• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن ابن ماجه

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
107- بَاب الطَّوَافِ فِي مَطَرٍ
۱۰۷- باب: بارش میں طواف کا بیان​


3118- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي عُمَرَ الْعَدَنِيُّ، حَدَّثَنَا دَاوُدُ بْنُ عَجْلانَ؛ قَالَ: طُفْنَا مَعَ أَبِي عِقَالٍ فِي مَطَرٍ، فَلَمَّا قَضَيْنَا طَوَافَنَا أَتَيْنَا خَلْفَ الْمَقَامِ، فَقَالَ: طُفْتُ مَعَ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ فِي مَطَرٍ، فَلَمَّا قَضَيْنَا الطَّوَافَ أَتَيْنَا الْمَقَامَ فَصَلَّيْنَا رَكْعَتَيْنِ، فَقَالَ لَنَا أَنَسٌ: ائْتَنِفُوا الْعَمَلَ، فَقَدْ غُفِرَ لَكُمْ، هَكَذَا قَالَ لَنَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ، وَطُفْنَا مَعَهُ فِي مَطَرٍ۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۲۴، ومصباح الزجاجۃ: ۱۰۸۱) (ضعیف جدا)
(سند میں داود بن عجلان اور ان کے شیخ أبو عقال ہلال بن زید سخت ضعیف ہیں ،اس حدیث کو ابن الجوزی نے موضوعات میں داخل کیا ہے)۔
۳۱۱۸- داود بن عجلان کہتے ہیں کہ ہم نے ابوعقال (ہلال بن زید) کے ساتھ بارش میں طواف کیا، جب ہم طواف کرچکے تو مقام ابراہیم کے پیچھے آئے، تو انہوں نے کہا :میں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے ساتھ بارش میں طواف کیا، جب ہم طواف کرچکے تو مقام ابراہیم پر آئے اور وہاں دو رکعتیں پڑھیں، انس رضی اللہ عنہ نے ہم سے کہا: اب نئے سرے سے اپنے عمل کا حساب سمجھو کیونکہ تمہارے گناہ بخش دئیے گئے، ایسے ہی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے فرمایا تھا، اور ہم نے آپ کے ساتھ بارش میں طواف کیا تھا ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
108- بَاب الْحَجُّ مَاشِيًا
۱۰۸- باب: پیدل حج کا بیان​


3119- حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ حَفْصٍ الأُبُلِّيُّ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَمَانٍ عَنْ حَمْزَةَ بْنِ حَبِيبٍ الزَّيَّاتِ، عَنْ حُمْرَانَ بْنِ أَعْيَنَ، عَنْ أَبِي الطُّفَيْلِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ؛ قَالَ: حَجَّ النَّبِيُّ ﷺ وَأَصْحَابُهُ مُشَاةً مِنَ الْمَدِينَةِ إِلَى مَكَّةَ، وَقَالَ: " ارْبُطُوا أَوْسَاطَكُمْ بِأُزُرِكُمْ " وَمَشَى خِلْطَ الْهَرْوَلَةِ۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۴۰۸۹، ومصباح الزجاجۃ: ۱۰۸۲) (ضعیف)
سند میں حمران بن اعین الکوفی ضعیف ہیں، آخر ی عمر میں اختلاط کا شکا ر ہو گئے تھے، نیز ملاحظہ ہو : الضعیفہ : ۲۷۳۴)
۳۱۱۹- ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ نے مدینہ سے مکہ پیدل چل کر حج کیا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:'' اپنے تہ بند اپنی کمر میں باندھ لو''، اور آپ ایسی چال چلے جس میں دوڑ ملی ہوئی تھی ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : کسی حدیث میں یہ ثابت نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم حج میں کہیں دوڑ کر چلے ہوں سو ائے دو مقاموں کے ایک تو طواف قدوم کے پہلے تین پھیروں میں، دوسرے صفا اور مروہ میں دو نشانوں کے درمیان ۔

* * *​
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207

{ 26-كِتَاب الأَضَاحِيِّ }
۲۶ -کتاب: قربانی کے احکام ومسائل


1-بَاب أَضَاحِيِّ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ
۱ - باب: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قربانی کا بیان​


3120- حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَهْضَمِيُّ، حَدَّثَنِي أَبِي، (ح) و حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ؛ قَالا: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، سَمِعْتُ قَتَادَةَ يُحَدِّثُ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ؛ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ كَانَ يُضَحِّي بِكَبْشَيْنِ أَمْلَحَيْنِ أَقْرَنَيْنِ، وَيُسَمِّي، وَيُكَبِّرُ، وَلَقَدْ رَأَيْتُهُ يَذْبَحُ بِيَدِهِ وَاضِعًا قَدَمَهُ عَلَى صِفَاحِهِمَا۔
* تخريج: خ/الأضاحي ۹ (۵۵۵۸)، م/الأضاحي ۳ (۱۹۶۶)، ن/الضحایا ۲۷ (۴۴۲۰)، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۵۰)، وقد أخرجہ: ت/الأضاحي ۲ (۱۴۹۴)، حم (۳/۹۹، ۱۱۵، ۱۷۰، ۱۷۸، ۱۸۳، ۱۸۹، ۲۱۱، ۲۱۴، ۲۲۲، ۲۵۵، ۲۵۸، ۲۶۷، ۲۷۲، ۲۷۹، ۲۸۱)، دي/الأضاحي ۱ (۱۹۸۸) (صحیح)
۳۱۲۰- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دو چتکبرے سینگ دار مینڈھوں کی قربانی کر تے، (ذبح کے وقت ) ''بسم الله اور الله أكبر'' کہتے تھے، اور میں نے آپ کو اپنا پائو ں جانورکے پٹھوں پر رکھ کر اپنے ہاتھوں سے ذبح کرتے ہوئے دیکھا ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : أضاحی : اضحیہ کی جمع ہے اور ضحا یا جمع ہے ضحیۃ کی اوراضحی جمع ہے اضحاۃ کی، اسی لئے دوسری عید (عید قربان) کو عید الاضحی کہا جاتا ہے۔


