• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن ابو داود

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
24- بَاب فِي ذِكْرِ الْبَعْثِ وَالصُّورِ
۲۴-باب: قیامت اور صور کا بیان​


4742- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا مُعْتَمِرٌ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبِي، قَالَ: حَدَّثَنَا أَسْلَمُ، عَنْ بِشْرِ بْنِ شَغَافٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ ، قَالَ: <الصُّورُ قَرْنٌ يُنْفَخُ فِيهِ>۔
* تخريج: ت/صفۃ القیامۃ ۸ (۲۴۳۰)، تفسیر القرآن۴۰ (۳۲۴۴)، (تحفۃ الأشراف: ۸۶۰۸)، وقد أخرجہ: حم (۲/۱۶۲، ۱۹۲)، دي/الرقاق ۷۹ (۲۸۴۰) (صحیح)
۴۷۴۲- عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: ''صور ایک سنکھ ہے ، جس میں پھونک ماری جائے گی''۔


4743- حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنِ الأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: < كُلَّ ابْنِ آدَمَ تَأْكُلُ الأَرْضُ؛ إِلا عَجْبَ الذَّنَبِ: مِنْهُ خُلِقَ، وَفِيهِ يُرَكَّبُ >۔
* تخريج: ن/الجنائز ۱۱۷ (۲۰۷۹)، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۸۳۵)، وقد أخرجہ: خ/تفسیر الزمر ۴ (۴۸۱۴)، تفسیر النبأ ۱ (۴۹۳۵)، م/الفتن ۲۸ (۲۹۵۵)، ق/الزھد ۳۲ (۴۲۶۶)، ط/الجنائز ۱۶ (۴۸)، حم (۲ /۳۱۵، ۳۲۲، ۴۲۸، ۴۹۹) (صحیح)
۴۷۴۳- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''زمین ابن آدم(انسان) کے تمام اعضاء(جسم) کو بجز ریڑھ کی نچلی ہڈی کے کھا جاتی ہے اس لئے کہ وہ اسی سے پیدا ہوا ہے ۱؎ ،اور اسی سے اسے دوبارہ جوڑ کر اٹھایا جائے گا '' ۔
وضاحت ۱؎ : تخلیق انسان کی ابتداء اسی سے ہوتی ہے، اور شاید وہ بہت چھوٹی ہوتی ہے جو لوگوں کو محسوس نہیں ہوتی، اس حدیث کے حکم سے انبیاء کرام مستثنیٰ ہیں کیونکہ''إن الله حرم على الأرض أن تأكل أجساد الأنبياء'' ان کے بارے میں وارد ہے،اللہ نے زمین پر حرام قرار دے دیا ہے کہ وہ انبیاء(علیہم السلام) کے اجسام کو کھائے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
25- بَاب فِي خَلْقِ الْجَنَّةِ وَالنَّارِ
۲۵-باب: جنت ا ور جہنم کی تخلیق کا بیان​


4744- حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: < لَمَّا خَلَقَ اللَّهُ الْجَنَّةَ قَالَ لِجِبْرِيلَ: اذْهَبْ فَانْظُرْ إِلَيْهَا، فَذَهَبَ فَنَظَرَ إِلَيْهَا، ثُمَّ جَاءَ فَقَالَ: أَيْ رَبِّ! وَعِزَّتِكَ لا يَسْمَعُ بِهَا أَحَدٌ إِلا دَخَلَهَا، ثُمَّ حَفَّهَا بِالْمَكَارِهِ، ثُمَّ قَالَ: يَا جِبْرِيلُ! اذْهَبْ فَانْظُرْ إِلَيْهَا، فَذَهَبَ فَنَظَرَ إِلَيْهَا، ثُمَّ جَاءَ فَقَالَ: أَيْ رَبِّ! وَعِزَّتِكَ لَقَدْ خَشِيتُ أَنْ لا يَدْخُلَهَا أَحَدٌ> قَالَ: <فَلَمَّا خَلَقَ اللَّهُ النَّارَ قَالَ: يَا جِبْرِيلُ! اذْهَبْ فَانْظُرْ إِلَيْهَا، فَذَهَبَ فَنَظَرَ إِلَيْهَا، ثُمَّ جَاءَ فَقَالَ: [أَيْ رَبِّ]! وَعِزَّتِكَ لا يَسْمَعُ بِهَا أَحَدٌ فَيَدْخُلُهَا، فَحَفَّهَا بِالشَّهَوَاتِ، ثُمَّ قَالَ: يَاجِبْرِيلُ! اذْهَبْ فَانْظُرْ إِلَيْهَا، فَذَهَبَ فَنَظَرَ إِلَيْهَا، [ثُمَّ جَاءَ] فَقَالَ: أَيْ رَبِّ! وَعِزَّتِكَ لَقَدْ خَشِيتُ أَنْ لا يَبْقَى أَحَدٌ إِلادَخَلَهَا >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۰۱۵)، وقد أخرجہ: ن/الأیمان والنذور ۲ (۳۷۹۴)، حم (۲/۲۵۴، ۳۳۲، ۳۷۳) (حسن صحیح)
۴۷۴۴- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''جب اللہ نے جنت کو پیدا کیا تو جبریل سے فرمایا: جائو اور اسے دیکھو ، وہ گئے اور اسے دیکھا، پھر واپس آئے، اور کہنے لگے : اے میرے رب !تیری عزت کی قسم ، اس کے متعلق جو کوئی بھی سنے گا وہ اس میں ضر ور داخل ہو گا،پھر( اللہ نے ) اسے مکروہات (ناپسندیدہ)(چیزوں) سے گھیردیا ، پھر فرمایا: اے جبریل ! جائو اور اسے دیکھو ، وہ گئے اور اسے دیکھا، پھر لوٹ کر آئے تو بولے : اے میرے رب ! تیری عزت کی قسم ! مجھے ڈر ہے کہ اس میں کوئی داخل نہ ہو سکے گا، جب اللہ نے جہنم کو پیدا کیا تو فرمایا: اے جبر ئیل ! جائو اور اسے دیکھو ، وہ گئے اور اسے دیکھا ، پھر واپس آئے اور کہنے لگے: اے میرے رب! تیری عزت کی قسم!جو اس کے متعلق سنے گا اس میں داخل نہ ہوگا، تو اللہ نے اسے مرغوب اور پسندیدہ چیز وں سے گھیردیا ، پھر فرمایا: جبریل ! جائو اور اسے دیکھو ، وہ گئے ،جہنم کو دیکھا پھر واپس آئے اور عرض کیا : اے میرے رب ! تیری عزت کی قسم! مجھے ڈر ہے کہ کوئی بھی ایسا نہیں بچے گا جو اس میں داخل نہ ہو'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یہ باب معتزلہ وغیرہ گمراہ فرقوں کے رد وابطال میں ہے، جو یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ جنت وجہنم ابھی پیدا نہیں ہوئے ہیں جب کہ اہل حدیث و سنت کایہ عقیدہ ہے کہ دونوں پیدا کی جاچکی ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
26- بَاب فِي الْحَوْضِ
۲۶-باب: حو ضِ کوثر کا بیان​


4745- حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ وَمُسَدَّدٌ، قَالا: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < إِنَّ أَمَامَكُمْ حَوْضًا مَا بَيْنَ نَاحِيَتَيْهِ كَمَا بَيْنَ جَرْبَاءَ وَأَذْرُحَ >۔
* تخريج: م/الفضائل ۹ (۲۲۹۹)، (تحفۃ الأشراف: ۷۵۳۸)، وقد أخرجہ: خ/الرقاق ۵۳ (۶۵۷۷)، حم (۲/۲۱، ۶/۱۲۵) (صحیح)
۴۷۴۵- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’تمہارے سا منے(قیامت کے دن) ایک حوض ہوگا، جس کے دونوں کناروں کے درمیان اتنا فاصلہ ہے جتنا جر باء اور اذرح ۱؎کے درمیان ہے‘‘ ۲؎ ۔
وضاحت ۱؎ : جرباء اور اذرح نام کے شام میں دو گاؤں ہیں ان کے درمیان تین دن کی مسافت کافاصلہ ہے۔
وضاحت ۲؎ : حوض کے حدود کے بارے میں مختلف بیانات وارد ہیں، ان سے تحدید مقصود نہیں بلکہ مسافت کا طول مراد ہے۔


4746- حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ النَّمَرِيُّ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ، عَنْ أَبِي حَمْزَةَ، عَنْ زَيْدِ ابْنِ أَرْقَمَ قَالَ: كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ ، فَنَزَلْنَا مَنْزِلا، فَقَالَ: < مَا أَنْتُمْ جُزْئٌ مِنْ مِائَةِ أَلْفِ جُزْئٍ مِمَّنْ يَرِدُ عَلَيَّ الْحَوْضَ > قَالَ: قُلْتُ: كَمْ كُنْتُمْ يَوْمَئِذٍ؟ قَالَ: سَبْعُ مِائَةٍ، أَوْ ثَمَانِ مِائَةٍ.
* تخريج: تفردبہ أبوداود، (تحفۃ الأشراف: ۳۶۶۶)، وقد أخرجہ: حم (۴/۳۶۷، ۳۶۹، ۳۷۱) (صحیح)
۴۷۴۶- زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے ، ہم نے ایک جگہ پڑائو کیا تو آپ نے فرمایا: ’’ تم لوگ ان لوگوں کے ایک لا کھ حصوں میں کا ایک حصہ بھی نہیں ہو جو لوگ حشر میں حو ض کو ثر پر آئیں گے ‘‘۔
راوی (ابوحمزہ)کہتے ہیں : میں نے زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے کہا: اس دن آپ لوگ کتنے تھے ؟ کہا: سا ت سو یا آٹھ سو ۔


4747- حَدَّثَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ، عَنِ الْمُخْتَارِ بْنِ فُلْفُلٍ، قَالَ: سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ يَقُولُ: أَغْفَى رَسُولُ اللَّهِ ﷺ إِغْفَائَةً، فَرَفَعَ رَأْسَهُ مُتَبَسِّمًا، فَإِمَّا قَالَ لَهُمْ، وَإِمَّا قَالُوا لَهُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! لِمَ ضَحِكْتَ؟ فَقَالَ: < إِنَّهُ أُنْزِلَتْ عَلَيَّ آنِفًا سُورَةٌ > فَقَرَأَ {بِسْم اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ، إِنَّا أَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَرَ} حَتَّى خَتَمَهَا، فَلَمَّا قَرَأَهَا قَالَ: < هَلْ تَدْرُونَ مَا الْكَوْثَرُ؟ > قَالُوا: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: < فَإِنَّهُ نَهْرٌ وَعَدَنِيهِ رَبِّي عَزَّ وَجَلَّ فِي الْجَنَّةِ، وَعَلَيْهِ خَيْرٌ كَثِيرٌ، عَلَيْهِ حَوْضٌ تَرِدُ عَلَيْهِ أُمَّتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ، آنِيَتُهُ عَدَدُ الْكَوَاكِبِ >۔
* تخريج: انظر حدیث رقم (۷۸۴)، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۷۵) (صحیح)
۴۷۴۷- مختار بن فلفل کہتے ہیں کہ میں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ کو کہتے سنا: (ایک بار) رسول اللہ ﷺپر ہلکی اونگھ طاری ہوئی، پھر آپ ﷺ نے مسکرا تے ہوئے سر اٹھایا ، تو یا تو آپ نے لوگوں سے کہا، یا لوگوں نے آپ سے کہا : اللہ کے رسول! آپ کو ہنسی کیوں آئی؟تو آپ ﷺ نے فرمایا: ’’ابھی میرے اوپر ایک سو رت نازل ہوئی‘‘، پھر آپ ﷺ نے پڑھا : {بِسْم اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ، إِنَّا أَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَرَ} یہاں تک کہ سورت ختم کرلی، جب آپ ﷺ اسے پڑھ چکے تو آپ نے فرمایا:’’ کیا تم جانتے ہو کوثر کیا ہے؟ ‘‘، لوگوں نے کہا : اللہ اور اس کے رسول زیادہ جا نتے ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا: ’’ وہ جنت کی ایک نہرہے جس کا وعدہ مجھ سے میرے رب نے کیا ہے اور اس پر بڑا خیر ہے، اس پر ایک حوض ہے جس پر قیامت کے دن میری امت(پینے)آئے گی ، اس کے برتن ستاروں کی تعداد میں ہوں گے‘‘۔


