• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن ابن ماجه

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
حدیث نبوی پر اسلا میان ہند کی توجہ

اس تحریرکے آغاز میں '' جہود مخلصہ '' نامی کتاب کا ذکر آچکا ہے ، میں ایک بار پھر قارئین کو اسی کتاب کے پانچویں اور چھٹے باب کی طرف لے جانا چاہتا ہوں تاکہ اندازہ ہو سکے کہ شاوہ ولی اللہ دہلوی رحمہ اللہ کے تجدیدی کارناموں کے نتیجہ میں خدمت حدیث کے جو دو مکتب فکر قائم ہوئے ان کا کام ،اسلوب اور نوعیت کیا تھی، یہ جائز ہ اس لئے ضروری محسوس ہورہا ہے کہ اس سے دارالدعوۃ کے اس منصوبہ کی اہمیت کا اندازہ ہوگاجو اس نے کتب حدیث نبوی کے ترجمہ وتشریح سے متعلق شروع کررکھا ہے۔
جہود مخلصہ کے مذکورہ دونوں باب اس پہلو سے اہم ہیں کہ ان کے ذریعہ ہمیں ہندوستان میں علم حدیث کی تاریخ کے سب سے اہم اور سنہرے دور کا علم ہو جاتا ہے، اور بنیادی طور پر ان فکری و مسلکی رجحانات سے واقفیت ہو جاتی ہے، جن کا خدمت حدیث میں نمایا ں اثر رہاہے۔
پانچواں باب صفحہ ۹۱ سے شروع ہو کر صفحہ ۲۱۸پر ختم ہوتا ہے، اس بات کی تمہید میں مصنف نے تیرہویں صدی ہجری کے اواخر کو سنت نبویہ شریفہ کی نشأۃ ثانیہ کا نقطئہ آغاز مانا ہے، اور لکھا ہے کہ اس عہد میں سلفی مکتب فکر کے علمائے اعلام نے شاہ اسماعیل کی فکر ومنہج سے متاثر ہو کر علم حدیث کی قابل ذکر خدمت انجام دی ، موصوف نے اس سلسلہ میں نواب صدیق حسن قنوجی اور ان کے خاندان کے بعض لوگوں کا نام لیا ہے، اور نواب صاحب کی ان مساعی محمود ہ کی طرف اشارہ کیا ہے جن کی خدمت میں آپ نے ا پنی زندگی کو وقف کردیا اور دوسو سے زائد کتابین تصنیف کیں ، اہم کتابوں کو بصرف زرکثیر ہند و بیرون ہند میں شائع کرایا ، کتاب و سنت پر دستگاہ رکھنے والے علمائے کے لئے وظائف جاری کئے ، مدارس کے قیام و تنظیم پر تو جہ فرمائی اور حدیث شریف کے حفظ ومطالعہ پر گر انقدر انعامات مقرر کئے ۔رحمہ اللہ۔
نواب علیہ الرحمۃ کے بعد شیخ الکل سید نذیرحسین محدث دہلوی رحمہ اللہ اور ان کے مدرسہ کا ذکر کیا ہے، برصغیر ہی میں نہیں بلکہ باہربھی اشاعت حدیث اور دعوت عمل بالکتاب و السنۃ کے باب میں اس مدرسہ کو بڑی اہمیت حاصل ہے، اس کی مثال اس پہلو سے کہیں اور نہیں ملتی کہ شیخ الکل نے نصف صدی سے زیادہ تک اپنے مدرسہ کو منہج سلف کے مطابق کتاب وسنت کی تدریس کا مرکز بنا یا ، اور آپ کے تلامذہ کے ذریعہ ایسا خوشگوار انقلاب آیا کہ قال اللہ و قال الرسول کی صدائیں ہندوستان میں ہر طرف گو نجنے لگیں، اس باب میں مصنف نے سید نذیر حسین رحمہ اللہ کے تلامذہ اور ان کے تلامذہ کے مختصر حالات ذکر کئے ہیں جن سے سنت شریفہ کی خدمت کے باب میں ان حضرات کی مساعی جمیلہ کا اندازہ ہوتا ہے، اللہ تعالی نے ان مساعی میں برکت عطاء فرمائی تو آج تک حدیث پر عمل کے رجحان کو ترقی ہی مل رہی ہے۔
جہود مخلصہ کا چھٹاباب ص ۲۱۹ سے شروع ہو ۲۴۹پر ختم ہوتا ہے، اس میں علمائے احناف کی خدمت کا تذکرہ ہے، یہ مکتب فکر بواسطہ شیخ عبد الغنی مجددی ،عن شاہ محمد اسحاق عن شاہ عبد العزیز ، شاہ ولی اللہ دہلوی سے مل جاتا ہے، اسی لئے مصنف نے اس مدرسہ کے بعض اہم علماء کا تذکرہ کیاہے اور بتایا ہے کہ بعد کے دور میں دیوبند کے بعض علماء علامہ زاہد کوثری مصری کے نقطہ نظر سے متاثر ہوگئے ، اور حدیث دشمنی کے رجحان کو فروغملا، اسی طرح مصنف نے یہ بھی واضح کیا کہ علمائے احناف کی وضاحت کے مطابق ان کی خدمت حدیث کا محور حنفی مذہب کی تائید تھا، کتب حدیث کی شرح کے سلسلہ میں ان علماء نے جو کام کئے ہیں ان میں مذکورہ مقصد واضح ہے، البتہ اوائل علمائے احناف کے یہاں خدمت کا یہ رجحان نہ تھا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
امام ابن ماجہ (۲۰۹-۲۷۳ھ)

