• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن ابن ماجه

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
45- بَاب الْمُحْرِمِ يَتَزَوَّجُ
۴۵ -باب: حالتِ احرام میں نکاح کا حکم​

1964- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ، حَدَّثَنَا جَرِيرُ بْنُ حَازِمٍ، حَدَّثَنَا أَبُو فَزَارَةَ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ الأَصَمِّ، حَدَّثَتْنِي مَيْمُونَةُ بِنْتُ الْحَارِثِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ تَزَوَّجَهَا وَهُوَ حَلالٌ، قَالَ: وَكَانَتْ خَالَتِي وَخَالَةَ ابْنِ عَبَّاسٍ۔
* تخريج: م/النکاح ۵ (۱۴۱۱)، د/المناسک ۳۹ (۱۸۴۳)، ت/الحج ۲۴ (۱۸۴۵)، (تحفۃ الأشراف: ۱۸۰۸۲)، وقد أخرجہ: حم (۶/۳۳۳، ۳۳۵)، دي/المناسک ۲۱ (۱۸۶۵) (صحیح)

۱۹۶۴- ام المومنین میمونہ بنت حارث رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ان سے شادی کی، اور آپ اس وقت حلال تھے۔ یزید بن اصم کہتے ہیں کہ میمونہ رضی اللہ عنہا میری بھی خالہ تھیں ، اور ابن عباس رضی اللہ عنہما کی بھی ۔​

1965- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ خَلادٍ الْبَاهِلِيِّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ زَيْدٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ نَكَحَ وَهُوَ مُحْرِمٌ۔
* تخريج: خ/جزاء الصید ۱۲ (۱۸۳۷)، المغازي ۴۳ (۴۲۵۸)، النکاح ۳۰ (۵۱۱۴)، م/النکاح ۵ (۱۴۱۰)، د/الحج ۳۹ (۱۸۴۴)، ت/الحج ۲۴ (۸۴۳)، ن/الحج ۹۰ (۲۸۴۳)، النکاح ۳۷ (۳۲۷۳)، (تحفۃ الأشراف: ۵۳۷۶)، وقد أخرجہ: حم (۱/۲۲، ۲۴۵، ۲۶۶، ۲۷۰، ۲۸۳، ۲۸۵، ۲۸۶، ۳۲۴، ۳۳۰، ۳۳۳، ۳۳۶، ۳۴۶، ۳۵۱، ۳۵۴، ۳۶۰، ۳۶۱)، دي/المناسک ۲۱ (۱۸۶۳) (صحیح)

(لیکن یہ شاذ ہے ، اس لئے کہ اوپر کی میمونہ رضی اللہ عنہا کی حدیث میں اس بات کی صراحت ہے کہ یہ شادی احرام سے باہر حلت کے ایام میں ہوئی تھی، اور یہ صاحب معاملہ کا بیان ہے ،تو ان کی بات زیادہ لائق اعتماد ہے ،اور ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اپنے علم کی بناء پرایسا کہا تھا ، جو خلاف واقعہ بات ہے)
۱۹۶۵- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے (میمونہ رضی اللہ عنہا سے ) حالت احرام میں نکاح کیا ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی یہ حدیث میمونہ بنت حارث رضی اللہ عنہا کی سابقہ حدیث کی معارض ہے ،اس میں ابن عباس رضی اللہ عنہما کو وہم ہواہے کیونکہ یہ اکثرصحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی روایت کی مخالف ہے ،فردواحد کی طرف وہم کی نسبت جماعت کی طرف وہم کی نسبت سے زیادہ قریب ہے ،خود صاحب قصہ ام المومنین میمونہ رضی اللہ عنہا کا اور ان کے وکیل ابو رافع رضی اللہ عنہ جوان کے اور نبی اکرمﷺ کے درمیان سفارت کے فرائض انجام دے رہے تھے کا بیان اس کے خلاف ہے، ابن عباس رضی اللہ عنہما کے قول : '' وهو محرم'' کی ایک تاویل یہ بھی کی جاتی ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کا مطلب یہ ہے کہ اس وقت نبی اکرمﷺ حدودحرم میں تھے ،اور اگر یہ تسلیم بھی کرلیا جائے کہ نبی اکرمﷺ نے احرام کی حالت میں ام المومنین میمونہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کیا ،تو پھر اسے آپ کی خصوصیت پر محمول کیا جائے گا،عثمان رضی اللہ عنہ کی آگے آنے والی حدیث میں ایک کلی قانون کا بیان ہے،اور ابن عباس رضی اللہ عنہما سے منقول حدیث میں نبی اکرمﷺکے فعل کی حکایت ہے جس میں بہت سارے احتمالات موجودہیں ۔​

1966- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ رَجَائٍ الْمَكِّيُّ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ نَبِيهِ بْنِ وَهْبٍ، عَنْ أَبَانَ بْنِ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < الْمُحْرِمُ لا يَنْكِحُ وَلا يُنْكِحُ وَلا يَخْطُبُ >۔
* تخريج: م/النکاح ۵ (۱۴۰۹)، د/الحج ۳۹ (۱۸۴۱، ۱۸۴۲)، ت/الحج ۲۳ (۸۴۰)، ن/الحج ۹۱ (۲۸۴۵)، النکاح ۳۸ (۳۲۷۷)، (تحفۃ الأشراف: ۹۷۷۶)، وقد أخرجہ: ط/الحج ۲۲ (۷۰)، حم۱/۵۷، ۶۴، ۶۹، ۷۳، دي/المناسک ۲۱ (۱۸۶۴)، النکاح ۱۷ (۲۲۴۴) (صحیح)

۱۹۶۶- عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''مُحرم نہ تو اپنا نکاح کرے ،اور نہ دوسرے کا نکاح کرائے ،اور نہ ہی شادی کا پیغام دے '' ۔​
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
46- بَاب الأَكْفَاءِ
۴۶ -باب: (شادی میں ) کفو کا بیان ۱؎
وضاحت ۱؎ : کفو کہتے ہیں اپنے برابر والے کو، اسی سے یہ آیت ہے : {وَلَمْ يَكُن لَّهُ كُفُوًا} [سورة الإخلاص : 4] یعنی اس اللہ کے برابر والاکوئی نہیں ہے، اور آیات و احادیث سے یہ ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آدمیوں میں مراتب رکھے ہیں، بعضوں کا درجہ بلند اور بعضوں کاکم ہے، اور عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : عورتوں کا نکاح کرنے سے میں روکوں گا مگر اپنے کفو سے، مگر یہ ضروری ہے کہ ادنیٰ ادنیٰ فرق نہ دیکھا جائے جیسے مال کا کم ہونا یا حسن کا کم ہونا یا لونڈی کی اولاد ہونا جیسے اس زمانہ کے لوگ دیکھتے ہیں، بڑی چیز جس کا لحاظ کفاء ت میں ہے وہ دین اورعقیدہ کی صحت اور اخلاق وعادات کا عمدہ ہونا ہے ،اللہ تعالیٰ فرماتاہے : {أَفَمَن كَانَ مُؤْمِنًا كَمَن كَانَ فَاسِقًا لاَّيَسْتَوُونَ} [سورة السجدة : 18] یعنی مومن فاسق کے مثل نہیں ہو سکتا، دونوں برابر نہیں ہو سکتے، اور فرمایا: { وَرَفَعْنَا بَعْضَهُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجَاتٍ } [سورة الزخرف : 32] اب اختلاف ہے کہ کفاء ت میں کونسی باتیں معتبر ہوں گی، اکثر نے کہا کہ وہ یہ چیزیں ہیں: دین ، حریت (آزادی)، نسب اور پیشہ، اور دین سے اسلام اور عدالت مراد ہے۔