4748- حَدَّثَنَا عَاصِمُ بْنُ النَّضْرِ، حَدَّثَنَا الْمُعْتَمِرُ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبِي، قَالَ: حَدَّثَنَا قَتَادَةُ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: لَمَّا عُرِجَ بِنَبِيِّ اللَّهِ ﷺ فِي الْجَنَّةِ أَوْ كَمَا قَالَ، عُرِضَ لَهُ نَهْرٌ حَافَتَاهُ الْيَاقُوتُ الْمُجَيَّبُ، أَوْ قَالَ الْمُجَوَّفُ، فَضَرَبَ الْمَلَكُ الَّذِي مَعَهُ يَدَهُ، فَاسْتَخْرَجَ مِسْكًا، فَقَالَ مُحَمَّدٌ ﷺ لِلْمَلَكِ الَّذِي مَعَهُ: < مَا هَذَا؟ > قَالَ: هذا الْكَوْثَرُ الَّذِي أَعْطَاكَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۳۴)، وقد أخرجہ: خ/الرقاق ۵۳ (۶۵۸۱)، التوحید ۳۷ (۷۵۱۶) (صحیح)
۴۷۴۸- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: جب اللہ کے نبی اکرمﷺ کومعراج میں جنت میں لے جایا گیا تو آپ کے سامنے ایک نہرلائی گئی ،جس کے دو نوں کنارے مجیّب یاکہا مجوّف ( خول دار) یا قوت کے تھے ،آپ ﷺ کے ساتھ جوفرشتہ تھا اس نے اپنا ہاتھ ما را اور اندر سے مشک نکالی ، تو محمد ﷺ نے اپنے ساتھ والے فر شتے سے پوچھا یہ کیا ہے ؟ اس نے کہا: یہی کو ثر ہے جسے اللہ تعالی نے آپ کو عطا کیا ہے۔


4749- حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا عَبْدُالسَّلامِ بْنُ أَبِي حَازِمٍ أَبُو طَالُوتَ، قَالَ: شَهِدْتُ أَبَا بَرْزَةَ دَخَلَ عَلَى عُبَيْدِاللَّهِ بْنِ زِيَادٍ فَحَدَّثَنِي فُلانٌ، سَمَّاهُ مُسْلِمٌ، وَكَانَ فِي السِّمَاطِ: فَلَمَّا رَآهُ عُبَيْدُاللَّهِ قَالَ: إِنَّ مُحَمَّدِيَّكُمْ هَذَا الدَّحْدَاحُ، فَفَهِمَهَا الشَّيْخُ، فَقَالَ: مَا كُنْتُ أَحْسَبُ أَنِّي أَبْقَى فِي قَوْمٍ يُعَيِّرُونِي بِصُحْبَةِ مُحَمَّدٍ ﷺ ، فَقَالَ لَهُ عُبَيْدُاللَّهِ: إِنَّ صُحْبَةَ مُحَمَّدٍ ﷺ لَكَ زَيْنٌ غَيْرُ شَيْنٍ، قَالَ: إِنَّمَا بَعَثْتُ إِلَيْكَ لأَسْأَلَكَ عَنِ الْحَوْضِ، سَمِعْتَ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَذْكُرُ فِيهِ شَيْئًا؟ فَقَالَ لَهُ أَبُو بَرْزَةَ: نَعَمْ لا مَرَّةً وَلاثِنْتَيْنِ وَلا ثَلاثًا وَلا أَرْبَعًا وَلا خَمْسًا، فَمَنْ كَذَّبَ بِهِ فَلا سَقَاهُ اللَّهُ مِنْهُ، ثُمَّ خَرَجَ مُغْضَبًا۔
* تخريج: تفردبہ أبوداود، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۶۰۰)، وقد أخرجہ: حم (۴/۴۱۹، ۴۲۱، ۴۲۴، ۴۲۶) (صحیح)
۴۷۴۹- عبدالسلام بن ابی حا زم ابو طالو ت بیان کرتے ہیں کہ میں نے ابو برزہ رضی اللہ عنہ کو دیکھا وہ عبیداللہ بن زیا د کے ہاں گئے ، پھر مجھ سے فلاں شخص نے بیان کیا جو ان کی جماعت میں شریک تھا،( مسلم نے اس کا نام ذکر کیا ہے) جب انہیں عبید اللہ نے دیکھا تو بو لا : دیکھو تمہارا یہ محمدی موٹا ٹھگنا ہے ، تو شیخ ( ابو بر زہ ) اس کے اس طعنہ اور توہین کو سمجھ گئے اور بولے: مجھے یہ گمان نہ تھا کہ میں ایسے لوگوں میں باقی رہ جائوں گا جو محمد ﷺ کی صحبت کا مجھے طعنہ دیں گے، تو عبیداللہ نے ان سے کہا: محمدﷺ کی صحبت تو آپ کے لئے فخر کی بات ہے، نہ کہ عیب کی، پھر کہنے لگا : میں نے آپ کو اس لئے بلا یا ہے کہ میں آپ سے حوض کو ثر کے بارے میں معلوم کروں ، کیا آپ نے رسول اللہ ﷺ سے اس کے متعلق کچھ ذکر فرماتے سنا ہے ؟ تو ابو بر زہ رضی اللہ عنہ نے کہا: ہاں ایک با ر نہیں ، دوبارنہیں ، تین بار نہیں، چا ر با رنہیں، پانچ بار نہیں (یعنی بہت بار سناہے) تو جو شخص اسے جھٹلائے اللہ اسے اس حوض میں سے نہ پلائے، پھر غصے میں وہ نکل کر چلے گئے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
27- بَاب فِي الْمَسْأَلَةِ فِي الْقَبْرِ وَعَذَابِ الْقَبْرِ
۲۷-باب: قبر میں سوا ل کئے جانے اور قبر کے عذاب کا بیان​


4750- حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ الطَّيَالِسِيُّ، حَدَّثَنَا شُعْبَةَ، عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ مَرْثَدٍ، عَنْ سَعْدِ بْنِ عُبَيْدَةَ، عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: < إِنَّ الْمُسْلِمَ إِذَا سُئِلَ فِي الْقَبْرِ فَشَهِدَ أَنْ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ [ ﷺ ] فَذَلِكَ قَوْلُ اللَّهِ عَزَّوَجَلَّ {يُثَبِّتُ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ}۔
* تخريج: خ/الجنائز ۸۶ (۳۱۲۰)، وتفسیر سورۃ إبراہیم ۲ (۴۶۹۹)، م/الجنۃ ۱۷ (۲۸۷۱)، ت/تفسیر سورۃ إبراہیم ۱۵ (۳۱۲۰)، ن/الجنائز ۱۱۴ (۲۰۵۹)، ق/الزھد ۳۲ (۴۲۶۹)، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۶۲)، وقد أخرجہ: حم (۴/۲۸۲، ۲۹۱) (صحیح)
۴۷۵۰- براء بن عازب رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’ مسلمان سے جب قبر میں سوال ہو تا ہے اور وہ گواہی دیتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں‘‘۔
تو یہی مراد ہے اللہ کے قول {يُثَبِّتُ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ} ۱؎سے۔
وضاحت ۱؎ : اللہ ایمان والوں کو پکی بات کے ساتھ مضبوط کر تا ہے (سورۃ ابراہیم : ۲۷)


4751- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سُلَيْمَانَ الأَنْبَارِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُالْوَهَّابِ [بْنُ عَطَاءِ] الْخَفَّافُ أَبُونَصْرٍ، عَنْ سَعِيدٍ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: إِنَّ نَبِيَّ اللَّهِ ﷺ دَخَلَ نَخْلا لِبَنِي النَّجَّارِ، فَسَمِعَ صَوْتًا فَفَزِعَ، فَقَالَ: < مَنْ أَصْحَابُ هَذِهِ الْقُبُورِ؟ > قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ! نَاسٌ مَاتُوا فِي الْجَاهِلِيَّةِ، فَقَالَ: $ تَعَوَّذُوا بِاللَّهِ مِنْ عَذَابِ النَّارِ، وَمِنْ فِتْنَةِ الدَّجَّالِ > قَالُوا: وَمِمَّ ذَاكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: < إِنَّ الْمُؤْمِنَ إِذَا وُضِعَ فِي قَبْرِهِ أَتَاهُ مَلَكٌ فَيَقُولُ لَهُ: مَا كُنْتَ تَعْبُدُ؟ فَإِنِ اللَّهُ هَدَاهُ قَالَ: كُنْتُ أَعْبُدُاللَّهَ، فَيُقَالُ لَهُ: مَا كُنْتَ تَقُولُ فِي هَذَا الرَّجُلِ؟ فَيَقُولُ: هُوَ عَبْدُاللَّهِ وَرَسُولُهُ، فَمَا يُسْأَلُ عَنْ شَيْئٍ، غَيْرِهَا، فَيُنْطَلَقُ بِهِ إِلَى بَيْتٍ كَانَ لَهُ فِي النَّارِ فَيُقَالُ لَهُ: هَذَا بَيْتُكَ كَانَ لَكَ فِي النَّارِ، وَلَكِنَّ اللَّهَ عَصَمَكَ وَرَحِمَكَ فَأَبْدَلَكَ بِهِ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ، فَيَقُولُ: دَعُونِي حَتَّى أَذْهَبَ فَأُبَشِّرَ أَهْلِي، فَيُقَالُ لَهُ: اسْكُنْ، وَإِنَّ الْكَافِرَ إِذَا وُضِعَ فِي قَبْرِهِ أَتَاهُ مَلَكٌ فَيَنْتَهِرُهُ فَيَقُولُ لَهُ: مَا كُنْتَ تَعْبُدُ؟ فَيَقُولُ: لا أَدْرِي، فَيُقَالُ لَهُ: لا دَرَيْتَ وَلا تَلَيْتَ، فَيُقَالُ لَهُ: فَمَا كُنْتَ تَقُولُ فِي هَذَا الرَّجُلِ؟ فَيَقُولُ: كُنْتُ أَقُولُ مَا يَقُولُ النَّاسُ، فَيَضْرِبُهُ بِمِطْرَاقٍ مِنْ حَدِيدٍ بَيْنَ أُذُنَيْهِ، فَيَصِيحُ صَيْحَةً يَسْمَعُهَا الْخَلْقُ غَيْرُ الثَّقَلَيْنِ >۔
* تخريج: انظر حدیث رقم : (۳۲۳۱)، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۱۴) (صحیح)
۴۷۵۱- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اللہ کے نبی اکرمﷺ بنی نجا ر کے کھجو ر کے ایک باغ میں داخل ہوئے ، تو ایک آواز سنی ، آپ ﷺ گھبرا اُٹھے ،فرمایا:’’یہ قبریں کس کی ہیں؟‘‘، لوگوں نے عرض کیا:زمانۂ جاہلیت میں مرنے والوں کی ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا:’’تم لوگ جہنم کے عذاب سے اور دجال کے فتنے سے اللہ کی پناہ ما نگو‘‘ ، لوگوں نے عرض کیا:ایسا کیوں؟ اللہ کے ر سول! آپ ﷺ نے فرمایا: ’’مومن جب قبر میں رکھا جاتا ہے تو اس کے پاس ایک فرشتہ آتا ہے ، اور اس سے کہتا ہے : تم کس کی عبادت کرتے تھے؟ تو اگر اللہ اسے ہدایت دیئے ہوتا ہے تو وہ کہتا ہے : میں اللہ کی عبادت کر تا تھا؟ پھر اس سے کہا جاتا ہے ، تم اس شخص کے بارے میں کیا کہتے تھے؟ ۱؎تو وہ کہتا ہے: وہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں، پھر اس کے علاوہ اور کچھ نہیں پوچھا جاتا، پھر اسے ایک گھر کی طرف لے جا یا جاتا ہے ، جو اس کے لئے جہنم میں تھا اور اس سے کہا جاتا ہے : یہ تمہارا گھر ہے جو تمہارے لئے جہنم میں تھا ، لیکن اللہ نے تمہیں اس سے بچا لیا ، تم پر رحم کیا اور اس کے بد لے میں تمہیں جنت میں ایک گھر دیا ، تو وہ کہتا ہے : مجھے چھوڑ دو کہ میں جا کر اپنے گھر والوں کو بشارت دے دوں ، لیکن اس سے کہا جاتا ہے ، ٹھہرا رہ ، اور جب کافر قبر میں رکھا جاتا ہے ، تو اس کے پاس ایک فرشتہ آتا ہے اور اس سے ڈانٹ کر کہتا ہے : تو کس کی عبادت کرتا تھا؟ تو وہ کہتا ہے : میں نہیں جانتا ، تو اس سے کہا جاتا ہے : نہ تو نے جا نا اور نہ کتاب پڑھی(یعنی قرآن) ، پھر اس سے کہا جاتا ہے : تو اس شخص کے بارے میں کیا کہتا تھا ؟ تو وہ کہتا ہے : وہی کہتا تھا جو لوگ کہتے تھے، تو وہ اسے لو ہے کے ایک گرز سے اس کے دونوں کانوں کے درمیان مارتا ہے ،تو وہ اس طرح چلاتا ہے کہ اس کی آواز آدمی اور جن کے علاوہ ساری مخلوق سنتی ہے‘‘۔
وضاحت ۱؎ : بعض لوگوں نے ’’في هذا الرجل‘‘سے یہ خیال کیا ہے کہ میت کو نبی اکرم ﷺ کی شبیہ دکھائی جاتی ہے، یا پردہ ہٹا دیا جاتا ہے، مگر یہ محض خیال ہے، اس کی کوئی دلیل قرآن وسنت میں وارد نہیں ، مردہ نور ایمانی سے ان سوالوں کے جواب دے گا نا کہ دیکھنے اور جاننے کی بنیاد پر، ابوجہل نے آپ ﷺ کو دیکھا تھا منکر نکیر کے سوال پر وہ آپ کو نہیں پہچان سکتا ،اور آج کا مؤمن موحد باوجود یکہ اس نے آپ کو دیکھا نہیں مگر جواب درست دے گا کیونکہ اس کا نور ایمان اس کو جواب سمجھائے گا، اگرچہ لفظ ’’هذا‘‘ محسوس قریب کے لئے آتا ہے مگر ’’ذلك‘‘ جو بعید کے لئے وضع کیا گیا ہے، اس کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے وبالعکس،’’وقد ذكره البخاري عن معمر بن المثنى عن أبي عبيدة‘‘ پھر جواب میں ’’هو‘‘ کا لفظ موجود ہے جو ضمیر غائب ہے جو اس کے حقیقی معنی مراد لینے سے مانع ہے، فافهم۔