ابو عبد اللہ کنیت ،محمد بن یزید بن عبد اللہ نام ہے، نسبت میں '' ربعی''بالولاء اور ''قزوینی'' لکھا جاتا ہے، محدثین اور رواۃ کے نام و نسب اور دیگر حالات سے متعلق تدقیق و تنقیح کے لئے فن حدیث معروف ہے، لہذا ابن ماجہ کے سلسلہ میں بھی سوال پیدا ہوا کہ یہ لفظ موصوف کے دادا کا لقب ہے یا باپ کا یا ان کی ماں کا نام ہے؟ شاہ عبد العزیز دہلوی او ر نواب صدیق حسن بخاری اسے ماں کا نام قرار دیتے ہیں جب کہ امام رافعی نے التدوین فی اخبار قزوین (۲/۴۹)میں اسے ابن ماجہ کے والد یزید کا لقب مانا ہے، تاج العروس شرح قاموس (۲/۱۰۲)میں بھی یہی بات درج ہے اور معاصر تحقیق سے بھی اسی کی تائید ہوتی ہے، اس مقام پر '' ماجہ'' کے سلسلہ میں یہ تو ضیح ضروری ہے کہ اس لفظ میں میم مفتوح ہے اور جیم پر تشدید نہیں ، آخری ہاء ساکن ہے، تاء مربوطہ نہیں لکھنے میں طلبہ اس کا لحاظ نہیں کرتے اور تاء مربوطۃ سے لکھ دیتے ہیں۔
ابن ماجہ کو الحافظ ، الحجۃ اور المفسر وغیرہ توصیفی الفاظ سے یاد کیا گیا ہے، اس سے اصحاب فن حدیث کی نظر میں ان کے بلندعلمی مرتبہ کا انداز ہ ہوتا ہے۔
'' ربعی'' نسب کے سلسلہ میں علامہ ابن خلکان نے قبیلہ کا تعین نہیں کیا ہے،لیکن امام جزری نے وضاحت کی ہے کہ یہ نسبت ربیع بن نزار اور ربیعہ الازد کی طرف ہے۔
''قزوینی'' نسبت قزوین کی طرف ہے، جو عراق عجم کا سب سے مشہور شہر ہے، سمعانی نے لکھا ہے کہ ''اصبہان'' کے نام سے معروف شہروں میں ایک شہر قزوین بھی ہے،متحدہ روس کے زوال کے بعد اس علاقہ کی اہمیت میں اضافہ ہوگیا ہے، اقتصاد وسیا ست کے مسائل تو ضرور ابھر ے ہیں، لیکن علوم اسلامیہ کی سابقہ گرم بازاری ابھی تک نہیں آئی ، اللہ کرے علوم دینیہ کے عروج کی بادبہاری ایک بار پھر علاقہ کا نصیب بن جائے ۔
محدثین کرام کے حالات میں سفر کا ذکر ضرور ملتا ہے ، سفر کو وسیلہ ظفر کہا گیا ہے، محدثین کا مقصود و مدعا حدیث شریف تھا،اسی کے لئے انہوں نے سفرکی صعو بتیں برداشت کیں، اس دور کا سفر آج کی طرح نہ تھا،مشقتیں بہت تھیں،وقت بہت زیادہ لگتا تھا پھربھی اللہ تعالی کے ان مخلص بندوں نے خدمت حدیث کی راہ میں سب کچھ گوارا کیا، محدثین کی عظمت و صداقت کے لئے یہ اسفار دلیل تھے کہ اللہ تعالی کے بندے دنیا کے کسی فائدہ اور آرام کے لئے نہیں بلکہ احکام شریعت کے ایک سرچشمہ (حدیث)سے استفادہ اور اس کے تحفظ کے لئے دردر کی خاک چھانتے رہے ، مقصود ان کا یہی تھا کہ سنت شریفہ کو سیکھیں ، اور دوسروں کو سکھا ئیں تا کہ شاعت علم دین کی جو ذمہ داری ان کے کندھوں پر ہے وہ ادا ہو۔
امام ابن ماجہ کے اسفار پر بھی اسی پہلو سے نظر ڈالئے ، حدیث کی طلب او رتعلیم کا فریضہ وطن میں رہ کر ادا نہیں ہوسکتا تھا، لہذا موصوف نے بصرہ ، کوفہ، بغداد ،مکہ ، شام ،مصر اور رے وغیرہ ممالک کا سفر کیا اور اپنے شیوخ سے جن کی تعداد بہت زیادہ ہے حدیث کا علم حاصل کیا ، جن ملکوں کے نام ہم نے کاغذکی ایک سطر پر لکھ دیا ہے، جغرافیہ کے لحاظ سے ابن ماجہ کے وطن سے ان کے فاصلہ پر غور کیجئے تو اندازہ ہو گا کہ علم کی کون سی تڑپ اور خدمت دین کاکون سا جذبہ تھاجو ان نفوس صالحہ کو دور دراز علاقوں میں پہنچا دیتا تھا، علامہ حالی نے کیا خوب کہا ہے۔
اسی دھن میں آساں کیا ہرسفر کو​
اسی شوق میں طے کیا بحروبر کو​
سنا خازن علم دیں جس بشر کو​
لیا اس سے جا کر خبر اور اثر کو​
محدثین کے زمرہ سعید ہ میں داخل ہو جانے کے بعد انسان کی فضیلت ثابت ہو جاتی ہے، اصحاب تراجم نے ابن ماجہ کے لئے مذکورہ خوبی کے علاوہ دیگر محاسن کا بھی ذکر کیا ہے، امام ابن کثیر نے البدایۃ و النہایۃ (۱۱/۵۲)میں ''صاحب السنن المشہورۃ '' کے لقب سے یاد کیا ہے اور اس کتاب کو ابن ماجہ کے علم ، عمل تبحر ، اطلاع اور اصول وفروع میں سنت شریفہ کے اتباع کی دلیل قرار دیا ہے، اما م ذہبی نے تذکرۃ الحفاظ اور العبر دونوں مأخذ میں ابن ماجہ کو سنت ،تفسیر اور تاریخ کا مصنف بتا یا ہے، دوسرے تذکرہ نگاروں نے بھی ابن ماجہ کی علوم حدیث ، تفسیر اور تاریخ میں مہارت کو ذکر کیا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
سنن ابن ماجہ

