• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن الترمذی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
٭ هذا حديث فيه اضطراب: اس اصطلاح کا معنی یہ ہے کہ اس حدیث میں اضطراب ہے ، یا یہ حدیث مضطرب ہے ۔
اصطلاح حدیث میں مضطرب : اس حدیث کو کہتے ہیں جو ایک ہی راوی سے مختلف طرق دو یا تین یا زیادہ سے مروی ہو۔ یا دوسرے راویوں سے یا متقارب راویوں سے مروی ہو، ان سب کا آپس میں باہم سخت اختلاف ہو،اور ان کے درمیان جمع وتوفیق اورتاویل ممکن نہ ہو، اورتمام روایات قوت میں ایک دوسرے کے برابرہوں ،کسی کودوسرے پر کسی صورت میں ترجیح ممکن نہ ہو، اگرکوئی طریقہ روایت قوت میں زیادہ ہوتو پھر اس حدیث کو مضطرب نہیں کہیں گے ، راجح روایت پر عمل کریں گے ، اسنادی قوت کے علاوہ ترجیح کے اوربھی اسباب وعوامل ہوتے ہیں ان کے لحاظ سے بھی روایت کوترجیح دی جاسکتی ہوتواس پر عمل کیاجائے گا۔ حدیث میں اضطراب اس کے ضعف کی ایک علامت اور دلیل ہے۔
٭هذا حديث غير محفوظ: (یہ حدیث محفوظ نہیں ہے )، اس اصطلاح کا مطلب یہ ہے کہ یہ حدیث شاذ ہے ۔ شاذ (غیر محفوظ) حدیث بھی ضعیف احادیث کی ایک قسم ہے ، شاذ ایسے ثقہ راوی کی روایت کو کہتے ہیں جس نے اپنے سے زیادہ ثقہ راوی کے خلاف حدیث روایت کی ہویا ثقہ نے ثقات کی ایک جماعت کے برخلاف روایت کی ہو، توزیادہ ثقہ راوی یا کئی ثقات کے مقابلے میں کم ثقہ کی روایت کوشاذ یا غیر محفوظ کہتے ہیں، اور اس سے زیادہ ثقہ راوی یا ثقات کی روایت کو ''محفوظ''کہاجاتاہے ، ظاہربات ہے کہ تعارض اور اختلاف کے وقت ''محفوظ'' روایت کو ترجیح دی جائے گی۔
٭ الكراهة أو الكراهية: بعض جگہ شریعت کے احکام کی وضاحت میں ( کراہۃ اور کراھیۃ ) کالفظ استعمال کرتے ہیں، واضح رہے کہ امام ترمذی اس لفظ کا معنی تنزیہ یا ترک اولی کے نہیں لیتے ، جیسا کہ عام فقہاء کی اصطلاح میں کراہت اور کراہیت کا لفظ استعمال ہوتا ہے ، بلکہ اس لفظ سے تنزیہ اور ترک اولی اور حرمت کے معنی میں استعمال کرتے ہیں، اور سلف کے یہاں بھی یہ لفظ حرام کے معنی میں بکثرت استعمال ہواہے ۔
چنانچہ امام عینی عمدۃ القاری میں فرماتے ہیں: متقدمین کراہت کا لفظ بول کر اس سے کراہتِ تحریمی مراد لیتے ہیں(۳/۳۸۷)، مزید تفصیل کے لیے إعلام الموقعین لابن القیم ، اور نواب صدیق حسن کی الدین الخالص کا مطالعہ مفید ہوگا، نیز مقدمہ تحفۃ الأحوذی میں بھی اس کی تفصیل موجود ہے(۳۲۴-۳۲۸)۔
٭أهل الرأي: امام ترمذی نے بعض جگہ یہ لفظ استعمال کیا ہے اس سے اُن کی مراد وہ لوگ ہیں جو حدیث پر رائے اور قیاس کو ترجیح دیتے تھے، چونکہ عراق اہل الرائے فقہاء کا گڑھ تھا اس لیے اس اصطلاح سے مراد وہاں کے علماء کا طریقہ تفقہ بھی ہے، اس سلسلے میں سب سے زیادہ شہرت امام ابو حنیفہ اور ان کے اصحاب کو ہے جو اہل الرائے سے مشہور ہیں، ان کے مقابلے میں اہل حدیث کا مذہب ہے جن کا گڑھ حجاز (یعنی مکہ اور مدینہ) تھا، یہ دونوں گروہ اہل علم کے یہاں شروع ہی سے متعارف تھے۔