4752- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سُلَيْمَانَ، حَدَّثَنَا عَبْدُالْوَهَّابِ، بِمِثْلِ هَذَا الإِسْنَادِ، نَحْوَهُ، قَالَ: < إِنَّ الْعَبْدَ إِذَا وُضِعَ فِي قَبْرِهِ وَتَوَلَّى عَنْهُ أَصْحَابُهُ إِنَّهُ لَيَسْمَعُ قَرْعَ نِعَالِهِمْ، فَيَأْتِيهِ مَلَكَانِ فَيَقُولانِ لَهُ > فَذَكَرَ قَرِيبًا مِنْ حَدِيثِ الأَوَّلِ، قَالَ فِيهِ: < وَأَمَّا الْكَافِرُ وَالْمُنَافِقُ فَيَقُولانِ لَهُ > زَادَ < الْمُنَافِقَ > وَقَالَ < يَسْمَعُهَا مَنْ وَلِيَهُ غَيْرُ الثَّقَلَيْنِ >۔
* تخريج: انظر حدیث رقم : (۳۲۳۱)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۷۰) (صحیح)
۴۷۵۲- عبدالوہاب سے اسی جیسی سند سے اس طرح کی حدیث مروی ہے ،اس میں ہے: ’’جب بندہ قبر میں رکھ دیا جاتا ہے، اور اس کے رشتہ دار واپس لوٹتے ہیں تو وہ ان کے جوتوں کی چاپ سنتا ہے، اتنے میں اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں ، اور اس سے کہتے ہیں پھر انہوں نے پہلی حدیث کے قریب قریب بیان کیا ، اور اس میں اس طرح ہے: رہے کافر اور منافق تو وہ دونوں اس سے کہتے ہیں‘‘، راوی نے ’’منافق‘‘ کا اضافہ کیا ہے اوراس میں ہے: ’’اسے ہر وہ شخص سنتا ہے جو اس کے قریب ہوتا ہے، سوائے آدمی اور جن کے‘‘ ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : مردہ واپس لوٹنے والوں کی جوتیوں کی آواز سنتا ہے کیونکہ وہ نیچے زمین میں ہے اور چلنے والے اوپر چل رہے ہوتے ہیں، ان کی بات چیت نہیں سنتا کیونکہ قبر پر آواز جانے کا کوئی ذریعہ نہیں، اس سے سماع موتیٰ پراستدلال کرنا محض غلط ہے، کیونکہ لوٹنے والوں کی بات سننے کا ذکراس حدیث میں نہیں ہے، لہذا جوتیوں کی دھمک سننے سے بات چیت کے سننے کا اثبات غلط ہے، نیز حدیث میں اس خاص موقع پر مردوں کے سننے کی یہ بات آئی ہے، جیسے غزوہ بدرمیں قریش کے مقتولین جو بدر کے کنویں میں ڈال دئیے گئے تھے، اور رسول اکرم ﷺ نے ان کو مخاطب کیا تھا یہ بھی مخصوص صورت حال تھی، اس طرح کے واقعات سے مردوں کے عمومی طور پر سننے پر استدلال صحیح نہیں ہے، دلائل کی روشنی میں صحیح بات یہی ہے کہ مردے سنتے نہیں ہیں، (ملاحظہ ہو علامہ آلوسی کی کتاب: ’’کیا مردے سنتے ہیں؟‘‘ نیز مولانا عبداللہ بھاولپوری کا رسالہ ’’سماع موتی‘‘)۔


4753- حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ (ح) و حَدَّثَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ، حَدَّثَنَا أَبُومُعَاوِيَةَ، وَهَذَا لَفْظُ هَنَّادٍ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنِ الْمِنْهَالِ، عَنْ زَاذَانَ، عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ، قَالَ: خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ فِي جَنَازَةِ رَجُلٍ مِنَ الأَنْصَارِ، فَانْتَهَيْنَا إِلَى الْقَبْرِ وَلَمَّا يُلْحَدْ، فَجَلَسَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ وَجَلَسْنَا حَوْلَهُ كَأَنَّمَا عَلَى رُئُوسِنَا الطَّيْرُ، وَفِي يَدِهِ عُودٌ يَنْكُتُ بِهِ فِي الأَرْضِ، فَرَفَعَ رَأْسَهُ، فَقَالَ: < اسْتَعِيذُوا بِاللَّهِ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ > مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلاثًا،- زَادَ فِي حَدِيثِ جَرِيرٍ هَاهُنَا وَقَالَ:- < وَإِنَّهُ لَيَسْمَعُ خَفْقَ نِعَالِهِمْ إِذَا وَلَّوْا مُدْبِرِينَ حِينَ يُقَالُ لَهُ: يَا هَذَا! مَنْ رَبُّكَ وَمَا دِينُكَ وَمَنْ نَبِيُّكَ؟ > قَالَ هَنَّادٌ: قَالَ: < وَيَأْتِيهِ مَلَكَانِ فَيُجْلِسَانِهِ فَيَقُولانِ لَهُ: مَنْ رَبُّكَ؟ فَيَقُولُ: رَبِّيَ اللَّهُ، فَيَقُولانِ [لَهُ]: مَا دِينُكَ؟ فَيَقُولُ: دِينِيَ الإِسْلامُ، فَيَقُولانِ لَهُ: مَا هَذَا الرَّجُلُ الَّذِي بُعِثَ فِيكُمْ؟ > قَالَ: < فَيَقُولُ: هُوَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ ، فَيَقُولانِ: وَمَا يُدْرِيكَ؟ فَيَقُولُ: قَرَأْتُ كِتَابَ اللَّهِ فَآمَنْتُ بِهِ وَصَدَّقْتُ > زَادَ فِي حَدِيثِ جَرِيرٍ < فَذَلِكَ قَوْلُ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ {يُثَبِّتُ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا} > الآيَةُ، ثُمَّ اتَّفَقَا قَالَ: < فَيُنَادِي مُنَادٍ مِنَ السَّمَاءِ: أَنْ قَدْ صَدَقَ عَبْدِي، فَأَفْرِشُوهُ مِنَ الْجَنَّةِ، وَافْتَحُوا لَهُ بَابًا إِلَى الْجَنَّةِ، وَأَلْبِسُوهُ مِنَ الْجَنَّةِ > قَالَ: < فَيَأْتِيهِ مِنْ رَوْحِهَا وَطِيبِهَا > قَالَ: < وَيُفْتَحُ لَهُ فِيهَا مَدَّ بَصَرِهِ > قَالَ: < وَإِنَّ الْكَافِرَ > فَذَكَرَ مَوْتَهُ قَالَ: < وَتُعَادُ رُوحُهُ فِي جَسَدِهِ، وَيَأْتِيهِ مَلَكَانِ فَيُجْلِسَانِهِ فَيَقُولانِ [لَهُ]: مَنْ رَبُّكَ؟ فَيَقُولُ: هَاهْ هَاهْ، لا أَدْرِي، فَيَقُولانِ لَهُ: مَا دِينُكَ؟ فَيَقُولُ: هَاهْ هَاهْ، لا أَدْرِي، فَيَقُولانِ: مَا هَذَا الرَّجُلُ الَّذِي بُعِثَ فِيكُمْ؟ فَيَقُولُ: هَاهْ هَاهْ، لا أَدْرِي، فَيُنَادِي مُنَادٍ مِنَ السَّمَاءِ: أَنْ كَذَبَ، فَأَفْرِشُوهُ مِنَ النَّارِ، وَأَلْبِسُوهُ مِنَ النَّارِ، وَافْتَحُوا لَهُ بَابًا إِلَى النَّارِ >، قَالَ: < فَيَأْتِيهِ مِنْ حَرِّهَا وَسَمُومِهَا > قَالَ: وَيُضَيَّقُ عَلَيْهِ قَبْرُهُ حَتَّى تَخْتَلِفَ فِيهِ أَضْلاعُهُ > زَادَ فِي حَدِيثِ جَرِيرٍ قَالَ: < ثُمَّ يُقَيَّضُ لَهُ أَعْمَى أَبْكَمُ مَعَهُ مِرْزَبَّةٌ مِنْ حَدِيدٍ لَوْ ضُرِبَ بِهَا جَبَلٌ لَصَارَ تُرَابًا > قَالَ: فَيَضْرِبُهُ بِهَا ضَرْبَةً يَسْمَعُهَا مَا بَيْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ إِلا الثَّقَلَيْنِ، فَيَصِيرُ تُرَابًا > قَالَ: < ثُمَّ تُعَادُ فِيهِ الرُّوحُ > ۔
* تخريج: انظر حدیث رقم (۳۲۱۲)، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۵۸) (صحیح)
حدیث کاپہلا ٹکڑاگزرچکاہے ملاحظہ ہوحدیث نمبر (۳۲۱۲)
۴۷۵۳- براء بن عا زب رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ انصار کے ایک شخص کے جنازے میں نکلے، ہم قبر کے پاس پہنچے، وہ ا بھی تک تیار نہ تھی، تو رسول اللہ ﷺ بیٹھ گئے اور ہم بھی آپ کے ارد گر د بیٹھ گئے گویا ہمارے سروں پر چڑیاں بیٹھی ہیں ، آپ ﷺ کے ہاتھ میں ایک لکڑی تھی ، جس سے آپ زمین کرید رہے تھے ، پھر آپ ﷺ نے سر اٹھایا اور فرمایا: ’’قبر کے عذاب سے اللہ کی پناہ طلب کرو‘‘،اسے دو بار یا تین بار فرمایا، یہاں جریر کی روایت میں اتنا اضافہ ہے : اور فرمایا: ’’اور وہ ان کے جوتوں کی چاپ سن رہا ہوتا ہے جب وہ پیٹھ پھیر کر لوٹتے ہیں ،اسی وقت اس سے پوچھا جاتا ہے ، اے جی ! تمہارا رب کون ہے؟ تمہارا دین کیا ہے؟ اور تمہارا نبی کون ہے؟‘‘، ہناد کی روایت کے الفاظ ہیں،آپ ﷺ نے فرمایا: ’’ پھر اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں، اسے بٹھاتے ہیں اور اس سے پوچھتے ہیں: تمہارا رب(معبود) کو ن ہے؟ تو وہ کہتا ہے ، میرا رب (معبود) اللہ ہے، پھر وہ دونوں اس سے پوچھتے ہیں: تمہارا دین کیا ہے؟ وہ کہتا ہے : میرا دین اسلام ہے ، پھر پوچھتے ہیں: یہ کون ہے جو تم میں بھیجا گیا تھا؟ وہ کہتا ہے : وہ اللہ کے رسول ﷺ ہیں ، پھر وہ دونوں اس سے کہتے ہیں: تمہیں یہ کہاں سے معلوم ہوا؟ وہ کہتا ہے : میں نے اللہ کی کتاب پڑھی اور اس پر ایمان لا یا اور اس کو سچ سمجھا‘‘، جریر کی روایت میں یہاں پر یہ اضافہ ہے: ’’اللہ تعالیٰ کے قول {يُثَبِّتُ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا} سے یہی مراد ہے‘‘، (پھر دونوں کی روایتوں کے الفاظ ایک جیسے ہیں،)آپ ﷺ نے فرمایا: ’’پھر ایک پکارنے والا آسمان سے پکارتا ہے : میرے بندے نے سچ کہا لہٰذا تم اس کے لئے جنت کا بچھونا بچھا دو، اور اس کے لئے جنت کی طرف کا ایک دروازہ کھول دو، اور اسے جنت کا لباس پہنا دو‘‘ ،آپ ﷺ فرماتے ہیں:’’ پھر جنت کی ہوا اور اس کی خوشبو آنے لگتی ہے ، اور تا حد نگاہ اس کے لئے قبر کشادہ کر دی جاتی ہے‘‘۔
اور رہا کافر تو آپ ﷺ نے اس کی موت کا ذکر کیا اور فرمایا: ’’ اس کی روح اس کے جسم میں لوٹا دی جاتی ہے ، اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں ،اسے اٹھا تے ہیں اور پوچھتے ہیں: تمہارا رب کون ہے ؟ وہ کہتا ہے : ہا ہا ! مجھے نہیں معلوم، وہ دونوں اس سے پوچھتے ہیں: یہ آدمی کون ہے جو تم میں بھیجا گیا تھا ؟وہ کہتا ہے: ہا ہا ! مجھے نہیں معلوم، پھر وہ دونوں اس سے پوچھتے ہیں: تمہارا دین کیا ہے ؟ وہ کہتا ہے : ہا ہا ! مجھے نہیں معلوم ، تو پکا رنے والا آسما ن سے پکارتا ہے : اس نے جھوٹ کہا ، اس کے لئے جہنم کا بچھونا بچھا دو اورجہنم کا لباس پہنا دو، اور اس کے لئے جہنم کی طرف دروازہ کھول دو، تو اس کی تپش اور اس کی زہریلی ہوا ( لو ) آنے لگتی ہے اور اس کی قبرتنگ کر دی جاتی ہے یہاں تک کہ اس کی پسلیاں ادھر سے ادھر ہو جاتی ہیں‘‘، جریر کی روایت میں یہ اضافہ ہے: ’’پھر اس پر ایک اندھا گونگا (فرشتہ) مقرر کر دیا جاتا ہے ، اس کے ساتھ لوہے کا ایک گرز ہوتا ہے اگر وہ اسے کسی پہاڑ پر بھی مارے تو وہ بھی خاک ہو جائے ، چنانچہ وہ اسے اس کی ایک ضرب لگاتا ہے جس کو مشرق و مغرب کے درمیان کی ساری مخلوق سوائے آدمی و جن کے سنتی ہے اور وہ مٹی ہو جاتا ہے‘‘،آپ ﷺ فرماتے ہیں:’’ پھر اس میں روح لوٹا دی جاتی ہے‘‘۔


