• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن ابو داود

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
26- بَاب فِي أَكْلِ لُحُومِ الْخَيْلِ
۲۶-باب: گھوڑے کے گوشت کے کھانے کا بیان​


3788- حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ قَالَ: نَهَانَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ يَوْمَ خَيْبَرَ عَنْ لُحُومِ الْحُمُرِ، وَأَذِنَ [لَنَا] فِي لُحُومِ الْخَيْلِ۔
* تخريج: خ/المغازي ۳۸ (۴۲۱۹)، الصید ۲۷ (۵۵۲۰)، ۲۸ (۵۵۲۴)، م/الصید ۶ (۱۹۴۱)، ن/الصید ۲۹ (۴۳۳۲)، ق/الذبائح ۱۲ (۳۱۹۱)، (تحفۃ الأشراف: ۲۸۱۰، ۲۶۳۹)، وقد أخرجہ: ت/الأطعمۃ ۵ (۱۷۹۳)، حم (۳/۳۲۲، ۳۵۶، ۳۶۱، ۳۶۲، ۳۸۵)، دی/ الصید ۶ (۲۰۵۵) (صحیح)
۳۷۸۸- جا بر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے خیبر کے دن گھریلو گدھوں کے گوشت کھانے سے منع فرمایا اور گھوڑے کے گوشت کی ہمیں اجازت دی۔


3789- حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ، قَالَ: ذَبَحْنَا يَوْمَ خَيْبَرَ الْخَيْلَ وَالْبِغَالَ وَالْحَمِيرَ، فَنَهَانَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ عَنِ الْبِغَالِ وَالْحَمِيرِ، وَلَمْ يَنْهَنَا عَنِ الْخَيْلِ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۲۶۹۵)، وقد أخرجہ: حم (۳/۳۵۶، ۳۶۲) (صحیح)
۳۷۸۹- جا بر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ہم نے خیبر کے دن گھوڑے، خچراور گدھے ذبح کئے تو رسول اللہ ﷺ نے ہمیں خچر اور گدھوں سے منع فرما دیا، اور گھوڑے سے ہمیں نہیں روکا۔


3790- حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ شَبِيبٍ وَحَيْوَةُ بْنُ شُرَيْحٍ الْحِمْصِيُّ، قَالَ حَيْوَةُ: حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ، عَنْ ثَوْرِ ابْنِ يَزِيدَ، عَنْ صَالِحِ بْنِ يَحْيَى بْنِ الْمِقْدَامِ بْنِ مَعْدِي كَرِبَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، عَنْ خَالِدِ بْنِ الْوَلِيدِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ نَهَى عَنْ أَكْلِ لُحُومِ الْخَيْلِ وَالْبِغَالِ وَالْحَمِيرِ، زَادَ حَيْوَةُ: وَكُلِّ ذِي نَابٍ مِنَ السِّبَاعِ.
قَالَ أَبو دَاود: وَهُوَ قَوْلُ مَالِكٍ.
قَالَ أَبو دَاود: لا بَأْسَ بِلُحُومِ الْخَيْلِ، وَلَيْسَ الْعَمَلُ عَلَيْهِ.
قَالَ أَبو دَاود: وَهَذَا مَنْسُوخٌ، قَدْ أَكَلَ لُحُومَ الْخَيْلِ جَمَاعَةٌ مَنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ : مِنْهُمُ ابْنُ الزُّبَيْرِ، وَفَضَالَةُ بْنُ عُبَيْدٍ، وَأَنَسُ بْنُ مَالِكٍ، وَأَسْمَاءُ بِنْتُ أَبِي بَكْرٍ، وسُوَيْدُ بْنُ غَفَلَةَ، وَعَلْقَمَةُ، وَكَانَتْ قُرَيْشٌ فِي عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ تَذْبَحُهَا۔
* تخريج: ن/الصید ۳۰ (۴۳۳۶)، ق/الذبائح ۱۴ (۳۱۹۸)، (تحفۃ الأشراف: ۳۵۰۵)، وقد أخرجہ: حم (۴/۸۹،۹۰) (ضعیف)
(اس کے راوی''صالح '' ضعیف، اور ''یحییٰ '' مجہول ہیں،اور یہ جابر کی صحیح روایت کے خلاف ہے )
۳۷۹۰- خالد بن الولید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:رسول اللہ ﷺ نے گھوڑے، خچر اور گدھوں کے گوشت کھانے سے منع کیا ہے ۔
حیوۃ نے ہر دانت سے پھاڑ کر کھانے والے درندے کا اضافہ کیا ہے۔
ابوداود کہتے ہیں:یہ مالک کا قول ہے۔
ابوداود کہتے ہیں:گھوڑے کے گوشت میں کوئی مضائقہ نہیں اور اس حدیث پر عمل نہیں ہے ۔
ابو داود کہتے ہیں: یہ حدیث منسوخ ہے، خود صحابہ کی ایک جماعت نے گھوڑے کا گوشت کھایا جس میں عبداللہ بن زبیر، فضالہ بن عبید، انس بن مالک، اسماء بنت ابو بکر، سوید بن غفلہ، علقمہ شامل ہیں اور قریش عہد نبوی میں گھوڑے ذبح کر تے تھے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
27- بَاب فِي أَكْلِ الأَرْنَبِ
۲۷-باب: خرگوش کھانے کا بیان​


3791- حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ هِشَامِ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: كُنْتُ غُلَامًا حَزَوَّرًا فَصِدْتُ أَرْنَبًا، فَشَوَيْتُهَا، فَبَعَثَ مَعِي أَبُو طَلْحَةَ بِعَجُزِهَا إِلَى النَّبِيِّ ﷺ ، فَأَتَيْتُهُ بِهَا [فَقَبِلَهَا]۔
* تخريج: خ/الھبۃ ۵ (۲۵۷۲)، الصید ۱۰ (۵۴۸۹)، ۳۲ (۵۵۳۵)، م/الصید ۹ (۱۹۵۳)، ت/الأطعمۃ ۲ (۱۷۹۰)، ن/الصید ۲۵ (۴۳۱۷)، ق/الصید ۱۷ (۳۲۴۳)، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۲۹)، وقد أخرجہ: حم (۳/۱۱۸، ۱۷۱، ۲۹۱)، دي/الصید ۷ (۲۰۵۶) (صحیح)
۳۷۹۱- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں ایک قریب البلوغ لڑکا تھا، میں نے ایک خرگوش کا شکار کیا اور اسے بھونا پھر ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے اس کا پچھلا دھڑـ مجھ کو دے کر نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں بھیجا میں اسے لے کر آیا تو آپ نے اسے قبول کیا۔


3792- حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ خَلَفٍ، حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خَالِدٍ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبِي خَالِدَ بْنَ الْحُوَيْرِثِ يَقُولُ: إِنَّ عَبْدَاللَّهِ بْنَ عَمْرٍو كَانَ بِالصِّفَاحِ -قَالَ مُحَمَّدٌ: مَكَانٌ بِمَكَّةَ- وَإِنَّ رَجُلا جَاءَ بِأَرْنَبٍ قَدْ صَادَهَا، فَقَالَ: يَا عَبْدَاللَّهِ بْنَ عَمْرٍو! مَا تَقُولُ؟ قَالَ: قَدْ جِيئَ بِهَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ وَأَنَا جَالِسٌ فَلَمْ يَأْكُلْهَا وَلَمْ يَنْهَ عَنْ أَكْلِهَا، وَزَعَمَ أَنَّهَا تَحِيضُ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۸۶۲۱) (ضعیف الإسناد)
(اس کے راوی''خالد ''لین الحدیث ہیں )
۳۷۹۲- محمد بن خالد کہتے ہیں کہ میں نے اپنے والد خالد بن حویر ث کو کہتے سنا کہ عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما صفاح میں تھے ( محمد کہتے ہیںـ:وہ مکہ میں ایک جگہ کا نام ہے ) ایک شخص ان کے پاس خرگوش شکار کر کے لایا، اور کہنے لگا: عبداللہ بن عمرو! آپ اس سلسلے میں کیا کہتے ہیں؟ انہوں نے کہا:اسے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں لایا گیا اور میں بیٹھا ہوا تھا آپ نے نہ تو اسے کھایا اور نہ ہی اس کے کھانے سے منع فرمایا، اور آپ ﷺ کا یہ خیال تھا کہ اسے حیض آتا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
28- بَاب فِي أَكْلِ الضَّبِّ
۲۸-باب: گوہ کھانے کا بیان​