امام ترمذی اہل الکوفہ کی اصطلاح بھی استعمال کرتے ہیں، جس سے مراد کوفہ کے علماء وفقہاء ہوتے ہیں جیسے کہ سفیان ثوری ، سفیان بن عیینہ اور ابوحنیفہ وغیرہ ، اور جب ''بعض اہل کوفہ'' کا لفظ استعمال کرتے ہیں تو اس سے خاص طور پر امام ابوحنیفہ ہی نہیں مراد ہوتے ، بلکہ وہ کوفی عالم مقصود ہوتا ہے جس کے قول یا رائے کا ذکر یا اس پر کلام مقصود ہو، چنانچہ کتاب الطہارۃ میں باب ماجاء أنہ یبدأ بمؤخر الرأس ،رأس کے تحت ربیع بنت معوذ کی حدیث ذکرکرتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے اپنے سر کا مسح دو بار کیا، اور پہلے اپنے سر کے پچھلے حصے سے مسح شروع کیا پھرآگے کا مسح کیا، اس پر امام ترمذی کہتے ہیں: وقد ذهب أهل الكوفة إلى هذا الحديث منهم وكيع بن الجراح یعنی بعض اہل کوفہ کا مذہب اس حدیث پر ہے ، ان میں سے وکیع بن جراح ہیں، ترمذی نے یہاں پر بعض اہل کوفہ کا لفظ استعمال کیا ، اور یقینی طور پر یہاں اس سے مراد امام ابوحنیفہ نہیں ہیں، اس لیے بعض شراحِ حدیث جیسے سراج احمد ہندی اور محدث عبدالحق کا یہ کہنا کہ اہل کوفہ سے ترمذی کی مرادامام ابوحنیفہ سے ہے ، لیکن تعصب کی وجہ سے نام کی صراحت نہیں کرتے ، یہ دونوں باتیں صحیح نہیں ہیں، نہ تو اہل کوفہ سے مراد مخصوص طور پر ابوحنیفہ ہیں اور نہ ہی ان کا نام نہ لینا کسی تعصب کی بنا پر تھا ، جیسا کہ سابقہ مثال میں خود امام ترمذی نے اہل کوفہ کا لفظ استعمال کرکے ان میں سے امام وکیع کا ذکرکیا، اس مسئلہ کو علامہ مبارکپوری نے خوب اچھی طرح واضح کیا ہے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
شیخ عبدالحق محدث دہلوی کہتے ہیں کہ ترمذی کو ائمہ اہل قیاس واجتہاد سے تعصب تھا، مبارکپوری کہتے ہیں: جیسے اہل کوفہ سے ترمذی کے بارے میں یہ کہنا کہ ان کی مراد'' ابوحنیفہ'' ہے، غلط ہے، ایسے ہی یہ بھی غلط اور باطل ہے کہ ترمذی کو ائمہ اہل قیاس واجتہاد سے تعصب ہے کیونکہ امام شافعی ، مالک، اور احمد بن حنبل وغیرہ ائمہ مجتہدین کے کلام کا تذکرہ اُن کے اپنے نام کے ساتھ موجود ہے، اور اگر اس سے یہ مراد لیاجائے کہ ائمہ اہل قیاس اور اجتہاد سے امام ابوحنیفہ اوراصحاب ابوحنیفہ مراد ہیں تو یہ بھی باطل ہے، اس لیے کہ تعصب کی بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے ، رہ گیا ایسا ظن وگمان کرنا کہ امام ابوحنیفہ کے نام کی صراحت نہ کرنے کی وجہ تعصب ہے تو یہ بدگمانی کی بات ہے ، اور بعض بدگمانی گناہ کے قبیل سے ہوتی ہے، عبدالحق محدث دہلوی کا یہ کہنا کہ امام ابوحنیفہ کا نام ترمذی نے صراحت سے نہیں لیا ہے، تو ایسا کہنا اس لیے صحیح نہیں ہے کہ امام ترمذی نے اپنی جامع کے آخر میں محمود بن غیلان سے یہ روایت کی ہے کہ ان سے ابویحیی حمانی نے بیان کیا کہ انہوں نے ابوحنیفہ کو یہ کہتے سنا : میں نے جابر جعفی سے زیادہ جھوٹا اور عطاء بن ابی رباح سے زیادہ فاضل کسی کو نہیں دیکھا، ترمذی کا یہ قول ہندوستان کے سنن الترمذی کی طباعتوں میں نہیں ہے ،لیکن مصری نسخے میں یہ قول موجود ہے، اور حافظ ابن حجر نے تہذیب التہذیب میں سنن کے حوالے سے یہ قول ذکر کیا ہے ، اس لیے محدث عبدالحق کا یہ قول بالکل باطل ہے کہ امام ترمذی نے امام ابوحنیفہ کا نام صراحت سے نہیں ذکرکیا ہے ۔