4754- حَدَّثَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ، حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ، حَدَّثَنَا الْمِنْهَالُ، عَنْ أَبِي عُمَرَ زَاذَانَ قَالَ: سَمِعْتُ الْبَرَاءَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ ، قَالَ، فَذَكَرَ نَحْوَهُ.
* تخريج: انظر ما قبلہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۵۸) (صحیح)
۴۷۵۴- ابو عمر زاذان کہتے ہیں کہ میں نے براء رضی اللہ عنہ کو نبی اکرمﷺ سے روایت کرتے سنا ، پھر انہوں نے اسی طرح کی حدیث ذکر کی ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
29- بَاب فِي الدَّجَّالِ
۲۹-باب: دجال کا بیان​


4756- حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّاءِ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ شَقِيقٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ سُرَاقَةَ، عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ بْنِ الْجَرَّاحِ، قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ ﷺ يَقُولُ: < إِنَّهُ لَمْ يَكُنْ نَبِيٌّ بَعْدَ نُوحٍ إِلا وَقَدْ أَنْذَرَ الدَّجَّالَ قَوْمَهُ، وَإِنِّي أُنْذِرُكُمُوهُ > فَوَصَفَهُ لَنَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ ، وَقَالَ: < لَعَلَّهُ سَيُدْرِكُهُ مَنْ قَدْ رَآنِي وَسَمِعَ كَلامِي > قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ! كَيْفَ قُلُوبُنَا يَوْمَئِذٍ؟ أَمِثْلُهَا الْيَوْمَ؟ قَالَ: < أَوْ خَيْرٌ >۔
* تخريج: ت/الفتن ۵۵ (۲۲۳۴)، (تحفۃ الأشراف: ۵۰۴۶) (ضعیف)
(اس کے راوی '' عبداللہ بن سراقہ ازدی'' کا سماع ابوعبیدہ بن جراح سے نہیں ہے)
۴۷۵۶- ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرمﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : ''نوح کے بعد کوئی ایسا نبی نہیں ہواجس نے اپنی قوم کو دجال سے نہ ڈرایا ہو اور میں بھی تمہیں اس سے ڈراتا ہوں''، پھر رسول اللہ ﷺ نے ہمارے سامنے اس کی صفت بیان کی اور فرمایا:'' شا ید اسے وہ شخص پا ئے جس نے مجھے دیکھا اور میری بات سنی'' ، لوگوں نے عرض کیا: اس دن ہمارے دل کیسے ہوں گے ؟ کیا اسی طرح جیسے آج ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا:''اس سے بھی بہتر'' (کیونکہ فتنہ و فساد کے باوجود ایمان پر قائم رہنا زیادہ مشکل ہے)۔


4757- حَدَّثَنَا مَخْلَدُ بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: قَامَ النَّبِيُّ ﷺ فِي النَّاسِ فَأَثْنَى عَلَى اللَّهِ بِمَا هُوَ أَهْلُهُ، فَذَكَرَ الدَّجَّالَ، فَقَالَ: $ إِنِّي لأُنْذِرُكُمُوهُ، وَمَا مِنْ نَبِيٍّ إِلا قَدْ أَنْذَرَهُ قَوْمَهُ، لَقَدْ أَنْذَرَهُ نُوحٌ قَوْمَهُ، وَلَكِنِّي سَأَقُولُ لَكُمْ فِيهِ قَوْلا لَمْ يَقُلْهُ نَبِيٌّ لِقَوْمِهِ: تَعْلَمُونَ أَنَّهُ أَعْوَرُ، وَأَنَّ اللَّهَ لَيْسَ بِأَعْوَرَ >۔
* تخريج: خ/الفتن ۲۶ (۷۱۲۷)، م/الفتن ۱۹ (۲۹۳۱)، ت/الفتن ۵۶ (۲۲۳۶)، (تحفۃ الأشراف: ۶۹۳۲)، وقد أخرجہ: حم (۲/۱۳۵، ۱۴۹) (صحیح)
۴۷۵۷- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ لوگوں میں کھڑے ہوئے ، اللہ کی لائق شان حمدوثنا بیان فرمائی ، پھر دجال کا ذکر کیا اور فرمایا: ''میں تمہیں اس سے ڈراتا ہوں ، کوئی نبی ایسا نہیں گزرا جس نے اپنی قوم کو اس سے ڈرایا نہ ہو ، نوح (علیہ السلام) نے بھی اپنی قوم کو اس سے ڈرا یا تھا ، لیکن میں تمہیں اس کے با رے میں ایسی بات بتا رہا ہوں جو کسی نبی نے اپنی قوم کو نہیں بتا ئی : وہ کانا ہو گا اور اللہ کانا نہیں ہے''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
30- بَاب فِي قَتْلِ الْخَوَارِجِ
۳۰-باب: خوارج کے قتل کا بیان ۱؎​


4758- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ وَأَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ وَمَنْدَلٌ، عَنْ مُطَرِّفٍ، عَنْ أَبِي جَهْمٍ، عَنْ خَالِدِ بْنِ وَهْبَانَ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : <مَنْ فَارَقَ الْجَمَاعَةَ شِبْرًا فَقَدْ خَلَعَ رِبْقَةَ الإِسْلامِ مِنْ عُنُقِهِ >۔
* تخريج: تفردبہ ، أبوداود، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۹۰۸)، وقد أخرجہ: حم (۵/۱۸۰) (صحیح)
۴۷۵۸- ابو ذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ جس نے جماعت ۲؎سے ایک بالشت بھی علیحدگی اختیار کی تو اس نے اسلام کا قلادہ اپنی گردن سے اتار پھینکا‘‘۔
وضاحت ۱؎ : خوارج جمع ہے خارجی کی، یہ ایک گمراہ فرقہ ہے، یہ لوگ علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے پھر ان کے لشکر سے نکل کر فاسد عقیدے اختیار کئے اور آپ کے خلاف قتال کیا، ان کاعقیدہ ہے: کبیرہ گناہ کا مرتکب کافر ہے، یہ لوگ علی ،عثمان، معاویہ اور عائشہ رضی اللہ عنہم وغیرہم کی تکفیر کرتے ہیں، علی اور معاویہ نے ان لوگوں سے قتال کیا اور ان کے فتنہ کا سد باب کیا۔
وضاحت ۲؎ : امام جماعت سے یا مسلمانوں کے اجتماعی معاملہ سے علیحدگی اختیار کی وہ گمراہی و ہلاکت کا شکار ہوا۔


4759- حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ النُّفَيْلِيُّ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، حَدَّثَنَا مُطَرِّفُ بْنُ طَرِيفٍ، عَنْ أَبِي الْجَهْمِ، عَنْ خَالِدِ بْنِ وَهْبَانَ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < كَيْفَ أَنْتُمْ وَأَئِمَّةٌ مِنْ بَعْدِي يَسْتَأْثِرُونَ بِهَذَا الْفَيْئِ ؟ > قُلْتُ: إِذَنْ وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ أَضَعُ سَيْفِي عَلَى عَاتِقِي ثُمَّ أَضْرِبُ بِهِ حَتَّى أَلْقَاكَ، أَوْ أَلْحَقَكَ، قَالَ: $ أَوَ لا أَدُلُّكَ عَلَى خَيْرٍ مِنْ ذَلِكَ؟ تَصْبِرُ حَتَّى تَلْقَانِي >۔
* تخريج: تفردبہ أبوداود، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۹۰۸)، وقد أخرجہ: حم (۵/۱۷۹، ۱۸۰) (ضعیف)
(اس کے راوی ’’خالد بن وھبان‘‘ مجہول ہیں)
۴۷۵۹- ابو ذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’تمہارا کیا حال ہو گا ۱؎جب میرے بعد حکمراں اس مال فئی کو اپنے لئے مخصوص کر لیں گے‘‘ ، میں نے عرض کیا: تب تو اس ذات کی قسم ، جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے ، میں اپنی تلوار اپنے کندھے پر رکھوں گا ،پھر اس سے ان کے ساتھ لڑوں گا یہاں تک کہ میں آپ سے ملاقات کروں یا آملوں ، آپ ﷺ نے فرمایا:’’ کیا میں تمہیں اس سے بہتر چیز نہ بتائوں ؟ تم صبر کرنا یہاں تک کہ تم مجھ سے آملو‘‘۔
وضاحت ۱؎ : تم کیا کرو گے؟ صبر کرو گے یا قتال۔


4760- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ وَسُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ، الْمَعْنَى، قَالا: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنِ الْمُعَلَّى بْنِ زِيَادٍ وَهِشَامِ بْنِ حَسَّانَ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ ضَبَّةَ بْنِ مِحْصَنٍ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ ﷺ ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < سَتَكُونُ عَلَيْكُمْ أَئِمَّةٌ تَعْرِفُونَ مِنْهُمْ وَتُنْكِرُونَ، فَمَنْ أَنْكَرَ >.- قَالَ أَبو دَاود: قَالَ هِشَامٌ:- < بِلِسَانِهِ فَقَدْ بَرِءَ، وَمَنْ كَرِهَ بِقَلْبِهِ فَقَدْ سَلِمَ، وَلَكِنْ مَنْ رَضِيَ وَتَابَعَ > فَقِيلَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! أَفَلا نَقْتُلُهُمْ؟- قَالَ ابْنُ دَاوُدَ: < أَفَلا نُقَاتِلُهُمْ >- قَالَ: < لا، مَا صَلَّوْا >۔
* تخريج: م/الإمارۃ ۱۶ (۱۸۵۴)، ت/الفتن ۷۸ (۲۲۶۵)، (تحفۃ الأشراف: ۱۸۱۶۶)، وقد أخرجہ: حم (۶/۲۹۵، ۳۰۲، ۳۰۵، ۳۲۱) (صحیح)
۴۷۶۰- ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’عنقریب تم پر ایسے حاکم ہوں گے جن سے تم معروف(نیک اعمال) ہو تے بھی دیکھو گے اور منکر(خلاف شرع امور)بھی دیکھو گے،تو جس نے منکر کا انکار کیا،(ابو داود کہتے ہیں: ہشام کی روایت میں بلسانہ کا لفظ بھی ہے ( جس نے منکر کا ) اپنی زبان سے انکار کیا) تو وہ بری ہو گیا اور جس نے دل سے برا جانا وہ بھی بچ گیا، البتّہ جس نے اس کا م کو پسند کیا اور اس کی پیر وی کی تو وہ بچ نہ سکے گا‘‘ ، عرض کیا گیا: اللہ کے رسول! کیا ہم انہیں قتل نہ کر دیں؟( سلیمان ابن داود طیالسی) کی روایت میں ہے: کیا ہم ان سے قتال نہ کریں؟) آپ ﷺ نے فرمایا: ’’ نہیں جب تک کہ وہ صلاۃ پڑھتے رہیں‘‘ ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : منکر اور خلاف شرع کام کا انکار کرنا زبان سے نفاق سے براءت دلاتا ہے، اور جو شخص دل سے برا جانتا اور اس میں شریک نہیں ہوتا وہ گناہ سے بچ جاتا ہے، لیکن جو پسند کرے اور اس میں شریک ہو تو وہ انہی جیسا ہے۔