3121- حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَيَّاشٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحاقَ عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ أَبِي عَيَّاشٍ الزُّرَقِيِّ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ؛ قَالَ: ضَحَّى رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: يَوْمَ عِيدٍ بِكَبْشَيْنِ، فَقَالَ حِينَ وَجَّهَهُمَا: " إِنِّي وَجَّهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِي فَطَرَ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضَ حَنِيفًا وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ، إِنَّ صَلاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ لا شَرِيكَ لَهُ وَبِذَلِكَ أُمِرْتُ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُسْلِمِينَ، اللَّهُمَّ ! مِنْكَ وَلَكَ عَنْ مُحَمَّدٍ وَأُمَّتِهِ "۔
* تخريج: د/الأضاحي ۴ (۲۷۹۵)، ت/الأضاحي ۲۲ (۱۵۲۱)، (تحفۃ الأشراف: ۳۱۶۶)، وقد أخرجہ: حم (۳/۳۵۶، ۳۶۲)، دي /الأضاحي ۱ (۱۹۸۹) (حسن)
(ملاحظہ ہو: ابو داود : ۲۷۹۵، تعلیق، صحیح أبی داود: ۲۴۹۱/۸ /۱۴۲)۔
۳۱۲۱- جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عید الاضحی کے دن دو مینڈھوں کی قربانی کی ، اور جس وقت ان کا منھ قبلے کی طرف کیا تو فرمایا : '' إِنِّي وَجَّهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِي فَطَرَ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضَ حَنِيفًا وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ، إِنَّ صَلاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ ، لاشَرِيكَ لَهُ وَبِذَلِكَ أُمِرْتُ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُسْلِمِينَ، اللَّهُمَّ مِنْكَ وَلَكَ عَنْ مُحَمَّدٍ وَأُمَّتِهِ '' ( میں اپنا رخ اس ذات کی طرف کرتا ہوں جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ، اور میں شرک کرنے والوں میں سے نہیں ہوں ، بیشک میری صلاۃ، میری قربانی، میرا جینا اور مرنا سب اللہ ہی کے لئے ہے، جو سارے جہان کا رب ہے ، اس کا کوئی شریک نہیں ،اور مجھے اسی کا حکم ہے اورسب سے پہلے میں اس کے تابعداروں میں سے ہوں ، اے اللہ! یہ قربانی تیری ہی طرف سے ہے، اور تیرے ہی واسطے ہے ،محمد اور اس کی امت کی طرف سے اسے قبول فرما ) ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو مینڈھوں کو ذبح کیا ورنہ ایک مینڈھا یا ایک بکری سارے گھروالوں کی طرف سے کافی ہے جیساکہ آگے آئے گا، اس کی وجہ یہ تھی کہ ایک مینڈھا اپنے گھر والوں کی طرف سے ذبح کیا،اور دوسرا اپنی امت کی طرف سے، اب اور لوگ جو قربانی کریں ان کو صرف ایک مینڈھا ذبح کرنا کافی ہے ، اور جس قدرعمدہ، اور موٹا تازہ ہو اتنا ہی افضل اوربہتر ہے۔


3122- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى،حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّزَّاقِ، أَنْبَأَنَا سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ،عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِيلٍ،عَنْ أَبِي سَلَمَةَ ، عَنْ عَاءِشَةَ، وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ؛ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ إِذَا أَرَادَ أَنْ يُضَحِّيَ اشْتَرَى كَبْشَيْنِ عَظِيمَيْنِ سَمِينَيْنِ أَقْرَنَيْنِ أَمْلَحَيْنِ مَوْجُوئَيْنِ، فَذَبَحَ أَحَدَهُمَا عَنْ أُمَّتِهِ،لِمَنْ شَهِدَ لِلَّهِ بِالتَّوْحِيدِ وَشَهِدَ لَهُ بِالْبَلاغِ، وَذَبَحَ الآخَرَ عَنْ مُحَمَّدٍ وَعَنْ آلِ مُحَمَّدٍ ﷺ۔
* تخريج:تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۴۹۶۸، ۱۷۷۳۱، ومصباح الزجاجۃ: ۱۰۸۳)، وقد أخرجہ: حم (۶/۲۲۰) (صحیح)
۳۱۲۲- ام المو منین عائشہ اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہما سے ر وایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب قربا نی کا ارادہ فرماتے تو دو بڑے ، موٹے سینگ دار ، چتکبرے ، خصی کئے ہوئے مینڈھے خرید تے ، ان میں سے ایک اپنی امت کے ان لوگوں کی طرف سے ذبح فرماتے ، جو اللہ کی توحید اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی گواہی دیتے ہیں، اور دوسرا محمد اور آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ذبح فرماتے ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : میت کی طرف سے مستقل قربانی کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں ہے، اور احتیاط اس میں ہے کہ میت کی طرف سے قربانی کا گوشت مساکین وفقراء کو صدقہ کردے، اور خود نہ کھائے ۔(ملاحظہ ہو: تحفۃ الاحوذی :۲ص: ۳۵۴)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
2- بَاب الأَضَاحِيِّ وَاجِبَةٌ هِيَ أَمْ لا؟
۲- باب: قربانی واجب ہے یا نہیں ؟​


3123- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ الْحُبَابِ حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ عَيَّاشٍ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ الأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ؛ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: " مَنْ كَانَ لَهُ سَعَةٌ، وَلَمْ يُضَحِّ، فَلايَقْرَبَنَّ مُصَلَّانَا "۔
* تخريج:تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۹۳۸، ومصباح الزجاجۃ: ۱۰۸۴)، وقد أخرجہ: حم (۲/۳۲۱، ۶/۲۲۰) (حسن)
( سند میں عبد اللہ بن عیاش ضعیف راوی ہیں، لیکن شاہد کی بناء پر حسن ہے)
۳۱۲۳- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: '' جس شخص کو (قربانی کی) وسعت ہو اور وہ قربانی نہ کرے، تو وہ ہماری عیدگاہ کے قریب نہ پھٹکے '' ۔


3124- حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا إِسْماعِيلُ بْنُ عَيَّاشٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ عَوْنٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ قَالَ: سَأَلْتُ ابْنَ عُمَرَ عَنِ الضَّحَايَا أَوَاجِبَةٌ هِيَ؟ قَالَ: ضَحَّى رَسُولُ اللَّهِ ﷺ وَالْمُسْلِمُونَ مِنْ بَعْدِهِ، وَجَرَتْ بِهِ السُّنَّةُ.
* تخريج: تفر د بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۷۴۳۸)، وقد أخرجہ: ت/الاضاحي۱۱ (۱۵۰۶) (ضعیف)
(سند میں اسماعیل بن عیاش ہیں، جن کی روایت غیر شامیوں سے ضعیف ہے ، نیزملاحظہ ہو : المشکاۃ : ۱۴۷۵)
۳۱۲۴- محمدبن سیرین کہتے ہیں کہ میں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے پوچھا : کیا قربانی واجب ہے؟ تو جواب دیاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کی ہے ، اور آپ کے بعد مسلمانوں نے کی ہے، اور یہ سنت جاری ہے ۔