1967- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَابُورَ الرَّقِّيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْحَمِيدِ بْنُ سُلَيْمَانَ الأَنْصَارِيُّ، أَخُوفُلَيْحٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَجْلانَ، عَنِ ابْنِ وَثِيمَةَ النَّصْرِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < إِذَا أَتَاكُمْ مَنْ تَرْضَوْنَ خُلُقَهُ وَدِينَهُ فَزَوِّجُوهُ، إِلا تَفْعَلُوا تَكُنْ فِتْنَةٌ فِي الأَرْضِ، وَفَسَادٌ عَرِيضٌ >۔
* تخريج: ت/النکاح ۳ (۱۰۸۴)، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۴۸۵) (حسن)

(سندمیں عبد الحمید ضعیف راوی ہے، ملاحظہ ہو : الإرواء : ۱۸۶۸، لیکن متابعت کی وجہ سے حسن ہے )
۱۹۶۷- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: '' جب تمہارے پاس کسی ایسے شخص کا پیغام آئے جس کے دین اور اخلاق کو تم پسند کرتے ہو تو اس سے شادی کردو، اگر ایسا نہیں کروگے تو زمین میں فتنہ پھیلے گا اوربڑی خرابی ہوگی'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث سے معلوم ہواکہ کفوکا اعتبارصرف دین اور اخلاق میں کیاجائے گا، اور ایک قول یہ بھی ہے کہ یہ چارچیزوں (دین ، نسب آزادی اور پیشہ وصنعت میں) معتبرہے، لیکن پہلا قول راجح ہے ،اور اس کے قابل ترجیح ہو نے پر سب کا اتفاق ہے۔

1968- حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا الْحَارِثُ بْنُ عِمْرَانَ الْجَعْفَرِيُّ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < تَخَيَّرُوا لِنُطَفِكُمْ وَانْكِحُوا الأَكْفَاءَ وَأَنْكِحُوا إِلَيْهِمْ >۔
تخريج:تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۷۸۴، ومصباح الزجاجۃ: ۶۹۶) (حسن)

(سند میں الحارث الجعفری ضعیف ہیں، لیکن متابعت کی وجہ سے یہ حدیث حسن ہے، ملاحظہ ہو: الصحیحۃ : ۱۰۶۷)
۱۹۶۸- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ''اپنے نطفوں کے لیے نیک عورت کا انتخاب کرو، اور اپنے برابر والوں سے نکاح کرو، اور انہیں کو اپنی بیٹیوں کے نکاح کا پیغام دو'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اکفاء کفو کی جمع ہے، کا ف کے ضمہ اورخاء کے سکون کے ساتھ اس کے معنی مثل ، نظیراور ہمسرکے ہیں ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
47- بَاب الْقِسْمَةِ بَيْنَ النِّسَاءِ
۴۷ -باب: عورتوں کے درمیان باری مقرر کرنے کا بیان​

1969- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ هَمَّامٍ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنِ النَّضْرِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ بَشِيرِ بْنِ نَهِيكٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < مَنْ كَانَتْ لَهُ امْرَأَتَانِ، يَمِيلُ مَعَ إِحْدَاهُمَا عَلَى الأُخْرَى، جَاءَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَأَحَدُ شِقَّيْهِ سَاقِطٌ>۔
* تخريج: د/النکاح ۳۹ (۲۱۳۳)، ت/النکاح ۴۱ (۱۱۴۱)، ن/عشرۃالنساء ۲ (۳۳۹۴)، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۲۱۳)، وقد أخرجہ: حم (۲/۳۴۷، ۴۷۱)، دي/النکاح ۲۴ (۲۲۵۲) (صحیح)

۱۹۶۹- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : '' جس کے پاس دو بیویاں ہوں اور ایک کو چھوڑ کر دوسری کی طرف مائل رہے، تو وہ قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اس کا ایک دھڑ گرا ہوا ہوگا '' ۔​

1970- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَمَانٍ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ كَانَ إِذَا سَافَرَ أَقْرَعَ بَيْنَ نِسَائِهِ۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۶۷۸)، وقد أخرجہ: خ/الھبۃ ۱۵ (۲۵۹۳)، النکاح ۹۷ (۵۰۹۲)، م/فضائل الصحابۃ ۱۳ (۲۴۴۵)، د/النکاح ۳۹ (۲۱۳۸)، حم (۶/۱۱۷، ۱۵۱، ۱۹۷، ۲۶۹)، دي/الجہاد ۳۱ (۲۴۶۷) (صحیح)

۱۹۷۰- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب سفر کرتے تو اپنی بیویوں کے درمیان قرعہ اندازی کرتے ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : جس عورت کا نام قرعہ میں نکلتا اس کو سفر میں اپنے ساتھ لے جاتے، باقی عورتوں کو مدینہ میں چھوڑ جاتے اور یہ آپ ﷺ کا کمال انصاف تھا، ورنہ علماء نے کہا ہے کہ آپ ﷺ پر بیویوں کے درمیان تقسیم ایام واجب نہ تھی، اللہ تعالیٰ نے آپ کو اختیار دے دیا تھا کہ جس عورت کے پاس چاہیں رہیں : {تُرْجِي مَن تَشَاء مِنْهُنَّ وَتُؤْوِي إِلَيْكَ مَن تَشَاء } [سورة الأحزاب : 51] (ان میں سے جسے چاہیں دور رکھیں اور جسے چاہے اپنے پاس رکھ لیں )​

1971- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَمُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى. قَالا: حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَنْبَأَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ أَبِي قِلابَةَ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللَّه ﷺ يَقْسِمُ بَيْنَ نِسَائِهِ، فَيَعْدِلُ، ثُمَّ يَقُولُ: < اللَّهُمَّ! هَذَا فِعْلِي فِيمَا أَمْلِكُ، فَلا تَلُمْنِي فِيمَا تَمْلِكُ وَلا أَمْلِكُ >۔
* تخريج:د/النکاح ۳۹ (۲۱۳۴)، ت/النکاح ۴۱ (۱۱۴۰)، ن/عشرۃ النکاح ۲ (۳۳۹۵)، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۲۹۰)، وقد أخرجہ: حم (۶/۱۴۴)، دي/النکاح ۲۵ (۲۲۵۳) (ضعیف)

(لیکن رسول اکرم ﷺ کا بیویوں کے درمیان ایام کی تقسیم ثابت ہے، تراجع الألبانی: رقم: ۳۴۶)
۱۹۷۱- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اپنی بیویوں کے درمیان باری مقرر کرتے، اور باری میں انصاف کرتے ، پھر فرماتے تھے: ''اے اللہ! یہ میرا کام ہے جس کا میں مالک ہوں ، لہٰذا تو مجھے اس معاملہ ( محبت کے معاملہ ) میں ملامت نہ کر جس کا تو مالک ہے ،اور میں مالک نہیں ہوں '' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : رسول اکرمﷺ کے اسوہ کے مطابق مرد کا اختیار جہاں تک ہے، وہاں تک بیویوں کے درمیان عدل کرے، ہر ایک عورت کے پاس باری باری رہنا یہ اختیاری معاملہ ہے جو ہوسکتا ہے، لیکن دل کی محبت اور جماع کی خواہش یہ اختیاری نہیں ہے، کسی عورت سے رغبت ہوتی ہے، کسی سے نہیں ہوتی ،تو اس میں برابری کرنا یہ مرد سے نہیں ہوسکتا ،بس اللہ تعالی اس کو معاف کردے گا ، الروضہ الندیہ میں ہے کہ عورت کو اختیار ہے کہ اپنی باری کسی دوسری عورت کو ہبہ کر دے جیسے اس کا ذکر آگے آتا ہے، یا اپنی باری شوہر کو معاف کر دے۔​
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
48- بَاب الْمَرْأَةِ تَهَبُ يَوْمَهَا لِصَاحِبَتِهَا
۴۸ -باب: عورت کا اپنی باری سوکن کو ہبہ کرنے کا بیان​

