• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن ابن ماجه

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
26-بَاب مَنْ وَجَدَ مَتَاعَهُ بِعَيْنِهِ عِنْدَ رَجُلٍ قَدْ أَفْلَسَ
۲۶- باب: ایک شخص کا دیوالیہ ہوگیا اور کسی نے اپنا مال اس کے پاس پالیا تو اس کے حکم کا بیان​


2358- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ (ح) وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رُمْحٍ، أَنْبَأَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، جَمِيعًا عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ، عَنْ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ هِشَامٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < مَنْ وَجَدَ مَتَاعَهُ بِعَيْنِهِ عِنْدَ رَجُلٍ قَدْ أَفْلَسَ فَهُوَ أَحَقُّ بِهِ مِنْ غَيْرِهِ >۔
* تخريج: خ/الاستقراض ۱۴ (۲۴۰۲)، م/المساقاۃ ۵ (۱۵۵۹)، د/البیوع ۷۶ (۳۵۱۹، ۳۵۲۰)، ت/البیوع ۲۶ (۱۲۶۲)، ن/البیوع ۹۳ (۴۶۸۰)، (تحفۃ الأشراف: ۱۴۸۶۱)، وقد أخرجہ: ط/البیوع ۴۲ (۸۸، حم (۲/۲۲۸، ۲۵۸، ۴۱۰، ۴۶۸، ۴۷۴، ۵۰۸)، دي/البیوع ۵۱ (۲۶۳۲) (صحیح)
۲۳۵۸- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''جس نے بعینہٖ اپنا مال اس شخص کے پاس پالیا جو مفلس (دیوالیہ ) ہوگیا ہو، تو وہ دوسرے قرض خواہوں سے اس مال کا زیادہ حق دار ہے '' ۔


2359- حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَيَّاشٍ، عَنْ مُوسَى بْنِ عُقْبَةَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ هِشَامٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: < أَيُّمَا رَجُلٍ بَاعَ سِلْعَةً، فَأَدْرَكَ سِلْعَتَهُ بِعَيْنِهَا عِنْدَ رَجُلٍ، وَقَدْ أَفْلَسَ، وَلَمْ يَكُنْ قَبَضَ مِنْ ثَمَنِهَا شَيْئًا، فَهِيَ لَهُ، وَإِنْ كَانَ قَبَضَ مِنْ ثَمَنِهَا شَيْئًا، فَهُوَ أُسْوَةٌ لِلْغُرَمَاءِ >۔
* تخريج: وانظر ما قبلہ (صحیح)
۲۳۵۹- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: '' جس شخص نے کوئی سامان بیچا پھر اس نے اس کو بعینہٖ اس (مشتری) کے پاس پایا جو دیوالیہ ہوگیاہے، اوربائع کوابھی تک اس کی قیمت میں سے کچھ نہیں ملا تھا، تو وہ سامان بائع کو ملے گا ،اور اگر وہ اس کی قیمت میں سے کچھ لے چکا ہے تو وہ دیگر قرض خواہوں کے مانند ہوگا '' ۔
وضاحت ۱؎ : یعنی اس کو بیچ کر قرض خواہوں کا قرضہ حصے کے طور پر اس سے ۱دا کریں گے ،بائع کو بھی اپنے حصہ کے موافق ملے گا ، حدیث سے یہ نکلا کہ اگر مشتری نے اسباب میں کچھ تصرف کیا ہو یعنی اس حال پر باقی نہ رہا جو بائع کے وقت پر تھا تب بھی وہ بائع کو نہ ملے گا بلکہ اس کو بیچ کر سب قرض خواہوں کو حصہ ادا کریں گے ، بائع بھی اپنے حصہ کے موافق لے گا ۔


2360- حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْمُنْذِرِ الْحِزَامِيُّ وَعَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الدِّمَشْقِيُّ، قَالا: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي فُدَيْكٍ، عَنِ ابْنِ أَبِي ذِئْبٍ، عَنْ أَبِي الْمُعْتَمِرِ بْنِ عَمْرِو بْنِ رَافِعٍ، عَنِ ابْنِ خَلْدَةَ الزُّرَقِيِّ، وَكَانَ قَاضِيًا بِالْمَدِينَةِ قَالَ: جِئْنَا أَبَا هُرَيْرَةَ فِي صَاحِبٍ لَنَا قَدْ أَفْلَسَ، فَقَالَ: هَذَا الَّذِي قَضَى فِيهِ النَّبِيُّ ﷺ < أَيُّمَا رَجُلٍ مَاتَ أَوْ أَفْلَسَ، فَصَاحِبُ الْمَتَاعِ أَحَقُّ بِمَتَاعِهِ، إِذَا وَجَدَهُ بِعَيْنِهِ >۔
* تخريج: د/البیوع ۷۶ (۳۵۲۳)، (تحفۃ الأشراف: ۱۴۲۶۹) (ضعیف)
(سند میں ابو المعتمر بن عمروبن رافع مجہول ہیں)۔
۲۳۶۰- ابن خلدہ زرقی (وہ مدینہ کے قاضی تھے) کہتے ہیں کہ ہم اپنے ایک ساتھی کے سلسلے میں جس کا دیوالیہ ہوگیا تھا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے پاس آئے، تو انہوں نے کہا: ایسے ہی شخص کے بارے میں نبی اکرمﷺ نے یہ فیصلہ دیا تھا : ''جو شخص مرجائے یاجس کا دیوالیہ ہوجائے، تو سامان کا مالک ہی اپنے سامان کا زیادہ حق دار ہے، جب وہ اس کو بعینہٖ اس کے پاس پائے ''۔