اس کے بعد مبارکپوری کہتے ہیں:'' أهل الكوفة '' سے امام ترمذی کی مراد کوفہ کے اہل علم حضرات ہیں، جیسے امام ابوحنیفہ ، سفیان ثوری ، سفیان بن عیینہ وغیرہ ،اور بعض اہل کوفہ سے مراد بعض علماء کوفہ ہیں، ان دونوں لفظوں سے مراد صرف امام ابوحنیفہ نہیںہیں، امام ترمذی اس لفظ کے استعمال میں تنہا نہیں ہیں بلکہ کئی اہل علم یہ الفاظ استعمال کرتے ہیں، اس کے بعد امام حازمی کی کتاب الاعتبار فی الناسخ والمنسوخ سے کئی عبارتیں نقل کیں ، جن میں صریح طور پر اہل کوفہ کے لفظ کے استعمال کے ساتھ امام ابوحنیفہ کا تذکرہ موجودہے، ایسے ہی کوفی علماء کا ذکرآتا ہے تو اہل کوفہ اور کوفی دونوں ہم معنی لفظ ہیں، اور یہ لفظ عینی نے بھی استعمال کیا ہے ،اور ان کی مراد کوفی سے وہی ہے جو امام ترمذی اہل کوفہ کہہ کر کہنا چاہتے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
٭ أصحابنا: فقہی مذاہب بیان کرتے وقت امام ترمذی ''اصحابنا'' کا لفظ بکثرت استعمال کرتے ہیں، جس سے ان کی مراد ''اصحاب حدیث''، اور'' اہل الحدیث'' ہوتے ہیں جن میں مالک، شافعی، احمد بن حنبل ، اسحاق بن راہویہ، سفیان ثوری ، سفیان بن عیینہ وغیرہ سبھی ائمہ شامل ہیں، حافظ ابن حجر بھی اس طرح کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں، مثلا کہتے ہیں: وبه قال أحمد وإسحاق وغيرهما من أهل الحديث یعنی اہل حدیث علماء میں سے احمد اور اسحاق بن راہویہ وغیرہ کا یہ مذہب ہے، ترمذی ایک سے زائد بار ''اصحابنااہل الحدیث'' کا لفظ استعمال کرکے مثال میں شافعی ، احمد اور اسحاق بن راہویہ وغیرہم کا نام ذکر کرتے ہیں،ابوالطیب سندھی اور طیبی وغیرہ نے بھی ''اصحابنا'' کا معنی ''اہل الحدیث'' بتایا ہے ، بعض لوگوں کا یہ کہنا کہ اس سے مراد حنابلہ یا شافعیہ ہیں، صحیح نہیں ہے ، یہ بات بھی واضح رہے کہ کتب ستہ کے مؤلفین میں سے کوئی بھی امام کسی خاص فقہی مسلک کا پابند نہ تھا ، بلکہ سب کے سب محقق عالم اور متبع کتاب وسنت تھے۔
٭ فقہاء: اس سے ترمذی کی مراد فقہائے محدثین ہوتے ہیں، جو اہل الحدیث ہیں، جن میں مالک، شافعی، احمدبن حنبل ، اسحاق بن راہویہ ، سفیان ثوری ، سفیان عیینہ وغیرہ سبھی شامل ہیں، ترمذی نے'' کتاب العلل'' کے اوائل میں سنن میں موجود فقہاء تک اپنی سند بیان کی ہے، جن میں سفیان ثوری ، مالک بن انس ، ابن مبارک ، شافعی ، احمد بن حنبل، اسحاق بن راہویہ کا ذکر فرمایاہے ۔اس قول سے بھی یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ امام ترمذی ''فقہاء'' سے ''فقہائے محدثین'' مراد لیتے ہیں، اس سے ان کی مراد ''فقہاء اہل الرائے'' نہیں ہوتے ہیں جیسا کہ بعض علمائے حنفیہ نے سمجھ رکھا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
امام ترمذی نے جن ناقدین حدیث اور فقہائے اسلام کے اقوال نقل کیے ہیں ان کا تذکرہ

۱-قاضی شریح بن حارث بن قیس کوفی (۸۷ ھ)
۲- ابوالعالیہ رفیع بن مہران ریاحی بصری (مفسر)(ت:۹۰ھ)
۳- مرہ بن شراحیل الطیب الہمدانی(مفسر) (ت:۹۰ھ)
۴-سعید بن مسیب مخزومی (م: ۹۴ ھ)
۵-سعید بن جبیر کوفی ( محدث ومفسر) (م: ۹۵ ھ)
۶-ابراہیم بن یزید النخعی الکوفی( م: ۹۵ ھ)