3793- حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي بِشْرٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ خَالَتَهُ أَهْدَتْ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ سَمْنًا وَأَضُبًّا وَأَقِطًا، فَأَكَلَ مِنَ السَّمْنِ وَمِنَ الأَقِطِ، وَتَرَكَ الأَضُبَّ تَقَذُّرًا، وَأُكِلَ عَلَى مَائِدَتِهِ، وَلَوْ كَانَ حَرَامًا مَا أُكِلَ عَلَى مَائِدَةِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ ۔
* تخريج: خ/الہبۃ ۷ (۲۵۷۵)، الأطعمۃ ۸ (۵۷۸۹)، ۱۶ (۵۴۰۲)، الاعتصام ۲۴ (۷۳۵۸)، م/الذبائح ۷ (۱۹۴۷)، ن/الصید ۲۶ (۴۳۲۴)، (تحفۃ الأشراف: ۵۴۴۸)، وقد أخرجہ: حم (۱/۲۵۵، ۲۸۴، ۳۲۲، ۳۲۹، ۳۴۰، ۲۴۷) (صحیح)
۳۷۹۳- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ان کی خالہ نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں گھی، گوہ اور پنیر بھیجا، آپ نے گھی اور پنیر کھایا اور گوہ کو گھن محسوس کرتے ہوئے چھوڑ دیا، اور آپ کے دستر خوان پر اسے کھایا گیا، اگر وہ حرام ہوتا تو رسول اللہ ﷺ کے دسترخوان پر نہیں کھایا جاتا۔


3794- حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ بْنِ سَهْلِ بْنِ حُنَيْفٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ خَالِدِ بْنِ الْوَلِيدِ أَنَّهُ دَخَلَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ بَيْتَ مَيْمُونَةَ، فَأُتِيَ بِضَبٍّ مَحْنُوذٍ فَأَهْوَى إِلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ بِيَدِهِ، فَقَالَ بَعْضُ النِّسْوَةِ اللاتِي فِي بَيْتِ مَيْمُونَةَ: أَخْبِرُوا النَّبِيَّ ﷺ بِمَا يُرِيدُ أَنْ يَأْكُلَ مِنْهُ، فَقَالُوا: هُوَ ضَبٌّ، فَرَفَعَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ يَدَهُ، قَالَ: فَقُلْتُ: أَحَرَامٌ هُوَ [يَارَسُولَ اللَّهِ]؟ قَالَ: < لا، وَلَكِنَّهُ لَمْ يَكُنْ بِأَرْضِ قَوْمِي فَأَجِدُنِي أَعَافُهُ >، قَالَ خَالِدٌ: فَاجْتَرَرْتُهُ، فَأَكَلْتُهُ وَرَسُولُ اللَّهِ ﷺ يَنْظُرُ۔
* تخريج: خ/الأطعمۃ ۱۰ (۵۳۹۱)، ۱۴ (۵۴۰۰)، الذبائح ۳۳ (۵۵۳۷)، م/الذبائح ۷ (۱۹۴۶)، ن/الصید ۲۶ (۴۳۲۱)، ق/الصید ۱۶ (۳۲۴۱)، (تحفۃ الأشراف: ۳۵۰۴)، وقد أخرجہ: حم (۴/۸۸، ۸۹)، دی/الصید ۸ (۲۰۶۰) (صحیح)
۳۷۹۴- خالد بن الولید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ام المومنین میمونہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں داخل ہوئے تو آپ کی خدمت میں بھنا ہوا گوہ لایا گیا، رسول اللہ ﷺ نے اس کی طرف ہاتھ بڑھانا چاہا تو میمو نہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں موجود بعض عورتوں نے کہا: نبی ﷺ کو اس چیز کی خبر کر دو جسے آپ کھانا چاہتے ہیں، تو لوگوں نے عرض کیا:(اللہ کے رسول!) یہ گوہ ہے تو رسول اللہ ﷺ نے اپنا ہاتھ اٹھا لیا ۔
خالد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے عرض کیا:اللہ کے رسول! کیا یہ حرام ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ''نہیں لیکن میری قوم کی سر زمین میں نہیں پایا جاتا اس لئے مجھے اس سے گھن محسوس ہوتی ہے ''۔
( یہ سن کر ) میں اسے کھینچ کر کھانے لگا، رسول اللہ ﷺ دیکھ رہے تھے۔


3795- حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَوْنٍ، أَخْبَرَنَا خَالِدٌ، عَنْ حُصَيْنٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ وَهْبٍ، عَنْ ثَابِتٍ بْنِ وَدِيعَةَ، قَالَ: كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ فِي جَيْشٍ، فَأَصَبْنَا ضِبَابًا، قَالَ: فَشَوَيْتُ مِنْهَا ضَبًّا، فَأَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ ، فَوَضَعْتُهُ بَيْنَ يَدَيْهِ، قَالَ: فَأَخَذَ عُودًا فَعَدَّ بِهِ أَصَابِعَهُ، ثُمَّ قَالَ: < إِنَّ أُمَّةً مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ مُسِخَتْ دَوَابَّ فِي الأَرْضِ، وَإِنِّي لاأَدْرِي أَيُّ الدَّوَابِّ هِيَ>، قَالَ: فَلَمْ يَأْكُلْ وَلَمْ يَنْهَ۔
* تخريج: ن/الصید ۲۶ (۴۳۲۵)، ق/الصید ۱۶ (۳۲۳۸)، (تحفۃ الأشراف: ۲۰۶۹)، وقد أخرجہ: حم (۴/۲۲۰)، دي/الصید ۸ (۲۰۵۹) (صحیح)
۳۷۹۵- ثابت بن ودیعہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : ہم لوگ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ایک لشکر میں تھے کہ ہم نے کئی گوہ پکڑے، میں نے ان میں سے ایک کو بھونا اور اسے لے کر رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور آپ کے سامنے رکھا، آپ ﷺ نے ایک لکڑی لی اور اس سے اس کی انگلیاں شمار کیں پھر فرمایا: ''بنی اسرائیل کا ایک گروہ مسخ کر کے زمین میں چوپایا بنا دیا گیا لیکن میں نہیں جانتا کہ وہ کون سا جانور ہے''، پھر آپ ﷺ نے نہ تو کھایا اور نہ ہی اس سے منع کیا۔