1972- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا عُقْبَةُ بْنُ خَالِدٍ (ح) وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ، أَنْبَأَنَا عَبْدُالْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، جَمِيعًا عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: لَمَّا كَبِرَتْ سَوْدَةُ بِنْتُ زَمْعَةَ وَهَبَتْ يَوْمَهَا لِعَائِشَةَ، فَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ يَقْسِمُ لِعَائِشَةَ بِيَوْمِ سَوْدَةَ۔
* تخريج: حدیث أبي بکر أخرجہ: م/النکاح ۱۴ (۱۴۶۳)، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۱۰۱)، وحدیث محمد بن الصبَّاح تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۰۳۹)، وقد أخرجہ: خ/الھبۃ ۱۵ (۲۵۹۳)، النکاح ۹۹ (۵۲۱۲)، د/النکاح ۳۹ (۲۱۳۵)، حم (۶/ ۱۰۷) (صحیح)

۱۹۷۲- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ جب ام المومنین سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہا بوڑھی ہوگئیں ،تو انہوں نے اپنی باری کا دن عائشہ رضی اللہ عنہا کو ہبہ کردیا، چنانچہ رسول اللہ ﷺ سودہ رضی اللہ عنہا کی باری والے دن عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس رہتے تھے ۔​

1973- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَمُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى، قَالا: حَدَّثَنَا عَفَّانُ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ سُمَيَّةَ، عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ وَجَدَ عَلَى صَفِيَّةَ بِنْتِ حُيَيٍّ فِي شَيْئٍ فَقَالَتْ صَفِيَّةُ: يَا عَائِشَةُ! هَلْ لَكِ أَنْ تُرْضِي رَسُولَ اللَّهِ ﷺ عَنِّي، وَلَكِ يَوْمِي؟ قَالَتْ: نَعَمْ، فَأَخَذَتْ خِمَارًا لَهَا مَصْبُوغًا بِزَعْفَرَانٍ، فَرَشَّتْهُ بِالْمَاءِ لِيَفُوحَ رِيحُهُ، ثُمَّ قَعَدَتْ إِلَى جَنْبِ رَسُولُ اللَّه ﷺ، فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ: < يَا عَائِشَةُ! إِلَيْكِ عَنِّي، إِنَّهُ لَيْسَ يَوْمَكِ > فَقَالَتْ: ذَلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ، فَأَخْبَرَتْهُ بِالأَمْرِ، فَرَضِيَ عَنْهَا۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۸۴۴، ومصباح الزجاجۃ: ۶۹۷)، وقد أخرجہ: حم (۶/۹۵، ۱۴۵) (ضعیف)
(سند میں سمیہ بصریہ غیر معروف ہے)
۱۹۷۳- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ صفیہ بنت حیی رضی اللہ عنہا پر کسی وجہ سے ناراض ہوگئے، تو صفیہ رضی اللہ عنہا نے کہا:عائشہ! کیا تم رسول اللہ ﷺ کو مجھ سے راضی کرسکتی ہو، اور میں اپنی باری تم کو ہبہ کردوں گی ؟ انہوں نے کہا: ہاں، چنانچہ انہوں نے زعفران سے رنگا ہوا اپنا دوپٹہ لیا، اور اس پہ پانی چھڑکا تاکہ اس کی خوشبو پھوٹے ،پھر رسول اللہ ﷺ کے پہلو میں بیٹھیں، نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ''عائشہ مجھ سے دور ہوجاؤ، آج تمہاری باری نہیں ہے،'' تو انہوں نے کہا: یہ اللہ کا فضل ہے جسے چاہتا ہے دیتا ہے، اور پورا قصّہ بتایا تو نبی اکرم ﷺ صفیہ رضی اللہ عنہا سے راضی ہو گئے ۔​

1974- حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عَمْرٍو، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ أَنَّهَا قَالَتْ: نَزَلَتْ هَذِهِ الآيَةُ: { وَالصُّلْحُ خَيْرٌ } فِي رَجُلٍ كَانَتْ تَحْتَهُ امْرَأَةٌ قَدْ طَالَتْ صُحْبَتُهَا، وَوَلَدَتْ مِنْهُ أَوْلادًا، فَأَرَادَ أَنْ يَسْتَبْدِلَ بِهَا، فَرَاضَتْهُ عَلَى أَنْ تُقِيمَ عِنْدَهُ وَلا يَقْسِمَ لَهَا۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، ( تحفۃ الأشراف: ۱۷۱۲۸) (حسن)

(سند میں اختلاف ہے ، لیکن شواہد کی وجہ سے یہ حدیث حسن ہے )
۱۹۷۴- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ یہ آیت: {وَالصُّلْحُ خَيْرٌ } اس شخص کے بارے میں اتری جس کی ایک بیوی تھی اور مدت سے اس کے ساتھ رہی تھی، اس سے کئی بچے ہوئے ، اب مرد نے ارادہ کیا کہ اس کے بدلے دوسری عورت سے نکاح کرے (اور اسے طلاق دے دے ) چنانچہ اس عورت نے مرد کواس بات پر راضی کرلیاکہ وہ اس کے پاس رہے گی ،اور وہ اس کے لیے باری نہیں رکھے گا ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : کیونکہ وہ کثرت اولاد کی وجہ سے اب جماع کے کام کی نہ رہی، تو دوسری جوان عورت کے پاس رہا کرے، بہر حال عورت کو اختیار حاصل ہے کہ اپنی خوشی سے اگر چاہے تو باری شوہر کو معاف کر دے، لیکن پھر جب چاہے اپنی باری طلب کرسکتی ہے، اور شوہر کو لازم ہوگا کہ باری میں اس کے پاس رہے، اگر یہ منظور نہ ہو تو اس کو طلاق دیدے اگرچہ شرع میں طلاق مباح ہے، مگر بغیر ضرورت کے وہ عدل کے منافی چیز ہے، اور خصوصاً جب عورت ایک مدت تک اپنے پاس رہے، اور اس سے اولاد ہوجائے اور وہ بوڑھی ہوجائے تو اب اس کو طلاق دینا انسانیت اور مروت سے بھی بعید ہے ،دیکھنا چاہئے کہ جب اس نے اپنی جوانی شوہر کے پاس کھوئی، اور اس نے اس کی جوانی کے مزے لوٹے تو اب بڑھاپے میں اس کے ساتھ نباہ ضروری ہے ،گو شرعاً یہ حکم لازم نہیں ہے لیکن اخلاقاً اور مروۃً لازم ہے، البتہ شوہر یہ کرسکتا ہے کہ دوسری جوان عورت سے شادی کرلے ،اور اگر یہ عورت اپنی باری معاف کردے، تو ہر روز اسی جوان عورت کے پاس رہا کرے۔​
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
49- بَاب الشَّفَاعَةِ فِي التَّزْوِيجِ
۴۹ -باب: نکاح کرانے کے لیے سفارش کا بیان​