4761- حَدَّثَنَا ابْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي عَنْ قَتَادَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْحَسَنُ، عَنْ ضَبَّةَ بْنِ مِحْصَنٍ الْعَنَزِيِّ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ ، بِمَعْنَاهُ، قَالَ: < فَمَنْ كَرِهَ فَقَدْ بَرِءَ، وَمَنْ أَنْكَرَ فَقَدْ سَلِمَ >، قَالَ قَتَادَةُ: يَعْنِي مَنْ أَنْكَرَ بِقَلْبِهِ، وَمَنْ كَرِهَ بِقَلْبِهِ۔
* تخريج: انظر ما قبلہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۸۱۶۶) (صحیح)
۴۷۶۱- اس سندسے بھی ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے نبی اکرمﷺ سے اسی مفہوم کی حدیث روایت کی ہے ، البتہ اس میں یہ ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’ جس نے ناپسند کیا تو وہ بری ہوگیا اور جس نے کھل کر انکار کر دیا تو وہ محفوظ ہو گیا‘‘ ، قتادہ کہتے ہیں: مطلب یہ ہے کہ جس نے دل سے اس کا انکار کیا اور جس نے دل سے اسے نا پسند کیا۔


4762- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ زِيَادِ بْنِ عِلاقَةَ، عَنْ عَرْفَجَةَ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: < سَتَكُونُ فِي أُمَّتِي هَنَاتٌ وَهَنَاتٌ وَهَنَاتٌ، فَمَنْ أَرَادَ أَنْ يُفَرِّقَ أَمْرَ الْمُسْلِمِينَ وَهُمْ جَمِيعٌ فَاضْرِبُوهُ بِالسَّيْفِ، كَائِنًا مَنْ كَانَ >۔
* تخريج: م/الإمارۃ ۱۴ (۱۸۵۲)، ن/المحاربۃ ۶ (۴۰۲۵)، (تحفۃ الأشراف: ۹۸۹۶)، وقد أخرجہ: حم (۴/۲۴) (صحیح)
۴۷۶۲- عر فجہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا: ’’میری امت میں کئی بار شروفساد ہوں گے، تو متحد مسلمانوں کے شِرازہ کو منتشر کرنے والے کی گردن تلوار سے اڑا دو خواہ وہ کوئی بھی ہو‘‘۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
31- بَاب فِي قِتَالِ الْخَوَارِجِ
۳۱-باب: خوارج سے قتال کا بیان​


4763- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ وَمُحَمَّدُ بْنُ عِيسَى، الْمَعْنَى، قَالا: حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَبِيدَةَ، أَنَّ عَلِيًّا ذَكَرَ أَهْلَ النَّهْرَوَانِ فَقَالَ: فِيهِمْ رَجُلٌ مُودَنُ الْيَدِ، أَوْ مُخْدَجُ الْيَدِ، أَوْ مَثْدُونُ الْيَدِ، لَوْلا أَنْ تَبْطَرُوا لَنَبَّأْتُكُمْ مَا وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ يَقْتُلُونَهُمْ عَلَى لِسَانِ مُحَمَّدٍ ﷺ ، قَالَ: قُلْتُ: أَنْتَ سَمِعْتَ هَذَا مِنْهُ؟ قَالَ: قَالَ: إِي وَرَبِّ الْكَعْبَةِ۔
* تخريج: م/الزکاۃ ۴۸ (۱۰۶۶)، ق/المقدمۃ ۱۲ (۱۶۷)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۲۳۳)، وقد أخرجہ: حم (۱/۸۳، ۹۵، ۱۴۴، ۱۵۵، ۱۱۳، ۱۲۱، ۱۲۲) (صحیح)
۴۷۶۳- عبیدہ سے روایت ہے کہ علی رضی اللہ عنہ نے اہل نہروان ۱؎ کا ذکر کیا اور کہا: ان میں چھوٹے ہاتھ کا ایک آدمی ہے ، اگر مجھے تمہارے اترا نے کا اندیشہ نہ ہو تا تو میں تمہیں بتا تا کہ اللہ تعالیٰ نے محمد ﷺ کی زبا ن سے کس چیز کاوعدہ کیا ہے ان لوگوں کے لئے جو ان سے جنگ کریں گے،راوی کہتے ہیں: میں نے کہا: کیا آپ نے اسے اللہ کے رسول ﷺ سے سناہے؟ انہوں نے کہا: ہاں رب کعبہ کی قسم۔
وضاحت ۱؎ : بغداد اور واسط کے درمیان تین گاؤں ہیں جن میں ایک اونچائی پر ہے دوسرا درمیان میں اور تیسرا نشیب میں ،اسی جگہ امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ نے خوارج کے ساتھ جنگ کی۔


4764- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ ابْنِ أَبِي نُعْمٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ: بَعَثَ عَلِيٌّ عَلَيْهِ السَّلام إِلَى النَّبِيِّ ﷺ بِذُهَيْبَةٍ فِي تُرْبَتِهَا، فَقَسَّمَهَا بَيْنَ أَرْبَعَةٍ: بَيْنَ الأَقْرَعِ بْنِ حَابِسٍ الْحَنْظَلِيِّ ثُمَّ الْمُجَاشِعِيِّ، وَبَيْنَ عُيَيْنَةَ بْنِ بَدْرٍ الْفَزَارِيِّ، وَبَيْنَ زَيْدِ الْخَيْلِ الطَّائِيِّ ثُمَّ أَحَدِ بَنِي نَبْهَانَ، وَبَيْنَ عَلْقَمَةَ بْنِ عُلاثَةَ الْعَامِرِيِّ ثُمَّ أَحَدِ بَنِي كِلابٍ، قَالَ: فَغَضِبَتْ قُرَيْشٌ وَالأَنْصَارُ، وَقَالَتْ: يُعْطِي صَنَادِيدَ أَهْلِ نَجْدٍ وَيَدَعُنَا، فَقَالَ: < إِنَّمَا أَتَأَلَّفُهُمْ > قَالَ: فَأَقْبَلَ رَجُلٌ غَائِرُ الْعَيْنَيْنِ مُشْرِفُ الْوَجْنَتَيْنِ نَاتِئُ الْجَبِينِ كَثُّ اللِّحْيَةِ مَحْلُوقٌ، قَالَ: اتَّقِ اللَّهَ يَا مُحَمَّدُ! فَقَالَ: <مَنْ يُطِيعُ اللَّهَ إِذَا عَصَيْتُهُ، أَيَأْمَنُنِي اللَّهُ عَلَى أَهْلِ الأَرْضِ وَلا تَأْمَنُونِي؟! > قَالَ: فَسَأَلَ رَجُلٌ قَتْلَهُ أَحْسِبُهُ خَالِدَ بْنَ الْوَلِيدِ، قَالَ: فَمَنَعَهُ، قَالَ: فَلَمَّا وَلَّى قَالَ: < إِنَّ مِنْ ضِئْضِئِ هَذَا، أَوْ فِي عَقِبِ هَذَا، قَوْمًا يَقْرَئُونَ الْقُرْآنَ لا يُجَاوِزُ حَنَاجِرَهُمْ، يَمْرُقُونَ مِنَ الإِسْلامِ مُرُوقَ السَّهْمِ مِنَ الرَّمِيَّةِ، يَقْتُلُونَ أَهْلَ الإِسْلامِ وَيَدَعُونَ أَهْلَ الأَوْثَانِ، لَئِنْ أَنَا أَدْرَكْتُهُمْ قَتَلْتُهُمْ قَتْلَ عَادٍ >۔
* تخريج: خ/الأنبیاء ۶ (۴۶۶۷)، المغازي ۶۱ (۴۳۵۱)، تفسیرالتوبۃ ۱۰ (۳۳۴۴)، التوحید ۲۳ (۷۴۳۲)، م/الزکاۃ ۴۷ (۱۰۶۳)، ن/الزکاۃ ۷۹ (۲۵۷۹)، التحریم ۲۲ (۴۱۰۶)، (تحفۃ الأشراف: ۴۱۳۲)، وقد أخرجہ: حم (۳/۴، ۳۱، ۶۸، ۷۲، ۷۳) (صحیح)
۴۷۶۴- ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : علی رضی اللہ عنہ نے نبی اکرمﷺ کے پاس مٹی سے آلودہ سونے کا ایک ٹکڑا بھیجا ۱؎ ، آپ ﷺ نے اسے چا ر لوگوں :اقر ع بن حابس حنظلی مجا شعی ، عیینہ بن بد ر فزاری ، زید الخیل طائی جو بنی نبہان کے ایک فرد ہیں اور علقمہ بن علا ثہ عا مری جو بنی کلاب سے ہیں کے درمیان تقسیم کردیا، اس پر قریش اور انصار کے لوگ ناراض ہوگئے اورکہنے لگے: آپ اہل نجد کے رئیسوں کو دیتے ہیں اور ہمیں چھوڑ دیتے ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا: ''میں ان کی تالیف قلب کرتا ہوں'' ، اتنے میں ایک شخص آیا ( جس کی آنکھیں دھنسی ہوئی ، رخسا ر ابھرے ہوئے اور پیشانی بلند ، دا ڑھی گھنی اور سر منڈا ہوا تھا) اور کہنے لگا:اے محمد! اللہ سے ڈرو ، آپ ﷺ نے فرمایا:'' جب میں ہی اس کی نافرمانی کر نے لگوں گا تو کو ن اس کی فرمانبر داری کرے گا، اللہ تو زمین والوں میں مجھے امانت دارسمجھتا ہے اور تم مجھے اما نت دا ر نہیں سمجھتے ؟ ''، تو ایک شخص نے اس کے قتل کی اجازت چاہی، میرا خیال ہے وہ خالد بن ولید رضی اللہ عنہ تھے ، تو آپ ﷺ نے منع فرمایا، اور جب وہ لوٹ گیا تو آپ نے فرمایا: ''اس کی نسل میں کچھ ایسے لوگ ہوں گے جو قرآن پڑھیں گے ، وہ ان کے گلوں سے نیچے نہیں اترے گا ، وہ اسلام سے اسی طرح نکل جائیں گے جیسے تیراس شکار کے جسم سے نکل جاتا ہے جسے تیر ماراجاتا ہے، وہ اہل اسلام کو قتل کر یں گے ا ور بت پوجنے والوں کو چھوڑ دیں گے ، اگر میں نے انہیں پا یا تو میں انہیں قوم عا د کی طرح قتل کروں گا'' ۲؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یعنی جس طرح زمیں سے نکلا ویسے ہی مٹی سمیت بھیج دیا۔
وضاحت ۲ ؎ : یہ حدیث خوارج کے سلسلہ میں ہے، اعتراض کرنے والا خارجیوں کا سردار ہوا،ایک بات اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوئی کہ نبی کریم ﷺ نے جن لوگوں کو مال دیا تھا وہ نجدی تھے، اور یہ شخص نجدی نہیں تھا، اسی نے ''یا محمد'' کہا جوآج اہل بدعت نے اپنا شعار بنا رکھا ہے، ان لوگوں کو علی رضی اللہ عنہ نے مقام نہروان میں قتل کیا ،آپ ﷺ کے فرمان کہ میں قوم عاد کی طرح قتل کروں گا کا مطلب یہ ہے کہ ان کو نیست ونابود کردوں گا، جیسے قوم عاد نیست و نابود ہوگئی، قوم عاد سے مشابہت صرف کلی ہلاکت میں ہے۔


