• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن الترمذی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
صحاح ستہ میں سنن ترمذی کا مقام ومرتبہ

صحاح ستہ میں جامع ترمذی کی اہمیت وافادیت کوئی ڈھکی چھپی چیز نہیں ہے ،لیکن صحیحین کے بعد سنن اربعہ میں اس کا کیا مرتبہ ہے، اس کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے کہ یہ صحیحین کے بعد تیسرے نمبر کی کتاب ہے یا چوتھے نمبر پر ہے۔
بعض اہل علم کے نزدیک ترمذی کا درجہ صحیحین کے بعد ہے، یعنی سنن اربعہ میں اس کا مقام پہلا ہے ۔
حاجی خلیفہ( ملا کاتب چلپی) (۱۰۱۷-۱۰۶۷ھ)اورعلا مہ عبدالرحمن مبارکپوری کی رائے یہی ہے ۔
علماء کی اکثریت کے نزدیک سنن ترمذی کا مقام ابوداود کے بعدہے۔
حاجی خلیفہ کشف الظنون میں جامع ترمذی کے بارے میں کہتے ہیں: یہ کتاب علم حدیث کی صحاح ستہ کتابوں میں تیسرا مقام رکھتی ہے۔ اور اس کے مؤلف کی طرف منسوب ہوکر جامع ترمذی کے نام سے مشہور و معروف ہے۔
امام ذہبی کہتے : جامع ترمذی کا مرتبہ سنن ابو داود اور سنن نسائی کے بعد ہے اس لیے کہ اس میں امام ترمذی نے محمد بن سعید مصلوب اور کلبی جیسے راویوں کی روایتیں نقل کی ہیں۔( تدریب الراوی للسیوطی)۔
تقریب التہذیب، تہذیب التہذیب ، خلاصہ للخزرجی وغیرہ میں جس ترتیب سے رواۃ حدیث کے رموز استعمال کئے گئے ہیں اس سے سمجھ میں آتا ہے کہ ان مولفین کے نزدیک جامع ترمذی کا رتبہ سنن ابو داود کے بعد اور سنن نسائی سے پہلے ہے۔ ان کتابوں کے مصنفین اس ترتیب سے لکھتے ہیں: (د: سنن ابو داود ، ت: جامع ترمذی ، ن: سنن نسائی ) ۔
حافظ سیوطی نے جامع صغیر میں یوں لکھا ہے : (ب: بخاری، م: مسلم، ق: متفق علیہ، د: سنن ابو داود ، ت: جامع ترمذی، ن: سنن نسائی ) ۔
علامہ عبدالروؤف مناوی نے فیض القدیر میں لکھا ہے : جامع ترمذی کا رتبہ سنن ابو داود اور سنن نسائی کے درمیان کا ہے۔
علامہ عبدالسلام محدث مبارکپوری (۱۲۸۹-۱۳۴۲ھ) سیرۃ البخاری میں امام ترمذی کا اپنی سنن کے بارے میں یہ قول کہ میں نے اس کتاب کو تصنیف کے بعد حجاز عراق اورخراسان کے علماء پر پیش کیا تو انہوں نے اپنی رضامندی کا اظہار کیا، یہ قول نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں: لیکن اس بات کا لحاظ ضروری ہے کہ امام ترمذی احادیث کی تحسین میں متساہل ہیں، یہی وجہ ہے کہ محدثین فرماتے ہیں کہ ترمذی کی تحسین سے دھوکہ نہیں کھاناچاہئے ، پھر کہتے ہیں: کتب ستہ میں ترمذی کا مرتبہ صحیحین کے بعد ہے ،جس پر محدثین کا اتفاق ہے ،اور ایک فارسی شعر لکھتے ہیں کہ ترمذی کا شمار سربرآوردہ محدثین میں ہے ، لیکن سنن کا درجہ صحیحین کے بعد ہے، اور یہ مشکل بات کہ سنن دارمی ، سنن ابی داود ، سنن نسائی اور جامع ترمذی میں سے کسی ایک کو دوسرے پر فضیلت دی جائے۔(۲/۷۱۶)
علامہ عبد الرحمن محدث مبارکپوری (۱۲۸۳-۱۳۵۳ھ) تحفۃ الاحوذی میں کہتے ہیں : امام ذہبی نے جامع ترمذی کا رتبہ سنن ابو داود اور سنن نسائی کے بعد کہا ہے تو ان کے اس قول کے سلسلہ میں مجھے اعتراض ہے۔ اور ظاہر بات وہی ہے جو صاحب کشف الظنون نے لکھی ہے کہ اس کا درجہ تیسرا ہے۔ اور امام ترمذی نے مصلوب اور کلبی جیسے راویوں کی روایتیں جو نقل کی ہیں تو ساتھ ساتھ ان کے ضعف کو بھی بیان کردیا ہے۔ پس انہوں نے ان کی روایتیں بطور شاہد ومتابع کے روایت کی ہیں، جیسا کہ حافظ حازمی نے اپنی کتاب شروط الائمہ میں لکھا ہے :
حقیقت یہ ہے کہ امام ترمذی کی شرط امام ابو داود کی شرط کے مقابلہ میں زیادہ بلیغ ہے۔ کیونکہ جب حدیث ضعیف ہوتی ہے یا طبقہ رابعہ کے راویوں کی روایت ہوتی ہے تو امام ترمذی اس حدیث میں پائے جارہے ضعف و علت کو بیان کردیتے ہیں اور اس پر متنبہ کردیتے ہیں پس ان کے نزدیک وہ حدیث بطور شاہد و متابع کے ہوتی ہے۔ اور ان کا اعتماد ان احادیث پر ہوتاہے جو جماعت محدثین کے نزدیک صحیح و ثابت ہوں۔
ان سب کے باوجود جامع ترمذی کا رتبہ باعتبار فوائد و منفعت سنن ابو داود اور سنن نسائی سے بڑھ کر ہے۔ اور ظاہری بات وہی ہے جو صاحب کشف الظنون نے لکھی ہے کہ ترمذی کا درجہ تیسرا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
کیا سنن ترمذی میں موضوع احادیث پائی جاتی ہیں؟