1975- حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ يَزِيدَ، عَنْ يَزِيدَ ابْنِ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ أَبِي الْخَيْرِ، عَنْ أَبِي رُهْمٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < مِنْ أَفْضَلِ الشَّفَاعَةِ أَنْ يُشَفَّعَ بَيْنَ الاثْنَيْنِ فِي النِّكَاحِ >۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۰۳۸، ومصباح الزجاجۃ: ۶۹۹) (ضعیف)

(ابو رہم سمعی مخضرم اور ثقہ ہیں، اس لئے ارسال کی وجہ سے یہ ضعیف ہے )
۱۹۷۵- ابو رہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:''سب سے بہتر سفارش یہ ہے کہ مرد اور عورت کے نکاح کی سفارش کی جا ئے ''۔​

1976- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا شَرِيكٌ، عَنِ الْعَبَّاسِ بْنِ ذُرَيْحٍ، عَنِ الْبَهِيِّ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: عَثَرَ أُسَامَةُ بِعَتَبَةِ الْبَابِ، فَشُجَّ فِي وَجْهِهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < أَمِيطِي عَنْهُ الأَذَى " فَتَقَذَّرْتُهُ، فَجَعَلَ يَمُصُّ عَنْهُ الدَّمَ وَيَمُجُّهُ عَنْ وَجْهِهِ، ثُمَّ قَالَ: " لَوْ كَانَ أُسَامَةُ جَارِيَةً لَحَلَّيْتُهُ وَكَسَوْتُهُ حَتَّى أُنَفِّقَهُ "۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، ( تحفۃ الأشراف: ۱۶۲۹۶، ومصباح الزجاجۃ : ۷۰۰)، وقد أخرجہ: ۶/۱۳۹، ۲۲۲) (صحیح)

۱۹۷۶- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ اسامہ رضی اللہ عنہ دروازہ کی چوکھٹ پر گر پڑے ، جس سے ان کے چہرہ پہ زخم ہوگیا،تو رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے فرمایا: ''ان سے خون صاف کرو '' میں نے اسے ناپسند کیا تو آپﷺ ان کے زخم سے خون نچوڑنے اور ان کے منہ سے صاف کرنے لگے،پھر آپﷺ نے فرمایا: ''اگر اسامہ لڑکی ہوتا تو میں اسے زیورات اور کپڑوں سے اس طرح سنوارتا کہ اس کا چرچا ہونے لگتا '' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عورت کو زیور اور لباس سے آراستہ کرنا جائز ہے بلکہ نکاح کے وقت مستحب ہے ۔​
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
50- بَاب حُسْنِ مُعَاشَرَةِ النِّسَاءِ
۵۰ -باب: عورتوں سے اچھے سلوک کے ساتھ زندگی بسر کرنے کا بیان​

1977- حَدَّثَنَا أَبُو بِشْرٍ بَكْرُ بْنُ خَلَفٍ، وَمُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى، قَالا: حَدَّثَنَا أَبُوعَاصِمٍ، عَنْ جَعْفَرِ ابْنِ يَحْيَى بْنِ ثَوْبَانَ، عَنْ عَمِّهِ عُمَارَةَ بْنِ ثَوْبَانَ، عَنْ عَطَائٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: < خَيْرُكُمْ خَيْرُكُمْ لأَهْلِهِ، وَأَنَا خَيْرُكُمْ لأَهْلِي >۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۵۹۳۷، ومصباح الزجاجۃ: ۷۰۱) (صحیح)

( سند میں عمارہ بن ثوبان مستور ہے، لیکن دوسری سند سے یہ صحیح ہے)
۱۹۷۷- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ''تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو اپنے اہل وعیال کے لیے بہتر ہو،اور میں اپنے اہل وعیال کے لیے تم میں سب سے بہتر ہوں '' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یعنی عمدہ سلوک اور اخلاق کے ساتھ اگرچہ تمام لوگوں سے معاشرت عمدہ طور سے لازم ہے، تاکہ سب خاص وعام اپنے سے خوش رہیں، اور مرتے وقت تعریف کریں، اور دعا دیں لیکن سب لوگوں سے زیادہ حق اپنی بیوی اور بال بچوں کا ہے، اس کے بعد دوسرے عزیزوں اور ناتے والوں کا، اس کے بعد دوستوں کا اس کے بعد اور لوگوں کا۔​

1978- حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ شَقِيقٍ، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: <خِيَارُكُمْ خِيَارُكُمْ لِنِسَائِهِمْ >۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، ( تحفۃ الأشراف: ۸۹۳۴، ومصباح الزجاجۃ: ۷۰۲) (صحیح)

(سند میں اعمش مدلس راوی ہیں، اور روایت عنعنہ سے کی ہے، لیکن شواہد کی وجہ سے یہ حدیث صحیح ہے)
۱۹۷۸- عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: '' سب سے بہتر وہ لوگ ہیں جو اپنی عورتوں کے لیے بہتر ہوں '' ۔​

1979- حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: سَابَقَنِي النَّبِيُّ ﷺ فَسَبَقْتُهُ۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۹۲۷)، د/الجہاد ۶۸ (۲۵۷۸)، وقد أخرجہ: حم (۶/۱۸۲) (صحیح)

۱۹۷۹- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے مجھ سے دوڑ کا مقابلہ کیا تومیں آپ ﷺسے آگے نکل گئی ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : دوسری روایت میں ہے کہ جب میرا بدن بھاری ہوگیا تو آپ ﷺ دوڑ میں مجھ سے آگے نکل گئے، آپ ﷺ نے فرمایا : ''عائشہ ! یہ پہلی دوڑ کا بدلہ ہے '' اس حدیث کے یہاں لانے کا مقصد یہ ہے کہ شوہر کی حسن معاشرت اپنی بیویوں کے ساتھ معلوم ہو باوجود یکہ نبی اکرم ﷺ کا سن مبارک زیادہ تھا، اورعائشہ رضی اللہ عنہا کم سن تھیں، لیکن آپ ﷺ ان کو خوش کرنے کے لئے ان کے ساتھ ایسا کرتے اوردوڑنا مباح ہے کچھ برا کھیل نہیں ہے۔​

1980- حَدَّثَنَا أَبُو بَدْرٍ، عَبَّادُ بْنُ الْوَلِيدِ، حَدَّثَنَا حَبَّانُ بْنُ هِلالٍ، حَدَّثَنَا مُبَارَكُ بْنُ فَضَالَةَ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ أُمِّ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: لَمَّا قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ الْمَدِينَةَ، وَهُوَ عَرُوسٌ بِصَفِيَّةَ بِنْتِ حُيَيٍّ، جِئْنَ نِسَاءُ الأَنْصَارِ فَأَخْبَرْنَ عَنْهَا، قَالَتْ: فَتَنَكَّرْتُ وَتَنَقَّبْتُ فَذَهَبْتُ، فَنَظَرَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ إِلَى عَيْنِي فَعَرَفَنِي، قَالَتْ: فَالْتَفَتَ فَأَسْرَعْتُ الْمَشْيَ، فَأَدْرَكَنِي فَاحْتَضَنَنِي، فَقَالَ: < كَيْفَ رَأَيْتِ؟ > قَالَتْ: قُلْتُ: أَرْسِلْ، يَهُودِيَّةٌ وَسْطَ يَهُودِيَّاتٍ۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، ( تحفۃ الأشراف: ۱۷۸۲۲، ومصباح الزجاجۃ: ۷۰۳) (ضعیف)