2361- حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عُثْمَانَ بْنِ سَعِيدِ بْنِ كَثِيرِ بْنِ دِينَارٍ الْحِمْصِيُّ، حَدَّثَنَا الْيَمَانُ بْنُ عَدِيٍّ، حَدَّثَنِي الزُّبَيْدِيُّ مُحَمَّدُ بْنُ الْوَلِيدِ عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < أَيُّمَا امْرِئٍ مَاتَ وَعِنْدَهُ مَالُ امْرِئٍ بِعَيْنِهِ، اقْتَضَى مِنْهُ شَيْئًا أَوْ لَمْ يَقْتَضِ، فَهُوَ أُسْوَةٌ لِلْغُرَمَاءِ >۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۲۶۸) (صحیح)
۲۳۶۱- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: '' جو شخص مر جائے، اور اس کے پاس کسی کا مال بعینہٖ موجود ہو، خواہ اس کی قیمت سے کچھ وصول کیا ہو یا نہیں، وہ ہر حال میں دوسرے قرض خواہوں کے مانند ہوگا ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
27- بَاب كَرَاهِيَةِ الشَّهَادَةِ لِمَنْ لَمْ يَسْتَشْهِدْ
۲۷- باب: بغیر طلب کئے خود سے گواہی دینے کی کراہت کا بیان​


2362- حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَعَمْرُو بْنُ رَافِعٍ، قَالا: حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَبِيدَةَ السَّلْمَانِيِّ؛ قَالَ: قَالَ عَبْدُاللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ: سُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: أَيُّ النَّاسِ خَيْرٌ؟ قَالَ: قَرْنِي، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ، ثُمَّ يَجِيئُ قَوْمٌ تَبْدُرُ شَهَادَةُ أَحَدِهِمْ يَمِينَهُ وَيَمِينُهُ شَهَادَتَهُ >۔
* تخريج: خ/الشہادات ۹ (۲۶۵۲)، م/فضائل الصحابۃ ۵۲ (۲۵۳۳)، ت/المناقب ۵۷ (۳۸۵۹)، (تحفۃ الأشراف: ۹۴۰۳)، وقد أخرجہ: حم (۱/ ۳۷۸، ۴۱۷، ۴۳۴، ۴۳۸، ۴۴۲) (صحیح)
۲۳۶۲- عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے پوچھا گیا: کون سے لوگ بہتر ہیں؟ آپﷺ نے فرمایا:'' میرے زمانہ والے، پھر جو لوگ ان سے نزدیک ہوں، پھر وہ جو ان سے نزدیک ہوں، پھر ایسے لوگ پیدا ہوں گے جن کی گواہی ان کے قسم سے اور قسم گواہی سے سبقت کر جائے گی '' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یعنی گواہی دینے اور قسم کھانے کے بڑے حریص ہوں گے ،ہر وقت ا س کے لیے تیار رہیں گے ذرا بھی احتیاط سے کام نہیں لیں گے ۔


