ہے- اب اگر کچھ نہیں ملا تو بخاری و مسلم کی دہائی دینے لگے - چلیں بخاری کی مندرجہ ذیل حدیث کی بھی ذرا وضاحت فرما دیں کہ اس پر آپ احناف کیوں عمل نہیں کرتے اور بخاری کی اس حدیث (جس میں واضح ہے کہ اقامت جماعت کے بعد کوئی دوسری نماز چاہے نفل ہو یا سنّت پڑھنا جائز نہیں) اس کی کیوں صریح مخالفت کرتے ہیں اور بخاری کی اس حدیث کے مقابلے میں اپنے فقہا کی باتوں پر کیوں عمل کرتے ہیں ؟؟

.‌صحيح البخاري: كِتَابُ الأَذَانِ (بابٌ: إِذَا أُقِيمَتِ الصَّلاَةُ فَلاَ صَلاَةَ إِلَّا المَكْتُوبَةَ)
663 . حَدَّثَنَا عَبْدُ العَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ حَفْصِ بْنِ عَاصِمٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَالِكٍ ابْنِ بُحَيْنَةَ، قَالَ: مَرَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِرَجُلٍ قَالَ: ح وَحَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ يَعْنِي ابْنَ بِشْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا بَهْزُ بْنُ أَسَدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قَالَ: أَخْبَرَنِي سَعْدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: سَمِعْتُ حَفْصَ بْنَ عَاصِمٍ، قَالَ: سَمِعْتُ رَجُلًا مِنَ الأَزْدِ يُقَالُ لَهُ: مَالِكُ ابْنُ بُحَيْنَةَ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَى رَجُلًا وَقَدْ أُقِيمَتِ الصَّلاَةُ يُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ، فَلَمَّا انْصَرَفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لاَثَ بِهِ النَّاسُ، وَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «الصُّبْحَ أَرْبَعًا، الصُّبْحَ أَرْبَعًا» تَابَعَهُ غُنْدَرٌ، وَمُعَاذٌ، عَنْ شُعْبَةَ فِي مَالِكٍ، وَقَالَ ابْنُ إِسْحَاقَ: عَنْ سَعْدٍ، عَنْ حَفْصٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ابْنِ بُحَيْنَةَ، وَقَالَ حَمَّادٌ: أَخْبَرَنَا سَعْدٌ، عَنْ حَفْصٍ، عَنْ مَالِكٍ
حکم : صحیح


ترجمہ :. ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابراہیم بن سعد نے اپنے باپ سعد بن ابراہیم سے بیان کیا، انھوں نے حفص بن عاصم سے، انھوں نے عبداللہ بن مالک بن بحینہ سے، کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر ایک شخص پر ہوا ( دوسری سند ) امام بخاری نے کہا کہ مجھ سے عبدالرحمن بن بشر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے بہز بن اسد نے بیان کیا۔ کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، کہا کہ مجھے سعد بن ابراہیم نے خبر دی، کہا کہ میں نے حفص بن عاصم سے سنا، کہا کہ میں نے قبیلہ ازد کے ایک صاحب سے جن کا نام مالک بن بحینہ رضی اللہ عنہ تھا، سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر ایک ایسے نمازی پر پڑی جو تکبیر کے بعد دو رکعت نماز پڑھ رہا تھا۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز سے فارغ ہو گئے تو لوگ اس شخص کے ارد گرد جمع ہو گئے اور آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا صبح کی چار رکعتیں پڑھتا ہے؟ کیا صبح کی چار رکعتیں ہو گئیں؟ اس حدیث کی متابعت غندر اور معاذ نے شعبہ سے کی ہے جو مالک سے روایت کرتے ہیں۔ ابن اسحاق نے سعد سے، انھوں نے حفص سے، وہ عبداللہ بن بحینہ سے اور حماد نے کہا کہ ہمیں سعد نے حفص کے واسطہ سے خبر دی اور وہ مالک کے واسطہ سے -

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے واضح فرمان کو چھوڑ کر اپنا مقصد نکالنے کے لئے کس قدر جتن کیئے جارہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی حفظ و امان میں رکھے (آمین) -
 