(سند میں علی بن زید بن جدعان ضعیف راوی ہے)
۱۹۸۰- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ (خیبر سے واپس ) مدینہ آئے ،اور صفیہ بنت حیی رضی اللہ عنہا کے آپ دولہا ہوئے، تو انصار کی عورتیں آئیں، اور انہوں نے صفیہ رضی اللہ عنہا کا حال بیان کیا ، عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے اپنی صورت بدلی، منھ پر نقاب ڈالا، اور صفیہ رضی اللہ عنہا کو دیکھنے چلی، رسول اللہ ﷺ نے میری آنکھ دیکھ کر مجھے پہچان لیا،آپﷺ دوسری طرف متوجہ ہوئے تو میں اور تیزی سے چلی ،لیکن آپ نے مجھ کو پکڑکر گود میں اٹھا لیا، اور پوچھا: ''تو نے کیسا دیکھا '' ؟ میں نے کہا : بس چھوڑ دیجیے ، یہودی عورتوں میں سے ایک یہودی عورت ہے ۔​

1981- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ، عَنْ زَكَرِيَّا، عَنْ خَالِدِ بْنِ سَلَمَةَ، عَنِ الْبَهِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، قَالَ: قَالَتْ عَائِشَةُ: مَا عَلِمْتُ حَتَّى دَخَلَتْ عَلَيَّ زَيْنَبُ بِغَيْرِ إِذْنٍ، وَهِيَ غَضْبَى، ثُمَّ قَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ ! أَحَسْبُكَ إِذَا قَلَبَتْ بُنَيَّةُ أَبِي بَكْرٍ ذُرَيْعَتَيْهَا، ثُمَّ أَقَبَلَتْ عَلَيَّ، فَأَعْرَضْتُ عَنْهَا، حَتَّى قَالَ النَّبِيُّ ﷺ: <دُونَكِ فَانْتَصِرِي > فَأَقْبَلْتُ عَلَيْهَا، حَتَّى رَأَيْتُهَا وَقَدْ يَبِسَ رِيقُهَا فِي فِيهَا، مَا تَرُدُّ عَلَيَّ شَيْئًا، فَرَأَيْتُ النَّبِيَّ ﷺ يَتَهَلَّلُ وَجْهُهُ۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، ( تحفۃ الأشراف: ۱۶۳۶۲، ومصباح الزجاجۃ: ۷۰۴)، وقد أخرجہ: حم (۶/۹۳) (صحیح)

۱۹۸۱- عروہ بن زبیر کہتے ہیں کہ ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: مجھے معلوم ہونے سے پہلے زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا میرے گھر میں بغیر اجازت کے آگئیں، وہ غصہ میں تھیں،کہنے لگیں:اللہ کے رسول !کیا آپ کے لیے بس یہی کافی ہے کہ ابوبکر کی بیٹی اپنی آغوش آپ کے لیے واکر دے؟ اس کے بعد وہ میری طرف متوجہ ہو ئیں،میں نے ان سے منہ موڑ لیا، یہاں تک کہ نبی اکرم ﷺ نے مجھ سے فرمایا: '' تو بھی اس کی خبر لے اور اس پر اپنی برتری دکھا'' تو میں ان کی طرف پلٹی ،اور میں نے ان کا جواب دیا، یہاں تک کہ میں نے دیکھا کہ ان کا تھوک ان کے منہ میں سوکھ گیا، اور مجھے کوئی جواب نہ دے سکیں، پھر میں نے نبی اکرمﷺ کی طرف دیکھا تو آپ کا چہرہ کھل اٹھا تھا '' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا خاندان قریش کی حسین وجمیل اور صاحب حسب و نسب خاتون تھیں ،اور رسول اکرم ﷺ کی بیویوں میں انہی کو عائشہ رضی اللہ عنہا کی برابری کا دعوی تھا، وہ کہتی تھیں: میرا نکاح اللہ تعالی نے سات آسمانوں کے اوپر کیا اور تمہارا نکاح تمہارے گھر والوں نے کیا، وہ غصہ میں اس وجہ سے تھیں کہ ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرف آپ ﷺکی توجہ زیادہ تھی ، اور وہ آپ سے شکایت کر رہی تھیں ،ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کو انہوں نے حقارتا ''بُنَيَّةُ'' (جو تصغیر ہے بنت کی) کہا یعنی چھوٹی لڑکی، چھوکری ، آپ تو عائشہ کے شیدائی اور ان پر فریفتہ ہیں، دوسری بیویوں کی آپ کو فکر ہی نہیں ہے، نہ کسی کا آپ کو خیال ہے، ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے اپنی قمیص الٹی اور بانہہ کھولی ، ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کا جواب دینا اور ام المومنین زینب رضی اللہ عنہا کا ہار جانا جو ناحق شکایت کرتی تھیں، اس سے آپ کو خوشی ہوئی اور اس کے نتیجے میں آپ کا چہرہ کھل اٹھا، دوسری روایت میں ہے کہ آپ ﷺ نے زینب رضی اللہ عنہا سے فرمایا : '' تم نہیں جانتی ہو یہ ابو بکر کی بیٹی ہے '' ۔سوکنوں کی یہ وقتی غیرت والی لڑائی عائلی زندگی کا ایک خوش کن لازمہ ہے ، اس میں شوہر کی عقلمندی اور اس کے حلم وصبرکا امتحان بھی ہے۔​

1982- حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عَمْرٍو، حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَبِيبٍ الْقَاضِي، قَالَ: حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: كُنْتُ أَلْعَبُ بِالْبَنَاتِ وَأَنَا عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ، فَكَانَ يُسَرِّبُ إِلَيَّ صَوَاحِبَاتِي يُلاعِبْنَنِي۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ (تحفۃ الأشراف: ۱۷۱۲۵)، وقد أخرجہ: خ/الأدب ۸۱ (۶۱۳۰)، م/فضائل الصحابۃ ۱۳ (۲۴۴۰)، د/الأدب ۶۲ (۴۹۳۱) (صحیح)

(سند میں عمربن حبیب ضعیف راوی ہے ، لیکن حدیث شواہد کی وجہ سے صحیح ہے)
۱۹۸۲- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کے پاس گڑیوں سے کھیلا کرتی تھی، تو آپ میری سہیلیوں کو میرے پاس کھیلنے کے لیے بھیج دیا کرتے تھے ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : گڑیاں کپڑے کی مورتیں جو بچیاں بناتی ہیں ان کی شادی کرتی ہیں یہ بچوں کا کھیل ہے، اور ان میں پوری مورت نہیں ہوتی اس لئے تصویر کا حکم نہیں دیا گیا، اور لڑکیوں کو اس کا کھیل جائز رکھا گیا، ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کم سن تھیں، یہ آپ ﷺ کا کمالِ اخلاق تھا کہ بچوں پر شفقت کرتے اور کھیل کود سے ان کو منع نہ کرتے، نہ زیادہ غصہ ہوتے، اس باب کی تمام حدیثوں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ ﷺ اپنی بیویوں کے ساتھ عمدہ سلوک کرتے تھے ۔​
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
51- بَاب ضَرْبِ النِّسَاءِ
۵۱ -باب: عورتوں کو مارنے پیٹنے کے حکم کا بیان​