۷-مجاہد بن جبر مکی (ت: ۱۰۱ھ)
۸-عمربن عبدالعزیز الاموی الخلیفہ (ت: ۱۰۱ھ)
۹-عامر بن شراحیل شعبی کوفی ( م: ۱۰۴ھ)
۱۰- مجاہد بن جبر مخزومی مکی (مفسر) (ت:۱۰۴ھ)
۱۱-طاوس بن کیسان خولانی ہمدانی یمانی( محدث ومفسر) (م: ۱۰۶ ھ)
۱۲-سالم بن عبد اللہ بن عمر بن خطاب ( م: ۱۰۶ ھ)
۱۳- ضحاک بن مزاحم الہلالی الخراسانی(مفسر) (ت:۱۰۶ھ)
۱۴- عکرمہ مولیٰ ابن عباس (مفسر)(ت:۱۰۷ھ)
۱۵-حسن بن ابی الحسن بصری ( محدث ومفسر) ( م: ۱۱۰ ھ)
۱۶-محمد بن سیرین (ت: ۱۱۰ھ)
۱۷-قتادہ بن دیامہ سدوسی بصری (مفسر)(ت:۱۱۲ھ)
۱۸-مکحول الشامی (ت: ۱۱۳ھ)
۱۹-عطاء بن ابی رباح مکی( محدث ومفسر) (ت: ۱۱۵ھ)
۲۰- محمد بن کعب القرظی (مفسر)(ت:۱۱۸ھ)
۲۱-محمد بن مسلم ابن شہاب الزہری (ت: ۱۲۴ھ)
۲۲-ایوب سختیانی بصری ( م: ۱۳۱ ھ)
۲۳-محمد بن عبدالرحمن بن ابی لیلی کوفی (ت: ۱۴۸ھ)
۲۴-جعفر بن محمد بن علی بن حسین بن علیؓ ( ۸۰ ۔ ۱۴۸ ھ)
۲۵-عبد الرحمٰن بن عمرو اوزاعی (۸۸ ۔ ۱۵۷ ھ)
۲۶-عبد اللہ بن مبارک حنظلی مروزی ( ۱۱۸ ۔ ۱۸۱ ھ)
۲۷-وکیع بن الجراح کوفی (ت: ۱۹۶ھ)
۲۸-یحیی بن سعید بن فروخ القطان البصری (۱۲۰-۱۹۸ھ)
۲۹- زید بن اسلم العدوی المدنی مولیٰ عمر(مفسر)(ت:۱۳۰ھ)
۳۰-عبدالرحمن بن مہدی بصری (۱۳۵-۱۹۸ھ)
۳۱-یحیی بن معین بغدادی (۱۵۸-۲۳۳ھ)
۳۲-علی بن عبداللہ ابن المدینی (۱۶۱- ۲۳۴ھ)
۳۳-اسحاق بن راہویہ ( ۱۶۱ - ۲۳۸ ھ)
۳۴-احمد بن محمد بن حنبل (۱۶۴ - ۲۴۱ ھ)
۳۵- ابوزرعہ عبیداللہ بن عبدالکریم رازی (۲۰۰-۲۶۴ھ)
۳۶-سفیان بن سعید بن مسروق ثوری کوفی ( م: ۱۶۱ ھ)
۳۷-شعبہ بن حجاج بن ورد عتکی ازدی واسطی ( م: ۱۷۰ ھ)
۳۸-سفیان بن عیینہ بن میمون ہلالی کوفی (۱۰۷ ۔ ۱۹۸ ھ)
۳۹-عبد اللہ بن عبد الرحمن دارمی ( م: ۲۵۵ھ)
۴۰- محمد بن اسماعیل بخاری (ت: ۲۵۶ھ)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
سنن ترمذی کے رواۃ

حافظ ابو جعفر بن زبیر اپنے برنامج میں کہتے ہیں : میرے علم کے مطابق جامع ترمذی کو چھ لوگوں نے امام ترمذی سے روایت کیا ہے، جو مندرجہ ذیل ہیں:
۱- ابوحامد احمد بن عبد اللہ بن داود التاجر المروزی۔
۲- ابو سعید ہیثم بن کلیب شاشی صاحب المسند (ت: ۳۳۵ھ)۔
۳- ابو العباس محمد بن احمد بن محبوب مروزی (ت: ۳۴۶ھ)۔
۴- ابو ذر محمد بن ابراہیم بن محمد ترمذی ۔
۵- ابو محمد حسن بن ابراہیم القطان۔
۶- ابو الحسن علی بن عمر الوذاری ۔( ملاحظہ ہو: مقدمۃ تحفۃ الأحوذی )
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
جامع ترمذی کی شروح ومختصرات اور جامع سے متعلق دوسری مؤلفات

جامع ترمذی حدیث کی ایک جامع اور مفیدکتاب ہے جس میں روایت و درایت اور فقہ حدیث سبھی کچھ جمع کیا گیا ہے اس کے علاوہ اس میں بہت سی خوبیاں ہیں اور یہ اہم کتب حدیث میں سے ایک ہے اس کی بہت ساری خوبیوں کے سبب بعض اہل علم نے اس کو کتب حدیث میں تیسرا مقام دیا ہے، بہت سارے لوگوں نے سنن ترمذی کی شرحیں لکھی ہیں اور اس پر تعلیقات چڑھائی گئیں اور اس کی مختصرات اور مستخرجات بھی لکھی گئیں جن کی تفصیل مندرجہ ذیل ہے۔
أ- شروح جامع ترمذی:
(۱) شرح جامع الترمذی للإ مام حسین بن مسعود البغوی ( م:۵۱۶ھ)، (تاریخ الادب العربی: بروکلمان ۱/۱۹۰، تاریخ التراث العربی: فواد سزکین ۱/۳۰۲)، ان لوگوں نے لکھا ہے کہ اس شرح کا آخری حصہ مکتبہ محمودیہ، مدینہ میں (۳۵) نمبرکے تحت موجودہے۔
(۲) عارضۃ الأحوذی فی شرح جامع الترمذی للقاضی ابی بکر بن العربی المالکی (۴۶۸ - ۵۴۳ ھ)۔(مطبوع)
(۳) النفح الشذيفی شرح جامع الترمذی لابن سید الناس فتح الدین ابو الفتح الیعمری ( م: ۷۳۴ ھ)۔ یہ شرح مکمل نہ ہو سکی۔اس کی تکمیل حافظ زین الدین عراقی نے فرمائی ، حافظ سیوطی کہتے ہیں کہ عراقی نے بھی اس کو مکمل نہ کیا،یہ المنقح الشذی کے نام سے بھی معروف ہے۔(مقدمۃ تحفۃ الأحوذی)،ابن طولون نے اس کا نام الفوح الشذيلکھاہے، ابن سید الناس نے کتاب الطہارۃ، باب ماجاء أن الأرض کلہا مسجد إلا المقبرۃ والحمام کے باب کی آٹھویں نمبر کی حدیث تک یہ شرح لکھی اور موت کی وجہ سے پوری نہ کرسکے، اس کے بعد اس کا تکملہ حافظ عراقی نے کیا ۔
(۴) شرح جامع الترمذی للإ مام ابن رجب البغدادی الحنبلی (۷۰۶ - ۷۹۵ ھ) ۔یہ شرح بعض حادثات میں جل گئی، صرف شرح العلل موجود اورمطبوع ہے۔
(۵) شرح علل الترمذی لابن رجب (ت: ۷۹۵ھ) (مطبوع)
(۶) إنجاز الوعد الوفی بشرح جامع الترمذی ، تالیف: عمر بن علی ابن الملقن (ت: ۷۲۳- ۸۰۴ھ)اس کتاب میں صحیحین اور ابوداود پر ترمذی کے زوائد کی شرح ہے ، لیکن نامکمل ہے، اور یہ کتاب ابھی تک غیر مطبوع ہے، اور اس کا ایک نسخہ چسٹر پٹی لائبریری ،جرمن میں موجودہے۔
(۷) العرف الشذی علی جامع الترمذی للحافظ عمر بن رسلان البلقینی (۷۲۴ - ۸۰۵ ھ) ۔یہ صرف ایک قطعے کی شرح تھی اور ناتمام۔
(۸) تکملۃ النفح الشذی فی شرح الجامع الترمذی لابن سید الناس للامام زین الدین عبد الرحیم بن حسین العراقی (م:۸۰۶ ھ)۔ عراقی نے اس شرح کی تبییض کتاب اللباس کے آخر تک کی اور اصل کتاب کا مسودہ عراقی کے خط سے کتاب المناقب تک دار الکتب المصریہ میں ( ۲۵۰۴ حدیث) میں موجود ہے ( نیز ملاخطہ ہو: المعجم المفہرس لابن حجر)۔
(۹) شرح جامع الترمذی للحافظ ابن حجر عسقلانی (۸۷۳ - ۸۵۲ ھ) (فتح الباری ۱/۲۳۰)۔
(۱۰) العجاب فی تخریج مایقول فیہ الترمذی : وفی الباب للحافظ ابن حجر ، اس کا نام اللباب بھی ہے ، حافظ سخاوی کہتے ہیں: حافظ ابن حجر نے شروع کے ابواب پر چھ دفتر لکھے ۔اگریہ کتاب مکمل ہوجاتی تو ایک ضخیم جلدمیں آتی ۔(الجواہر والدرر۲/۶۶۶)۔
(۱۱) قوت المغتذی علی جامع الترمذی للحافظ جلال الدین عبد الرحمن بن کمال السیوطی (۸۴۹ -۹۱۱ ھ) ۔
(۱۲) نفع قوت المغتذی علی جامع الترمذی لعلی بن سلیمان البجمعوی المغربی المالکی (۱۲۹۸ ھ) (مطبوع قاہرہ ، دہلی)۔
یہ سیوطی کی شرح کی تلخیص ہے۔
(۱۳) شرح جامع الترمذی لعبد القادر بن اسماعیل الحسنی القادری الحنفی(ت: ۱۱۸۷ھ) ۔
(۱۴) منہاج السنن شرح جامع السنن للامام الترمذی ، تالیف: محمد فرید زربوری (اس کی ایک جلد مطبوع ہے)
(۱۵) تحقیق وشرح وتعلیق العلامہ احمد محمد شاکر (مطبوع ) علامہ احمد شاکر نے صرف شروع کی (۶۱۶) احادیث کی تحقیق فرمائی تھی ، اور ایک علمی مقدمہ تحریر کیاتھا۔
ب: جامع الترمذی کے مختصرات ومستخرجات ورجال سے متعلق مؤلفات:
(۱) مختصر الأحکام المستخرج علی جامع الترمذی ، تالیف: ابوعلی حسن بن علی الخراسانی (ت: ۳۱۲ھ) (مستخرج الطوسی علی جامع الترمذی ) (تدریب الراوی)۔(مطبوع) ۔
(۲) مستخرج أبی بکر احمد بن علی بن منجویہ النیسابوری (ت: ۴۲۸ھ)
(۳) فضائل الکتاب الجامع لأبی عیسیٰ الترمذی ، تالیف: ابوالقاسم الاسعردی عبیدبن محمد بن عباس (ت: ۶۹۲ھ)
(۴) مختصر جامع الترمذی لنجم الدین سلیمان بن عبد القوی الطوفی الحنبلی ( م: ۷۱۰ھ) (مخطوط)۔
(۵) مختصر جامع الترمذی لنجم الدین محمد بن عقیل البالسی الشافعی ( م: ۷۲۹ھ) (مخطوط)۔
(۶) استدراک الصحاح الواقعۃ فی الترمذی علی البخاری ومسلم ، تالیف: محمد بن عبدالرحمن الکرسوطی الفاسی (ت: ۷۵۵ھ)۔
(۷) مأئۃ حدیث منتقاۃ منہ عوال( أی من سنن الترمذی) للحافظ صلاح الدین خلیل الکیکلدی العلائی (ت: ۷۶۱ھ) (اس میں سو منتخب احادیث ہیں) (کشف الظنون ۱/ ۵۵۹) ۔
(۸) الکوکب المضیٔ المنتزع من جامع الترمذی تالیف: یحیی بن حسن بن احمد بن عثمان (ت: بعد ۷۶۹ھ)(مخطوط،صنعاء یمن)
(۹) الأحادیث المستغربۃ فی الجامع الصحیح للترمذی تالیف: احمد بن العلائی الشافعی من رجال القرن الثامن (مخطوط)
(۱۰) ختم جامع الترمذی للشیخ عبداللہ بن سالم البصری المکی (۱۱۳۴ھ)
(۱۱) مختصر سنن الترمذی ، تالیف: ابوالفضل تاج الدین محمد بن عبدالمحسن القلعی (کان حیا سنۃ : ۱۱۳۴ھ)۔
(۱۲) علل الترمذی الکبیر: ترتیب أبی طالب القاضی (مطبوع)۔
(۱۳) صحیح سنن الترمذی للألبانی ۔
(۱۴) ضعیف سنن الترمذی للألبانی۔دونوں کتابیں سندحذف کرکے اورہرحدیث پر حکم لگاکر الگ الگ شائع ہوئیں، اور بعد میں مکتبۃ المعارف ، ریاض سے البانی صاحب کے حکم کے ساتھ اصل سنن الترمذی شیخ ابوعبیدہ مشہور بن حسن آل سلمان کی نگرانی میں شائع ہوئی ۔
(۱۵) تہذیب جامع الترمذی ، تالیف: عبداللہ بن عبدالقادر التلیدی(مطبوع)
(۱۶) مختصر سنن الترمذی: مصطفی دیب البغا (مطبوع)۔
(۱۷) التصریح بزوائدالجامع الصحیح (سنن الترمذی) : محمود نصار (مطبوع)
(۱۸) نزہۃ الالباب فی قول الترمذی: وفی الباب : تالیف: حسن بن محمد بن حیدر الوائلی (۶) اجزاء ۔ط، دار ابن الجوزی (۱۴۲۶ھ)اس کتاب میں مولف کے احادیث کے دیئے ہوئے نمبرات کے اعتبار سے سنن الترمذی میں موجود مافی الباب کے عنوان سے (۴۱۰۴) احادیث کی تخریج موجود ہے ، اب تک کی شائع ہونے والی اس موضوع پریہ سب سے جامع کتاب ہے ، علامہ مبارکپوری نے تحفۃ الاحوذی میں اپنے طور پر مختصرا ان احادیث کی تخریج کی تھی لیکن بہت ساری احادیث کی تخریج باقی تھی ، احمد شاکر نے بھی اس باب کی احادیث کی تخریج کو موضوع بحث نہیں بنایا، اور اوپر گزرا کہ حافظ ابن حجر نے اس موضوع پر ایک کتاب تالیف فرمائی تھی لیکن وہ ابھی تک مفقود کے حکم میں ہے ۔
(۱۹) اللباب فی تخریج المبارکفوری لقول الترمذی: وفی الباب جمع وترتیب محمد صبحی حسن حلاق (مطبوع) ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
سنن ترمذی کی خدمت میں برصغیر کے علما ء کی مساعی:

(۱) شرح جامع الترمذی: تألیف محمد بن طاہر بن علی الفتنی (۹۱۴ - ۹۸۶ ھ) ۔