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
760
پوائنٹ
290
ہنوز کوئی جواب نہیں ملا تمام سوالات کا ۔ ہم اگر اس تهریڈ کا لنک کسی کو پیش کرتے ہیں تو کیوں نا اس میں سے غیر مفید کلام اور پوسٹس حذف کر دی جائیں اور اس تهریڈ کو عنوان کے مطابق جامع بنایا جائے ۔
والسلام
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
292
پوائنٹ
165
ہنوز کوئی جواب نہیں ملا تمام سوالات کا ۔ ہم اگر اس تهریڈ کا لنک کسی کو پیش کرتے ہیں تو کیوں نا اس میں سے غیر مفید کلام اور پوسٹس حذف کر دی جائیں اور اس تهریڈ کو عنوان کے مطابق جامع بنایا جائے ۔
والسلام
محدث فورم کی انتظامیہ کے ”انتظامی“ اقدامات کے سبب ایسا ہوتا رہا۔ بعد ازاں کچھ تھریڈ محو ہو گئے جن میں سے ایک یہ بھی ہے۔ خیر اس کا شافی جوب ان شاء اللہ جلد ہی دیتا ہوں۔ شکریہ
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
292
پوائنٹ
165
انتہائی تعجب ہے کہ اس فورم کے اہل علم جامع ترمذی کی اس حدیث کو پہلے ہی صحیح ثابت کرچکے ہیں - لیکن اپنے امام کی اندھی تقلید نے آپ کو بھی اندھا کردیا ہے- اب اگر کچھ نہیں ملا تو بخاری و مسلم کی دہائی دینے لگے - چلیں بخاری کی مندرجہ ذیل حدیث کی بھی ذرا وضاحت فرما دیں کہ اس پر آپ احناف کیوں عمل نہیں کرتے اور بخاری کی اس حدیث (جس میں واضح ہے کہ اقامت جماعت کے بعد کوئی دوسری نماز چاہے نفل ہو یا سنّت پڑھنا جائز نہیں) اس کی کیوں صریح مخالفت کرتے ہیں اور بخاری کی اس حدیث کے مقابلے میں اپنے فقہا کی باتوں پر کیوں عمل کرتے ہیں ؟؟

.‌صحيح البخاري: كِتَابُ الأَذَانِ (بابٌ: إِذَا أُقِيمَتِ الصَّلاَةُ فَلاَ صَلاَةَ إِلَّا المَكْتُوبَةَ)
663 . حَدَّثَنَا عَبْدُ العَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ حَفْصِ بْنِ عَاصِمٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَالِكٍ ابْنِ بُحَيْنَةَ، قَالَ: مَرَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِرَجُلٍ قَالَ: ح وَحَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ يَعْنِي ابْنَ بِشْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا بَهْزُ بْنُ أَسَدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قَالَ: أَخْبَرَنِي سَعْدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: سَمِعْتُ حَفْصَ بْنَ عَاصِمٍ، قَالَ: سَمِعْتُ رَجُلًا مِنَ الأَزْدِ يُقَالُ لَهُ: مَالِكُ ابْنُ بُحَيْنَةَ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَى رَجُلًا وَقَدْ أُقِيمَتِ الصَّلاَةُ يُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ، فَلَمَّا انْصَرَفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لاَثَ بِهِ النَّاسُ، وَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «الصُّبْحَ أَرْبَعًا، الصُّبْحَ أَرْبَعًا» تَابَعَهُ غُنْدَرٌ، وَمُعَاذٌ، عَنْ شُعْبَةَ فِي مَالِكٍ، وَقَالَ ابْنُ إِسْحَاقَ: عَنْ سَعْدٍ، عَنْ حَفْصٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ابْنِ بُحَيْنَةَ، وَقَالَ حَمَّادٌ: أَخْبَرَنَا سَعْدٌ، عَنْ حَفْصٍ، عَنْ مَالِكٍ
حکم : صحیح