1983- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ زَمْعَةَ قَالَ: خَطَبَ النَّبِيُّ ﷺ، ثُمَّ ذَكَرَ النِّسَاءَ، فَوَعَظَهُمْ فِيهِنَّ، ثُمَّ قَالَ: < إِلامَ يَجْلِدُ أَحَدُكُمُ امْرَأَتَهُ جَلْدَ الأَمَةِ؟ وَلَعَلَّهُ أَنْ يُضَاجِعَهَا مِنْ آخِرِ يَوْمِهِ >۔
* تخريج:خ/تفسیر سورۃ الشمس (۴۹۴۲)، النکاح ۹۳ (۵۲۰۴)، م/صفۃ الجنۃ ونعیمہا ۳ (۲۸۵۵)، ت/تفسیر القرآن ۷۹ (۳۳۴۳)، (تحفۃ الأشراف: ۵۲۹۴)، وقد أخرجہ: حم (۴/۱۷)، دي/النکاح ۳۴ (۲۲۶۶) (صحیح)

۱۹۸۳- عبداللہ بن زمعہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے خطبہ دیا، پھر عورتوں کا ذکر کیا، اور مردوں کو ان کے سلسلے میں نصیحت فرمائی، پھر فرمایا: '' کوئی شخص اپنی عورت کو لونڈی کی طرح کب تک مارے گا؟ ہوسکتا ہے اسی دن شام میں اسے اپنی بیوی سے صحبت کرے '' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : تو پہلے ایسی سخت مار پھر اس کے بعد اتنا پیار بالکل نامناسب ہوگا، اور دل شرمائے گا، مناسب یہ ہے کہ امکانی حد تک عورت پر ہاتھ ہی نہ اٹھائے، اگر ایسا ہی سخت قصور کرے تو زبان سے خفا ہو، بسترالگ کردے، اگر اس پر بھی نہ مانے تو ہلکی مار مارے۔​

1984- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ؛ قَالَتْ: مَا ضَرَبَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ خَادِمًا لَهُ، وَلا امْرَأَةً، وَلا ضَرَبَ بِيَدِهِ شَيْئًا۔
* تخريج: م/الفضائل ۲۰ (۲۳۲۸)، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۲۶۲)، وقد أخرجہ: د/الأدب ۵ (۴۷۸۶)، حم (۶/۲۰۶)، دي/النکاح ۳۴ (۲۲۶۴) (صحیح)

۱۹۸۴- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے نہ کسی خادم کواپنے ہاتھ سے مارا ،نہ کسی عورت کو،اور نہ کسی بھی چیز کو ۔​

1985- أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ، أَنْبَأَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ إِيَاسِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ بْنِ أَبِي ذُبَابٍ؛ قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ ﷺ: < لا تَضْرِبُنَّ إِمَاءَ اللَّهِ >، فَجَاءَ عُمَرُ إِلَى النَّبِيِّ ﷺ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! قَدْ ذَئِرَ النِّسَاءُ عَلَى أَزْوَاجِهِنَّ ، فَأْمُرْ بِضَرْبِهِنَّ، فَضُرِبْنَ، فَطَافَ بِآلِ مُحَمَّدٍ ﷺ طَائِفُ نِسَائٍ كَثِيرٍ، فَلَمَّا أَصْبَحَ قَالَ: <لَقَدْ طَافَ اللَّيْلَةَ بِآلِ مُحَمَّدٍ سَبْعُونَ امْرَأَةً، كُلُّ امْرَأَةٍ تَشْتَكِي زَوْجَهَا، فَلا تَجِدُونَ أُولَئِكَ خِيَارَكُمْ >۔
* تخريج: د/النکاح ۴۳ (۲۱۴۶)، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۴۶)، وقد أخرجہ: دي/النکاح ۳۴ (۲۶۶۵) (حسن)
(تراجع الألبانی: رقم: ۲۳۴)
۱۹۸۵- ایاس بن عبداللہ بن ابیذباب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: '' اللہ کی بندیوں کو نہ مارو،'' تو عمر رضی اللہ عنہ نبی اکرم ﷺ کے پاس آئے اور کہنے لگے: اللہ کے رسول! عورتیں اپنے شوہروں پہ دلیر ہوگئی ہیں، لہٰذا انہیں مارنے کی اجازت دیجئے (چنانچہ آپﷺ نے اجازت دے دی) تو ان کو مار پڑی، اب بہت ساری عورتیں محمد ﷺ کے گھرانے کا چکر کا ٹنے لگیں، جب صبح ہوئی تو آپﷺ نے فرمایا: '' آل محمد کے گھر آج رات ستر عورتیں آئیں، ہر عورت اپنے شوہر کی شکایت کر رہی تھی، تو تم انہیں (زیادہ مارنے والے مردوں کو) بہتر لوگ نہ پاؤ گے '' ۔​

1986- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى، والْحَسَنُ بْنُ مُدْرِكٍ الطَّحَّانُ، قَالا: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَمَّادٍ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ عَبْدِاللَّهِ الأَوْدِيِّ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ الْمُسْلَمِيِّ، عَنِ الأَشْعَثِ ابْنِ قَيْسٍ؛ قَالَ: ضِفْتُ عُمَرَ لَيْلَةً، فَلَمَّا كَانَ فِي جَوْفِ اللَّيْلِ قَامَ إِلَى امْرَأَتِهِ يَضْرِبُهَا، فَحَجَزْتُ بَيْنَهُمَا، فَلَمَّا أَوَى إِلَى فِرَاشِهِ قَالَ لِي: يَا أَشْعَثُ! احْفَظْ عَنِّي شَيْئًا سَمِعْتُهُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ <لا يُسْأَلُ الرَّجُلُ فِيمَ يَضْرِبُ امْرَأَتَهُ، وَلا تَنَمْ إِلا عَلَى وِتْرٍ > وَنَسِيتُ الثَّالِثَةَ.
* تخريج: د/النکاح ۴۳ (۲۱۴۷)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۴۰۷)، وقد أخرجہ: حم (۱/۲۰) (ضعیف)

(یہ سند عبدالرحمن مسلمی کی وجہ سے ضعیف ہے، جو اس حدیث کے علاوہ کی دوسری حدیث کی روایت میں غیر معروف ہیں، اور داود بن عبد اللہ اودی روایت میں منفرد ہیں)
۱۹۸۶- اشعث بن قیس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں ایک رات عمر رضی اللہ عنہ کا مہمان ہوا، جب آدھی رات ہوئی تووہ اپنی بیوی کو مارنے لگے، تو میں ان دونوں کے بیچ حائل ہوگیا، جب وہ اپنے بستر پہ جانے لگے تو مجھ سے کہا : اشعث! وہ بات جو میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنی ہے تم اسے یاد کرلو : '' شوہر اپنی بیوی کو مارے تو قیامت کے دن اس سلسلے میں سوال نہیں کیا جائے گا ،اور وتر پڑھے بغیر نہ سوؤ '' اور تیسری چیز آپ نے کیا کہی میں بھول گیا ۔​

1986/أ- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خَالِدِ بْنِ خِدَاشٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ بِإِسْنَادِهِ نَحْوَهُ۔
۱۹۸۶/أ - اس سند سے بھی اسی جیسی حدیث مر وی ہے۔​
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
52- بَاب الْوَاصِلَةِ وَالْوَاشِمَةِ
۵۲-باب: بالوں کو جوڑنے اور گودنا گودنے والی عورتوں پر وارد وعید کا بیان​