2363- حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بنُ الْجَرَّاحِ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ عَبْدِالْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ، قَالَ: خَطَبَنَا عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ بِالْجَابِيَةِ؛ فَقَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَامَ فِينَا مِثْلَ مُقَامِي فِيكُمْ فَقَالَ: < احْفَظُونِي فِي أَصْحَابِي، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ، ثُمَّ يَفْشُو الْكَذِبُ حَتَّى يَشْهَدَ الرَّجُلُ وَمَا يُسْتَشْهَدُ، وَيَحْلِفَ وَمَا يُسْتَحْلَفُ >۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۴۱۸، ومصباح الزجاجۃ: ۸۲۸)، وقد أخرجہ: حم (۱/۲۶) (صحیح)
(سند میں عبد الملک بن عمیر مدلس ہیں ،اور راویت عنعنہ سے کی ہے ، لیکن شواہد سے تقویت پاکر یہ صحیح ہے، الصحیحۃ : ۴۳۱ ، ۱۱۱۶)۔
۲۳۶۳- جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے مقام جابیہ ۱؎ میں خطبہ دیا، اس خطبہ میں انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ ہمارے بیچ کھڑے ہوئے جیسے میں تمہارے بیچ کھڑا ہوں، آپﷺ نے فرمایا: '' میرے صحابہ کی شان کے سلسلے میں میرا خیال رکھو ۲؎ پھر ان لوگوں کی شان کے سلسلے میں جو ان کے بعد ہوں، پھر جو ان کے بعد ہوں، پھر جھوٹ عام ہو جائے گا یہاں تک کہ ایک شخص گواہی دے گا اور کوئی اس سے گواہی نہ چاہے گا، اور قسم کھائے گا اور کوئی اس سے قسم نہ چاہے گا''۔
وضاحت ۱؎ : شام کی ایک بستی کا نام ہے ۔
وضاحت ۲؎ : یعنی کم از کم میری رعایت کرتے ہوئے انہیں کوئی ایذا نہ پہنچائو۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
28-بَاب الرَّجُلِ عِنْدَهُ الشَّهَادَةُ وَلا يَعْلَمُ بِهَا صَاحِبُهَا
۲۸- باب: گواہ موجود ہے لیکن صاحب معاملہ کو اس کی خبر نہیں ہے تو گواہ کیا کرے؟​


2364- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، وَمُحَمَّدُ بْنُ عَبدِالرَّحْمَنِ الْجُعْفِيُّ، قَالا: حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ الْحُبَابِ الْعُكْلِيُّ، أَخْبَرَنِي أُبَيُّ بْنُ عَبَّاسِ بْنِ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ السَّاعِدِيُّ، حَدَّثَنِي أَبُو بَكْرِ بْنُ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ، حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ، حَدَّثَنِي خَارِجَةُ بْنُ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ، أَخْبَرَنِي عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي عَمْرَةَ الأَنْصَارِيُّ أَنَّهُ سَمِعَ زَيْدَ بْنَ خَالِدٍ الْجُهَنِيَّ يَقُولُ: إِنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: < خَيْرُ الشُّهُودِ مَنْ أَدَّى شَهَادَتَهُ قَبْلَ أَنْ يُسْأَلَهَا >۔
* تخريج: م/الأقضیۃ ۹ (۱۷۱۹)، د/الأقضیۃ ۱۳ (۳۵۹۶)، ت/الشہادات ۱ (۲۲۹۵، ۲۲۹۶)، (تحفۃ الأشراف: ۳۷۵۴)، وقد أخرجہ: ط/الأقضیۃ ۲ (۳) (صحیح)
۲۳۶۴- زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا : ''بہتر گواہ وہ ہے جو پوچھے جانے سے پہلے گواہی دے دے '' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یعنی گواہ نہ ہونے کے سبب جب کسی مسلمان کا حق مارا جارہا ہو، یا اس کے مال یا جان کو نقصان لاحق ہو رہا ہو، تو ایسی صورت میں بغیر بلائے قاضی کے پاس جا کر گواہی دے دے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
29- بَاب الإِشْهَادِ عَلَى الدُّيُونِ
۲۹- باب: قرض پر گواہ بنانے کا بیان​