3796- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَوْفٍ الطَّائِيُّ، أَنَّ الْحَكَمَ بْنَ نَافِعٍ حَدَّثَهُمْ، حَدَّثَنَا ابْنُ عَيَّاشٍ، عَنْ ضَمْضَمِ بْنِ زُرْعَةَ، عَنْ شُرَيْحِ بْنِ عُبَيْدٍ، عَنْ أَبِي رَاشِدٍ الْحُبْرَانِيِّ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ شِبْلٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ نَهَى عَنْ أَكْلِ لَحْمِ الضَّبِّ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۹۷۰۲) (حسن)
۳۷۹۶- عبدالر حمن بن شبل اوسی انصاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے گوہ کا گوشت کھانے سے منع فرمایا ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : ضب : گوہ ایک رینگنے والا جانور جو چھپکلی کے مشابہ ہوتا ہے، اس کو سوسمار بھی کہتے ہیں، سانڈا بھی گوہ کی قسم کا ایک جانور ہے جس کا تیل نکال کر گٹھیا کے درد کے لئے یا طلاء کے لئے استعمال کرتے ہیں، یہ جانور نجد کے علاقہ میں بہت ہوتا ہے، حجاز میں نہ ہونے کی وجہ سے نبی اکرم ﷺ نے اس کو نہ کھایا لیکن آپ ﷺ کے دسترخوان پر یہ کھایا گیا اس لئے حلال ہے۔
جس جانور کو نبی اکرمﷺ کے دسترخوان پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے کھایا اس کو عربی میں ضب کہتے ہیں اور خود حدیث میں اس کی صراحت ہے کہ یہ نجد کے علاقہ میں پایا جانے والا جانور ہے ، جو بلاشبہ حلال ہے۔ احناف اور شیعی فرقوں میں امامیہ کے نزدیک گوہ کا گوشت کھانا حرام ہے، فرقہ زیدیہ کے یہاں یہ مکروہ ہے ، لیکن صحیح بات اس کی حلت ہے ۔
نجد کے علاقے میں پایا جانے والا یہ جانور برصغیر( ہندوستان، پاکستان، بنگلہ دیش) میں پائے جانے والے گوہ یا سانڈے سے بہت سی چیزوں میں مختلف ہے :
- ضب نامی یہ جانور صحرائے عرب میں پایا جاتا ہے ،اور ہندوستان میں پایا جانے والا گوہ یا سانڈا زرعی اور پانی والے علاقوں میں عام طورپر پایا جاتا ہے۔
- نجدی ضب (گوہ ) پانی نہیں پیتا اور بلا کھائے اپنے سوراخ میں ایک لمبی مدت تک رہتا ہے،کبھی طویل صبرکے بعد اپنے بچوں کو کھا جاتا ہے، جب کہ برصغیرکا گوہ پانی کے کناروں پرپایا جاتا ہے ، اور خوب پانی پیتا ہے ۔
- نجدی ضب ( گوہ) شریف بلکہ سادہ لوح جانور ہے ، جلدشکارہوجاتا ہے ، جب کہ ہندوستانی گوہ کاپکڑنا نہایت مشکل ہوتا ہے ۔
- نجدی ضب( گوہ) کے پنجے آدمی کی ہتھیلی کی طرح نرم ہوتے ہیں، جب کہ ہندوستانی گوہ کے پنجے اور اس کی دم نہایت سخت ہوتی ہیں، اور اس کے ناخن اس قدرسخت ہوتے ہیں کہ اگروہ کسی چیز کو پکڑلے تو اس سے اس کا چھڑانا نہایت دشوار ہوتا ہے ، ترقی یافتہ دورسے پہلے مشہورہے کہ چور اس کی دم کے ساتھ رسی باندھ کر اسے مکان کے پچھواڑے سے اوپرچڑھادیتے اور یہ جانور مکان کی منڈیرکے ساتھ جاکرمضبوطی سے چمٹ جاتا اور پنجے گاڑلیتا اور چور اس کی دم سے بندھی رسی کے ذریعہ اوپرچڑھ جاتے اور چوری کرتے ،جب کہ نجدی ضب (گوہ) کی دم اتنی قوت والی نہیں ہوتی ۔
- ہندوستانی گوہ سانپ کی طرح زبان نکالتی اور پھنکارتی ہے ، جب کہ نجدی ضب( گوہ) ایسانہیں کرتی ۔
- ہندوستانی گوہ ایک بدبودار جانورہے اور اس کے قریب سے نہایت ناگوار بدبوآتی ہے ،جب کہ نجدی ضب( گوہ) میں یہ نشانی نہیں پائی جاتی، اس کی وجہ یہ ہے کہ ہندوستانی گوہ گندگی کھاتی ہے ، اور کیڑے مکوڑے بھی ، نجدی ضب( گوہ) کیڑے مکوڑے اور خاص کر ٹڈی کھانے میں مشہور ہے ،لیکن صحراء میں گندگی کا عملاً وجودنہیں ہوتا اور اگرہوبھی تومعمولی اور کبھی کبھار ، صحراء میں پائی جانے والی بوٹیوں کوبھی وہ کھاتا ہے ۔
- نجدی ضب( گوہ) کی کھال کوپکاکرعرب اس کی کپی میں گھی رکھتے تھے ، جس کو'' ضبة'' کہتے ہیں اور ہندوستانی گوہ کی کھال کا ایسااستعمال کبھی سننے میں نہیں آیا اس لیے کہ وہ بدبودار ہوتی ہے ۔
- نجدی ضب نامی جانور اپنے بنائے ہوئے پُرپیچ اور ٹیڑھے میڑھے بلوں (سوراخوں)میں اس طرح رہتا ہے کہ اس تک کوئی جانور نہیں پہنچ سکتا، اور اسی لیے حدیث شریف میں امت محمدیہ کے بارے میں ضب (گوہ) کے سوراخ میں چلے جانے کی تعبیرموجود ہے ، اور یہ نبی اکرمﷺ کی کمال باریک بینی اور کمالِ بلاغت پر دال ہے ، امت محمدیہ سابقہ امتوں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے طرح طرح کی گمراہیوں اور ضلالتوں کا شکار ہوگی ، حتی کہ اگرسابقہ امتیں اپنی گمراہی میں اس حدتک جاسکتی ہیں جس تک پہنچنامشکل بات ہے تو امت محمدیہ وہ کام بھی کرگزرے گی ، اسی کو نبی اکرمﷺ نے اس طرح بیان کیا کہ اگرسابقہ امت اپنی گمراہی میں ضب (گوہ) کے سوراخ میں گھسی ہوگی تو امت محمدیہ کے لوگ بھی اس طرح کا ٹیڑھا میڑھا راستہ اختیارکریں گے اور یہ حدیث ضب (گوہ) کے مکان یعنی سوراخ کے پیچیدہ ہونے پر دلالت کررہی ہے ، اور صحراء نجدکے واقف کار خاص کرضب ( گوہ) کاشکارکرنے والے اس کو بخوبی جانتے ہیں ،اور ضب (گوہ) کو اس کے سوراخ سے نکالنے کے لیے پانی استعمال کرتے ہیں کہ پانی کے پہنچتے ہی وہ اپنے سوراخ سے باہرآجاتی ہے ، جب کہ ہندوستانی گوہ پرائے گھروں یعنی مختلف سوراخوں اور بلوں اور پرانے درختوں میں موجودسوراخ میں رہتی ہے ۔
ضب اور ورل میں کیا فرق ہے؟
صحرائے عرب میں ضب کے مشابہ اور اس سے بڑا بالو، اور صحراء میں پائے جانے والے جانورکو ''وَرَل'' کہتے ہیں، تاج العروس میں ہے : ورل ضب کی طرح زمین پر رینگنے والا ایک جانورہے ، جوضب کی خلقت پر ہے ، إلا یہ کہ وہ ضب سے بڑا ہوتا ہے ، بالواور صحراء میںپایاجاتا ہے، چھپکلی کی شکل کا بڑا جانورہے ،جس کی دم لمبی اور سرچھوٹا ہوتا ہے ، ازہری کہتے ہیں: ''وَرَل''عمدہ قامت اور لمبی دم والاجانورہے، گویا کہ اس کی دم سانپ کی دم کی طرح ہے،بسااوقات اس کی دم دوہاتھ سے بھی زیادہ لمبی ہوتی ہے ، اور ضب (گوہ) کی دم گانٹھ دار ہوتی ہے ،اور زیادہ سے زیادہ ایک بالشت لمبی ، عرب ورل کو خبیث سمجھتے اور اس سے گھن کرتے ہیں، اس لیے اسے کھاتے نہیں ہیں، رہ گیا ضب تو عرب اس کا شکارکرنے اور اس کے کھانے کے حریص اور شوقین ہوتے ہیں، ضب کی دم کھُردری ، سخت اور گانٹھ والی ہوتی ہے ،دم کا رنگ سبززردی مائل ہوتا ہے ، اور خود ضب مٹ میلی سیاہی مائل ہوتی ہے ،اور موٹا ہونے پر اس کا سینہ پیلاہوجاتا ہے ،اور یہ صرف ٹڈی ،چھوٹے کیڑے اور سبزگھاس کھاتی ہے ، اور زہریلے کیڑوں جیسے سانپ وغیرہ کو نہیں کھاتی ، اور ورل بچھو ، سانپ ، گرگٹ اور گوبریلاسب کھاتا ہے، ورل کا گوشت بہت گرم ہوتا ہے ، تریاق ہے ، بہت تیز موٹاکرتا ہے ، اسی لیے عورتیں اس کواستعمال کرتی ہیں، اور اس کی بیٹ (کا سرمہ) نگاہ کوتیز کرتا ہے ، اور اس کی چربی کی مالش سے عضوتناسل موٹا ہوتا ہے (ملاحظہ ہو: تاج العروس : مادہ ورل ، و لسان العرب )
سابقہ فروق کی وجہ سے دونوں جگہ کے نجدی ضب اور ورل اور ہندوستان پائے جانے والے جانورجس کو گوہ یا سانڈاکہتے ہیں، ان میں واضح فرق ہے،بایں ہمہ نجدی ضب( گوہ) کھانا احادیث نبویہ اور اس علاقہ کے مسلمانوں کے رواج کے مطابق حلال ہے، اور اس میں کسی طرح کی قباحت اور کراہت کی کوئی بات نہیں ، رہ گیا ہندوستانی گوہ کی حلت وحرمت کا مسئلہ تو سابقہ فروق کو سامنے رکھ کر اس کا فیصلہ کرنا چاہئے ، اگر ہندوستانی گوہ نجاست کھاتا اور اس نجاست کی وجہ سے اس کے گوشت سے یا اس کے جسم سے بدبواٹھتی ہے تو یہ چیز علماء کے غورکرنے کی ہے ، جب گندگی کھانے سے گائے بکری اور مرغیوں کا گوشت متاثر ہوجائے تو اس کاکھانا منع ہے ، اس کو اصطلاح میں ''جلالہ''کہتے ہیں،تو نجاست کھانے والا جانور گوہ ہو یا کوئی اور وہ بھی حرام ہوگا، البتہ برصغیرکے صحرائی علاقوں میں پایا جانے والا گوہ نجد کے ضب (گوہ) کے حکم میں ہوگا ۔
ضب اور ورل کے سلسلے میں نے اپنے دوست ڈاکٹرمحمداحمد المنیع پروفیسرکنگ سعود یونیورسٹی ، ریاض جو زراعت اور غذا سے متعلق کالج میں پڑھاتے ہیں، اور صحرائے نجد کے جانوروں کے واقف کار ہیں ، سوال کیا تو انہوں نے اس کی تفصیل مختصراً یوںلکھ کر دی :
نجدی ضب نامی جانور کھایا جاتا ہے ، اور ''ورل ''نہیں کھایا جاتا ہے ضب کا شکار آسانی سے کیا جاسکتا ہے اور ورل کا شکارمشکل کام ہے ،ضب گھاس کھاتا ہے ، اور ورل گوشت کھاتا ہے ،ضب چیرپھاڑکرنے والا جانور نہیں ہے ،جب کہ ورل چیرپھاڑکرنے والا جانور ہے ، ضب کا ایک ہی رنگ ہوتا ہے، اور ورل دھاری دھار ہوتا ہے ،ضب کی جلد کھُردری ہوتی ہے اور ورل کی جلد نرم ہوتی ہے ،ضب کا سر چوڑا ہوتا ہے ، اور وَرل کا سر دم نما ہوتا ہے ، ضب کی گردن چھوتی ہوتی ہے ،اور ورل کی گردن لمبی ہوتی ہے ، ضب کی دم چھوٹی ہوتی ہے اور ورل کی دم لمبی ہوتی ہے ،ضب کھُردرا اوکانٹے دارہوتا ہے ، اور ورل نرم ہوتا ہے ، ضب اپنی دم سے اپنا دفاع کرتا ہے ، اور ورل بھی اپنی دم سے اپنا دفاع کرتا ہے ،اور دُم سے شکاربھی کرتا ہے ، ضب گوشت باکل نہیں کھاتا ، اور ورل ضب اور گرگٹ سب کھا جاتا ہے ، ضب تیز جانور ہے ،اور ورل تیز ترضب میں حملہ آوری کی صفت نہیں پائی جاتی جب کہ ورل میں یہ صفت موجودہے ،وہ دانتوں سے کاٹتا ہے ،اور دم اور ہاتھ سے حملہ کرتا ہے ، ضب ضرورت پڑنے پر اپنا دفاع کاٹ کراور ہاتھوں سے نوچ کر یا دُم سے مارکرتا ہے ،اور وَرل بھی ایسا ہی کرتا ہے ،ضب میں کچلی دانت نہیں ہے ،اور وَرل میں کچلی دانت ہے ، ضب حلال ہے ، اور ورل حرام، ورل کے بارے میں یہ بھی کہاجاتا ہے کہ یہ زہریلا جانورہے ۔
صحرائے عرب کا ضب ، وَرل اور ہندوستانی گوہ یا سانڈا سے متعلق اس تفصیل کا مقصدصرف یہ ہے کہ اس جانورکے بارے میں صحیح صورتِ حال سامنے آجائے ، حنفی مذہب میں بھینس کی قربانی جائز ہے اور دوسرے فقہائے کے یہاں بھی اس کی قربانی اس بناپر جائز ہے کہ یہ گائے کی ایک قسم ہے ، جب کہ گائے کے بارے میں یہ مشہور ہے اور مشاہدہ بھی کہ وہ پانی میں نہیں جاتی جب کہ بھینس ایساجانور ہے جس کو پانی سے عشق اور کیچڑسے محبت ہے اور جب یہ تالاب میں داخل ہوجائے تو اس کو باہر نکالنا مشکل ہوتا ہے ، اگربھینس کی قربانی کو گائے پر قیاس کرکے فقہاء نے جائز کہا ہے تو دونوں جگہ گوہ کے بعض فرق کا اعتبار نہ کرتے ہوئے اس جنس کے جانوروں کو حلال ہونا چاہئے ،اہل علم کو فقہی تنگنائے سے ہٹ کر نصوص شرعیہ کی روشنی میں اس مسئلہ پرغورکرنا چاہئے اور عاملین حدیث کے نقطہ نظر کو صحیح ڈھنگ سے سمجھنا چاہئے ۔
گوہ کی کئی قسمیں ہیں اور ہوسکتا ہے کہ بہت سی چیزیں سب میں قدر مشترک ہوں جیسے کہ قوت باہ میں اس کا مفیدہونا اس کی چربی کے طبی فوائد وغیرہ وغیرہ۔
حکیم مظفر حسین اعوان گوہ کے بارے میں لکھتے ہیں: نیولے کے مانند ایک جنگلی جانور ہے ، دم سخت اور چھوٹی ، قد بلی کے برابرہوتا ہے ، اس کے پنجے میں اتنی مضبوط گرفت ہوتی ہے کہ دیوار سے چمٹ جاتا ہے ، رنگ زرد سیاہی مائل ، مزاج گرم وخشک بدرجہ سوم ...اس کی کھال کے جوتے بنائے جاتے ہیں۔(کتاب المفردات : ۴۲۷) ، ظاہر ہے کہ یہ برصغیر میں پائے جانے والے جانور کی تعریف ہے ۔
گوہ کی ایک قسم سانڈہ بھی ہے جس کے بارے میں حکیم مظفر حسین اعوان لکھتے ہیں: مشہورجانور ہے ، جوگرگٹ یا گلہری کی مانندلیکن اس سے بڑاہوتا ہے ،اس کی چربی اور تیل دواء مستعمل ہے ، مزاج گرم وتر بدرجہ اوّل، افعال واستعمال بطورمقوی جاذب رطوبت ، معظم ذکر، اور مہیج باہ ہے (کتاب المفردات : صفحہ ۲۷۵)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
29- بَاب فِي أَكْلِ لَحْمِ الْحُبَارَى
۲۹-باب: سُرخاب کا گوشت کھانے کا بیان​