3124/أ- حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَيَّاشٍ حَدَّثَنَا الْحَجَّاجُ بْنُ أَرْطَاةَ حَدَّثَنَا جَبَلَةُ بْنُ سُحَيْمٍ قَالَ سَأَلْتُ ابْنَ عُمَرَ فَذَكَرَ مِثْلَهُ سَوَائً۔
* تخريج: ت/الأضاحي ۱۱ (۱۵۰۶)، (تحفۃ الأشراف: ۶۶۷۱)
۳۱۲۴/ أ- اس سند سے بھی ابن عمر رضی اللہ عنہما سے اسی کے ہم مثل منقول ہے۔


3125- حَدَّثَنَاأَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ،حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ مُعَاذٍ عَنِ ابْنِ عَوْنٍ،قَالَ: أَنْبَأَنَا أَبُو رَمْلَةَ،عَنْ مِخْنَفِ بْنِ سُلَيْمٍ، قَالَ: كُنَّا وَقُوفًا عِنْدَ النَّبِيِّ ﷺ بِعَرَفَةَ فَقَالَ: "يَاأَيُّهَا النَّاسُ! إِنَّ عَلَى كُلِّ أَهْلِ بَيْتٍ فِي كُلِّ عَامٍ أُضْحِيَّةً وَعَتِيرَةً " أَتَدْرُونَ مَاالْعَتِيرَةُ؟ هِيَ الَّتِي يُسَمِّيهَا النَّاسُ الرَّجَبِيَّةَ۔
* تخريج:د/الضحایا ۱ (۲۷۸۸)، ت/الأضاحي ۱۹ (۱۵۱۸)، ن/الفرع والعتیرۃ (۴۲۲۹)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۲۴۴)، وقد أخرجہ: حم (۴/۲۱۵، ۵/۷۶) (حسن)
(سند میں ابو رملہ مجہول راوی ہے، لیکن شاہد کی تقویت سے حسن ہے، تراجع الألبانی : رقم : ۲۶۴)
۳۱۲۵- مخنف بن سلیم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ عرفہ کے دن رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کھڑے تھے کہ اسی دوران آپ نے فرمایا: '' لوگو ! ہر گھروالوں پر ہر سال ایک قربانی ۱؎ اور ایک عتیرہ ۲؎ ہے''، تم جانتے ہو کہ عتیرہ کیا ہے؟ یہ وہی ہے جسے لوگ رجبیہ کہتے ہیں '' ۳؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ایک قربانی پورے گھر والوں کی طرف سے کافی ہوگی۔
وضاحت ۲؎ : عتیرہ: وہ بکری ہے جور جب میں ذبح کی جاتی تھی، ابوداود کہتے ہیں کہ یہ حکم منسوخ ہے۔
وضاحت ۳ ؎ : رجب کی قربانی پہلے شروع اسلام میں واجب تھی پھر منسوخ ہوگئی، دوسری حدیث میں ہے کہ عتیرہ کی قربانی کوئی چیز نہیں ہے ، اب صرف عید کی قربانی ہے ، ا س حدیث سے بھی عید الاضحی میں قربانی کا وجوب نکلتا ہے،اور قائلین وجوب اس آیت سے بھی دلیل لیتے ہیں {فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ} [ سورة الكوثر : 2] کیونکہ امر وجوب کے لئے ہے، مخالف کہتے ہیں کہ آیت کا یہ مطلب ہے کہ نحر(ذبح) اللہ کے لئے کر یعنی اللہ کے سوا اور کسی کے لئے نحر(ذبح) نہ کر جیسے مشرکین بت پوجنے والے بتوں کے نام پرنحر(ذبح) کیا کرتے تھے، اس سے منع کیا، اس سے عید کی قربانی کا وجوب نہیں معلوم ہوا ،ایک اور جندب کی حدیث ہے جو آگے آئے گی، وہ بھی وجوب کی دلیل ہے، اور عدم وجوب والے جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث سے دلیل لیتے ہیں، اس میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی پہلے کی اپنی امت کے ان لوگوں کی طرف سے جنہوں نے قربانی نہیں کی، ایک مینڈھے کی (احمد، ابوداود، ترمذی) لیکن یہ عدم وجوب پر دلالت نہیں کرتا اس لئے کہ مراد اس میں وہ لوگ ہیں جن کو قربانی کی قدرت نہیں ان پروجوب کا کوئی قائل نہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
3-بَاب ثَوَابِ الأُضْحِيَّةِ
۳- باب: قربانی کا ثواب​


3126- حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الدِّمَشْقِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بنُ نَافِعٍ، حَدَّثَنِي أَبُوالْمُثَنَّى، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَاءِشَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: " مَا عَمِلَ ابْنُ آدَمَ يَوْمَ النَّحْرِ عَمَلا أَحَبَّ إِلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ مِنْ هِرَاقَةِ دَمٍ، وَإِنَّهُ لَيَأْتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِقُرُونِهَا وَأَظْلافِهَا وَأَشْعَارِهَا، وَإِنَّ الدَّمَ لَيَقَعُ مِنَ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ بِمَكَانٍ قَبْلَ أَنْ يَقَعَ عَلَى الأَرْضِ، فَطِيبُوا بِهَا نَفْسًا "۔
* تخريج: ت/الأضاحي ۱ (۱۴۹۳)، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۳۴۳)، وقد أخرجہ: حم (۵/۲۳۹) (ضعیف)
(سندمیں ابو المثنیٰ ضعیف راوی ہے)
۳۱۲۶- ام المو منین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :'' یوم النحر ( دسویں ذی الحجہ ) کو ابن آدم کا کوئی بھی عمل اللہ تعالی کے نزدیک خون بہانے سے زیادہ محبوب نہیں، اور قربانی کا جانور قیامت کے دن اپنی سینگ، کھر اور بالو ں سمیت (جوں کا توں ) آئے گا، اور بیشک زمین پر خون گرنے سے پہلے اللہ تعالی کے نزدیک مقام پیدا کر لیتا ہے، پس اپنے دل کو قربانی سے خوش کرو'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یعنی اس سے اجروثواب کی امید کرو ۔