1987- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ وَأَبُو أُسَامَةَ، عَنْ عُبَيْدِاللَّهِ ابْنِ عُمَرَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّهُ لَعَنَ الْوَاصِلَةَ وَالْمُسْتَوْصِلَةَ، وَالْوَاشِمَةَ وَالْمُسْتَوْشِمَةَ۔
* تخريج: حدیث أبي أسامہ تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۷۸۷۴)، وحدیث عبد اللہ بن نمیر أخرجہ: م/اللباس ۳۳ (۲۱۲۴)، (تحفۃ الأشراف: ۷۹۵۳)، وقد أخرجہ: خ /اللباس ۸۳ (۵۹۳۷)، ۸۵ (۵۹۴۰)، ۸۷ (۵۹۴۷)، د/الترجل ۵ (۴۱۶۸)، ت/اللباس ۲۵ (۱۷۵۹)، الأدب ۳۳ (۲۷۸۴)، ن/الزینۃ من المجتبیٰ ۱۷ (۵۲۵۳)، حم (۲/۲۱) (صحیح)

۱۹۸۷- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے بالوں کو جوڑنے اور جڑوانے والی، گودنے والی اور گودوانے والی عورت پر لعنت فرمائی ہے ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : بال جوڑنے سے مراد یہ ہے کہ پرانے بال لے کر اپنے سر کے بالوں میں لگائے، جیسا بعض عورتوں کی عادت ہوتی ہے، او راس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ سر کے بال زیادہ معلوم ہوں، امام نووی کہتے ہیں:ظاہر احادیث سے اس کی حرمت نکلتی ہے، اور بعضوں نے اس کو مکروہ کہا ہے، بعضوں نے شوہر کی اجازت سے جائز رکھا ہے اور گودنا بالاتفاق حرام ہے۔​

1988- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ فَاطِمَةَ، عَنْ أَسْمَاءَ؛ قَالَتْ: جَاءَتِ امْرَأَةٌ إِلَى النَّبِيِّ ﷺ فَقَالَتْ: إِنَّ ابْنَتِي عُرَيِّسٌ، وَقَدْ أَصَابَتْهَا الْحَصْبَةُ، فَتَمَرَّقَ شَعْرُهَا، فَأَصِلُ لَهَا فِيهِ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < لَعَنَ اللَّهُ الْوَاصِلَةَ وَالْمُسْتَوْصِلَةَ >۔
* تخريج: خ/اللباس ۸۳ (۵۹۴۱)، م/اللباس ۳۳ (۲۱۲۲)، ن/الزینۃ ۲۲ (۵۰۹۷)، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۷۴۷)، وقد أخرجہ: حم (۶/۱۱۱، ۳۴۵، ۳۴۶، ۳۵۳) (صحیح)

۱۹۸۸- اسماء رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ایک عورت نبی اکرم ﷺ کے پاس آئی اور کہنے لگی: میری بیٹی دلہن ہے، اور اسے چیچک کا عارضہ ہوا جس سے اس کے بال جھڑگئے ،کیا میں اس کے بال میں جوڑ لگادوں؟ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''اللہ تعالی نے بالوں کو جوڑنے والی اور جوڑوانے والی عورتوں پر لعنت فرمائی ہے '' ۔​

1989- حَدَّثَنَا أَبُو عُمَرَ، حَفْصُ بْنُ عُمَرَ وَعَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ عُمَرَ، قَالا: حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ ابْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ؛ قَالَ: لَعَنَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ الْوَاشِمَاتِ وَالْمُسْتَوْشِمَاتِ وَالْمُتَنَمِّصَاتِ وَالْمُتَفَلِّجَاتِ لِلْحُسْنِ، الْمُغَيِّرَاتِ لِخَلْقِ اللَّهِ، فَبَلَغَ ذَلِكَ امْرَأَةً مِنْ بَنِي أَسَدٍ، يُقَالُ لَهَا أُمُّ يَعْقُوبَ، فَجَاءَتْ إِلَيْهِ، فَقَالَتْ: بَلَغَنِي عَنْكَ أَنَّكَ قُلْتَ كَيْتَ وَكَيْتَ، قَالَ: وَمَا لِي لا أَلْعَنُ مَنْ لَعَنَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ، وَهُوَ فِي كِتَابِ اللَّهِ؟ قَالَتْ: إِنِّي لأَقْرَأُ مَا بَيْنَ لَوْحَيْهِ فَمَا وَجَدْتُهُ، قَالَ: إِنْ كُنْتِ قَرَأْتِهِ فَقَدْ وَجَدْتِهِ، أَمَا قَرَأْتِ : وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ، وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا؟ قَالَتْ: بَلَى، قَالَ: فَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَدْ نَهَى عَنْهُ، قَالَتْ: فَإِنِّي لأَظُنُّ أَهْلَكَ يَفْعَلُونَ، قَالَ: اذْهَبِي فَانْظُرِي، فَذَهَبَتْ فَنَظَرَتْ فَلَمْ تَرَ مِنْ حَاجَتِهَا شَيْئًا، قَالَتْ: مَا رَأَيْتُ شَيْئًا، قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: لَوْ كَانَتْ كَمَا تَقُولِينَ مَا جَامَعَتْنَا۔
* تخريج: خ/تفسیر سورۃالحشر ۴ (۴۸۸۶)، اللباس ۸۲ (۵۹۳۱)، ۸۴ (۵۹۳۹)، ۸۵ (۵۹۴۳)، ۸۶ (۵۹۴۴)، ۸۷ (۵۹۴۸)، م/اللباس ۳۳ (۲۱۲۵)، د/الترجل ۵ (۴۱۶۹)، ت/الادب ۳۳ (۲۷۸۲)، ن/الزینۃ ۲۴ (۵۱۰۲)، (تحفۃ الأشراف: ۹۴۵۰)، وقد أخرجہ: حم (۱/۴۰۹، ۴۱۵، ۴۲۴، ۴۴۸، ۴۵۴،۴۶۲، ۴۶۵)، دي/الاستذان ۱۹ (۲۶۸۹) (صحیح)

۱۹۸۹- عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے گودنے والیوں اور گودوانے والیوں، بال اکھیڑنے والیوں ، خوب صورتی کے لیے دانتوں کو کشادہ کرنے والیوں، اور اللہ کی خلقت کو بدلنے والیوں پر لعنت فرمائی ہے، قبیلہ بنو اسد کی ام یعقوب نامی ایک عورت کو یہ حدیث پہنچی تو وہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے پا س آئی اور کہنے لگی: مجھے خبر پہنچی ہے کہ آپ ایسا ایسا کہتے ہیں؟! انہوں نے کہا :کیوں نہیں مجھے کیا ہوا کہ میں اس پر لعنت نہ کروں جس پر رسول اللہ ﷺ نے لعنت کی ہے ، اور یہ بات تو اللہ تعالیٰ کی کتاب میں موجود ہے، وہ کہنے لگی: میں پورا قرآن پڑھتی ہوں، لیکن اس میں مجھے یہ نہ ملا، عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: اگرتم پڑھتی ہوتی تو ضرور پاتی، کیاتم نے یہ آیت نہیں پڑھی: {وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ، وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا} ( رسول تمہیں جو دیں اسے لے لو اور جس چیز سے روک دیں اس سے باز آجاؤ ) اس عورت نے کہا: ضرور پڑھی ہے تو انہوں نے کہا :رسول اللہ ﷺ نے اس سے منع کیا ہے، وہ عورت بولی: میرا خیال ہے کہ تمہاری بیوی بھی ایسا کرتی ہوگی، عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: جاؤ دیکھو، چنانچہ وہ اسے دیکھنے کے لیے گئی تو اس نے کوئی بات اپنے خیال کے مطابق نہیں پائی، تب کہنے لگی :میں نے تمہاری بیوی کے پاس ایسی کوئی چیز نہیں دیکھی، عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا :اگر ایسا ہوتا جیسا تم کہہ رہی تھیں تو وہ کبھی میرے ساتھ نہ رہتی ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : تو و ہ کبھی میرے ساتھ نہ رہتی کا مطلب ہے کہ میں اسے طلاق دے دیتا ۔​
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
53- بَاب مَتَى يُسْتَحَبُّ الْبِنَاءُ بِالنِّسَاءِ؟
۵۳ -باب: دلہن کی رخصتی کا بہتر وقت کون سا ہے؟​