3797- حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ سَهْلٍ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنِي بُرَيْهُ بْنُ عُمَرَ بْنِ سَفِينَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ: أَكَلْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ لَحْمَ حُبَارَى۔
* تخريج: ت/الأطعمۃ ۲۶ (۱۸۲۸)، (تحفۃ الأشراف: ۴۴۸۲) (ضعیف)
(اس کے راوی''بریہ'' مجہول الحال ہیں)
۳۷۹۷- سفینہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ (پانی کی چڑیا) سُرخاب کا گوشت کھایا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
30- بَاب فِي أَكْلِ حَشَرَاتِ الأَرْضِ
۳۰-باب: زمین پر موجود کیڑوں مکوڑوں کے کھانے کے حکم کا بیان​


3798- حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا غَالِبُ بْنُ حَجْرَةَ، حَدَّثَنِي مِلْقَامُ بْنُ التَّلِبِّ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: صَحِبْتُ النَّبِيَّ ﷺ فَلَمْ أَسْمَعْ لِحَشَرَةِ الأَرْضِ تَحْرِيمًا۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۲۰۵۱) (ضعیف الإسناد)
(اس کے راوی''ملقام '' مجہول الحال ہیں )
۳۷۹۸- تلبّ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم ﷺ کی صحبت میں رہا لیکن میں نے کیڑے مکوڑوں کی حرمت کے متعلق نہیں سنا۔