جامع ترمذی کا شمار صحاح ستہ میں سے ہے۔خود امام ترمذی نے اکثر احادیث پر صحت یا ضعف کا حکم لگایاہے ، بعض احادیث کی صحت یا ضعف کے بارے میں علماء نے امام ترمذی سے اختلاف کیاہے ، حافظ ابن الجوزی نے اپنی کتاب الموضوعات میں سنن ترمذی کی (۲۳یا ۲۹) احا دیث کوموضوع قرار دیا ہے ، حافظ سیوطی نے ان احادیث کے بارے میں لکھا ہے کہ وہ موضوع نہیں ہیں، ''القول الحسن فی الذب عن السنن'' میں لکھتے ہیں:
حافظ ابن الجوزی نے اپنی کتاب الموضوعات میں جن (۲۳) تیئیس حدیثوں کے بارے میں کہا ہے کہ وہ موضوع احادیث جنہیں امام ترمذی نے اس کو جامع ترمذی میں روایت کیا ہے۔تمہیں اس سے تعجب اور حیرت نہیں ہونی چاہئے اور دھوکہ نہیں کھانا چاہئے کیونکہ انہوں نے صحیح مسلم کی بعض احادیث کو بھی موضوع قرار دیا ہے ۔ اور اس بات میں کوئی شک نہیں کہ وہ احادیث کو ضعیف قرار دینے میں اسی طرح سے متساہل ہیں جیسے امام حاکم احادیث کو صحیح قرار دینے میں متساہل ہیں ۔ ان دونوں کا تساہل مشہور و معروف ہے۔
حافظ ابن حجرکہتے ہیں : حافظ ابن الجوزی نے اپنی کتاب الموضوعات میں جو حدیثیں ذکر کی ہیں اورجنہیں موضوع قرار دیا ہے ان میں زیادہ تر موضوع ہی ہیں، اور کچھ روایتیں ایسی ہیں جن کے موضوع قرار دینے پر نقد کیا گیاہے، جن کی تعداد بہت کم ہے۔نیز یہ کہ غیر موضوع کو موضوع قرار دینے کا نقصان کم ہے بمقابل اس بات کے کہ کسی ضعیف حدیث کو صحیح قرار دیا جائے جیسا کہ امام حاکم سے تساہل ہوا ہے۔کیونکہ کسی ضعیف حدیث کو جب صحیح قرار دیا جائے تو اس کے بارے میں یہ گمان ہوجاتا ہے کہ یہ صحیح ہے۔
حافظ ابن حجر مزید فرماتے ہیں: ان دونوں کتابوں (یعنی الموضوعات لابن الجوزی اور المستدرک للحاکم )پر کی گئی تنقیدوں کا لحاظ ضروری ہے کیونکہ ان کے تساہل کے بارے میں کلام ان دونوں سے استفادہ کو معدوم کردیتا ہے اور اس سے صرف وہی لوگ فائدہ حاصل کر سکتے ہیں جو عالم فن ہیں اور کوئی بھی حدیث ایسی نہیں ہے مگر اس کے بارے میں یہ احتمال پایا جاتا ہے کہ اس میں تساہل واقع ہوا ہو۔
حافظ سیوطی تدریب الراوی کے اندر حافظ ابن حجر کا کلام ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں: میں نے موضوعات ابن الجوزی کا اختصار کیا ہے اور اس کی اسانید پر تعلیق چڑھائی ہے اور جہاں ضرورت پڑی اُس پرکلام کیا۔ اور متون کو ذکر کرکے ابن الجوزی کے کلام کوذکرکیا ، اور ان میں سے بہت سارے پر تعاقب بھی کیا ہے۔ اور اس کے بعد ان احادیث کے سلسلہ میں حفاظ حدیث کے کلام کو پیش کیاہے خاص کر حافظ ابن حجر کے کلام کو جو ان کی تصانیف اور امالی میں پائے جاتے ہیں ،پھرتعاقب والی احادیث کو ایک مستقل تصنیف میں جمع کردیا ہے۔ جیسا کہ حافظ ابن حجر نے مسند احمد میں آئی (۲۴) چوبیس موضوع احادیث کو ایک کتاب میں جمع کیا ہے اور جس کا نام رکھا ہے '' القول المسدد فی الذب عن المسند'' اور اس میں ایک ایک حدیث پرالگ الگ تنقید کی ہے۔ جن میں سے ایک حدیث صحیح مسلم میں بھی آئی ہوئی ہے۔جسے امام مسلم نے درج ذیل سند سے روایت کی ہے: أبوعامر العقدي، عن أفلح بن سعيد، عن عبدالله بن رافع، عن أبي هريرة قال: قال رسول الله ﷺ: "إن طالت بك مدة أوشك أن ترى قوما يغدون في سخط الله ويروحون في لعنته في أيديهم مثل أذناب البقر".
حافظ ابن حجر فرماتے ہیں : میں نے صحیحین کی کوئی بھی ایسی حدیث اس کے علاوہ نہیں پائی ہے جو کہ موضوعات کی کتابوں میں پائی جاتی ہو اور اس پر موضوع حدیث ہونے کا حکم لگایا گیا ہو، موضوعات ابن الجوزی میں اس حدیث کا آنا بہت بڑی غفلت کا نتیجہ ہے۔پھر اس کے بعد آپ نے اس حدیث پر کلام کیا ہے اور اس کے شواہد ذکر کئے ہیں۔
حافظ سیوطی کہتے ہیں: اس کتاب پر میں نے مسند احمد کی ان احادیث کو جن کے بارے میں مذکور ہے کہ وہ موضوع احادیث اورجن کی تعداد چودہ ہے ان کے ذیل میں لکھ کر اُس پر تعلیق چڑھائی ہے ۔ پھر میں نے سنن ابوداود اوسنن نسائی میں وارد موضوع احادیث پر ایک کتاب تالیف کی جس کانام ''القول الحسن فی الذب عن السنن'' رکھا۔ جس میں ایک سو بیس سے زیادہ احادیث مذکور ہیں جن پر ابن الجوزی نے موضوع ہونے کا حکم لگایا ہے جبکہ وہ موضوع نہیں ہیں ۔ ان میں سے چار حدیثیں سنن ابوداود میں ہیں جن میں سے ایک حدیث صلاۃ التسبیح سے متعلق ہے۔ ان میں سے تیرہ حدیثیں جامع ترمذی میں ہیں ، اور سنن نسائی میں ایک حدیث ہے ۔ اور ان میں سے سولہ حدیثیں سنن ابن ماجہ میں ہیں، اور ان میں سے ایک حدیث صحیح بخاری میں بھی ہے جو حماد بن شاکر کی روایت ہے اور وہ عبد اللہ بن عمر سے مروی ہے جس کے الفاظ یہ ہیں: كيف بك يا ابن عمر إذا عمرت بين قوم يخبئون رزق سنتهم.