امام ابن ماجہ کے تمام سوانح نگاروں نے فن تفسیر ، حدیث اور تارخ میں ان کی سرگرمیوں کی جانب اشارہ کیا ہے، نواب صدیق حسن رحمہ اللہ نے فتح البیان کے مقدمہ میں طبقہء صحابہ وتابعین کے قدیم مفسرین کا ذکر کیا ہے، پھر ان اہل تصنیف مفسرین کا جن کی تفسیروں میں صحابہ و تابعین کے اقوال موجود ہیں اور اس کے بعد کے طبقہ میں عبد الرزاق ، ابن جریر ، اور ابن ابی حاتم وغیرہ کے ساتھ ابن ماجہ کا بھی نام موجود ہے۔
حافظ ابن طاہر مقدسی نے شروط الائمۃ الستہ (ص۱۹)میں بصراحت لکھا ہے کہ قزوین میں میں نے ابن ماجہ کی ایک کتاب دیکھی جس میں موصوف نے عہد صحابہ سے اپنے دور تک کے رجال اور متعلقہ شہروں کا ذکر کیا تھا، اس کتاب کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے کرسکتے ہیں کہ ابن خلکان مذکورہ کتاب کے وصف میں ''ملیح'' اور ابن کثیر نے '' کامل'' کے الفاظ استعمال کئے ہیں۔
تفسیر و تاریخ کے موضوع پر ابن ماجہ کی خدمات مسلم ہیں،لیکن ان کا وہ کارنامہ جس نے انہیںزمرہ محدثین میں ممتاز بنایا ان کی کتاب '' السنن'' ہے، کتب حدیث میں جن چھ کتابوں کو ''اصول ستہ'' کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے اور مدارس میں ان کی تدریس پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے ان میں سنن ابن ماجہ بھی ہے، یہ بہت زیادہ عزت اور غایت درجہ شرف کی بات ہے کہ علم وبصیرت اور صلاح وتقوی کے درجہ علیا پر فائز محدثین ان کی کتاب کو '' اصول و امہات''سے شمار کریں۔
سنن کے بارے میں مشاہیرمحدثین کا تاثر عمدہ ہے، امام رافعی نے لکھا ہے کہ حفاظ حدیث ابن ماجہ کی سنن کو صحیحین،سنن ابی داود اور سنن نسائی کے ساتھ رکھتے ہیں، امام ذہبی کے بیان کے مطابق ابن ماجہ نے اپنی کتاب کو امام ابوزرعہ رازی کے سامنے پیش کیا تو انہوں نے اس کا درجہ اکثر جوامع سے برتر بتایا ، صرف تیس حدیثوں کی اسناد کے سلسلے میں ضعف وغیرہ کی بات کہی ،امام ذہبی نے تذکرہ (۲۳۶۲) میں ابن ماجہ کی اس کتاب کے بارے میں لکھا ہے کہ اگر اس میں کمزور حدیثیں نہ ہو تیں ، جو زیادہ نہیں ہیں، تو یہ ایک اچھی کتاب ہے، حافظ ابن کثیر نے الباعث الحثیث میں اسے ایک مفید اورفقہی لحاظ سے '' قوی تبویب'' والی کتاب قرار دیا ہے، حافظ ابن حجر نے تہذیب میں سنن کو ضعیف حدیثوں کی طرف اشارہ کے باوجود جامع اور عمدہ ابواب والی کتاب بتا یا ہے۔
اشخاص کے مرتبہ کے تعین میں جس طرح اصحاب نظر کے درمیان اختلاف ہوتا ہے، اسی طرح کتابوں کی درجہ بندی میں بھی آراء مختلف ہوتی ہیں، لیکن یہ معاملہ بڑی حد تک فنی ہے، عوام او ر متوسط طبقہ کے لوگوں کے پیش نظر افادہ واستفادہ کا پہلو ہوتا ہے، اور ان کے لئے یہی اہم ہے،امام ابن ماجہ کی السنن کو اصول ستہ میں شامل کرنے کے سلسلہ میں قدرے اختلاف ہے، بعض لوگوں نے امام مالک کی موطأ کو اور بعض نے سنن دارمی کو '' چھٹی کتاب '' کا درجہ دیا ہے، لیکن بعد کے ادوار میں علماء نے سنن ابن ماجہ ہی کو چھٹی کتاب کا درجہ دیا ہے۔
اما م ابن ماجہ کی '' السنن'' کا جو مختصر تعارف سابقہ سطور میں پیش کیا گیا ، اس سے اہل علم کی نظر میں اس کتاب کی اہمیت کا اندازہ ہو جاتا ہے، اس کتاب کی اہمیت وافادیت کا ایک اور ثبوت اس کی شرح و تعلیق پر علمائے حدیث کی توجہ ہے، تذکرہ نگاروں نے اس کتاب کی سولہ شرحوں کا ذکر کیا ہے، جن میں سے بعض پانچ جلدوں میں اور بعض آٹھ جلدوں میں ہیں، ہم بنظر اختصار صرف ان شروح کے نام ذکر کردیتے ہیں: الإ علام بسنة عليه السلام ، ما تمس اليه الحاجة الى سنن ابن ماجه، الديباجة مصباح الزجاجة على سنن ابن ماجه، انجاح، الحاجة في شرح ابن ماجه، مفتاح الحاجة بشرح سنن ابن ماجة، ما تدعواليه الحاجة على سنن ابن ماجة، رفع العجاجة عن سنن ابن ماجة، مصباح الزجاجة في زوائد ابن ماجه على الكتب الخمسة، المجرد في أسماء رجال سنن ابن ماجة، حاشية الكنكو هي، تعليق سبط ابن العجمى، شرح ابن ماجه، أنجاز الحاجة بشرح سنن ابن ماجة.
ان شارحین کے سنین وفات پرنظر ڈالنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کاتعلق آٹھویں صدی ہجری سے پندرہویں صدی ہجری کے آغاز تک سے ہے، تقریباً آٹھ صدیوں میں علماء حدیث نے اس کتاب کی اس طرح کی خدمت کی ، تیسری صدی سے جو کتاب کازمانہ تالیف ہے، ساتویں صدی تک کا حال معلوم نہیں ، لیکن یہ یقین ہے کہ امام ابن ماجہ نے اپنی کتاب کا درس طلبہ کے جم غفیر کو دیا ہے، جیسا کہ امام کے تذکرہ میں موجود ہے، کسی کتاب کی اس درجہ مقبولیت یقینا اس کی فنی عظمت کا ثبوت ہے، محدثین کے تمام کاموں کو اسی طرح مقبولیت حاصل ہوئی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
تقریظ علی سنن ابن ماجہ

(اردو ترجمہ مع تصحیح وتحسین وتضعیف)