3799- حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ خَالِدٍ الْكَلْبِيُّ أَبُو ثَوْرٍ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُالْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ عِيسَى بْنِ نُمَيْلَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: كُنْتُ عِنْدَ ابْنِ عُمَرَ فَسُئِلَ عَنْ أَكْلِ الْقُنْفُذِ، فَتَلا: {قُلْ لا أَجِدُ فِيمَا أُوحِيَ إِلَيَّ مُحَرَّمًا} الآيَةَ، قَالَ: قَالَ شَيْخٌ عِنْدَهُ: سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ يَقُولُ: ذُكِرَ عِنْدَ النَّبِيِّ ﷺ فَقَالَ: < خَبِيثَةٌ مِنَ الْخَبَائِثِ > فَقَالَ ابْنُ عُمَرَ:إِنْ كَانَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ هَذَا فَهُوَ كَمَا قَالَ [مَا لَمْ نَدْرِ]۔
* تخريج: تفردبہ أبوداود، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۴۹۴)، وقد أخرجہ: حم (۲/۳۸۱) (ضعیف)
(اس کی سند میں ایک راوی '' شیخ'' مبہم ہیں )
۳۷۹۹- نمیلہ کہتے ہیں کہ میں ابن عمر رضی اللہ عنہما کے پاس تھا آپ سے سیہی ۱؎ کے متعلق پوچھا گیا تو آپ نے یہ آیت پڑھی: {قُلْ لا أَجِدُ فِيمَا أُوحِيَ إِلَيَّ مُحَرَّمًا} ( اے نبی! آپ کہہ دیجئے میں اسے اپنی طرف نازل کی گئی وحی میں حرام نہیں پاتا) ان کے پاس موجود ایک بوڑھے شخص نے کہا:میں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو کہتے ہوئے سنا ہے کہ نبی اکرم ﷺ کے پاس اس کا ذکر کیا گیا تو آپ نے فرمایا: ''وہ ناپاک جانوروں میں سے ایک ناپاک جانور ہے''۔
تو ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: اگر رسول اللہ ﷺ نے ایسا فرمایا ہے تو بے شک وہ ایسا ہی ہے جو ہمیں معلوم نہیں۔
وضاحت ۱؎ : بڑے چوہے کی مانند ایک جانور جس کے پورے بدن پر کانٹے ہوتے ہیں ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
31- بَاب مَا لَمْ يُذْكَرْ تَحْرِيمُهُ
۳۱-باب: ایسی چیزوں کا بیان جن کی حرمت مذکور نہیں​


3800- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ دَاوُدَ بْنِ صَبِيحٍ، حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُكَيْنٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ -يَعْنِي ابْنَ شَرِيكٍ الْمَكِّيَّ- عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْ أَبِي الشَّعْثَائِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: كَانَ أَهْلُ الْجَاهِلِيَّةِ يَأْكُلُونَ أَشْيَاءَ وَيَتْرُكُونَ أَشْيَاءَ تَقَذُّرًا، فَبَعَثَ اللَّهُ تَعَالَى نَبِيَّهُ ﷺ ، وَأَنْزَلَ كِتَابَهُ، وَأَحَلَّ حَلالَهُ وَحَرَّمَ حَرَامَهُ، فَمَا أَحَلَّ فَهُوَ حَلالٌ، وَمَا حَرَّمَ فَهُوَ حَرَامٌ، وَمَا سَكَتَ عَنْهُ فَهُوَ عَفْوٌ، وَتَلا: {قُلْ لا أَجِدُ فِيمَا أُوحِيَ إِلَيَّ مُحَرَّمًا} إِلَى آخِرِ الآيَةِ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۵۳۸۶) (صحیح الإسناد)
۳۸۰۰- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ زما نۂ جا ہلیت میں لوگ بعض چیزوں کو کھا تے تھے اور بعض چیزوں کو ناپسندیدہ سمجھ کر چھوڑ دیتے تھے، تو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی ﷺ کو مبعوث کیا،اپنی کتاب نازل کی اور حلال و حرام کو بیان فرمایا، تو جو چیز اللہ نے حلا ل کر دی وہ حلا ل ہے اور جو چیز حرام کر دی وہ حرام ہے اور جس سے سکوت فرمایا وہ معاف ہے، پھر ابن عباس نے آیت کریمہ: {قُلْ لا أَجِدُ فِيمَا أُوحِيَ إِلَيَّ مُحَرَّمًا} ( آپ کہہ دیجئے میں اپنی طرف نازل کی گئی وحی میں حرام نہیں پاتا) اخیر تک پڑھی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
32- بَاب فِي أَكْلِ الضَّبُعِ
۳۲-باب: بجّو کھانے کا بیان​


3801- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ الْخُزَاعِيُّ، حَدَّثَنَا جَرِيرُ بْنُ حَازِمٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عُبَيْدٍ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي عَمَّارٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ قَالَ: سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ عَنِ الضَّبُعِ، فَقَالَ: < هُوَ صَيْدٌ، وَيُجْعَلُ فِيهِ كَبْشٌ إِذَا صَادَهُ الْمُحْرِمُ >۔
* تخريج: ت/الحج ۲۸ (۸۵۱)، الأطعمۃ ۴ (۱۷۹۲)، ن/الحج ۸۹ (۲۸۳۹)، الصید ۲۷ (۴۳۲۸)، ق/المناسک ۹۰ (۳۰۸۵)، الصید ۱۵ (۳۲۳۶)، (تحفۃ الأشراف: ۲۳۸۱)، وقد أخرجہ: حم (۳/۲۹۷، ۳۱۸، ۳۲۲)، دي/المناسک ۹۰ (۱۹۸۴) (صحیح)
۳۸۰۱- جا بر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے لکڑبگھا ۱؎کے متعلق پوچھا تو آپ نے فرمایا: ’’وہ شکار ہے اور جب محرم اس کا شکار کرے تواسے ایک دنبے کا دم دیناپڑے گا‘‘۔
وضاحت ۱؎ : ضبع : ایک درندہ ہے ، جوکتے سے بڑا اور اس سے زیادہ مضبوط ہوتا ہے ، اس کا سربڑا اور جبڑے مضبوط ہوتے ہیں، اس کی جمع اضبع ہے (المعجم الوسیط: ۵۳۳-۵۳۴) ہندوپاک میں اس درندے کو لکڑبگھا کہتے ہیں،جوبھیڑیے کی قسم کا ایک جنگلی جانور ہے ، اور جسامت میں اس سے بڑا ہوتا ہے ، اور اس کے کیچلی کے دانت بڑے ہوتے ہیں، اس کے جسم کے بال کالے اور راکھ کے رنگ کے رنگ دھاری دار ہوتے ہیں، پیچھے بائیں پاؤں دوسرے پاؤں سے چھوٹا ہوتا ہے ، اس کا سر چیتے کے سرکی طرح ہوتا ہے ، لیکن اس سے چھوٹا ہوتا ہے ،وہ اپنے چوڑے چکلے مضبوط جبڑوں سے شیراور چیتوں کے سر کوتوڑسکتا ہے ، اکثررات میں نکلتا ہے ، اور اپنے مجموعے کے ساتھ رہتا ہے ،یہ جانورزمین میں سوراخ کرکے مختلف چھوٹے چھوٹے کمرے بناتے ہیں ، اور بیچ میں ایک ہال ہوتا ہے، جس میں سارے کمروں کے دروازے ہوتے ہیں ، اور ایک دروازہ اس ہال سے باہر کو جاتا ہے ، نجد میں ان کی اس رہائش کو مضبعہ یا مجفرہ کہتے ہیں ، ماںپورے خاندان کی نگران ہوتی ہے ، اور سب کے کھانے پینے کا انتظام کرتی ہے، اور نر سوراخ کے کنارے پر چھوٹوں کی نگرانی کرتا ہے ، یہ جانورمردہ کھاتا ہے ، لیکن شکارکبھی نہیں کرتا اور کسی پر حملہ بھی نہیں کرتا إلا یہ کہ کوئی اس پر حملہ آورہو، یہ جانوروں کے پیچھے رہتا ہے ، اس کی گردن سیدھی ہوتی ہے ، اس لیے دائیں بائیں جسم موڑے بغیر نہیں ہوسکتا۔
اہل نجدکے یہاں یہ جانور کھایا جاتاتھا اور لوگ اس کا شکارکرتے تھے ، میں نے اس کے بارے میں اپنے ایک دوست ڈاکٹرمحمداحمد المنیع پروفیسر کنگ سعود یونیورسٹی ، ریاض جو زراعت اور غذا سے متعلق کالج میں پڑھاتے ہیں ، اور بذات خود صحرائی جانور کا تجربہ رکھتے ہیں ،سے پوچھاتوانہوں نے مذکورہ بالا تفصیلات سے مجھے آگاہ کیا اور اس کے زمین کے اندرکے گھرکا نقشہ بھی بناکردکھایا ۔اس کے گھرکوماند اور کھوہ سے بھی تعبیرکیا جاسکتا ہے ۔یہ تفصیل اس واسطے درج کی جاری ہے کہ مولانا وحیدالزماںنے ضبع کا ترجمہ بجوسے کیا ہے ،فرماتے ہیں: فارسی زبان میں اسے ’’کفتار‘‘اور ہندی میں بجوکہتے ہیں، یہ گوشت خور جانور ہے، جو بلوں میں رہتا ہے، مولانا محمد عبدہ الفلاح فیروز پوری کہتے ہیں کہ ضبع سے مراد بجو نہیں ہے بلکہ اس نوع کا ایک جانور ہے جسے شکارکیا جاتا ہے ، اور اس کو لکڑبگڑکھا کہاجاتا ہے ، جو سابقہ ریاست سندھ اور بہاولپور میں پایا جاتا ہے۔اوپرکی تفصیل سے پتہ چلتا ہے کہ حدیث میں مذکورضبع سے مراد لکڑبگھا ہے ، بجونہیں ، شاید مولانا وحیدالزماں کے سامنے دمیری کی حیاۃ الحیوان تھی جس میں ضبع کی تعریف بجوسے کی گئی ہے ، اور شیخ صالح الفوزان نے بھی حیاۃ الحیوان سے نقل کرکے یہی لکھاہے ، مولانا وحید الزماں بجوکے بارے میں فرماتے ہیں:’’ اس سے صاف نکلتا ہے کہ بجو حلال ہے ، امام شافعی کا یہی قول ہے ، اور ابوحنیفہ کہتے ہیں کہ وہ دانت والا درندہ ہے ، تو اور درندوں کی طرح حرام ہوگا ، اور جب حلت اور حرمت میں تعارض ہو تو اس سے باز رہنا بھی احتیاط ہے ‘‘،سابقہ تفصیلات کی روشنی میں ہمارے یہاں لکڑبگھا ہی ضبع کا صحیح مصداق ہے ، اور اس کا شکار کرنا اور اس کو کھانا صحیح حدیث کی روشنی میں جائز ہے ۔
واضح رہے کہ چیرپھاڑ کرنے والے حیوانات حرام ہے ، یعنی جس کی کچلی ہوتی ہے ، اور جس سے وہ چیرپھاڑکرتا ہے ، جیسے : کتا ، بلی جن کا شمار گھریلویا پالتو جانورمیں ہے اور وحشی جانورجیسے : شیر ، بھیڑیا ، چیتا، تیندوا ، لومڑی ، جنگلی بلی، گلہری، بھالو، بندر، ہاتھی، سمور(نیولے کے مشابہ اور اس سے کچھ بڑا اور رنگ سرخ سیاہی مائل )گیدڑوغیرہ وغیرہ ۔حنفیہ ، شافعیہ اور حنابلہ کے یہاں یہ سارے جانورحرام ہیں، اور مالکیہ کا ایک قول بھی ایسے ہی ہے، لکڑبگھااور لومڑی ابویوسف اور محمدبن حسن کے نزدیک حلال ہے ، جمہورعلماء ان حیوانات کی حرمت کے دلیل میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث پیش کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ہرکچلی والے درندے کا کھانا حرام ہے (صحیح مسلم و موطاامام مالک)
لکڑبگھا حنابلہ کے یہاں صحیح حدیث کی بناپر حلال ہے ، کچلی والے درندے میں سے صرف لکڑبگھاکو حرمت کے حکم سے مستثنی کرنے والوں کی دلیل اس سلسلے میں وارد احادیث وآثارہیں، جن میں سے زیرنظر جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے ، جوصحیح ہے بلکہ امام بخاری نے بھی اس کی تصحیح فرمائی ہے (کمافي التلخیص الحبیر۴/۱۵۲)، نافع مولیٰ ابن عمر سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے ابن عمرکو یہ بتایا کہ سعدبن ابی وقاص لکڑبگھاکھاتے ہیں توابن عمرنے اس پر نکیرنہیں فرمائی ۔
مالکیہ کے یہاں ان درندوں کا کھانا حلال ہے ، ان کا استدلال اس آیت کریمہ سے ہے : {قُل لاَّ أَجِدُ فِي مَا أُوْحِيَ إِلَيَّ مُحَرَّمًا عَلَى طَاعِمٍ يَطْعَمُهُ إِلاَّ أَن يَكُونَ مَيْتَةً أَوْ دَمًا مَّسْفُوحًا أَوْ لَحْمَ خِنزِيرٍ فَإِنَّهُ رِجْسٌ أَوْ فِسْقًا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللّهِ بِهِ فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَلاَ عَادٍ فَإِنَّ رَبَّكَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ}[ سورة الأنعام:145] ان آیات میں درندوں کے گوشت کا ذکرنہیں کیاگیا ہے ، اس لیے یہ حلال ہوںگے اور ہرکچلی والے درندے کے گوشت کھانے سے ممانعت والی حدیث کراہت پر محمول کی جائے گی ۔
خلاصہ یہ کہ مالکیہ کے علاوہ صرف حنبلی مذہب میں صحیح حدیث کی بناپر لکڑبگھاحلال ہے (ملاحظہ ہو: الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ : ۵/۱۳۳-۱۳۴)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
33- بَاب النَّهْيِ عَنْ أَكْلِ السِّبَاعِ
۳۳-باب: درندہ (پھاڑکھانے والے جانور ) کھانے کی ممانعت کا بیان​