یہ حدیث دیلمی نے مسند فردوس میں روایت کی ہے اور اس کو بخاری کی طرف منسوب کردیا ہے ۔ میں نے امام عراقی کی خود سے لکھی کتاب میں دیکھا کہ وہ مشہور روایتوں میں سے نہیں ہے اور مزی نے کہا کہ وہ حماد بن شاکر کی روایت میں ہے ، اوریہ صحیحین کی دوسری روایت ہے جو صحیحین میں وارد ہے اور اس پر موضوع ہونے کا حکم لگایا گیا ہے۔
اور ان میں سے بعض احادیث ایسی ہیں جو جامع صحیح بخاری کے علاوہ امام بخاری کی دیگر تالیفات میں آئی ہوئی ہیں نیز ان کتابوں میں آئی ہیں جن کو صحیح کتاب کہا گیا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
حافظ سیوطی کہتے ہیں: ہم نے ایک ایک حدیث پر الگ الگ کلام کیا ہے پس یہ ایک اہم کتاب ہے۔
علامہ عبد الرحمن محدث مبارکپوری تحفۃ الاحوذی میں لکھتے ہیں : جامع ترمذی میں ضعیف حدیثیں پائی جاتی ہیں لیکن امام ترمذی نے ان کے ضعف کو واضح کردیا ہے اور ان کے لانے کی علت بھی بتادی ہے۔ جہاں تک موضوع حدیث پائے جانے کا سوال ہے تو ہرگز ہرگز اس میں موضوع حدیث نہیں پائی جاتی ہے۔
علامہ البانی نے سنن اربعہ کو الگ الگ ضعیف اور صحیح کے نام سے شائع فرمایاہے، ضعیف سنن ترمذی کے مقدمہ میں آپ نے امام ترمذی اور ان کے سنن سے متعلق بڑی مفید باتیں لکھیں ہیں، ذیل میں ہم ان کو مختصرا بیان کرتے ہیں تاکہ تفصیلی طور پر امام ترمذی کی اس کتاب میں وارد احادیث کے بارے میں ہمیں معلومات حاصل ہوجائیں، علامہ البانی فرماتے ہیں: سنن ترمذی کے مطالعہ کرنے والے علماء کو اس بات کا علم ہے کہ امام ترمذی کا اسلوب اور طریقہ کار اس کتاب میں بقیہ کتب ستہ کے اسلوب سے بہت زیادہ مختلف ہے، اس طورپر کہ امام ترمذی اکثر احادیث کے صحیح ، حسن ، یا ضعیف ہونے کا حکم لگاتے ہیں، اور یہ آپ کی سنن کی خوبیوں میں سے ایک خوبی ہے، اگر ناقدین علمائے حدیث کے نزدیک حدیث کی تصحیح کے مسئلے میں آپ کا تساہل نہ ہوتا تو یہ بڑی اچھی بات تھی ، اس تساہل پر میں نے اکثر وبیشتر اپنی کتابوں میں نشاندہی کردی ہے، کیونکہ میں امام ترمذی کی کسی حکم میں تقلید نہیں کرتا ، بلکہ اپنی تحقیق اور تنقید سے میں نے ان احادیث پر حکم لگایا ہے ، اس لیے اللہ کے فضل سے میں نے امام ترمذی کی اکثر ان احادیث کو جن پر آپ نے ضعف کا حکم لگایا ہے، یا جن میں ارسال اور اضطراب وغیرہ اسباب ضعف حدیث میں سے کسی سبب اور علت کو بیان کیا ہے تو میں نے ان حدیثوں کو وہاں سے سے نکال کر صحیح یا حسن کے صف میں لاکھڑا کیا ہے، جیسے بطور مثال فقط کتاب الطہارۃ میں یہ احادیث ملاحظہ ہوں: (۱۴، ۱۷، ۵۵، ۸۶، ۱۱۳، ۱۱۸، ۱۲۶، ۱۳۵)دوسری جگہ اس کی اور بہت ساری مثالیں ملیں گی ، اس طرح سے الحمدللہ سنن ترمذی میں ضعیف حدیثوں کی تعدادگھٹ گئی ، فالحمدللہ، رہ گئیں وہ احادیث جن کی امام ترمذی نے فقط تحسین کی ہے اور علمی نقد ونظر اور متابعت اور شواہد کے تتبع اور استقراء سے جن کو میں نے صحیح قرار دیاہے، وہ بہت کافی ہیں، اور قارئین اکثر ابواب وکتب میں اس کا ان شاء اللہ ملاحظہ کریں گے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
مؤلف رحمہ اللہ نے اس کے برعکس کچھ احادیث کو قوی قرار دیا، لیکن میری تحقیق میں ان کی اسانید ضعیف ہیں، جن کا ضعف ختم کرنے کے لیے کوئی اور روایت موجود نہیں ہے، بلکہ بعض احادیث تو موضوع ہیں، صرف کتاب الطہارۃاور صلاۃ کی درج ذیل نمبرات کی احادیث کی طرف اشارہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے(۱۲۳، ۱۴۵،۱۴۶، ۱۱۵، ۱۷۱، (۱۷۲ یہ حدیث موضوع ہے)-۱۷۹، ۱۸۴، ۲۳۳، ۲۴۴، ۲۵۱، ۲۶۸، ۳۱۱، ۳۲۰، ۳۵۷، ۳۶۶، ۳۸۰، ۳۹۶، ۴۱۱،۴۸۰، ۴۸۸، ۴۹۴، ۵۳۴، ۵۵۶، ۵۶۷، ۵۸۳، ۶۱۶)۔(ضعیف سنن الترمذی ۹-۱۰)۔
البانی صاحب کے نزدیک سنن ترمذی میں (۱۸) حدیثیں موضوع ہیں، جن کے نمبرات یہ ہیں: (۱۷۲، ۸۰۱، ۱۸۵۹، ۲۴۹۴، ۲۵۰۵، ۲۶۴۸، ۲۶۸۱، ۲۶۹۹، ۲۷۱۴، ۲۷۶۲، ۲۸۸۷، ۲۸۸۸، ۳۰۸۷، ۳۵۷۰، ۳۶۸۴،۳۷۰۹، ۳۹۲۳، ۳۹۲۸،۳۹۳۹)، کتاب الاطعمۃ کی حدیث نمبر(۱۸۲۳)بھی موضوع ہے، جس کو ابن الجوزی نے اپنی الموضوعات میں ذکر کیا ہے، اور البانی صاحب نے الضعیفۃ (۱۱۲) میں اسے موضوع کہا ہے ، لیکن واضح رہے کہ ضعیف سنن الترمذی اور مشہور حسن کے سنن الترمذی کے نسخے میں اس حدیث پر کوئی حکم نہیں لگا ہے ۔
ذیل میں ان احادیث اور ان کے رواۃ کے بارے میں امام ترمذی کی آراء کا ذکر کیا جاتا ہے تاکہ ان احادیث کے بارے میں امام ترمذی کا نقطہ نظر معلوم ہوجائے:
۱- (۱۷۲) اس حدیث کی سندمیں عبداللہ بن عمرعمری ہیں، ترمذی کہتے ہیں کہ یہ اہل حدیث کے یہاں قوی راوی نہیں ہیں، اور اس حدیث میں اضطراب ہے، یحیی بن سعید نے عمری کے حفظ کے بارے میں کلام کیاہے۔
۲- (۸۰۱) ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث غریب (یعنی ضعیف) ہے، اس کی سند قوی سند کی طرح نہیں ہے ،اس کو ہم سعد بن طریف ہی کے طریق سے جانتے ہیں، جن کی تضعیف کی گئی ہے۔
۳- (۱۸۵۹) ترمذی کہتے ہیں: اس طریق سے یہ حدیث غریب(یعنی ضعیف) ہے۔
۴- (۲۴۹۴) ترمذی کہتے ہیں:یہ حدیث غریب (یعنی ضعیف) ہے، بعض نسخوں میں هذا حديث حسن غريب آیا ہے ، لیکن تحفۃ الأشراف میں صرف (غریب )کا لفظ ہے ،اوریہی زیادہ قرین قیاس ہے۔
۵- (۲۵۰۵) ترمذی کہتے ہیں:یہ حدیث حسن غریب ہے ، اس کی سند متصل نہیں ہے ،خالد بن معدان نے معاذ بن جبل کو نہیں پایا ۔
۶- (۲۶۴۸) ترمذی کہتے ہیں: اس حدیث کی سند ضعیف ہے، راوی ابوداود کا نام نفیع الاعمی ہے ، جس کی حدیث میں تضعیف کی گئی ہے، اور ہمیں عبداللہ بن سخبرہ اور ان کے باپ کی زیادہ روایات کا علم نہیں ہے(سند یہ ہے : أبوداود عن عبدالله بن سخبرة عن سخبرة) ۔