از- مولانا محمدرئیس ندوی حفظہ اللہ
شیخ الحدیث جامعہ سلفیہ، بنارس
الحمد للہ رب العالمین، والصلاۃ والسلام علی جمیع الأنبیاء والمرسلین خصوصاً علی محمد سید المرسلین وخاتم النبیین ورحمۃ للعالمین، وعلی أہل بیتہ وآلہ وأتباعہ إلی یوم الدین، أما بعد:
ہندوستان کی راجدھانی دہلی میں دار الدعوۃ کے نام سے ایک کثیر المقاصد مناسب ادارہ قائم کرنے کی بات جامعہ سلفیہ بنارس کے ایک بیدار مغز اور ہوش مندفاضل ڈاکٹر شیخ عبد الرحمن بن عبدالجبار فریوائی کے ذہن میں آئی، ڈاکٹر عبد الرحمن فریوائی موصوف جامعہ سلفیہ بنارس سے فراغت کے بعد جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں سالوں تک تحصیل علم میں حسب عادت پوری تندہی سے مصروف رہے اور شریعت کالج سے لیسانس (بی، اے) اور شعبہ دراسات علیاء سے علوم حدیث میں ماجستیر(ایم، اے) اور ڈاکٹریٹ کی ڈگریاں حاصل کیں، اورچار سال جامعہ سلفیہ میں درس وتدریس کے بعد سعودی عرب کی راجدھانی میں واقع مشہور اسلامک یونیورسٹی جامعۃ الإمام محمد بن سعود الاسلامیہ میں علوم حدیث کے پروفیسر ہوئے، جامعۃ الإمام محمد بن سعود ریاض میں تدریس وتعلیم کی ذمہ داری سنبھا لتے ہوئے، موصوف خارجی اوقات میں تصنیف وتالیف وتحقیق کا کام کرتے رہے، اب تک شائع ہونے والی ان کی تمام تالیفات ، تحقیق وتعلیق وتحشیہ عربی زبان میں ہوتی رہی ہیں اور اب ان کی توجہ اردو میںبھی علمی ،تحقیقی اور غیر عربی داں اردو خواں لوگوں کی علمی پیاس بجھانے کے لیے مبذول ہوئی ، کسی بھی ادارہ کو قائم کرنے کے لیے معقول ومناسب جگہ کا انتخاب بڑی اہم چیز ہوتی ہے، اس کے لیے موصوف کے ذہن میں ہندوستان کی راجدھانی نئی دہلی میں اس ادارہ کے قیام کی بات آ ئی، اگست ۱۹۹۷ ء میں (برصغیر میں اسلام کا صحیح تعارف) کے عنوان سے ایک حوصلہ افزا سیمینار منعقد کیا جس میں بہت سارے مخلص علماء کرام شریک ہوئے اور اس نظریہ ومنصوبہ کو سبھی لوگوں نے پسند کیا ۔ اس ادارہ کے منصوبوں میں اردو ’’حدیث انسائیکلوپیڈیا‘‘ بھی شامل ہے ، بلکہ اسی کو اولیت کا مقام حاصل ہے ،حدیث انسائیکلوپیڈیا میں آٹھ کتب حدیث کا انتخاب کیا گیا : صحیح بخاری، صحیح مسلم، سنن ابی داود، موطا امام مالک ، سنن نسائی ، سنن ترمذی ، سنن ابن ماجہ اور سنن دارمی ،اس مہتم بالشان ادارہ کا یہ پہلا منصوبہ ہے ، پھر خدمت حدیث اور اسلامیات کے موضوع پر دوسرے کام ہوں گے ان شاء اللہ، سب سے پہلے سنن ابن ماجہ پر منصوبہ کے مطابق کام شروع ہوا اور بحمد اللہ وفضلہ یہ کام مکمل بھی ہوا مگر مختلف وجوہ سے سب سے پہلے سنن ابی داود کی طباعت واشاعت عمل میں آئی، آٹھ کتب حدیث کا یہ انتخاب بالکل ابتدائی مرحلہ کی بات ہے ، ورنہ بہت ساری کتب حدیث پر اس طرح کا کام بھی ا ن شاء اللہ تعالیٰ ہوگا اور اس کے تمام منصوبوں اور شعبوں کو عملی جامہ پہنانے کا عزم مصمم ہے، اللہ تعالی ان منصوبوں کو بأحسن وجوہ پورا کرے اور ہندوستان وغیر ہندوستان کا اردو داں طبقہ اس سے معنوی اور ظاہری طور پر زیادہ سے زیادہ مستفید ہوسکے، افسوس یہ ہے کہ اردو زبان جس ملک کی پیداوار ہے اسی ملک سے اسے مٹادینے کی ظالمانہ کوشش جاری ہے اور اسے ملک کے حکمراں طبقہ نے بزعم خویش مٹادیا ہے ، ہندوستانی مسلمانوں کی دینی وثقافتی زبان کو مٹانے کے لیے سرگرم کوشش کرنے والی حکومتوں نے اسے صرف مسلمانوں کی زبان سمجھ رکھا ہے جبکہ یہ زبان مسلم وغیرمسلم سب میں یکساں مقبول ومروج رہی ہے ،اور پوری دنیا کے اسلامی اور غیر اسلامی ممالک میں بھی پڑھی، لکھی اور سمجھی وبولی جاتی ہے ، حیرت کی بات تویہ ہے کہ اکثر مسلمانوں نے بھی اردو زبان سے منہ موڑ لیا ہے، پھر بھی ملک کے اسلامی مدارس اور اداروں نے اسے کسی قدر زندہ کر رکھا ہے اور اسی کو ذریعہ تعلیم بنا رکھا ہے ، ہاں دوسرے ممالک میں اس کی ترقی ہوتی جارہی ہے، اس صورت حال کو بھی دار الدعوۃ نے پیش نظر رکھا ہے اور کتب احادیث اور دوسری دینی وعلمی کتابوں کو ہندی زبان میں منتقل کرنے کا عزم مصمم کررکھا ہے تاکہ ہندی داں طبقہ خصوصاً غیر مسلموں میں بھی یہ کتابیں مروج ہوں اور پڑھی لکھی جائیں ، ہمارے خاتم النبیین محمد رسول اللہ ﷺ مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئے اور آپ ﷺ کی بولی عربی تھی ، چونکہ یہ دین اسلام پوری دنیا کے لیے ہمارے رسول محمد ﷺ کے ذریعہ آیا مگر چونکہ پوری دنیا میں عربی زبان کے علاوہ متعدد زبانیں رائج ہیں اور حدیث نبوی میں علمائے دین کو انبیاء کرام کا وارث قرار دیا گیا ہے اور علمائے دین دنیا کے تمام اطراف وجوانب میں پھیلے ہوئے ہیں جو اپنے اپنے ملک کی زبان اور عربی زبان سے بھی بخوبی واقف ہیں، اس لیے دین اسلام کے تحفظ اوراشاعت وترویج کی ذمہ داری تمام ملکوں کے علمائے کرام پر ہے، فرمان نبوی ہے: “إنَّ العلماء ورثة الأنبياء وأنّهم لم يورثوا ديناراً ولا درهماً، وإنما ورثوا العلم، فمن أخذه أخذ بحظ وافر” (مسند أحمد، سنن ترمذي، سنن ابن ماجه، سنن دارمي، صحيح ابن حبان، وصحيح سنن أبي داود للألباني) اس لیے ہمارے آخری نبی جناب محمد رسول اللہ ﷺ کے ارشادکے مطابق علمائے کرام میں سے ہر ایک پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے اپنے ملک میں تمام انبیاء کرام علیہم الصلاۃ والسلام کی سنت پرعمل کرتے ہوئے اپنے اس فریضہ سے عہدہ برآ ہوں، کیونکہ اللہ تعالی نے ہر ملک میں اپنے نبی ورسول بھیجے کہ وہ اپنی قوم کی زبان میں علوم دین کی ترویج واشاعت کریں اور اس معاملہ میں آنے والے سارے مصائب ومشکلات کے باوجود اپنی سکت بھر تبلیغ واشاعت دین کا کام کرتے رہیں، اس فرمان نبوی کا تقاضا ہے نیز اس مفہوم کی آیات قرآنیہ کا اشارہ ہے کہ پوری دنیا کے ہر ہر ملک میں وہاں کی زبان میں تقریری وتحریری طور پر اسلام کی تبلیغ واشاعت کی جائے، اور اللہ تعالی کا فضل وکرم ہے کہ یہ کام خصوصیت کے ساتھ جامعہ سلفیہ بنارس اور اس طرح کے دوسرے اداروں کے فارغین اپنی استطاعت بھر کررہے ہیں ، مگر ضرورت ہے کہ اشاعت علوم دین کے وسائل بقدر ضرورت مہیا کئے جائیں اور یہ کام بھی علمائے کرام پر خصوصاً اور عامۃ المسلمین پر عموماً فرض ہے تاکہ تیزرفتاری کے ساتھ یہ کام ہو سکے ۔
ہم اپنے سامنے دار الدعوۃ کی پہلی پیش کش سنن ابی داود عربی متن مع اردو ترجمہ وتخریج وتحشیہ دیکھ کرخوشی ومسرت محسوس کررہے ہیں کہ اپنے قیام کے صرف ڈیڑھ سال کے اندر یہ کام پورا ہوگیا ،اس وقت قارئین کرام کے ہاتھ میں سنن ابن ماجہ کا نسخہ ہے، ہماری خواہش ودعاء ہے کہ اس منصوبہ کی تکمیل مزید تیز رفتاری سے ہو ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
امام ابن ماجہ اور آپ کی سنن کاتعارف