3802- حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَبِي إِدْرِيسَ الْخَوْلانِيِّ، عَنْ أَبِي ثَعْلَبَةَ الْخُشَنِيِّ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ نَهَى عَنْ أَكْلِ كُلِّ ذِي نَابٍ مِنَ السَّبُعِ۔
* تخريج: خ/الصید ۲۹ (۵۵۳۰)، الطب ۵۷ (۵۷۸۰)، م/الصید ۳ (۱۹۳۲)، الأطعمۃ ۳۳ (۱۹۳۲)، ت/الصید ۱۱ (۱۴۷۷)، ن/الصید ۲۸ (۴۳۳۰)، ۳۰ (۴۳۴۸) ق/الصید ۱۳ (۳۲۳۲)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۸۷۴)، وقد أخرجہ: حم (۴/۱۹۳، ۱۹۴، ۱۹۵)، دي/ الأضاحی ۱۸ (۲۰۲۳) (صحیح)
۳۸۰۲- ابوثعلبہ خشنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے پھاڑ کھانے والے جانوروں میں سے ہر دانت والے جانور کے کھانے سے منع فرمایا ہے۔
3803- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ أَبِي بِشْرٍ، عَنْ مَيْمُونِ بْنِ مِهْرَانَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: نَهَى رَسُولُ اللَّهِ ﷺ عَنْ أَكْلِ كُلِّ ذِي نَابٍ مِنَ السَّبُعِ، وَعَنْ كُلِّ ذِي مِخْلَبٍ مِنَ الطَّيْرِ۔
* تخريج: م/الصید ۳ (۱۹۳۴)، (تحفۃ الأشراف: ۶۵۰۶)، وقد أخرجہ: ن/الصید ۳۳ (۴۳۵۳)، ق/الصید ۱۳ (۳۲۳۴)، حم (۱/۲۴۴، ۲۸۹، ۳۰۲، ۳۲۷، ۳۳۲، ۳۳۹، ۳۷۳)، دی/ الأضاحی ۱۸ (۲۰۲۵) (صحیح)
۳۸۰۳- عبداللہ بن عباسرضی اللہ عنہما کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے ہر دانت والے درندے، اور ہرپنجہ والے پرندے کے کھانے سے منع فرمایا ہے۔


3804- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُصَفَّى [الْحِمْصِيُّ]، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حَرْبٍ، عَنِ الزُّبَيْدِيِّ، عَنْ مَرْوَانَ بْنِ رُؤْبَةَ التَّغْلِبِيِّ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي عَوْفٍ، عَنِ الْمِقْدَامِ بْنِ مَعْدِي كَرِبَ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ قَالَ: < أَلا لا يَحِلُّ ذُو نَابٍ مِنَ السِّبَاعِ، وَلا الْحِمَارُ الأَهْلِيُّ، وَلا اللُّقَطَةُ مِنْ مَالِ مُعَاهَدٍ إِلا أَنْ يَسْتَغْنِيَ عَنْهَا، وَأَيُّمَا رَجُلٍ ضَافَ قَوْمًا فَلَمْ يَقْرُوهُ فَإِنَّ لَهُ أَنْ يُعْقِبَهُمْ بِمِثْلِ قِرَاهُ >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۵۷۱)، وقد أخرجہ: ت/العلم ۱۰ (۲۶۶۳)، ق/الصید ۲ (۳۲۳۴)، حم (۴/۱۳۲) (صحیح)
۳۸۰۴- مقدام بن معدی کرب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''سنو! دانت والا درندہ حلال نہیں، اور نہ گھریلو گدھا،اور نہ کافر ذمی کا پڑا ہوا مال حلال ہے، سوائے اس مال کے جس سے وہ مستغنی اور بے نیاز ہو، اور جو شخص کسی قوم کے یہاں مہمان بن کر جائے اور وہ لوگ اس کی مہمان نوازی نہ کریں تو اسے یہ حق ہے کہ اس کے عوض وہ اپنی مہمانی کے بقدر ان سے وصول کرلے''۔