4765- حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَاصِمٍ الأَنْطَاكِيُّ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ وَمُبَشِّرٌ -يَعْنِي ابْنَ إِسْمَاعِيلَ- الْحَلَبِيَّ، عَنْ أَبِي عَمْرٍو، قَالَ -يَعْنِي الْوَلِيدَ-: حَدَّثَنَا أَبُو عَمْرٍو، قَالَ: حَدَّثَنِي قَتَادَةُ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ وَأَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ قَالَ: <سَيَكُونُ فِي أُمَّتِي اخْتِلافٌ وَفُرْقَةٌ، قَوْمٌ يُحْسِنُونَ الْقِيلَ وَيُسِيئُونَ الْفِعْلَ، يَقْرَئُونَ الْقُرْآنَ لا يُجَاوِزُ تَرَاقِيَهُمْ، يَمْرُقُونَ مِنَ الدِّينِ مُرُوقَ السَّهْمِ مِنَ الرَّمِيَّةِ، لا يَرْجِعُونَ حَتَّى يَرْتَدَّ عَلَى فُوقِهِ، هُمْ شَرُّ الْخَلْقِ وَالْخَلِيقَةِ، طُوبَى لِمَنْ قَتَلَهُمْ وَقَتَلُوهُ، يَدْعُونَ إِلَى كِتَابِ اللَّهِ وَلَيْسُوا مِنْهُ فِي شَيْئٍ، مَنْ قَاتَلَهُمْ كَانَ أَوْلَى بِاللَّهِ مِنْهُمْ > قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا سِيمَاهُمْ؟ قَالَ: < التَّحْلِيقُ > ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، انظر ما قبلہ ومابعدہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۱۲) (صحیح)
(قتادۃ کا ابوسعیدخدری سے سماع نہیں ہے،ہاں، انس سے ثابت ہے)
۴۷۶۵- ابو سعید خدری اور انس بن مالک رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: '' میری امت میں اختلاف اور تفرقہ ہوگا،کچھ ایسے لوگ ہوں گے، جو باتیں اچھی کریں گے لیکن کام برے کریں گے، وہ قرآن پڑھیں گے لیکن وہ ان کے حلق سے نیچے نہ اترے گا ، وہ دین سے اسی طرح نکل جائیں گے جس طرح تیر شکار سے نکل جاتا ہے،وہ (اپنی روش سے) باز نہیں آئیں گے جب تک تیر سوفار(اپنی ابتدائی جگہ) پر الٹا نہ آجائے ۱؎ ، وہ سب لوگوں اور مخلوقات میں بد ترین لوگ ہیں، بشارت ہے اس کے لئے جو انہیں قتل کرے یا جسے وہ قتل کر یں ، وہ کتاب اللہ کی طرف بلائیں گے ، حا لا نکہ وہ اس کی کسی چیز سے کچھ بھی تعلق نہیں رکھتے ہوں گے، جو ان سے قتال کرے گا ، وہ لوگوں میں سب سے زیادہ اللہ سے قریب ہو گا''، لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ان کی نشانی کیا ہوگی؟ آپ ﷺ نے فرمایا: '' سر منڈانا'' ۲؎ ۔
وضاحت ۱؎ : جس طرح تیر کا سوفار پر واپس آنا محال ہے اسی طرح ان کی دین کی طرف واپسی محال ہے۔
وضاحت ۲؎ : بعض لوگوں نے سر منڈانے کو اس حدیث سے مکروہ خیال کیا ہے حالانکہ ایسا نہیں ہے، یہ ان کی علامت ہوگی اور علامت ونشانی اچھی وبری دونوں ہوتی ہے، رسول اکرمﷺ نے ایک بچہ دیکھا کہ اس کا آدھا سر مونڈا ہوا ہے تو آپ نے فرمایا:''اس کا پورا سرمونڈ دو یا پورا چھوڑ دیا کرو''، خود علی رضی اللہ عنہ جنہوں نے خوارج سے طویل معرکہ آرائی کی اپنا سر منڈوایا کرتے تھے، سر مونڈنے کوعلامت ونشانی کے لئے اختیار کرنا یہ خوارج کی علامت ہے، کبھی کبھی یا بوقت ضرورت سر منڈانا جائز ہے،(قالہ النووی)۔


4766- حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ ، نَحْوَهُ، قَالَ: < سِيمَاهُمُ التَّحْلِيقُ وَالتَّسْبِيدُ، فَإِذَا رَأَيْتُمُوهُمْ فَأَنِيمُوهُمْ >.
[قَالَ ابو داود: التَّسْبِيدُ: اسْتِئْصَالُ الشَّعْرِ] ۔
* تخريج: ق/المقدمۃ ۱۲ (۱۷۵)، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۳۷)، وقد أخرجہ: حم (۳/۱۹۷) (صحیح)
۴۷۶۶- انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اسی طرح فرمایا، البتہ اس میں یہ ہے کہ آپ نے فرمایا: ''ان کی علامت سر منڈانا اور بالوں کو جڑ سے ختم کرنا ہے ، لہٰذا جب تم انہیں دیکھو تو انہیں قتل کر دو''۔
ابو داود کہتے ہیں: تسبید : بال کو جڑ سے ختم کرنے کو کہتے ہیں۔


4767- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ، عَنْ خَيْثَمَةَ، عَنْ سُوَيْدِ بْنِ غَفَلَةَ قَالَ: قَالَ عَلِيٌّ رَضِيِ اللَّهُ عَنْهُ: إِذَا حَدَّثْتُكُمْ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ حَدِيثًا فَلأَنْ أَخِرَّ مِنَ السَّمَاءِ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ أَكْذِبَ عَلَيْهِ، وَإِذَا حَدَّثْتُكُمْ فِيمَا بَيْنِي وَبَيْنَكُمْ فَإِنَّمَا الْحَرْبُ خَدْعَةٌ، سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: < يَأْتِي فِي آخِرِ الزَّمَانِ قَوْمٌ حُدَثَاءُ الأَسْنَانِ، سُفَهَاءُ الأَحْلامِ، يَقُولُونَ مِنْ قَوْلِ خَيْرِ الْبَرِيَّةِ، يَمْرُقُونَ مِنَ الإِسْلامِ كَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِيَّةِ، لا يُجَاوِزُ إِيمَانُهُمْ حَنَاجِرَهُمْ، فَأَيْنَمَا لَقِيتُمُوهُمْ فَاقْتُلُوهُمْ؛ فَإِنَّ قَتْلَهُمْ أَجْرٌ لِمَنْ قَتَلَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ >۔
* تخريج: خ/المناقب ۲۵ (۳۶۱۱)، وفضائل القرآن ۳۶ (۵۰۵۷)، والمرتدین ۶ (۶۹۳۰)، م/الزکاۃ ۴۸ (۱۰۶۶)، ن/المحاربۃ ۲۲ (۴۱۰۷)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۱۲۱)، وقد أخرجہ: حم (۱/۸۱، ۱۱۳، ۱۳۱) (صحیح)
۴۷۶۷- سوید بن غفلہ کہتے ہیں کہ علی رضی اللہ عنہ نے کہا: جب میں رسول اللہ ﷺ کی کوئی حدیث تم سے بیان کروں تو آسمان سے میرا گر جا نا مجھے اس بات سے زیادہ محبوب ہے کہ میں آپ پر جھوٹ بولوں ، اور جب میں تم سے اس کے متعلق کوئی بات کروں جو ہمارے اور تمہارے درمیان ہے تو جنگ چالاکی وفریب دہی ہوتی ہی ہے ، میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا: ''آخری زمانے میں کچھ ایسے لوگ آئیں گے جو کم عمر اور کم عقل ہوں گے، جو تمام مخلوقات میں بہتر شخص کی طرح باتیں کریں گے ، وہ اسلام سے اس طرح نکل جائیں گے جس طرح تیر شکار سے نکل جاتا ہے ، ان کا ایمان ان کی گردنوں سے نیچے نہ اترے گا ، لہٰذا جہاں کہیں تم ان سے ملو تم انہیں قتل کر دو ، اس لئے کہ ان کا قتل کر نا ، قیامت کے روز اس شخص کے لئے اجر و ثواب کا باعث ہوگا جو انہیں قتل کرے گا''۔


