• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن ابن ماجه

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
3- بَاب التَّوَقِّي فِي الْحَدِيثِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ
۳-باب: رسول اکرم ﷺ سے حدیث کی روایت میں احتیاط​


23 - حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ مُعَاذٍ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ، حَدَّثَنَا مُسْلِمٌ الْبَطِينُ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُونٍ قَالَ: مَا أَخْطَأَنِي ابْنُ مَسْعُودٍ عَشِيَّةَ خَمِيسٍ إِلا أَتَيْتُهُ فِيهِ، قَالَ: فَمَا سَمِعْتُهُ يَقُولُ بِشَيْئٍ قَطُّ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ، فَلَمَّا كَانَ ذَاتَ عَشِيَّةٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ قَالَ: فَنَكَسَ، قَالَ: فَنَظَرْتُ إِلَيْهِ وَهُوَ قَائِمٌ مُحَلَّلَةً أَزْرَارُ قَمِيصِهِ، قَدِ اغْرَوْرَقَتْ عَيْنَاهُ، وَانْتَفَخَتْ أَوْدَاجُهُ، قَالَ: أَوْ دُونَ ذَلِكَ، أَوْ فَوْقَ ذَلِكَ، أَوْ قَرِيبًا مِنْ ذَلِكَ، أَوْ شَبِيهًا بِذَلِكَ۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۹۴۹۲، ومصباح الزجاجۃ: ۹)، وقد أخرجہ: حم (۱/۴۵۲)، دي/ المقدمۃ ۲۸ (۲۷۸) (صحیح)
۲۳- عمروبن میمون کہتے ہیں کہ میں بلا ناغہ ہر جمعرات کی شام کو عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس جاتا تھا، میں نے کبھی بھی آپ کو کسی چیز کے بارے میں ''قال رسول الله ﷺ'' کہتے نہیں سنا، ایک شام آپ نے کہا: ''قال رسول الله ﷺ'' اور اپنا سر جھکا لیا، میں نے ان کو دیکھا کہ اپنے کرتے کی گھنڈیاں کھولے کھڑے ہیں، آنکھیں بھرآئی ہیں اور گردن کی رگیں پھول گئی ہیں اور کہہ رہے ہیں:آپ ﷺ نے اس سے کچھ کم یا زیادہ یا اس کے قریب یا اس کے مشابہ فرمایا ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا کمال ادب تھا کہ حدیث کی روایت میں نبی اکرم ﷺ کی طرف اس وقت تک نسبت نہ کرتے تھے جب تک خوب یقین نہ ہوجاتا کہ یہی آپﷺ کا فرمان ہے، اور جب ذرا سا بھی گمان اور شبہہ ہوتا تو اس خوف سے ڈر جاتے کہ کہیں آپ ﷺ پر جھوٹ نہ باندھ دیں، کیونکہ جو آپ ﷺ پر جھوٹ باندھے صحیح حدیث کی رو شنی میں اس پرجہنم کی وعید ہے۔


24- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ مُعَاذٍ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ قَالَ: كَانَ أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ إِذَا حَدَّثَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ حَدِيثًا فَفَرَغَ مِنْهُ، قَالَ : أَوْ كَمَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ.
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۴۶۹، ومصباح الزجاجۃ: ۱۰)، وقد أخرجہ: دي المقدمۃ ۲۸ (۲۸۴) (صحیح)
۲۴- محمد بن سیرین کہتے ہیں کہ انس بن مالک رضی اللہ عنہ جب رسول اللہ ﷺ سے کوئی حدیث بیان کرتے،اور اس سے فارغ ہوتے تو کہتے: '' أو كما قال رسول الله ﷺ'' (یا جیسا رسول اللہ ﷺ نے فرمایا) ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : گویا یہ کہہ کر وہ یہ بتانا چاہتے تھے کہ ہم نے تم سے جو یہ حدیث بیان کی ہے وہ روایت بالمعنی ہے، رہے الفاظ تو ہوسکتا ہے کہ ہو بہو یہی الفاظ رہے ہوں یا الفاظ کچھ بدلے ہوں ۔


25- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ، عَنْ شُعْبَةَ (ح) وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ ابْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ ابْنِ أَبِي لَيْلَى قَالَ: قُلْنَا لِزَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ: حَدِّثْنَا عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ، قَاَلَ: كَبِرْنَا وَنَسِينَا، وَالْحَدِيثُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ شَدِيدٌ۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۳۶۷۴، ومصباح الزجاجۃ: ۱۱)، وقد أخرجہ: حم (۴/۳۷۰، ۳۷۲) (صحیح)
۲۵- عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ کہتے ہیں کہ ہم نے زیدبن ارقم رضی اللہ عنہ سے کہا کہ ہم سے رسول اللہ ﷺ کی حدیث بیان کریں، تو وہ کہنے لگے: ہم بوڑھے ہوگئے ہیں، ہم پر نسیان غالب ہوگیا ہے، اور رسول اللہ ﷺ کی حدیث بیان کرنا مشکل کام ہے۔


26- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ، حَدَّثَنَا أَبُو النَّضْرِ عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ ابْنِ أَبِي السَّفَرِ، قَالَ: سَمِعْتُ الشَّعْبِيَّ يَقُولُ: جَالَسْتُ ابْنَ عُمَرَ سَنَةً فَمَا سَمِعْتُهُ يُحَدِّثُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ شَيْئًا ۔
* تخريج: خ/أخبار الآحاد ۶ (۷۲۶۷)، م/الصید ۷ (۱۹۴۴)، (تحفۃ الأشراف: ۷۱۱۱)، وقد أخرجہ: حم (۲/۸۴، ۱۳۷، ۱۵۷) (صحیح)
۲۶- عبداللہ بن ابی السفر کہتے ہیں کہ میں نے شعبی کو کہتے سنا: میں سال بھر ابن عمر رضی اللہ عنہما کی مجلسوں میں رہا لیکن میں نے ان سے رسول اللہ ﷺ سے کوئی چیز بیان کرتے ہوئے نہیں سنا ۔


27- حَدَّثَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ عَبْدِالْعَظِيمِ الْعَنْبَرِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّزَّاقِ، أَنْبَأَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ ابْنِ طَاوُسٍ، عنْ أَبِيهِ قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ يَقُولُ: إِنَّمَا كُنَّا نَحْفَظُ الْحَدِيثَ، وَالْحَدِيثُ يُحْفَظُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ، فَأَمَّا إِذَا رَكِبْتُمُ الصَّعْبَ وَالذَّلُولَ فَهَيْهَاتَ ۔
* تخريج: م/المقدمۃ ۴ (۲۰)، (تحفۃ الأشراف: ۵۷۱۷) (صحیح)
۲۷- طاوس کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کو کہتے سنا: ہم تو بس حدیثیں یاد کرتے تھے اور حدیث رسول تو یادکی ہی جاتی ہے، لیکن جب تم مشکل اور آسان راستوں پر چلنے لگے تو ہم نے دوری اختیار کرلی ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یہ کنایہ ہے افراط وتفریط سے، یعنی جب تم نقل میں افراط وتفریط سے کام لینے لگے اور احتیاط کا دامن چھوڑ دیا، تو ہم نے بھی احتیاط کی روش اختیار کی۔


28- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ مُجَالِدٍ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ قَرَظَةَ ابْنِ كَعْبٍ قَالَ: بَعَثَنَا عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ إِلَى الْكُوفَةِ وَشَيَّعَنَا، فَمَشَى مَعَنَا إِلَى مَوْضِعٍ يُقَالُ لَهُ: صِرَارٌ فَقَالَ: أَتَدْرُونَ لمَ مَشَيْتُ مَعَكُمْ؟ قَالَ: قُلْنَا: لِحَقِّ صُحْبَةِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ وَلِحَقِّ الأَنْصَارِ، قَالَ: لَكِنِّي مَشَيْتُ مَعَكُمْ لِحَدِيثٍ أَرَدْتُ أَنْ أُحَدِّثَكُمْ بِهِ، فَأَردُتُ أَنْ تَحْفَظُوهُ لِمَمْشَايَ مَعَكُمْ، إِنَّكُمْ تَقْدَمُونَ عَلَى قَوْمٍ لِلْقُرْآنِ فِي صُدُورِهِمْ هَزِيزٌ كَهَزِيزِ الْمِرْجَلِ، فَإِذَا رَأَوْكُمْ مَدُّوا إِلَيْكُمْ أَعْنَاقَهُمْ وَقَالُوا: أَصْحَابُ مُحَمَّدٍ، فَأَقِلُّوا الرِّوَايَةَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ، ثُمَّ أَنَا شَرِيكُكُمْ ۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۶۲۵، ومصباح الزجاجۃ: ۱۲)، وقد أخرجہ: دي/المقدمۃ ۲۸ (۶۸۷) (صحیح)
(اس کی سند میں مجالد بن سعید ضعیف ہیں، لیکن حاکم کی سند کی متابعت سے یہ صحیح ہے، حاکم نے اس کو اپنی مستدرک میں صحیح الإسناد کہا ہے، اور ذہبی نے ان کی موافقت کی ہے)
۲۸- قرظہ بن کعب کہتے ہیں کہ ہمیں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے کوفہ بھیجا، اور ہمیں رخصت کرنے کے لئے آپ ہمارے ساتھ مقام صرار تک چل کر آئے اور کہنے لگے: کیا تم جانتے ہو کہ میں تمہارے ساتھ کیوں چل کر آیا ہوں؟ قرظہ کہتے ہیں کہ ہم نے کہا: رسول اکرم ﷺ کی صحبت کے حق اور انصار کے حق کی ادائیگی کی خاطر آئے ہیں، کہا: نہیں، بلکہ میں تمہارے ساتھ ایک بات بیان کرنے کے لئے آیا ہوں، میں نے چاہا کہ میرے ساتھ آنے کی وجہ سے تم اسے یاد رکھوگے: ''تم ایسے لوگوں کے پاس جارہے ہو جن کے سینوں میں قرآن ہانڈی کی طرح جوش مارتا ہوگا، جب وہ تم کو دیکھیں گے تو (مارے شوق کے) اپنی گردنیں تمہاری طرف لمبی کریں گے ۱؎ ، اور کہیں گے:یہ اصحاب محمد ہیں، تم ان سے رسول اللہ ﷺ کی حدیثیں کم بیان کرنا ، جاؤ میں بھی تمہارا شریک ہوں''۔
وضاحت ۱؎ : تاکہ وہ تمہاری باتیں سن سکیں اور تم سے استفادہ کرسکیں۔


29- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ يَحْيَى ابْنِ سَعِيدٍ، عَنِ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ قَالَ: صَحِبْتُ سَعْدَ بْنَ مَالِكٍ مِنَ الْمَدِينَةِ إِلَى مَكَّةَ، فَمَا سَمِعْتُهُ يُحَدِّثُ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ بِحَدِيثٍ وَاحِدٍ۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۳۸۵۵، ومصباح الزجاجۃ: ۱۳)، وقد أخرجہ: خ/الجہاد والسیر ۲۶ (۲۸۲۴)، دي/المقدمۃ ۲۸ (۲۸۶) (صحیح)
۲۹- سائب۔ بن یزید کہتے ہیں کہ میں سعد بن (ابی وقاص) مالک رضی اللہ عنہ کے ساتھ مدینہ سے مکہ تک گیا، لیکن راستے بھرمیں نے آپ کو نبی اکرم ﷺ سے ایک حدیث بھی بیان کرتے ہوئے نہیں سنا ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
4- بَاب التَّغْلِيظِ فِي تَعَمُّدِ الْكَذِبِ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ
۴- باب: رسول اللہ ﷺ پرجان بوجھ کر جھوٹ گھڑنے پر سخت گناہ (جہنم) کی وعید​


30- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَسُوَيْدُ بْنُ سَعِيدٍ، وَعَبْدُاللَّهِ بْنُ عَامِرِ بْنِ زُرَارَةَ، وَإِسْمَاعيلُ بْنُ موسَى، قَالُوا: حَدَّثَنَا شَرِيكٌ، عَنْ سِمَاكٍ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، عَنْ أَبِيهِ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < مَنْ كَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّدًا فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ >۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۹۳۶۸)، وقد أخرجہ: ت/الفتن ۷۰ (۲۲۵۷)، العلم ۸ (۲۶۵۹)، حم (۱/۳۸۹، ۳۹۳ ، ۴۰۱، ۴۳۶، ۴۴۹) (وأولہ: إنکم منصورون....) (صحیح متواتر)
(اس سند میں شریک بن عبداللہ ضعیف راوی ہیں، لیکن شعبہ وسفیان نے ان کی متابعت کی ہے، اور ترمذی نے اس کو حسن صحیح کہا ہے)
۳۰- عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''جس شخص نے مجھ پرجان بوجھ کر جھوٹ گھڑا تو اس کو چاہئے کہ وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنالے'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : چاہے اس سے کوئی نیک مقصد ہی کیوں نہ ہو، جان بوجھ کر جھوٹ بولنے کی قید سے وہ شخص اس وعید سے نکل گیا ہے جس نے غلطی سے یا بھول سے کوئی بات رسول اکرم ﷺ کی طرف منسوب کی ہو۔


31- حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ عَامِرِ بْنِ زُرَارَةَ وَإِسْمَاعِيلُ بْنُ مُوسَى، قَالا: حَدَّثَنَا شَرِيكٌ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ رِبْعِيِّ بْنِ حِرَاشٍ، عَنْ عَلِيٍّ ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < لا تَكْذِبُوا عَلَيَّ؛ فَإِنَّ الْكَذِبَ عَلَيَّ يُولِجُ النَّارَ >.
* تخريج: خ/العلم ۳۹ (۱۰۶)، م/المقدمۃ ۲ (۲)، ت/العلم ۸ (۲۶۶۰)، المناقب ۲۰ (۷۳۱۵)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۰۸۷)، وقد أخرجہ: حم (۱/۸۳، ۱۲۳، ۱۵۰) (صحیح)
۳۱- علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''مجھ پر جھوٹ نہ باندھو، اس لئے کہ مجھ پر جھوٹ باندھنا جہنم میں داخل کرتا ہے'' ۔


32- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رُمْحٍ الْمِصْرِيُّ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَنَسِ ابْنِ مَالِكٍ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < مَنْ كَذَبَ عَلَيَّ -حَسِبْتُهُ قَالَ: مُتَعَمِّدًا- فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ >۔
* تخريج: ت/العلم ۸ (۲۶۶۱)، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۲۵)، وقد أخرجہ: خ/ العلم ۳۹ (۱۰۸)، م/المقدمۃ ۲ (۳)، حم (۳/۹۸، ۱۱۳، ۱۱۶، ۱۷۲، ۱۷۶، ۲۰۳، ۲۰۹، ۲۲۳، ۲۷۹، ۲۸۰)، دي/المقدمۃ ۲۵ (۲۴۴)، ۴۶ (۵۵۹) (صحیح)
۳۲- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''جوشخص میرے اوپر جھوٹ باندھے (میرا خیال ہے کہ آپ نے ''مُتَعَمِّدًا'' بھی فرمایا یعنی جان بوجھ کر) ۱؎ تو وہ جہنم میں اپنا ٹھکانہ بنالے''۔
وضاحت ۱ ؎ : یعنی انس بن مالک رضی اللہ عنہ کو یہ شک ہے کہ ''مُتَعَمِّدًا'' کا لفظ بھی فرمایا یا نہیں ، اور باقی حدیث میں کوئی شک نہیں ہے۔


3 3- حَدَّثَنَا أَبُو خَيْثَمَةَ زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < مَنْ كَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّدًا فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ >۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۲۹۹۳، ومصباح الزجاجۃ)، وقد أخرجہ: حم (۳/۳۰۳، ۸۳)، دي/المقدمۃ ۲۵ (۲۳۷) (صحیح)
۳۳- جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''جس نے میرے اوپرجان بوجھ کر جھوٹ باندھے تو وہ جہنم میں اپنا ٹھکانہ بنالے''۔


34- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < مَنْ تَقَوَّلَ عَلَيَّ مَا لَمْ أَقُلْ فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ >۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۰۸۹، ومصباح الزجاجۃ: ۱۴)، وقد أخرجہ: خ/العلم ۳۹ (۱۰۹)، م/المقدمۃ ۲ (۳)، حم (۲/۳۲۱) (حسن صحیح)
۳۴- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''جو شخص گھڑ کرمیری طرف ایسی بات منسوب کرے جو میں نے نہیں کہی ہے تو وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنالے''۔


35- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَعْلَى التَّيْمِيُّ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ مَعْبَدِ بْنِ كَعْبٍ، عَنْ أَبِي قَتَادَةَ؛ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ يَقُولُ عَلَى هَذَا الْمِنْبَرِ: < إِيَّاكُمْ وَكَثْرَةَ الْحَدِيثِ عَنِّي! فَمَنْ قَالَ عَلَيَّ فَلْيَقُلْ حَقًّا أَوْ صِدْقًا، وَمَنْ تَقَوَّلَ عَلَيَّ مَا لَمْ أَقُلْ فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ >.
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۱۳۰، ومصباح الزجاجۃ: ۱۵)، وقد أخرجہ: حم (۵/۲۹۷، ۳۱۰)، دي/المقدمۃ ۲۵ (۲۴۳) (حسن)
(سند میں محمد بن اسحاق مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے کی ہے، لیکن مسند احمد میں تحدیث کی صراحت ہے، نیز شواہد ومتابعت کی وجہ سے یہ حسن ہے ، ملاحظہ ہو: الصحیحہ: ۱۷۵۳، وتحقیق عوض الشہری ، مصباح الزجاجۃ: ۱۵)
۳۵- ابو قتادۃ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو اس منبر پر فرماتے سنا: ''تم مجھ سے زیادہ حدیثیں بیان کرنے سے بچو، اگر کوئی میرے حوالے سے کوئی بات کہے تووہ صحیح صحیح اور سچ سچ کہے، اور جو شخص گھڑ کر میری طرف ایسی بات منسوب کرے جو میں نے نہیں کہی تو وہ جہنم میں اپنا ٹھکانہ بنالے'' ۔


36- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَمُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ قَالا: حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ جَامِعِ بْنِ شَدَّادٍ أَبِي صَخْرَةَ، عَنْ عَامِرِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: قُلْتُ لِلزُّبَيْرِ بْنِ الْعَوَّامِ: مَا لِيَ لا أَسْمَعُكَ تُحَدِّثُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ كَمَا أَسْمَعُ ابْنَ مَسْعُودٍ وَفُلانًا وَفُلانًا؟ قَالَ: أَمَا إِنِّي لَمْ أُفَارِقْهُ مُنْذُ أَسْلَمْتُ، وَلَكِنِّي سَمِعْتُ مِنْهُ كَلِمَةً يَقُولُ: < مَنْ كَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّدًا فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ >۔
* تخريج: خ/العلم ۳۸ (۱۰۷)، د/العلم ۴ (۳۶۵۱)، (تحفۃ الأشراف: ۳۶۲۳)، وقد أخرجہ: حم (۱/۱۶۵، ۱۶۶)، دي/المقدمۃ ۲۵ (۲۳۹) (صحیح)
۳۶- عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ سے کہا: کیا وجہ ہے کہ میں آپ کو رسول اللہ ﷺ سے حدیث بیان کرتے ہوئے نہیں سنتا جس طرح ابن مسعود اور فلاں فلاں کو سنتا ہوں؟! تو انہوں نے کہا: سنو! جب سے میں اسلام لایا نبی اکرم ﷺ سے جدا نہیں ہوا، لیکن میں نے آپ سے ایک بات سنی ہے، آپ ﷺ فرما رہے تھے: ''جو شخص میرے اوپر جان بوجھ کر جھوٹ باندھے وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنالے''۔


37- حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ، عَنْ مُطَرِّفٍ، عَنْ عَطِيَّةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < مَنْ كَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّدًا فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ>۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۴۲۴۵)، وقد أخرجہ: م/الزہد والر قائق ۱۶ (۳۰۰۴)، حم (۲/۴۷، ۳ /۳۹، ۴۴) (صحیح)
(سند میں سوید بن سعید متکلم فیہ راوی ہیں، اور عطیہ العوفی ضعیف ، لیکن شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح بلکہ متواتر ہے)
۳۷- ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''جو شخص میرے اوپرجان بوجھ کر جھوٹ باندھے وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنالے'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : ان حدیثوں میں نبی ﷺ پر جھوٹ باندھنے کا عذاب مذکور ہے، اور حقیقت میں یہ بہت بڑا گناہ اور سنگین دینی جریمہ ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
5- بَاب مَنْ حَدَّثَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ حَدِيثًا وَهُوَ يُرَى أَنَّهُ كَذِبٌ
۵- باب: جان بوجھ کر رسول اللہ ﷺ سے جھوٹی حدیث روایت کرنے والے کی مذمت​


38- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ هَاشِمٍ، عَنِ ابْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنِ الْحَكَمِ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ ابْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنْ عَلِيٍّ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: < مَنْ حَدَّثَ عَنِّي حَدِيثًا وَهُوَ يُرَى أَنَّهُ كَذِبٌ فَهُوَ أَحَدُ الْكَاذِبَيْنِ >۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۲۱۲)، وقد أخرجہ: ت/العلم ۹ (۲۶۶۲)، حم (۵/۱۴، ۲۰) (یہ حدیث مکرر ہے، دیکھئے: ۴۰) (صحیح)
۳۸- علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ''جو شخص مجھ سے کوئی حدیث یہ جانتے ہوئے بیان کرے کہ وہ جھوٹ ہے تو وہ دو جھوٹوںمیں سے ایک ہے'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : ''الكَاذِبَيْن'' تثنیہ کے ساتھ یعنی دو جھوٹے، دو جھوٹوں سے مراد ایک تو وہ شخص ہے جو جھوٹی حدیثیں گھڑتا ہے، دوسرا وہ شخص ہے جو ان کی روایت کرتا ہے، مطلب یہ ہے کہ روایت کرنے والا بھی گناہ میں گھڑنے والے کے ساتھ شریک ہوگا، اور ''الكَاْذِبِيْن'' جمع کے ساتھ بھی آیا ہے تو اس کا معنی یہ ہوگا کہ بہت سارے جھوٹے لوگوں میں سے ایک جھوٹا آدمی احادیث کا گھڑنے والا بھی ہوگا۔


39- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، (ح) وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ قَالا: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنِ الْحَكَمِ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنْ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدَبٍ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: < مَنْ حَدَّثَ عَنِّي حَدِيثًا وَهُوَ يُرَى أَنَّهُ كَذِبٌ فَهُوَ أَحَدُ الْكَاذِبَيْنِ >۔
* تخريج: م/المقدمۃ ۱ (۱) (تحفۃ الأشراف: ۴۶۲۷)، و ت/العلم ۹ (۲۶۶۲)، حم (۵/۱۴، ۱۹، ۲۰) (صحیح)
۳۹ - سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ''جو شخص مجھ سے کوئی حدیث یہ جانتے ہوئے بیان کرے کہ وہ جھوٹ ہے تو وہ دو جھوٹوں میں سے ایک ہے'' ۔


40- حَدَّثَنَا عُثْمَانُ ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنِ الْحَكَمِ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ ابْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنْ عَلِيٍّ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: < مَنْ رَوَى عَنِّي حَدِيثًا وَهُوَ يُرَى أَنَّهُ كَذِبٌ فَهُوَ أَحَدُ الْكَاذِبَيْنِ >.
* تخريج: انظر حدیث رقم: (۳۸) (صحیح)
۴۰- علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ''جس شخص نے مجھ سے کوئی حدیث یہ جانتے ہوئے بیان کی کہ وہ جھوٹ ہے تو وہ دو جھوٹوں میں سے ایک ہے'' ۔
[ز] 40/أ- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ، أَنْبَأَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُوسَى الأَشْيَبُ، عَنْ شُعْبَةَ، مِثْلَ حَدِيثِ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدَبٍ ۔


۴۰/أ - اس سند سے سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ کی حدیث کے مثل علی رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے۔
41- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ، عَنْ مَيْمُونِ ابْنِ أَبِي شَبِيبٍ، عَنِ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < مَنْ حَدَّثَ عَنِّي بِحَدِيثٍ وَهُوَ يَرَى أَنَّهُ كَذِبٌ فَهُوَ أَحَدُ الْكَاذِبَيْنِ >۔
* تخريج: م/المقدمۃ ۱ (۱)، ت/العلم ۹ (۲۶۶۲)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۵۳۱)، وقد أخرجہ: حم (۴/ ۲۵۰، ۲۵۲، ۲۵۵) (صحیح)
۴۱- مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''جو شخص کوئی حدیث یہ جانتے ہوئے بیان کرے کہ وہ جھوٹ ہے تو وہ دو جھوٹوں میں سے ایک ہے'' ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
6- بَاب اتِّبَاعِ سُنَّةِ الْخُلَفَائِ الرَّاشِدِينَ الْمَهْدِيِّينَ
۶- باب: ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کی سنت کی اتباع​


42- حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ بَشِيرِ بْنِ ذَكْوَانَ الدِّمَشْقِيُّ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ الْعَلائِ -يَعْني ابن زَبُر-، حَدَّثَنِي يَحْيَى ابْنُ أَبِي الْمُطَاعِ قَالَ: سَمِعْتُ الْعِرْبَاضَ بْنَ سَارِيَةَ يَقُولُ: قَامَ فِينَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ ذَاتَ يَوْمٍ، فَوَعَظَنَا مَوْعِظَةً بَلِيغَةً وَجِلَتْ مِنْهَا الْقُلُوبُ وَذَرَفَتْ مِنْهَا الْعُيُونُ، فَقِيلَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! وَعَظْتَنَا مَوْعِظَةَ مُوَدِّعٍ، فَاعْهَدْ إِلَيْنَا بِعَهْدٍ، فَقَالَ: <عَلَيْكُمْ بِتَقْوَى اللَّهِ وَالسَّمْعِ وَالطَّاعَةِ، وَإِنْ عَبْدًا حَبَشِيًّا، وَسَتَرَوْنَ مِنْ بَعْدِي اخْتِلافًا شَدِيدًا، فَعَلَيْكُمْ بِسُنَّتِي وَسُنَّةِ الْخُلَفَائِ الرَّاشِدِينَ الْمَهْدِيِّينَ، عَضُّوا عَلَيْهَا بِالنَّوَاجِذِ وَإِيَّاكُمْ وَالأُمُورَ الْمُحْدَثَاتِ، فَإِنَّ كُلَّ بِدْعَةٍ ضَلالَةٌ>۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۹۸۹۱) (صحیح)
۴۲- عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک روز رسول اللہ ﷺ ہمارے درمیان کھڑے ہوئے، آپ نے ہمیں ایک مؤثر نصیحت فرمائی، جس سے دل لرز گئے اور آنکھیں ڈبڈبا گئیں، آپ ﷺ سے عرض کیا گیا: اللہ کے رسول! آپ نے تو رخصت ہونے والے شخص جیسی نصیحت کی ہے،لہٰذاآپ ہمیں کچھ وصیت فرمادیں، آپ ﷺ نے فرمایا: ''تم اللہ سے ڈرو، اور امیر (سربراہ) کی بات سنو اور اس کی اطاعت کرو، گرچہ تمہارا امیر ایک حبشی غلام ہی کیوں نہ ہو، عنقریب تم لوگ میرے بعد سخت اختلاف دیکھوگے، تو تم میری اور میرے ہدایت یافتہ خلفاء راشدین کی سنت کو لازم پکڑنا، اس کو اپنے دانتوں سے مضبوطی سے تھامے رہنا، اور دین میں نئی باتوں (بدعتوں) سے اپنے آپ کو بچانا، اس لئے کہ ہر بدعت گمراہی ہے'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اس میں تقویٰ اختیار کرنے اور امیر کی اطاعت کرنے کے علاوہ سنت نبوی اور سنت خلفاء راشدین کی اتباع کی تاکید اور بدعات سے بچنے کی تلقین ہے، ساتھ ہی اس بات کی پیش گوئی بھی ہے کہ یہ امت اختلاف وانتشار کا شکار ہوگی، ایسے موقع پر صحیح راہ یہ ہوگی کہ نبی اکرم ﷺ کی سنت اور خلفاء راشدین کے طریقے اور ان کے تعامل سے تجاوز نہ کیا جائے، کیونکہ اختلافات کی صورت میں حق کو پہنچاننے کی کسوٹی او ر معیار یہی دونوں چیزیں ہیں۔


43- حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ بِشْرِ بْنِ مَنْصُورٍ، وَإِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ السَّوَّاقُ قَالا: حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ صَالِحٍ، عَنْ ضَمْرَةَ بْنِ حَبِيبٍ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ ابْنِ عَمْرٍو السُّلَمِيِّ أَنَّهُ سَمِعَ الْعِرْبَاضَ بْنَ سَارِيَةَ يَقُولُ: وَعَظَنَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ مَوْعِظَةً ذَرَفَتْ مِنْهَا الْعُيُونُ وَوَجِلَتْ مِنْهَا الْقُلُوبُ، فَقُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ! إِنَّ هَذِهِ لَمَوْعِظَةُ مُوَدِّعٍ، فَمَاذَا تَعْهَدُ إِلَيْنَا؟ قَالَ: < قَدْ تَرَكْتُكُمْ عَلَى الْبَيْضَائِ، لَيْلُهَا كَنَهَارِهَا، لا يَزِيغُ عَنْهَا بَعْدِي إِلا هَالِكٌ، مَنْ يَعِشْ مِنْكُمْ فَسَيَرَى اخْتِلافًا كَثِيرًا، فَعَلَيْكُمْ بِمَا عَرَفْتُمْ مِنْ سُنَّتِي وَسُنَّةِ الْخُلَفَائِ الرَّاشِدِينَ الْمَهْدِيِّينَ، عَضُّوا عَلَيْهَا بِالنَّوَاجِذِ، وَعَلَيْكُمْ بِالطَّاعَةِ، وَإِنْ عَبْدًا حَبَشِيًّا، فَإِنَّمَا الْمُؤْمِنُ كَالْجَمَلِ الأَنِفِ، حَيْثُمَا قِيدَ انْقَادَ "۔
* تخريج: د/السنۃ ۶ (۴۶۰۷)، ت/العلم ۱۶(۲۶۷۶)، (تحفۃ الأشراف:۹۸۹۰)، وقد أخرجہ: حم (۴/۱۲۶، ۱۲۷)، دي/المقدمۃ ۱۶ (۹۶) (صحیح)
۴۳- عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ کہتے کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں ایسی نصیحت فرمائی جس سے ہماری آنکھیں ڈبدباگئیں، اور دل لرزگئے، ہم نے کہا: اللہ کے رسول! یہ تو رخصت ہونے والے کی نصیحت معلوم ہوتی ہے، تو آپ ہمیں کیا نصیحت کرتے ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ''میں نے تم کو ایک ایسے صاف اور روشن راستہ پر چھوڑا ہے جس کی رات بھی دن کی طرح روشن ہے، اس راستہ سے میرے بعد صرف ہلاک ہونے والا ہی انحراف کرے گا، تم میں سے جو شخص میرے بعد زندہ رہے گا وہ بہت سارے اختلافات دیکھے گا، لہٰذا میری اور میرے ہدایت یافتہ خلفاء راشدین ۱؎ کی سنت سے جو کچھ تمہیں معلوم ہے اس کی پابندی کرنا، اس کو اپنے دانتوں سے مضبوطی سے تھامے رکھنا، اور امیر کی اطاعت کرنا، چاہے وہ کوئی حبشی غلام ہی کیوں نہ ہو، اس لئے کہ مومن نکیل لگے ہوئے اونٹ کی طرح ہے، جدھر اسے لے جایا جائے ادھر ہی چل پڑتا ہے'' ۔
وضاحت ۱؎ : ہدایت یافتہ خلفاء سے مراد خلفاء راشدین ہیں، یعنی ابو بکر، عمر، عثمان اور علی رضی اللہ عنہم، حدیث میں وارد ہے: ''الخلافة ثلاثون عامًا...''، یعنی خلافت راشدہ تیس سال تک رہے گی۔


44- حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَكِيمٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُالْمَلِكِ بْنُ الصَّبَّاحِ الْمِسْمَعِيُّ، حَدَّثَنَا ثَوْرُ ابْنُ يَزِيدَ، عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ عَمْرٍو، عَنِ الْعِرْبَاضِ بْنِ سَارِيَةَ قَالَ: صَلَّى بِنَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ صَلاةَ الصُّبْحِ ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَيْنَا بِوَجْهِهِ فَوَعَظَنَا مَوْعِظَةً بَلِيغَةً، فَذَكَرَ نَحْوَهُ۔
* تخريج: انظر حدیث رقم: (۴۲) (صحیح)
۴۴- عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ نے ہمیں صلاۃ فجر پڑھائی، پھر ہماری جانب متوجہ ہوئے، اور ہمیں ایک مؤثر نصیحت کی...، پھر راوی نے سابقہ حدیث جیسی حدیث ذکر کی ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
7- بَاب اجْتِنَابِ الْبِدَعِ وَالْجَدَلِ
۷- باب: بدعات اور جدال (بے جا بحث وتکرار) سے اجتناب وپرہیز​


45- حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ سَعِيدٍ، وَأَحْمَدُ بْنُ ثَابِتٍ الْجَحْدَرِيُّ قَالا: حَدَّثَنَا عَبْدُالْوَهَّابِ الثَّقَفِيُّ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللَّه؛ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ إِذَا خَطَبَ احْمَرَّتْ عَيْنَاهُ وَعَلا صَوْتُهُ، وَاشْتَدَّ غَضَبُهُ -كَأَنَّهُ مُنْذِرُ جَيْشٍ- يَقُولُ: صَبَّحَكُمْ مَسَّاكُمْ، وَيَقُولُ: < بُعِثْتُ أَنَا وَالسَّاعَةَ كَهَاتَيْنِ "، وَيَقْرِنُ بَيْنَ إِصْبَعَيْهِ السَّبَّابَةِ وَالْوُسْطَى، ثُمَ يَقُولُ: < أَمَّا بَعْدُ! فَإِنَّ خَيْرَ الأُمُورِ كِتَابُ اللَّهِ، وَخَيْرَ الْهَدْيِ هَدْيُ مُحَمَّدٍ، وَشَرَّ الأُمُورِ مُحْدَثَاتُهَا، وَكُلَّ بِدْعَةٍ ضَلالَةٌ >، وَكَانَ يَقُولُ: < مَنْ تَرَكَ مَالا فَلأَهْلِهِ، وَمَنْ تَرَكَ دَيْنًا أَوْ ضَيَاعًا فَعَلَيَّ وَإِلَيَّ >۔
* تخريج: م/الجمعۃ ۱۳ (۸۶۷)، ن/العیدین ۲۱ (۱۵۷۹)، (تحفۃ الأشراف: ۲۵۹۹)، وقد أخرجہ: د/الخراج ۱۵ (۲۹۵۴)، حم (۳/۳۱۱، ۳۱۹، ۳۳۸، ۳۷۱، دي/المقدمۃ ۲۳ (۲۱۲)، (یہ حدیث مکرر ہے، دیکھئے: ۲۴۱۶) (صحیح)
۴۵- جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب خطبہ دیتے تو آپ کی آنکھیں سرخ، آواز بلند اور غصہ سخت ہوجاتا، گویا کہ آپ ﷺ کسی (حملہ آور) لشکر سے ڈرانے والے اس شخص کی طرح ہیں جو کہہ رہا ہے کہ لشکر تمہارے اوپر صبح کو حملہ کرنے والا ہے، شام کو حملہ کرنے والا ہے۔
اور آپ ﷺ فرماتے: ''میں اورقیامت دونوں اس طرح قریب بھیجے گئے ہیں''، اور (سمجھانے کے لئے) آپ ﷺ اپنی شہادت والی او ر بیچ والی انگلی ملاتے پھر فرماتے: ''حمد وصلاۃ کے بعد! جان لو کہ سارے امورمیں سے بہتر اللہ کی کتاب (قرآن) ہے، اور راستوں میں سے سب سے بہتر محمد کا راستہ (سنت) ہے، اور سب سے بری چیز دین میں نئی چیزیں (بدعات) ہیں ۱ ؎ ، اور ہر بدعت (نئی چیز) گمراہی ہے''۔
اور آپ ﷺ فرماتے تھے: ''جو مرنے والا مال واسباب چھوڑے تو وہ اس کے وارثوں کا ہے، اور جو قرض یا اہل وعیال چھوڑے تو قرض کی ادا ئیگی ، اور بچوں کی پرورش میرے ذمہ ہے'' ۔
وضاحت ۱؎ : ''محدثات'' نئی چیزوں سے مراد ہر وہ چیز جو نبی ﷺ کے بعد دین میں ایجاد کرلی گئی ہو، اور کتاب وسنت میں اس کی کوئی دلیل نہ ہو۔


46- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدِ بْنِ مَيْمُونٍ الْمَدَنِيُّ أَبُو عُبَيْدٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ مُحَمَّدِ ابْنِ جَعْفَرِ ابْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ مُوسَى بْنِ عُقْبَةَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ أَبِي الأَحْوَصِ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: < إِنَّمَا هُمَا اثْنَتَانِ: الْكَلامُ وَالْهَدْيُ، فَأَحْسَنُ الْكَلامِ كَلامُ اللَّهِ، وَأَحْسَنُ الْهَدْيِ هَدْيُ مُحَمَّدٍ، أَلا وَإِيَّاكُمْ وَمُحْدَثَاتِ الأُمُورِ، فَإِنَّ شَرَّ الأُمُورِ مُحْدَثَاتُهَا، وَكُلَّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ، وَكُلَّ بِدْعَةٍ ضَلالَةٌ، أَلا لايَطُولَنَّ عَلَيْكُمُ الأَمَدُ فَتَقْسُوَ قُلُوبُكُمْ، أَلا إِنَّ مَا هُوَ آتٍ قَرِيبٌ، وَإِنَّمَا الْبَعِيدُ مَا لَيْسَ بِآتٍ، أَلا إنَّمَا الشَّقِيُّ مَنْ شَقِيَ فِي بَطْنِ أُمِّهِ، وَالسَّعِيدُ مَنْ وُعِظَ بِغَيْرِهِ، أَلا إِنَّ قِتَالَ الْمُؤْمِنِ كُفْرٌ، وَسِبَابُهُ فُسُوقٌ، وَلا يَحِلُّ لِمُسْلِمٍ أَنْ يَهْجُرَ أَخَاهُ فَوْقَ ثَلاثٍ، أَلا وَإِيَّاكُمْ وَالْكَذِبَ، فَإِنَّ الْكَذِبَ لا يَصْلُحُ بِالْجِدِّ وَلا بِالْهَزْلِ، وَلا يَعِدِ الرَّجُلُ صَبِيَّهُ ثُمَّ لا يَفِيَ لَهُ، فَإِنَّ الْكَذِبَ يَهْدِي إِلَى الْفُجُورِ، وَإِنَّ الْفُجُورَ يَهْدِي إِلَى النَّارَ، وَإِنَّ الصِّدْقَ يَهْدِي إِلَى الْبِرِّ، وَإِنَّ الْبِرَّ يَهْدِي إِلَى الْجَنَّةِ، وَإِنَّهُ يُقَالُ لِلصَّادِقِ: صَدَقَ وَبَرَّ، وَيُقَالُ لِلْكَاذِبِ: كَذَبَ وَفَجَرَ، أَلا وَإِنَّ الْعَبْدَ يَكْذِبُ حَتَّى يُكْتَبَ عِنْدَ اللَّهِ كَذَّابًا>۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۹۵۲۴، ومصباح الزجاجہ: ۱۷) (ضعیف)
(عبید بن میمون مجہول الحال راوی ہیں، اس لئے یہ سند ضعیف ہے، اور یہ سیاق بھی کہیں اورموجود نہیں ہے، لیکن حدیث کے فقرات اور متابعات وشواہد کی وجہ سے صحیح ہیں، نیز ملاحظہ ہو: فتح الباری: ۱۰/۵۱۱ و ۱۳/ ۲۵۲، و صحیح البخاری : ۶۰۹۴، ومسلم : ۲۶۰۶-۲۶۴۷، وابوداود: ۴۹۸۹، والترمذی: ۹۷۲، والموطا/ الکلام : ۱۶، ومسند احمد: ۱/۳۸۴ - ۴۰۵، والدارمی: ۲۷۵۷)
۴۶- عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''بس دو ہی چیزیں ہیں، ایک کلام اور دوسری چیز طریقہ، تو سب سے بہتر کلام اللہ کا کلام (قرآن مجید) ہے، اور سب سے بہتر طریقہ (سنت) محمد ﷺ کا طریقہ ہے، سنو! تم اپنے آپ کو دین میں نئی چیزوں سے بچانا، اس لئے کہ دین میں سب سے بری چیز محدثات(نئی چیزیں) ہیں، اور ہر محدث (نئی چیز) بدعت ہے، اور ہر بدعت گمراہی ہے۔
سنو! کہیں شیطان تمہارے دلوں میں زیادہ زندہ رہنے اور جینے کا وسوسہ نہ ڈال دے، اور تمہارے دل سخت ہو جائیں ۱؎ ۔
خبردار! آنے والی چیز قریب ہے ۲؎ ، دورتو وہ چیز ہے جو آنے والی نہیں ۔
خبردار! بدبخت تو وہی ہے جو اپنی ماں کے پیٹ میں بدبخت لکھ دیا گیا، اور نیک بخت وہ ہے جو دوسروں کو دیکھ کر نصیحت حاصل کرے۔
آگاہ رہو! مومن سے جنگ وجدال ا ور لڑائی جھگڑاکرنا کفر ہے، اور اسے گالی دینا فسق (نافرمانی) ہے، کسی مسلمان کے لئے جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی سے تین دن سے زیادہ ترک تعلق کرے ۳؎ ۔
سنو! تم اپنے آپ کو جھوٹ سے بچانا، اس لئے کہ جھوٹ سنجیدگی یا ہنسی مذاق(مزاح) میں کسی بھی صورت میں درست نہیں ہے ۴؎ ، کوئی شخص اپنے بچے سے ایسا وعدہ نہ کرے جسے پورا نہ کرے ۵؎ ، جھوٹ گناہ کی طرف لے جاتا ہے، اور گناہ جہنم کی طرف لے جاتا ہے، اور سچائی نیکی کی طرف لے جاتی ہے، او ر نیکی جنت کی طرف لے جاتی ہے، چنانچہ سچے آدمی کے بارے میں کہا جا تا ہے کہ اس نے سچ کہا اور نیک وکار ہوا، اورجھوٹے آدمی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس نے جھوٹ کہا اورگنہ گار ہوا۔
سنو! بندہ جھوٹ بولتا رہتا ہے یہاں تک کہ اللہ تعالی کے پاس کذاب (جھوٹا) لکھ دیا جاتا ہے'' ۔
وضاحت ۱ ؎ : یعنی شیطان تمہیں دھوکا نہ دے کہ ''ابھی تمہاری زندگی بہت باقی ہے، دنیا میں عیش وعشرت کرلو، دنیا کے مزے لے لو، آخرت کی فکر پھر کر لینا''، کیونکہ اس سے آدمی کا دل سخت ہوجاتا ہے، اور زادِ آخرت کے حاصل کرنے سے محروم رہتا ہے۔
وضاحت ۲ ؎ : ''آنے والی چیز'' یعنی موت یا قیامت۔
وضاحت ۳ ؎ : بلا وجہ ترک تعلق جائز نہیں اور اگر کوئی معقول وجہ ہے تو تین دن کی تنبیہ کافی ہے، اور اگر ترک تعلق کا سبب فسق وفجور ہے تو جب تک وہ توبہ نہ کرلے اس وقت تک نہ ملے۔
وضاحت ۴ ؎ : اس سے مطلقاً جھوٹ کی حرمت ثابت ہوتی ہے، خواہ ظرافت ہو یا عدم ظرافت۔
وضاحت ۵ ؎ : اس میں اولاد سے بھی وعدہ میں جھوٹ نہ بولنے کی ہدایت ہے۔


47- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خَالِدِ بْنِ خِدَاشٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عُلَيَّةَ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ، (ح) وحَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ ثَابِتٍ الْجَحْدَرِيُّ، وَيَحْيَى بْنُ حَكِيمٍ قَالا: حَدَّثَنَا عَبْدُالْوَهَّابِ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: تَلا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ هَذِهِ الآيَةَ: {هُوَ الَّذِي أَنْزَلَ عَلَيْكَ الْكِتَابَ مِنْهُ آيَاتٌ مُحْكَمَاتٌ هُنَّ أُمُّ الْكِتَابِ وَأُخَرُ مُتَشَابِهَاتٌ} إِلَى قَوْلِهِ: {وَمَا يَذَّكَّرُ إِلا أُولُوا الأَلْبَابِ}.
فَقَالَ: < يَا عَائِشَةُ! إِذَا رَأَيْتُمُ الَّذِينَ يُجَادِلُونَ فِيهِ، فَهُمُ الَّذِينَ عَنَاهُمُ اللَّهُ، فَاحْذَرُوهُمْ >۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ (تحفۃ الأشراف: ۱۶۲۳۶)، وقد أخرجہ: خ/تفسیر آل عمرآن ۱ (۴۵۴۷)، م/العلم ۱ (۲۶۶۵)، د/السنۃ ۲ (۴۵۹۸)، ت/التفسیر ۴ (۲۹۹۳، ۲۹۹۴)، حم (۶ / ۴۸)، دي/المقدمۃ ۱۹ (۱۴۷) (صحیح)
۴۷- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے یہ آیت کریمہ تلاوت کی: {هُوَ الَّذِي أَنْزَلَ عَلَيْكَ الْكِتَابَ مِنْهُ آيَاتٌ مُحْكَمَاتٌ هُنَّ أُمُّ الْكِتَابِ وَأُخَرُ مُتَشَابِهَاتٌ}، اللہ تعالی کے یہ فرمان تک: {وَمَا يَذَّكَّرُ إِلا أُولُوا الأَلْبَابِ} [سورة آل عمران: 7]، یعنی: ''وہی اللہ ہے جس نے تم پر کتاب اتاری، جس میں اس کی بعض آیات معلوم ومتعین معنی والی محکم ہیں جو اصل کتاب ہیں، اور بعض آیات متشابہ ہیں، پس جن کے دلوں میں کجی اور ٹیڑھ ہے وہ تو اس کی متشابہ آیتوں کے پیچھے لگ جاتے ہیں تاکہ فتنہ پھیلائیں اور ان کے معنی مراد کی جستجو کریں، حالاں کہ ان کے حقیقی معنی مراد کو سوائے اللہ کے کوئی نہیں جانتا ، اور پختہ ومضبوط علم والے یہی کہتے ہیں کہ ہم تو ان پر ایمان رکھتے ہیں، یہ تمام ہمارے رب کی طرف سے نازل ہوئی ہیں، اور نصیحت تو صرف عقل مند حاصل کرتے ہیں''۔
اور (آیت کی تلاوت کے بعد) آپ ﷺ نے فرمایا: ''عائشہ!جب ان لوگوں کو دیکھو جو متشابہ آیات میں جھگڑتے اور بحث وتکرار کرتے ہیں تو یہی وہ لوگ ہیں جن کو اللہ نے اس آیت کریمہ میں مراد لیا ہے، تو ان سے بچو'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : پوری آیت اس طرح ہے: {هُوَ الَّذِيَ أَنزَلَ عَلَيْكَ الْكِتَابَ مِنْهُ آيَاتٌ مُّحْكَمَاتٌ هُنَّ أُمُّ الْكِتَابِ وَأُخَرُ مُتَشَابِهَاتٌ فَأَمَّا الَّذِينَ في قُلُوبِهِمْ زَيْغٌ فَيَتَّبِعُونَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ ابْتِغَائَ الْفِتْنَةِ وَابْتِغَائَ تَأْوِيلِهِ وَمَا يَعْلَمُ تَأْوِيلَهُ إِلاَّ اللّهُ، وَالرَّاسِخُونَ فِي الْعِلْمِ يَقُولُونَ آمَنَّا بِهِ كُلٌّ مِّنْ عِندِ رَبِّنَا وَمَا يَذَّكَّرُ إِلاَّ أُوْلُواْ الألْبَابِ} (سورہ آل عمران: ۷)۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید کو دو قسموں محکم اورمتشابہ میں تقسیم کیا ہے، محکم اسے کہتے ہیں جس کی دلالت اور جس کا معنی پوری طرح واضح اور ظاہر ہو، اور جس میں کسی طرح کی تاویل اور تخصیص کا احتمال نہ ہو، اور اس پر عمل کرنا واجب ہے، اور متشابہ یہ ہے کہ جس کے معنی تک مجتہد نہ پہنچ پائے، یا وہ مجمل کے معنی میں ہے جس کی دلالت واضح نہ ہو، یا متشابہ وہ ہے جس کی معرفت کے لئے غور وفکر ، تدبر اور قرائن کی ضرورت ہو، جس کی موجودگی میں اس کے مشکل معنی کو سمجھا جاسکے، اور محکم کو اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اصل کتاب فرمایا، پس اہل علم کے لئے ضروری ہے کہ وہ متشابہ کو محکم سے ملا کر اس کے معنی کو سمجھیں، اور یہی طریقہ سلف کا ہے کہ متشابہ کو محکم کی طرف پھیر دیتے تھے اور یہ جو فرمایا کہ جن لوگوں کے دل میں کجی ہے وہ پیروی کرتے ہیں اس متشابہ کی، اس سے مراد یہ ہے کہ وہ متشابہ کو محکم کی طرف نہیں پھیرتے کہ اس سے مشتبہ وجوہ سے صحیح وجوہ ان کے ہاتھ آجائے بلکہ دوسری وجوہ باطلہ پر اس کو اتارتے ہیں اور اس میں وہ تمام اقوام باطلہ داخل ہیں جو حق سے پھری ہوئی ہیں اور {وَمَاْ يَعْلَمُ تَأْوِيْلَهُ إِلا اللهُ} میں مفسرین کے دو قول ہیں: پہلا یہ کہ یہاں وقف ہے، یعنی {إلا الله}پر اور یہیں پر کلام تمام ہوگیا، اور اس صورت میں آیت سے مراد یہ ہوگا کہ تاویل یعنی متشابہات کی حقیقت کو اللہ تبارک وتعالیٰ کے علاوہ کوئی اور نہیں جانتا، اور اکثر مفسرین اسی کی طرف گئے ہیں، اور دوسرا قول یہ ہے کہ یہاں وقف نہیں ہے،اور {والراسخون في العلم} معطوف ہے اپنے ماقبل والے جملہ پر یعنی ان متشابہات کا علم اور ان کی تاویل وتفسیر اللہ تبارک وتعالیٰ اور علماء راسخین کو معلوم ہے، بعض مفسرین اس طرف بھی گئے ہیں۔


48- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْمُنْذِرِ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ، (ح) وحَدَّثَنَا حَوْثَرَةُ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ قَالا: حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ دِينَارٍ، عَنْ أَبِي غَالِبٍ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: <مَا ضَلَّ قَوْمٌ بَعْدَ هُدًى كَانُوا عَلَيْهِ إِلا أُوتُوا الْجَدَلَ>، ثُمَّ تَلا هَذِهِ الآيَةَ: {بَلْ هُمْ قَوْمٌ خَصِمُونَ} الآيَةَ۔
* تخريج: ت/التفسیر ۴۴ (۳۲۵۳)، (تحفۃ الأشراف: ۴۹۳۶)، وقد أخرجہ: حم (۵/۲۵۲، ۲۵۶) (حسن)
۴۸- ابو امامہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''کوئی قوم ہدایت پررہنے کے بعد گمراہ اس وقت ہوئی جب وہ جدال (بحث اور جھگڑے) میں مبتلا ہوئی''، پھر آپ ﷺنے اس آیت کی تلاوت کی: {بَلْ هُمْ قَوْمٌ خَصِمُونَ} [سورة الزخرف: 58]: '' بلکہ وہ جھگڑالو لوگ ہیں'' ۱ ؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : پوری آیت یوں ہے: {وَلَمَّا ضُرِبَ ابْنُ مَرْيَمَ مَثَلاً إِذَا قَوْمُكَ مِنْهُ يَصِدُّونَ (57) وَقَالُوا أَآلِهَتُنَا خَيْرٌ أَمْ هُوَ مَا ضَرَبُوهُ لَكَ إِلا جَدَلاً بَلْ هُمْ قَوْمٌ خَصِمُونَ} [سورة الزخرف: 58]: (اور جب عیسی ابن مریم کی مثال بیان کی گئی تو آپ کی قوم اس پر خوشی سے چیخنے چلانے لگی ہے، اور کہتی ہے کیا ہمارے معبود بہتر ہیں یا وہ؟ ان کا آپ سے یہ کہنا محض جھگڑے کی غرض سے ہے، بلکہ وہ لوگ جھگڑالو ہیں ہی)۔
اکثر مفسرین کا خیال ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو ابن الزبعری نے رسول اللہ ﷺ سے بحث ومجادلہ کیا تھا، اور اس کی کیفیت یہ ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی : {إِنَّكُمْ وَمَا تَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّهِ حَصَبُ جَهَنَّمَ} [سورة الأنبياء : 98]: ( تم اور تمہارے معبودان باطل جہنم کا ایندھن ہیں)، تو ابن الزبعری نے آپ ﷺ سے کہا کہ میں آپ سے بحث وحجت میں جیت گیا، قسم ہے رب کعبہ کی! بھلا دیکھو تو نصاری مسیح کو، اور یہود عزیر کو پوجتے ہیں، اور اسی طرح بنی ملیح فرشتوں کو، سو اگر یہ لوگ جہنم میں ہیں تو چلو ہم بھی راضی ہیں کہ ہمارے معبود بھی ان کے ساتھ رہیں، سو کفار فجار اس پر بہت ہنسے اور قہقہے لگانے لگے، تو اللہ تعالی نے یہ آیت اتاری : {إِنَّ الَّذِينَ سَبَقَتْ لَهُم مِّنَّا الْحُسْنَى أُوْلَئِكَ عَنْهَا مُبْعَدُونَ} [سورة الأنبياء : 101] (بیشک جن کے لیے ہماری طرف سے نیکی پہلے ہی ٹھہرچکی ہے ، وہ سب جہنم سے دورہی رکھے جائیں گے )۔
حقیقت میں ابن الزبعری کا اعتراض حماقت سے بھرا تھا کہ اللہ تعالی نے {وما تعبدون} فرمایا ہے، یعنی جن چیزوں کو تم پوجتے ہو اور لفظ ''ما'' عربی میں غیر ذوی العقول کے لئے آتا ہے، ملائکہ اور انبیاء ذوی العقول ہیں، اس لئے وہ اس میں کیوں کر داخل ہوں گے، اور باوجود اہل لسان ہونے کے اس کو اس طرف خیال نہ ہوا۔
جدال کہتے ہیں حق کے مقابلے میں باطل اور جھوٹی باتیں بنانے کو اور اسی قبیل سے ہے قیاس اور رائے کو دلیل وحجت کے آگے پیش کرنا، یا کسی امام اور عالم کا قول حدیث صحیح کے مقابل میں پیش کرنا ، خلاصہ کلام یہ کہ حق کے رد وابطال میں جو بات بھی پیش کی جائے گی وہ جدال ہے، جس کی قرآن کریم میں بکثرت مذمت وارد ہوئی ہے۔


49- حَدَّثَنَا دَاوُدُ بْنُ سُلَيْمَانَ الْعَسْكَرِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيٍّ أَبُو هَاشِمِ بْنِ أَبِي خِدَاشٍ الْمَوْصِلِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مِحْصَنٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ أَبِي عَبْلَةَ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ الدَّيْلَمِيِّ، عَنْ حُذَيْفَةَ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < لا يَقْبَلُ اللَّهُ لِصَاحِبِ بِدْعَةٍ صَوْمًا وَلا صَلاةً، وَلا صَدَقَةً، وَلا حَجًّا وَلا عُمْرَةً، وَلا جِهَادًا، وَلا صَرْفًا، وَلا عَدْلا؛ يَخْرُجُ مِنَ الإِسْلامِ كَمَا تَخْرُجُ الشَّعَرَةُ مِنَ الْعَجِينِ >۔
* تخريج: تفر د بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۳۳۶۹، ومصباح الزجاجۃ: ۱۸) (موضوع)
(اس کی سند میں محمد بن محصن العکاشی کذاب راوی ہے، نیزملاحظہ ہو: الضعیفہ : ۱۴۹۳)
۴۹- حذیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''اللہ کسی بدعتی کا صیام، صلاۃ، صدقہ وزکاۃ، حج، عمرہ، جہاد، نفل وفرض کچھ بھی قبول نہیں کرتا، وہ اسلام سے اسی طرح نکل جاتا ہے جس طرح گوندھے ہوئے آٹے سے بال نکل جاتا ہے''۔


50- حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ مَنْصُورٍ الْحَنَّاطُ، عَنْ أَبِي زَيْدٍ، عَنْ أَبِي الْمُغِيرَةِ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < أَبَى اللَّهُ أَنْ يَقْبَلَ عَمَلَ صَاحِبِ بِدْعَةٍ حَتَّى يَدَعَ بِدْعَتَهُ >۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۶۵۶۹، ومصباح الزجاجۃ: ۱۹) (ضعیف)
(سند میں ابوزید اور ابو المغیرہ دونوں مجہول راوی ہیں، اس لئے یہ حدیث ضعیف ہے، نیز ملاحظہ ہو: تراجع الا ٔلبانی: رقم: ۱۴۸ ، والضعیفہ : ۱۴۹۲)
۵۰- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''اللہ کسی بدعتی کا عمل قبول نہیں فرماتا جب تک کہ وہ اپنی بدعت ترک نہ کردے'' ۔


51- حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الدِّمَشْقِيُّ، وَهَارُونُ بْنُ إِسْحَاقَ قَالا: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي فُدَيْكٍ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ وَرْدَانَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: <مَنْ تَرَكَ الْكَذِبَ وَهُوَ بَاطِلٌ بُنِيَ لَهُ قَصْرٌ فِي رَبَضِ الْجَنَّةِ، وَمَنْ تَرَكَ الْمِرَائَ وَهُوَ مُحِقٌّ بُنِيَ لَهُ فِي وَسَطِهَا، وَمَنْ حَسَّنَ خُلُقَةُ بُنِيَ لَهُ فِي أَعْلاهَا>۔
* تخريج: ت/البر والصلۃ ۵۸ (۱۹۹۳)، (تحفۃ الأشراف: ۸۶۸) (ضعیف)
(اس حدیث کی امام ترمذی نے تحسین فرمائی ہے، لیکن اس کی سند میں سلمہ بن وردان منکرالحدیث راوی ہیں، اور متن مقلوب ہے جس کی وضاحت ابو امامہ رضی اللہ عنہ کی حدیث سے ہوتی ہے، ملاحظہ ہو: سنن ابی داود: ۴۸۰۰)
۵۱- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''جس نے جھوٹ بولنا چھوڑدیا اور وہ باطل پر تھا تو اس کے لئے جنت کے کناروں میں ایک محل بنایا جائے گا، اور جس نے حق پر ہونے کے باوجود بحث اور کٹ حجتی چھوڑ دی اس کے لئے جنت کے بیچ میں محل بنایا جائے گا، اور جس نے اپنے آپ کو حسن اخلاق سے مزین کیا اس کے لئے جنت کے اوپری حصہ میں محل بنایا جائے گا'' ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
8- بَاب اجْتِنَابِ الرَّأْيِ وَالْقِيَاسِ
۸- باب: رائے اور قیاس سے اجتناب وپرہیز​


52- حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ إِدْرِيسَ، وَعَبْدَةُ، وَأَبُو مُعَاوِيَةَ، وَعَبْدُاللَّهِ ابْنُ نُمَيْرٍ، وَمُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ، (ح) وحَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَلِيُّ ابْنُ مُسْهِرٍ، وَمَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، وَحَفْصُ بْنُ مَيْسَرَةَ، وَشُعَيْبُ بْنُ إِسْحَاق، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: < إِنَّ اللَّهَ لايَقْبِضُ الْعِلْمَ انْتِزَاعًا يَنْتَزِعُهُ مِنَ النَّاسِ، وَلَكِنْ يَقْبِضُ الْعِلْم بِقَبْضِ الْعُلَمَائِ، فَإِذَا لَمْ يُبْقِ عَالِمًا اتَّخَذَ النَّاسُ رُؤُوسًا جُهَّال فَسُئِلُوا؛ فَأَفْتَوْا بِغَيْرِ عِلْمٍ، فَضَلُّوا وَأَضَلُّوا >۔
* تخريج: خ/ العلم ۳۴ (۱۰۰)، الاعتصام ۷ (۷۳۰۷)، م/العلم ۵ (۲۶۷۳)، ت/العلم ۵ (۲۶۵۲)، (تحفۃ الأشراف: ۸۸۸۳)، وقد أخرجہ: حم (۲/۲۵۷، ۲۶۱)، دي/المقدمۃ ۲۶ (۲۴۵) (صحیح)
۵۲- عبداللہ بن عمر وبن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''اللہ تعالی علم کو اس طرح نہیں مٹائے گا کہ اسے یک بارگی لوگوں سے چھین لے گا، بلکہ اسے علماء کو موت دے کر مٹائے گا، جب اللہ تعالی کسی بھی عالم کوباقی اور زندہ نہیں چھوڑے گا تو لوگ جاہلوں کو سردار بنالیں گے، ان سے مسائل پوچھے جائیں گے، اور وہ بغیر علم کے فتویٰ دیں گے، تو گمراہ ہوں گے، اور لوگوں کو بھی گمراہ کریں گے'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : یعنی جب کتاب وسنت سے آگاہی رکھنے والے علماء ختم ہوجائیں گے تو کتاب وسنت کا علم لوگوں میں نہ رہے گا، لوگ نام ونہاد علماء اور مفتیان سے مسائل پوچھیں گے، اور یہ جاہل اور ہوا پرست اپنی رائے یا اور لوگوں کی رائے سے ان سوالات کے جوابات دیں گے، اس طرح سے لوگ گمراہ ہوجائیں گے، اور لوگوں میں ہزاروں مسائل خلاف کتاب وسنت پھیل جائیں گے، اس لئے اس حدیث کی روشنی میں مسلمانوں کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ کتاب وسنت کے علم کے حاصل کرنے میں پوری جد وجہد کریں ،اور علم اور علماء کی سرپرستی قبول کریں، اور کتاب وسنت کے ماہرین سے رجوع ہوں، ورنہ دنیا وآخرت میں خسارے کا بڑا امکان ہے، اس لئے کہ جہالت کی بیماری کی وجہ سے امت مختلف قسم کے امراض میں مبتلا رہتی ہے، جس کا علاج وحی ہے، جیسے آنکھ بغیر روشنی کے بے نور رہتی ہے، ایسے ہی انسانی عقل بغیر وحی کی روشنی کے گمراہ، پس نورِ ہدایت کتاب وسنت میں ہے، جس کے لئے ہم سب کو سنجیدہ کوشش کرنی چاہئے ۔


53- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ يَزِيدَ، عَنْ سَعِيدِ ابْنِ أَبِي أَيُّوبَ، حَدَّثَنِي أَبُو هَانِئٍ، حُمَيْدُ بْنُ هَانِئٍ الْخَوْلانِيُّ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ مُسْلِمِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < مَنْ أُفْتِيَ بِفُتْيَا غَيْرَ ثَبَتٍ فَإِنَّمَا إِثْمُهُ عَلَى مَنْ أَفْتَاهُ >۔
* تخريج: د/العلم ۸ (۳۶۵۷)، (تحفۃ الأشراف: ۱۴۶۱۱)، وقد أخرجہ: حم (۲/۳۲۱، ۳۶۵)، دي/ المقدمۃ ۲۰ (۱۶۱) (حسن)
۵۳- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''جسے (بغیرتحقیق کے) کوئی غلط فتویٰ دیا گیا (اور اس نے اس پر عمل کیا) تو اس کا گناہ فتویٰ دینے والے پر ہوگا'' ۔


54- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلائِ الْهَمْدَانِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنِي رِشْدِينُ بْنُ سَعْدٍ، وَجَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ، عَنِ ابْنِ أَنْعُمٍ -هُوَ الإِفْرِيقِيُّ- عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ رَافِعٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عَمْرٍو؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < الْعِلْمُ ثَلاثَةٌ، فَمَا وَرَائَ ذَلِكَ فَهُوَ فَضْلٌ، آيَةٌ مُحْكَمَةٌ، أَوْ سُنَّةٌ قَائِمَةٌ، أَوْ فَرِيضَةٌ عَادِلَةٌ >.
* تخريج: د/الفرائض ۱ (۲۸۸۵)، (تحفۃ الأشراف: ۸۸۷۶) (ضعیف)
(سند میں تین راوی: رشدین بن سعد، عبدالرحمن بن زیاد بن أنعم الإفریقی اور عبد الرحمن بن رافع ضعیف ہیں)
۵۴- عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''علم تین طرح کا ہے، اور جو اس کے علاوہ ہے وہ زائد قسم کا ہے: محکم آیات ۱؎ ،صحیح ثابت سنت ۲؎ ، اور منصفانہ وراثت ۳؎''۔
وضاحت ۱؎ : یعنی غیر منسوخ قرآن کا علم ۔
وضاحت ۲؎ : یعنی صحیح احادیث کا علم۔
وضاحت ۳؎ : فرائض کا علم جس سے ترکے کی تقسیم انصاف کے ساتھ ہو سکے۔


55- حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ حَمَّادٍ، سَجَّادَةُ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الأُمَوِيُّ، عَنْ مُحَمَّدِ ابْنِ سَعِيدِ بْنِ حَسَّانَ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ نُسَيٍّ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ غَنْمٍ، حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ قَالَ: لَمَّا بَعَثَنِي رَسُولُ اللَّهِ ﷺ إِلَى الْيَمَنِ قَالَ: < لا تَقْضِيَنَّ وَلا تَفْصِلَنَّ إِلا بِمَا تَعْلَمُ، فَإِنْ أَشْكَلَ عَلَيْكَ أَمْرٌ فَقِفْ حَتَّى تَبَيَّنَهُ أَوْ تَكْتُبَ إِلَيَّ فِيهِ >۔
* تخريج: تفر د بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۳۳۹)، (مصباح الزجاجۃ: ۲۰) (موضوع)
(سند میں محمدبن سعید بن حسان المصلوب وضاع اور متروک الحدیث راوی ہے )
۵۵- معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: جب رسول اللہ ﷺ نے مجھ کو یمن بھیجا تو فرمایا: ''جن امور ومسائل کا تمہیں علم ہو انہیں کے بارے میں فیصلے کرنا، اگر کوئی معاملہ تمہارے اوپر مشتبہ ہوجائے تو ٹھہرنا انتظار کرنا یہاں تک کہ تم اس کی حقیقت معلوم کر لو، یا اس سلسلہ میں میرے پاس لکھو''۔


56- حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي الرِّجَالِ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ عَمْرٍو الأَوْزَاعِيِّ، عَنْ عَبْدَةَ بْنِ أَبِي لُبَابَة، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: < لَمْ يَزَلْ أَمْرُ بَنِي إِسْرَائِيلَ مُعْتَدِلا حَتَّى نَشَأَ فِيهِمُ الْمُوَلَّدُونَ، أَبْنَائُ سَبَايَا الأُمَمِ، فَقَالُوا بِالرَّأْيِ، فَضَلُّوا وَأَضَلُّوا >۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۸۸۸۲)، (مصباح الزجاجۃ: ۲۱) (ضعیف)
(سند میں سوید بن سعید ضعیف اور مدلس ہیں،اور کثرت سے تدلیس کرتے ہیں، ابن ابی الرجال کے بارے میں بوصیری نے کہا ہے کہ وہ حارثہ بن محمد عبد الرحمن ہیں، اور وہ ضعیف راوی ہیں، لیکن صحیح یہ ہے کہ وہ عبد الرحمن بن ابی الرجال محمد بن عبدالرحمن بن عبد اللہ بن حارثہ بن النعمان الانصاری المدنی ہیں، جو صدوق ہیں لیکن کبھی خطا ٔ کا بھی صدور ہوا ہے، ابن حجر فرماتے ہیں: ''صدوق ربما أخطأ''، نیز ملاحظہ ہو ''مصباح الزجاجۃ'' بتحقیق د؍عوض الشہری : ۱/ ۱۱۷- ۱۱۸ )
۵۶- عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا: ''بنی اسرائیل کا معاملہ ہمیشہ ٹھیک ٹھاک رہا یہاں تک کہ ان میںوہ لوگ پیدا ہوگئے جو جنگ میں حاصل شدہ عورتوں کی اولاد تھے، انہوں نے رائے (قیاس) سے فتوی دینا شروع کیا، تووہ خود بھی گمراہ ہوئے ،اور دوسروں کو بھی گمراہ کیا'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : یعنی بنی اسرائیل میں ساری برائی رائے کے پھیلنے سے اور وحی سے اعراض کرنے سے ہوئی، اور ہر امت کی بربادی اسی طرح ہوتی ہے کہ جب وہ اپنی رائے کو وحی الٰہی پر مقدم کرتے ہیں تو برباد ہوجاتے ہیں، اس امت میں بھی جب سے کتاب وسنت سے اعراض پیدا ہوا ، اور لوگوں نے باطل آراء اور فاسد قیاس سے فتوی دینا شروع کیا، اور پچھلوں نے ان کی آراء اور قیاس کو وحی الٰہی اور ارشاد رسالت پر ترجیح دی، جب ہی سے ایک صورت انتشار اور پھوٹ کی پیدا ہوئی اور مختلف مذاہب وجود میں آگئے ، اور امت میں اتحاد واتفاق کم ہوتا گیا، اور ہر ایک نے کتاب وسنت سے اعراض کرکے کسی ایک کو اپنا امام وپیشوا مقرر کرکے اسی کو معیار کتاب وسنت ٹھہرا یا، جب کہ اصل یہ ہے کہ ہر طرح کے مسائل میں مرجع اور مآخذ کتاب وسنت اور سلف صالحین کا فہم ومنہج ہے، اور اس کی طرف رجوع ہونے میں امت کے اتحاد کی ضمانت ہے، اس لئے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہے : ''تركت فيكم أمرين لن تضلّوا ما إن تمسكتم بهما كتاب الله وسنتي'': (میں تمہارے درمیان دو چیزیں یعنی کتاب وسنت چھوڑے جارہا ہوں جب تک تم انہیں(عملاً) پکڑے رہو گے کبھی بھی گمراہ نہیں ہوگے)۔


56/أ- حَدَّثَنَاْ مُحَمَّدُ ابْنُ أَبِيْ عُمَرَ الْعَدَنِىِّ، عَنْ سُفْيَاْنَ بْنِ عُيَيْنَةَ قَاْلَ: لَمْ يَزَلْ أَمْرُ النَّاْسِ مُعْتَدِلاً حَتَّىْ نَشَأَ فُلاْنٌ بِالْكُوْفَةِ، وَرَبِيْعَةُ الرَّأْيِ بِالْمَدِيْنَةِ، وَعُثْمَاْنُ الْبَتِّيْ بِالْبَصْرَةِ، فَوَجَدْنَاْهُمْ مِنْ أَبْنَاْئِ سَبَاْيَاْ الأُمَمِ .
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۸۷۷۸، ومصباح الزجاجۃ: ۲۲) (صحیح)
۵۶/أ - سفیان بن عیینہ کہتے ہیں: لوگوں کامعاملہ برابر ٹھیک رہا یہاں تک کہ کوفہ میں فلاں شخص ، مدینہ میں ربیعۃ الرای، اور بصرہ میں عثمان البتی پیدا ہوئے، ہم نے انہیں جنگ میں قید کی جانے والی عورتوں کی اولاد میں سے پایا ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : فواد عبدالباقی کے نسخہ میں یہ حدیث مذکور نہیں ہے، لیکن تحفۃ الا ٔشراف، اور مصباح الزجاجۃ میں یہ موجود ہے جیسا کہ اوپر کی تخریج سے واضح ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
9- بَاب فِي الإِيمَانِ
۹- باب: ایمان کا بیان ۱؎​
وضاحت ۱ ؎ : ایمان امن سے مشتق ہے، چونکہ مومن ایمان سے اپنے آپ کو جہنم کے عذاب سے بچاتا ہے اس لئے اس کے فعل کو ایمان کہا گیا ہے، اور ایمان کی تعریف اہل سنت والجماعت کے تمام محققین نے یہ کی ہے کہ وہ قول وفعل سے عبارت ہے، اور گھٹتا بڑھتا ہے، طاعات (نیک کاموں) کے کرنے سے بڑھتا ہے، اور معاصی(برے کاموں) کے کرنے سے گھٹتا ہے، قول سے مراد توحید ورسالت کی گواہی اور اس کا اقرار، اور تلاوتِ کلام پاک اور ہر طرح کے ثابت ذکر واذکار، اور اورا د ووظائف ہیں ،اور فعل سے مراد دل کا فعل ہو یا اعضا ء وجوارح کا، اس لئے سلف نے ایمان کی تعریف یہی کی ہے کہ آدمی دل سے اعتقاد کرے، زبان سے اقرار کرے، اور اعضاء وجوارح سے دینی کاموں کو انجام دے، اور جن امور سے روکا گیا ہے اس سے باز رہے، اور انسان جتنا زیادہ ثابت شدہ اعمال صالحہ کو کرتا جائے گا اس کا ایمان بڑھتا جائے گا اسی لئے سلف کے اعتقاد میں ایمان کی زیادتی اور نقصان کا مسئلہ بھی ہے، اس کے بالمقابل گمراہ فرقوں میں ایک فرقہ مرجئہ ہے، جس کے نزدیک اعتقاد اور زبان سے گواہی ہی ایمان ہے، ایک دوسرا گمراہ فرقہ کرّامیہ ہے جو صرف زبان کی گواہی کو ایمان کہتا ہے، اسی طرح سے گمراہ فرقوں میں فرقہ معتزلہ ہے جو صرف زبان کی گواہی اور عمل کو ایمان قرار دیتا ہے، سلف صالحین نے عمل کو اسلام وایمان کا ایک رکن کہا ہے اور اس معنی میں اس کو کمالِ ایمان کی شرط کہا کہ بعض اعمال کے نہ ہونے کی صورت میں بھی وہ آدمی دائرہ اسلام میں رہتا ہے، اور یہی معنی ہے ایمان کے گھٹنے بڑھنے کا، اللہ رب العزت کے یہاں سلف صالحین والا ایمان ہی معتبر ایمان ہے، لیکن دنیا میں زبانی اقرار اور توحید ورسالت پر ایمان اور اسلامی احکام پر عمل کرنے والے لوگوں کو مسلمان کہا جائے گا ،اور ان پر اس ظاہری اسلام کی صورت میں کفر کا حکم نہ لگایا جائے گا۔


57- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ الطَّنَافِسِيُّ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ سُهَيْلِ ابْنِ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ دِينَارٍ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: <الإِيمَانُ بِضْعٌ وَسِتُّونَ -أَوْ سَبْعُونَ- بَابًا، أَدْنَاهَا إِمَاطَةُ الأَذَى عَنِ الطَّرِيقِ، وَأَرْفَعُهَا قَوْلُ: لاإِلَهَ إِلا اللَّهُ، وَالْحَيَائُ شُعْبَةٌ مِنَ الإِيمَانِ>.
* تخريج: خ/الإیمان ۳ بلفظ: ''وستون'' (۹)، م/الإیمان ۱۲ بلفظ: ''وسبعون'' وھو الأرجح (۳۵)، د/السنۃ ۱۵ (۴۶۷۶)، ت/الإیمان ۶ (۲۶۱۴)، ن/الإیمان ۱۶ (۵۰۰۷، ۵۰۰۸، ۵۰۰۹)، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۸۱۶)، وقد أخرجہ: حم (۲/۴۱۴، ۲۴۲، ۴۴۵) (صحیح)
۵۷- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:''ایمان کے ساٹھ یا سترسے زائد شعبے (شاخیں) ہیں، ان میں کا ادنی (سب سے چھوٹا) شعبہ ۱ ؎ تکلیف دہ چیز کو راستے سے ہٹانا ہے، اور سب سے اعلی اور بہتر شعبہ لا الہ الا اللہ (اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں) کہنا ہے، اورشرم وحیاء ایمان کی ایک شاخ ہے'' ۲؎ ۔
وضاحت ۱؎ : ''شعبةٌ'' میں تنوین تعظیم کے لئے ہے۔
وضاحت ۲؎ : حیاء ایمان کی ایک اہم شاخ ہے کیونکہ یہ نفس انسانی کی اصلاح وتربیت میں نہایت مؤثر کردار ادا کرتی ہے، نیز وہ انسان کو برائیوں سے روکتی اور نیکیوں پر آمادہ کرتی ہے،اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ایمان کے عمل کے اعتبار سے بہت سے مراتب واجزاء ہیں، اور اس میں کمی اور بیشی بھی ہوتی ہے، اور یہی اہل سنت والجماعت کا عقیدہ ہے۔


57/أ- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ، عَنِ ابْنِ عَجْلانَ، (ح) وحَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ رَافِعٍ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ سُهَيْلٍ، جَمِيعًا عَنْ عَبْدِاللَّهِ ابْنِ دِينَارٍ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَهُ۔
* تخريج: انظر ما قبلہ (صحیح)
۵۷/أ - اس سند سے بھی ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے اسی جیسی حدیث مرفوعاً مروی ہے ۔


58- حَدَّثَنَا سَهْلُ ابْنُ أَبِي سَهْلٍ، وَمُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ بْنِ يَزِيدَ، قَالا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ أَبِيهِ؛ قَالَ: سَمِعَ النَّبِيُّ ﷺ رَجُلا يَعِظُ أَخَاهُ فِي الْحَيَائِ فَقَالَ: < إِنَّ الْحَيَائَ شُعْبَةٌ مِنَ الإِيمَانِ > ۔
* تخريج: م/الإیمان ۱۲ (۳۶)، ت/الإیمان ۷ (۲۶۱۵)، (تحفۃ الأشراف: ۶۸۲۸)، وقد أخرجہ: خ/لإیمان ۱۶ (۲۳)، الأدب ۷۷ (۶۱۱۸)، د/الأدب ۷ (۴۷۹۵)، ن/الإیمان ۲۷(۵۰۳۶)، ط/حسن الخلق ۲ (۱۰)، حم (۲/۵۶، ۱۴۷) (صحیح)
۵۸- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے ایک آدمی کو اپنے بھائی کو شرم وحیاء کے سلسلے میں ملامت کرتے ہوئے سنا تو فرمایا: ''حیاء ایمان کی ایک شاخ ہے''۔


59- حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ، عَنِ الأَعْمَشِ، (ح) وحَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مَيْمُونٍ الرَّقِّيُّ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < لا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ مَنْ كَانَ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالُ ذَرَّةٍ مِنْ خَرْدَلٍ مِنْ كِبْرٍ، وَلا يَدْخُلُ النَّارَ مَنْ كَانَ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالُ حَبَّةٍ مِنْ خَرْدَلٍ مِنْ إِيمَانٍ >۔
* تخريج: م/الإیمان ۳۹ (۹۱)، اللباس ۲۹ (۴۰۹۱)، ت/البر والصلۃ ۶۱ (۱۹۹۸)، (تحفۃ الأشراف: ۹۴۲۱)، وقد أخرجہ: حم (۱/۲۸۷،۴۱۲، ۴۱۶، ۲/۱۶۴، ۳/۱۳، ۱۷) (صحیح)
(یہ حدیث مکرر ہے، ملاحظہ ہو: ۴۱۷۳)
۵۹- عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''جس شخص کے دل میں رائی کے دانہ کے برابر تکبر (گھمنڈ) ہوگا وہ جنت میں نہیں داخل ہوگا ،اور جس شخص کے دل میں رائی کے دانہ کے برابر ایمان ہوگا وہ جہنم میں نہیں داخل ہوگا'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : مرتکب کبیرہ کے سلسلے میں آخرت سے متعلق وعید کی احادیث میں یہ آیا ہے کہ وہ ملعون ہے، یا اس کو جنت میں نہ داخل ہونے کی وعید ہے، یا جہنم میں داخل ہونے کی وعید ہے، اس سلسلے میں علماء کی آراء کا خلاصہ مندرجہ ذیل ہے:
1 "لا يدخل الجنة " وہ جنت میں نہ داخل ہوگا، یعنی نعمت وسرور اور انبساط کے اعتبار سے اونچے درجہ کی جنت میں نہ داخل ہوگا، یہ مطلب نہیں ہے کہ جنت کے کسی درجہ اور طبقہ میں داخل نہ ہوگا۔
2 یہ بھی کہا گیا ہے کہ مرتکب کبیرہ اس وقت تک جنت میں داخل نہ ہوگا جس وقت تک مرتکب کبیرہ کا ارتکاب نہ کرنے والے جنت میں داخل ہورہے ہوں گے، اس لئے کہ وہ اپنے گناہوں کی بازپرس اور محاسبہ کے مرحلہ میں ہوگا، یا اپنے گناہوں کی پاداش میں جہنم میں ہوگا، اور سزا بھگتنے کے بعد جنت میں داخل ہوگا۔
بعض لوگوں نے اس معنی کو ان لفظوں میں بیان کیا: "إن النفي هو الدخول المطلق الذي لا يكون معه عذاب، لا الدخول المقيد الذي يحصل لمن دخل النار ثم دخل الجنة"، یعنی: احادیث میں جنت میں اس مطلق دخول کی نفی ہے جس کے ساتھ عذاب نہ ہوگا، نہ کہ اس قید کے ساتھ جنت میں داخل ہونے کی نفی ہے جو جہنم میں داخل ہونے والے کو ہوگی کہ وہ جرم کی سزا بھگت کر جنت میں داخل ہوگا۔
3 ایک قول یہ بھی ہے کہ احادیث میں شرط اور استثناء موجود ہے یعنی اگر اللہ نے اس (مرتکب کبیرہ) کو عذاب دیا تو وہ جنت میں نہ داخل ہوگا، یا جنت میں نہ داخل ہوگا الا یہ کہ اللہ تعالیٰ اس کو معاف کردے۔
بعض معاصی کے مرتکب کے بارے میں جہنم کی وعید والی احادیث کے بارے میں امام نووی فرماتے ہیں کہ کفر سے کمتر مرتکب کبائر کے لئے جہنم کی وعید سے متعلق ساری احادیث کے بارے میں یہ کہا جائے گا کہ یہ اس کی سزا ہے، کبھی وہ سزا کا مستحق ہوگا، اور کبھی اس سے سزا معاف کردی جائے گی، پھر اگر اس کو (اس کے جرم کی پاداش میں) سزا ہوئی، تو وہ داخل جہنم ہوگا، لیکن اس میں ہمیشہ ہمیش نہیں رہے گا، بلکہ اللہ کے فضل وکرم سے وہ ضروری طور پر وہاں سے نکلے گا، توحید پر مرنے والا کوئی آدمی ہمیشہ اور ابدی طور پر جہنم میں نہیں رہے گا، یہ اہل سنت کے درمیان متفق علیہ اصول ہے۔
آخرت سے متعلق وارد احادیث وعد ووعید کے سلسلہ میں زیادہ راجح اور صحیح بات یہ ہے کہ ان کو ان کے ظاہر پر محمول کیا جائے، اور یہ اعتقاد رکھا جائے کہ یہ اعمال وعدہ اور وعید کے اثبات وتحقق کے لئے سبب وعلت ہیں لیکن کسی متعین شخص پر ان وعدوں یا وعیدوں کا اطلاق نہیں ہوگا الا یہ کہ اس میں وہ ساری شروط وقیود پائی جارہی ہوں، اور اس سلسلہ کی رکاوٹیں موجود نہ ہوں، شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ نے اس مسئلہ کو متعدد مقامات پر مبرہن کیا ہے۔
اس لئے کہ اہل ایمان کے شرک سے اجتناب اور دوری کی صورت میں اعمال صالحہ پر دخول جنت کی بات بہت ساری احادیث میں وارد ہوئی ہیں، اور جن مطلق روایتوں میں کلمہ شہادت (لا الہ الا اللہ) یا شہادتین پر جنت میں داخل ہونے یا جہنم کے حرام ہونے کی بات ہے تو دوسری احادیث میں اس کی شروط وقیود آئی ہیں جن کی وجہ سے مطلق احادیث کو مقید احادیث پر رکھنا واجب اور ضروری ہے، مطلق احادیث (لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ) میں کلمہ توحید کو دخول جنت کا تقاضا کہا گیا ہے جس کے لئے شروط وقیود کا ہونا اور موانع (رکاوٹوں) کا نہ ہونا ضروری ہے، یہی وجہ ہے کہ امام حسن بصری سے جب یہ کہا گیا کہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ جس نے لا الہ الا اللہ کہا، جنت میں داخل ہوگا تو آپ نے فرمایا: ''جس نے کلمہ توحید کہا، اور اس کے حقوق وفرائض ادا کئے وہ جنت میں داخل ہوگا''۔
وہب بن منبہ سے سائل نے سوال کیا کہ کلمہ توحید (لا الہ الا اللہ) کیاجنت کی کنجی نہیں ہے؟ تو آپ نے فرمایا: کیوں نہیں، لیکن کنجی بغیر دندانے کے نہیں ہوتی، اگر تم دندانے والی کنجی لے کر آؤ گے تو جنت کا دروازہ تمہارے لئے کھل جائے گا ورنہ نہیں کھلے گا۔
اہل علم نے کلمہ گو (لا الہ الا اللہ کے قائل) میں سات شرطوں کے ضروری طور پر ہونے کا ذکر کیا ہے تاکہ وہ اس کلمہ سے فائدہ اٹھا سکے، وہ یہ ہیں: (علم، یقین، اخلاص، صدق، محبت، انقیاد، قبول)۔
امام ابن القیم حدیث : « إن الله حرم على النار من قال: لا إله إلا الله يبتغي وجه الله" ''اللہ کی رضا وخوشنودی کو چاہنے والے لا الہ الا اللہ کے قائل (کلمہ گو) پر اللہ تعالیٰ نے جہنم حرام کردی ہے'' کا معنی بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
''شارع وضاحت نے صرف زبانی اقرار سے اس کے حصول (یعنی جنت میں داخل ہونا اور جہنم میں نہ جانے) کی بات نہیں کہی ہے، اس لئے کہ یہ اعداء دین اسلام منافقین کلمہ توحید کو اپنی زبانوں سے دہراتے تھے، اور اس کے ساتھ وہ جہنم کے سب سے خراب درجہ کے مستحق ہیں، اس لئے زبانی اقرار اور دلی اقرار دونوں ضروری اور واجبی ہیں۔
اور دلی اقرار میں کلمہ کی معرفت اور اس کی تصدیق موجود ہے اور کلمہ میں سارے معبودان باطل کا انکار اور اللہ واحد کی الوہیت، اس کی عبادت کے اثبات کی معرفت موجود ہے، اور ما سوا اللہ سے الوہیت کی نفی کی حقیقت کی معرفت بھی موجود ہے کہ الوہیت وعبادت اللہ کے ساتھ خاص ہے اور دوسرے کے لئے اس کا ثبوت محال ہے۔
اس معنی ومفہوم کے علم ومعرفت اور یقین وحال کے ساتھ دل میں ثابت ومتحقق ہونے کے نتیجہ میں کلمہ گو پر جہنم حرام ہے، اور شارع نے اپنے ہر قول میں جو ثواب واجر متعین فرمایا ہے وہی پوری اور مکمل بات ہے۔
امام سلیمان بن عبداللہ l فرماتے ہیں کہ کلمہ توحید کو زبان سے کہنا بغیر اس کے معنی کو سمجھے، اور بغیر اس کے تقاضے پر عمل کے اجماعی طور پر نفع بخش نہیں ہے (تیسیر العزیز الحمید)۔
ابو بکر رضی اللہ عنہ نے جب زکاۃ نہ دینے والوں کے خلاف جنگ کا ارادہ فرمایا، تو عمر رضی اللہ عنہ نے مشہور حدیث: "أمرت أن أقاتل الناس حتى يقولوا: لا إله إلا الله، فمن قالها فقد عصم مني ماله ونفسه إلا بحقه، وحسابه على الله" (متفق علیہ) سے استدلال کرتے ہوئے آپ پر اعتراض کیا، تو ابو بکر رضی اللہ عنہ نے ان کو یہ سمجھایا کہ کلمہ توحید کے حق نہ ادا کرنے پر ان سے قتال (جنگ) ممنوع نہیں ہے، کیونکہ رسول اکرمﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ جس نے کلمہ کہا تو اس کا مال اور اس کی جان میرے یہاں معصوم ومحفوظ ہے الا یہ کہ قتل کو واجب کرنے والا حق یعنی عدل وانصاف کا تقاضا موجود ہو، تو فرمایا کہ زکاۃ مال کا حق ہے، یعنی اس کی ادائیگی نہ کرنے والوں کے خلاف جنگ کی جائے گی، عمر رضی اللہ عنہ اور دوسرے صحابۂ کرام رضوان علیہم اجمعین نے ابو بکر رضی اللہ عنہ کے اس فہم حدیث اور استدلال کو قبول کیا اور آپ کے ساتھ مل کر ان لوگوں کے خلاف جنگ کی۔
ابن عمر رضی اللہ عنہما کی دوسری متفق علیہ حدیث میں مسلمانوں کے خون اور مال کی حرمت وعصمت کی مزید وضاحت ہے کہ رسول اکرمﷺ نے فرمایا: ''مجھے لوگوں سے اس وقت تک جنگ کرنے کا حکم ربانی ہے، جب تک کہ لوگ کلمہ توحید ورسالت (لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ) کی گواہی نہ دیں، اور جب تک صلاۃ اور اس کی اقامت اور زکاۃ کی ادائیگی نہ کرلیں، او ر جب فرائض ادا کرلیں گے، تو ان کے خون ومال کی عصمت وحرمت میرے یہاں متحقق ہوجائے گی، الا یہ کہ اسلام کا حق موجود ہو، یعنی قتل کو واجب کرنے کا سبب اور عدل وانصاف کا تقاضا موجود ہو، اور (عدل کا تقاضا پورا ہونے اور حدود کے نفاذ کے بعد) ان کا حساب اللہ تعالیٰ کے سپرد ہے''۔
جب یہ معلوم ہوگیا کہ دنیاوی سزائیں صرف کلمہ توحید ورسالت کے اقرار سے معاف نہیں ہوسکتی، بلکہ اسلام کے کسی حق کے نہ بجالانے کی صورت میں بندہ سزا کا مستحق ہوگا، تو اسی طرح سے آخرت میں ان اعمال کے کرنے یا نہ کرنے پر عقوبت وسزا کے استحقاق کا معاملہ ہے۔
خلاصہ یہ کہ کلمہ توحید کے قائل پر جہنم کی حرمت، اور شفاعت کے ذریعہ جہنم سے باہر نکلنے کی بات کا مطلب یہ ہے کہ جس نے کلمہ اسلام کی شروط وقیود کو اس کے حقوق وواجبات ادا کرکے پورا کیا، اور اس کی راہِ جنت کی رکاوٹیں بھی جاتی رہیں تو اس کے حق میں یہ وعدہ ثابت ومتحقق ہوگا۔
آخرت کے احکام سے متعلق وارد احادیث وعید کے سلسلے میں بھی صحیح بات یہ ہے کہ ان کو ان کے ظاہر واطلاق پر رکھا جائے گا، اور ان کو کسی متعین شخص پر فٹ نہیں کیا جائے گا۔
اس مسئلہ کو اس مثال سے مزید سمجھا جائے کہ رسول اکرمﷺ نے شراب سے متعلق دس افراد پر لعنت فرمائی: شراب کشید کرنے والے پر، شراب کشید کروانے والے پر، اس کو پینے والے پر، اس کو ڈھونے والے پر وغیرہ وغیرہ۔
جب کہ صحیح بخاری میں ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: عبداللہ نامی ایک آدمی جو حمار کے لقب سے مشہور تھا، اور وہ رسول اکرمﷺ کو ہنسایا کرتا تھا، اس آدمی کو رسول اکرمﷺ نے شراب کی حد میں کوڑے لگوائے، ایک مرتبہ یہ صحابی رسول آپ ﷺ کے پاس لائے گئے تو دوبارہ انہیں کوڑے لگائے گئے، ایک آدمی نے کہا: اللہ کی اس پر لعنت ہو، اسے کتنی بار شراب پینے کے جرم میں لایا گیا، تو نبی اکرمﷺ نے اس سے فرمایا کہ تم اس پر لعنت نہ بھیجو، اللہ کی قسم! مجھے اس کے بارے میں یہی معلوم ہے کہ وہ اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے۔
اس حدیث میں آپ ﷺ نے اس متعین آدمی پر جس نے بار بار شراب پی تھی، لعن طعن سے منع فرمایا، جبکہ پہلی حدیث میں شرابی پر لعنت بھیجی گئی ہے، اس لئے کہ مطلق لعنت سے مخصوص اور متعین آدمی پر لعنت لازم نہیں، جس کے ساتھ (لعنت نہ لاگو ہونے کے) ایسے موانع ہوں، جو اس کو اس وعید سے دور رکھتے ہوں۔
وعید کی احادیث کو مطلق بیان کرنے، اور اس کو کسی شخص پر محمول نہ کرنے کا عمل ان تمام احادیث میں ضروری ہے جن میں اس کام سے متعلق آخرت میں جہنم کی دھمکی ہے، مثلاً ارشاد نبوی ہے: «إذا التقى المسلمان بسيفهما، فالقاتل والمقتول في النار" ''جب دو مسلمان تلوارلے کر آمنے سامنے آکھڑے ہوں تو قاتل اور مقتول دونوں جہنم کی آگ میں ہیں''۔
ناحق مسلمانوں سے جنگ کی حرمت کے سلسلے میں اس حدیث پر عمل واجب ہے، اور یہ اعتقاد رکھنا ضروری ہے کہ اس کام کے کرنے والے کو اس وعید کی دھمکی ہے، لیکن بایں ہمہ ہم جنگ جمل اور صفین کے شرکاء کے جہنم میں داخل ہونے کا حکم نہ لگائیں گے، اس لئے کہ ان جنگوں میں شریک لوگوں کے پاس عذر وتاویل موجود ہے، اور ان کے پاس ایسی نیکیاں ہیں جن کا تقاضا یہ ہے کہ اس حدیث کا انطباق ان پر نہ ہو۔
یہی وجہ ہے کہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے اس مسئلہ کا خلاصہ ان لفظوں میں بیان فرمایا: ''وعید سے متعلق احادیث کے تقاضوں پر عمل اس اعتقاد کے ساتھ واجب ہے کہ اس کام کا ارتکاب کرنے والے کو اس کام کے جرم کی وعید (دھمکی) ہے، لیکن اس وعید کے اس آدمی پر لاگو ہونے کے لئے شروط وقیود کا ہونا، اور رکاوٹوں کا نہ ہونا ضروری ہے''۔
ایک دوسری جگہ فرماتے ہیں: ''اور یہ جیسا کہ وعید کی نصوص ہیں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: {إِنَّ الَّذِينَ يَأْكُلُونَ أَمْوَالَ الْيَتَامَى ظُلْمًا إِنَّمَا يَأْكُلُونَ فِي بُطُونِهِمْ نَارًا وَسَيَصْلَوْنَ سَعِيرًا} (النساء: ۱۰)
اور وعید کی یہ نصوص بحق ہیں، لیکن متعین آدمی پر اس وعید کے متحقق ہونے کی گواہی نہ دی جائے گی، پس کسی متعین قبلہ والے کے لئے جہنم کی وعید کی گواہی نہ دی جائے گی اس لئے کہ یہ جائز ہے کہ یہ وعید کسی شرط کے فوت ہوجانے یا کسی رکاوٹ کے موجود ہونے کی وجہ سے اس کو نہ لاحق ہو''۔
اہل علم نے گناہوں کی سزا کے ساقط ہوجانے کے گیارہ اسباب کا ذکر کیا ہے، جن سے وعید کا نفاذ ممنوع اور معطل ہوجاتا ہے:
۱- توحید
۲- توبہ (یہ متفقہ طور پر وعید کے نفاذ کی مانع ہے)
۳- استغفار
۴- نیکیاں (جو برائیوں کو مٹانے والی ہوتی ہے)
۵- اہل ایمان کا مومن کے لئے دعا جیسے صلاۃ جنازہ۔
۶- میت کو ثواب پہنچانے کے لئے کئے جانے والے اچھے کام جیسے صدقہ وخیرات وغیرہ۔
۷- نبی اکرمﷺ اور دوسرے لوگوں کی قیامت کے دن گنہگاروں کے بارے میں شفاعت۔
۸- دنیاوی آلام ومصائب جن کے ذریعہ اللہ تعالیٰ خطاؤں کو معاف کرتا ہے۔
۹- قبر میں حاصل ہونے والی سختیاں اور فتنے، یہ بھی گناہوں کے لئے کفارہ ہوتے ہیں۔
۱۰- روزِ قیامت کی ہولناکیاں، سختیاں اور تکالیف۔
۱۱- اللہ تعالیٰ کی رحمت وعفو، اور بغیر شفاعت کے اس کی بخشش ومغفرت۔


60- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّزَّاقِ، أَنْبَأَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ عَطَائِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: <إِذَا خَلَّصَ اللَّهُ الْمُؤْمِنِينَ مِنَ النَّارِ وَأَمِنُوا، فَمَا مُجَادَلَةُ أَحَدِكُمْ لِصَاحِبِهِ فِي الْحَقِّ يَكُونُ لَهُ فِي الدُّنْيَا أَشَدَّ مُجَادَلَةً مِنَ الْمُؤْمِنِينَ لِرَبِّهِمْ فِي إِخْوَانِهِمِ الَّذِينَ أُدْخِلُوا النَّارَ>.
قَالَ: < يَقُولُونَ: رَبَّنَا! إِخْوَانُنَا كَانُوا يُصَلُّونَ مَعَنَا، وَيَصُومُونَ مَعَنَا، وَيَحُجُّونَ مَعَنَا، فَأَدْخَلْتَهُمُ النَّارَ، فَيَقُولُ: اذْهَبُوا فَأَخْرِجُوا مَنْ عَرَفْتُمْ مِنْهُمْ، فَيَأْتُونَهُمْ فَيَعْرِفُونَهُمْ بِصُوَرِهِمْ، لا تَأْكُلُ النَّارُ صُوَرَهُمْ، فَمِنْهُمْ مَنْ أَخَذَتْهُ النَّارُ إِلَى أَنْصَافِ سَاقَيْهِ، وَمِنْهُمْ مَنْ أَخَذَتْهُ إِلَى كَعْبَيْهِ، فَيُخْرِجُونَهُمْ، فَيَقُولُونَ: رَبَّنَا! أَخْرَجْنَا مَنْ قَدْ أَمَرْتَنَا، ثُمَّ يَقُولُ: أَخْرِجُوا مَنْ كَانَ فِي قَلْبِهِ وَزْنُ دِينَارٍ مِنَ الإِيمَانِ، ثُمَّ مَنْ كَانَ فِي قَلْبِهِ وَزْنُ نِصْفِ دِينَارٍ، ثُمَّ مَنْ كَانَ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالُ حَبَّةٍ مِنْ خَرْدَلٍ >.
قَالَ أَبُو سَعِيدٍ: فَمَنْ لَمْ يُصَدِّقْ هَذَا فَلْيَقْرَأْ: {إِنَّ اللَّهَ لا يَظْلِمُ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ وَإِنْ تَكُ حَسَنَةً يُضَاعِفْهَا وَيُؤْتِ مِنْ لَدُنْهُ أَجْرًا عَظِيمًا}.
* تخريج: ن/الإیمان ۱۸ (۵۰۱۳)، (تحفۃ الأشراف: ۴۱۷۸)، وقد أخرجہ: خ/ الإیمان ۱۵ (۲۲)، الرقاق ۵۱ (۶۵۶۰)، م/الإیمان ۸۱ (۱۸۳) (صحیح)
۶۰- ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''جب اللہ تعالی مومنوں کو جہنم سے نجات دے دے گا ، اور وہ امن میں ہو جائیں گے تو وہ اپنے ان بھائیوں کی نجات کے لئے جو جہنم میں داخل کردیے گئے ہوں گے، اپنے رب سے ایسی بحث وتکرار کریں گے ۱؎ کہ کسی نے دنیا میں اپنے حق کے لئے اپنے ساتھی سے بھی ویسا نہیں کیا ہوگا''۔
آپ ﷺنے فرمایا: ''وہ عرض کریں گے: اے ہمارے رب! یہ ہمارے بھائی ہیں جو ہمارے ساتھ صلاۃ پڑھتے تھے، صیام رکھتے تھے، اور حج کرتے تھے، تونے ان کو جہنم میں داخل کردیا! اللہ تعالیٰ فرمائے گا: ''جاؤ ان میں سے جنہیں تم پہچانتے ہو نکال لو''، وہ مومن ان جہنمیوں کے پاس آئیں گے، اور انہیں ان کے چہروں سے پہچان لیں گیں، آگ ان کی صورتوں کو نہیں کھائے ہوگی، کسی کو آگ نے اس کی آدھی پنڈلیوں تک اور کسی کو ٹخنوں تک پکڑ لیا ہوگا، پھر وہ مومن ان کو جہنم سے نکالیں گے اور عرض کریں گے: اے ہمارے رب! جن کو تونے نکالنے کا حکم دیا تھا ہم نے ان کو نکال لیا، پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا: جس شخص کے دل میں ایک دینار کے برابر ایمان ہو اس کو بھی جہنم سے نکال لو، پھر جس کے دل میں آدھا دینار کے برابر ایمان ہو، پھر جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر ایمان ہو''۔
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: جس کو اس پر یقین نہ آئے وہ اس آیت کو پڑھ لے: {إِنَّ اللَّهَ لا يَظْلِمُ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ وَإِنْ تَكُ حَسَنَةً يُضَاعِفْهَا وَيُؤْتِ مِنْ لَدُنْهُ أَجْرًا عَظِيمًا} [سورة النساء: 40]، یعنی: ''بیشک اللہ تعالیٰ ذرہ برابر ظلم نہیں کرتا، اور اگر نیکی ہوتو اسے دوگنا کر دیتا ہے، اور اپنے پاس سے بہت بڑا ثواب دیتا ہے'' ۲؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یعنی اصرار کے ساتھ سفارش کریں گے۔
وضاحت ۲ ؎ : اس حدیث سے بھی ایمان کی زیادتی اور کمی کا ہونا ظاہر ہوتا ہے، اور جہنم سے نجات ایمان کی زیادتی اور کمی پر منحصر ہے، نیز صالحین کی شفاعت وسفارش پر ۔


61- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ نَجِيحٍ -وَكَانَ ثِقَةً- عَنْ أَبِي عِمْرَانَ الْجَوْنِيِّ، عَنْ جُنْدُبِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ قَالَ: كُنَّا مَعَ النَّبِيّ ﷺ وَنَحْنُ فِتْيَانٌ حَزَاوِرَةٌ، فَتَعَلَّمْنَا الإِيمَانَ قَبْلَ أَنْ نَتَعَلَّمَ الْقُرْآنَ، ثُمَّ تَعَلَّمْنَا الْقُرْآنَ، فَازْدَدْنَا بِهِ إِيمَانًا۔
* تخريج: تفر د بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۳۲۶۴، ومصباح الزجاجۃ: ۲۳) (صحیح)
۶۱- جندب بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نبی اکرم ﷺ کے ساتھ تھے، اور ہم طاقتور نوجوان تھے، ہم نے قرآن سیکھنے سے پہلے ایمان کوسیکھا، پھر ہم نے قرآن سیکھا،تو اس سے ہمارا ایمان اور زیادہ (بڑھ) ہو گیا ۔


62- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ نِزَارٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < صِنْفَانِ مِنْ هَذِهِ الأُمَّةِ لَيْسَ لَهُمَا فِي الإِسْلامِ نَصِيبٌ: الْمُرْجِئَةُ وَالْقَدَرِيَّةُ >۔
* تخريج: ت/القدر ۱۳ (۲۱۴۹)، (تحفۃ الأشراف: ۶۲۲۲) (ضعیف)
(یہ حدیث مکرر ہے، دیکھئے : ۷۳) (اس کی تحسین امام ترمذی نے کی ہے '' حسن غریب'' لیکن اس میں تین راوی ضعیف ہیں، محمد بن فضیل میں تشیع ہے، علی بن نزار ضعیف ہیں، اور نزار عکرمہ سے ایسی احادیث روایت کرتے ہیں جو عکرمہ کی نہیں ہوتیں، لیکن واضح رہے کہ یہ دونوں فرقے(مرجئہ وقدریہ) عقائد میں گمراہی کی وجہ سے اہل سنت کے نزدیک گمراہ فرقوں میں شمار کئے جاتے ہیں)
۶۲- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''اس امت کے دوگروہ ایسے ہوں گے کہ اسلام میں ان کا کوئی حصہ نہیں: ایک مرجئہ ۱؎ اور دوسرا قدریہ (منکرین قدر) ۲؎ ''۔
وضاحت ۱؎ : مرجئہ ارجاء سے ہے، جس کے معنی تاخیر کے ہیں، یہ ایک گمراہ فرقہ ہے جس کا عقیدہ ہے کہ ایمان کے ساتھ کوئی معصیت(گناہ) نقصا ن دہ نہیں جیسے کفر کے ساتھ کوئی نیکی نفع بخش نہیں ،ان کے نزدیک ایمان محض دل سے تصدیق اور زبان سے اقرار کانام ہے، جب کہ اہل سنت کے نزدیک ایمان کے تین ارکان ہیں، دل سے تصدیق کرنا، زبان سے اقرارکرنا،اور اعضاء وجوارح سے عمل کرنا ۔
وضاحت ۲؎ : قدریہ جبریہ کے خلاف ہیں، جو اپنے کو مجبور ِ محض کہتے ہیں اور یہ بڑی گمراہی کی بات ہے، اور قدریہ کی نسبت قدر کی طرف ہے، یعنی اللہ کی تقدیر پر جو اس نے قبل مخلوقات مقدر کی، غرض وہ مدعی ہیں کہ بندہ اپنے افعال کا خود خالق ہے، کفر ہو یا معصیت وگناہ اور انہوں نے انکار کیا کہ یہ امور تقدیر الٰہی ہیں ، یہ گمراہ فرقہ ہے اور غلطی پر ہے۔
قضا وقدر پر ایمان لانے کا مطلب یہ ہے کہ ہم یہ اعتقاد رکھیں کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کو ہمارے اعمال وافعال اور ہمارے انجام کار کے بارے میں شروع ہی سے علم ہے، اسی نے ہماری قسمتوں کے فیصلے کررکھے ہیں، اس لئے ہر بری اور بھلی تقدیر کی بات پر ہمارا ایمان ہے، ساتھ ہی ہمارا یہ اعتقاد ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو بااختیار مخلوق پیدا کیا ہے، جسے عقل وشعور کی نعمت سے نوازا ہے اور اس کی ہدایت کے لئے شروع ہی سے انبیاء ورسل بھیجے ہیں اور آخر میں نبی آخر الزماں محمد ﷺ کو مبعوث فرمایا تاکہ انسان وحی کی روشنی میں زندگی گزار کر اللہ رب العزت کے یہاں سرخرو ہو۔


63- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ كَهْمَسِ بْنِ الْحَسَنِ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ ابْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ يَحْيَى بْنِ يَعْمَرَ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنْ عُمَرَ -رَضِيَ اللهُ عَنْهُ- قَالَ: كُنَّا جُلُوسًا عِنْدَ النَّبِيِّ ﷺ فَجَائَ رَجُلٌ شَدِيدُ بَيَاضِ الثِّيَابِ، شَدِيدُ سَوَادِ شَعَرِ الرَّأْسِ، لايُرَى عَلَيْهِ أَثَرُ سَفَرٍ، وَلا يَعْرِفُهُ مِنَّا أَحَدٌ، قَالَ: فَجَلَسَ إِلَى النَّبِيِّ ﷺ فَأَسْنَدَ رُكْبَتَهُ إِلَى رُكْبَتِهِ، وَوَضَعَ يَدَيْهِ عَلَى فَخِذَيْهِ، ثُمَّ قَالَ: يَا مُحَمَّدُ! مَا الإِسْلامُ؟ قَالَ: < شَهَادَةُ أَنْ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ، وَأَنِّي رَسُولُ اللَّهِ، وَإِقَامُ الصَّلاةِ، وَإِيتَائُ الزَّكَاةِ، وَصَوْمُ رَمَضَانَ، وَحَجُّ الْبَيْتِ >، فَقَالَ: صَدَقْتَ، فَعَجِبْنَا مِنْهُ، يَسْأَلُهُ وَيُصَدِّقُهُ، ثُمَّ قَالَ: يَا مُحَمَّدُ! مَا الإِيمَانُ؟ قَالَ: < أَنْ تُؤْمِنَ بِاللَّهِ، وَمَلائِكَتِهِ، وَرُسُلِهِ، وَكُتُبِهِ، وَالْيَوْمِ الآخِرِ، وَالْقَدَرِ، خَيْرِهِ وَشَرِّهِ >، قَالَ: صَدَقْتَ، فَعَجِبْنَا مِنْهُ، يَسْأَلُهُ وَيُصَدِّقُهُ، ثُمَّ قَالَ: يَا مُحَمَّدُ! مَا الإِحْسَانُ؟ قَالَ: < أَنْ تَعْبُدَ اللَّهَ كَأَنَّكَ تَرَاهُ، فَإِنَّكَ إِنْ لا تَرَاهُ فَإِنَّهُ يَرَاكَ >، قَالَ: فَمَتَى السَّاعَةُ؟ قَالَ: < مَا الْمَسْئُولُ عَنْهَا بِأَعْلَمَ مِنَ السَّائِلِ >، قَالَ: فَمَا أَمَارَتُهَا؟ قَالَ: < أَنْ تَلِدَ الأَمَةُ رَبَّتَهَا -قَالَ وَكِيعٌ: يَعْنِي تَلِدُ الْعَجَمُ الْعَرَبَ- وَأَنْ تَرَى الْحُفَاةَ الْعُرَاةَ الْعَالَةَ رِعَائَ الشَّائِ يَتَطَاوَلُونَ فِي الْبِنَائِ >، قَالَ: ثُمَّ قَالَ: فَلَقِيَنِي النَّبِيُّ ﷺ بَعْدَ ثَلاثٍ فَقَالَ: <أَتَدْرِي مَنِ الرَّجُلُ؟ >، قُلْتُ: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: < ذَاكَ جِبْرِيلُ، أَتَاكُمْ يُعَلِّمُكُمْ مَعَالِمَ دِينِكُمْ >.
* تخريج: م/الإیمان ۱ (۸)، د/السنۃ ۱۷ (۴۶۹۵، ۴۶۹۶، ۴۶۹۷)، ت/الإیمان ۴ (۲۶۱۰)، ن/الإیمان ۵ (۴۹۹۳)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۵۷۲)، وقد أخرجہ: خ/الإیمان ۳۷ (۵۰)، تفسیر سورۃ لقمان ۲ (۴۷۷۷)، حم (۱ / ۲۷، ۲۸، ۵۱، ۵۲) (صحیح)
۶۳- عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نبی اکرم ﷺ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ اچانک ایک شخص آیا، جس کے کپڑے انتہائی سفید اور سر کے بال نہایت کالے تھے، اس پہ سفر کے آثار ظاہر نہیں تھے،اور ہم میں سے کوئی اسے پہچانتا بھی نہ تھا، وہ نبی اکرم ﷺ کے پاس بیٹھ گیا، اور اپنا گھٹنا آپ ﷺ کے گھٹنے سے ملا لیا، اور اپنے دونوں ہاتھ آپ ﷺ کی دونوں ران پر رکھا، پھر بولا: اے محمد! اسلام کیا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ''اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، اور میں اللہ کا رسول ہوں، صلاۃ قائم کرنا، زکاۃ ادا کرنا، رمضان کے صیام رکھنا، اور خانہ کعبہ کا حج کرنا''، اس نے کہا: آ پ نے سچ فرمایا، تو ہمیں تعجب ہوا کہ خود ہی سوال کر رہا ہے، اور خود ہی جواب کی تصدیق بھی۔
پھر اس نے کہا: اے محمد! ایمان کیا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ''ایمان یہ ہے کہ تم اللہ اور اس کے فرشتوں، اس کے رسولوں، اس کی کتابوں، یوم آخرت، اور بھلی بری تقدیر پر ایمان رکھو''، اس نے کہا: آپ نے سچ فرمایا، تو ہمیں تعجب ہوا کہ خود ہی سوال کر رہا ہے، اور خود ہی جواب کی تصدیق بھی۔
پھر اس نے کہا: اے محمد! احسان کیا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ''تم اللہ کی عبادت اس طرح کرو گویا کہ تم اس کو دیکھ رہے ہو، اگر تم اس کو نہیں دیکھتے ہو تو یقین رکھو کہ وہ تم کو ضرور دیکھ رہا ہے''۔
پھر اس نے پوچھا: قیامت کب آئے گی؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ''جس سے پوچھ رہے ہو، وہ پوچھنے والے سے زیادہ نہیں جانتا'' ۱؎ ۔
پھر اس نے پوچھا: اس کی نشانیاں کیا ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ''لونڈی اپنے مالکن کو جنے گی (وکیع راوی حدیث نے کہا: یعنی عجمی عورتیں عرب کو جنیں گی) ۲؎ اور تم ننگے پاؤں، ننگے بدن، فقیر ومحتاج بکریوں کے چرواہوں کو دیکھو گے کہ وہ بڑی بڑی کوٹھیوں اور محلات کے بنانے میں فخر ومسابقت سے کام لیں گے''۔
روای کہتے ہیں: پھر عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ نبی اکرم ﷺ مجھ سے تین دن کے بعد ملے، آپ ﷺ نے فرمایا: ''کیا تم جانتے ہو وہ شخص کون تھا؟''، میں نے کہا: اللہ اور اس کے رسول بہتر جانتے ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا: ''یہ جبریل تھے جو تمہیں تمہارے دین کی اہم اور بنیادی باتیں سکھانے آئے تھے'' ۳؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ:
1 مفتی سے اگر ایسی بات پوچھی جائے جو اسے معلوم نہیں تو ''لا أدري'' کہہ دے یعنی میں نہیں جانتا، اور یہ اس کی کسر شان کا سبب نہیں کیونکہ نبی کریم ﷺ نے قیامت کے سلسلہ کے سوال کے جواب میں یہی فرمایا۔
2 اور یہ بھی معلوم ہوا کہ جو شخص عالم کی مجلس میں حاضر ہو اور لوگوں کو کسی مسئلے کے بارے میں پوچھنے کی حاجت ہو تو وہ عالم سے پوچھ لے تاکہ اس کا جواب سب لوگ سن لیں۔
3 اور یہ بھی معلوم ہوا کہ مفتی کو چاہئے کہ سائل کو نرمی سے سمجھا دے، اور محبت سے بتلا دے تاکہ علمی اور دینی فوائد کا دروازہ بند نہ ہوجائے، اور سائل کے لئے ضروری ہے کہ وہ عالم دین اور مفتی کے ساتھ کمال ادب کا مظاہرہ کرے، اور اس کی مجلس میں وقار اور ادب سے بیٹھے۔
وضاحت ۲ ؎ : ''لونڈی اپنی مالکن کو جنے گی'': یعنی ملک فتح ہوں گے ، اور لونڈیاں مال غنیمت میں کثرت سے حاصل ہوں گی، اور کثرت سے لوگ ان لونڈیوں کے مالک ہوںگے ، اور ان لونڈیوں کی ان کے آقا سے اولاد ہوگی اور وہ آزاد ہوں گے، اور وہ اپنی ماؤں کو لونڈیاں جانیں گے، اور بعض روایتوں میں ''ربتها'' کی جگہ '‏'ربها'' وارد ہوا ہے ۔
وضاحت ۳ ؎ : اس حدیث کو حدیث جبرئیل کہتے ہیں اور یہ ظاہری اور باطنی ساری عبادات اور اخلاص وعمل کی ساری صورتوں کو شامل ہے، اور ہر طرح کے واجبات اور سنن اور معروف ومنکر کو محیط ہے۔


64- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عُلَيَّةَ، عَنْ أَبِي حَيَّانَ، عَنْ أَبِي زُرْعَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ؛ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ يَوْمًا بَارِزًا لِلنَّاسِ، فَأَتَاهُ رَجُلٌ، فَقَالَ: يَارَسُولَ اللَّهِ ! مَا الإِيمَانُ ؟ قَالَ : < أَنْ تُؤْمِنَ بِاللَّهِ، وَمَلائِكَتِهِ، وَكُتُبِهِ، وَرُسُلِهِ، وَلِقَائِهِ، وَتُؤْمِنَ بِالْبَعْثِ الآخِرِ >، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! مَا الإِسْلامُ؟ قَالَ: < أَنْ تَعْبُدَ اللَّهَ وَلا تُشْرِكَ بِهِ شَيْئًا، وَتُقِيمَ الصَّلاةَ الْمَكْتُوبَةَ، وَتُؤَدِّيَ الزَّكَاةَ الْمَفْرُوضَةَ، وَتَصُومَ رَمَضَانَ >، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! مَا الإِحْسَانُ؟ قَالَ: < أَنْ تَعْبُدَ اللَّهَ كَأَنَّكَ تَرَاهُ فَإِنَّكَ إِنْ لاتَرَاهُ فَإِنَّهُ يَرَاكَ >، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! مَتَى السَّاعَةُ؟ قَالَ: < مَا الْمَسْئُولُ عَنْهَا بِأَعْلَمَ مِنَ السَّائِلِ، وَلَكِنْ سَأُحَدِّثُكَ عَنْ أَشْرَاطِهَا: إِذَا وَلَدَتِ الأَمَةُ رَبَّتَهَا فَذَلِكَ مِنْ أَشْرَاطِهَا، وَإِذَا تَطَاوَلَ رِعَائُ الْغَنَمِ فِي الْبُنْيَانِ، فَذَلِكَ مِنْ أَشْرَاطِهَا، فِي خَمْسٍ لا يَعْلَمُهُنَّ إِلا اللَّهُ >،فَتَلا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: {إِنَّ اللَّهَ عِنْدَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ وَيُنَزِّلُ الْغَيْثَ وَيَعْلَمُ مَا فِي الأَرْحَامِ وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ مَاذَا تَكْسِبُ غَدًا وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ بِأَيِّ أَرْضٍ تَمُوتُ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ} الآيَةَ.
* تخريج: خ/الإیمان ۳۷ (۵۰)، تفسیر لقمان ۲ (۴۷۷۷)، م/الإیمان ۱ (۹)، (تحفۃ الأشراف: ۱۴۹۲۹)، وقد أخرجہ: د/السنۃ ۱۷ (۴۶۹۵)، ن/الإیمان ۵ (۴۹۹۶)، حم (۲/ ۴۲۶) (یہ حدیث مکرر ہے، دیکھئے: ۴۰۴۴) (صحیح)
۶۴- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ایک دن لوگوں میں باہر بیٹھے تھے کہ ایک آدمی آپ کے پاس آیا، اور اس نے کہا: اللہ کے رسول! ایمان کیا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ''ایمان یہ ہے کہ تم اللہ، اس کے فرشتوں، اس کی کتابوں، اس کے رسولوں، اس سے ملاقات اور یوم آخرت پر ایمان رکھو'' ۱؎ ۔
اس نے پوچھا: اللہ کے رسول! اسلام کیا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ''اسلام یہ ہے کہ تم اللہ کی عبادت کرو، اس کے ساتھ کسی کو بھی شریک نہ کرو، صلاۃ مکتوبہ قائم کرو، فرض زکاۃ ادا کرو، اور رمضان کے صیام رکھو''۔
اس نے کہا: اللہ کے رسول! احسان کیا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ''احسان یہ ہے کہ اللہ کی عبادت اس طرح کرو گویا کہ تم اس کو دیکھ رہے ہو، اگر تم اسے نہیں دیکھ رہے ہو تو یہ سمجھو کہ وہ تمہیں ضرور دیکھ رہا ہے''۔
اس نے پوچھا: اللہ کے رسول! قیامت کب آئے گی؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ''جس سے پوچھ رہے ہو وہ پوچھنے والے سے زیادہ نہیں جانتا، لیکن میں تم کو اس کی نشانیاں بتاؤں گا: جب لونڈی اپنی مالکن کو جنے تو یہ اس کی نشانیوں میں سے ہے، اور جب بکریوں کے چرواہے اونچی اونچی عمارتوں پر فخر ومسابقت کریں تو یہ اس کی نشانیوں میں سے ہے، قیامت کی آمد ان پانچ چیزوں میں سے ایک ہے جن کو اللہ تعالی کے سوا کوئی نہیں جانتا''، پھر آپ ﷺ نے یہ آیت کریمہ تلاوت فرمائی: {إِنَّ اللَّهَ عِنْدَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ وَيُنَزِّلُ الْغَيْثَ وَيَعْلَمُ مَا فِي الأَرْحَامِ وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ مَاذَا تَكْسِبُ غَدًا وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ بِأَيِّ أَرْضٍ تَمُوتُ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ} [سورة لقمان: 34]: ''بیشک اللہ ہی کے پاس قیامت کا علم ہے، وہی بارش نازل فرماتا ہے، اور ماں کے پیٹ میں جو ہے اسے وہی جانتا ہے، کوئی نہیں جانتا کہ کل وہ کیا کرے گا، نہ کسی کو یہ معلوم ہے کہ وہ کس سرزمین میں مرے گا، اللہ ہی (پورے علم والا) اور خبیر (خبر رکھنے والا ہے)'' ۔
وضاحت ۱؎ : علماء اہل سنت اور عام محدثین کا اس پر اتفاق ہے کہ ایمان تین چیزوں سے مرکب ہے:
1 دل سے یقین کرنا،
2 زبان سے اقرار کرنا،
3 کتاب وسنت سے ثابت شدہ فرائض اور اعمال کو اعضاء وجوارح سے بجالانا، اور جس قدر صالح اعمال زیادہ ہوں گے ایمان بھی زیادہ ہوگا، اور جس قدر اعمال میں کمی ہوگی ایمان میں کمی ہوگی، کتاب وسنت میں اس پر بے شمار دلائل ہیں۔


65- حَدَّثَنَا سَهْلُ ابْنُ أَبِي سَهْلٍ، وَمُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ قَالا: حَدَّثَنَا عَبْدُالسَّلامِ بْنُ صَالِحٍ أَبُو الصَّلْتِ الْهَرَوِيُّ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُوسَى الرِّضَا، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: <الإِيمَانُ مَعْرِفَةٌ بِالْقَلْبِ، وَقَوْلٌ بِاللِّسَانِ، وَعَمَلٌ بِالأَرْكَانِ>.
قَالَ أَبُو الصَّلْتِ: لَوْ قُرِئَ هَذَا الإِسْنَادُ عَلَى مَجْنُونٍ لَبَرَأَ.
* تخريج: تفر د بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۰۷۶، ومصباح الزجاجۃ: ۲۴) (موضوع)
(اس کی سند میں ''عبدالسلام بن صالح ابو الصّلت الہروی'' رافضی کذاب اور متہم بالوضع راوی ہے،اس بناء پر یہ حدیث موضوع ہے،نیز ملاحظہ ہو: الضعیفہ: ۲۲۷۰ ، والموضو عات لابن الجوزی : ۱/۱۲۸ ، وتلخیص الموضوعات : ۲۶ بتحقیق د/ عبد الرحمن الفریوائی )
۶۵- علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: ''ایمان دل کی معرفت، زبان سے اقرار اور اعضائے بدن سے عمل کا نام ہے'' ۔
ابو الصّلت کہتا ہے: یہ سند ایسی ہے کہ اگر دیوانے پر پڑھ دی جائے تو وہ اچھا ہو جائے۔


66- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى قَالا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ قَالَ: سَمِعْتُ قَتَادَةَ يُحَدِّثُ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: <لايُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ حَتَّى يُحِبَّ لأَخِيهِ -أَوْ قَالَ: لِجَارِهِ- مَا يُحِبُّ لِنَفْسِهِ >۔
* تخريج: خ/الإیمان ۷ (۱۳)، م/الإیمان ۱۷ (۴۵)، ت/صفۃ القیامۃ ۵۹ (۲۵۱۵)، ن/الإیمان ۱۹ (۵۰۱۹)، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۳۹)، وقد أخرجہ: حم (۱/۸۹، ۳/۱۷۱، ۱۷۲، ۱۷۶، ۲۰۶)، دي/الرقاق ۲۹ (۲۷۸۲) (صحیح)
۶۶- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:''کوئی شخص مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ اپنے بھائی (یا اپنے پڑوسی) کے لئے وہی چیز پسند نہ کرے جو وہ اپنے لئے پسند کرتا ہے'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یعنی کامل مومن نہیں ہو سکتا، اس حدیث سے مسلمانوں کی باہمی خیر خواہی کی اہمیت وفضیلت ظاہر ہوئی، اس سنہری اصول پراگر مسلمان عمل کرنے لگ جائیں تو معاشرے سے لوٹ کھسوٹ، رشوت، بددیانتی، جھوٹ فریب وغیرہ بیماریاں خودبخود ختم ہو جائیں گی۔


67- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، قَالا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قَالَ: سَمِعْتُ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: <لايُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ حَتَّى أَكُونَ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ وَلَدِهِ وَوَالِدِهِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ >۔
* تخريج: خ/الإیمان ۷ (۱۳)، ۸ (۱۵)، م/الإیمان ۱۶ (۴۴)، ن/الایمان ۱۹ (۵۰۱۶)، ت/صفۃ القیامۃ ۵۹ (۲۵۱۵)، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۳۹)، وقد أخرجہ: حم (۳/۱۷۷، ۲۰۷) (صحیح)
۶۷- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ میں اس کے نزدیک اس کی اولاد،اس کے والد، اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : معلوم ہوا کہ جب تک ساری دنیا کے رسم ورواج اور عادات ورسوم، اور اپنی آل اولاد اور ماں باپ سے زیادہ سنت کی محبت نہ ہو اس وقت تک ایمان کامل نہیں، پھر جتنی اس محبت میں کمی ہوگی اتنی ہی ایمان میں کمی ہوگی۔


68- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ وَأَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لا تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ حَتَّى تُؤْمِنُوا، وَلا تُؤْمِنُوا حَتَّى تَحَابُّوا، أَوَلا أَدُلُّكُمْ عَلَى شَيْئٍ إِذَا فَعَلْتُمُوهُ تَحَابَبْتُمْ؟ أَفْشُوا السَّلامَ بَيْنَكُمْ >۔
* تخريج: م/الإیمان ۲۲ (۵۴)، ت/الاستئذان ۱ (۲۶۸۸)، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۴۶۹،۱۲۵۱۳)، وقد أخرجہ: د/الأدب ۱۴۲ (۵۱۹۳)، حم (۱/۱۶۵، ۲/۳۹۱)، (یہ حدیث مکرر ہے، دیکھئے : ۳۶۹۲) (صحیح)
۶۸- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''قسم اس ذات کی! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، تم جنت میں اس وقت تک نہیں داخل ہو سکتے جب تک کہ تم ایمان نہ لے آؤ، اور تم اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتے جب تک کہ آپس میں محبت نہ کرنے لگو، کیا میں تمہیں ایسی چیز نہ بتاؤں کہ جب تم اسے اپنا لو توایک دوسرے سے محبت کرنے لگو گے! آپس میں سلام کو عام کرو'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اس کا یہ مطلب نہیں کہ محض سلام کرنے ہی سے تم مومن قرار دیے جائوگے، اور جنت کے مستحق ہو جائو گے، بلکہ مطلب یہ کہ ایمان اسی وقت مفید ہوگا جب اس کے ساتھ عمل بھی ہوگا ،اور سلام اسلام کا ایک شعار اور ایمان کا عملی مظاہرہ ہے، ایمان اور عمل کا اجتماع ہی مومن کو جنت میں لے جائے گا، اس حدیث میںسلام عام کرنے کی تاکید ہے کیونکہ یہ مسلمانوں میں باہمی الفت ومحبت پیدا کرنے کا بڑا موثر ذریعہ ہے ۔


69- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ، حَدَّثَنَا عَفَّانُ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنِ الأَعْمَشِ (ح) وحَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: <سِبَابُ الْمُسْلِمِ فُسُوقٌ وَقِتَالُهُ كُفْرٌ>.
* تخريج: خ/الإیمان ۳۸ (۴۸)، الأدب ۴۴ (۷۰۴۴)، الفتن ۸ (۷۰۷۶)، م/الإیمان ۲۸ (۶۴)، ن/المحاربۃ (تحریم الدم) ۲۷ (۴۱۱۴، ۴۱۱۵، ۴۱۱۶)، (تحفۃ الأشراف: ۹۲۴۳، ۹۲۵۱، ۹۲۹۹)، وقد أخرجہ: ت/البر والصلۃ ۵۲ (۱۹۸۳)، الإیمان ۱۵ (۲۶۳۵)، حم (۱/۳۸۵، ۴۱۱، ۴۱۷، ۴۳۳) (یہ حدیث مکرر ہے، دیکھئے: ۳۹۳) (صحیح)
۶۹- عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''مسلمان کو گالی دینا فسق (نافرمانی) ہے، اور اس سے لڑائی کرنا کفر ہے'' ۔


70- حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَهْضَمِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ، حَدَّثَنَا أَبُو جَعْفَرٍ الرَّازِيُّ، عَنِ الرَّبِيعِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < مَنْ فَارَقَ الدُّنْيَا عَلَى الإِخْلاصِ لِلَّهِ وَحْدَهُ، وَعِبَادَتِهِ لا شَرِيكَ لَهُ، وَإِقَامِ الصَّلاةِ، وَإِيتَائِ الزَّكَاةِ، مَاتَ وَاللَّهُ عَنْهُ رَاضٍ >.
قَالَ أَنَسٌ: وَهُوَ دِينُ اللَّهِ الَّذِي جَائَتْ بِهِ الرُّسُلُ وَبَلَّغُوهُ عَنْ رَبِّهِمْ قَبْلَ هَرْجِ الأَحَادِيثِ وَاخْتِلافِ الأَهْوَائِ، وَتَصْدِيقُ ذَلِكَ فِي كِتَابِ اللَّهِ فِي آخِرِ مَا نَزَلَ، يَقُولُ اللَّهُ: {فَإِنْ تَابُوا} قَالَ: خَلْعُ الأَوْثَانِ وَعِبَادَتِهَا {وَأَقَامُوا الصَّلاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ}.
وَقَالَ فِي آيةٍ أُخْرَى: {فَإِنْ تَابُوا وَأَقَامُوا الصَّلاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ فَإِخْوَانُكُمْ فِي الدِّينِ}.
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۸۳۲، ومصباح الزجاجۃ: ۲۵) (ضعیف)
(سند میں ابو جعفر الرازی اور ربیع بن انس ضعیف ہیں)
۷۰- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''جس نے دنیا کواس حال میں چھوڑا کہ خالص اللہ واحد کی عبادت کرتا رہا، اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کیا، صلاۃ قائم کی، اور زکاۃ ادا کی، تواس کی موت اس حال میں ہوگی کہ اللہ اس سے راضی ہوگا'' ۔
انس رضی اللہ عنہ نے کہا: یہی اللہ کا دین ہے جس کو رسول لے کر آئے، اور اپنے رب کی طرف سے اس کی تبلیغ کی، اس سے پہلے کہ دین میں لوگوں کی باتوںاور طرح طرح کی خواہشوں کی ملاوٹ اور آمیزش ہو۔
اور اس کی تصدیق اللہ کی کتاب میں سب سے آخرمیں نازل ہونے والی سورہ (براء ۃ) میں موجود ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: {فَإِنْ تَابُوا وَأَقَامُوا الصَّلاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ} الآية (سورۂ توبہ: ۵)، یعنی: ''اگر وہ توبہ کریں اور صلاۃ قائم کریں ، اور زکاۃ ادا کریں''۔
انس رضی اللہ عنہ نے کہا: یعنی بتوں کو چھوڑ دیں اور ان کی عبادت سے دستبردار ہوجائیں،اور صلاۃقائم کریں، زکاۃ دیں (تو ان کا راستہ چھوڑ دو)۔
اور دوسری آیت میں یہ ہے: {فَإِنْ تَابُوا وَأَقَامُوا الصَّلاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ فَإِخْوَانُكُمْ فِي الدِّينِ} (سورۂ توبہ: ۱۱): یعنی: '' اگر وہ توبہ کریں، صلاۃقائم کریں، زکاۃ دیں تو وہ تمہارے دینی بھائی ہیں'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : پوری آیت اتنی ہی ہے جو اوپر گذری ،اللہ تعالیٰ اس میں مشرکوں کا حال بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ اگر وہ توبہ کے بعدصلاۃ وزکاۃ ادا کریں تو تمہارے بھائی ہیں، اور خلاصہ حدیث یہ ہے کہ اللہ تعالی نے اپنے رسولوں کو توحید سکھانے کے لئے بھیجا ہے، اور دین کا دار ومدار توحید واخلاص پر ہے، اور صلاۃ و زکاۃ ظاہری اعمال صالحہ میں سب سے اہم اور بنیادی رکن ہیں۔
[ز] 70/ أ - حَدَّثَنَا أَبُو حَاتِمٍ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُاللَّهِ بْنُ مُوسَى الْعَبْسِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو جَعْفَرٍ الرَّازِيُّ، عَنِ الرَّبِيعِ ابْنِ أَنَسٍ مِثْلَهُ ۔
۷۰/أ - اس سند سے ربیع بن انس رضی اللہ عنہ سے اسی معنی کی حدیث مروی ہے ۔


71- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ الأَزْهَرِ، حَدَّثَنَا أَبُو النَّضْرِ، حَدَّثَنَا أَبُو جَعْفَرٍ، عَنْ يُونُسَ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: <أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتَّى يَشْهَدُوا أَنْ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ، وَأَنِّي رَسُولُ اللَّهِ، وَيُقِيمُوا الصَّلاةَ، وَيُؤْتُوا الزَّكَاةَ>۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۲۵۹)، وقد أخرجہ: خ/الزکاۃ ۱ (۱۳۹۹)، ۴۰ (۱۴۵۷)، المرتدین ۳ (۶۹۲۴)، م/الإیمان ۸ (۲۱)، د/الزکاۃ ۱ (۱۵۵۶)، ت/الإیمان ۱ (۲۶۰۶)، ن/الزکاۃ ۳ (۲۴۴۲)، المحاربۃ ۱ (۳۹۸۳)، حم (۲/۵۲۸) (یہ حدیث مکرر ہے، دیکھئے: ۳۹۲۷) (صحیح متواتر)
(اس کی سند حسن ہے، لیکن اصل حدیث متواتر ہے)
۷۱- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے لڑوں، یہاں تک کہ وہ اس بات کی گواہی دینے لگیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، اور میں اللہ کا رسول ہوں، اور وہ صلاۃ قائم کرنے، اور زکاۃ دینے لگیں'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : اس سے اسلام کے چار بنیادی ارکان معلوم ہوئے :
1 توحید باری تعالیٰ،
2 رسالتِ محمدیہ کا یقین واقرار،
3 اقامت صلاۃ ،
4 زکاۃ کی ادائیگی،
یہ یاد رہے کہ دوسری صحیح حدیث: ''بُنِيَ الإِسْلامُ عَلَىْ خَمْسٍ'' میں اسلام کے پانچویں رکن صیام کا بھی ذکر ہے۔


72- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ الأَزْهَرِ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا عَبْدُالْحَمِيدِ بْنُ بَهْرَامَ، عَنْ شَهْرِ بْنِ حَوْشَبٍ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ غَنْمٍ، عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: <أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتَّى يَشْهَدُوا: أَنْ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ، وَأَنِّي رَسُولُ اللَّهِ، وَيُقِيمُوا الصَّلاةَ وَيُؤْتُوا الزَّكَاةَ >۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۳۴۰، ومصباح الزجاجۃ: ۲۶)، وقد أخرجہ: حم (۲/۲۸،۵ ۲۴۵) (صحیح متواتر)
(اس کی سند میں شہر بن حوشب ضعیف راوی ہیں، لیکن شواہد سے یہ حسن ہے، بلکہ اصل حدیث متواتر ہے، ملاحظہ ہو: مجمع الزوائد: ۱/ ۲۴)
۷۲- معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''مجھے لوگوں سے قتال (لڑنے) کا حکم دیاگیا ہے، یہاں تک کہ وہ اس بات کی گواہی دینے لگیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، اور میں اللہ کا رسول ہوں، اور صلاۃ قائم کرنے،اور زکاۃ دینے لگیں'' ۔


73- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ الرَّازِيُّ، أَنْبَأَنَا يُونُسُ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ ابْنُ مُحَمَّدٍ اللَّيْثِيُّ، حَدَّثَنَا نِزَارُ بْنُ حَيَّانَ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، وَعَنْ جَابِرِ ابْنِ عَبْدِاللَّهِ قَالا: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: <صِنْفَانِ مِنْ أُمَّتِي لَيْسَ لَهُمَا فِي الإِسْلامِ نَصِيبٌ: أَهْلُ الإِرْجَائِ وَأَهْلُ الْقَدَرِ >۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۲۴۹۸، ومصباح الزجاجۃ: ۲۷) (ضعیف)
(اس کی سند میں نزار بن حیان ضعیف راوی ہیں، اور عکرمہ سے ایسی روایت کرتے ہیں، جو ان کی نہیں ہو تی، اور عبدالرحمن محمدا للیثی مجہول ہیں)
۷۳- ا بن عباس اور جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہم دونوں کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''میری امت میں دو قسم کے لوگ ایسے ہوں گے کہ ان کا اسلام میں کوئی حصہ نہیں: ایک مرجئہ اور دوسرے قدریہ (منکرین قدر)''۔


[ز] 74 - حَدَّثَنَا أَبُو عُثْمَانَ الْبُخَارِيُّ سَعِيدُ بْنُ سَعْدٍ قَالَ: حَدَّثَنَا الْهَيْثَمُ بْنُ خَارِجَةَ قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ -يَعْنِي ابْنَ عَيَّاشٍ- عَنْ عَبْدِالْوَهَّابِ بْنِ مُجَاهِدٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالا: الإِيمَانُ يَزِيدُ وَيَنْقُصُ ۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۶۴۱۱، ۱۴۳۵۲) (ضعیف جدًا)
(سند میں عبد الوہاب بن مجاہد متروک الحدیث راوی ہے، لیکن سلف صالحین کے ایمان کی زیادتی اور نقصان پر بکثر ت اقوال ہیں،اور آیات کریمہ سے اس کی تصدیق ہوتی ہے، نیز اس باب میں بعض مرفوع روایت مروی ہے، جو صحیح نہیں ہے، ملاحظہ ہو : الضعیفہ: ۱۱۲۳)
۷۴- ابوہریرہ اور عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم دونوں کہتے ہیں کہ ایمان بڑھتا ،اورگھٹتا ہے ۔


[ز] 75- حَدَّثَنَا أَبُو عُثْمَانَ الْبُخَارِيُّ، حَدَّثَنَا الْهَيْثَمُ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، عَنْ حَرِيزِ ابْنِ عُثْمَانَ، عَنِ الْحَارِثِ -أَظُنُّهُ- عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ أَبِي الدَّرْدَائِ قَالَ: الإِيمَانُ يَزْدَادُ وَيَنْقُصُ ۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۹۶۰) (ضعیف)
(سند میں حارث کو شک ہے کہ انہوں نے مجاہد سے روایت کی ہے ، اس لئے اس سے انقطاع سند کا اشارہ ملتا ہے)
۷۵- ابو الدرداء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایمان بڑھتا اور گھٹتا ہے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
10- بَاب فِي الْقَدَرِ
۱۰- باب: قضا وقدر(تقدیر ) کا بیان​


76- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، وَمُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ، وَأَبُو مُعَاوِيَةَ، (ح) وحَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مَيْمُونٍ الرَّقِّيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، وَمُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ زَيْدِ ابْنِ وَهْبٍ، قَالَ: قَالَ عَبْدُاللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ: حَدَّثَنَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ -وَهُوَ الصَّادِقُ الْمَصْدُوقُ- أنَّهُ: " يُجْمَعُ خَلْقُ أَحَدِكُمْ فِي بَطْنِ أُمِّهِ أَرْبَعِينَ يَوْمًا، ثُمَّ يَكُونُ عَلَقَةً مِثْلَ ذَلِكَ، ثُمَّ يَكُونُ مُضْغَةً مِثْلَ ذَلِكَ، ثُمَّ يَبْعَثُ اللَّهُ إِلَيْهِ الْمَلَكَ، فَيُؤْمَرُ بِأَرْبَعِ كَلِمَاتٍ، فَيَقُولُ: اكْتُبْ عَمَلَهُ، وَأَجَلَهُ وَرِزْقَهُ، وَشَقِيٌّ أَمْ سَعِيدٌ، فَوَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ إِنَّ أَحَدَكُمْ لَيَعْمَلُ بِعَمَلِ أَهْلِ الْجَنَّةِ حَتَّى مَا يَكُونُ بَيْنَهُ وَبَيْنَهَا إِلا ذِرَاعٌ، فَيَسْبِقُ عَلَيْهِ الْكِتَابُ، فَيَعْمَلُ بِعَمَلِ أَهْلِ النَّارِ فَيَدْخُلُهَا، وَإِنَّ أَحَدَكُمْ لَيَعْمَلُ بِعَمَلِ أَهْلِ النَّارِ حَتَّى مَا يَكُونُ بَيْنَهُ وَبَيْنَهَا إِلا ذِرَاعٌ، فَيَسْبِقُ عَلَيْهِ الْكِتَابُ فَيَعْمَلُ بِعَمَلِ أَهْلِ الْجَنَّةِ فَيَدْخُلُهَا >۔
* تخريج: خ/بدء الخلق ۶ (۳۲۰۸)، الانبیاء ۱ (۳۳۳۲)، القدر ۱ (۶۵۹۴)، التوحید ۲۸ (۷۴۵۴)، م/القدر۱ (۲۶۴۳)، د/السنۃ ۱۷ (۴۷۰۸)، ت/القدر ۴ (۲۱۳۷)، (تحفۃ الأشراف: ۹۲۲۸)، وقد أخرجہ: حم (۱/۳۸۲، ۴۱۴، ۴۳۰) (صحیح)
۷۶- عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم سے رسول اللہ ﷺ جو صادق ومصدوق (یعنی جو خود سچے ہیں اور سچے مانے گئے) ہیں نے بیان کیا کہ: ''پیدائش اس طرح ہے کہ تم میں سے ہر ایک کا نطفۂ خلقت ما ں کے پیٹ میں چالیس دن تک جمع رکھا جاتا ہے، پھر وہ چالیس دن تک جما ہوا خون رہتا ہے، پھر چالیس دن تک گوشت کا ٹکڑا ہوتا ہے، پھر اللہ تعالی اس کے پاس چارباتوں کا حکم دے کر ایک فرشتہ بھیجتا ہے، اللہ تعالی اس فرشتہ سے کہتا ہے: اس کا عمل، اس کی مدت عمر، اس کا رزق، اور اس کا بدبخت یا نیک بخت ہونا لکھو، قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے تم میں کا کوئی جنت والوں کا عمل کررہا ہوتا ہے یہاں تک کہ اس کے اور جنت کے درمیان ایک ہاتھ کا فاصلہ رہ جاتا ہے کہ اس پر اس کا مقدر غالب آجاتا ہے (یعنی لکھی ہوئی تقدیر غالب آجاتی ہے)، اور وہ جہنم والوں کا عمل کر بیٹھتا ہے، اور اس میں داخل ہوجاتا ہے، اور تم میں کا کوئی جہنم والوں کا عمل کررہا ہوتا ہے، یہاں تک کہ اس کے اور جہنم کے درمیان ایک ہاتھ کا فاصلہ رہ جاتا ہے، کہ اس پر لکھی ہوئی تقدیر غالب آجاتی ہے، اور وہ جنت والوں کا عمل کرنے لگتا ہے، اور جنت میں داخل ہوجاتا ہے'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : اس حدیث سے معلوم ہواکہ عمل ، اجل (عمر) رزق اور سعادت وشقاوت (خوش نصیبی، اور بدنصیبی) یہ سب تقدیر سے ہے، اور اس کو اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کے حق میں پہلے ہی لکھ دیا ہے، اور یہ سب اللہ تعالیٰ کے علم میں ہے، اس لئے ہر آدمی کو اللہ تبارک وتعالیٰ کی عبادت واطاعت رسول اللہ ﷺ کے طریقے کے مطابق کرکے تقدیر کو اپنے حق میں مفید بنانے کی کوشش کرنی چاہیے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: {وَأَنْ لَيْسَ لِلإِنْسَانِ إِلا مَا سَعَىْ}.


77- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ سُلَيْمَانَ قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا سِنَانٍ، عَنْ وَهْبِ ابْنِ خَالِدٍ الْحِمْصِيِّ، عَنِ ابْنِ الدَّيْلَمِيِّ قَالَ: وَقَعَ فِي نَفْسِي شَيْئٌ مِنْ هَذَا الْقَدَرِ، خَشِيتُ أَنْ يُفْسِدَ عَلَيَّ دِينِي وَأَمْرِي، فَأَتَيْتُ أُبَيَّ بْنَ كَعْبٍ فَقُلْتُ: أَبَا الْمُنْذِرِ! إِنَّهُ قَدْ وَقَعَ فِي نَفْسِي شَيْئٌ مِنْ هَذَا الْقَدَرِ؛ فَخَشِيتُ عَلَى دِينِي وَأَمْرِي، فَحَدِّثْنِي مِنْ ذَلِكَ بِشَيْئٍ، لَعَلَّ اللَّهَ أَنْ يَنْفَعَنِي بِهِ، فَقَالَ: لَوْ أَنَّ اللَّهَ عَذَّبَ أَهْلَ سَمَاوَاتِهِ وَأَهْلَ أَرْضِهِ لَعَذَّبَهُمْ وَهُوَ غَيْرُ ظَالِمٍ لَهُمْ، وَلَوْ رَحِمَهُمْ لَكَانَتْ رَحْمَتُهُ خَيْرًا لَهُمْ مِنْ أَعْمَالِهِمْ، وَلَوْ كَانَ لَكَ مِثْلُ جَبَلِ أُحُدٍ ذَهَبًا -أَوْ مِثْلُ جَبَلِ أُحُدٍ- تُنْفِقُهُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ مَا قُبِلَ مِنْكَ حَتَّى تُؤْمِنَ بِالْقَدَرِ، فَتَعْلَمَ أَنَّ مَا أَصَابَكَ لَمْ يَكُنْ لِيُخْطِئَكَ، وَأَنَّ مَا أَخْطَأَكَ لَمْ يَكُنْ لِيُصِيبَكَ، وَأَنَّكَ إِنْ مُتَّ عَلَى غَيْرِ هَذَا دَخَلْتَ النَّارَ، وَلا عَلَيْكَ أَنْ تَأْتِيَ أَخِي عَبْدَاللَّهِ ابْنَ مَسْعُودٍ فَتَسْأَلَهُ، فَأَتَيْتُ عَبْدَاللَّهِ فَسَأَلْتُهُ فَذَكَرَ مِثْلَ مَا قَالَ أُبَيّ، وَقَالَ لِي: وَلا عَلَيْكَ أَنْ تَأْتِيَ حُذَيْفَةَ، فَأَتَيْتُ حُذَيْفَةَ فَسَأَلْتُهُ، فَقَالَ مِثْلَ مَا قَالا، وَقَالَ: ائْتِ زَيْدَ بْنَ ثَابِتٍ فَاسْأَلْهُ، فَأَتَيْتُ زَيْدَ بْنَ ثَابِتٍ فَسَأَلْتُهُ فَقَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: <لَوْ أَنَّ اللَّهَ عَذَّبَ أَهْلَ سَمَاوَاتِهِ وَأَهْلَ أَرْضِهِ لَعَذَّبَهُمْ وَهُوَ غَيْرُ ظَالِمٍ لَهُمْ، وَلَوْ رَحِمَهُمْ لَكَانَتْ رَحْمَتُهُ خَيْرًا لَهُمْ مِنْ أَعْمَالِهِمْ، وَلَوْ كَانَ لَكَ مِثْلُ أُحُدٍ -أَوْ مِثْلُ جَبَلِ أُحُدٍ ذَهَبًا- تُنْفِقُهُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ مَا قَبِلَهُ مِنْكَ حَتَّى تُؤْمِنَ بِالْقَدَرِ كُلِّهِ، فَتَعْلَمَ أَنَّ مَا أَصَابَكَ لَمْ يَكُنْ لِيُخْطِئَكَ، وَمَا أَخْطَأَكَ لَمْ يَكُنْ لِيُصِيبَكَ، وَأَنَّكَ إِنْ مُتَّ عَلَى غَيْرِ هَذَا دَخَلْتَ النَّارَ>۔
* تخريج: د/السنۃ ۱۷(۴۶۹۹)، (تحفۃ الأشراف:۵۲، ۳۷۲۶، ۹۳۴۸)، وقد أخرجہ: حم (۵/۱۸۲، ۱۸۵، ۱۸۹) (صحیح)
۷۷- عبد اللہ بن فیروز دیلمی کہتے ہیں کہ میرے دل میں اس تقدیر کے سلسلے میں کچھ شبہات پیدا ہوئے ،اور مجھے ڈر لاحق ہوا کہ کہیں یہ شبہات میرے دین اور میرے معاملے کو خراب نہ کردیں، چنانچہ میں ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کے پاس آیا، اور عرض کیا: ابو المنذر ! میرے دل میں اس تقدیر کے سلسلے میں کچھ شبہات وارد ہوئے ہیں، مجھے ڈر ہے کہ کہیں میرا دین اور میرا معاملہ خراب نہ ہو جائے، لہذا آپ اس سلسلہ میں مجھ سے کچھ بیان کریں تا کہ اللہ تعالی مجھے اس سے کچھ فائدہ پہنچائے، انہوں نے کہا: اگر اللہ تعالی تمام آسمان وزمین والوں کو عذاب دینا چاہے تو انہیں عذاب دے سکتا ہے، اور وہ ظالم نہیں ہوگا، اور اگر ان پر رحم کرے تو اس کی رحمت ان کے حق میں ان کے اعمال سے زیادہ بہتر ہے، اور اگر تمہارے پاس احد پہاڑ کے برابر سونا ہو (یا کہا: احد پہاڑ کے برابر مال) ہو اور تم اسے اللہ تعالی کی راہ میں خرچ کردو، تو یہ اس وقت تک قبول نہیں ہوگا جب تک کہ تم تقدیر پہ ایمان نہ لاؤ، تم یہ یقین رکھو کہ جو (خیر وشر) تمہیں پہنچا وہ تم سے چوکنے والا نہ تھا، اور جو تمہیں نہیں پہنچا وہ تمہیں پہنچنے والا نہیں تھا ۱؎ ، اور اگر تم اس اعتقاد کے علاوہ پر مرے تو جہنم میں داخل ہوگے، اور کوئی حرج نہیں کہ تم میرے بھائی عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس جاؤ اور ان سے پوچھو، عبداللہ بن فیروز دیلمی کہتے ہیں: میں عبداللہ رضی اللہ عنہ کے پاس آیا، اور ان سے پوچھا، تو انہوں نے بھی وہی بتایا جو اُبی رضی اللہ عنہ نے بتایا تھا، اور مجھ سے کہا: کوئی مضائقہ نہیں کہ تم حذیفہ رضی اللہ عنہ کے پاس جاؤ۔
چنانچہ میں حذیفہ رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور ان سے پوچھا تو انہوں نے بھی وہی بتایا جو ان دونوں (ابی بن کعب اور عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہما) نے بتایا تھا، اور انہوں نے کہا: تم زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کے پاس جاؤ اور ان سے بھی پوچھ لو۔
چنانچہ میں زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کے پاس آیا، اور ان سے بھی پوچھا، تو انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا: ''اگر اللہ تعالی تمام آسمان وزمین والوں کو عذاب دینا چاہے تو انہیں عذاب دے سکتا ہے، اور وہ ظالم نہیں ہوگا، اور اگر ان پر رحم کرے تو اس کی رحمت ان کے حق میں ان کے اعمال سے بہتر ہے، اور اگر تمہارے پاس احد کے برابر سونا یا احد پہاڑ کے برابر سونا ہو، اور تم اسے اللہ کی راہ میں خرچ کرو تو وہ اس وقت تک تمہاری جانب سے اللہ تعالیٰ کے نزدیک قابل قبول نہ ہوگا جب تک کہ تم پوری تقدیر پہ کلی طور پر ایمان نہ لاؤ، اور تم یہ یقین رکھو کہ جو (خیر وشر) تمہیں پہنچا ہے تم سے چوکنے والا نہ تھا، اور جو تم سے چوک گیا وہ تمہیں پہنچنے والا نہیں تھا، اور اگر تم اس عقیدہ کے علاوہ پر مرے تو جہنم میں داخل ہوگے'' ۲؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث میں ایمان کے مزہ اور اس کی حلاوت وشیرینی کا ذکر ہے جو محسوس اشیاء کے مزہ کی طرح نہیں ہے، دنیاوی کھانے پینے کاایک مزہ ہوتا ہے، دوسری چیز کھانے کے بعد پہلی چیز کا مزہ جاتا رہتا ہے، لیکن ایمان کی حلاوت تادیر باقی رہتی ہے، حتی کہ آدمی کبھی خلوصِ دل،حضورِ قلب اور خشوع وخضوع کی حالت میں اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتا ہے تو اس کی حلاوت اسے مدتوں محسوس ہوتی ہے، لیکن اس ایمانی حلاوت اور مزہ کا ادراک صرف اسی کو ہوگا جس کو اللہ تعالیٰ نے اس نعمت سے بہرہ ور کیا ہو۔
اس حدیث کا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو مقدر کر رکھا ہے ،تقدیر کو اصابت سے تعبیر کیا، اس لئے کہ تقدیر کا لکھا ہو کر رہے گا، تو جو کچھ تقدیر تھی اللہ تعالیٰ نے اسے بندہ کے حق میں لکھ دی ہے وہ اس کو مل کر رہے گی، مقدر کو ٹالنے کے اسباب اختیار کرنے کے بعد بھی وہ مل کر رہے گا، انسان سے وہ خطا نہیں کرے گا۔
ایک معنی یہ بھی ہے کہ تم کو جو کچھ بھی پہنچ گیا ہے اس کے بارے میں یہ نہ سوچو کہ وہ تم سے خطا کرنے والی چیز ہے، تو یہ نہ کہو کہ اگر میں نے ایسے ایسے کیا ہوتا تو ایسا نہ ہوتا، اس لئے کہ اس وقت تم جس حالت سے دور چار ہوئے اس کا ٹلنا ناممکن ہے، تو تمہارا ہر اندازہ اور ہر تدبیر اس تقدیر کے وقوع پذیر ہونے میں غیر موثر ہے، حدیث کی شرح دونوں معنوں میں صحیح ہے، پس اللہ تعالیٰ نے بندہ کے حق میں جو کچھ مقدر کر رکھا ہے وہ اس کو مل کر رہے گا، اس کا خطا کرجانا ناممکن ہے، اس بات پر ایمان کے نتیجہ میں مومن ایمان کا مزہ چکھے گا، اس لئے کہ اس ایمان کی موجودگی میں آدمی کو اس بات کا علم اور اس پر اطمینان ہوگا کہ مقدر کی بات لابدی اور ضروری طور پر واقع ہوگی، اس کو تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔
اس کی مثال ایسی ہے کہ ایک آدمی اپنے بچوں کو لے کر کسی تفریح گاہ میں سیروتفریح کے لئے جاتا ہے، اور اس کا بچہ وہاں گہرے پانی میں ڈوب کر مرجاتا ہے، تو یہ کہنا صحیح نہیں کہ اگر وہ سیر کے لئے نہ نکلا ہوتا تو وہ بچہ نہ مرتا، اس لئے کہ جو کچھ ہوا یہ اللہ کی طرف سے مقدر تھا، اور تقدیر کے مطابق لازمی طور پر ہوا جس کو روکا نہیں جاسکتا تھا، تو جو کچھ ہونے والی چیز تھی اس نے خطا نہیں کی، ایسی صورت میں انسان کو اطمینان قلب حاصل ہوجاتا ہے اور وہ اس صورتِ حال پر اللہ کے فیصلہ پر صبر کرتاہے بلکہ اس پر راضی ہوتا ہے، اور اس کو پتہ چل جاتا ہے کہ یہ جو کچھ ہوا اس سے فرار کی کوئی صورت نہیں تھی، اور دل میں ہر طرح کے اٹھتے خیالات اور اندازے سب شیطانی وساوس کے قبیل سے ہیں، پس آدمی کو یہ نہیں کہنا چاہئے کہ اگر میں نے ایسا کیا ہوتا تو ایسا اور ایسا ہوتا، کیونکہ "لو" شیطان کی دخل اندازی کا راستہ کھول دیتا ہے، اس معنی کو اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں یوں بیان فرمایا ہے: {مَا أَصَابَ مِن مُّصِيبَةٍ فِي الأَرْضِ وَلا فِي أَنفُسِكُمْ إِلا فِي كِتَابٍ مِّن قَبْلِ أَن نَّبْرَأَهَا إِنَّ ذَلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيرٌ (22) لِكَيْلا تَأْسَوْا عَلَى مَا فَاتَكُمْ وَلاَ تَفْرَحُوا بِمَا آتَاكُمْ وَاللَّهُ لا يُحِبُّ كُلَّ مُخْتَالٍ فَخُورٍ} ، یعنی: ''نہ کوئی مصیبت دنیا میں آتی ہے، نہ (خاص) تمہاری جانوں میں، مگر اس سے پہلے کہ ہم اس کو پیدا کریں وہ ایک خاص کتاب میں لکھی ہوئی ہے، یہ (کام) اللہ تعالیٰ پر (بالکل) آسان ہے، تاکہ تم اپنے سے فوت شدہ کسی چیز پر رنجیدہ نہ ہوجایا کرو، اور نہ عطا کردہ چیز پر اترا جاؤ، اور اترانے والے شیخی خوروں کو اللہ پسند نہیں فرماتا'' (سورۃ الحدید: ۲۲-۲۳)۔
آدمی اگر تقدیر پر یقین کرے تو مصائب وحوادث پر اس کو اطمینان قلب ہوگا، اور وہ اس پر صبر کرے گا بلکہ اللہ تعالیٰ کے فیصلہ پر راضی ہوگا، اور اسے ایمان کی حلاوت کا احساس ہوگا۔
حدیث کا دوسرا ٹکڑا : '' وما أخطأك لم يكن يصيبك'' پہلے فقرے ہی کے معنی میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جس چیز کو تقدیر میں نہ ہونا لکھ دیا ہے، وہ کبھی واقع نہیں ہوسکتی، مثلاً اگر ایک آدمی نے کسی تجارت گاہ کا رخ کیا، لیکن وہاں پہنچنے پر پتہ چلا کہ بازار بند ہوگیا، تو اس کو کہا جائے گا کہ یہ تجارتی فائدہ جو تم کو نہ ملا، اسے تم کو ہرگز ہرگز نہ ملنا تھا چاہے تم اس کے لئے جتنا بھی جتن اور کوشش کرتے، یا ہم یہ کہیں کہ یہ تم کو حاصل ہونے والا نہ تھا اس لئے کہ معاملہ اللہ کے قضا وقدر کے مطابق طے ہونا تھا، آدمی کو اس عقیدہ کا تجربہ کرکے یہ دیکھنا چاہئے کہ کیا اس کے بعد اس کو ایمان کی حلاوت کا احساس ہوا یا نہیں۔
وضاحت ۲؎ : سلامتی کا راستہ یہی ہے کہ انسان تقدیر پر ایمان رکھے، اور شیطانی وسوسوں سے بچے، اور تقدیر کے منکروں سے میل جول نہ رکھے بلکہ ان سے دورہے، اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ انسان کے اچھے اعمال بغیر ایمان کے ہرگز قبول نہیں ہوتے، اور یہ بھی معلوم ہوا کہ اگر انسان اس قضا وقدر کے اسلامی عقیدہ کے سوا کسی اور عقیدہ پر مرا تو وہ جہنم میں جائے گا، مراد اس سے جہنم میں ہمیشہ رہنے کا نہیں ہے، جیسے کافروں کے لئے جہنم میں ہمیشہ رہنا ہے ،اس لئے کہ اہل قبلہ اپنے گناہوں کی سزا میں عذاب پانے کے بعد اگر وہ موحد ہیں تو جہنم سے نکالے جائیں گے۔


78- حَدَّثَنَا عُثْمَانُ ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، (ح) وَحَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ وَوَكِيعٌ، عَنِ الأَعْمَشِ عَنْ سَعْدِ بْنِ عُبَيْدَةَ، عَنْ أَبِي عَبْدِالرَّحْمَنِ السُّلَمِيِّ، عَنْ عَلِيِّ ابْنِ أَبِي طَالِبٍ قَالَ: كُنَّا جُلُوسًا عِنْدَ النَّبِيِّ ﷺ وَبِيَدِهِ عُودٌ، فَنَكَتَ فِي الأَرْضِ، ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ، فَقَالَ: < مَا مِنْكُمْ مِنْ أَحَدٍ إِلا وَقَدْ كُتِبَ مَقْعَدُهُ مِنَ الْجَنَّةِ وَمَقْعَدُهُ مِنَ النَّارِ >، قِيلَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! أَفَلا نَتَّكِلُ؟ قَالَ: <لا، اعْمَلُوا وَلا تَتَّكِلُوا، فَكُلٌّ مُيَسَّرٌ لِمَا خُلِقَ لَهُ>، ثُمَّ قَرَأَ: {فَأَمَّا مَنْ أَعْطَى وَاتَّقَى وَصَدَّقَ بِالْحُسْنى فَسَنُيَسِّرُهُ لِلْيُسْرَى وَأَمَّا مَنْ بَخِلَ وَاسْتَغْنَى وَكَذَّبَ بِالْحُسْنَى فَسَنُيَسِّرُهُ لِلْعُسْرَى}>۔
* تخريج:خ/الجنائز ۸۲ (۱۳۶۲)، تفسیر القرآن ۹۲ (۴۹۴۵)، الأدب ۱۲۰ (۶۲۱۷)، القدر ۴ (۶۶۰۵)، التوحید ۵۴ (۷۵۵۲)، م/القدر ۱ (۲۶۴۷)، د/السنۃ ۱۷ (۴۶۹۴)، ت/القدر ۳ (۲۱۳۶)، التفسیر ۸۰ (۳۳۴۴)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۱۶۷)، وقد أخرجہ: حم (۱/۸۲، ۱۲۹، ۱۳، ۱۴۰) (صحیح)
۷۸- علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نبی اکرم ﷺ کے پاس بیٹھے تھے، آپ کے ہاتھ میں ایک لکڑی تھی، آپ ﷺ نے اس سے زمین کو کریدا ، پھر اپنا سر اٹھایا اور فرمایا: ''جنت وجہنم میں ہر شخص کا ٹھکانہ لکھ دیا گیا ہے''، عرض کیا گیا: اللہ کے رسول! کیا ہم اس پر بھروسہ نہ کرلیں (اور عمل چھوڑ دیں)، آپ ﷺ نے فرمایا: ''نہیں، عمل کرو، اور صرف لکھی تقدیر پر بھروسہ نہ کرکے بیٹھو، اس لئے کہ ہر ایک کو اسی عمل کی توفیق دی جاتی ہے جس کے لئے وہ پیدا کیا گیا ہے''، پھر آپ ﷺ نے یہ آیت پڑھی: {فَأَمَّا مَنْ أَعْطَى وَاتَّقَى وَصَدَّقَ بِالْحُسْنى فَسَنُيَسِّرُهُ لِلْيُسْرَى وَأَمَّا مَنْ بَخِلَ وَاسْتَغْنَى وَكَذَّبَ بِالْحُسْنَى فَسَنُيَسِّرُهُ لِلْعُسْرَى} [سورة الليل: 5-10]، یعنی: ''جس نے اللہ کی راہ میں دیا اپنے رب سے ڈرا، اور اچھی بات کی تصدیق کرتا رہا، تو ہم بھی اس پر سہولت کا راستہ آسان کر دیں گے ،لیکن جس نے بخیلی کی، لاپرواہی برتی اور اچھی بات کو جھٹلایا تو ہم بھی اس کی تنگی ومشکل کے سامان میسر کردیں گے ) ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اس میں ان شیطانی وسوسوں کا جواب ہے جو اکثر لوگوں کے ذہنوں میں آ تے رہتے ہیں کہ جب جنتی اور جہنمی کا فیصلہ پہلے ہی ہوچکا ہے تو اب عمل کیونکر کریں؟لیکن نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : ''عمل کرو، تقدیر پر بھروسہ کرکے بیٹھ نہ جائو، کیونکہ ہر شخص کو اسی عمل کی توفیق دی جاتی ہے جس کے لئے وہ پیدا کیا گیا ہے''، اس لئے نیک عمل کرتے رہنا چاہیے کیونکہ یہی جنت میں جانے اور اللہ تعالی کی رحمتوں کے مستحق بننے کا ذریعہ ہے۔


79- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَعَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ الطَّنَافِسِيُّ قَالا: حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ ابْنُ إِدْرِيسَ، عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ عُثْمَانَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يَحْيَى بْنِ حَبَّانَ، عَنِ الأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: <الْمُؤْمِنُ الْقَوِيُّ خَيْرٌ وَأَحَبُّ إِلَى اللَّهِ مِنَ الْمُؤْمِنِ الضَّعِيفِ، وَفِي كُلٍّ خَيْرٌ، احْرِصْ عَلَى مَا يَنْفَعُكَ، وَاسْتَعِنْ بِاللَّهِ، وَلاتَعْجَزْ، فَإِنْ أَصَابَكَ شَيْئٌ فَلاتَقُلْ: لَوْ أَنِّي فَعَلْتُ كَذَا وَكَذَا، وَلَكِنْ قُلْ: قَدَّرَ اللَّهُ وَمَا شَائَ فَعَلَ، فَإِنَّ "لَوْ" تَفْتَحُ عَمَلَ الشَّيْطَانِ>۔
* تخريج: م/القدر ۸ (۲۶۶۴)، ن/ في الیوم واللیلۃ (۶۲۵)، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۹۶۵)، وقد أخرجہ: حم (۲/ ۳۶۶، ۳۷)، (یہ حدیث مکرر ہے، دیکھئے: ۴۱۶۸) (حسن صحیح)
۷۹- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:''طاقتور مومن اللہ تعالی کے نزدیک کمزور مومن سے بہتر اور پیارا ہے ۱؎ ، دونوں میں سے ہر ایک میں خیر ہے، ہر اس چیز کی حرص کرو جو تمہیں نفع دے، اور اللہ سے مدد طلب کرو، دل ہار کر نہ بیٹھ جاؤ، اگر تمہیں کوئی نقصان پہنچے تویہ نہ کہو: کاش کہ میں نے ایسا ویسا کیا ہوتا تو ایسا ہوتا، بلکہ یہ کہو: جو اللہ نے مقدر کیا تھا اور جو اس نے چاہا کیا، اس لئے کہ''اگر مگر'' شیطان کے عمل کے لئے راستہ کھول دیتا ہے'' ۲؎ ۔
وضاحت ۱؎ : کیونکہ وہ عبادت کی ادائیگی اور فرائض وسنن،اور دعوت وتبلیغ اور معاشرتی خدمت وغیرہ امورکے قیام میں کمزور مومن سے زیادہ مستعد اور توانا ہوتا ہے ۔
وضاحت ۲؎ : یعنی اگر مگر سے شیطان کو گمراہ کرنے کا موقع ملتا ہے ۔


80- حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، وَيَعْقُوبُ بْنُ حُمَيْدِ بْنِ كَاسِبٍ قَالا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ سَمِعَ طَاوُسًا يَقُولُ: سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ يُخْبِرُ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: <احْتَجَّ آدَمُ وَمُوسَى -عَلَيْهِمَا السَّلام- فَقَالَ لَهُ مُوسَى: يَا آدَمُ! أَنْتَ أَبُونَا، خَيَّبْتَنَا وَأَخْرَجْتَنَا مِنَ الْجَنَّةِ بِذَنْبِكَ، فَقَالَ لَهُ آدَمُ: يَا مُوسَى! اصْطَفَاكَ اللَّهُ بِكَلامِهِ، وَخَطَّ لَكَ التَّوْرَاةَ بِيَدِهِ، أَتَلُومُنِي عَلَى أَمْرٍ قَدَّرَهُ اللَّهُ عَلَيَّ قَبْلَ أَنْ يَخْلُقَنِي بِأَرْبَعِينَ سَنَةً؟ فَحَجَّ آدَمُ مُوسَى، فَحَجَّ آدَمُ مُوسَى، فَحَجَّ آدَمُ مُوسَى -ثَلاثًا-"۔
* تخريج:خ/التفسیر سورۃ طہ ۱(۴۷۳۶)، القدر ۱۱ (۶۶۱۴)، م/القدر ۲ (۲۶۵۲)، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۵۲۹)، وقد أخرجہ: د/السنۃ ۱۷ (۴۷۰۱)، ت/القدر ۲ (۲۱۳۵)، ط/القدر ۱ (۱)، حم (۲/۲۴۸، ۲۶۸) (صحیح)
۸۰- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ''آدم وموسیٰ میں مناظرہ ہوا، موسیٰ نے آدم سے کہا: اے آدم! آپ ہمارے باپ ہیں، آ پ نے ہمیں نا کام ونامراد بنادیا،اور اپنے گناہ کے سبب ہمیں جنت سے نکال دیا، تو آدم وضاحت نے ان سے کہا: اے موسیٰ! اللہ تعالی نے تم کو اپنی ہم کلامی کے لئے منتخب کیا، اور تمہارے لئے اپنے ہاتھ سے توریت لکھی، کیا تم مجھ کو ایک ایسے عمل پر ملامت کرتے ہو جس کو اللہ تعالی نے میری پیدائش سے چالیس سال پہلے میری تقدیر میں لکھ دیا تھا ! ''، نبی اکرم ﷺ نے تین بار فرمایا: ''چنانچہ آدم موسیٰ پر غالب آگئے، آدم موسیٰ پر غالب آگئے،آدم موسیٰ پر غالب آگئے'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : آدم وضاحت موسیٰ وضاحت پر غالب آگئے اور ان سے جیت گئے یعنی انہیں اس بات کا قائل کرلیا کہ بندہ اپنے افعال میں خود مختار نہیں ہے، اور اللہ تعالی نے جس کام کو اس کے لئے مقدر کردیا ہے اس کے نہ کرنے پر وہ قادر نہیں، لہذا جو کچھ انہوں نے کیا اس پر انہیں ملامت کرنا درست نہیں، صحیح مسلم کی روایت میں ہے کہ آدم وضاحت نے موسی وضاحت سے پوچھا کہ تم نے تورات میں پڑھا ہے کہ اللہ تعالی نے میری پیدائش سے کتنے برس پہلے تورات لکھی؟ انہوں نے کہا: چالیس برس ، پھر آدم وضاحت نے فرمایا کہ تم نے اس میں پڑھا ہے: {وَعَصَى آَدَمُ رَبَّهُ فَغَوَى} (یعنی آدم نے اپنے رب کی نافرمانی کی، تو راہ بھول گئے)، انہوں نے کہا : ہاں، آدم وضاحت نے فرمایا: پھر بھلا تم مجھے کیا ملامت کرتے ہو؟ باقی وہی مضمون ہے، اور نبی اکرم ﷺ نے تین بار فرمایا کہ آدم وضاحت جیت گئے، اور یہ تکرار تاکید کے لئے تھی تاکہ بخوبی یہ بات سمجھ لی جائے کہ آدم وضاحت مستقل فاعل نہ تھے کہ فعل وترک کا اختیار کامل رکھتے ہوں، بلکہ جو تقدیر الٰہی تھی اس کا ان سے وقوع ہوا، اور اللہ کی مرضی ومشیت کا ہونا ضروری تھا، گویا کہ آدم وضاحت نے یہ کہا کہ پھر تم اس علم سابق سے جو بذریعہ تورات تمہیں حاصل ہوچکا ہے کیوں غافل ہوتے ہو، اور صرف میرے کسب (یعنی فعل اور کام) کو یاد کرتے ہو، جو صرف سبب تھا، اور اصل سے غفلت کرتے ہو جو تقدیر الٰہی تھی اور تم جیسے منتخب اور پسندیدہ اور اسرار ورموز الٰہی کے واقف کار سے یہ بات نہایت بعید ہے، اور ان دونوں نبیوں میں یہ گفتگو عالم تکلیف واسباب میں نہیں ہوئی کہ یہاں وسائط واکتساب سے قطع نظر اور وسائل اور مواصلات سے چشم پوشی جائز نہیں بلکہ عالم علوی میں ہوئی جو اہل تقوی کی ارواح کے اکٹھا ہونے کی جگہ ہے، اور مکلف اس وقت تک ملامت کا مستحق ہوگا جب وہ عہدتکلیف ومسئولیت میں ہو تو اس پر ملامت امر معروف میں داخل ہے، اور معاصی سے ممانعت کا سبب ہے، اور دوسروں کے لئے عبرت اور موعظت کا سبب ہے، اور جب آدمی تکلیف ومسئولیت کے مقام سے نکل گیا تو اب وہ ملامت کا مستحق نہ رہا بلکہ حقیقت واقعہ یہ ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے جو چیز مقدر کردی تھی اس کا ظہور ہوا، اور یہ بھی واضح ہے کہ یہ گفتگو اس وقت ہوئی جب آدم وضاحت تائب ہوچکے تھے، اور اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول کرلی تھی، اور تائب ملامت کے لائق نہیں ہوتا، مقصد یہ ہے کہ اس واقعہ سے فساق وفجار اپنے فسق وفجور اور بد اعمالیوں پر استدلال نہیں کرسکتے ۔


81- حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ عَامِرِ بْنِ زُرَارَةَ، حَدَّثَنَا شَرِيكٌ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ رِبْعِيٍّ، عَنْ عَلِيٍّ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < لا يُؤْمِنُ عَبْدٌ حَتَّى يُؤْمِنَ بِأَرْبَعٍ: بِاللَّهِ وَحْدَهُ لاشَرِيكَ لَهُ، وَأَنِّي رَسُولُ اللَّهِ، وَبِالْبَعْثِ بَعْدَ الْمَوْتِ، وَالْقَدَرِ>۔
* تخريج: ت/القدر ۱۰ (۲۱۴۵)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۰۸۹)، وقد أخرجہ: حم (۱/۹۷،۱۳۳) (صحیح)
۸۱- علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''کوئی شخص چار چیزوں پر ایمان لائے بغیر مومن نہیں ہوسکتا: اللہ واحد پر جس کا کوئی شریک نہیں، میرے اللہ کے رسول ہونے پر، مرنے کے بعد دوبارہ اٹھائے جانے پر، اور تقدیر پر''۔


82- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَعَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا طَلْحَةُ بْنُ يَحْيَى بْنِ طَلْحَةَ بْنِ عُبَيْدِاللَّهِ، عَنْ عَمَّتِهِ عَائِشَةَ بِنْتِ طَلْحَةَ، عَنْ عَائِشَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ قَالَتْ: دُعِيَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ إِلَى جِنَازَةِ غُلامٍ مِنَ الأَنْصَارِ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! طُوبَى لِهَذَا، عُصْفُورٌ مِنْ عَصَافِيرِ الْجَنَّةِ لَمْ يَعْمَلِ السُّوئَ وَلَمْ يُدْرِكْهُ، قَالَ: " أَوَ غَيْرُ ذَلِكَ يَا عَائِشَةُ؟ إِنَّ اللَّهَ خَلَقَ لِلْجَنَّةِ أَهْلاً، خَلَقَهُمْ لَهَا وَهُمْ فِي أَصْلابِ آبَائِهِمْ، وَخَلَقَ لِلنَّارِ أَهْلا، خَلَقَهُمْ لَهَا وَهُمْ فِي أَصْلابِ آبَائِهِمْ >۔
* تخريج: م/القدر (۲۶۶۲)، د/السنۃ ۱۸ (۴۷۱۳)، ن/الجنائز ۵۸ (۱۹۴۹)، (تحفۃ الأشراف:۱۷۸۷۳)، وقد أخرجہ: حم (۶/۴۱، ۲۰۸) (صحیح)
۸۲- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ انصار کے ایک بچے کے جنازے میں بلائے گئے، تومیں نے کہا: اللہ کے رسول! اس بچہ کے لئے مبارک باد ہو، وہ تو جنت کی چڑیوں میں سے ایک چڑیا ہے، نہ تواس نے کوئی برائی کی اور نہ ہی برائی کرنے کا وقت پایا، آپ ﷺ نے فرمایا: ''عائشہ بات یوں نہیں ہے، بلکہ اللہ نے جنت کے لئے کچھ لوگوں کو پیدا کیا جب کہ وہ ابھی اپنے والد کی پشت میں تھے، اور جہنم کے لئے کچھ لوگوں کو پیدا کیا جب کہ وہ ابھی اپنے والد کی پشت میں تھے'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : ام المو منین عائشہ رضی اللہ عنہا کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ چونکہ اس بچے نے کوئی گناہ نہ کیا اس لئے یہ تو یقینا جنتی ہے، رسول اکرم ﷺ نے اس یقین کی تردید فرمائی کہ بلادلیل کسی کو جنتی کہنا صحیح نہیں، جنتی یا جہنمی ہونے کافیصلہ تو اللہ تعالی نے انسان کے دنیا میں آنے سے پہلے ہی کردیا ہے، اور وہ ہمیں معلوم نہیں تو ہم کسی کو حتمی اور یقینی طور پر جنتی یا جہنمی کیسے کہہ سکتے ہیں، یہ حدیث ایک دوسری حدیث سے معارض معلوم ہوتی ہے جس میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ مسلمان بچے جو بچپن ہی میں مرجائیں گے اپنے والدین کے ساتھ ہوں گے، نیز علماء کا اس پر تقریباً اتفاق ہے کہ مسلمانوں کے بچے جنتی ہیں، اس حدیث کا یہ جواب دیا گیا کہ ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کو جنتی یا جہنمی کا فیصلہ کرنے میں جلد بازی سے روکنا مقصود تھا،بعض نے کہا: یہ اس وقت کی بات ہے جب رسول اکرم ﷺ کو بتایا نہیں گیا تھا کہ مسلم بچے جنتی ہیں۔


83- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَعَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ، عَنْ زِيَادِ بْنِ إِسْمَاعِيلَ الْمَخْزُومِيِّ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبَّادِ بْنِ جَعْفَرٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: جَائَ مُشْرِكُو قُرَيْشٍ يُخَاصِمُونَ النَّبِيَّ ﷺ فِي الْقَدَرِ؛ فَنَزَلَتْ هَذِهِ الآيَةُ: {يَوْمَ يُسْحَبُونَ فِي النَّارِ عَلَى وُجُوهِهِمْ، ذُوقُوا مَسَّ سَقَر، إِنَّا كُلَّ شَيْئٍ خَلَقْنَاهُ بِقَدَرٍ}۔
* تخريج: م/القدر ۴ (۲۶۵۶)، ت/القدر ۱۹ (۲۱۵۷)، (تحفۃ الأشراف: ۱۴۵۸۹)، حم (۲/۴۴۴، ۴۷۶) (صحیح)
۸۳- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مشرکین قریش نبی اکرم ﷺ کے پاس آکر آپ سے تقدیر کے سلسلے میں جھگڑنے لگے، تو یہ آیت کریمہ نازل ہوئی: {يَوْمَ يُسْحَبُونَ فِي النَّارِ عَلَى وُجُوهِهِمْ، ذُوقُوا مَسَّ سَقَر، إِنَّا كُلَّ شَيْئٍ خَلَقْنَاهُ بِقَدَرٍ} (سورۂ قمر: ۴۹)، یعنی: ''جس دن وہ اپنے منہ کے بل آگ میں گھسیٹے جائیں گے، اور ان سے کہا جائے گا: جہنم کی آگ لگنے کے مزے چکھو، بیشک ہم نے ہر چیز کو ایک انداز ے پر پیدا کیا ہے'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : بغوی نے اس کی تفسیر میں کہا ہے کہ مراد یہ ہے کہ جو چیز ہم نے پیدا کی ہے وہ تقدیر سے ہے یعنی وہ لوح محفوظ میں لکھی ہوئی ہے، حسن بصری نے کہا کہ اللہ تعالی نے اپنی مخلوق کی ہر چیز کا اندازہ کیا کہ اس کے موافق وہ پیدا ہوتی ہے، اور عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو کہتے ہوئے سنا : ''اللہ تعالیٰ نے آسمان وزمین کی پیدائش کے پچاس ہزار سال پہلے مخلوق کی تقدیر لکھی''، اور فرمایا: ''رب العالمین کا عرش اس وقت پانی پر تھا''، اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ''ہر چیز قدر سے ہے یہاں تک کہ نادانی ودانائی بھی''، فتح البیان میں ہے کہ اثبات قدر سے جو بعضوں کے خیال میں آتا ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بندوں کا مجبور ومقہور کردینا ہے، جبکہ حقیقت میں ایسا نہیں ہے، بلکہ یہ صرف اللہ تعالیٰ کے علم قدیم کی خبر ہے کہ بندے کیا کمائیں گے، اور ان کے افعال کا صدور خیر ہو یا شراللہ تعالیٰ کے علم کے مطابق ہوتا ہے ۔


84- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ عُثْمَانَ مَوْلَى أَبِي بَكْرٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ عَبْدِاللَّهِ بْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنْ أَبِيهِ أَنَّهُ دَخَلَ عَلَى عَائِشَةَ فَذَكَرَ لَهَا شَيْئًا مِنَ الْقَدَرِ، فَقَالَتْ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: < مَنْ تَكَلَّمَ فِي شَيْئٍ مِنَ الْقَدَرِ سُئِلَ عَنْهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، وَمَنْ لَمْ يَتَكَلَّمْ فِيهِ لَمْ يُسْأ لْ عَنْهُ >.
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۲۶۵، ومصباح الزجاجۃ: ۲۸) (ضعیف)
(سند میں واقع دو راوی یحییٰ بن عثمان منکر الحدیث اور یحییٰ بن عبد اللہ لین الحدیث ہیں، ملاحظہ: المشکاۃ: ۱۱۴)
۸۴- عبداللہ بن ابی ملیکہ کہتے ہیں کہ وہ ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئے اور ان سے تقدیر کے سلسلے میں کچھ ذکر کیا تو انہوں نے کہاکہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا: ''جو تقدیر کے سلسلے میں ذرا بھی بحث کرے گا اس سے قیامت کے دن اس سلسلے میں سوا ل کیا جا ئے گا، اور جو اس سلسلہ میں کچھ نہ کہے تو اس سے سوال نہیں ہو گا'' ۔
[ز] 84/ أ- حَدَّثَنَاهُ حَازِمُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا عَبْدُالْمَلِكِ بْنُ سَنانَ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ عُثْمَانَ، فَذَكَرَ نَحْوَهُ۔
* تخريج: انظر ما قبلہ (ضعیف) (سبب ضعف کے لئے ملاحظہ ہو: اس سے پہلے کی حدیث)
۸۴/ أ - اس سند سے بھی یحییٰ بن عثمان سے اسی جیسی حدیث مروی ہے ۔


85- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، حَدَّثَنَا دَاوُدُ بْنُ أَبِي هِنْدٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ قَالَ: خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ عَلَى أَصْحَابِهِ وَهُمْ يَخْتَصِمُونَ فِي الْقَدَرِ، فَكَأَنَّمَا يُفْقَأُ فِي وَجْهِهِ حَبُّ الرُّمَّانِ مِنَ الْغَضَبِ، فَقَالَ: < بِهَذَا أُمِرْتُمْ، أَوْ لِهَذَا خُلِقْتُمْ؟ تَضْرِبُونَ الْقُرْآنَ بَعْضَهُ بِبَعْضٍ، بِهَذَا هَلَكَتِ الأُمَمُ قَبْلَكُمْ >.
قَالَ: فَقَالَ عَبْدُاللَّهِ بْنُ عَمْرٍو: مَا غَبَطْتُ نَفْسِي بِمَجْلِسٍ تَخَلَّفْتُ فِيهِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ مَا غَبَطْتُ نَفْسِي بِذَلِكَ الْمَجْلِسِ وَتَخَلُّفِي عَنْهُ۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۸۷۰۴، ومصباح الزجاجۃ: ۲۹)، وقد أخرجہ: حم (۲/۱۹۶، ۱۷۸) (حسن صحیح)
۸۵- عبداللہ بن عمر وبن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اپنے صحابہ کے پاس آئے، وہ لوگ اس وقت تقدیر کے بارے میں بحث کر رہے تھے، آپ ﷺ کا چہرہ مبارک سخت غصہ کی وجہ سے سرخ ہوگیا، گویا کہ آپ کے چہرے پر انار کے دانے نچوڑ دیئے گئے ہوں، آپ ﷺنے فرمایا: ''کیا تمہیں اسی کا حکم دیا گیا ہے، یا تم اسی لئے پیدا کیے گئے ہو؟ تم قرآن کے بعض حصہ کو بعض حصہ سے ٹکرارہے ہو، اسی وجہ سے تم سے پہلی امتیں ہلاک ہو ئی ہیں'' ۱؎ ۔
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کا بیان ہے: میں نے کبھی بھی آپ ﷺ کی مجلس سے غیرحاضر ہو نے کی ایسی خواہش اپنے جی میں نہیں کی جیسی اس مجلس سے غیر حاضر رہنے کی خواہش کی ۔
وضاحت ۱ ؎ : اس سے معلوم ہوا کہ تقدیر کے بارے میں زیادہ گفتگو نہیں کرنی چاہئے، جتنی اللہ اور اس کے رسول نے خبر دی ہے اسی پر ایمان کافی ہے، اور اس کے بارے میں زیادہ غور وخوض اور قیل وقال، باطل میں قیل وقال کرنا ہے، اور اس طرح باقی امور جس میں شارع نے اجمال واختصار سے کام لیا ہے اس کی شرح وتفصیل کی بھی ہمیں ضرورت نہیں۔


86- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَعَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ قَالا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى ابْنُ أَبِي حَيَّةَ أَبُو جَنَابٍ الْكَلْبِيُّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: <لاعَدْوَى وَلا طِيَرَةَ وَلا هَامَةَ >، فَقَامَ إِلَيْهِ رَجُلٌ أَعْرَابِيٌّ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ ! أَرَأَيْتَ الْبَعِيرَ يَكُونُ بِهِ الْجَرَبُ فَيُجْرِبُ الإِبِلَ كُلَّهَا؟ قَالَ: < ذَلِكُمُ الْقَدَرُ، فَمَنْ أَجْرَبَ الأَوَّلَ؟ >۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۸۵۸۰، مصباح الزجاجۃ: ۳۰)، وقد أخرجہ: حم (۲/۲۴، ۲۲۲) (صحیح)
(سند میں یحییٰ بن أبی حیہ ابو جناب الکلبی ضعیف راوی ہے، لیکن حدیث شواہد کی بنا پر صحیح ہے، صرف ''ذلكم القدر'' کا لفظ شاہد نہ ملنے کی بناء پر ضعیف ہے، ملاحظہ ہو: الصحیحہ: ۷۸۲ ، و الضعیفۃ: ۴۸۰۸)
۸۶- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''اسلام میں چھوا چھوت کی بیماری، بدفالی اور الّو سے بدشگونی کی کوئی حیثیت نہیں ہے''، ایک دیہاتی شخص کھڑا ہوا اور اس نے کہا: اللہ کے رسول! بتائیے اونٹ کو (کھجلی) ہوتی ہے، اور پھر اس سے تمام اونٹو ں کو کھجلی ہوجاتی ہے؟ آ پ ﷺ نے فرمایا: ''یہی تقدیر ہے، اگر ایسا نہیں تو پہلے اونٹ کو کس نے اس میں مبتلا کیا؟'' ۱ ؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : چھوا چھوت کی بیماری کو عربی میں ''عَدْوَىْ'' کہتے ہیں یعنی ایک کی بیماری دوسرے کو لگ جائے، اور زمانہ جاہلیت میں عربوں کا عقیدہ تھا کہ کھجلی وغیرہ بعض امراض ایک دوسرے کو لگ جاتے ہیں، رسول اکرم ﷺ نے اس عقیدہ کو باطل قرار دیا ، اور فرمایا کہ یہ تقدیر سے ہے، جیسے پہلے اونٹ کو کسی کی کھجلی نہیں لگی، بلکہ یہ تقدیر الہٰی ہے، اسی طرح اور اونٹوں کی کھجلی بھی ہے۔
''طِيَرَة'': بد فالی اور بدشگونی کو کہتے ہیں جیسے عورتیں کہتی ہیں کہ یہ کپڑا میں نے کس منحوس کے قدم سے لگایا کہ تمام ہی نہیں ہوتا، یا گھر سے نکلے اور بلی سامنے آگئی، یا کسی نے چھینک دیا تو بیٹھ گئے، یا کوئی چڑیا آگے سے گزر گئی تو اب اگر جائیں گے تو کام نہ ہوگا، اس اعتقاد کو بھی نبی اکرم ﷺ نے باطل فرمادیا، اور اس کو شرک قرار دیا۔
''هامة'': ایک معروف ومشہور جانور ہے جسے الّوکہتے ہیں، عرب اس سے بد فالی لیتے تھے، اور کفار ومشرکین کا آج بھی عقیدہ ہے کہ وہ جہاں بولتا ہے وہ گھر ویران اور برباد ہوجاتا ہے، اور بعض عربوں نے سمجھ رکھا تھا کہ میت کی ہڈیاں سڑ کر الو بن جاتی ہیں، یہ تفسیر اکثر علماء نے کی ہے، غرض جاہل لوگ جو ان چیزوں کو خیر وشر کا مصدر ومنبع جانتے تھے، رسول ﷺ نے ان کے اس اعتقاد کا رد وابطال کرکے خیر وشر کا مصدر تقدیر الٰہی کو بتایا ، اور مسلمان کو یہی عقیدہ رکھنا چاہئے کہ نفع ونقصان اللہ رب العزت کے ہاتھ میں ہے۔


87- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ عِيسَى الْجَرَّارُ، عَنْ عَبْدِالأَعْلَى ابْنِ أَبِي الْمُسَاوِرِ، عَنِ الشَّعْبِيِّ قَالَ: لَمَّا قَدِمَ عَدِيُّ بْنُ حَاتِمٍ الْكُوفَةَ أَتَيْنَاهُ فِي نَفَرٍ مِنْ فُقَهَائِ أَهْلِ الْكُوفَةِ، فَقُلْنَا لَهُ: حَدِّثْنَا مَا سَمِعْتَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ، فَقَالَ: أَتَيْتُ النَّبِيَّ ﷺ فَقَالَ: «يَا عَدِيَّ بْنَ حَاتِمٍ! أَسْلِمْ تَسْلَمْ>، قُلْتُ: وَمَا الإِسْلامُ؟ فَقَالَ: < تَشْهَدُ أَنْ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ، وَأَنِّي رَسُولُ اللَّهِ، وَتُؤْمِنُ بِالأَقْدَارِ كُلِّهَا، خَيْرِهَا وَشَرِّهَا حُلْوِهَا وَمُرِّهَا>۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۹۸۶۴، مصباح الزجاجۃ: ۳۱ )، وقد أخرجہ: حم (۴/۲۵۷، ۳۷۸) (ضعیف جدًا)
(سندمیں عبد الاعلیٰ منکر الحدیث بلکہ تقریباً متروک الحدیث راوی ہیں، ملاحظہ ہو: ظلال الجنۃ: ۱۳۵)
۸۷- عامر بن شراحیل شعبی کہتے ہیں کہ عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ جب کوفہ آئے تو ہم اہل کوفہ کے چند فقہاء کے ساتھ ان کے پاس گئے، اور ہم نے ان سے کہا: آپ ہم سے کوئی حدیث بیان کیجئے جسے آپ نے رسول اللہ ﷺ سے سنی ہو، تو وہ کہنے لگے: میں نبی اکرم ﷺکے پاس آیا، تو آپ نے فرمایا: ''اے عدی بن حاتم! اسلام لے آؤ، سلامت رہوگے''، میں نے پوچھا: اسلام کیا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ''اسلام یہ ہے کہ تم اس بات کی گواہی دو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، اور میں اللہ کا رسول ہوں، اورساری تقدیر پر ایمان لاؤ، چاہے اچھی ہو،بری ہو، میٹھی ہو،کڑوی ہو''۔


88- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ، حَدَّثَنَا أَسْبَاطُ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ، عَنْ يَزِيدَ الرِّقَاشِيِّ، عَنْ غُنَيْمِ بْنِ قَيْسٍ، عَنْ أَبِي مُوسَى الأَشْعَرِيِّ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < مَثَلُ الْقَلْبِ مَثَلُ الرِّيشَةِ، تُقَلِّبُهَا الرِّيَاحُ بِفَلاةٍ >۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۹۰۲۴، مصباح الزجاجۃ: ۳۲ )، وقد أخرجہ: حم (۴/۴۰۸، ۴۱۹) (صحیح)
(سند میں راوی یزید بن ابان الرقاشی ضعیف ہیں، لیکن ان کی متابعت سعید بن ایاس الجریری نے کی ہے، ''مسند احمد: ۴/۴۱۹، والسنۃ لابن أبی عاصم: ۲۳۴، نیز مسند أحمد: ۴/۴۰۸''نے عاصم الاحول عن أبی کبشہ عن ابی موسیٰ سے بھی روایت کی ہے، اس لئے یہ حدیث صحیح ہے)
۸۸- ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''دل کی مثال اس پر کی طرح ہے جسے ہوائیں میدان میں الٹ پلٹ کرتی رہتی ہیں'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جو خیر وشر دل میں آتا ہے سب تقدیر الہٰی سے ہے۔


89- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا خَالِي يَعْلَى، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ سَالِمِ ابْنِ أَبِي الْجَعْدِ عَنْ جَابِرٍ قَالَ: جَائَ رَجُلٌ مِنَ الأَنْصَارِ إِلَى النَّبِيِّ ﷺ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! إِنَّ لِي جَارِيَةً، أَعْزِلُ عَنْهَا؟ قَالَ: <سَيَأْتِيهَا مَا قُدِّرَ لَهَا>، فَأَتَاهُ بَعْدَ ذَلِكَ فَقَالَ: قَدْ حَمَلَتِ الْجَارِيَةُ! فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ: <مَا قُدِّرَ لِنَفْسٍ شَيْئٌ إِلا هِيَ كَائِنَةٌ>۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۲۲۴۹، ومصباح الزجاجۃ: ۳۳)، وقد أخرجہ: م/النکاح ۲۲ (۱۴۳۹)، د/النکاح ۴۹ (۲۱۷۳)، حم (۳/۳۱۳، ۳۸۸) (صحیح)
۸۹- جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: انصار کا ایک آدمی نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا اور کہنے لگا: اللہ کے رسول! میرے پاس ایک لونڈی ہے میں اس سے عزل ۱؎ کرتا ہوں، آپ ﷺ نے فرمایا: ''جو اس کے مقدر میں ہوگا وہ اس کے پاس آکر رہے گا''، کچھ دنوں کے بعد وہ آدمی حاضر ہوا اور کہا: لونڈی حاملہ ہوگئی، نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ''جس کی تقدیر میں جو ہوتا ہے وہ ہوکر رہتا ہے'' ۲؎ ۔
وضاحت ۱؎ : عضو تناسل کو عورت کی شرم گاہ سے باہر نکال کر منی گرانے کا نام عزل ہے۔
وضاحت ۲ ؎ : اس سے بھی معلوم ہوا کہ لڑکا اور لڑکی کی پیدائش اللہ کی تقدیر سے ہوتی ہے، کسی پیر وفقیر اور ولی ومرشد کی نذر ونیاز اور منّت ماننے سے نہیں۔


90- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عِيسَى، عَنْ عَبْدِاللَّهِ ابْنِ أَبِي الْجَعْدِ، عَنْ ثَوْبَانَ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: <لا يَزِيدُ فِي الْعُمْرِ إِلا الْبِرُّ، وَلا يَرُدُّ الْقَدَرَ إِلا الدُّعَائُ، وَإِنَّ الرَّجُلَ لَيُحْرَمُ الرِّزْقَ بِخَطِيئَةٍ يَعْمَلُهَا>۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۲۰۹۳، ومصباح الزجاجۃ: ۳۴)، وقد أخرجہ: حم (۳/۵۰۲، ۵/۲۷۷) (حسن)
(حدیث کے آخری ٹکڑے:'' وَإِنَّ الرَّجُلَ لَيُحْرَمُ الرِّزْقَ بِخَطِيئَةٍ يَعْمَلُهَا '' یہ حسن ہے، ملاحظہ ہو: الصحیحۃ: ۱۵۴، یہ حدیث آگے (۴۰۲۲) نمبرپر آرہی ہے)
۹۰- ثوبان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''عمر کو نیکی کے سوا کوئی چیز نہیں بڑھاتی ۱ ؎ ، اور تقدیر کو دعا کے سوا کوئی چیز نہیں بدلتی ہے ۲ ؎ ، اور آدمی گناہوں کے ارتکاب کے سبب رزق سے محروم کردیا جاتا ہے'' ۔
وضاحت ۱ ؎ : یعنی نیکی سے عمر میں برکت ہوتی ہے، اور وہ ضائع ہونے سے محفوظ رہتی ہے، یا نیکی کا ثواب مرنے کے بعد بھی پہنچتا رہتا ہے، جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : {وَالْبَاقِيَاتُ الصَّالِحَاتُ خَيْرٌ عِندَ رَبِّكَ ثَوَابًا وَخَيْرٌ أَمَلاً} (سورۂ کہف: ۴۶)، '' اور باقی رہنے والی نیکیاں تیرے رب کے نزدیک ازروئے ثواب اور آئندہ کی اچھی توقع کے بہت بہترہیں'' تو گویا عمر بڑھ گئی یا لوح محفوظ میں جو عمر لکھی تھی اس سے زیادہ ہوجاتی ہے کیونکہ اللہ تعالی فرماتا ہے: {يَمْحُو اللّهُ مَا يَشَاء وَيُثْبِتُ} (سورۂ رعد: ۳۹)، یعنی: ''اللہ جو چاہے مٹادے اورجو چاہے اور جو چاہے ثابت رکھے''، یا ملک الموت نے جو عمر اس کی معلوم کی تھی اس سے بڑھ جاتی ہے، اگرچہ علم الہی میں جو تھی وہی رہتی ہے، اس لئے کہ علم الہی میں موجود چیز کا اس سے پیچھے رہ جانا محال ہے۔
وضاحت ۲ ؎ : ''تقدیر کو دعا کے سوا ... الخ'' یعنی مصائب اور بلیات جن سے آدمی ڈرتا ہے دعا سے دورہوجاتی ہیں، اور مجاز اً ان بلاؤں کو تقدیر فرمایا، دعا سے جو مصیبت تقدیر میں لکھی ہے آتی ہے مگر سہل ہوجاتی ہے، اور صبر کی توفیق عنایت ہوتی ہے، اس سے وہ آسان ہوجاتی ہے تو گویا وہ مصیب لوٹ گئی۔


91- حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا عَطَائُ بْنُ مُسْلِمٍ الْخَفَّافُ، قَالَ: حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ سُرَاقَةَ بْنِ جُعْشُمٍ قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! الْعَمَلُ فِيمَا جَفَّ بِهِ الْقَلَمُ، وَجَرَتْ بِهِ الْمَقَادِيرُ، أَمْ فِي أَمْرٍ مُسْتَقْبَلٍ؟ قَالَ: « بَلْ فِيمَا جَفَّ بِهِ الْقَلَمُ، وَجَرَتْ بِهِ الْمَقَادِيرُ، وَكُلٌّ مُيَسَّرٌ لِمَا خُلِقَ لَهُ >۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۳۸۱۹، ومصباح الزجاجۃ: ۳۵)، وقد أخرجہ: حم (۲/۱۹۷) (صحیح)
(اس حدیث میں مجاہد اور سراقہ رضی اللہ عنہ کے درمیان انقطاع ہے، لیکن ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث سے تقویت پاکر یہ حدیث صحیح ہے، ملاحظہ ہو: السنۃ لابن ابی عاصم: ۱۶۹)
۹۱- سراقہ بن جعشم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! یہ اعمال جو انسان سے صادر ہوتے ہیں آیا اس تقدیر کے مطابق ہوتے ہیں جس کو لکھ کر قلم خشک ہوچکا ہے، اور جو جاری ہو چکی ہے؟ یا ایسے امر کے مطابق ہوتے ہیں جو آگے ہونے والا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ''نہیں، بلکہ اسی تقدیر کے مطابق ہوتے ہیں جس کو قلم لکھ کر خشک ہوچکا ہے، اور جو جاری ہوچکی ہے، اور پھر ایک شخص کے لئے اس کی تقدیر کے مطابق وہی کام آسان کردیا جاتا ہے جس کے لئے وہ پیدا کیا گیا ہے''۔


92- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُصَفَّى الْحِمْصِيّ، حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ بْنُ الْوَلِيدِ، عَنِ الأَوْزَاعِيِّ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < إِنَّ مَجُوسَ هَذِهِ الأُمَّةِ الْمُكَذِّبُونَ بِأَقْدَارِ اللَّهِ، إِنْ مَرِضُوا فَلا تَعُودُوهُمْ، وَإِنْ مَاتُوا فَلا تَشْهَدُوهُمْ، وَإِنْ لَقِيتُمُوهُمْ فَلا تُسَلِّمُوا عَلَيْهِمْ "۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۲۸۷۹، ومصباح الزجاجۃ: ۳۶) (حسن)
(سند میں بقیہ بن الولید اور ابو الزبیر مدلس راوی ہیں، اور دونوں نے عنعنہ سے روایت کی ہے، لیکن شواہد کی بناء پر یہ حسن ہے، اور ''وإن لقيتموهم فلا تسلموا عليهم'' کا جملہ ضعیف ہے، ملاحظہ ہو: السنۃ لا بن أبی عاصم: ۳۳۷)
۹۲- جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''اس امت کے مجوسی وہ لوگ ہیں جو اللہ کی تقدیر کے جھٹلانے والے ہیں، اگر وہ بیمار پڑجائیں تو تم ان کی عیادت نہ کرو، اگر مرجائیں تو ان کے جنازے میں شریک نہ ہو، اوراگر ان سے ملو تو انہیں سلام نہ کرو'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : نبی اکرم ﷺ نے تقدیر کے منکرین کو مجوس سے اس لئے تشبیہ دی کہ وہ دو خالق کے قائل ہیں: ایک خیر کا خالق ہے، اس کا نام یزدان ہے، اور دوسرا شر کا خالق ہے، اس کا نام اہر من ہے، اور قدریہ خالق سے خلق کے اختیار کو سلب کرتے ہیں اور خلق کو ہر مخلوق کے لئے ثابت کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اللہ سبحانہ وتعالی شر کا خالق نہیں ہے، بلکہ اللہ تعالیٰ پر اصلح (زیادہ بہتر کام) واجب ہے، اور اسی لئے علمائے اہل سنت نے کہا ہے کہ معتزلہ مجوس سے بدتر ہیں اس لئے کہ وہ دو ہی خالق اور الٰہ کے قائل ہیں اور معتزلہ بہت سے خالقوں کے قائل ہیں کہ وہ ہر انسان کو اپنے افعال کا خالق قراردیتے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
11- بَاب فِي فَضَائِلِ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ
۱- باب: صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے فضائل ومناقب​
فَضْلُ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ -رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ-
ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے مناقب وفضائل​


93- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ مُرَّةَ، عَنْ أَبِي الأَحْوَصِ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < أَلا إِنِّي أَبْرَأُ إِلَى كُلِّ خَلِيلٍ مِنْ خُلَّتِهِ، وَلَوْ كُنْتُ مُتَّخِذًا خَلِيلاً لاتَّخَذْتُ أَبَا بَكْرٍ خَلِيلا، إِنَّ صَاحِبَكُمْ خَلِيلُ اللَّهِ >.
قَالَ وَكِيعٌ: يَعْنِي نَفْسَهُ۔
* تخريج: م/فضائل الصحابۃ ۱(۲۳۸۳)، ت/المنا قب ۱۶ (۳۶۵۵)، (تحفۃ الأشراف: ۹۴۹۸)، وقد أخرجہ: حم (۱/۳۷۷، ۳۸۹، ۳۸۹، ۴۳۳، ۴۰۸) (صحیح)
۹۳- عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’آگاہ رہو! میں ہر خلیل (جگری دوست) کی دلی دوستی سے بری ہوں، اور اگر میں کسی کو خلیل(جگری دوست) بناتا تو ابو بکر کو بناتا، بیشک تمہارا یہ ساتھی اللہ کاخلیل (مخلص دوست ہے)‘‘ ۱؎ ۔
وکیع کہتے ہیں: آپ ﷺ نے ساتھی سے اپنے آپ کو مراد لیا ہے ۔
وضاحت ۱ ؎ : خلیل ایساجگری دوست ہے کہ جس کے سوا دل میں کسی کی جگہ نہ رہے، اس لئے نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ ایسا خلیل (جگری دوست) میرا اللہ تعالیٰ ہی ہے کہ میرے دل میں اس کی محبت نے ذرہ برابر جگہ نہ چھوڑی کہ اب کسی کی محبت دل میں آسکے، اور اگر ذرا بھی دل میں گنجائش ہوتی تو میں ابو بکر کو اس میں اس خصوصی دوستی والے جذبہ میں جگہ دیتا، اس حدیث سے ابو بکر رضی اللہ عنہ کی بڑی فضیلت ثابت ہوئی، اور معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے بعد آپ رسول اکرم ﷺ کے جگری دوستی اور خصوصی محبت کے قابل اور مستحق ہیں۔


94- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَعَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ قَالا: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ قَالَ: حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < مَا نَفَعَنِي مَالٌ قَطُّ، مَا نَفَعَنِي مَالُ أَبِي بَكْرٍ >، قَالَ: فَبَكَى أَبُو بَكْرٍ وَقَالَ: يَا رَسُوْلَ اللهِ! هَلْ أَنَا وَمَالِي إِلا لَكَ، يَا رَسُولَ اللَّهِ!.
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۵۲۸، ومصباح الزجاجۃ: ۳۸)، وأخرجہ: ت/المناقب ۱۶ (۳۶۵۵)، حم (۲/۲۵۳) (صحیح)
۹۴- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’مجھے کسی بھی مال نے اتنا فائدہ نہیں پہنچایا جتنا ابو بکر رضی اللہ عنہ کے مال نے فائدہ پہنچا یا‘‘۔
ابو ہریرہ کہتے ہیں: یہ سن کر ابو بکر رضی اللہ عنہ رونے لگے اور کہا: اللہ کے رسول! میں اور میرا مال سب صرف آپ ہی کا ہے، اے اللہ کے رسول! ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : حقیقت میں ابو بکر رضی اللہ عنہ کے مال ودولت اور جاہ و شخصیت سے اسلام کو بڑی تقویت ملی، چنانچہ تاریخ میں مذکور ہے کہ انہوں نے ابتدائے اسلام میں اور مسلمانوں کی فقر ومسکنت اور قلت تعداد کی حالت میں چالیس ہزار درہم مسلمانوں کی تائید وتقویت میں خرچ کئے، اور قریش سے سات غلاموں کو آزاد کرایا، بلال اور عامر بن فہیرہ رضی اللہ عنہما انہی میں سے تھے، اور آپ کے والد ابو قحافہ رضی اللہ عنہ اس پر معترض ہوئے تو آپ نے کہا کہ میں اللہ عز وجل کی رضا حاصل کرنے کے لئے ایسا کرتا ہوں اور آیت : {فَأَمَّا مَن أَعْطَى وَاتَّقَى (5) وَصَدَّقَ بِالْحُسْنَى (6)} [سورة الليل: 5-6] اسی باب میں نازل ہوئی۔
ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ اپنی طاقت بھر اسلام کی خدمت، کتاب وسنت کی نشر واشاعت اور اہل علم ودین کی تائید وتقویت میں حصہ لے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایمان پرور زندگی میں ہمارے لئے بڑی عبرت اور موعظت کا سامان ہے۔


95- حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عُمَارَةَ، عَنْ فِرَاسٍ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنِ الْحَارِثِ، عَنْ عَلِيٍّ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: “أَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ سَيِّدَا كُهُولِ أَهْلِ الْجَنَّةِ، مِنَ الأَوَّلِينَ وَالآخِرِينَ، إِلا النَّبِيِّينَ وَالْمُرْسَلِينَ، لا تُخْبِرْهُمَا يَا عَلِيُّ! مَا دَامَا حَيَّيْنِ>۔
* تخريج: ت/ المنا قب ۱۶ (۳۶۶۶)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۰۳۵)، وقد أخرجہ: حم (۱/۸۰) (صحیح)
۹۵- علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: ’’ابو بکر وعمر نبیوں اور رسولوں کے علاوہ جملہ اولین وآخرین میں سے ادھیڑ عمر والے جنتیوں کے سردار ہوں گے، علی! جب تک وہ دونوں زندہ رہیں انہیں یہ بات نہ بتانا‘‘ ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : ادھیڑ عمر والے جنتیوں سے مراد وہ لوگ ہیں جو ادھیڑ عمر ہو کر مرے ہیں کیونکہ جنت میں کوئی ادھیڑ عمر کا نہیں ہو گا سب جوان ہوں گے، ’’كهول‘‘ جمع ہے ’’كهل‘‘ کی، اور ’’كهل‘‘ مردوں میں وہ ہے جس کی عمر تیس سے متجاوز ہوگئی ہو، اور بعضوں نے کہا چالیس سے اور بعضوں نے تینتیس سے پچپن تک، اور اس سے مرادیہ ہے کہ جو مسلمان اس عمر تک پہنچ کر انتقال کرگئے ہیں یہ دونوں یعنی ابو بکر وعمر رضی اللہ عنہما جنت میں ان کے سردار ہوں گے، یا کہولت سے کنایہ کیا عقل وشعور اورفہم وفراست کی پختگی پر یعنی جو دانا اور فہمیدہ لوگ جنت میں ہوں گے ابو بکر وعمر رضی اللہ عنہما ان کے سردار ہوں گے۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ غیر نبی نبی کے درجہ کو نہیں پہنچ سکتا اور انبیاء کے بعد شیخین (ابو بکر وعمر رضی اللہ عنہما )سب سے افضل ہیں۔
اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ غیر نبی معصوم نہیں ہوسکتا اور معلوم ہوا کہ نبی کے بعد خلافت کے مستحق یہی ہیں اس لئے کہ جب جنت میں یہ سردار ہوں گے تو دنیا کی سرداری میں کیا شک رہا ، مگر واقع میں نبی اکرم ﷺ نے انہیں جنتیوں کا سردار فرمایا ہے، جہنمیوں کا نہیں، اس لئے گمراہ اورجاہل ان کی سرداری کا انکار کرتے ہیں۔


96- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، وَعَمْرُو بْنُ عَبْدِاللَّهِ قَالا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ، عَنْ عَطِيَّةَ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: <إِنَّ أَهْلَ الدَّرَجَاتِ الْعُلَى يَرَاهُمْ مَنْ أَسْفَلَ مِنْهُمْ، كَمَا يُرَى الْكَوْكَبُ الطَّالِعُ فِي الأُفُقِ مِنْ آفَاقِ السَّمَائِ، وَإِنَّ أَبَا بَكْرٍ وَعُمَرَ مِنْهُمْ، وَأَنْعَمَا>۔
* تخريج: ت/المنا قب ۱۶ (۳۶۵۸)، (تحفۃ الأشراف: ۴۲۰۶)، وقد أخرجہ: د/الحروف والقراء ات ۱ (۳۹۸۷)، حم (۳/۲۷، ۷۲، ۹۳، ۹۸) (صحیح)
(اس سند میں عطیۃ العوفی ضعیف ہیں، امام ترمذی نے اسے حسن کہاہے، اور سنن ابی داود کا سیاق اس سے مختلف ہے (۳۹۷۸)، شیخ البانی نے شواہد کی بناء پر اس کی تصحیح کی ہے، صحیح ابن ماجہ: ۹۶)
۹۶- ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’بلند درجے والوں کو (جنت میں) نیچے درجہ والے دیکھیں گے جس طرح چمکتا ہوا ستارہ آسمان کی بلندیوں میں دیکھا جاتا ہے، اور ابو بکروعمر بھی انہیں میں سے ہیں، اور ان میں سب سے فائق وبرتر ہیں‘‘ ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : اس حدیث سے شیخین (ابو بکر وعمر رضی اللہ عنہما) کے درجات کی بلندی کا علم ہوتا ہے ۔


97- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، (ح) وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا مُؤَمَّلٌ، قَالا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَبْدِالْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ مَوْلًى لِرِبْعِيِّ بْنِ حِرَاشٍ، عَنْ رِبْعِيِّ بْنِ حِرَاشٍ عَنْ حُذَيْفَةَ بْنِ الْيَمَانِ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < إِنِّي لا أَدْرِي مَا قَدْرُ بَقَائِي فِيكُمْ، فَاقْتَدُوا بِاللَّذَيْنِ مِنْ بَعْدِي > وَأَشَارَ إِلَى أَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ.
* تخريج: ت/المناقب ۱۶ (۳۶۶۲، ۳۶۶۳)، (تحفۃ الأشراف: ۳۳۱۷)، وقد أخرجہ: حم (۵/۳۸۲، ۳۸۵، ۳۹۹، ۴۰۲) (صحیح)
۹۷- حذیفہ بن الیمان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’میں نہیں جانتا کہ کب تک میں تمہارے درمیان رہوں، پس میرے بعد ان دونوں کی پیروی کرنا‘‘، اور آپ ﷺ نے ابو بکر وعمر رضی اللہ عنہما کی جانب اشارہ کیا۔


98- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ، حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ عُمَرَ ابْنِ سَعِيدِ ابْنِ أَبِي حُسَيْنٍ، عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ يَقُولُ: لَمَّا وُضِعَ عُمَرُ عَلَى سَرِيرِهِ اكْتَنَفَهُ النَّاسُ، يَدْعُونَ وَيُصَلُّونَ -أَوْ قَالَ: يُثْنُونَ وَيُصَلُّونَ- عَلَيْهِ قَبْلَ أَنْ يُرْفَعَ؛ وَأَنَا فِيهِمْ، فَلَمْ يَرُعْنِي إِلا رَجُلٌ قَدْ زَحَمَنِي وَأَخَذَ بِمَنْكِبِي، فَالْتَفَتُّ، فَإِذَا هو عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ، فَتَرَحَّمَ عَلَى عُمَرَ، ثُمَّ قَالَ: مَا خَلَّفْتُ أَحَدًا أَحَبَّ إِلَيَّ أَنْ أَلْقَى اللَّهَ بِمِثْلِ عَمَلِهِ مِنْكَ، وَايْمُ اللَّهِ، إِنْ كُنْتُ لأَظُنُّ لَيَجْعَلَنَّكَ اللَّهُ -عَزَّ وَجَلَّ- مَعَ صَاحِبَيْكَ، وَذَلِكَ أَنِّي كُنْتُ أَكْثَرُ أَنْ أَسْمَعَ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: < ذَهَبْتُ أَنَا وَأَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ، وَدَخَلْتُ أَنَا وَأَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ، وَخَرَجْتُ أَنَا وَأَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ »، فَكُنْتُ أَظُنُّ لَيَجْعَلَنَّكَ اللَّهُ مَعَ صَاحِبَيْكَ.
* تخريج: خ/فضائل الصحابۃ ۴ (۳۶۷۷)، م/فضائل الصحابۃ ۲ (۲۳۸۹)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۱۹۳)، وقد أخرجہ: حم (۱/۱۱۲) (صحیح)
۹۸- ابن ابی ملیکہ کہتے ہیں کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کو کہتے سنا کہ جب عمر کو (وفات کے بعد) ان کی چارپائی پہ لٹایا گیا تو لوگوں نے انہیں گھیر لیا، اور دعا کرنے لگے، یا کہا: تعریف کرنے لگے، اور جنازہ اٹھائے جانے سے پہلے دعا کرنے لگے، میں بھی انہیں میں تھا، تو مجھے صرف اس شخص نے خوف زدہ کیا جو لوگوں کو دھکا دے کر میرے پاس آیا، اور میرا کندھا پکڑ لیا، میں متوجہ ہوا تو دیکھا کہ وہ علی بن ابی طالب ہیں، انہوں نے کہا: اللہ عمر پر رحم کرے، پھر بولے: میں نے کسی ایسے شخص کو نہیں چھوڑا جس کا عمل آپ کے عمل سے زیادہ مجھے عزیز وپیارا ہو کہ میں اس عمل کو لے کر اللہ سے ملوں، اور قسم ہے اللہ کی! میں یقین رکھتا ہوں کہ اللہ تعالی آپ کو آپ کے دونوں ساتھیوں (نبی اکرم ﷺ وابو بکر رضی اللہ عنہ) کے ساتھ رکھے گا، اس وجہ سے کہ میں رسول اللہ ﷺ کو اکثر فرماتے ہوئے سنتا تھا: ’’میں اور ابو بکر وعمر گئے، میں اور ابوبکر وعمر داخل ہوئے، میں اور ابوبکر وعمر نکلے‘‘، لہٰذا میں آپ کے ان باتوں کی وجہ سے یقین رکھتا ہوں کہ اللہ تعالی آپ ﷺ کو آپ کے دونوں ساتھیوں کے ساتھ(جنت میں) رکھے گا ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : اس حدیث سے عمر رضی اللہ عنہ کی بڑی فضیلت معلوم ہوئی، اور معلوم ہوا کہ تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو ان سے خاص محبت تھی، وہ ان کے جنازے کو گھیرے ہوئے تھے، اور ان کے لئے دعا ئے خیر کررہے تھے، اور معلوم ہوا کہ علی اور شیخین (ابو بکر وعمر) رضی اللہ عنہم کے دلوں میں کسی طرح کا بغض وحسد اور کینہ نہ تھا جیسا کہ روافض اور شیعہ وغیرہ کا خیال باطل ہے، اور معلوم ہوا کہ شیخین نبی کریم ﷺ کے دوست اور رفیق تھے کہ اکثر آپ ﷺ نشست وبرخاست اور جمیع حالات میں ان کی معیت اور رفاقت بیان فرماتے تھے، اور مرنے کے بعد بھی قیامت تک تینوں ایک ہی جگہ یعنی ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرہ میں مدفون ہیں، اور جنت میں بھی بفضل الٰہی ساتھ ساتھ ہوں گے ۔


99- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مَيْمُونٍ الرَّقِّيُّ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ أُمَيَّةَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: خَرَجَ النَّبِيُّ ﷺ بَيْنَ أَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ فَقَالَ: <هَكَذَا نُبْعَثُ>۔
* تخريج: ت/المناقب ۱۶ (۳۶۶۹)، (تحفۃ الأشراف: ۷۴۹۹) (ضعیف)
(سند میں راوی سعید بن مسلمہ منکر الحدیث ہیں)
۹۹- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ ابوبکر وعمر کے درمیان نکلے، اور فرمایا:’’ہم اسی طرح قیامت کے دن اٹھائے جائیں گے‘‘ ۔


100- حَدَّثَنَا أَبُو شُعَيْبٍ صَالِحُ بْنُ الْهَيْثَمِ الْوَاسِطِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُالْقُدُّوسِ بْنُ بَكْرِ ابْنِ خُنَيْسٍ، حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ مِغْوَلٍ، عَنْ عَوْنِ ابْنِ أَبِي جُحَيْفَةَ، عَنْ أَبِيهِ ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: <أَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ سَيِّدَا كُهُولِ أَهْلِ الْجَنَّةِ مِنَ الأَوَّلِينَ وَالآخِرِينَ إِلا النَّبِيِّينَ وَالْمُرْسَلِينَ>۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۸۱۹، ومصباح الزجاجۃ: ۳۷) (صحیح)
۱۰۰- ابو جحیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ابو بکر وعمر انبیاء ورسل کے علاوہ جملہ اولین وآخرین میں جنت کے ادھیڑ لوگوں کے سردار ہوں گے‘‘۔


101- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ، وَالْحُسَيْنُ بْنُ الْحَسَنِ الْمَرْوَزِيُّ، قَالا: حَدَّثَنَا الْمُعْتَمِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ حُمَيْدٍ؛ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: قِيلَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! أَيُّ النَّاسِ أَحَبُّ إِلَيْكَ؟ قَالَ: < عَائِشَةُ >، قِيلَ: مِنَ الرِّجَالِ؟ قَالَ: < أَبُوهَا >۔
* تخريج:ت/المناقب ۶۳ (۳۸۹۰)، (تحفۃ الأشراف: ۷۷۴) (صحیح)
۱۰۱- انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا گیا: اللہ کے رسول! لوگوں میں آپ کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب کون ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’عائشہ‘‘، عرض کیاگیا: مردوں میں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’ان کے والد (ابوبکر )‘‘ ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : اس سے معلوم ہوا کہ ابو بکر رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺ کے بڑے چہیتے اور محبوب تھے، اور جو آپ ﷺ کا چہیتا اور محبوب ہو وہ اللہ تعالی کا چہیتا اور محبوب ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
فَضْلُ عُمَرَ -رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ-
عمربن خطاب رضی اللہ عنہ کے مناقب وفضائل​


102- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، أَخْبَرَنِي الْجُرَيْرِيُّ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ ابْنِ شَقِيقٍ قَالَ: قُلْتُ لِعَائِشَةَ: أَيُّ أَصْحَابِهِ كَانَ أَحَبَّ إِلَيْهِ؟ قَالَتْ: أَبُو بَكْرٍ، قُلْتُ: ثُمَّ أَيُّهُمْ؟ قَالَتْ: عُمَرُ، قُلْتُ: ثُمَّ أَيُّهُمْ؟ قَالَتْ: أَبُو عُبَيْدَةَ۔
* تخريج: ت/المنا قب ۱۴، (۳۶۵۷)، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۲۱۲)، وقد أخرجہ: حم (۶/۲۱۸) (صحیح)
۱۰۲- عبداللہ بن شقیق کہتے ہیں کہ میں نے ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہا : رسول اکرم ﷺکے صحابہ میں آپ کو سب سے زیادہ کون محبوب تھا؟ کہا: ابوبکر، میں نے پوچھا: پھر کون؟ کہا: عمر، میں نے پوچھا: پھر کون؟ کہا: ابو عبیدہ ۱ ؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : خلاصہ یہ ہے کہ محبت کے مختلف وجوہ واسباب ہوتے ہیں، چنانچہ نبی ﷺ کی فاطمہ رضی اللہ عنہا سے محبت بیٹی ہونے کے اعتبار سے اور ان کے زہد وعبادت کی وجہ سے تھی، اور عائشہ رضی اللہ عنہا سے محبت زوجیت، دینی بصیرت، اور فہم وفراست کے سبب تھی، اور ابو بکر وعمر رضی اللہ عنہما سے محبت اسلام میں سبقت ، دین کی بلندی، علم کی زیادتی، شریعت کی حفاظت اور اسلام کی تائید کے سبب تھی، شیخین کے یہ کمالات ومناقب کسی پر پوشیدہ نہیں، اور ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ سے محبت اس لئے تھی کہ ان کے ہاتھ پر متعدد فتوحات اسلام ہوئیں، ۔


103- حَدَّثَنَا إِسْماَعِيلُ بْنُ مُحَمَّدٍ الطَّلْحِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ خِرَاشٍ الْحَوْشَبِيُّ، عَنِ الْعَوَّامِ بْنِ حوْشَبٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: لَمَّا أَسْلَمَ عُمَرُ نَزَلَ جِبْرِيلُ فَقَالَ: يَامُحَمَّدُ! لَقَدِ اسْتَبْشَرَ أَهْلُ السَّمَائِ بِإِسْلامِ عُمَرَ۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۶۴۱۷، ومصباح الزجاجۃ: ۳۹) (ضعیف جدًا)
(سند میں عبداللہ بن خراش منکر الحدیث بلکہ بعضوں کے نزدیک کذاب ہیں)
۱۰۳- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ جب عمررضی اللہ عنہ نے اسلام قبول کیا تو جبرئیل (وضاحت) نازل ہوئے اور کہا: اے محمد! عمر کے قبول اسلام سے آسمان والے بہت ہی خوش ہوئے۔


104- حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ مُحَمَّدٍ الطَّلْحِيُّ، أَنْبَأَنَا دَاوُدُ بْنُ عَطَائٍ الْمَدِينِيُّ، عَنْ صَالِحِ ابْنِ كَيْسَانَ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ، عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < أَوَّلُ مَنْ يُصَافِحُهُ الْحَقُّ عُمَرُ، وَأَوَّلُ مَنْ يُسَلِّمُ عَلَيْهِ، وَأَوَّلُ مَنْ يَأْخُذُ بِيَدِهِ فَيُدْخِلُهُ الْجَنَّةَ >۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۲۴، ومصباح الزجاجۃ: ۴۰) (منکرجدًا)
(داود بن عطاء المدینی ضعیف ہیں، اور منکر الحدیث ہیں اس لئے یہ حدیث ضعیف ہے)
۱۰۴- اُبی بن کعب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''حق تعالی سب سے پہلے قیامت کے دن عمر سے مصافحہ کریں گے، اور سب سے پہلے انہیں سے سلام کریں گے، اور سب سے پہلے ان کا ہاتھ پکڑ کر جنت میں داخل کریں گے'' ۔


105- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ أَبُو عُبَيْدٍ الْمَدِينِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُالْمَلِكِ بْنُ الْمَاجِشُونِ، قَالَ: حَدَّثَنِي الزَّنْجِيُّ بْنُ خَالِدٍ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: <اللَّهُمَّ أَعِزَّ الإِسْلامَ بِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ خَاصَّةً>۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۲۴۴، ومصباح الزجاجۃ: ۴۲) (صحیح)
(اس حدیث کی سند میں زنجی بن خالد منکر الحدیث صاحب أوھام راوی ہیں، لیکن حدیث شواہد کی وجہ سے صحیح ہے، حدیث میں ''خاصۃ'' کا لفظ متا بعت یا شاہد کے نہ ملنے سے ثابت نہیں ہے، ملاحظہ ہو: المشکاۃ: ۶۰۳۶، وصحیح السیرۃ النبویۃ)۔
۱۰۵- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''اے اللہ! اسلام کو خاص طور سے عمر بن خطاب کے ذریعہ عزت وطاقت عطا فرما''۔


106- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ، عَنْ عَبْدِاللّهِ بْنِ سَلَمَةَ قَالَ: سَمِعْتُ عَلِيًّا يَقُولُ: خَيْرُ النَّاسِ بَعْدَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ أَبُو بَكْرٍ، وَخَيْرُ النَّاسِ بَعْدَ أَبِي بَكْرٍ عُمَرُ۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۱۸۹، ومصباح الزجاجۃ: ۴۱)، وقد أخرجہ: خ/فضائل الصحابۃ ۵ (۳۶۷۱)، د/السنۃ ۸ (۴۶۲۹) (صحیح)
۱۰۶- عبداللہ بن سلمہ کہتے ہیں کہ میں نے علی رضی اللہ عنہ کو کہتے سنا: ''رسول اللہ ﷺ کے بعد لوگوں میں سب سے بہتر ابوبکر ہیں، اور ان کے بعد لوگوں میں سب سے بہتر عمر ہیں''۔


107- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْحَارِثِ الْمِصْرِيُّ، أَنْبَأَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، حَدَّثَنِي عُقَيْلٌ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، أَخْبَرَنِي سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيَّبِ أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ قَالَ: كُنَّا جُلُوسًا عِنْدَ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: <بَيْنَا أَنَا نَائِمٌ رَأَيْتُنِي فِي الْجَنَّةِ، فَإِذَا أَنَا بِامْرَأَةٍ تَتَوَضَّأُ إِلَى جَانِبِ قَصْرٍ، فَقُلْتُ: لِمَنْ هَذَا الْقَصْرُ؟ فَقَالَتْ: لِعُمَرَ، فَذَكَرْتُ غَيْرَتَهُ، فَوَلَّيْتُ مُدْبِرًا>، قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: فَبَكَى عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، فَقَالَ: أَعَلَيْكَ، بِأَبِي وَأُمِّي، يَا رَسُولَ اللَّهِ! أَغَارُ؟
* تخريج: خ/بدء الخلق ۸ (۳۲۴۲)، فضائل أصحاب النبي ﷺ ۶ (۳۶۸۰)، التعبیر ۳۲ (۷۰۲۵)، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۲۱۴)، وقد أخرجہ: م/فضائل الصحابۃ ۲ (۲۳۹۵)، حم (۲/۳۳۹) (صحیح)
۱۰۷- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نبی اکرم ﷺ کے پاس بیٹھے تھے، آپ نے فرمایا: ''اس اثنا میں کہ میں سویا ہوا تھا، میں نے اپنے آپ کو جنت میں دیکھا، پھر اچانک میں نے ایک عورت کو دیکھا کہ ایک محل کے کنارے وضوء کر رہی ہے، میں نے پوچھا: یہ محل کس کا ہے؟ اس عورت نے کہا: عمر کا (مجھے عمر کی غیرت یاد آگئی تو میں پیٹھ پھیر کر واپس ہوگیا)''۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: یہ سن کرعمر رضی اللہ عنہ رونے لگے،اور عرض کیا: اللہ کے رسول! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، کیا میں آپ سے غیرت کروں گا ؟ ! ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : وضو نظافت اور لطافت کے لئے تھا، نہ کہ رفع حدث اور طہارت کے لئے کیونکہ جنت شرعی امور واعمال کے ادا کرنے کی جگہ نہیں ہے، اور اس حدیث سے عمر رضی اللہ عنہ کا جنتی ہونا ثابت ہوا، اور انبیاء کا خواب وحی ہے،خواب وخیال نہیں۔


108- حَدَّثَنَا أَبُو سَلَمَةَ يَحْيَى بْنُ خَلَفٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَى، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ مَكْحُولٍ، عَنْ غُضَيْفِ بْنِ الْحَارِثِ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: < إِنَّ اللَّهَ وَضَعَ الْحَقَّ عَلَى لِسَانِ عُمَرَ، يَقُولُ بِهِ >۔
* تخريج: د/الخراج والإمارۃ ۱۸ (۲۹۶۲)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۹۷۳)، وقد أخرجہ: حم (۵/۱۴۵، ۱۶۵،۱۷۷) (صحیح)
(تراجع الا ٔلبانی، رقم: ۵۰۷)
۱۰۸- ابو ذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اکرم ﷺ کو فرماتے سنا: ''بیشک اللہ تعالی نے عمر کی زبان پر حق رکھ دیا ہے، وہ حق ہی بولتے ہیں'' ۔
 
Top