3805- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، عَنِ ابْنِ أَبِي عَدِيٍّ، عَنِ ابْنِ أَبِي عَرُوبَةَ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْحَكَمِ، عَنْ مَيْمُونِ بْنِ مِهْرَانَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: نَهَى رَسُولُ اللَّهِ ﷺ يَوْمَ خَيْبَرَ عَنْ أَكْلِ كُلِّ ذِي نَابٍ مِنَ السِّبَاعِ، وَعَنْ كُلِّ ذِي مِخْلَبٍ مِنَ الطَّيْرِ۔
* تخريج: ن/ الصید ۳۳ (۴۳۵۳)، ق/ الصید ۱۳ (۳۲۳۴)، (تحفۃ الأشراف: ۵۶۳۹)، وقد أخرجہ: حم (۱/۳۳۹) (صحیح)
۳۸۰۵- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے خیبر کے دن ہر دانت والے درندے اور ہر پنجہ والے پرندے کے کھانے سے منع فرما دیا۔


3806- حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عُثْمَانَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنِي أَبُو سَلَمَةَ سُلَيْمَانُ بْنُ سُلَيْمٍ، عَنْ صَالِحِ بْنِ يَحْيَى بْنِ الْمِقْدَامِ، عَنْ جَدِّهِ الْمِقْدَامِ بْنِ مَعْدِي كَرِبَ، عَنْ خَالِدِ بْنِ الْوَلِيدِ، قَالَ: غَزَوْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ خَيْبَرَ، فَأَتَتِ الْيَهُودُ، فَشَكَوْا أَنَّ النَّاسَ قَدْ أَسْرَعُوا إِلَى حَظَائِرِهِمْ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < أَلا لا تَحِلُّ أَمْوَالُ الْمُعَاهَدِينَ إِلا بِحَقِّهَا، وَحَرَامٌ عَلَيْكُمْ حُمُرُ الأَهْلِيَّةِ، وَخَيْلُهَا، وَبِغَالُهَا، وَكُلُّ ذِي نَابٍ مِنَ السِّبَاعِ، وَكُلُّ ذِي مِخْلَبٍ مِنَ الطَّيْرِ >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، انظر حدیث رقم : ۳۷۹۰، (تحفۃ الأشراف: ۳۵۰۸)، وقد أخرجہ: حم (۴/۸۹) (ضعیف منکر)
(اس کے راوی''صالح '' ضعیف، اور '' یحییٰ ''مجہول ہیں، نیز خالد رضی اللہ عنہ غزوہ خیبر تک مسلمان ہی نہیں ہوئے تھے تو اس میں شریک کیسے ہوئے)
۳۸۰۶- خالد بن الولید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ کے ساتھ میں نے خیبر کا غزوہ کیا، تویہود آکر شکایت کرنے لگے کہ لوگوں نے ان کے باڑوں کی طرف بہت جلدی کی ہے، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''خبر دار! جو کافر تم سے عہد کرلیں ان کے اموال تمہارے لئے جائز نہیں ہیں سوائے ان کے جو جائز طریقے سے ہوں اور تمہا رے لئے گھریلو گدھے، گھوڑے، خچر، ہر دانت والے درندے اور ہر پنجہ والے پرندے حرام ہیں''۔


3807- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ وَمُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِالْمَلِكِ قَالا: حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّزَّاقِ، عَنْ عُمَرَ بْنِ زَيْدٍ الصَّنْعَانِيِّ أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ نَهَى عَنْ ثَمَنِ الْهِرِّ، قَالَ ابْنُ عَبْدِالْمَلِكِ: عَنْ أَكْلِ الْهِرِّ، وَأَكْلِ ثَمَنِهَا۔
* تخريج: ت/البیوع ۴۹ (۱۲۸۰)، ق/الصید ۲۰ (۳۲۵۰)، (تحفۃ الأشراف: ۲۸۹۴) (ضعیف)
(اس کے راوی ''عمر'' ضعیف ہیں )
۳۸۰۷- جا بر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے بلی کی قیمت سے منع فرمایا۔
ابن عبدالملک کی روایت میں بلی کھانے سے اور اس کی قیمت کھانے سے کے الفاظ ہیں ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
34- بَاب فِي أَكْلِ لُحُومِ الْحُمُرِ الأَهْلِيَّةِ
۳۴-باب: گھریلو گدھے کا گوشت کھانا حرام ہے​


3808- حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ حَسَنٍ الْمِصِّيصِيُّ، حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، أَخْبَرَنِي عَمْرُو ابْنُ دِينَارٍ، أَخْبَرَنِي رَجُلٌ، عَنْ جَابِرِ بَنِ عَبْدِاللَّهِ، قَالَ: نَهَى رَسُولُ اللَّهِ ﷺ [يَوْمَ خَيْبَرَ] عَنْ أَنْ نَأْكُلَ لُحُومَ الْحُمُرِ، وَأَمَرَنَا أَنْ نَأْكُلَ لُحُومَ الْخَيْلِ، قَالَ عَمْرٌو: فَأَخْبَرْتُ هَذَا الْخَبَرَ أَبَا الشَّعْثَائِ، فَقَالَ: قَدْ كَانَ الْحَكَمُ الْغِفَارِيُّ فِينَا يَقُولُ هَذَا، وَأَبَى ذَلِكَ الْبَحْرُ، يُرِيدُ ابْنَ عَبَّاسٍ۔
* تخريج: خ/ الصید ۲۸ (۵۵۲۹)، انظر حدیث رقم : ۳۷۸۸، (تحفۃ الأشراف: ۳۴۲۲)، وقد أخرجہ: حم (۴/۴۱۳) (صحیح)
(اس سند میں ''رجل '' سے مراد ''محمد بن علی باقر ہیں )
۳۸۰۸- جا بر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں:رسول اللہ ﷺ نے خیبر کے دن گھر یلوگد ھے کے گوشت کھانے سے منع فرمایا، اور ہمیں گھوڑے کا گوشت کھانے کا حکم دیا ۔
عمرو کہتے ہیں: ابو الشعثاء کو میں نے اس حدیث سے باخبر کیا تو انہوں نے کہا: حکم غفاری بھی ہم سے یہی کہتے تھے اور اس بحر(عالم) نے اس حدیث کا انکار کیا ہے ان کی مراد ابن عباس رضی اللہ عنہما سے تھی ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : ابن عباس رضی اللہ عنہما گھریلو گدھا کے کھانے کو جائز مانتے تھے، ہو سکتا ہے کہ انہیں حرمت والی حدیث نہ پہنچی ہو، آیت کریمہ: {قُلْ لا أَجِدُ فِيمَا أُوحِيَ إِلَيَّ مُحَرَّمًا} سے ان کا اس پر استدلال اس لئے صحیح نہیں ہے کہ یہ آیت مکی ہے، اور حرمت مدینہ میں ہوئی تھی ۔