ترجمہ :. ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابراہیم بن سعد نے اپنے باپ سعد بن ابراہیم سے بیان کیا، انھوں نے حفص بن عاصم سے، انھوں نے عبداللہ بن مالک بن بحینہ سے، کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر ایک شخص پر ہوا ( دوسری سند ) امام بخاری نے کہا کہ مجھ سے عبدالرحمن بن بشر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے بہز بن اسد نے بیان کیا۔ کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، کہا کہ مجھے سعد بن ابراہیم نے خبر دی، کہا کہ میں نے حفص بن عاصم سے سنا، کہا کہ میں نے قبیلہ ازد کے ایک صاحب سے جن کا نام مالک بن بحینہ رضی اللہ عنہ تھا، سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر ایک ایسے نمازی پر پڑی جو تکبیر کے بعد دو رکعت نماز پڑھ رہا تھا۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز سے فارغ ہو گئے تو لوگ اس شخص کے ارد گرد جمع ہو گئے اور آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا صبح کی چار رکعتیں پڑھتا ہے؟ کیا صبح کی چار رکعتیں ہو گئیں؟ اس حدیث کی متابعت غندر اور معاذ نے شعبہ سے کی ہے جو مالک سے روایت کرتے ہیں۔ ابن اسحاق نے سعد سے، انھوں نے حفص سے، وہ عبداللہ بن بحینہ سے اور حماد نے کہا کہ ہمیں سعد نے حفص کے واسطہ سے خبر دی اور وہ مالک کے واسطہ سے -

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے واضح فرمان کو چھوڑ کر اپنا مقصد نکالنے کے لئے کس قدر جتن کیئے جارہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی حفظ و امان میں رکھے (آمین) -
جس طرح قرآن کو سمجھنے کے لئے ارشاداتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی ضرورت ہے اسی طرح ارشادات و اعمالِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کو سمجھنے کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے شاگر صحابہ کرام کا فہم ہی ہمارے لئے سند ہے۔ پورے ذخیرہ احادیث سے ایک دو اھادیث کو پیش کر کے اور اس کے مفسر آثار کو چھوڑ کر دین کی سمجھ حاصل نہیں ہوسکتی۔
آثارِ صحابہ کرام سے پتہ چلتا ہے کہ وہ فجر کی نماز ہوتے ہوئے سنت فجر پڑھ لیتے تھے۔ یہ دو باتیں بظاہر متسادم نظر آتی ہیں مگر حقیقتاً ایسا نہیں۔ ممناعت اتصالِ صف کی حالت میں ایسا کرنے کی ہے اور صحابہ کرام صف سے الگ مقام پر ایسا یعنی سنت فجر پڑھتے تھے۔
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
292
پوائنٹ
165
مصنف ابن أبي شيبة في الرجل يدخل المسجد في الفجر
(1) حدثنا ابن إدريس عن مطرف عن أبي إسحاق عن حارثة بن مضرب أن ابن مسعود وأبا موسى خرجا من عند سعيد بن العاصي فأقيمت الصلاة فركع ابن مسعود ركعتين ثم دخل مع القوم في الصلاة وأما أبو موسى فدخل في الصف.
ابن مسعود اور ابوموسی سعید بن العاصی کے پاس سے نکلے اور جماعت کھڑی ہو چکی تھی۔ ابن مسعود نے دو رکعتیں پڑھیں پھر جماعت میں شامل ہوئے اور ابوموسی صف میں شامل ہو گئے۔
(2) حدثنا وكيع عن دلهم بن صالح عن وبرة قال رأيت ابن عمر يفعاه حدثني من راه فعله مرتين جاء مرة وهم في الصلاة فصلاهما في جانب المسجد ثم دخل مره أخرى فصلى معهم ولم يصلهما.
وبرہ رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ میں نے عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دو دفعہ دیکھا کہ ایک دفعہ انہوں نے جمات کھڑی ہونے کے وقت مسجد کی ایک جانب دو رکعت سنت پڑھی پھر جماعت کے ساتھ شامل ہوئے اور ایک دفعہ بغیر فجر کی سنت ادا کیئے ہی جماعت کے ساتھ شامل ہوگئے۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
اشماریہ بھائی نے چند علمی پوائینٹس کی نشاندہی کی ہے۔
اس حدیث کو قیس بن عمرو رضی اللہ عنہ سے درج ذیل لوگ روایت کرتے ہیں:
  • محمد بن ابراہیم بن الحارث التیمی (مرسلا) - محمد بن ابراہیم سے اسے روایت کرنے والے
    • سعد بن سعید الانصاری
  • عبد ربہ بن سعید الانصاری (مرسلا) - ان سے روایت کرنے والے:
    • ابن جریج (مصنف عبد الرزاق، مسند احمد)
    • حماد بن سلمہ (مشکل الآثار للطحاوی)
  • یحیی بن سعید الانصاری عن ابیہ (متصلا) - ان سے روایت کرنے والے:
    • امام لیث بن سعد
اشماریہ بھائی کے مطابق اس روایت کو متصلا روایت کرنے میں اسد بن موسی نے غلطی کی ہے لیکن ایسا تبھی کہا جا سکتا ہے جب روایت ایک ہو اور اسے بیان کرنے والوں نے اختلاف کیا ہو۔ جبکہ یہاں پر ایک نہیں تین روایتیں ہیں۔ سعد بن سعید کی محمد بن ابراہیم سے روایت، عبد ربہ کی روایت، اور یحیی بن سعید الانصاری کی روایت۔ اگر کہا جائے کہ یحیی بن سعید الانصاری نے اس روایت میں اپنے دونوں بھائیوں کی مخالفت کی ہے تو انہی کی روایت کو راجح کہا جائے گا کیونکہ ان دونوں میں وہ سب سے زیادہ ثقہ اور حافظ ہیں جبکہ باقی دو پر کچھ کلام ہے۔
اب جب یحیی بن سعید الانصاری کی روایت باقی دو کی روایتوں سے راجح ثابت ہوگئی تو نکارت کا اعتراض تبھی جائز ہو گا جب یحیی بن سعید الانصاری سے روایت کرنے میں کسی نے نکارت کی ہو، نہ کہ یہ دیکھا جائے کہ یحیی کی روایت کے علاوہ دیگر روایتوں میں مخالفت ہے یا نہیں، کیونکہ وہ یحیی کی روایتیں ہے ہی نہیں جبکہ ہم یہاں صرف یحیی تک اس روایت کی سند کی صحت پر بحث کر رہے ہیں۔
اب امام یحیی الانصاری سے اس روایت کو نقل کرنے والے امام لیث بن سعد ہیں جو کہ اعلیٰ درجے کے ثقہ امام ہیں اور ان کے خلاف کسی نے اس روایت میں کوئی دوسری بات نہیں کی ہے۔
اور لیث بن سعد سے پھر اسے اسد بن موسی نے روایت کیا ہے۔ اور ان کے خلاف بھی لیث کے کسی شاگرد نے کوئی دوسری بات نہیں کی ہے۔
تو جب یحیی تک اس سند میں کوئی مخالفت نہیں ہے تو اسد بن موسی کی نکارت کا اعتراض جائز نہیں ہے۔ مخالفت تو یحیی اور ان کے بھائیوں میں ہے لہٰذا نکارت یا ترجیح کا فیصلہ یہاں سے ہونا چاہیے اور یہ بالکل واضح ہے کہ امام یحیی کی روایت کو ہی ترجیح دی جائے گی۔ لہٰذا یہ بھی نہیں کہا جا سکتا کہ اسد بن موسی نے سفیان بن عیینہ ودیگر حفاظ کی مخالفت کی ہے کیونکہ سفیان وابن نمیر نے یحیی الانصاری کی روایت بیان ہی نہیں کی انہوں نے تو سعد بن سعید کی روایت بیان کی ہے تو مخالفت کیسی؟ اور اس میں بھی ان کا مقابلہ اسد بن موسی سے نہیں لیث بن سعد سے ہے۔
پتہ نہیں یہ وضاحت قابلِ سمجھ ہے یا نہیں۔
واللہ اعلم۔
جزاك الله احسن الجزاء
سب سے پہلے تو معذرت کہ آج آپ کی یہ پوسٹ دیکھی۔