۷- (۲۶۸۱) ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث غریب ہے، اور یہ ہمیں صرف ولید بن مسلم کی حدیث سے معلوم ہے۔
۸- (۲۶۹۹م) ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث منکر ہے ، اور ہمیں صرف اسی طریق (عن عبسة بن عبدالرحمن عن محمد بن زاذان عن محمد بن المنكدر عن جابر بن عبدالله) سے اس حدیث کی روایت کا علم ہے ، میں نے بخاری کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ عنبسہ بن عبدالرحمن حدیث میں ضعیف اور کمزور ہیں، اور محمد بن زاذان منکر الحدیث ہیں۔
۹- (۲۷۱۴)ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث غریب(یعنی ضعیف ) ہے، اور اسے ہم صرف اسی طریق سے جانتے ہیں، یہ ضعیف سند ہے، عنبسہ بن عبدالرحمن اور محمد بن زاذان دونوں کی حدیث میں تضعیف کی گئی ہے۔
۱۰- (۲۷۶۲)ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث غریب (یعنی ضعیف )ہے ، میں نے بخاری کو یہ کہتے سنا کہ عمربن ہارون مقارب الحدیث ہیں، مجھے اُن کی کوئی ایسی حدیث کا علم نہیں جس کی کوئی اصل نہ ہو، یا یہ کہا کہ جس میں وہ منفرد ہوں، ہاں صرف اس حدیث کی روایت میں منفرد ہیں کہ نبی اکرمﷺ اپنی داڑھی کے بال طول وعرض سے لیتے تھے، ہمیں یہ حدیث صرف عمربن ہارون کے طریق سے معلوم ہے، اور میں نے دیکھا کہ بخاری عمر کے بارے میں اچھی رائے رکھتے تھے ، میں نے قتیبہ کو یہ کہتے سنا کہ عمربن ہارون اہل حدیث تھے، اور کہتے تھے کہ ایمان قول وعمل کا نام ہے۔
۱۱-(۲۸۸۷) ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث غریب (یعنی ضعیف )ہے، اور ہمیں یہ صرف حمید بن عبدالرحمن کے طریق سے معلوم ہے ،اور بصرہ میں قتادہ سے صرف اسی طریق سے معروف ہے، اور ابومحمد ہارون مجہول شیخ ہیں۔
۱۲- (۲۸۸۸)ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث غریب (یعنی ضعیف )ہے،اور ہمیں یہ صرف اسی طریق سے معلوم ہے، عمر بن ابی خثعم کی تضعیف کی گئی ہے ، بخاری کہتے ہیں کہ عمر بن خثعم منکر الحدیث ہیں۔
۱۳- (۳۵۷۰) ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث غریب (یعنی ضعیف) ہے،ہمیں یہ صرف ولید بن مسلم کی حدیث سے معلوم ہے ، بعض نسخوں میں ''حسن غریب'' کا لفظ آیا ہے، لیکن تحفۃ الأشراف میں صرف (غریب )کا لفظ ہے (تحفۃ الأشراف: ۵۹۲۷)۔
۱۴- (۳۶۸۴)ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث غریب (یعنی ضعیف) ہے، ہمیں یہ صرف اسی طریق سے معلوم ہے،اس کی اسناد قوی نہیں ہے۔
۱۵- (۳۷۰۹)ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث غریب (یعنی ضعیف) ہے، ہمیں یہ صرف اسی طریق سے معلوم ہے،محمد بن زیاد یہ میمون بن مہران کے شاگرد ہیں، اور حدیث میں بہت کمزور ہیں۔
۱۶-(۳۹۲۳)ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث غریب (یعنی ضعیف) ہے، ہمیں یہ صرف فضل بن موسی کے طریق سے معلوم ہے،ابوعامر اس روایت میں منفرد ہیں۔
۱۷-(۳۹۲۸) ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث غریب (یعنی ضعیف) ہے، اسے ہم صرف بسند حصین بن عمر احمسی عن مخارق جانتے ہیں، اور حصین اہل حدیث کے یہاں بہت مضبوط راوی نہیں ہیں۔
۱۸- (۳۹۳۹)ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث غریب (یعنی ضعیف) ہے، اسے ہم عبدالرزاق کی حدیث سے جانتے ہیں، مینا سے منکر احادیث روایت کی گئی ہیں۔
۱۸۲۳- حدیث جابر وانس : اللهم أهلك الجراد...البانی کے صحیح الترمذی اور ضعیف الترمذی کے مکتب التربیۃ کے نسخے سے یہ حدیث مع باب ساقط ہے، اس لیے اس پر البانی صاحب کا کوئی حکم بھی نہیں ہے، لیکن یہ حدیث ابن ماجہ میں ہے ، اور ابن ماجہ (۳۲۲۱) کی روایت سے البانی نے اس پر موضوع ہونے کا حکم لگایا ہے، اور ابن الجوزی سے اس کے وضع ہونے کی بات نقل کرنے کے بعد سیوطی کے تعاقب کو رد کردیا ہے( ضعیف ابن ماجہ،و الضعیفۃ ۱۱۲، اگرالبانی کے سامنے ترمذی کایہ باب اور یہ حدیث ہوتی تو یقینی طور پر اس میں بھی اس حدیث کے موضوع ہونے کا حکم لگاتے، واضح رہے کہ یہ حدیث ترمذی کے قلمی نسخوں میں نہیں پائی جاتی اور مزی نے بھی تحفۃ الأشراف میں اس کی نسبت ترمذی کی طرف نہیں کی ہے، ایسے ہی تہذیب الکمال میں زیادبن عبداللہ بن علاثہ کے ترجمہ میں مزی کہتے ہیں: انہوں نے ابن ماجہ سے ایک حدیث روایت کی ہے، اور ان پر ترمذی کے راوی ہونے کا نشان نہیں لگایا ہے ، امام ترمذی اس حدیث کو غریب یعنی ضعیف کہتے ہیں، اور موسیٰ بن محمد بن ابراہیم التیمی راوی حدیث کے بارے میں کہتے ہیں کہ اس پر کلام کیا گیا ہے، اور وہ غرائب اور مناکیر کی بکثرت روایت کرنے والا ہے۔
۳۷۲۳نمبر کی حدیث بروایت علی رضی اللہ عنہ : شأنا دار الحكمة وعلي بابها کوابن الجوزی اور شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے موضوع قرار دیا ہے، اور ترمذی نے اس پر غریب اور منکر کا حکم لگایاہے، اور کہاہے کہ شریک القاضی کے علاوہ کسی ثقہ راوی سے ہمیں اس حدیث کی روایت کا علم نہیں ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
امام ترمذی کے مذکورہ بالا احادیث پراحکام کی تفصیل کے بعد یہ بات واضح ہوگئی کہ سبھی احادیث پر آپ کا کلام موجود ہے،اور اکثر احادیث پر غرابت کا حکم ہے، جو علماء کے نزدیک امام ترمذی کے یہاں ضعیف کے حکم میں ہے۔