(۲) شرح جامع الترمذی : تألیف أبی الطیب محمد بن الطیب السندي ( م: ۱۱۰۹ھ)۔اس کا ایک قطعہ نظامی پریس میں شائع ہوا (سیرۃ البخاری ۲/۷۲۵)۔
(۳) شرح جامع الترمذی: تألیف أبی الحسن بن عبد الہادی السندي المدنی (م: ۱۱۳۹ ھ) مصرمیں طبع ہوئی۔
(۴) شرح جامع الترمذی : تألیف سراج احمد السرہندی (م: ۱۲۳۰ ھ) یہ شرح فارسی میں ہے، اور کانپور میں شائع ہوئی (تاریخ التراث العربی ۱/۲۴۴)۔
(۵) ھدیۃ اللوذعی بنکات الترمذی : تألیف علامہ شمس الحق العظیم آبادی (۱۳۲۹ ھ) نامکمل۔(سیرۃ البخاری ۲/۷۲۷)۔
(۶) الکوکب الدری علی جامع الترمذی أمالی الشیخ رشید احمد الگنگوہی(ت: ۱۳۲۳ھ) ، ترتیب وتالیف: الشیخ محمد یحییٰ بن محمد اسماعیل الکاندھلوی الحنفی(۱۳۳۴ ھ) ، یہ کتاب شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندھلوی کے حواشی کے ساتھ چارجلدوں میں ندوۃ العلماء لکھنؤسے (۱۳۹۵ھ=۱۹۷۵ء) شائع ہوئی)۔
(۷) تقریرات علی جامع الترمذی لمحمود الحسن بن ذو الفقار الحنفی(۱۳۳۹ ھ) (علی بن سلیمان بجمعاوی نے ان فوائد کو اپنی کتاب نفع قوۃ المغتذی میں شامل کیاہے۔
(۸) العرف الشذی علی جامع الترمذی لمحمد انور شاہ کشمیری الحنفی(۱۳۵۲ ھ) ۔ اس امالی کو مولف کے شاگرد مولانا محمد چراغ پنجابی نے جمع کیا، اور یہ ایک جلد میں شائع ہوئی ۔
(۹) الطیب الشذی شرح جامع الترمذی لاشفاق الرحمن الکاندھلوی الحنفی، دہلی سے اس شرح کی پہلی جلد (۱۳۴۳ھ) میں شائع ہوئی ۔
(۱۰) حاشیۃ علی جامع الترمذی لاحمد بن علی بن لطف اللہ السہارنفوری الحنفی(ت: ۱۲۹۷)۔
(۱۱) تحفۃ الأحوذی بشرح جامع الترمذی للعلامہ الشیخ الحافظ ابی العلا محمد عبد الرحمان بن عبد الرحیم المبارکفوری (۱۲۸۲ - ۱۳۵۲ ھ)۔
(۱۲) مقدمہ تحفۃ الأحوذی للمبارکفوری ، یہ علوم حدیث ، محدثین اور مؤلفات حدیث نیز امام ترمذی اور سنن سے متعلق ایک جامع کتاب ہے۔
(۱۳) قواعدفی علوم الحدیث وکتبہ وأہلہ للمبارکفوری : ڈاکٹرعبدالعلیم بن عبدالعظیم بستوی نے علوم حدیث کتب حدیث اور محدثین سے متعلق مقدمہ تحفہ کے مباحث کی فاضلانہ تحقیق (۱۰۳۹) صفحے میں دار المنہاج ، ریاض سے شائع فرمائی ہے۔
(۱۴) ہدیۃ المجتبی للحبر المدنی أمالی الشیخ حسین احمد المدنی (ت: ۱۳۷۷ھ) اس کا ایک جزء شائع ہواہے۔
(۱۵) الرد والتعقیب علی بعض الشارحین من المعاصرین لجامع الترمذی ، تالیف: الشیخ عبدالرحمن بن یحیی المعلمی (ت: ۱۳۸۶ھ) ، تحقیق ماجد الزیادی ، نشر المکتبۃ المکیۃ ، مکہ۔
(۱۶) معارف السنن شرح جامع الترمذی لمحمد یوسف البنوری الحنفی (۱۳۹۷ ھ) یہ (۶) جلدوں میں کتاب الحج تک مطبوع ہے ، اور نامکمل ہے ۔
(۱۷) کشف النقاب عمایقولہ الترمذی: ''و فی الباب'' تالیف: ڈاکٹرمحمدحبیب اللہ مختار- رحمہ اللہ- شیخ الحدیث جامعہ بنوریہ (مولف رحمہ اللہ نے (۲۶)سال پہلے (ربیع الاول ۱۴۰۸ھ) میں کراچی میں ایک مختصر سی ملاقات میں اس کتاب کا ایک نسخہ تین جلدوں میں مجھے ہدیہ کیا تھا اور یہ کتاب اس وقت غیر مکمل تھی ، کچھ دنوں کے بعد ان کا قتل ہوگیا تھا ،اللہ تعالیٰ ان کو شہادت کا درجہ دے ،بعد میں اس کی دوجلدیں اورشائع ہوئیں اس طرح سے یہ کتاب پانچ جلدوں میں ہے، اور اس میں باب ماجاء فی کثرۃ الرکوع والسجود(حدیث نمبر: ۳۸۹) تک کی احادیث کی تخریج ہے (نامکمل) ۔