2365- حَدَّثَنَا عُبَيْدُاللَّهِ بْنُ يُوسُفَ الْجُبَيْرِيُّ، وَجَمِيلُ بْنُ الْحَسَنِ الْعَتَكِيُّ، قَالا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَرْوَانَ الْعِجْلِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُالْمَلِكِ بْنُ أَبِي نَضْرَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ: تَلا هَذِهِ الآيَةَ: { يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا تَدَايَنْتُمْ بِدَيْنٍ إِلَى أَجَلٍ مُسَمًّى } حَتَّى بَلَغَ { فَإِنْ أَمِنَ بَعْضُكُمْ بَعْضًا} فَقَالَ : هَذِهِ نَسَخَتْ مَا قَبْلَهَا۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۴۳۶۴، ومصباح الزجاجۃ: ۸۲۹) (حسن)
۲۳۶۵- ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ انہو ں نے آیت کریمہ : { يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا تَدَايَنْتُمْ بِدَيْنٍ إِلَى أَجَلٍ مُسَمًّى...الخ } کی تلاوت کی، یہاں تک کہ{ فَإِنْ أَمِنَ بَعْضُكُمْ بَعْضًاْ} یعنی اے ایمان والو! جب تم آپس میں ایک دو سرے سے میعاد مقرر پر قرض کا معاملہ کرو تو اسے لکھ لیا کرو، اور لکھنے والے کو چاہئے کہ تمہار آپس کا معاملہ عدل سے لکھے ، کاتب کو چاہئے کہ لکھنے سے انکار نہ کرے جیسے اللہ تعالی نے اسے سکھا یا ہے، پس اسے بھی لکھ دینا چاہئے اور جس کے ذمہ حق ہو وہ لکھوائے اور اپنے اللہ تعالی سے ڈرے جو اس کا رب ہے ،اور حق میں سے کچھ گھٹائے نہیں ، ہاں جس شخص کے ذمہ حق ہے وہ اگر نادان ہویا کمزور ہو یا لکھوانے کی طاقت نہ رکھتا ہو تو اس کا ولی عدل کے ساتھ لکھوادے، اور اپنے میں سے دو مرد گواہ رکھ لو، اگر دو مرد نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتیں جنہیں تم گواہوں میں سے پسند کر لو ، تاکہ ایک کی بھول چوک کو دوسری یاد دلادے ، اور گواہوں کو چاہئے کہ وہ جب بلائے جائیں تو انکار نہ کریں اور قرض کو جس کی مدت مقرر ہے خواہ چھوٹا ہو یا بڑا ہو لکھنے میں کاہلی نہ کرو ، اللہ تعالی کے نزدیک یہ بات بہت انصاف والی ہے اور گواہی کو بھی درست رکھنے والی اور شک و شبہ سے بھی زیادہ بچانے والی ہے، ہاں یہ اور بات ہے کہ وہ معاملہ نقد تجارت کی شکل میں ہو جو آپس میں تم لین دین کر رہے ہو تو تم پر اس کے نہ لکھنے میں کوئی گناہ نہیں ، خرید و فروخت کے وقت بھی گواہ مقرر کر لیا کرو ، او ر(یاد رکھوکہ)نہ تو لکھنے والے کو نقصان پہنچا یا جائے نہ گواہ کو اور اگر تم یہ کروگے تو یہ تمہاری کھلی نافرمانی ہے ، اللہ تعالی سے ڈرو ، اللہ تمہیں تعلیم دے رہا ہے اور اللہ تعالی ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے (۲۸۲) اور اگر تم سفر میں ہو اور لکھنے والا نہ پائو تو رہن قبضہ میں رکھ لیا کرو، ہاں اگر آپس میں ایک دوسرے سے مطمئن ہو تو جیسے امانت دی گئی ہے وہ اسے ادا کر دے اور اللہ تعالی سے ڈرتا رہے جو اس کا رب ہے ، اور گواہی کو نہ چھپائو اور جو اسے چھپا لے وہ گنہگار دل والا ہے اور جو کچھ تم کرتے ہو اسے اللہ تعالی خوب جانتا ہے (سورۃ البقرۃ: ۲۸۲،۲۸۳) تک پہنچے تو فرمایا: اس آیت نے اس پہلی والی آیت کو منسوخ کردیاہے ۔
وضاحت ۱؎ : اور بعض علماء نے کہا کہ سابقہ آیت منسوخ نہیں ہے اس لئے کہ وہ استحبابی حکم تھا ، واجب نہ تھا اور مستحب یہی ہے کہ جب قرض لیا جائے تو اس کو لکھیں اورگواہ بنالیں کیونکہ زندگی کا اعتبار نہیں ہے ایسا نہ ہوکہ دائن (قرض خواہ) یا مدیون( مقروض) مرجائے اور ان کے وارثوں میں جھگڑا ہو یا مدیون کے ذمہ قرض رہ جائے اس کے وارث ادا نہ کریں تو عاقبت کا مواخذہ رہے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
30- بَاب مَنْ لا تَجُوزُ شَهَادَتُهُ
۳۰- باب: جن لوگوں کی گواہی جائزنہیں ہے ان کا بیان​