حافظ ابن الجوزی نے سنن ترمذی کی جن احادیث کو اپنی کتاب الموضوعات میں داخل کیا ہے ان میں سے (۶) احادیث سنن ابن ماجہ میں پائی جاتی ہیں، ان ساری احادیث کوبحث وتحقیق کا موضوع ڈاکٹر عمر فلاتہ نے بنایاہے، جس کے لیے ملاحظہ ہو: الوضع فی الحدیث ۲/۱۹۳-۳۷۲)۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
کیا جامع ترمذی کی ساری احادیث پر عمل ہوا ہے؟

امام ترمذی نے جامع ترمذی کے آخر میں کتاب العلل میں یہ کہا ہے کہ اس سنن میں جتنی حدیثیں ہیں سب کی سب معمول بہ ہیں۔ بعض اہل علم نے اس کی تصدیق کی ہے سوائے دو حدیثوں کے جن کے بارے اعتراض ہے ایک عبد اللہ بن عباس کی وہ حدیث جس میں ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے مدینہ کے اندر بغیر کسی عذر ( خوف، بارش اور سفر) کے ظہر وعصر اور مغرب و عشاء کی صلاتوں کو جمع کیا۔
اور دوسری حدیث کہ آپ ﷺنے فرمایا :''جس نے شراب پی اس کو کوڑے لگاؤ پھر چوتھی بار میں کہا کہ اس کوقتل کردو''، ان دونوں کے بارے میں جتنی علتیں ہو سکتی تھیں ان کو ہم نے کتاب میں بیان کردیا ہے۔
علامہ عبد الرحمن محدث مبارکپوری تحفۃ الاحوذی میں لکھتے ہیں: ملا معین نے دراسات اللبیب میں ترمذی کے کلام پرتعاقب کیا ہے، اور ثابت کیا ہے کہ یہ دونوں حدیثیں بھی معمول بہ ہیں، اور ان کی بات حق ہے۔اور ہم نے اس پر پوری بحث جامع ترمذی کے آخر میں کتاب العلل کی شرح کرتے ہوئے کی ہے (۱۰/۴۶۱)
علامہ عبیداللہ رحمانی ترمذی کے کلام پر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ امام ترمذی کے اس دعوے کی موافقت نہیں کی گئی ہے تفصیل کے ملاحظہ ہو : شفاء الغلل شرح كتاب العلل في آخر تحفة الأحوذي (سیرۃ البخاری ۲/۷۱۷)۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
امام ترمذی کی بعض تعبیرات

٭ امام ترمذی نے اپنی جامع ترمذی کے اندر یہ طریقہ اپنایا ہے کہ پہلے ترجمۃ الباب لاتے ہیں اور اس باب کے تحت کسی مشہور صحابی سے مروی صحیح حدیث ذکر کرتے ہیں جس کی تخریج کتب صحاح میں ہو چکی ہے۔ لیکن ترجمۃ الباب کے طور پر باب میں مذکورحکم کسی دوسرے صحابی سے مروی دوسری غیر مذکور حدیث سے نکلتا ہے لیکن اس کی تخریج انہوں نے نہیں کی ہے تو اس کی طرف اشارہ کردیتے ہیں اگرچہ وہ سند کے اعتبار سے کمزور ہو لیکن اس کا حکم صحیح ہو۔ پھر اس بعد کہتے ہیں کہ اس باب میں فلاں فلاں صحابی سے احادیث مروی ہیں۔ اور پوری ایک جماعت کو ذکر کرجاتے ہیں جن میں وہ صحابی بھی شامل ہوتے ہیں جن کی حدیث سے باب کا حکم نکلتا ہے۔ اور ایسا چند ابواب میں ہی ہوا ہے۔
اس طریقہ کے اپنانے میں بہت سارے فائدے ہیں :
ایک یہ کہ اس کے ذریعہ لوگوں کو وہ غیر معروف و مشہور حدیث معلوم ہوجائے۔
اور دوسرے یہ کہ اس کو بیان کرنے سے مقصود اس حدیث میں پائی جانے والی علتوں کو واضح کرنا ہے۔
اور تیسرے یہ کہ اس حدیث میں زیادتی یا کوئی دوسری ہو تو اس کو ظاہر کرنا۔
امام ترمذی نے اپنی جامع ترمذی کے اندر یہ طریقہ اپنایا ہے کہ پہلے ترجمۃ الباب لاتے ہیں اور پھر اس باب کے تحت ایک یا چند حدیثیں ذکر کرتے ہیں پھر اگر ان حدیثوں میں کوئی کلام ہوتا ہے تو اس پر کلام کرتے ہیں پھر یہ کہتے ہیں کہ اس باب میں فلاں فلاں صحابی سے احادیث مروی ہیں۔
حافظ سیوطی نے تدریب الراوی کے اندر لکھا ہے کہ امام ترمذی باب کے تحت جو یہ کہتے ہیں کہ اس باب میں فلاں فلاں صحابی سے احادیث مروی ہیں۔ تو اس سے یہ مراد نہیں ہوتا ہے کہ : بعینہ یہی حدیث ان لوگوں نے روایت کی ہے بلکہ اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ اس ضمن میں ان ان صحابہ سے احادیث مروی ہیں۔ جو اس باب کے تحت آتی ہیں ، عراقی کہتے ہیں کہ امام ترمذی کا ایسا کرنا درست ہے مگر زیادہ تر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ یہی حدیث بعینہ ان لوگوں نے روایت کی ہے جب کہ اس کا مقصد یہ نہیں ہوتا ہے بلکہ اس کا مقصد ہوتا ہے کہ اس ضمن میں ان ان صحابہ سے احادیث مروی ہیں۔ جن میں سے بعض حدیثیں بعینہ ہوسکتی ہیں اور بعض مختلف ہوسکتی ہیں جن کا اس باب میں بیان کرنا صحیح ہوگا۔
٭ امام ترمذی نے اپنی جامع ترمذی کے اندر ایک طریقہ یہ اپنایا ہے کہ ترجمۃ الباب کے تحت جن حدیثوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں تو بعض میں صحابی کے نام کی صراحت ہوتی ہے کہ اس باب میں فلاں فلاں صحابی سے احادیث مروی ہیں۔ اور بعض میں اس صحابی کے نام کی صراحت نہیں ہوتی ہے بلکہ ''عن فلان عن أبيه'' ہوتا ہے یعنی صحابی کے نام کے بجائے ان کے بیٹے کا نام ہوتا ہے اور صحابی کی کنیت مذکور ہوتی ہے۔ جیساکہ اس باب کے تحت : بغیر طہارت کے صلاۃ قبول نہیں ہوتی ہے کا باب کے تحت مذکور ہے : ''وفي الباب عن أبي مليح عن أبيه'' تو ایسا اس لئے ہے بعض صحابہ سے محض ان کا یہ بیٹا ہی روایت کرنے والا ہے دوسرا کوئی نہیں جیسے ابو ملیح جن کے باپ کا نام اسامہ بن عمیر ہذلی بصری ہے ان سے صرف ابو ملیح ہی روایت کرتے ہیں۔
اسی طریقے سے زکاۃ نہ دینے والوں کے بارے میں وعید کا جو باب ہے اس کے تحت مذکور ہے : ''وفي الباب عن قبيصة بن هلب عن أبيه''، تو ان کا بھی یہی معاملہ ہے کہ : ان سے صرف ان کا یہ بیٹا ہی روایت کرنے والا ہے دوسرا کوئی بھی نہیں ہے۔
٭ امام ترمذی نے اپنی جامع ترمذی کے اندر ایک طریقہ یہ اپنایا ہے کہ: بعض صحابی کے نام میں اختلاف ہوتاہے تو جو صحابی مراد ہوتے ہیں اس کی صراحت کردیتے ہیں۔ جیسے باب سہم الخیل کے تحت مذکور ہے : ''وفي الباب عن أبي عمرة، عن أبيه فأبو عمرة هذا صحابي أنصاري نجاري يروى عنه ابنه فقط واختلفوا في اسمه'' تو امام ترمذی نے صحابی کے نام کی صراحت کردی اور اس اختلاف کو ذکر کردیا جو ان کے نام کے سلسلہ میں پایا جاتا تھا۔ تاکہ وضاحت ہوجائے کہ کون صحابی اس سے مراد ہیں۔