حضرت الامام العلام نواب صدیق حسن نے صحیحین وسنن اربعہ کو صحاح ستہ کہا ہے ، جیسا کہ ان کی کتاب الحطہ بذکر الصحاح الستہ سے ظاہر ہے، اور ان کے پہلے بھی بہت سارے اہل علم بھی ایسا ہی کرتے آئے ہیں، اس میں شک نہیں کہ سنن اربعہ میںبعض غیر صحیح احادیث بھی ہیں،لیکن حکم الاکثر حکم الکل کے مطابق اہل علم نے ان چھ کتب حدیث کو اگر صحاح ستہ کہہ دیا تو '' لا مشاحة في الإصلاح'' کے مطابق اس پر رد وقدح کی ضرورت نہیں، عام اہل علم نے امام ابن ماجہ کی کتاب سنن ابن ماجہ کو صحاح ستہ میں داخل مانا ہے اور یہ بات بذات خود امام ابن ماجہ کی عظمت وسربلندی کی دلیل ہے ۔
جس زمانہ میں امام ابن ماجہ قزوینی سن شعور کو پہنچے اس زمانہ میں ان کا وطن مالوف قزوین علوم وفنون خصوصاً علوم حدیث کا اچھا خاصا مرکز بن چکا تھا اور وہاں علوم حدیث کی متعدد درسگاہیں موجود تھیں ، امام ابن ماجہ نے پہلے علوم اوائل اپنے آبائی شہر میں پڑھا پھر وہیں کے حلقہ ہائے علوم حدیث میں داخل ہو کر علوم حدیث پڑھا، قزوینی درسگاہ علوم حدیث میں سے امام ابن ماجہ نے علی بن محمد طنافسی ، امام عمرو بن رافع ابو حجر بجلی، اسماعیل بن توبہ ابو سہل قزوینی، وہارون بن موسی بن حیان تمیمی، وغیرہم سے علوم حدیث حاصل کیا ، ان قزوینی اساتذہ حدیث سے کئی احادیث سنن ابن ماجہ میں منقول ہیں، جیسا کہ سنن کے مطالعہ اور امام ابن ماجہ کے اساتذہ حدیث کی فہرست سے معلوم ہوتا ہے ، اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے اوائل عمر ہی میں اپنے وطن عزیز میں اچھے خاصے صاحب علم اور محدث بن چکے تھے ، مگر اس زمانہ کا دستور تھا کہ اپنے وطن کے اساتذہ ومشایخ سے پڑھ چکنے کے بعد حوصلہ مند اشخاص مزید حصول علم کی خاطر متعدد مشہور درسگاہوں میں پڑھنے چلے جاتے تھے، چنانچہ ابن ماجہ نے بھی یہی کام کیا، اور طلب علوم کے لیے مکہ معظمہ ومدینہ منورہ ، کوفہ وبغداد ومصر وشام وغیرہ کا سفر کیا اور ان سارے مقامات کے مشہور ومعروف اساتذہ احادیث کی درسگاہوں میں پڑھا اور جب موصوف علوم حدیث میں پختہ کار ہوگئے تو انہوں نے اپنی کتاب حدیث ''سنن ابن ماجہ'' لکھی اور موصوف نے اس کے علاوہ دوسری کتاب ''السنہ'' لکھی اور ایک کتاب تفسیر قرآن مجید پر لکھی ، نیز تاریخ کی عمدہ کتاب بھی لکھی، اور ہوسکتا ہے کہ ان کتابوں کے علاوہ بھی مزید کتب علوم لکھی ہوں اور موصوف کی فہرست اساتذہ کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ بہت بڑے بڑے محدثین سے انہوں نے کسب علوم کیا ۔
پھر وہ وقت بھی آیا کہ امام ابن ماجہ خود مسند درس پر بیٹھ کر طلبائے علوم کو درس وتعلیم دیتے رہے، اس کی تفصیل موصوف کے تلامذہ کی فہرست دیکھ کراور ان کے تراجم پر نظر ڈال کر معلوم کی جاسکتی ہے، کتب ستہ یا صحاح ستہ میں اہل علم کا سنن ابن ماجہ کا داخل کرنا ابن ماجہ اور سنن ابن ماجہ کی اہمیت کا مظہر ہے ، اگر چہ اس میں کچھ ضعیف وغیر معتبر احادیث بھی آگئی ہیں حتی کہ بعض موضوع روایات بھی اس میں داخل ہوگئی ہیں، مگر للأکثر حکم الکلکے مطابق اس کتاب پر صحیح کا اطلاق ہوتا ہے ۔ علامہ ابن خلکان متوفی ۶۸۱ھ نے لکھا ہے:
''وکتابہ في الحدیث أحد الصحاح الستۃ '' یعنی سنن ابن ماجہ صحاح ستہ کی ایک کتاب حدیث ہے (وفیات الأعیان وإنباء أبناء الزمان /ترجمہ ابن ماجہ)
یہی بات حافظ ابن کثیر (متوفی ۷۷۶ ھ )نے بھی معنوی طور پر کہی ہے (الباعث الحثیث ص۹۰) اور حافظ ابن عساکر وحافظ مزی وحافظ ذہبی وحافظ ابن حجر ، امام ابو القاسم رافعی نے بھی یہی بات کہی ہے جیسا کہ تہذیب التہذیب وتقریب التہذیب وکاشف وتذہیب التہذیب وغیرہ کتابوں کے مطالعہ سے ظاہر ہوتا ہے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
خود امام ابن ماجہ نے کہا ہے:

''عرضت ہذہ السنن علی أبي زرعۃ فنظر فیہ وقال : أظن ان وقع ہذا الکتاب في أیدی الناس تعطلت ہذہ الجوامع أو أکثرہا، ثم قال: ہل ولایکون فیہ تمام ثلاثین حدیثاً مما في إسنادہ ضعف'' یعنی میں نے اپنی کتاب السنن کو امام ابوزرعہ رازی کی خدمت میں پیش کیا تو انہوں نے اسے پڑھ کر کہا کہ میرا خیال ہے کہ یہ نفیس عمدہ کتاب اگر علمائے موجو دین کے ہاتھ میں آگئی تو اس کے مقابل تمام کتب جوامع یا اکثر کتب جوامع معطل ہوکر رہ جائیں گی ، پھر کہاکہ غالباً اس میں تیس احادیث بھی پوری نہ ہوں جو ضعیف ہیں (تذکرہ الحفاظ للذہبی وشروط الأئمۃ الستۃ ص ۱۶ ومتعدد کتب رجال) ۔
حافظ ابو زرعہ رازی کے اس بیان سے سنن ابن ماجہ کی اہمیت کا پورا اندازہ ہوتا ہے اور میرا خیال ہے کہ سنن ابن ماجہ کی جن احادیث کو ضعیف سمجھا اور کہا گیا ہے، ان میں سے اکثر کے ایسے شواہد اور معنوی متابع موجود ہیں جن سے ان کا ضعف دور ہوجاتا ہے ، پھر بھی کچھ احادیث ایسی ہیں جن پر ضعیف ہونے کا حکم لگائے بغیر بلکہ بعض پر موضوع کا حکم لگائے بغیر چارہ کار نہیں ، لیکن اس سے اس کتاب (سنن ابن ماجہ) کی اہمیت کم نہیں ہوتی ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
تعداد حدیث وکتب و ابواب سنن ابن ماجہ