میرا مدعا یہ تھا (جو شاید میں سمجھا نہ پایا ہوں) کہ اسد بن موسی نے یہاں یحیی بن سعید سے آخر تک سند کا ذکر ہی غلط کیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان سے بڑے بڑے رواۃ نے (سفیان وغیرہ) اس روایت کو دو راویوں سے نقل کیا ہے یعنی سعد اور عبد ربہ۔ اور ابو داؤدؒ نے یحیی کا بھی ذکر کیا ہے لیکن یہ تصریح کی ہے کہ وہ بھی مرسل ہے۔ اسد بن موسی نے یحیی سے روایت متصل کی ہے۔ اگر کوئی عام ثقہ راوی ہوتا جس پر مناکیر کی تہمت نہ لگی ہوتی تو ہم عام اصول پر چلتے ہوئے یہی کہتے کہ ایک سند یہ بھی ہے جس سے اس نے روایت کیا ہے (جیسا کہ آپ نے سمجھا ہے)۔ لیکن ان اسد بن موسی کا مسئلہ ہی یہی ہے کہ یہ روایات میں تبدیلی کر جاتے ہیں جس کی وجہ سے وہ منکر کہلاتی ہیں۔ اب جب یہ اس معاملے میں متہم ہو گئے تو جب یہ روایت کے رواۃ میں کوئی تبدیلی کریں گے تو ہم اس تبدیلی کو قبول نہیں کر سکتے۔
اب انہیں دو میں سے ایک جگہ غلطی کا سامنا ہوا ہے۔
یا تو لیث نے دیگر کی طرح سعد بن سعید یا عبد ربہ بن سعید کا ذکر کیا تھا اور یہ غلطی کر کے یحیی بن سعید کی کوئی اور متصل سند یہاں لگا گئے۔
یا پھر لیث نے یحیی بن سعید سے ہی روایت کی تھی لیکن آگے وہ مرسل تھی (جس کی طرف ابو داؤدؒ نے اشارہ کیا ہے) اور انہوں نے غلطی کر کے اسے متصل کر دیا۔ جب ابو داؤدؒ اس طریق کے مرسل ہونے کا بھی کہتے ہیں تو ان کی یہ غلطی اور بھی واضح ہو جاتی ہے۔
لیث بن سعد سے کسی اور کی روایت ہمارے پاس موجود ہی نہیں ہے جس سے ہم تائید یا تردید کر سکیں۔ لیکن ان پر اس جرح کی وجہ سے اور سفیان وغیرہ کی روایات کی موجودگی کی وجہ سے ان کی روایت میں احتمال پیدا ہوتا ہے۔ تو ہم اس کے مقابلے میں ان روایات کو لیں گے جو یقینی اور قطعی ہیں۔ وہ روایات ہیں سفیان وغیرہ کی۔ اور ان میں آگے جا کر سند میں مسائل ہیں۔
اسی لیے ابن خزیمہ نے تاکید کے ساتھ اسد بن موسی کی روایت کو غریب کہا ہے۔