حافظ ابن حجر نے تہذیب التہذیب میں بیٹے کا نام عبد الرحمٰن بتایا ہے اور ابو عمرہ کا نام عمرو بن محصن بتایا ہے۔
٭ اسی طرح بعض صحابی کے والد کے نام یا نسبت وغیرہ میں اختلاف پایا جاتاہے تو اس کو ذکرکرتے ہیں۔ جیسے (باب کان إذا أراد الحاجۃ أبعد فی المذہب ) کے تحت لکھتے ہیں : و فی الباب عن یحییٰ بن عبید عن أبیہ، فعبید والد یحییٰ ھذا اختلفوا فیہ) فقال بعضہم: عبید رحی بالراء ... و یقال فی اسم ابیہ دحی بالدال بدل الراء ... و منہم من قال: فی أبیہ صیفی) ، و أما فی نسبتہ فقیل الجہضمی و قیل الجہنی) ...۔
امام ترمذی نے صحابی کے والد کے نام میں چونکہ اختلاف تھا اس لئے اس کا ذکر کردیا تاکہ التباس ختم ہوجائے۔ کیونکہ ایسا نہ کرنے میں التباس کا خطرہ تھا ۔
اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ : چونکہ صحابی سے زیادہ معروف ان کے بیٹے تھے جن کے ذریعہ صحابی کی شخصیت کا پتہ چلتا تھا اس لئے صحابی کا نام لینے کے بجائے ان کے بیٹے کا نام لیا تاکہ صحابی کی شخصیت زیادہ واضح ہوجائے۔
٭ امام ترمذی نے اپنی جامع ترمذی کے اندر ایک طریقہ یہ اپنایا ہے کہ: ترجمۃ الباب کے تحت جن حدیثوں کو ذکر کرتے ہیں تو جب اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ اس باب میں فلاں فلاں صحابی سے احادیث مروی ہیں۔ تو اس صحابی کا ذکر نہیں کرتے ہیں جس کی روایت نقل کی ہے بلکہ دیگر صحابہ کا نام لیتے ہیں جن سے روایتیں اس باب میں آئی ہیں۔
مثال کے طور پر کسی باب کے تحت ابوہریرہؓ کی حدیث روایت کی ہے تو یہ نہیں کہتے : ''وفي الباب عن أبي هريرة'' بلکہ اس کے بجائے مثال کے طور پر یہ کہتے ہیں : ''وفي الباب عن أبي سعيد''۔
٭ البتہ بعض جگہ انہوں نے ایسا کیا کہ اسی صحابی کا نام لیا ہے تو اس سے مراد ان کی یہ ہے کہ اس صحابی سے اس حدیث کے علاوہ دوسری حدیث بھی اس باب کے تحت مروی ہے۔
٭ امام ترمذی نے اپنی جامع ترمذی کے اندر ایک طریقہ یہ اپنایا ہے کہ: ترجمۃ الباب کے تحت جن حدیثوں کو ذکر کرتے ہیں تو جب اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ اس باب میں فلاں صحابی سے حدیث مروی ہے۔ پھر اس صحابی کی حدیث آگے ذکر کرتے ہیں جس کی روایت کی طرف اشارہ ہے ۔ جیسے گائے کی زکاۃ کے باب کے تحت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث ذکر کرکے فرماتے ہیں :'' وفي الباب عن معاذ بن جبل''پھر ان کی حدیث بھی بیان کی۔ اسی طریقے سے صلاۃ عصر سے قبل چار رکعات کے باب کے تحت علی کی حدیث بیان کرنے کے بعد کہتے ہیں : ''وفي الباب عن ابن عمر''۔ پھر ائمہ کے مذاہب بیان کرنے کے بعد ابن عمر کی حدیث بھی بیان کی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
٭ اسی طریقے سے امام ترمذی نے اپنی جامع ترمذی کے اندر ایک طریقہ یہ اپنایا ہے کہ: کہیں کہیں ترجمۃ الباب کے تحت حدیث بیان کرنے کے بعد کہتے ہیں : '' وفي الباب عن فلان'' پھر آگے ان کی حدیث بیان کرنے کے بعد پھر کہتے ہیں : '' وفي الباب عن فلان'' جیسا کہ '' باب استكمال الإيمان والزيادة والنقصان''کے تحت عائشہ کی حدیث بیان کی۔ پھر آگے کہتے ہیں : '' وفي الباب عن أبي هريرة وأنس''۔
٭ اسی طریقے سے امام ترمذی نے اپنی جامع ترمذی کے اندر ایک طریقہ یہ اپنایا ہے کہ: کہیں کہیں کوئی باب بغیر ترجمۃ الباب کے لاتے ہیں پھر اس کے تحت کوئی حدیث بیان کرنے کے بعد کہتے ہیں : '' وفي الباب عن فلان''۔
پھر اس سے مقصد یہ ہوتا ہے کہ جو حدیث اوپر ذکر کی گئی ہے اسی معنی کی حدیث دوسرے صحابی سے بھی روایت ہوئی ہے۔ جیسے اوائل قدر میں ہے کہ : باب کو بغیر ترجمۃ الباب کے لائے ہیں پھر اس کے تحت ابو ہریرہ کی حدیث بیان کرنے کے بعد کہتے ہیں : '' وفي الباب عن عمرو وجندب''۔
اسی طریقے سے امام ترمذی نے اپنی جامع ترمذی کے اندر ایک طریقہ یہ اپنایا ہے کہ: کہیں کہیں کسی باب کے تحت کوئی حدیث مختصر بیان کرنے کے بعد کہتے ہیں :'' وفيه قصة أو فيه كلام أكثر من هذا أو نحوه''۔
اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ یہ حدیث دوسری جگہ اس سے زیادہ تفصیل کے ساتھ بیان ہوئی ہے۔
٭ امام ترمذی نے اپنی جامع ترمذی کے اندر ایک طریقہ یہ اپنایا ہے کہ: کہیں کہیں کسی باب کے تحت کوئی ایسی حدیث بیان کرتے ہیں جو ضعیف ہوتی ہے یا ایسی حدیث جس کے مرفوع اورموقوف ہونے میں محدثین کے درمیان اختلاف رہا ہے جبکہ اس باب میں دوسری صحیح و مرفوع حدیث ہوتی ہے لیکن اس کو ذکر نہیں کرتے ہیں بلکہ اس کی طرف محض اشارہ کرنے پر اکتفاء کرتے ہیں۔ اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ در اصل یہ حدیث جو مذکور ہے اس کے بارے میں لوگوں کو متعارف کرانا ہے جبکہ باب اس دوسری حدیث سے ثابت ہے جو کہ صحیح و مرفوع حدیث ہے ۔جس کی طرف محض اشارہ کرنے پر اکتفاء کیاگیا ہے۔
٭ امام ترمذی نے اپنی جامع ترمذی کے اندر ایک طریقہ یہ اپنایا ہے کہ: کہیں کہیں کسی باب کے تحت کوئی ایسی حدیث بیان کرتے ہیں جو ضعیف ہوتی ہے اور اس کی تحسین کرتے ہیں جبکہ اس کا ضعف ظاہر ہے۔ جس کا یا تو کوئی راوی مجہول ہے یا وہ ضعیف ہے یا وہ منقطع ہے یا اور دوسری اس میں کوئی علت پائی جاتی ہے۔ تو اس کا سبب یہ ہے کہ اس میں جو راوی مجہول ہے اس کا علم انہیں ہوگیا تھا جس کی وجہ سے انہوں نے اس کو حسن قرار دیا۔