4768- حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّزَّاقِ، عَنْ عَبْدِالْمَلِكِ بْنِ أَبِي سُلَيْمَانَ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي زَيْدُ بْنُ وَهْبٍ الْجُهَنِيُّ، أَنَّهُ كَانَ فِي الْجَيْشِ الَّذِينَ كَانُوا مَعَ عَلِيٍّ عَلَيْهِ السَّلام الَّذِينَ سَارُوا إِلَى الْخَوَارِجِ، فَقَالَ عَلِيٌّ عَلَيْهِ السَّلام: أَيُّهَا النَّاسُ، إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: < يَخْرُجُ قَوْمٌ مِنْ أُمَّتِي يَقْرَئُونَ الْقُرْآنَ لَيْسَتْ قِرَائَتُكُمْ إِلَى قِرَائَتِهِمْ شَيْئًا، وَلا صَلاتُكُمْ إِلَى صَلاتِهِمْ شَيْئًا، وَلاصِيَامُكُمْ إِلَى صِيَامِهِمْ شَيْئًا، يَقْرَئُونَ الْقُرْآنَ يَحْسِبُونَ أَنَّهُ لَهُمْ وَهُوَ عَلَيْهِمْ، لاتُجَاوِزُ صَلاتُهُمْ تَرَاقِيَهُمْ، يَمْرُقُونَ مِنَ الإِسْلامِ كَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِيَّةِ، لَوْ يَعْلَمُ الْجَيْشُ الَّذِينَ يُصِيبُونَهُمْ مَا قُضِيَ لَهُمْ عَلَى لِسَانِ نَبِيِّهِمْ ﷺ لَنَكَلُوا عَنِ الْعَمَلِ، وَآيَةُ ذَلِكَ أَنَّ فِيهِمْ رَجُلا لَهُ عَضُدٌ وَلَيْسَتْ لَهُ ذِرَاعٌ، عَلَى عَضُدِهِ مِثْلُ حَلَمَةِ الثَّدْيِ، عَلَيْهِ شَعَرَاتٌ بِيضٌ > أَفَتَذْهَبُونَ إِلَى مُعَاوِيَةَ وَأَهْلِ الشَّامِ وَتَتْرُكُونَ هَؤُلاءِ يَخْلُفُونَكُمْ فِي ذَرَارِيِّكُمْ وَأَمْوَالِكُمْ؟ وَاللَّهِ إِنِّي لأَرْجُو أَنْ يَكُونُوا هَؤُلاءِ الْقَوْمَ؛ فَإِنَّهُمْ قَدْ سَفَكُوا الدَّمَ الْحَرَامَ، وَأَغَارُوا فِي سَرْحِ النَّاسِ، فَسِيرُوا عَلَى اسْمِ اللَّهِ، قَالَ سَلَمَةُ بْنُ كُهَيْلٍ: فَنَزَّلَنِي زَيْدُ بْنُ وَهْبٍ مَنْزِلا مَنْزِلا، حَتَّى مَرَّ بِنَا عَلَى قَنْطَرَةٍ، قَالَ: فَلَمَّا الْتَقَيْنَا وَعَلَى الْخَوَارِجِ عَبْدُاللَّهِ بْنُ وَهْبٍ الرَّاسِبِيُّ فَقَالَ لَهُمْ: أَلْقُوا الرِّمَاحَ وَسُلُّوا السُّيُوفَ مِنْ جُفُونِهَا، فَإِنِّي أَخَافُ أَنْ يُنَاشِدُوكُمْ كَمَا نَاشَدُوكُمْ يَوْمَ حَرُورَاءَ، قَالَ: فَوَحَّشُوا بِرِمَاحِهِمْ، وَاسْتَلُّوا السُّيُوفَ، وَشَجَرَهُمُ النَّاسُ بِرِمَاحِهِمْ، قَالَ: وَقَتَلُوا بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضِهِمْ، قَالَ: وَمَا أُصِيبَ مِنَ النَّاسِ يَوْمَئِذٍ إِلا رَجُلانِ، فَقَالَ عَلِيٌّ عَلَيْهِ السَّلامُ: الْتَمِسُوا فِيهِمُ الْمُخْدَجَ، فَلَمْ يَجِدُوا، قَالَ: فَقَامَ عَلِيٌّ رَضِي اللَّه عَنْه بِنَفْسِهِ، حَتَّى أَتَى نَاسًا قَدْ قُتِلَ بَعْضُهُمْ عَلَى بَعْضٍ، فَقَالَ: أَخْرِجُوهُمْ، فَوَجَدُوهُ مِمَّا يَلِي الأَرْضَ، فَكَبَّرَ، وَقَالَ: صَدَقَ اللَّهُ، وَبَلَّغَ رَسُولُهُ، فَقَامَ إِلَيْهِ عَبِيدَةُ السَّلْمَانِيُّ فَقَالَ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ! [وَ] اللَّهِ الَّذِي لا إِلَهَ إِلا هُوَ لَقَدْ سَمِعْتَ هَذَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ ؟ فَقَالَ: إِي وَاللَّهِ الَّذِي لاإِلَهَ إِلا هُوَ، حَتَّى اسْتَحْلَفَهُ ثَلاثًا، وَهُوَ يَحْلِفُ ۔
* تخريج: م/ الزکاۃ ۴۸ (۱۰۶۶)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۱۰۰)، وقد أخرجہ: حم (۱/۹۰) (صحیح)
۴۷۶۸- زید بن وہب جہنی بیان کرتے ہیں کہ وہ اس فوج میں شامل تھے جو علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھی، اور جو خوارج کی طرف گئی تھی، علی نے کہا: اے لوگو! میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے:'' میری امت میں کچھ لوگ ایسے نکلیں گے کہ وہ قر آن پڑھیں گے، تمہارا پڑھنا ان کے پڑھنے کے مقابلے کچھ نہ ہو گا ، نہ تمہاری صلاۃ ان کی صلاۃ کے مقابلے کچھ ہو گی، اور نہ ہی تمہارا صیام ان کے روزے کے مقابلے کچھ ہو گا، وہ قرآن پڑھیں گے ، اور سمجھیں گے کہ وہ ان کے لئے ( ثواب) ہے حالاں کہ وہ ان پر (عذاب ) ہو گا ، ان کی صلاۃ ان کے حلق سے نیچے نہ اترے گی ، وہ اسلام سے نکل جائیں گے ، جس طرح تیرشکار سے نکل جاتا ہے ، اگر ان لوگوں کو جو انہیں قتل کر یں گے ، یہ معلوم ہو جائے کہ ان کے لئے ان کے نبی اکرمﷺ کی زبا نی کس چیز کا فیصلہ کیا گیا ہے ، تو وہ ضر ور اسی عمل پر بھروسا کرلیں گے ( اور دوسرے نیک اعمال چھوڑ بیٹھیں گے) ان کی نشانی یہ ہے کہ ان میں ایک ایسا آدمی ہوگا جس کے بازو ہو گا ، لیکن ہاتھ نہ ہو گا، اس کے بازو پر پستان کی گھنڈی کی طرح ایک گھنڈی ہو گی، اس کے اوپر کچھ سفید بال ہوں گے''، تو کیا تم لوگ معاویہ اور ہل شام سے لڑ نے جائوگے ، اور انہیں اپنی اولاد اور اسباب پر چھو ڑدو گے (کہ وہ ان پر قبضہ کریں اور انہیں برباد کریں) اللہ کی قسم مجھے امید ہے کہ یہی وہ لوگ ہیں ( جن کے بارے میں نبی اکرمﷺ کا فرمان ہے ) اس لئے کہ انہوں نے ناحق خون بہایا ہے، لوگوں کی چراگاہوں پر شب خون مارا ہے ، چلو اللہ کے نام پر ۔
سلمہ بن کہیل کہتے ہیں : پھر زید بن وہب نے مجھے ایک ایک مقام بتا یا ( جہاں سے ہو کر وہ خارجیوں سے لڑ نے گئے تھے) یہاں تک کہ وہ ہمیں لے کر ایک پل سے گزرے۔
وہ کہتے ہیں: جب ہماری مڈ بھیڑ ہوئی تو خارجیوں کا سردا رعبداللہ بن وہب راسبی تھا اس نے ان سے کہا : نیزے پھینک دو اور تلواروں کو میان سے کھینچ لو، مجھے اندیشہ ہے کہ کہیں وہ تم سے اسی طرح صلح کا مطالبہ نہ کریں جس طرح انہوں نے تم سے حروراء کے دن کیا تھا ، چنانچہ انہوں نے اپنے نیز ے پھینک دئیے ،تلواریں کھینچ لیں، لوگوں (مسلمانوں ) نے انہیں اپنے نیزوں سے روکا اور انہوں نے انہیں ایک پر ایک کر کے قتل کیا اور ( مسلمانوں میں سے) اس دن صرف دو آدمی شہید ہوئے ، علی رضی اللہ عنہ نے کہا: ان میں مخدج یعنی لنجے کو تلاش کرو، لیکن وہ نہ پاسکے، تو آپ خود اٹھے اور ان لوگوں کے پاس آئے جو ایک پر ایک کرکے مارے گئے تھے ، آپ نے کہا: انہیں نکالو ، تو انہوں نے اسے دیکھا کہ وہ سب سے نیچے زمین پر پڑا ہے ،آپ نے نعرہ تکبیر بلند کیا اور بولے: اللہ نے سچ فرمایا اور اس کے رسول نے سا ری باتیں پہنچا دیں ۔
پھر عبیدہ سلمانی آپ کی طرف اٹھ کر آئے کہنے لگے: اے امیر المو منین ! قسم ہے اس ذات کی جس کے سوا کوئی لائق عبادت نہیں کیا آپ نے اسے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے ؟ وہ بولے : ہاں، اللہ کی قسم جس کے سوا کوئی لائق عبادت نہیں ، یہاں تک کہ انہوں نے انہیں تین بار قسم دلائی اور وہ (تینوں با ر) قسم کھاتے رہے۔


4769- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ جَمِيلِ بْنِ مُرَّةَ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو الْوَضِيئِ قَالَ: قَالَ عَلِيٌّ عَلَيْهِ السَّلام: اطْلُبُوا الْمُخْدَجَ، فَذَكَرَ الْحَدِيثَ، فَاسْتَخْرَجُوهُ مِنْ تَحْتِ الْقَتْلَى فِي طِينٍ، قَالَ أَبُو الْوَضِيئِ: فَكَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَيْهِ حَبَشِيٌّ عَلَيْهِ قُرَيْطِقٌ لَهُ إِحْدَى يَدَيْنِ مِثْلُ ثَدْيِ الْمَرْأَةِ عَلَيْهَا شُعَيْرَاتٌ مِثْلُ شُعَيْرَاتِ الَّتِي تَكُونُ عَلَى ذَنَبِ الْيَرْبُوعِ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۱۵۸)، وقد أخرجہ: حم (۱/۱۳۹، ۱۴۰، ۱۴۱)
(صحیح الإسناد)
۴۷۶۹- ابو الوضی کہتے ہیں کہ علی رضی اللہ عنہ نے کہا: مخدج ( لنجے ) کو تلاش کرو ، پھر راوی نے پوری حدیث بیان کی ، اس میں ہے: لوگوں نے اسے مٹی میں پڑے ہوئے مقتولین کے نیچے سے ڈھونڈ نکالا ،گویا میں اس کی طرف دیکھ رہا ہوں ، وہ ایک حبشی ہے چھوٹا سا کرتا پہنے ہوئے ہے، اس کا ایک ہاتھ عورت کے پستان کی طرح ہے ، جس پر ایسے چھوٹے چھوٹے بال ہیں ، جیسے جنگلی چوہے کی دم پر ہوتے ہیں۔


4770- حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا شَبَابَةُ بْنُ سَوَّارٍ، عَنْ نُعَيْمِ بْنِ حَكِيمٍ، عَنْ أَبِي مَرْيَمَ، قَالَ: إِنْ كَانَ ذَلِكَ الْمُخْدَجُ لَمَعَنَا يَوْمَئِذٍ فِي الْمَسْجِدِ، نُجَالِسُهُ بِاللَّيْلِ وَالنَّهَارِ، وَكَانَ فَقِيرًا، وَرَأَيْتُهُ مَعَ الْمَسَاكِينِ يَشْهَدُ طَعَامَ عَلِيٍّ عَلَيْهِ السَّلام مَعَ النَّاسِ وَقَدْ كَسَوْتُهُ بُرْنُسًا لِي.
قَالَ أَبُو مَرْيَمَ: وَكَانَ الْمُخْدَجُ يُسَمَّى نَافِعًا ذَا الثُّدَيَّةِ، وَكَانَ فِي يَدِهِ مِثْلُ ثَدْيِ الْمَرْأَةِ، عَلَى رَأْسِهِ حَلَمَةٌ مِثْلُ حَلَمَةِ الثَّدْيِ، عَلَيْهِ شُعَيْرَاتٌ مِثْلُ سِبَالَةِ السِّنَّوْرِ.
[قَالَ أَبو دَاود: وَهُوَ عِنْدَ النَّاسِ اسْمُهُ حَرْقُوسُ] ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۳۳۳) (ضعیف الإسناد)
(اس کے راوی ''نُعیم '' حافظہ کے کمزور راوی ہیں)
۴۷۷۰- ابو مریم کہتے ہیں کہ یہ مخدج( لنجا) مسجد میں اس دن ہمارے ساتھ تھا ہم اس کے ساتھ رات دن بیٹھا کرتے تھے ، وہ فقیر تھا، میں نے اسے دیکھا کہ وہ مسکینو ں کے ساتھ آکر علی رضی اللہ عنہ کے کھانے پر لوگوں کے ساتھ شریک ہوتا تھا اور میں نے اسے اپنا ایک کپڑا دیا تھا۔
ابو مریم کہتے ہیں : لوگ مخدج ( لنجے ) کو نا فع ذوالثدیہ ( پستان والا) کا نام دیتے تھے، اس کے ہاتھ میں عورت کے پستان کی طرح گوشت ابھرا ہوا تھا، اس کے سرے پر ایک گھنڈی تھی جیسے پستان میں ہوتی ہے اس پر بلی کی مونچھوں کی طرح چھوٹے چھوٹے بال تھے ۔
ابو داود کہتے ہیں:لوگوں کے نزدیک اس کا نام حرقوس تھا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
32- بَاب فِي قِتَالِ اللُّصُوصِ
۳۲-باب: چوروں سے مقابلہ کرنے کا بیان​


4771- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ سُفْيَانَ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَبْدُاللَّهِ بْنُ حَسَنٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَمِّي إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ طَلْحَةَ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ ، قَالَ: < مَنْ أُرِيدَ مَالُهُ بِغَيْرِ حَقٍّ فَقَاتَلَ فَقُتِلَ فَهُوَ شَهِيدٌ >۔
* تخريج: ت/الدیات ۲۲ (۱۴۲۰)، ن/المحاربۃ ۱۸ (۴۰۹۳)، ق/الحدود ۲۱ (۲۵۸۰)، (تحفۃ الأشراف: ۸۶۰۳)، وقد أخرجہ: خ/المظالم ۳۳ (۲۴۸۰)، م/الایمان ۶۲ (۲۲۵)، حم (۲ /۱۶۳، ۱۹۳، ۱۹۴، ۲۰۵، ۲۰۶، ۲۱۰، ۲۱۵، ۲۱۷، ۲۲۱، ۲۲۴) (صحیح)
۴۷۷۱-عبداللہ بن عمر و رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: ''جس کا مال لینے کا ناحق ارادہ کیا جائے اور وہ (اپنے مال کے بچانے کے لئے) لڑے اور مارا جائے تو وہ شہید ہے''۔


4772- حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الطَّيَالِسِيُّ [وَسُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ -يَعْنِي أَبَا أَيُّوبَ الْهَاشِمِيَّ-] عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَمَّارِ بْنِ يَاسِرٍ، عَنْ طَلْحَةَ بْنِ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عَوْفٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ زَيْدٍ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ ، قَالَ: < مَنْ قُتِلَ دُونَ مَالِهِ فَهُوَ شَهِيدٌ، وَمَنْ قُتِلَ دُونَ أَهْلِهِ أَوْ دُونَ دَمِهِ أَوْ دُونَ دِينِهِ فَهُوَ شَهِيدٌ >۔
* تخريج: ت/الدیات ۲۲ (۱۴۲۱)، ن/المحاربۃ ۱۸ (۴۰۹۵، ۴۰۹۶، ۴۰۹۹)، ق/الحدود ۲۱ (۲۵۸۰)، (تحفۃ الأشراف: ۴۴۵۶)، وقد أخرجہ: حم (۱/۱۸۷، ۱۸۸، ۱۸۹،۱۹۰) (صحیح)
۴۷۷۲- سعید بن زید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:'' جو اپنا مال بچانے میں مارا جائے وہ شہید ہے اور جو اپنے بال بچوں کو بچانے یا اپنی جان بچانے یا اپنے دین کو بچانے میں مارا جائے وہ بھی شہید ہے''۔