3127- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خَلَفٍ الْعَسْقَلانِيُّ،حَدَّثَنَا آدَمُ بْنُ أَبِي إِيَاسٍ،حَدَّثَنَا سَلَّامُ بْنُ مِسْكِينٍ، حَدَّثَنَا عَاءِذُاللَّهِ عَنْ أَبِي دَاوُدَ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمُ ؛ قَالَ: قَالَ أَصْحَابُ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! مَا هَذِهِ الأَضَاحِيُّ؟ قَالَ: " سُنَّةُ أَبِيكُمْ إِبْرَاهِيمَ " قَالُوا: فَمَا لَنَا فِيهَا؟ يَا رَسُولَ اللَّهِ! قَالَ: " بِكُلِّ شَعَرَةٍ حَسَنَةٌ "، قَالُوا: فَالصُّوفُ؟ يَا رَسُولَ اللَّهِ ! قَالَ: " بِكُلِّ شَعَرَةٍ مِنَ الصُّوفِ حَسَنَةٌ "۔
* تخريج:تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۳۶۸۷، ومصباح الزجاجۃ: ۱۰۸۴؍ أ)، وقد أخرجہ: حم (۴/۳۶۸) (ضعیف جدا)
(سند میں ابو داود النخعی متروک الحدیث بلکہ متہم بالوضع راوی ہے، ملاحظہ ہو : المشکاۃ : ۱۴۷۶)
۳۱۲۷- زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ نے عر ض کیا: اللہ کے رسول ! ان قربانیوں کی کیا حقیقت ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ''تمہارے والد ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے''، لوگوں نے عرض کیا:تو ہم کو اس میں کیا ملے گا ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: '' ہر بال کے بدلے ایک نیکی ملے گی'' لوگوں نے عر ض کیا : اور بھیڑ میں اللہ کے رسول! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : '' بھیڑ میں (بھی) ہر بال کے بدلے ایک نیکی ہے '' ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
4- بَاب مَا يُسْتَحَبُّ مِنَ الأَضَاحِيِّ
۴- باب: کن جانوروں کی قر بانی مستحب ہے؟​


3128- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ، حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِيَاثٍ،عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ،عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ؛ قَالَ: ضَحَّى رَسُولُ اللَّهِ ﷺ بِكَبْشٍ أَقْرَنَ فَحِيلٍ، يَأْكُلُ فِي سَوَادٍ، وَيَمْشِي فِي سَوَادٍ، وَيَنْظُرُ فِي سَوَادٍ۔
* تخريج: د/الأضاحي ۴ (۲۷۹۶)، ت/الأضاحي ۴ (۱۴۹۶)، ن/الضحایا ۱۳ (۴۳۹۵)، (تحفۃ الأشراف: ۴۲۹۷) (صحیح)
۳۱۲۸- ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ایسے مینڈھے کی قربانی کی جو سینگ دار نر تھا، اس کا منھ اور پیر کالے تھے، اور آنکھیں بھی کالی تھیں(یعنی چتکبرا تھا)۔


3129- حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ شُعَيْبٍ، أَخْبَرَنِي سَعِيدُ بْنُ عَبْدِالْعَزِيزِ، حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ مَيْسَرَةَ بْنِ حَلْبَسٍ؛ قَالَ: خَرَجْتُ مَعَ أَبِي سَعِيدٍ الزُّرَقِيِّ،صَاحِبِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ إِلَى شِرَاءِ الضَّحَايَا، قَالَ يُونُسُ: فَأَشَارَ أَبُوسَعِيدٍ إِلَى كَبْشٍ أَدْغَمَ،لَيْسَ بِالْمُرْتَفِعِ وَلاالْمُتَّضِعِ فِي جِسْمِهِ، فَقَالَ لِي: اشْتَرِ لِي هَذَا كَأَنَّهُ شَبَّهَهُ بِكَبْشِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۰۴۶، ومصباح الزجاجۃ: ۱۰۸۵) (صحیح)
۳۱۲۹- یونس بن میسرہ بن حلبس کہتے ہیں کہ میں صحابی رسول ابو سعید زرقی رضی اللہ عنہ کے سا تھ قربانی کے جانور خریدنے گیا ،تو آپ نے ایک ایسے مینڈھے کی نشاندہی کی جس کی ٹھوڑی اور کانوں میں کچھ سیاہی تھی، اور وہ جسمانی طور پر نہ زیادہ بلند تھا، نہ ہی زیادہ پست ، انہوں نے مجھ سے کہا :میرے لئے اسے خرید لو ، شاید انہو ں نے اس جانور کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مینڈھے کے مشابہ سمجھا ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : سبحان اللہ ، صحابہ کرام کا اتباع کہ قربانی کا جانور خرید نے میں بھی ویساہی جانور ڈھونڈھتے جیسا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا تھا۔


3130- حَدَّثَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ عُثْمَانَ الدِّمَشْقِيُّ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ حَدَّثَنَا أَبُوعَاءِذٍ؛ أَنَّهُ سَمِعَ سُلَيْمَ بْنَ عَامِرٍ يُحَدِّثُ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ الْبَاهِلِيِّ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: خَيْرُ الْكَفَنِ الْحُلَّةُ، وَخَيْرُ الضَّحَايَا الْكَبْشُ الأَقْرَنُ۔
* تخريج: ت/الأضاحي ۱۸ (۱۵۱۷)، (تحفۃ الأشراف: ۴۸۶۶) (ضعیف)
(سند میں ابوعائذ ضعیف راوی ہے)
۳۱۳۰- ابوامامہ باہلی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''بہتر ین کفن جوڑا (تہبند اورچادر) ہے، اور بہترین قربانی سینگ دار مینڈھاہے ''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
5- بَاب عَنْ كَمْ تُجْزِءُ الْبَدَنَةُ وَالْبَقَرَةُ ؟
۵- باب: اونٹ اور گائے کی قربانی کتنے لوگوں کی طرف سے کافی ہوگی؟​


3131- حَدَّثَنَا هَدِيَّةُ بْنُ عَبْدِالْوَهَّابِ،أَنْبَأَنَا الْفَضْلُ بْنُ مُوسَى،أَنْبَأَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ وَاقِدٍ عَنْ عِلْبَاءَ بْنِ أَحْمَرَ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ؛ قَالَ: كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ فِي سَفَرٍ، فَحَضَرَ الأَضْحَى، فَاشْتَرَكْنَا فِي الْجَزُورِ عَنْ عَشَرَةٍ، وَالْبَقَرَةِ عَنْ سَبْعَةٍ۔
* تخريج: ت/الحج ۶۶ (۹۰۵)، الأضاحي ۸ ( ۱۵۰۲)، ن/الضحایا ۱۴ (۴۳۹۷)، (تحفۃ الأشراف: ۶۱۵۸)، وقد أخرجہ: حم (۱/۲۷۵) (صحیح)
۳۱۳۱- عبدا للہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھے کہ اتنے میں عید الاضحی آگئی ، تو ہم اونٹ میں دس آدمی، اور گائے میں سات آدمی شریک ہوگئے ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : اسحاق بن راہویہ کا یہی قول ہے، لیکن اور علماء کے نزدیک اونٹ میں بھی سات آدمیوں سے زیادہ شریک نہیں ہوسکتے اور ان کی دلیل جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے جو آگے آتی ہے، وہ کہتے ہیں کہ یہ حدیث منسوخ ہے اور جابر رضی اللہ عنہ کی ناسخ، اور نسخ کی کوئی دلیل نہیں ہے ،جب تک کہ تاریخ معلوم نہ ہو ۔