2366- حَدَّثَنَا أَيُّوبُ بْنُ مُحَمَّدٍ الرَّقِّيُّ، حَدَّثَنَا مُعَمَّرُ بْنُ سُلَيْمَانَ، (ح) وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، قَالا: حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ أَرْطَاةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < لا تَجُوزُ شَهَادَةُ خَائِنٍ وَلا خَائِنَةٍ، وَلا مَحْدُودٍ فِي الإِسْلامِ وَلا ذِي غِمْرٍ عَلَى أَخِيهِ >۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۸۶۷۴)، ومصباح الزجاجۃ: ۸۳۰)، وقد أخرجہ: حم (۲/۱۸۱،۲۰۳، ۲۰۸) (حسن)
( سند میں حجاج مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے ہے، لیکن ترمذی میں ام المو منین عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث سے تقویت پاکر یہ حسن ہے، ملاحظہ ہو: الإرواء : ۲۶۶۹)
۲۳۶۶- عبداللہ بن عمروبن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: '' نہ خائن مرد کی گواہی جائز ہے اور نہ خائن عورت کی، اور نہ اس کی جس پراسلام میں حدنافذ ہوئی ہو، اور نہ اس کی جو اپنے بھائی کے خلاف کینہ وعداوت رکھے ''۔
وضاحت ۱؎ : جس سے وہ کینہ رکھتا ہو اس کی گواہی جائزنہیں ہے ، البتہ اگر اس کے فائدہ کے لئے گواہی دے تو قبول ہوگی، اہل حدیث کے نزدیک اس شخص کی شہادت جو عادل نہ ہو مقبول نہیں ہے ، اس لئے کہ قرآن میں ہے : { وَأَشْهِدُوا ذَوَيْ عَدْلٍ مِّنكُمْ } [سورة الطلاق:2]،( اور اپنے میں سے دو عادل کوگواہ کرلو) غرض یہ کہ شہادت میں ضرور ی ہے کہ شاہد مسلمان ہو، آزاد ہو، مکلف ہو، یعنی عاقل بالغ ہو، عادل ہو ، صاحب مروت ہو متہم نہ ہو ۔


2367- حَدَّثَنَا حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي نَافِعُ بْنُ يَزِيدَ، عَنِ ابْنِ الْهَادِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ عَطَائٍ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: < لا تَجُوزُ شَهَادَةُ بَدَوِيٍّ عَلَى صَاحِبِ قَرْيَةٍ >۔
* تخريج: د/الأقضیۃ ۱۷ (۳۶۰۲)، (تحفۃ الأشراف: ۱۴۲۳۱) (صحیح)
۲۳۶۷- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا : ''بدوی (دیہات میں رہنے والے) کی گواہی شہری( بستی میں رہنے والے) کے خلاف جائز نہیں '' ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
31-بَاب الْقَضَاءِ بِالشَّاهِدِ وَالْيَمِينِ
۳۱- باب: ایک گواہ اور مدعی کی قسم سے فیصلہ کرنے کا بیان​


2368- حَدَّثَنَا أَبُو مُصْعَبٍ الْمَدِينِيُّ، أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ الزُّهْرِيُّ، وَيَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الدَّوْرَقِيُّ قَالا: حَدَّثَنَا عَبْدُالْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ الدَّرَاوَرْدِيُّ، عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ أَبِي عَبْدِالرَّحْمَنِ، عَنْ سُهَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَضَى بِالْيَمِينِ مَعَ الشَّاهِدِ۔
* تخريج: د/الأقضیۃ ۲۱ (۳۶۱۰، ۳۶۱۱)، ت/الأحکام ۱۳ (۱۳۴۳)، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۶۴۰) (صحیح)
۲۳۶۸ - ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک گواہ اور(مدعی کی) قسم سے فیصلہ فرمایا ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یہ اس صورت میں ہے جب مدعی کے پاس صرف ایک گواہ ہو تو اس سے دوسرے گواہ کی جگہ قسم کو قبول کرلیا جائے گا، جمہور کا یہی مذہب ہے ،ان کا کہنا ہے کہ مالی معاملات میں ایک گواہ اور ایک قسم جائز ہے البتہ غیر مالی معاملات میں دو گواہوں کا ہونا ضروری ہے، امام ابوحنیفہ کے نزدیک مالی معاملات ہوں یا غیر مالی معاملات دونوں صورتوں میں دو گواہوں کا ہونا لازمی ہے، اس باب کی ساری احادیث ان کے خلاف حجت ہیں ان کا استدلال: { وَأَشْهِدُوا ذَوَيْ عَدْلٍ مِّنكُمْ }[سورة الطلاق:2] اور{ وَاسْتَشْهِدُواْ شَهِيدَيْنِ من رِّجَالِكُمْ} [سورة البقرة : 282] سے ہے لیکن ان کا استدلال کامل نہیں بالخصوص جبکہ وہ مفہوم مخالف کے قائل نہیں (تفصیل کے لیے دیکھئے ''اعلام الموقعین'' ج ۱ ص۳۲، ۲۸)۔


2369- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُالْوَهَّابِ، حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَابِرٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَضَى بِالْيَمِينِ مَعَ الشَّاهِدِ۔
* تخريج: ت/الأحکام ۱۳ (۱۳۴۴)، (تحفۃ الأشراف: ۲۶۰۷)، وقد أخرجہ: حم (۳/۳۰۵) (صحیح)
۲۳۶۹- جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ایک گواہ اور (مدعی کی) قسم سے فیصلہ فرمایا ۔