ابن الملقن نے شرح المنہاج میں کہا ہے کہ ان لوگوں کے جواب میں جو جنہوں نے زید بن ثابت کی اس حدیث کے امام ترمذی کے حسن قرار دینے پر کہ: انہوں نے کہا کہ میں نے نبی ﷺ کو دیکھا کہ : احرام باندھنے کے لئے بالکل ننگے ہوکر غسل کیا۔اس کے راویوں میں عبد اللہ بن یعقوب مجہول ہے تو امام ترمذی کا اس روایت کو حسن قرار دینا اس بنیاد پر ہے کہ: شاید انہیں اس کے بارے میں علم ہو گیا تھا کہ وہ کون شخص ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
٭ امام ترمذی نے ایک روایت نقل کی ہے جس میں ایک انصاری صحابی نے کہا :'' إن النبي ﷺ باع حلسا'' اور اس کی سند میں ابو بکر حنفی ہے جو مجہول راوی ہے۔ اس کے بارے میں امام ابن القطان کہتے ہیں:اس کی سند میں واقع ابو بکر حنفی کی وجہ سے یہ حدیث معلول ہے، میں نہیں جانتا کہ کسی نے ان کی تعدیل کی ہو۔ کیونکہ وہ مجہو ل الحال راوی ہے ۔ امام ترمذی نے اس حدیث کی تحسین اپنی اس عادت کے بنا پر کی ہے کہ یہ ایک دوسرے طریق سے مروی ہے ، اور اس کے شواہد موجود ہیں۔
حافظ سیوطی تدریب الراوی میں کہتے ہیں: جب حدیث ضعیف اسناد سے مروی ہو تو اس سے یہ لازم نہیں آتا ہے : وہ مختلف طریقوں سے روایت کی بنا پر حسن قرار پائے۔ بلکہ ایسا اس بنا پر ممکن ہے جب کسی صادق امین راوی کی روایت جو کہ ضعیف ہو اور وہ دوسرے طرق سے مروی ہو اور اس کے بارے میں یہ پتہ چل جائے کہ اس نے اس کو حفظ کیا تھا اور اس کے ضبط کرنے میں وہ مختل نہیں ہوا تھا تو ایسی روایت حسن درجہ کی قرار دی جاتی ہے جیساکہ امام ترمذی نے اس حدیث کو روایت کرنے کے بعد حسن قرار دیا ہے جو'' شعبة عن عاصم بن عبيدالله، عن عبدالله بن عامر بن ربيعة، عن أبيه أن امرأة من بني فزارة تزوجت على نعلين...'' ہے۔
امام ترمذی اس حدیث بیان کرنے کے بعد کہتے ہیں : ''وفي الباب عن عمر وأبي هريرة وعائشة وأبي حدرد''۔
اس حدیث کے راویوں میں عاصم سوء حفظ کے سبب ضعیف ہیں ۔ اور امام ترمذی نے دوسرے طرق سے مروی ہونے کی بنا پر اسے حسن قرار دیا ہے۔ اسی طریقے سے جب کوئی روایت مرسل یا مدلس یا مجہول راوی کے سبب معلول ہو جیساکہ شیخ الاسلام نے اضافہ کیا ہے تو دو طرق سے مروی ہونے کے سبب حسن لذاتہ سے کم درجہ کی ہوتی ہے۔
٭ امام ترمذی نے اپنی جامع ترمذی کے اندر ایک طریقہ یہ اپنایا ہے کہ: اکثر ابواب کے تحت کسی حدیث بیان کرنے اور اس پر صحیح یا حسن کا حکم لگانے کے بعد کہتے ہیں : ''والعمل على هذا عند أهل العلم أو أكثر أهل العلم أو بعض أهل العلم''۔ جیسا کہ ان کی برابر عادت ہے تو یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ: آیا اس سے حدیث کا صحیح یا حسن ہونا لازم آتا ہے کہ حدیث کا صحیح یا حسن ہونا اہل علم کے اس پر عمل ہونے سے مشروط ہے؟
اس بارے میں صاحب دراسات اللبیب ساتویں درس میں کہتے ہیں:
امام ترمذی کا اپنی جامع ترمذی کے اندر اکثر ابواب کے تحت کسی حدیث بیان کرنے اور اس پر صحیح یا حسن کا حکم لگانے کے بعد کہنا : ''والعمل على هذا عند أهل العلم أو أكثر أهل العلم أو بعض أهل العلم وغيره'' جیسا کہ ان کی برابر عادت ہے تو یہ ان کی اپنی اصطلاح ہے جس کے مطابق وہ کہتے ہیں اور ان کے یہاں ان کا اپنا ایک مفہوم ہے۔ اس سے حدیث کا صحیح یا حسن ہونا لازم نہیں آتا ہے ۔ اور بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ حدیث صحیح یا حسن ہوتی ہے پھر اس پر حکم لگانے کے بعد کہتے ہیں :''ولم يأخذ به أهل العلم أو بعض أهل العلم''۔ پس اہل علم کے اس حدیث کے خلاف پر عمل کوواضح کرتے ہیں۔
٭ امام ترمذی نے اپنی جامع ترمذی کے اندر ایک طریقہ یہ اپنایا ہے کہ: اکثر ابواب کے تحت کسی حدیث بیان کرنے کے بعد اس پر صحیح یا حسن کا حکم لگاتے ہوئے کہتے ہیں :''هذا حديث حسن أو هذا حديث صحيح أو هذا حديث حسن صحيح'' تو تتبع کے بعد جو بات واضح ہوتی ہے وہ یہ کہ: جو حدیث صحیحین میں یا ان میں سے کسی ایک میں آئی ہوئی ہوتی ہے اس حدیث کو حسن صحیح کہتے ہیں یہی ان کی غالب عادت ہے اور کبھی اس کے خلاف بھی کر جاتے ہیں۔
٭ امام ترمذی نے اپنی جامع ترمذی کے اندر ایک طریقہ یہ اپنایا ہے کہ: اکثر ابواب کے تحت کسی حدیث بیان کرنے کے بعد اس پر صحیح یا حسن کا حکم لگاتے ہوئے کہتے ہیں :''هذا حديث حسن غريب أو غريب حسن''۔ تو تتبع کے بعد جو بات واضح ہوتی ہے وہ یہ کہ: جس حدیث میں غرابت ہوتی ہے اور وہ حسن درجہ کی ہوتی ہے لیکن اس میں حسن کا زیادہ غلبہ ہوتا ہے تو اس حدیث کو حسن غریب کہتے ہیں ۔ اور جس حدیث میں غرابت ہوتی ہے اور وہ حسن درجہ کی ہوتی ہے لیکن اس میں غرابت کا زیادہ غلبہ ہوتا ہے تو اس حدیث کو غریب حسن کہتے ہیں یہی ان کی غالب عادت ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
جامع ترمذی کی بعض اصطلاحات کی شرح تفصیل

اصول حدیث میں استعمال ہونے والی ضروری اصطلاحات کی تفصیل اوپر گزری ، یہاں مناسب معلوم ہوتا ہے کہ جامع ترمذی کے اندر استعمال ہونے والی اصطلاحات کی وضاحت الگ سے کردی جائے تاکہ قارئین کو امام ترمذی کی اس عظیم کتاب سے استفادہ میں آسانی ہو:
٭ هذا حديث حسن، هذا حديث صحيح، هذا حديث ضعيف: (یہ حدیث حسن درجے کی ہے ، یہ حدیث صحیح ہے ، یہ حدیث ضعیف ہے)، امام ترمذی کی اصطلاح میں حسن کا ایک خاص معنی ہے ،جس کی خود آپ نے وضاحت فرمائی ہے، چنانچہ سنن کے آخر میں کتاب العلل الصغیر میں کہتے ہیں: ہم نے اس کتاب میں جو حسن حدیث ذکر کی ہے ،اس سے میری مراد یہ ہے کہ اس حدیث کی سند میرے نزدیک حسن درجہ کو پہنچی ہوئی ہے۔ ہر وہ حدیث کہ جس کی سند میں کوئی ایسا راوی نہ ہو جو متہم بالکذب ہو(یعنی عام بول چال میں اس پر جھوٹ بولنے کا الزام ثابت ہو) اور وہ شاذ روایت بھی نہ ہواور وہ حدیث اس سند کے علاوہ دوسری سندوں سے بھی آئی ہوئی ہو تو وہ ہمارے نزدیک حسن درجہ کی روایت ہے، اور صحیح اور ضعیف کی اصطلاحات میں وہ عام جمہور کے ساتھ ہیں،اور ضعیف تو معروف ہے۔
٭ هذا حديث حسن صحيح: امام ترمذی بعض جگہ کہتے ہیں :''هذا حديث حسن صحيح'' (یہ حدیث حسن صحیح ہے )، یعنی یہ حدیث ایک سند سے حسن لذاتہ ہے یعنی اس سند کا درجہ بذات خود صحیح ہے ، اور دوسرے طرق کی وجہ سے یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے،دوسرا معنی یہ ہے کہ یہ حدیث سند کے اعتبار سے تو حسن ہے البتہ متن کے اعتبار سے صحیح ہے۔
٭ امام ترمذی بعض جگہ کہتے ہیں : ''هذا حديث حسن صحيح، هذا حديث حسن غريب، هذا حديث حسن غريب صحيح'' ( یہ حدیث حسن صحیح ہے ، یہ حدیث حسن غریب ہے ، یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے)، ان اصطلاحات کے معنی یہ ہیں کہ یہ حدیث (اس سند کے اعتبارسے ) حسن لذاتہ ہے اوردوسرے طرق کے موجود ہونے کے اعتبار سے صحیح لغیرہ ہے، یااس کا معنی یہ ہے کہ یہ حدیث سند کے اعتبار سے تو حسن ہے البتہ متن کے اعتبار سے صحیح ہے۔ اور یہ کہ یہ حدیث متن کے اعتبار سے حسن ہے اور سند کے اعتبار سے غریب ہے۔ نیز یہ کہ یہ حدیث متن کے اعتبار سے حسن صحیح ہے اور سند کے اعتبار سے غریب ہے ۔
٭ فيه مقال أو في إسناده مقال: امام ترمذی بعض حدیثوں کے بارے میں یہ لفظ استعمال کرتے ہیں،اس کا معنی یہ ہوتا ہے کہ اس حدیث کی صحت یا اس کی سند کی صحت کے بارے میں محدثین نے کلام کیا ہے۔
٭ ذاهب الحديث: کسی راوی کے بارے میں ''ذاہب الحدیث '' کا معنی یہ ہوتا ہے کہ اس کے حافظہ سے یہ حدیثیں نکل جاتی ہیں یعنی وہ راوی حدیث کا حافظ نہیں ہوتا۔
٭ مقارب الحديث: امام ترمذی بعض راویوں کے بارے میں کہتے ہیں: ''مقارب الحديث'' لفظ مقارب کو ''ر'' کے فتحہ اور کسرہ دونو ں کے ساتھ پڑھا گیا ہے ، فتحہ پڑھنے کی صورت میں اس کا معنی یہ ہو ا کہ دوسرا راوی اس مذکور راوی سے حافظہ میں قریب ہے، اور جس نے مقارب کو کسرہ کے ساتھ پڑھا تو اس کا معنی یہ ہوا کہ یہ راوی دوسرے راوی کے حافظہ کے قریب ہے ، یعنی اس راوی کی حدیث دوسرے راوی کی حدیث کے قریب تر یا اس کی حدیث اس کی حدیث کے قریب تر ہے ۔
٭ هو شيخ ليس بذاك: امام ترمذی نے حارث بن وجیہ راوی کے بارے میں یہ لفظ استعمال کیاہے اس کا معنی یہ ہے کہ یہ عمردراز اور بوڑھا راوی ہے اس کے اوپر نسیان کا غلبہ ہے اور اس قابل نہیں کہ اس کی روایت پر اعتماد کیا جائے۔اس راوی کی حدیث قوی نہیں بلکہ ضعیف ہے۔
٭ إسناده ليس بذاك: امام ترمذی بعض راویوں کے بارے میں کہتے ہیں :''إسناده ليس بذاك'' اس کا معنی یہ ہے کہ اس حدیث کی سند اس درجہ قوی نہیں جیسی ہونی چاہئے بلکہ اس میں کچھ ضعف پایا جاتا ہے۔
٭ هذا حديث غريب إسناداً: بعض جگہ کہتے ہیں : ''هذا حديث غريب إسناداً'' اس کا معنی یہ ہے کہ یہ حدیث سند کے اعتبار سے غریب ہے، متن کے اعتبارسے نہیں۔مقصدیہ ہے کہ اس حدیث کا متن صحابہ کی ایک جماعت کے یہاں معروف ہے، البتہ کوئی ایک راوی کسی ایک صحابی سے روایت کرنے میں منفرد ہوگیا۔
٭ هذا حديث غريب من هذا الوجه: بعض جگہ کہتے ہیں : ''هذا حديث غريب من هذا الوجه'' یعنی یہ حدیث اس سند کے اعتبار سے غریب ہے ، متن کے اعتبار سے نہیں۔ مقصدیہ ہے کہ اس حدیث کا متن تو صحابہ کی ایک جماعت کے یہاں معروف ہے، البتہ اس ایک راوی کے اس صحابی سے روایت کرنے کے سبب یہ حدیث غریب ٹھہری۔
٭ هذا حديث مرسل:بعض جگہ کہتے ہیں :'' هذا حديث مرسل '' مرسل حدیث محدثین کی اصطلاح میں ایسی حدیث کو کہتے ہیں: جس میں تابعی رسول اللہ ﷺ سے حدیث روایت کرتا ہے اور صحابی کا نام نہیں لیتا ۔ لیکن امام ترمذی نے مرسل کو صرف منقطع کے معنی میں بکثرت استعمال کیا ہے تو جہاں یہ کہتے ہیں کہ یہ حدیث مرسل ہے تو زیادہ تر جگہوں میں اس سے مراد یہ ہوتی ہے کہ یہ حدیث منقطع ہے ۔اور محدثین نے بھی لفظ مرسل کو منقطع کے معنی میں لیاہے۔
٭ هذا حديث جيد: اس کا معنی یہ ہے کہ یہ حدیث صحیح ہے البتہ بعض لوگوں نے صحیح اور جید کے مابین تھوڑا سا فرق کیا ہے وہ یہ کہ جو حدیث حسن لذاتہ سے اوپر ہو لیکن صحیح کے درجہ سے کچھ کم ہو تو اس کو جید کہ دیتے ہیں ۔ جہاں تک امام ترمذی کا سوال ہے تو انہوں نے جید کو صحیح کے معنی میں لیا ہے جیسا کہ : کتاب الطب کے اندر ایک حدیث کے بارے میں کہا ہے : '' هذاحديث جيد حسن'' أي:'' هذا حديث صحيح حسن''۔
٭ هذا أصح من ذلك: امام ترمذی بعض جگہ دو حدیث یا دو قول نقل کرنے کے بعد کہتے ہیں : '' هذا أصح من ذلك'' یعنی یہ دونوں حدیثیں یا دونوں قول صحیح ہیں البتہ یہ بعد والی حدیث یا قول پہلے مذکور حدیث یا قول سے زیادہ صحیح ہے۔
٭ هذا أصح شيء في هذا الباب وأحسن: یعنی اس باب میں یہ حدیث زیادہ صحیح اور بہتر ہے، اس اصطلاح کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس باب میں جو حدیثیں آئی ہیں سب صحیح ہیں بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس باب میں صحیح، ضعیف جو احادیث آئی ہیں ان میں سب سے صحیح اور بہترین مذکورہ حدیث ہے۔
 
Top