3132- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّزَّاقِ عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ؛ قَالَ: نَحَرْنَا بِالْحُدَيْبِيَةِ مَعَ النَّبِيِّ ﷺ الْبَدَنَةَ عَنْ سَبْعَةٍ،وَالْبَقَرَةَ عَنْ سَبْعَةٍ۔
* تخريج: م/الحج ۶۲ (۱۳۱۸)، د/الضحایا ۷ (۲۸۰۹)، ت/الحج ۶۶ (۹۰۴)، (تحفۃ الأشراف: ۲۹۳۳)، وقد أخرجہ: ن/الضحایا ۱۵ (۴۳۹۸)، ط/الضحایا۵ (۹)، دي/الأضاحي ۵ (۱۹۹۹) (صحیح)
۳۱۳۲- جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حدیبیہ میں اونٹ کو سات آدمیوں کی طرف سے نحر کیا، اور گائے کو بھی سات آدمیوں کی طرف سے ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : سات افرادکی طرف سے اونٹ یا گائے ذبح کر نے کا یہ اصول ہدی کے جانوروں کے لیے ہے، قربانی میں ایک اونٹ دس افرادکی طرف سے جائزہے، جیساکہ حدیث رقم : (۳۱۳۱)سے واضح ہے۔


3133- حَدَّثَنَاعَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَاالْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ،حَدَّثَنَا الأَوْزَاعِيُّ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ؛ قَالَ: ذَبَحَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ عَمَّنِ اعْتَمَرَ مِنْ نِسَائِهِ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ بَقَرَةً بَيْنَهُنَّ۔
* تخريج: د/المناسک ۱۴ (۱۷۵۱)، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۳۸۶) (صحیح)
۳۱۳۳- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع میں اپنی ان ساری بیویوں کی طرف سے جنہوں نے حجۃالوداع میں عمرہ کیا تھا ،ایک ہی گائے ذبح کی ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : ایک گائے یااونٹ میں سات آدمیوں کی شرکت ہوسکتی ہے، اس حج میں آپ کے ساتھ ہی سات ازواج مطہرات رہی ہوںگی، یا بخاری ومسلم کے لفظ ''ضحّی ''(قربانی کی)سے پتہ چلتاہے کہ آپ نے بطورہدی نہیں بلکہ بطورقربانی ذبح کیا، تو پورے گھروالوں کی طرف سے ایک گائے کافی تھی۔


3134- حَدَّثَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ،حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُونٍ،عَنْ أَبِي حَاضِرٍ الأَزْدِيِّ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَلَّتِ الإِبِلُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ فَأَمَرَهُمْ أَنْ يَنْحَرُوا الْبَقَرَ۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۵۸۷۴، ومصباح الزجاجۃ: ۱۰۸۶) (صحیح)
۳۱۳۴- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں اونٹ کم ہو گئے ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں گائے ذبح کرنے کا حکم دیا۔


3135- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ السَّرْحِ الْمِصْرِيُّ،أَبُو طَاهِرٍ، أَنْبَأَنَا ابْنُ وَهْبٍ أَنْبَأَنَا يُونُسُ عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عَمْرَةَ، عَنْ عَاءِشَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ نَحَرَ عَنْ آلِ مُحَمَّدٍ ﷺ، فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ بَقَرَةً وَاحِدَةً۔
* تخريج: د/المناسک ۱۴ (۱۷۵۰)، ۲۳ (۱۷۷۸)، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۹۲۴)، وقد أخرجہ: وقد تقدم بلفظ اتم برقم (۳۰۰۰/۳۰۷۵)، خ/الحیض ۷ (۲۹۴)، الحج ۳۳ (۱۵۶۰)، ۸۱ (۱۶۵۱)، العمرۃ ۹ (۱۷۸۸)، الأضاحي ۳ (۵۵۴۸)، م/الحج ۱۷ (۱۲۱۱)، الحیض ۱ (۳۴۷)، ط/الحج ۵۸ (۱۷۹)، حم (۶/۲۴۸)، دي/المناسک ۶۲ (۱۹۴۵) (صحیح)
۳۱۳۵- ام المو منین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع میں آل محمد کی طرف سے ایک گائے کی قربانی کی ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
6- بَاب كَمْ تُجْزِءُ مِنَ الْغَنَمِ عَنِ الْبَدَنَةِ؟
۶- باب: ایک اونٹ کے بدلے کتنی بکریوں کی قربانی کافی ہوگی ؟​


3136- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَعْمَرٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَكْرٍ الْبُرْسَانِيُّ، حَدَّثَنَاابْنُ جُرَيْجٍ؛ قَالَ: قَالَ عَطَائٌ الْخُرَاسَانِيُّ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ أَتَاهُ رَجُلٌ فَقَالَ: إِنَّ عَلَيَّ بَدَنَةً، وَأَنَا مُوسِرٌ بِهَا، وَلا أَجِدُهَا فَأَشْتَرِيَهَا، فَأَمَرَهُ النَّبِيُّ ﷺ أَنْ يَبْتَاعَ سَبْعَ شِيَاهٍ فَيَذْبَحَهُنَّ۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۵۹۷۳، ومصباح الزجاجۃ: ۱۰۸۷)، وقد أخرجہ: حم (۱/۳۱۱،۳۱۲) (ضعیف)
(ابن جریج کی عطاء سے روایت میں ضعف ہے، نیز عطاء نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے نہیں سنا)
۳۱۳۶- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک شخص آیا، اوراس نے عرض کیا کہ میرے ذمہ ایک اونٹ کی(قربانی) ہے، اور میں اس کی استطاعت بھی رکھتاہوں، لیکن اونٹ دستیاب نہیں کہ میں اسے خرید سکوں،تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے سات بکریاں خریدنے اور انہیں ذبح کرنے کا حکم دیا۔


3137- حَدَّثَنَاأَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا الْمُحَارِبِيُّ وَعَبْدُالرَّحِيمِ عَنْ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، عَنْ سَعِيدِ ابْنِ مَسْرُوقٍ، و حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ، عَنْ زَائِدَةَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَبَايَةَ بْنِ رِفَاعَةَ، عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ؛ قَالَ: كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ وَنَحْنُ بِذِي الْحُلَيْفَةِ مِنْ تِهَامَةَ، فَأَصَبْنَا إِبِلا وَغَنَمًا فَعَجِلَ الْقَوْمُ، فَأَغْلَيْنَا الْقُدُورَ قَبْلَ أَنْ تُقْسَمَ فَأَتَانَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ، فَأَمَرَ بِهَا فَأُكْفِئَتْ ثُمَّ عَدَلَ الْجَزُورَ بِعَشَرَةٍ مِنَ الْغَنَمِ۔
* تخريج: خ/الشرکۃ ۳ (۲۴۸۸)، ۱۶(۲۵۰۷)، الجہاد ۱۹۱ (۳۰۷۵)، الذبائح ۱۵ (۵۴۹۸)، ۱۸ (۵۵۰۳)، ۲۳ (۵۵۰۹)، ۳۶ (۵۵۴۳)، ۳۷ (۵۵۴۴)، م/الأضاحي ۴ (۱۹۶۸)، د/الاضاحي ۱۵ (۲۸۲۱)، ت/الأحکام ۵ (۱۴۹۱) ۱۶ (۱۴۹۲)، السیر ۴۰ (۱۶۰۰)، ن/الصید والذبائح ۱۷ (۴۳۰۲)، الضحایا ۱۵ (۴۳۹۶)، ۲۶ (۴۴۱۴، ۴۴۱۵)، (تحفۃ الأشراف: ۳۵۶۱)، وقد أخرجہ: حم (۳/۴۶۳، ۴۶۴، ۴/۱۴۰، ۱۴۲) (صحیح)
۳۱۳۷- رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تہامہ کے ذوالحلیفہ نامی جگہ میں تھے ، ہم نے اونٹ اور بکریاں مال غنیمت میں پائیں ، پھر لوگوں نے ( گوشت کاٹنے میں) عجلت سے کام لیا، اور ہم نے (مال غنیمت ) کی تقسیم سے پہلے ہی ہانڈیاں چڑھادیں ، پھر ہمارے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے، اور ہانڈیوں کو الٹ دینے کا حکم دیا، تو وہ الٹ دی گئیں ،پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اونٹ کو دس بکریوں کے برابر ٹھہرایا ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : اس سے یہ نہیں معلوم ہوا کہ قربانی میں اونٹ دس بکریوں کے برابر ہے یعنی ایک اونٹ میں دس آدمی شریک ہو سکتے ہیں، یہ اسحاق بن راہویہ کا قول ہے بلکہ یہ خاص تھا اس موقع سے شاید وہاں کے اونٹ بڑے اور تیار ہوں گے، بکریاں چھوٹی ہوں گی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اونٹ کو دس بکریوں کے برابر رکھا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
7- بَاب مَا تُجْزِءُ مِنَ الأَضَاحِيِّ
۷ - باب: قربانی کے لیے کون سا جانور کافی ہے ؟​


3138- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رُمْحٍ، أَنْبَأَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ أَبِي الْخَيْرِ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍالْجُهَنِيِّ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ أَعْطَاهُ غَنَمًا، فَقَسَمَهَا عَلَى أَصْحَابِهِ ضَحَايَا، فَبَقِيَ عَتُودٌ، فَذَكَرَهُ لِرَسُولِ اللَّهِ ﷺ، فَقَالَ: " ضَحِّ بِهِ أَنْتَ "۔
* تخريج: خ/الوکالۃ ۱ (۲۳۰۰)، الشرکۃ ۱۲ (۲۵۰۰)، الأضاحي ۲ (۵۵۴۷)، ۷ (۵۵۵۵)، م/الأضاحي ۲ (۱۹۶۵)، ت/الاضاحي ۷ (۱۵۰۰)، ن/الضحایا ۱۲ (۴۳۸۴)، (تحفۃ الأشراف: ۹۹۵۵)، وقد أخرجہ: حم (۴/۱۴۹، ۱۵۲)، دي/الأضاحي ۴ (۱۹۹۱) (صحیح)
۳۱۳۸- عقبہ بن عامر جہنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بکریاں عنایت کیں ، تو انہوں نے ان کو اپنے ساتھیوں میں قربانی کے لئے تقسیم کر دیا ،ایک بکری کا بچہ بچ رہا، توانہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: '' اس کی قربانی تم کرلو '' ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : بیہقی کی روایت میں ہے کہ تمہارے بعد پھر کسی کے لیے یہ جائز نہ ہوگا ،اس کی سند صحیح ہے، جمہور علماء اور اہل حدیث کا یہی مذہب ہے کہ دانتی بکری جس کے سامنے والے نچلے دو دانت خودبخود اکھڑنے کے بعد گرکر دوبارہ نکل آئے ہوں اس سے کم عمر کی بکری کی قربانی جائز نہیں کیونکہ ابو بردہ رضی اللہ عنہ کی صحیحین میں حدیث ہے کہ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول میرے پاس بکری کاایک جذعہ ہے جس کو میں نے گھر میں پالا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :'' تم اسی کو ذبح کرد واور تمہارے سوا اور کسی کویہ کافی نہ ہوگا'' اور جذعہ وہ ہے جو ایک سال کا ہوگیا ہو، لیکن جمہور علماء اور اہل حدیث کے نزدیک بھیڑ کا جذعہ جائز ہے ، یعنی اگربھیڑایک سال کی ہوجائے تو اس کی قربانی جائز ہے،مسند احمد، اورسنن ترمذی میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً مروی ہے کہ بھیڑ کا جذعہ اچھی قربانی ہے، لیکن بکری کا جذعہ تو وہ بالاتفاق جائز نہیں ہے ،یہ امام نووی نے نقل کیا ہے خلاصہ کلام یہ ہے کہ اونٹ ، گائے اور بکر ی کی قربانی دانتے جانوروں کی جائز ہے ، اس سے کم عمروالے جانوروں کی قربانی جائز نہیں ہے ۔