2370- حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاقَ الْهَرَوِيُّ إِبْرَاهِيمُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ بْنِ حَاتِمٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ الْحَارِثِ الْمَخْزُومِيُّ، حَدَّثَنَا سَيْفُ بْنُ سُلَيْمَانَ الْمَكِّيُّ أَخْبَرَنِي قَيْسُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ؛ قَالَ: قَضَى رَسُولُ اللَّهِ ﷺ بِالشَّاهِدِ وَالْيَمِينِ۔
* تخريج: م/الأقضیۃ ۲ (۱۷۱۲)، د/الأقضیۃ ۲۱ (۳۶۰۸)، (تحفۃ الأشراف: ۶۲۹۹)، وقدأخرجہ: حم (۱/۲۴۸، ۳۱۵، ۳۲۳) (صحیح)
۲۳۷۰- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک گواہ اور(مدعی کی) قسم سے فیصلہ فرمایا ۔


2371- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَنْبَأَنَا جُوَيْرِيَةُ بْنُ أَسْمَاءَ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ يَزِيدَ مَوْلَى الْمُنْبَعِثِ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ أَهْلِ مِصْرَ، عَنْ سُرَّقٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ أَجَازَ شَهَادَةَ الرَّجُلِ وَيَمِينَ الطَّالِبِ۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۳۸۲۲، ومصباح الزجاجۃ: ۸۳۱)، وقد أخرجہ: حم (۴/۳۲۱) (صحیح)
(سند میں مصری تابعی مبہم راوی ہیں ، لیکن سابقہ شواہد سے تقویت پاکر یہ صحیح ہے)
۲۳۷۱- سُرَّق ( ابن اسد جہنی)رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے مدعی کی قسم کے ساتھ ایک شخص کی گواہی کو جائز رکھا ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : ابن الجوزی نے التحقیق میں کہا کہ اس حدیث کے راوی بیس صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے زیادہ ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے ایک گواہ اور قسم پر فیصلہ فرمایا اور جمہور صحابہ اور تابعین کا یہی قول ہے کہ مدعی سے قسم لی جائے، اگر وہ قسم کھالے تو اس کا دعوی ثابت ہوگیا ،اوراگر قسم کھانے سے انکار کرے تو اب مدعی علیہ سے قسم لیں گے ، اگر اس نے قسم کھالی تو مدعی کا دعوی ساقط ہوگیا ،اور اگر انکار کیا تو مدعی کا دعوی ثابت ہوگیا، اورپھرمدعی کاحق مدعی علیہ سے دلوایا جائے گا ، الا یہ کہ وہ معاف کردے ، مگر یہ امر اموال کے دعوی میں ہوگا (یعنی ایک شاہد اور قسم پر فیصلہ) جب کہ حدود، نکاح ، طلاق ، عتاق ،سرقہ اور قذف وغیرہ میں دو گواہ ضروری ہیں ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
32-بَاب شَهَادَةِ الزُّورِ
۳۲- باب: جھوٹی گواہی دینے کا بیان​


2372- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ الْعُصْفُرِيُّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ النُّعْمَانِ الأَسَدِيِّ، عَنْ خُرَيْمِ بْنِ فَاتِكٍ الأَسَدِيِّ قَالَ: صَلَّى النبيُّ ﷺ الصُّبْحَ، فَلَمَّا انْصَرَفَ قَامَ قَائِمًا، فَقَالَ: < عُدِلَتْ شَهَادَةُ الزُّورِ بِالإِشْرَاكِ بِاللَّهِ > ثَلاثَ مَرَّاتٍ، ثُمَّ تَلا هَذِهِ الآيَةَ { وَاجْتَنِبُوا قَوْلَ الزُّورِ حُنَفَاءَ لِلَّهِ غَيْرَ مُشْرِكِينَ بِهِ }۔
* تخريج: د/الأقضیۃ ۱۵ (۳۵۹۹)، ت/الشہادات ۳ (۲۳۱۰)، (تحفۃ الأشراف: ۳۵۲۵) (ضعیف)
(سند میں سفیان کے والد زیاد عصفری اورحبیب بن نعمان دونوں مجہول ہیں)
۲۳۷۲- خریم بن فاتک اسدی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے صلاۃ فجر پڑھائی، جب فارغ ہوئے تو کھڑے ہوکر آپﷺنے فرمایا: '' جھوٹی گواہی اللہ کے ساتھ شرک کرنے کے برابر ہے''، یہ جملہ آپ نے تین باردہریا، پھر آیت کریمہ : {وَاجْتَنِبُوا قَوْلَ الزُّورِ حُنَفَاءَ لِلَّهِ غَيْرَ مُشْرِكِينَ بِهِ } [سورة الحج: 30-۳۱] (جھوٹ بولنے سے بچو،اللہ کے لئے سیدھے چلو،اس کے ساتھ شرک نہ کرو) کی تلاوت فرمائی ۔