حافظ ابن کثیر نے کہا: ''سنن ابن ماجہ میں بتیس کتابیں، پندرہ سو ابواب، اور چار ہزار احادیث ہیں اور اس کی تھوڑی سی روایات کے علاوہ سب کی سب معتبر اور قابل اعتبار ہیں '' (البدایۃ والنہایۃ: تذکرہ امام ابن ماجہ) ۔
مجدد ملت امام العلام سید صدیق حسن حسین قنوجی بھوپالی نے اپنی کتاب ''مسک الختام شرح فارسی بلوغ المرام'' کے مقدمہ اور اپنی دوسر ی کتاب ''الحطۃ فی بیان الصحاح الستۃ'' وغیرہ میں بھی سنن ابن ماجہ اور اس کے مصنف امام ابن ماجہ کی بابت اچھی تفاصیل سپرد قلم کی ہیں، اس کی عظمت کا اندازہ صرف اس بابت سے بھی ہوتا ہے کہ ہندوستان میں سلفی درسگاہوں کے علاوہ دوسری درسگاہوں میں بھی سنن ابن ماجہ کا درس ہوتا ہے ، اس دور زوال علوم میں یہ بھی بسا غنیمت ہے ۔
تنبیہ:
علم حدیث کی اشاعت وترویج وتدریس شیخ عبدالحق محدث دہلوی اور خانوداہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی سے ہوئی ، عام طور پر یہی مشہور ہے، حالانکہ کتب تواریخ میں صراحت ہے کہ عساکر اسلام عہد صحابہ ہی میں ہندوستان میں آمد ورفت رکھتے تھے، اور ان کے بعدبھی مختلف اغراض ومقاصد کے لئے یہ سلسلہ جاری رہا، ظاہر ہے کہ ان اسفار ورحلات میں صحابہ وتابعین کی تعدادبہت زیادہ تھی جن کے ورود مسعود سے سر زمین ہند بہرہ ور ہوئی ، اور میں نے اپنی غیرمطبوع کتاب ''تاریخ اہل حدیث ہند'' میں یہ تفصیل پیش کی ہے کہ عہد نبوی میں بھی کتنے صحابہ اپنی تجارت اور دوسرے امور کے سلسلہ میں ہندوستا ن بکثرت آتے جاتے تھے اور ''ظہور رسالت محمدی'' سے بھی پہلے عربوں کے تعلقات ہندوستان سے بہت زیادہ تھے جیسا کہ علامہ سید سلیمان ندوی کی کتاب ''ہندوستان سے عربوں کے تعلقات'' سے ظاہر ہوتا ہے، بلکہ یہ بھی متحقق بات ہے کہ مہا بھارت جنگ سے پہلے ہندوستان کے بعض طبقات میں عربی زبان بولی ،سمجھی اورلکھی جاتی تھی اور عہد نبوی میں بھی عربوں کی ہندوستان میں آمد ورفت بکثرت تھی، اور یہ معلوم ہے کہ صحابہ وتابعین دنیا میں جہاں بھی جس کام کے لیے جاتے تھے وہ تبلیغ اسلام کے لئے کتاب وسنت کے نصوص بیان کرتے تھے،اس لیے یہ ماننا لازم ہے کہ ہندوستان میں عہد نبوی وعہد صحابہ میں علم حدیث کی اشاعت وترویج وتدریس ہوا کرتی تھی ، اس پر ہم نے اہل حدیث کی تدریسی خدمات طبع اول کے مقدمہ میں قدرے روشنی ڈالی تھی اور بہت دنوں سے اس موضوع پر تحقیقی کتاب لکھنے کا ارادہ رہا، کئی سال ہوئے ہم نے ''ہندوستان میں تاریخ اہل حدیث'' نامی اپنی ضخیم غیر مطبوع کتاب میں تفصیل پیش کی ہے اور ثابت کیا ہے جس کا علمائے احناف نے بھی اعتراف کیا ہے کہ چوتھی صدی ہجری میں ہندوستان کی مسلم اکثریت مذہباً اہل حدیث تھی اور سرکاری عہدوں پر بھی انہیں فائز کیا جاتاتھا اور علمائے اہل حدیث کی درسگاہیں تھیں، نیز وہ تصنیف وتالیف کے کام بھی کرتے تھے، ہم نے اپنی اس کتاب میں یہ بھی لکھا ہے کہ آدم وحوا علیہما السلام جنت سے نکال کر ہندوستان میں اتارے اور بسائے گئے تھے اور ان کے بعد دنیا میں آنے والے نوح علیہ السلام کے کچھ پہلے تک کے انبیاء ومرسلین علیہم السلام بھی زیادہ تر ہندوستان اور اس کے مضافات میں آتے رہے، اور یہ معلوم ہے کہ تمام انبیاء کرام ومرسلین عظام اور ان کے سچے پیروکارتقلید پرستی کے نام سے بھی واقف نہیں تھے ، وہ آدم علیہ الصلاۃ والسلام پر نازل ہونے والے آسمانی صحیفوں پر عمل پیرا تھے اور ان کے بعد ان کے صاحب زادے شیث علیہ السلام بھی صاحب کتاب تھے، آدم ونوح علیہما السلام کے درمیان دس ہزار سال کا فاصلہ ہے، اس طویل مدت میں سب لوگ معنوی طور پر اہل حدیث تھے ،خلاصہ کلام یہ ہے کہ اسلام کے ابتدائی عہد ہی سے ہندستان میں حدیث کی اشاعت اور اس پر عمل کا سلسلہ جاری ہے ، اور ادھر سو ڈیڑھ سو سال سے عربی اور اردو زبانوں میں یہ سلسلہ مزید آگے بڑھا ہے ، اور دارالدعوۃ کا خدمت حدیث کا یہ منصوبہ اس سلسلہ میں طلائے ناب کی حیثیت رکھتا ہے ، اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ اس منصوبہ کو با برکت بنائے اور اس سے زیادہ سے زیادہ لوگ مستفید ہوںاور اس کے خادمین کو اپنی توفیق و عنایت عطا فرمائے، اللہ تعالی کتاب کو جلد زیورِ طبع سے بہرہ ور کرے ،آمین۔ وآخر دعوانا أن الحمد للّٰہ رب العالمین، والحمد للہ الذی تتم بہ الصالحات۔
محمد رئیس ندوی
جامعہ سلفیہ بنارس
۲۳/ ۹/ ۲۰۰۴ء
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
تاثرات مولانا رفیق احمد سلفی رکن مجلس علمی