3139- حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الدِّمَشْقِيُّ، حَدَّثَنَاأَنَسُ بْنُ عِيَاضٍ،حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بنُ أَبِي يَحْيَى مَوْلَى الأَسْلَمِيِّينَ، عَنْ أُمِّهِ؛ قَالَتْ: حَدَّثَتْنِي أُمُّ بِلالٍ بِنْتُ هِلالٍ عَنْ أَبِيهَا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: " يَجُوزُ الْجَذَعُ مِنَ الضَّأْنِ أُضْحِيَّةً "۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۷۳۷، ومصباح الزجاجۃ: ۱۰۸۸)، وقد أخرجہ: حم (۶/۳۶۸) (ضعیف)
(ام محمد بن أبی یحییٰ اور ام بلال دونوں مجہول ہیں، نیز ملا حظہ ہو : الضعیفہ : ۶۵)
۳۱۳۹- ہلال اسلمی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: '' بھیڑ کے ایک سا لہ بچے ۱؎ کی قربانی جائز ہے''۔
وضاحت ۱؎ : جذ عہ: بھیڑ کا بچہ جو ایک سال کا ہوجائے، ایک قول یہ ہے کہ جذعہ وہ بچہ ہے جو ایک سال سے کم ہو۔


3140- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّزَّاقِ،أَنْبَأَنَا الثَّوْرِيُّ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ،عَنْ أَبِيهِ ؛ قَالَ: كُنَّا مَعَ رَجُلٍ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ يُقَالُ لَهُ مُجَاشِعٌ مِنْ بَنِي سُلَيْمٍ، فَعَزَّتِ الْغَنَمُ، فَأَمَرَ مُنَادِيًا فَنَادَى أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ كَانَ يَقُولُ: " إِنَّ الْجَذَعَ يُوفِي مِمَّا تُوفِي مِنْهُ الثَّنِيَّةُ "۔
* تخريج: د/الاضاحي ۵ (۲۷۹۹)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۲۱۱)، وقد أخرجہ: ن/الضحایا ۱۲ (۴۳۸۹)، حم (۵/۳۶۸) (صحیح)
۳۱۴۰- کلیب کہتے ہیں کہ ہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب میں سے بنی سلیم کے مجاشع نامی ایک شخص کے ساتھ تھے، بکریوں کی قلت ہو گئی ، توانہوں نے ایک منادی کوحکم دیا، جس نے پکار کر کہاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: '' ( قربانی کے لئے) بھیڑ کا ایک سالہ بچہ دانتی بکری کی جگہ پر کافی ہے '' ۔


3141- حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ حَيَّانَ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدِاللَّهِ أَنْبَأَنَا زُهَيْرٌ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ،عَنْ جَابِرٍ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ لاتَذْبَحُوا إِلا مُسِنَّةً إِلا أَنْ يَعْسُرَ عَلَيْكُمْ، فَتَذْبَحُوا جَذَعَةً مِنَ الضَّأْنِ۔
* تخريج: م/الأضاحي ۲ (۱۹۶۲)، د/الأضاحي ۵ (۲۷۹۷)، ن/الضحایا ۱۲ (۴۳۸۳)، (تحفۃ الأشراف: ۲۷۱۵)، وقد أخرجہ: حم (۳/۳۱۲، ۳۲۷) (صحیح)
(اس سند میں ابو الزبیر مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے کی ہے اس لئے البانی صاحب نے اس پر کلام کیا ہے ، مزید بحث کے، نیز ملاحظہ ہو: ضعیف أبی داود : ۲/۳۷۴ و الضعیفہ: ۶۵ و الإرواء : ۲۱۴۵ ، وفتح الباری: ۱۰/ ۱۵)۔
۳۱۴۱- جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''صرف مسنہ ۱؎ (دانتا جانور ) ذبح کرو،البتہ جب وہ تم پر دشوار ہو تو بھیڑ کا جذعہ (ایک سالہ بچہ) ذبح کرو '' ۲؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : مسنہ: وہ جانور جس کے دودھ کے دانت ٹوٹ چکے ہوں ،یہ اونٹ میںعموماً اس وقت ہوتا ہے جب وہ پانچ برس پورے کر کے چھٹے میں داخل ہوگیا ہو، گائے بیل اور بھینس جب وہ دو برس پورے کرکے تیسرے میں داخل ہو جائیں ، بکری اور بھیڑ میں جب ایک برس پورا کر کے دوسرے میں داخل ہو جائیں، جذعہ اس دنبہ یا بھیڑ کو کہتے ہیں جو سال بھر کا ہو چکا ہو،اہل لغت اور شارحین حدیث میں محققین کا یہی قول صحیح ہے، ( دیکھئے مرعاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح)
وضاحت ۲ ؎ : جمہوکے نزدیک ایک سالہ بھیڑکی قربانی جائز ہے ، اورسلف کے ایک جماعت کے نزدیک جائز نہیں ہے ،ابن حزم نے اس کو جائز کہنے والوں کی خوب تردیدکی ہے ، ابن عمر رضی اللہ عنہما کا بھی یہی قول ہے ، جمہورنے جابرکی اس حدیث کوفضل واستحباب پر محمول کیا ہے، مگر یہ بہترہے کہ مسنہ نہ ملنے کی صورت میں ذبح کرے ، ورنہ نہیں علامہ البانی سلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ میں فرماتے ہیں کہ ایک سال کی بکری کی قربانی جائز نہیں ، اس کے برخلاف ایک سال کی بھیڑ کی قربانی صحیح احادیث کی وجہ سے کافی ہے (۶/۴۶۳) الأختیارات الفقہیۃ للإمام الألبانی (۱۶۲)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
8- بَاب مَا يُكْرَهُ أَنْ يُضَحَّى بِهِ
۸- باب: کن جانوروں کی قربانی مکروہ ہے؟​


3142- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ شُرَيْحِ بْنِ النُّعْمَانِ، عَنْ عَلِيٍّ؛ قَالَ: نَهَى رَسُولُ اللَّهِ ﷺ أَنْ يُضَحَّى بِمُقَابَلَةٍ أَوْ مُدَابَرَةٍ أَوْ شَرْقَاءَ أَوْ خَرْقَاءَ أَوْ جَدْعَاءَ۔
* تخريج: د/الأضاحي ۶ (۲۸۰۴)، ت/الاضاحي ۶ (۱۴۹۸)، ن/الضحایا ۷ (۴۳۷۷)، ۸ (۴۳۷۸)، ۹ (۴۳۷۹)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۱۲۵)، وقد أخرجہ: حم (۱/۸۰، ۱۰۸، ۱۲۸،۹ ۱۴)، دي /الأضاحي ۳ (۱۹۹۵) (ضعیف)
(اس کے راوی ابو اسحاق مختلط اورمدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے ہے، نیز ان کے شیخ شر یح سے ان کا سماع نہیں ہے اس لئے سند میں انقطاع بھی ہے ، اور شریح شبیہ المجہو ل ہیں)
۳۱۴۲- علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے جانور کی قربانی سے منع فرمایا جس کا کان آگے سے یا پیچھے سے کٹا ہو ، یا وہ پھٹا ہو یا اس میں گول سوراخ ہو، یا ناک کان اور ہونٹ میں سے کوئی عضو کٹا ہو۔