2373- حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ سَعِيدٍ. حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْفُرَاتِ، عَنْ مُحَارِبِ بْنِ دِثَارٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < لَنْ تَزُولَ قَدَمَا شَاهِدِ الزُّورِ حَتَّى يُوجِبَ اللَّهُ لَهُ النَّارَ >۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۷۴۱۷، ومصباح الزجاجۃ: ۸۳۲، ومصباح الزجاجۃ: ۸۳۲) (موضوع)
( محمد بن الفرات کی امام احمد نے تکذیب کی ہے،نیز ملاحظہ : الضعیفہ : ۱۲۵۹)
۲۳۷۳ - عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''جھوٹی گواہی دینے والے کے پاؤں (قیامت کے دن ) نہیں ٹلیں گے، جب تک اللہ اس کے لئے جہنم کو واجب نہ کردے '' ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
33- بَاب شَهَادَةِ أَهْلِ الْكِتَابِ بَعْضِهِمْ عَلَى بَعْضٍ
۳۳- باب: اہل کتاب کی ایک دوسرے کے خلاف گواہی کا بیان​


2374- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ طَرِيفٍ، حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ، عَنْ مُجَالِدٍ، عَنْ عَامِرٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ أَجَازَ شَهَادَةَ أَهْلِ الْكِتَابِ بَعْضِهِمْ عَلَى بَعْضٍ۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۲۳۵۶، ومصباح الزجاجۃ: ۸۳۳) (ضعیف)
( سند میں مجالد بن سعید ضعیف راوی ہیں، نیزملاحظہ ہو: الإرواء : ۲۶۶۸)
۲۳۷۴- جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اہل کتاب کی آپس میں ایک دوسرے کے خلاف گواہی کو جائز رکھا ہے ۔

* * *​
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207

{ 14-كتابُ الهِبَات }
۱۴-کتاب: ہبہ کے احکام ومسائل


1- بَاب الرَّجُلِ يَنْحَلُ وَلَدَهُ
۱- باب: اپنی اولاد کو عطیہ دینے اور ہبہ کرنے کا بیان​


2375- حَدَّثَنَا أَبُو بِشْرٍ، بَكْرُ بْنُ خَلَفٍ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ أَبِي هِنْدٍ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ، قَالَ: انْطَلَقَ بِهِ أَبُوهُ يَحْمِلُهُ إِلَى لنَّبِيِّ ﷺ فَقَالَ اشْهَدْ أَنِّي قَدْ نَحَلْتُ النُّعْمَانَ مِنْ مَالِي كَذَا وَكَذَا، قَالَ: < فَكُلَّ بَنِيكَ نَحَلْتَ مِثْلَ الَّذِي نَحَلْتَ النُّعْمَانَ؟ > قَالَ: لا. قَالَ: < فَأَشْهِدْ عَلَى هَذَا غَيْرِي >، قَالَ: < أَلَيْسَ يَسُرُّكَ أَنْ يَكُونُوا لَكَ فِي الْبِرِّ سَوَائً؟ > قَالَ: بَلَى، قَالَ: < فَلا إِذًا >۔
* تخريج: خ/الھبۃ ۱۲ (۲۵۸۷)،م/الھبات ۳ (۱۶۲۳)، د/البیوع ۸۵ (۳۵۴۲)، ن/النحل (۳۷۰۹)، (تحفۃ الأشراف:۱۱۶۲۵)، وقد أخرجہ: ط/الأقضیۃ ۳۳ (۳۹)، حم (۴/۲۶۸، ۲۶۹، ۲۷۰، ۲۷۳، ۲۷۶) (صحیح)
۲۳۷۵- نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ان کے والد انہیں لے کر نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں آئے، اور عرض کیا : میں آپ کو اس بات پر گواہ بناتا ہوں کہ میں نے اپنے مال میں سے فلاں فلاں چیز نعمان کودے دی ہے، آپ ﷺنے فرمایا: ''تم نے اپنے سارے بیٹوں کو ایسی ہی چیزیں دی ہیں جو نعمان کو دی ہیں'' ؟ انہوں نے کہا: نہیں،آپ ﷺنے فرمایا: '' تب میر ے علاوہ کسی اور کو اس پر گواہ بنا لو، کیا تمہیں یہ بات اچھی نہیں لگتی کہ تمہارے سارے بیٹے تم سے نیک سلوک کرنے میں برابر ہوں''؟ انہوں نے کہا :کیوں نہیں، آپﷺ نے فرمایا: '' تب ایسا مت کرو '' ۔
وضاحت ۱؎ : یہ صورت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اولاد کو عطیہ دینے میں سب کا حصہ برابرکا ہوگا،کم زیادہ ہو تو ہبہ باطل ہے مگر جمہور نے اس کی مخالفت کی ہے اور کہا ہے کہ سب کو برابردینا مندوب ہے ، عطیہ وہبہ میں کسی کو زیادہ دینے سے ہبہ باطل نہیں ہوتا لیکن ایک روایت میں آپﷺ نے اسے ظلم کہا ہے اور نعمان کے والد بشیر سے آپ کا یہ فرمانا '' فاردده'' (اسے واپس لے لو) اس بات کی تائید کررہا ہے کہ اولاد کے ساتھ عطیہ میں برابرکا سلوک واجب ہے، یہی احمد، سفیان ثوری اور اسحاق ابن راہویہ وغیرہ کا مذہب ہے۔