باقی اصلا روایت ایک ہی ہے۔ یعنی قیس بن عمرو رض کا بیان کردہ واقعہ۔ آگے سندیں مختلف ہیں روایات نہیں۔
واللہ اعلم


معجم ابن الاعربی میں اس روایت کا ایک اور شاہد ہے:
نا ابْنُ عَفَّانَ، نا يَحْيَى بْنُ فُضَيْلٍ، نا الْحَسَنُ بْنُ صَالِحٍ، نا أَبُو سَعْدٍ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ جَابِرٍ، عَنِ النَّبِيِّ صلي الله عليه وسلم قَالَ: " صَلَّى رَجُلٌ الْفَجْرَ، ثُمَّ صَلَّى بَعْدَهَا رَكْعَتَيْنِ، فَقِيلَ لَهُ: مَا هَاتَانِ الرَّكْعَتَانِ؟ فَقَالَ: الرَّكْعَتَانِ اللَّتَانِ قَبْلَ الْفَجْرِ، لَمْ أَكُنْ صَلَّيْتُهُمَا فَلَمْ يَأْمُرْهُ، وَلَمْ يَنْهَهُ
اس کے تمام رواۃ ثقہ ہیں سوائے یحیی بن فضیل کے، وہ حسن بن صالح سے ایک نسخہ کے زریعے روایت کرتے ہیں، اور ان سے کئی لوگ روایت کرتے ہیں، البتہ کتاب الجرح والتعدیل وغیرہ میں ان کا ترجمہ بنا کسی جرح وتعدیل کے منقول ہے، لیکن مستخرج ابو عوانہ اور حاکم وغیرہ میں ان کی روایات موجود ہیں۔ واللہ اعلم
اس میں عطاء بن ابی رباح اسے روایت کر رہے ہیں اور تحدیث کی تصریح نہیں ہے۔ حمیدیؒ نے مسند میں سفیان کا قول نقل کیا ہے:
قال سفيان: وكان عطاء بن أبي رباح، يروي هذا الحديث، عن سعد بن سعيد