الحمد للہ رب العالمین، والصلاۃ والسلام علی خیر خلقہ محمد و آلہ وصحبہ أجمعین، أما بعد:
بگیر ایں ہمہ سرمایۂ بہار از من​
کہ گل بدست تو از شاخ تازہ تر ماند​
سنن أبی داود (اردو) کی اشاعت کے بعدسنن ابن ماجہ (اردو) کی شکل میں تین ضخیم جلدوں پر مشتمل احادیث نبویہ علیہ الصلاۃ والتسلیم کا یہ گراں قدر مجموعہ مجلس علمی دار الدعوۃ دہلی کی جانب سے دوسرا اہم علمی تحفہ ہے جسے قارئین کرام کی خدمت میں پیش کرتے ہوئے ہم اراکین مجلس علمی کے سر بارگاہ الٰہی میں سجدہ ریز ہیں کہ اسی کی توفیق اور نوازش سے تمام اچھے کام پایۂ تکمیل کو پہنچتے ہیں، الحمد للہ الذی بنعمتہ تتم الصالحات۔
کتب احادیث میں صحیحین کے بعدسنن اربعہ(سنن أبی داود، سنن ترمذی ، سنن نسائی ، سنن ابن ماجہ) کا جو مقام ومرتبہ ہے وہ اہل علم کی نگاہ سے پوشیدہ نہیں، فقہ و احکام کی بیشتر احادیث کو یہ چاروں کتابیں محیط ہیں، اسی وجہ سے یہ کتابیں اہل علم کی خصوصی توجہ و عنایات کا مرکز رہی ہیں، علماء نے کثرت سے عربی میں ان کے شروح وحواشی اور زوائد و مستخرجات لکھے ہیں، اوران کے رجال و رواۃ حدیث پرمستقل کتابیں تالیف کی ہیں، لیکن اردو زبان ابھی تک ان گہر ہائے آبدار کو اپنے دامن میں سمیٹنے سے قاصر رہی ہے، اگر چہ ہندو پاک دونوں ملکوں میں اس جانب چند سالوں کے اندر اچھی خاصی پیش رفت ہوئی ہے اور حدیث کی کتابوں کے کئی اردو تراجم مفید تعلیقات و حواشی کے ساتھ منظر عام پر آچکے ہیں، لیکن اس خلا کو پر کرنے کے لیے اس سے زیادہ وسیع انداز میں منظم کوشش کی ضرورت ابھی باقی ہے، اسی ضرورت کے پیش نظر دار الدعوۃ دہلی نے ''حدیث انسائیکلو پیڈیا اردو'' کی اشاعت کا ایک جامع منصوبہ مرتب کیا اور سنن اربعہ کی اشاعت کو اپنی اولین ترجیحات میں شامل کیا۔
زیر نظر کتاب کے شرف اور اس کی عظمت کے لیے بس اتنی بات کافی ہے کہ اس کا شمار صحاح کی ان چھ کتابوں میں کیا جاتا ہے جنہیں امت میں تلقی بالقبول کا درجہ حاصل ہے، اور جو سبھی طبقوں میں خاص احترام کی نظر سے دیکھی جاتی ہیں، اس کتاب میں کل چار ہزار تین سو اکتالیس (۴۳۴۱) احادیث ہیں ،جن میں تین ہزار دو(۳۰۰۲) حدیثیں تو وہ ہیں جو صحاح کی باقی کتابوں میں موجود ہیں اورباقی ایک ہزار تین سو انتالیس(۱۳۳۹) حدیثیں ایسی ہیں جو زوائد ابن ماجہ ہیں، اس کتاب کا درجہ سنن کی باقی تین کتابوں سنن ابی داود سنن ترمذی اور سنن نسائی کے بعد ہے، اہل علم نے امام مالک کی موطا پر اس کتاب کو مقدم کیا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ اس میں بہت سی صحیح رواتیں ایسی ہیں جو کتب خمسہ میں نہیں ہیں، برخلاف موطا کے کہ اس میں ایسا نہیں اگرچہ صحت کے اعتبار سے وہ اس کتاب پر بدرجہا فائق ہے۔
اس کتاب کی ایک اہم خصوصیت جو اسے کتب خمسہ سے ممتاز کرتی ہے یہ ہے کہ اس میں ثلاثیات یعنی ایسی روایات کی تعداد جن کی سند میں امام ابن ماجہ اور نبی اکرم ﷺ کے درمیان صرف تین واسطے ہیں پانچ ہیں، جب کہ سنن ابی داود اور سنن ترمذی میں ان کی تعداد ایک ایک ہے، اور صحیح مسلم اور سنن نسائی میں ایک بھی نہیں۔
اس ادارے کے بانی او رصدر اور اس اہم علمی کام کے مشرف و نگران اعلی برادرم ڈاکٹر عبدالرحمن بن عبدالجبار فریوائی حفظہ اللہ استاذ حدیث امام محمد بن سعود اسلامک یونیورسٹی ریاض، ہمارے خصوصی شکریہ کے مستحق ہیں جو اپنی ہدایات و مفید مشوروں سے ہمیں برابر نوازتے رہے اور اخیرمیں بالاستیعاب پورے مسودے کا مراجعہ کیا، بہت سی خامیوں کی اصلاح کی، اور بہت سے قیمتی فوائد کا اضافہ کیا، اور اہل علم کی نظر میں اسے وقیع اور لائق اعتبار بنانے کی کوشش کی ،جس پر ہم اراکین مجلس علمی ان کے تہہ دل سے ممنون ومشکور ہیں۔
اخیر میں اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ اس کتاب کو شرف قبولیت سے نوازے اور عوام وخواص دونوں کے لیے اسے اصلاح وہدایت کا ذریعہ اور مؤلف ، مترجمین، ناشر اور جملہ معاونین کے لیے صدقہ جاریہ بنائے، اور ہمیں اخلاص کے ساتھ خدمت حدیث کی مزید توفیق بخشے

وفقنا اللہ لما یحبہ ویرضا۔
وصلی اللہ علی خیر خلقہ محمد و آلہ وصحبہ اجمعین


والسلام
رفیق احمد سلفی
( رکن مجلس علمی)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207