1990- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ. حَدَّثَنَا وَكِيعُ بْنُ الْجَرَّاحِ، (ح) وحَدَّثَنَا أَبُوبِشْرٍ بَكْرُ بْنُ خَلَفٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، جَمِيعًا عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ أُمَيَّةَ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: تَزَوَّجَنِي النَّبِيُّ ﷺ فِي شَوَّالٍ، وَبَنَى بِي فِي شَوَّالٍ، فَأَيُّ نِسَائِهِ كَانَ أَحْظَى عِنْدَهُ مِنِّي، وَكَانَتْ عَائِشَةُ تَسْتَحِبُّ أَنْ تُدْخِلَ نِسَائَهَا فِي شَوَّالٍ۔
* تخريج: م/النکاح ۱۱ (۱۴۲۳)، ت/النکاح ۹ (۱۰۹۳)، ن/النکاح ۱۸ (۳۲۳۸)، ۷۷ (۳۳۷۹)، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۳۵۵)، وقد أخرجہ: حم (۶/۵۴، ۲۰۶)، دي/النکاح ۲۸ (۲۲۵۷) (صحیح)

۱۹۹۰- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے مجھ سے شوال میں شادی کی اور شوال ہی میں ملن بھی کیا ، پھر کون سی بیوی آپ کے پاس مجھ سے زیادہ نصیب والی تھی ،اور عائشہ رضی اللہ عنہا اپنے یہاں کی عورتوں کو شوال میں(ان کے شوہروں کے پاس) بھیجنا پسند کرتی تھیں۔​

1991- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا أَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِالْمَلِكِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ هِشَامٍ، عَنْ أَبِيهِ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ تَزَوَّجَ أُمَّ سَلَمَةَ فِي شَوَّالٍ، وَجَمَعَهَا إِلَيْهِ فِي شَوَّالٍ۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، ( تحفۃ الأشراف: ۳۲۸۲، ۱۸۲۳۰، ومصباح الزجاجۃ: ۷۰۶) (صحیح)

(متابعت کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے ، ورنہ سند میں ارسال ہے ، عبد الملک بن الحارث بن ہشام یہ ''عبد الملک بن ابی بکر بن الحارث بن ہشام المخزومی ہیں'' جیسا کہ طبقات ابن سعد میں ہے، ۸/۹۴-۹۵، اور یہ ثقہ تابعی ہیں، اسی طرح ابوبکر ثقہ تابعی ہیں، اور یہ حدیث ابو بکر کی ہے، نہ کہ ان کے دادا حارث بن ہشام کی ، اور عبد اللہ بن ابی بکر یہ ابن محمد عمرو بن حزم الانصاری ہیں، جو اپنے والد سے روایت کرتے ہیں، اور ان سے ابن اسحاق روایت کرتے ہیں، ابوبکر کی وفات ۱۲۰؁ھ میں ہوئی ، اور ان کے شیخ عبد الملک کی وفات ۱۲۵ھ؁ میں ہوئی ، اس لئے یہ حدیث ابو بکر عبد الرحمن بن الحارث بن ہشام سے مرسلاً روایت ہے، ان کے دادا حارث بن ہشام سے نہیں ۔ اس میں امام مزی وغیرہ کو وہم ہوا ہے ، نیز سند میں ابن اسحاق مدلس راوی ہیں، اور روایت عنعنہ سے کی ہے، لیکن ابن سعدکی روایت میں تحدیث کی تصریح ہے ، اور موطا امام مالک میں (۲/ ۶۵۰) میں ثابت ہے کہ ابو بکر بن عبد الرحمن نے اس حدیث کو ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے لیا ہے ،اس لئے یہ حدیث صحیح ہے ، اسی وجہ سے شیخ البانی نے تفصیلی تحقیق کے بعد اس حدیث کو الضعیفہ (۴۳۵۰)سے منتقل کرنے کی بات کہی ہے '' فالحدیث صحیح ینقل الی الکتاب الأخر''۔
۱۹۹۱- أبوبکربن عبدالرحمن سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے شوال میں شادی کی اور ان سے شوال ہی میں ملن بھی کیا ۱ ؎ ۔
وضاحت ۱؎ : شوال کا مہینہ عید اور خوشی کا مہینہ ہے، اس وجہ سے اس میں نکاح کرنا بہتر ہے، عہد جاہلیت میں لوگ اس مہینہ کو منحوس سمجھتے تھے، رسول اکرم ﷺنے ان کے خیال کو غلط ٹھہرایا اور اس مہینہ میں نکاح کیا، اور دخول بھی اسی مہینے میں کیا، گو ہر ماہ میں نکاح جائز ہے مگر جس مہینہ کو عوام بغیر دلیل شرعی کے عورتوں کی تقلید سے یا کافروں اور فاسقوں کی تقلید سے منحوس سمجھیں اس میں نکاح کرنا چاہئے، تاکہ عوام کے دل سے یہ غلط عقیدہ نکل جائے، شرع کی رو سے شوال ، محرم یا صفر کا مہینہ کوئی منحوس نہیں ہے ، اس لیے بے کھٹکے ان مہینوں میں نکاح کرنا چاہئے۔​
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
54- بَاب الرَّجُلِ يَدْخُلُ بِأَهْلِهِ قَبْلَ أَنْ يُعْطِيَهَا شَيْئًا
۵۴ -باب: مرد اپنی بیوی کے پاس جائے اور اس کو کوئی چیز ہدیہ نہ کی ہو اس کا بیان​

1992- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا الْهَيْثَمُ بْنُ جَمِيلٍ، حَدَّثَنَا شَرِيكٌ، عَنْ مَنْصُورٍ ظَنَّهُ عَنْ طَلْحَةَ، عَنْ خَيْثَمَةَ، عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ أَمَرَهَا أَنْ تُدْخِلَ عَلَى رَجُلٍ امْرَأَتَهُ قَبْلَ أَنْ يُعْطِيَهَا شَيْئًا۔
* تخريج: د/النکاح ۳۶ (۲۱۲۸)، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۰۶۹) (ضعیف)
(سند میں شریک بن عبد اللہ القاضی ضعیف ہیں ، اور خیثمہ کا ام المو منین عائشہ رضی اللہ عنہا سے سماع بھی محل نظر ہے، ملاحظہ ہو : تہذیب التہذیب ۳/ ۱۷۹)
۱۹۹۲- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ان کو حکم دیا کہ شوہر کے پا س اس کی بیوی کو بھیج دیں اس سے پہلے کہ شوہر نے اس کو کوئی چیز دی ہو ۔​
 
Top