اس میں صراحت ہے کہ یہ بھی سعد بن سعید والا طریق ہے۔

فائدہ: امام احمدؒ نے عطاء بن ابی رباح کی مراسیل کو اضعف المراسیل قرار دیا ہے (تہذیب الکمال)۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ عطاء ہر قسم کے راوی سے مرسلا روایت نقل کر لیتے تھے۔ سفیان کی تصریح کی روشنی میں یہاں اس کی واضح مثال ملتی ہے۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
انتہائی تعجب ہے کہ اس فورم کے اہل علم جامع ترمذی کی اس حدیث کو پہلے ہی صحیح ثابت کرچکے ہیں - لیکن اپنے امام کی اندھی تقلید نے آپ کو بھی اندھا کردیا ہے- اب اگر کچھ نہیں ملا تو بخاری و مسلم کی دہائی دینے لگے - چلیں بخاری کی مندرجہ ذیل حدیث کی بھی ذرا وضاحت فرما دیں کہ اس پر آپ احناف کیوں عمل نہیں کرتے اور بخاری کی اس حدیث (جس میں واضح ہے کہ اقامت جماعت کے بعد کوئی دوسری نماز چاہے نفل ہو یا سنّت پڑھنا جائز نہیں) اس کی کیوں صریح مخالفت کرتے ہیں اور بخاری کی اس حدیث کے مقابلے میں اپنے فقہا کی باتوں پر کیوں عمل کرتے ہیں ؟؟

.‌صحيح البخاري: كِتَابُ الأَذَانِ (بابٌ: إِذَا أُقِيمَتِ الصَّلاَةُ فَلاَ صَلاَةَ إِلَّا المَكْتُوبَةَ)
663 . حَدَّثَنَا عَبْدُ العَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ حَفْصِ بْنِ عَاصِمٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَالِكٍ ابْنِ بُحَيْنَةَ، قَالَ: مَرَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِرَجُلٍ قَالَ: ح وَحَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ يَعْنِي ابْنَ بِشْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا بَهْزُ بْنُ أَسَدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قَالَ: أَخْبَرَنِي سَعْدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: سَمِعْتُ حَفْصَ بْنَ عَاصِمٍ، قَالَ: سَمِعْتُ رَجُلًا مِنَ الأَزْدِ يُقَالُ لَهُ: مَالِكُ ابْنُ بُحَيْنَةَ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَى رَجُلًا وَقَدْ أُقِيمَتِ الصَّلاَةُ يُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ، فَلَمَّا انْصَرَفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لاَثَ بِهِ النَّاسُ، وَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «الصُّبْحَ أَرْبَعًا، الصُّبْحَ أَرْبَعًا» تَابَعَهُ غُنْدَرٌ، وَمُعَاذٌ، عَنْ شُعْبَةَ فِي مَالِكٍ، وَقَالَ ابْنُ إِسْحَاقَ: عَنْ سَعْدٍ، عَنْ حَفْصٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ابْنِ بُحَيْنَةَ، وَقَالَ حَمَّادٌ: أَخْبَرَنَا سَعْدٌ، عَنْ حَفْصٍ، عَنْ مَالِكٍ
حکم : صحیح


ترجمہ :. ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابراہیم بن سعد نے اپنے باپ سعد بن ابراہیم سے بیان کیا، انھوں نے حفص بن عاصم سے، انھوں نے عبداللہ بن مالک بن بحینہ سے، کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر ایک شخص پر ہوا ( دوسری سند ) امام بخاری نے کہا کہ مجھ سے عبدالرحمن بن بشر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے بہز بن اسد نے بیان کیا۔ کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، کہا کہ مجھے سعد بن ابراہیم نے خبر دی، کہا کہ میں نے حفص بن عاصم سے سنا، کہا کہ میں نے قبیلہ ازد کے ایک صاحب سے جن کا نام مالک بن بحینہ رضی اللہ عنہ تھا، سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر ایک ایسے نمازی پر پڑی جو تکبیر کے بعد دو رکعت نماز پڑھ رہا تھا۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز سے فارغ ہو گئے تو لوگ اس شخص کے ارد گرد جمع ہو گئے اور آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا صبح کی چار رکعتیں پڑھتا ہے؟ کیا صبح کی چار رکعتیں ہو گئیں؟ اس حدیث کی متابعت غندر اور معاذ نے شعبہ سے کی ہے جو مالک سے روایت کرتے ہیں۔ ابن اسحاق نے سعد سے، انھوں نے حفص سے، وہ عبداللہ بن بحینہ سے اور حماد نے کہا کہ ہمیں سعد نے حفص کے واسطہ سے خبر دی اور وہ مالک کے واسطہ سے -

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے واضح فرمان کو چھوڑ کر اپنا مقصد نکالنے کے لئے کس قدر جتن کیئے جارہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی حفظ و امان میں رکھے (آمین) -
اس حدیث کے اگر دیگر طرق بھی مل جائیں تو نوازش ہوگی۔
میرے ذہن میں ایک خیال ہے۔
 
Top