نماذج من انطباعات
أهل العلم والدعوة والتعليم
عن مشروع نقل علوم السلف إلى لغات الهند
تحت إشراف مؤسسة دار الدعوة التعليمية الخيرية
كلمة فضيلة الشيخ الدكتور عبدالعزيز بن محمد السعيد -حفظه الله-
رئيس الجمعية العلمية السعودية للسنة و علومها
و عضو هيئة التدريس بكلية أصول الدين بجامعة الإمام محمد بن سعود الإسلامية- بالرياض
الحمد لله وصلى الله وسلم على رسول الله وآله وصحبه وبعد:
فقد أطلعني أخي فضيلة الدكتور عبدالرحمن بن عبدالجبار الفريوائي عضو هيئة التدريس بكلية أصول الدين بجامعة الإمام محمد بن سعود الإسلامية بالرياض، على المشروع الموسوعي الخيري لترجمة كتب السنة إلى اللغة الأردية ثم إلى لغات الهند الأخرى، ويضم دواوين الحديث الثمانية ( صحيح البخاري، و صحيح مسلم، و سنن أبي داود و الترمذي والنسائي و ابن ماجه، و موطأ مالك، وسنن الدارمي) والذي تعدّه مؤسسة دار الدعوة التعليمية الخيرية -بدلهي الجديدة بالهند، تحت إشراف فضيلة الدكتور الفريوائي، فألفيته مشروعاً طيباً، وجهداً مباركاً، وعملاً مشكوراً، وقد سررت به كثيراً، وغبطت القائمين عليه لما يرجى من ثمرات خيّرة له، وذلك بتعليم السنة الصحيحة، والعقيدة السلفية التي درج عليها أئمة الهدى والدين من الصحابة والتابعين، خاصة وإنا لا نعلم عن المشرف عليه فضيلة الدكتور عبدالرحمن بن عبد الجبار الفريوائي إلا سلامة العقيدة التي تشتد الحاجة إليها في التراجم، و أدعو الجهات الخيرية و أهل الخير لتقديم العون لهذا المشروع ليستفيد منه أهل هذه اللغات.
بارك الله هذا الجهد وسدد خطى القائمين عليه، ونفع به المسلمين، و الله يحفظكم و يرعاكم ، والسلام عليكم و رحمة الله و بركاته.
كلمة فضيلة الشيخ الدكتور محمد ضياء الرحمن الأعظمي -حفظه الله -
أستاذ الحديث وعميد كلية الحديث الشريف بالجامعة الإسلامية بالمدينة النبوية سابقاً
الحمد لله والصلاة والسلام على رسول الله، وعلى آله وأصحابه أجمعين.
أما بعد:
فقد اطلعت على مشروع نقل علوم السلف إلى اللغات الأجنبية التي تتبناه دار الدعوة في الهند تحت إشراف فضيلة الدكتور عبدالرحمن بن عبدالجبار الفريوائي رئيس الدار، وعضو هيئة التدريس بجامعة الإمام محمد بن سعود الإسلامية بالرياض، ومن مشاريع هذه الدار إعداد مؤسسة الأحاديث النبوية باللغةالأردية تشتمل على ترجمة الكتب الستة والموطأ وسنن الدارمي التي هي أصول الإسلام شمل هذا المشروع لغات الهند الأخرى،كذلك في المستقبل إن شائالله، ومما لا شك فيه أن هذا المشروع له أهمية كبيرة في توعية المسلمين عموماً وغير المسلمين خصوصاً في الهند وذلك بتقريبهم إلى أصول الإسلام التي تساعدهم على فهم الإسلام فهماً صحيحاً، وتمسكهم بالكتاب والسنة، والابتعاد عن البدع والخرافات المنتشرة في شبه القارة الهندية.
والذي يسرني في هذا المشروع هوكون القائمين عليه من خريجي الجامعات السعودية، وهم معروفون لدينا بجهودهم وانشطتهم، وإخلاصهم للدعوة السلفية، وبعضهم تلاميذي،وهم يجيدون اللغة العربية والعلوم الشرعية، وإن نقل العلوم الإسلامية إلى اللغة الأردية التي يتكلم بها معظم المسلمين، ثم إلي اللغة الهندية التي هي اللغة الرسمية للدولة سيساعد على نشر العقيدة الصحيحة المبنية على الكتاب والسنة، ومن ثم فإنني أرحب بهذا المشروع العظيم وأشكر إخواننا القائمين عليه، وأدعو أهل العلم والدعوة إلى الاهتمام به، والبحث عن سبل الاستفادة منه ليعم الانتفاع على نطاق واسع في الهند وخارجها من البلاد التي فيها الجاليات الهندية.
وإني قد اطلعت على ترجمة سنن أبي داود ووجدت أن العمل مستوفٍ للشروط المعتبرة في الترجمة من حيث اللغة، وتخريج الأحاديث، والحكم عليها، والفوائد العلمية المستنبطة من بعض الأحاديث، نحمد الله تعالى أن هذه الترجمة قد صدرت وصدرت بعضها ترجمة سنن ابن ماجه وهي بأيديكم الآن.
وإني أدعو الله -سبحانه وتعالى- أن يوفق القائمين على هذا المشروع ويسدد خطاهم في طريق نقل العلوم الإسلامية وتراث السلف إلى اللغات الهندية لما فيه نفع للمسلمين عموماً ودعوة غير المسلمين إلى الإسلام الصحيح خصوصاً، وصلى الله على نبينا محمد وعلى آله وأصحابه أجمعين.
كلمة فضيلة الشيخ الدكتور صالح بن غانم السدلان -حفظه الله-
أستاذ الفقه بكلية الشريعة بجامعة الإمام محمد بن سعود الإسلامية بالرياض
الحمد لله رب العالمين والصلاة والسلام على نبينا محمد وعلى آله وصحبه، أما بعد:
فقد سرني المشروع العلمي الدعوي الكبير الذي اطلعت عليه ضمن مشروع نقل علوم السلف إلى لغات الهند، والذي تقوم به مؤسسة دار الدعوة التعليمية الخيرية بالهند تحت إشراف زميلنا فضيلة الشيخ الدكتور عبدالرحمن بن عبدالجبار الفريوائي عضو هيئة التدريس بجامعة الإمام محمد بن سعود الإسلامية بالرياض -وفقه الله- وملخص المشروع كالآتي:
موسوعة الأحاديث النبوية باللغة الأردية، وتحتوي على ترجمة الصحيحين والسنن الأربعة (أبي داود، والنسائي، والترمذي، وابن ماجه) وموطأ الإمام مالك، وسنن الدارمي إلى اللغة الأردية مع إثبات النص ثم الترجمة وتخريج الأحاديث والحكم عليها تصحيحاً وتضعيفاً في غير الصحيحين، وشرح المفردات والتعليقات المختصرة؛ كما أن فيه تقريبًا لهذه المادة العظيمة التي هي الوحي الثاني للقراء والباحثين.
وبين يديّ نماذج من كتاب سنن الإمام ابن ماجه بالصفة المذكورة وهو الثاني كتاب تقوم المؤسسة بطبعه، وبهذه المناسبة الطيبة أبارك الإخوة العاملين في هذا المشروع، وأدعو لهم بالتوفيق والتسديد، وأرى هذا العمل بهذه الصورة المتقنة مفيداً للغاية للمختصين والعامة لمن أراد أن يستفيد منه للعمل به والدعوة إليه.
وإذ أشيد بهذا العمل وأؤيده أحث الإخوة العاملين في هذا المشروع على الاستمرار في إكماله، وما يليه من المشاريع مثل نقل علوم وإفادات أئمة الدين: شيخ الإسلام ابن تيمية، والإمام ابن القيم، والمجدد الإمام محمد بن عبدالوهاب -رحمة الله عليهم- إلى اللغة الأردية وغيرها من لغات الهند.
وآمل من أهل الخير والإحسان التكرم بمد يد العون للمؤسسة لإكمال هذا المشروع وطبعه وتوزيعه تعميماً للفائدة، واحتساباً للأجر في ذلك عند الله.
وصلى الله على نبينا محمد وآله وصحبه وسلم.
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207

كلمة فضيلة الدكتور مقتدى حسن بن محمد ياسين الأزهري -حفظه الله -
وكيل الجامعة السلفية (بنارس، الهند)
وعضو اللجنة التنفيذية في جميعة أهل الحديث المركزية لعموم الهند
الحمد لله رب العالمين، والصلاة والسلام على رسوله الكريم، وعلى آله وصحبه أجمعين، أما بعد:
فلا يخفى أن مشروع نقل علوم السلف إلى اللغة الأردية مهم جداً، لأن عدداً كبيراً من المسلمين في شبه القارة الهندية وخارجها يتفاهم بهذه اللغة، ويعتبرها لغة العلم والثقافة وخاصة فيما يتعلق بالإسلام وتأريخه، ومن هنا فكر المعنيون بشؤون الدعوة والتعليم بإعداد البحوث والمؤلفات في هذه اللغة.
والمشروع الذي نحن بصدده الآن يمتاز في هذا المجال، لأنه يهدف إلى نقل كتب التفسير والحديث المعتمدة إلى اللغة الأردية وغيرها من لغات الهند، وإلى توفير هذه الكتب المترجمة للراغبين فيها، وقد تبنى هذا المشروع فضيلة الدكتور عبدالرحمن بن عبدالجبار الفريوائي (عضو هيئة التدريس بكلية أصول الدين، بجامعة الإمام محمد بن سعود الإسلامية بالرياض).
والعلماء الذين تولوا ترجمة الكتب إلى الأردية وغيرها من اللغات علماء أكفاء لهم خبرة في مجال التأليف والترجمة، وقد تحملوا مسؤولية التدريس للعلوم الشرعية.
ومراجعة الترجمة أيضاً تتم بصورة دقيقة وعلى أيدي العلماء الخبيرين في هذا المجال.
وسنن ابن ماجة كان أول كتاب ترجم إلى الأردية، وتمت مراجعة الترجمة على يد أحد العلماء المعروفين، وهو الشيخ محمد الأعظمي بن الشيخ عبدالعلي، وهو عالم معروف قضى حياته في التدريس والدعوة والتأليف، وقد تتلمذ عليه مجموعة كبيرة من علماء الهند، وقد اطلعت على بعض هذه الأعمال؛ كما راجع الدكتور عبدالرحمن الفريوائي كتاب السنن لأبي داود ، وكان لي شرف تقديم هذه الترجمة على طبعة هذا الكتاب المبارك، وهكذا تتوالى هذه السلسلة، وتنقل معظم كتب التفسير والحديث إلى اللغات الهندية المهمة -إن شاء الله-.
وإذ أكتب هذه السطور أبدي إعجابي بالمشروع، وأهيب المسؤولين لمد يد العون إليه حتى تكون أهم المؤلفات الإسلامية في متناول أيدي المسلمين في الهند، والله ولي التوفيق.
وصلى الله على رسوله الكريم، والحمد لله رب العالمين.

 
Top