* * * * *​
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207

{ 35- أوَّلُ كِتَاب الأَدَبِ }
۳۵-کتاب: آداب و اخلا ق کا بیان


1- بَاب فِي الْحِلْمِ وَأَخْلاقِ النَّبِيِّ ﷺ
۱-باب: نبی اکرم ﷺ کے اخلاقِ کریمانہ اور تحمل و بُردباری کا بیان​


4773- حَدَّثَنَا مَخْلَدُ بْنُ خَالِدٍ [الشُّعَيْرِيُّ]، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ يُونُسَ، حَدَّثَنَا عِكْرِمَةُ -يَعْنِي ابْنَ عَمَّارٍ- قَالَ: حَدَّثَنِي إِسْحَقُ -يَعْنِي ابْنَ عَبْدِاللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ- قَالَ: قَالَ أَنَسٌ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ مِنْ أَحْسَنِ النَّاسِ خُلُقًا، فَأَرْسَلَنِي يَوْمًا لِحَاجَةٍ، فَقُلْتُ: وَاللَّهِ لا أَذْهَبُ -وَفِي نَفْسِي أَنْ أَذْهَبَ لِمَا أَمَرَنِي بِهِ نَبِيُّ اللَّهِ ﷺ - قَالَ: فَخَرَجْتُ، حَتَّى أَمُرَّ عَلَى صِبْيَانٍ وَهُمْ يَلْعَبُونَ فِي السُّوقِ، فَإِذَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ قَابِضٌ بِقَفَايَ مِنْ وَرَائِي فَنَظَرْتُ إِلَيْهِ وَهُوَ يَضْحَكُ فَقَالَ: < يَا أُنَيْسُ اذْهَبْ حَيْثُ أَمَرْتُكَ > قُلْتُ: نَعَمْ، أَنَا أَذْهَبُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ أَنَسٌ: وَاللَّهِ لَقَدْ خَدَمْتُهُ سَبْعَ سِنِينَ، أَوْ تِسْعَ سِنِينَ، مَا عَلِمْتُ قَالَ لِشَيْئٍ صَنَعْتُ: لِمَ فَعَلْتَ كَذَا وَكَذَا، وَلا لِشَيْئٍ تَرَكْتُ: هَلَّا فَعَلْتَ كَذَا وَكَذَا۔
* تخريج: م/الفضائل ۱۳ (۲۳۱۰)، (تحفۃ الأشراف: ۱۸۴)، وقد أخرجہ: خ/الوصایا ۲۵ (۲۷۶۸)، الأدب ۳۹ (۶۰۳۸)، الدیات ۲۷ (۶۹۱۱)، ت/البر والصلۃ ۶۹ (۲۰۱۵) (حسن)
۴۷۷۳- انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ لوگوں میں سب سے بہتر اخلاق والے تھے ، ایک دن آپ نے مجھے کسی ضرورت سے بھیجا تو میں نے کہا : قسم اللہ کی ، میں نہیں جائوں گا ، حالاں کہ میرے دل میں یہ بات تھی کہ اللہ کے نبی اکرم ﷺ نے حکم دیا ہے ، اس لئے ضرور جائوں گا، چنانچہ میں نکلا یہاں تک کہ جب میں کچھ بچوں کے پاس سے گزر رہاتھا اور وہ بازار میں کھیل رہے تھے کہ اچانک رسول اللہ ﷺ نے میرے پیچھے سے میری گردن پکڑلی، میں نے آپ ﷺ کی طرف مڑ کر دیکھا، آپ ہنس رہے تھے، پھر آپ ﷺ نے فرمایا: ’’اے ننھے انس! جائو جہاں میں نے تمہیں حکم دیا ہے‘‘، میں نے عرض کیا: ٹھیک ہے، میں جا رہا ہوں، اللہ کے رسول، انس کہتے ہیں: اللہ کی قسم، میں نے سات سال یا نو سال آپ ﷺ کی خدمت کی، لیکن مجھے نہیں معلوم کہ آپ نے کبھی میرے کسی ایسے کام پر جو میں نے کیا ہو یہ کہا ہو کہ تم نے ایسا اور ایسا کیوں کیا؟ اور نہ ہی کسی ایسے کام پر جسے میں نے نہ کیا ہو یہ کہا ہو کہ تم نے ایسا اور ایسا کیوں نہیں کیا ؟ ۔


4774- حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ -يَعْنِي ابْنَ الْمُغِيرَةِ- عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ قَالَ: خَدَمْتُ النَّبِيَّ ﷺ عَشْرَ سِنِينَ بِالْمَدِينَةِ، وَأَنَا غُلامٌ لَيْسَ كُلُّ أَمْرِي كَمَا يَشْتَهِي صَاحِبِي أَنْ أَكُونَ عَلَيْهِ، مَا قَالَ لِي [فِيهَا] أُفٍّ قَطُّ، وَمَا قَالَ لِي: لِمَ فَعَلْتَ هَذَا؟ أَوْ أَلا فَعَلْتَ هَذَا۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۴۲۷)، وقد أخرجہ: حم (۳/۱۹۵) (صحیح)
۴۷۷۴- انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے دس سال مدینہ میں نبی اکرمﷺ کی خدمت کی، میں ایک کمسن بچّہ تھا، میرا ہر کام اس طرح نہ ہوتا تھا جیسے میرے آقا کی مرضی ہوتی تھی ، لیکن آپ ﷺ نے کبھی بھی مجھ سے اف تک نہیں کہا اور نہ مجھ سے یہ کہا: تم نے ایسا کیوں کیا؟ یا تم نے ایسا کیوں نہیں کیا؟ ۔


4775- حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ، حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ هِلالٍ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَاهُ يُحَدِّثُ قَالَ: قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ وَهُوَ يُحَدِّثُنَا: كَانَ النَّبِيُّ ﷺ يَجْلِسُ مَعَنَا فِي الْمَجْلِسِ يُحَدِّثُنَا، فَإِذَا قَامَ قُمْنَا قِيَامًا حَتَّى نَرَاهُ قَدْ دَخَلَ بَعْضَ بُيُوتِ أَزْوَاجِهِ، فَحَدَّثَنَا يَوْمًا، فَقُمْنَا حِينَ قَامَ، فَنَظَرْنَا إِلَى أَعْرَابِيٍّ قَدْ أَدْرَكَهُ فَجَبَذَهُ بِرِدَائِهِ فَحَمَّرَ رَقَبَتَهُ، قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: وَكَانَ رِدَائً خَشِنًا، فَالْتَفَتَ، فَقَالَ لَهُ الأَعْرَابِيُّ: احْمِلْ لِي عَلَى بَعِيرَيَّ هَذَيْنِ، فَإِنَّكَ لا تَحْمِلُ لِي مِنْ مَالِكَ وَلا مِنْ مَالِ أَبِيكَ، فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ : <لا، وَأَسْتَغْفِرُ اللَّهَ، لا، وَأَسْتَغْفِرُ اللَّهَ، لا، وَأَسْتَغْفِرُ اللَّهَ، لا أَحْمِلُ لَكَ حَتَّى تُقِيدَنِي مِنْ جَبْذَتِكَ الَّتِي جَبَذْتَنِي > فَكُلُّ ذَلِكَ يَقُولُ لَهُ الأَعْرَابِيُّ: وَاللَّهِ لا أُقِيدُكَهَا، فَذَكَرَ الْحَدِيثَ، قَالَ: ثُمَّ دَعَا رَجُلا فَقَالَ لَهُ: < احْمِلْ لَهُ عَلَى بَعِيرَيْهِ هَذَيْنِ: عَلَى بَعِيرٍ شَعِيرًا، وَعَلَى الآخَرِ تَمْرًا> ثُمَّ الْتَفَتَ إِلَيْنَا فَقَالَ: < انْصَرِفُوا عَلَى بَرَكَةِ اللَّهِ تَعَالَى >۔
* تخريج: ن/القسامۃ ۱۸ (۴۷۸۰)، (تحفۃ الأشراف: ۱۴۸۰۱)، وقد أخرجہ: حم (۲/۲۸۸) (ضعیف)
۴۷۷۵- ہلال بیان کرتے ہیں کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے ہم سے بیان کرتے ہوئے کہا: نبی اکرمﷺ ہمارے ساتھ مجلس میں بیٹھا کرتے تھے ، آپ ﷺ ہم سے باتیں کرتے تھے تو جب آپ اٹھ کھڑے ہو تے تو ہم بھی اٹھ کھڑے ہوتے یہاں تک کہ ہم آپ ﷺ کو دیکھتے کہ آپ اپنی ازواج میں سے کسی کے گھر میں داخل ہوگئے ہیں، چنانچہ آپ ﷺ نے ہم سے ایک دن گفتگو کی، تو جب آپ ﷺ کھڑے ہوئے ہم بھی کھڑے ہوگئے، تو ہم نے ایک اعرابی کو دیکھا کہ اس نے آپ ﷺ کو پکڑ کر اور آپ کے اوپر چادر ڈال کر آپ کو کھینچ رہا ہے، آپ ﷺ کی گردن لال ہوگئی ہے، ابو ہریرہ کہتے ہیں: وہ ایک کھردری چادر تھی، آپ ﷺ اس کی طرف مڑے تو اعرابی نے آپ سے کہا: میرے لئے میرے ان دونوں اونٹوں کو(غلے سے) لاد دو، اس لئے کہ نہ تو تم اپنے مال سے لادو گے اور نہ اپنے باپ کے مال سے تو نبی اکرمﷺ نے فرمایا: ’’ نہیں ۱؎اور میں اللہ سے مغفرت طلب کرتا ہوں ، نہیں اور میں اللہ سے مغفرت طلب کرتا ہوں ، نہیں اور میں اللہ سے مغفرت طلب کرتا ہوں ۲؎میں تمہیں نہیں دوں گا یہاں تک کہ تم مجھے اپنے اس کھینچنے کا بدلہ نہ دے دو‘‘،لیکن اعرابی ہر بار یہی کہتا رہا : اللہ کی قسم میں تمہیں اس کا بدلہ نہ دوں گا۔
پھر راوی نے حدیث ذکر کی، اور کہا: آپ ﷺ نے ایک شخص کو بلایا اور اس سے فرمایا: ’’اس کے لئے اس کے دونوں اونٹوں پر لاد دو : ایک اونٹ پر جو اور دوسرے پر کھجور‘‘،پھر آپ ﷺ ہماری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: ’’واپس جائو اللہ کی برکت پر بھروسا کرکے‘‘ ۳؎ ۔
وضاحت ۱؎ : مطلب یہ ہے کہ جو میں تمہیں دوں گا وہ یقینا ً میرا اپنا مال نہیں ہوگا۔
وضاحت ۲؎ : اگر معاملہ اس طرح نہ ہو۔
وضاحت۳؎ : اس حدیث میں نبی اکرمﷺ کے کمال اخلاق وحلم کا بیان ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
2- بَاب فِي الْوَقَارِ
۲-باب: سنجیدگی اور وقار سے رہنے کا بیان​


4776- حَدَّثَنَا النُّفَيْلِيُّ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، حَدَّثَنَا قَابُوسُ بْنُ أَبِي ظَبْيَانَ، أَنَّ أَبَاهُ حَدَّثَهُ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ عَبَّاسٍ أَنَّ نَبِيَّ اللَّهِ ﷺ قَالَ: < إِنَّ الْهَدْيَ الصَّالِحَ وَالسَّمْتَ الصَّالِحَ وَالاقْتِصَادَ جُزْئٌ مِنْ خَمْسَةٍ وَعِشْرِينَ جُزْئًا مِنَ النُّبُوَّةِ >۔
* تخريج: تفردبہ أبوداود، (تحفۃ الأشراف: ۵۴۰۲)، وقد أخرجہ: حم (۱/۲۹۶) (حسن)
۴۷۷۶- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: ''راست روی ، خوش خلقی اور میانہ روی نبوت کا پچیسواں حصہ ہے'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : مطلب یہ ہے کہ یہ خصلتیں اللہ تعالیٰ نے انبیاء علیہم السلام کو عطا کی ہیں، لہٰذا انہیں اپنانے میں ان کی پیروی کرو، یہ معنیٰ نہیں کہ نبوت کوئی ذو اجزاء چیز ہے، اور جس میں یہ خصلتیں پائی جائیں گی اس کے اندر نبوّت کے کچھ حصے پائے جائیں گے کیونکہ نبوت کوئی کسبی چیز نہیں ہے بلکہ یہ اللہ کی طرف سے ایک اعزاز ہے وہ اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے اس اعزاز سے نوازتا ہے۔
 
Top