2376- حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ، وَمُحَمَّدِ بْنِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ، أَخْبَرَاهُ، عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ أَنَّ أَبَاهُ نَحَلَهُ غُلامًا، وَأَنَّهُ جَاءَ إِلَى النَّبِيِّ ﷺ يُشْهِدُهُ، فَقَالَ: < أَكُلَّ وَلَدِكَ نَحَلْتَهُ؟ > قَالَ: لا، قَالَ: < فَارْدُدْهُ >۔
* تخريج: خ/الہبۃ ۱۲ (۲۵۸۶)، م/الہبات (۱۶۲۳)، ت/الأحکام ۳۰ (۱۳۶۷)، ن/النحل (۳۷۰۵)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۶۱۷، ۱۱۶۳۸) (صحیح)
۲۳۷۶- نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ان کے والد نے ان کو ایک غلام دیا، اور نبی اکرم ﷺ کے پاس آئے تاکہ آپ کو اس پر گواہ بنائیںتو آپ ﷺنے فرمایا: '' تم نے اپنے سارے بیٹوں کو ایسے ہی دیا ہے''؟ انہوں نے کہا : نہیں، آپﷺ نے فرمایا: '' تب اس کو واپس لے لو '' ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
2-بَاب مَنْ أَعْطَى وَلَدَهُ ثُمَّ رَجَعَ فِيهِ
۲- باب: اپنی اولاد کو کچھ دے کرواپس لینے کا بیان​


2377- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، وَأَبُو بَكْرِ بْنُ خَلادٍ الْبَاهِلِيُّ، قَالا: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ، عَنْ حُسَيْنٍ الْمُعَلِّمِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ طَاوُسٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، وَابْنِ عُمَرَ، يَرْفَعَانِ الْحَدِيثَ إِلَى النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: < لا يَحِلُّ لِلرَّجُلِ أَنْ يُعْطِيَ الْعَطِيَّةَ ثُمَّ يَرْجِعَ فِيهَا، إِلا الْوَالِدَ فِيمَا يُعْطِي وَلَدَهُ >۔
* تخريج: د/البیوع ۸۳ (۳۵۳۹)، ت/البیوع ۶۲ (۱۲۹۹)، الولاء البراء ۷ (۲۱۳۲، ۲۱۳۱)، ن/الھبۃ ۲(۳۷۲۰)، (تحفۃ الأشراف:۵۷۴۳، ۷۰۹۷ )، وقد أخرجہ: حم (۲/۲۷، ۷۸) (صحیح)
۲۳۷۷- عبداللہ بن عباس اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ بنی اکرم ﷺنے فرمایا: '' آدمی کے لئے جائز نہیں کہ کسی کو عطیہ دے کر واپس لے سوائے باپ کے جو اپنی اولاد کو دے ''۔


2378- حَدَّثَنَا جَمِيلُ بْنُ الْحَسَنِ، حَدَّثَنَا عَبْدُالأَعْلَى، حَدَّثَنَا سَعِيدٌ، عَنْ عَامِرٍ الأَحْوَلِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ أَنَّ نَبِيَّ اللَّهِ ﷺ قَالَ: < لا يَرْجِعْ أَحَدُكُمْ فِي هِبَتِهِ إِلاالْوَالِدَ مِنْ وَلَدِهِ >۔
* تخريج: ن/الھبۃ ۲ (۳۷۱۹)، (تحفۃ الأشراف: ۸۷۲۲)، وقد أخرجہ: د/البیوع ۸۳ (۳۵۴۰)، حم (۴/۱۸۲)، (حسن صحیح)
۷۸ ۲۳- عبداللہ بن عمروبن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: '' ہبہ کرکے کوئی واپس نہ لے سوائے باپ کے جو وہ اپنی اولاد کو کرے '' ۔
 
Top