3143- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ،حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ، عَنْ حُجَيَّةَ بْنِ عَدِيٍّ، عَنْ عَلِيٍّ؛ قَالَ: أَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ أَنْ نَسْتَشْرِفَ الْعَيْنَ وَالأُذُنَ۔
* تخريج: ت/الأضاحي ۹ (۱۵۰۳)، ن/الضحایا ۱۰ (۴۳۸۱)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۰۶۴)، وقد أخرجہ: حم (۱/۹۵، ۱۰۵، ۱۲۵، ۱۳۲، ۱۵۲) (حسن صحیح)
۳۱۴۳- علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا کہ (قربانی کے جانور ) کی آنکھ اور کان غور سے دیکھ لیں (آیا وہ سلامت ہیں یا نہیں ) ۔


3144- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، وَمُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، وَعَبْدُالرَّحْمَنِ، وَأَبُودَاوُدَ، وَابْنُ أَبِي عَدِيٍّ، وَأَبُوالْوَلِيدِ،قَالُوا: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، سَمِعْتُ سُلَيْمَانَ بْنَ عَبْدِالرَّحْمَنِ،قَالَ: سَمِعْتُ عُبَيْدَ بْنَ فَيْرُوزَ؛ قَالَ: قُلْتُ لِلْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ حَدِّثْنِي بِمَا كَرِهَ أَوْ نَهَى عَنْهُ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ مِنَ الأَضَاحِيِّ، فَقَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ، هَكَذَا بِيَدِهِ، وَيَدِي أَقْصَرُ مِنْ يَدِهِ " أَرْبَعٌ لا تُجْزِءُ فِي الأَضَاحِيِّ: الْعَوْرَاءُ الْبَيِّنُ عَوَرُهَا، وَالْمَرِيضَةُ الْبَيِّنُ مَرَضُهَا،وَالْعَرْجَاءُ الْبَيِّنُ ظَلْعُهَا،وَالْكَسِيرَةُ الَّتِي لا تُنْقِي "، قَالَ: فَإِنِّي أَكْرَهُ أَنْ يَكُونَ نَقْصٌ فِي الأُذُنِ،قَالَ: فَمَاكَرِهْتَ مِنْهُ فَدَعْهُ، وَلاتُحَرِّمْهُ عَلَىأَحَدٍ۔
* تخريج: د/الأضاحي ۶ (۲۸۰۲)، ت/الأضاحي ۵ (۱۴۹۷)، ن/الضحایا ۴ (۴۳۷۴)، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۹۰)، وقد أخرجہ: ط/الضحایا ۱ (۱)، حم (۴/۲۸۴، ۲۸۹، ۳۰۰، ۳۰۱)، دي/الأضاحي ۳ (۱۹۹۲) (صحیح)
۳۱۴۴- عبید بن فیروز کہتے ہیں کہ میں نے براء بن عازب رضی اللہ عنہما سے عرض کیا: مجھ سے قربانی کے ان جانوروں کو بیان کیجیے جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ناپسند فرما یا، یا منع کیا ہے ؟ تو براء بن عازب رضی اللہ عنہما نے کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے اس طرح اشارہ کرتے ہوئے( جب کہ میرا ہاتھ آپ کے ہاتھ سے چھوٹا ہے ) فرمایا: '' چار قسم کے جانوروں کی قربانی درست نہیں : ایک کانا جس کا کانا پن واضح ہو ، دوسرے بیمارجس کی بیماری عیاں اور ظاہر ہو ، تیسرے لنگڑا جس کالنگڑا پن نمایاں ہو، چوتھا ایسا لاغر اور دبلا پتلا جس کی ہڈیوں میں گودا نہ ہو'' ۱؎ ۔
عبید نے کہا: میں اس جانور کو بھی مکروہ جانتا ہوں جس کے کان میں نقص ہو تو براء رضی اللہ عنہ نے کہا : ''جسے تم ناپسند کرو اسے چھوڑدو، لیکن دوسروں پر اُسے حرام نہ کرو '' ۔
وضاحت ۱ ؎ : امام ترمذی فرماتے ہیں کہ اہل علم کا اس حدیث پرعمل ہے کہ جس قربانی میں یہ چاروں عیب ہوں ان کی قربانی جائز نہیں ہے۔


3145- حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ مَسْعَدَةَ، حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ الْحَارِثِ، حَدَّثَنَا سَعِيدٌ عَنْ قَتَادَةَ؛ أَنَّهُ ذَكَرَ أَنَّهُ سَمِعَ جُرَيَّ بْنَ كُلَيْبٍ يُحَدِّثُ؛ أَنَّهُ سَمِعَ عَلِيًّا يُحَدِّثُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ نَهَى أَنْ يُضَحَّى بِأَعْضَبِ الْقَرْنِ وَالأُذُنِ۔
* تخريج: د/الأضاحي ۶ (۲۸۰۵)، ت/الأضاحي ۹ (۱۵۰۴)، ن/الضحایا ۱۱ (۴۳۸۲)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۰۳۱)، وقد أخرجہ: حم (۱/۸۳، ۱۰۱، ۱۰۹، ۱۲۷، ۱۲۹،۱۵۰) (ضعیف)
(جری بن کلیب کی وجہ سے یہ سند ضعیف ہے،نیز ملاحظہ ہو : الإرواء : ۱۱۴۹)
۳۱۴۵- علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سینگ ٹوٹے اور کن کٹے جانور کی قربانی سے منع فرمایاہے ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : لیکن منڈا یعنی جس جانور کی سینگ اگی نہ ہو اس کی قربانی جائز ہے، اسی طرح اگر کان آدھا سے کم کٹا ہو تو امام ابوحنیفہ نے اس کو جائز کہاہے، لیکن حدیث مطلق ہے، اور حدیث کی اتباع بہتر ہے ،اور احمد ، ابوداود، حاکم اور بخاری نے تاریخ میں تخریج کی ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے منع کیا مصفرہ (جس کا کان کاٹا گیا ہو) سے اور مستاصلہ (جس کی سینگ ٹوٹی ہو ) سے اور بخقاء سے (جس کی آنکھ میں نقش ہو) اور مشعیہ سے (جو اور بکریوں کے ساتھ چل نہ سکے کمزوری اور لاغری سے) اور کسیرہ سے ( جس کی ہڈیوں میں مغز نہ رہا ہو)۔
 
Top