3809- حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ أَبِي زِيَادٍ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُاللَّهِ، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ عُبَيْدٍ أَبِي الْحَسَنِ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ، عَنْ غَالِبِ بْنِ أَبْجَرَ قَالَ: أَصَابَتْنَا سَنَةٌ، فَلَمْ يَكُنْ فِي مَالِي شَيْئٌ أُطْعِمُ أَهْلِي إِلا شَيْئٌ مِنْ حُمُرٍ، وَقَدْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ حَرَّمَ لُحُومَ الْحُمُرِ الأَهْلِيَّةِ، فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ ﷺ ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! أَصَابَتْنَا السَّنَةُ، وَلَمْ يَكُنْ فِي مَالِي مَا أُطْعِمُ أَهْلِي إِلا سِمَانُ الْحُمُرِ، وَإِنَّكَ حَرَّمْتَ لُحُومَ الْحُمُرِ الأَهْلِيَّةِ، فَقَالَ: < أَطْعِمْ أَهْلَكَ مِنْ سَمِينِ حُمُرِكَ، فَإِنَّمَا حَرَّمْتُهَا مِنْ أَجْلِ جَوَّالِ الْقَرْيَةِ > يَعْنِي الْجَلَّالَةَ.
[قَالَ أَبو دَاود: عَبْدُ الرَّحْمَنِ هَذَا هُوَ ابْنُ مَعْقِلٍ.
قَالَ أَبو دَاود: رَوَى شُعْبَةُ هَذَا الْحَدِيثَ، عَنْ عُبَيْدٍ أَبِي الْحَسَنِ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ مَعْقِلٍ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ بِشْرٍ، عَنْ نَاسٍ مِنْ مُزَيْنَةَ، أَنَّ سَيِّدَ مُزَيْنَةَ أَبْجَرَ، أَوِ ابْنَ أَبْجَرَ، سَأَلَ النَّبِيَّ ﷺ ] ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۰۱۸) (ضعیف الإسناد/ مضطرب)
(اس کی سند میں سخت اضطراب ہے )
۳۸۰۹- غالب بن ابجر کہتے ہیں: ہمیں قحط سالی لاحق ہوئی اور ہمارے پاس گدہوں کے علاوہ کچھ نہیں تھا جسے ہم اپنے اہل وعیال کو کھلاتے اور رسول اللہ ﷺ گھریلو گدھوں کے گوشت کو حرام کر چکے تھے، چنانچہ میں رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم کو قحط سالی نے آپکڑا ہے اور ہما رے پاس سوائے موٹے گدھوں کے کوئی مال نہیں جسے ہم اپنے اہل و عیال کو کھلا سکیں اور آپ گھریلو گدھوں کے گوشت کو حرام کر چکے ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا: ''تم اپنے اہل وعیال کو اپنے موٹے گدھے کھلائو میں نے انہیں گائوں گائوں گھومنے کی وجہ سے حرام کیا ہے'' یعنی نجاست خور گدھوں کو حرام کیا ہے۔
ابو داود کہتے ہیں : عبدالرحمن سے مراد ابن معقل ہیں۔
ابوداود کہتے ہیں:اس حدیث کو شعبہ نے عبیدابو الحسن سے،عبید نے عبدالرحمن بن معقل سے عبدالرحمن بن معقل نے عبدالرحمن بن بشر سے انہوں نے مزینہ کے چند لوگوں سے روایت کیا کہ مزینہ کے سردار ابجر یا ابن ابجر نے نبی اکرم ﷺ سے سوال کیا تھا۔


3810- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سُلَيْمَانَ، حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، عَنْ مِسْعَرٍ، عَنْ ابْنِ عُبَيْدٍ، عَنِ ابْنِ مَعْقِلٍ، عَنْ رَجُلَيْنِ مِنْ مُزَيْنَةَ، أَحَدُهُمَا عَنِ الآخَرِ أَحَدُهُمَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ عَمْرِو بْنِ عُوَيْمٍ، وَالآخَرُ غَالِبُ بْنُ الأَبْجَرِ، قَالَ مِسْعَرٌ: أَرَى غَالِبًا الَّذِي أَتَى النَّبِيَّ ﷺ ، بِهَذَا الْحَدِيثِ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۰۱۸) (ضعیف الإسناد)
(اس سند میں سخت اضطراب ہے )
۳۸۱۰- ابن معقل مزینہ کے دو آدمیوں سے روایت کر تے ہیں، اور ان میں سے ایک شخص دوسرے سے روایت کر تا ہے ایک کا نام عبداللہ بن عمر و بن عویم اور دوسرے کا نام غالب بن أبجر ہے ۔
مسعر کہتے ہیں: میراخیال ہے غالب ہی نبی اکرم ﷺ کے پاس اس بات ( قحط والے معاملے) کو لے کر آئے تھے۔


3811- حَدَّثَنَا سَهْلُ بْنُ بَكَّارٍ، حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ، عَنِ ابْنِ طَاوُسٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ قَالَ: نَهَى رَسُولُ اللَّهِ ﷺ يَوْمَ خَيْبَرَ عَنْ لُحُومِ الْحُمُرِ الأَهْلِيَّةِ، وَعَنِ الْجَلاَّلَةِ: عَنْ رُكُوبِهَا، وَأَكْلِ لَحْمِهَا۔
* تخريج: ن/الضحایا ۴۲ (۴۴۵۲)، (تحفۃ الأشراف: ۸۷۶۲)، وقد أخرجہ: حم (۲/۲۱۹) (حسن صحیح)
۳۸۱۱- عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے خیبر کے دن گھریلو گدھوں کے گوشت سے اور نجاست خور جانور کی سواری کرنے اور اس کا گوشت کھانے سے منع فرمایا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
35- بَاب فِي أَكْلِ الْجَرَادِ
۳۵-باب: ٹڈی کھانے کا بیان​


3812- حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ النَّمَرِيُّ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي يَعْفُورٍ، قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ أَبِي أَوْفَى وَسَأَلْتُهُ عَنِ الْجَرَادِ، فَقَالَ: غَزَوْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ سِتَّ أَوْ سَبْعَ غَزَوَاتٍ، فَكُنَّا نَأْكُلُهُ مَعَهُ۔
* تخريج: خ/الصید ۱۳ (۵۴۹۵)، م/الصید ۸ (۱۹۵۲)، ت/الأطعمۃ ۱۰ (۱۸۲۱)، ن/الصید ۳۷ (۴۳۶۱)، (تحفۃ الأشراف: ۵۱۸۲)، وقد أخرجہ: حم (۴/۳۵۳، ۳۵۷،۳۸۰)، دي/الصید ۵ (۲۰۵۳) (صحیح)
۳۸۱۲- ابویعفور کہتے ہیں: میں نے ابن ابی اوفی رضی اللہ عنہ سے سنا اور میں نے ان سے ٹڈی کے متعلق پوچھا تھا تو انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ چھ یا سات غزوات کئے اور ہم اسے آپ کے ساتھ کھایا کر تے تھے۔


3813- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْفَرَجِ الْبَغْدَادِيُّ، حَدَّثَنَا ابْنُ الزِّبْرِقَانِ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ التَّيْمِيُّ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ النَّهْدِيِّ، عَنْ سَلْمَانَ قَالَ: سُئِلَ النَّبِيُّ ﷺ عَنِ الْجَرَادِ فَقَالَ: <أَكْثَرُ جُنُودِ اللَّهِ، لا آكُلُهُ، وَلا أُحَرِّمُهُ >.
قَالَ أَبو دَاود: رَوَاهُ الْمُعْتَمِرُ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ ، لَمْ يَذْكُرْ سَلْمَانَ۔
* تخريج: ق/الصید ۹ (۳۲۱۹)، (تحفۃ الأشراف: ۴۴۹۵) (ضعیف)
(اس کے راوی''محمد بن زبر قان'' حافظہ کے کمزور ہیں اس لئے ان کی مرفوع روایت ''معتمر '' کی مرسل روایت کے بالمقابل مرجوح ہے صحیح سند سے اس روایت کا مرسل ہونا ہی صحیح ہے )
۳۸۱۳- سلمان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ سے ٹڈی کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا:'' اللہ کے بہت سے لشکر ہیں، نہ میں اسے کھاتا ہوں اور نہ اسے حرام کر تا ہوں''۔
ابو داود کہتے ہیں: اسے معتمر نے اپنے والد سلیمان سے،سلیمان نے ابو عثمان سے، انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کیا ہے، انہوں نے سلمان رضی اللہ عنہ کا ذکر نہیں کیا ہے (یعنی مرسلا روایت کی ہے )۔


3814- حَدَّثَنَا نَصر بْنُ عَلِي، وَ عَلِي بْنُ عَبْدِاللَهِ، قَالا: حَدَّثَنَا زَكَرِيَّا بْنُ يَحْيَى بْنِ عُمَارَةَ، عَنْ أَبِي الْعَوَّامِ الْجَزَّارِ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ النَّهْدِيِّ، عَنْ سَلْمَانَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ سُئِلَ، فَقَالَ مِثْلَهُ، فَقَالَ: < أَكْثَرُ جُنْدِ اللَّهِ > قَالَ عَلِيٌّ: اسْمُهُ فَائِدٌ، يَعْنِي أَبَا الْعَوَّامِ.
قَالَ أَبو دَاود: رَوَاهُ حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي الْعَوَّامِ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ ، لَمْ يَذْكُرْ سَلْمَانَ۔
* تخريج: انظر ما قبلہ، (تحفۃ الأشراف: ۴۴۹۵) (ضعیف)
(''زکریا '' کے با لمقابل ''حماد '' کی روایت صحیح ہے، اور حماد کی روایت سے یہ روایت مرسل ہے )
۳۸۱۴- سلمان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے ٹڈی کے متعلق پوچھا گیا توآپ نے ایسے ہی فرمایا: ''اللہ کے بہت سے لشکر ہیں ''۔
علی کہتے ہیں: ان کا یعنی ابوالعوام کا نام فائد ہے ۔
ابو داود کہتے ہیں: اس حدیث کو حماد بن سلمہ نے ابو العوام سے اابوالعوام نے ابوعثمان سے اور ابوعثمان نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کیا اور سلمان رضی اللہ عنہ کا ذکر نہیں کیا۔
 
Top