(۱۸) جائزۃ الأحوذی فی التعلیقات علی سنن الترمذی فی اختصار تحفۃ الأحوذی : تالیف : حافظ ثناء اللہ بن عیسیٰ خان ، یہ شرح جمعیت احیاء التراث الاسلامی (کویت) کے تعاون سے چار جلدوں میں جامعہ سلفیہ ، بنارس سے شائع ہوئی ہے ، جس کے صفحات (۴۸۲۸)ہیں ، اور در اصل یہ تحفۃ الأحوذی کا جامع اختصار مع اضافات مفیدہ ہے ۔
سنن الترمذی کے اردو تراجم وشروح:
(۱۹) جائزۃ الشعوذی شرح الجامع الترمذی : تألیف بدیع الزمان بن مسیح الزمان حیدر آبادی (م: ۱۳۱۰ ھ) یہ یہ ترجمہ وشرح اردو میں ہے۔
(۲۰) تکملۃ شرح جامع الترمذی لبدیع الزمان لوحید الزمان بن مسیح الزمان حیدر آبادی (م: ۱۳۳۸ ھ) ۔
(۲۱) سنن الترمذی (تیارکردہ: مجلس علمی ، دارالدعوۃ، نئی دہلی)۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
اسلامی یونیورسٹیوں کے اساتذہ اور طلبہ کی سنن سے متعلق خدمات:

(۱) الأحادیث التی انفر بہا الترمذی عن سائر الکتب الستۃ :قابل عبداللہ قابل ، جامعۃ ام درمان الإسلامیۃ ، سوڈان، ۱۴۱۸ھ)
(۲) الأحادیث التی حسنہاأبوعیسی الترمذی وانفرد بإخراجہا عن أصحاب الکتب الستۃ : دراسۃ حدیثیۃ، تالیف: ڈاکٹر عبدالرحمن بن صالح محی الدین ،استاذ حدیث (جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ ) (مقالہ برائے ایم اے) (مطبوع، دار الفضیلۃ ، ریاض ، ۱۴۱۹ھ)۔
(۳) الأحادیث التی حکم علیہا الترمذی بالنکارۃ، جمعا ودراسۃ، تالیف: ڈاکٹر محمد بن ترکی الترکی (جامعۃ الملک سعود ، ریاض)
(۴) الأحادیث التی ذکر الترمذی أن العمل علیہا عند أہل العلم : دراسۃ وتخریجا، تالیف: ڈاکٹرابراہیم بن حمود التویجری (مقالہ برائے ایم اے جامعۃ الامام ) شروع کتاب سے آخر کتاب الدیات تک ۔
(۵) الأحادیث التی ذکر الترمذی أنہا أصح شیء فی الباب : ڈاکٹر عبداللہ خثلان (مقالہ برائے پی ایچ ڈی ، جامعۃ الإمام )۔
(۶) الأحادیث التی علقہا الترمذی فی جامعہ : البندری أباالخیل: (مقالہ برائے ایم اے جامعۃ الإمام)
(۷) الأحادیث الحسان الغرائب فی جامع الإمام الترمذی: جمعا ودراسۃ حدیثیۃ، تالیف: ڈاکٹرعبدالباری بن حماد الأنصاری ، (مقالہ برائے ڈاکٹریٹ ، جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ) ۔
(۸) الأحادیث الغریبۃ فی جامع الترمذی، تالیف: ڈاکٹرمحمد علی محمد صالح محمدنور، (مقالہ برائے ڈاکٹریٹ ، جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ) ، شروع کتاب الطہارۃ سے آخر کتاب الزہد تک ۔
(۹) الإمام الترمذي والموازنۃ بین جامعہ وبین الصحیحین : تالیف: ڈاکٹر نورالدین عتر۔
(۱۰) الأحادیث التی ذکر فیہا الترمذي اختلافا ولیست فی العلل الکبیر: اس موضوع پر جامعۃ الإمام کے کلیۃ أصول الدین کے شعبہ تخصص فی الحدیث سے پانچ فضلاء نے ایم اے کے تھیسس (مقالے) تیار کیے جن کے نام یہ ہیں:۱- ڈاکٹرخالد بن محمد باسمح :شروع کتاب سے کتاب الزکاۃ تک ۔
(۱۱) ۲- ڈاکٹربندربن عبداللہ الشویقی : کتاب الصیام سے کتاب البیوع تک ۔
(۱۲) ۳- ڈاکٹرعبدالعزیز بن عبداللہ الہلیل :کتاب الاستئذان کے شروع سے کتاب التفسیر میں حدیث نمبر(۳۱۷۱) تک ۔
(۱۳) ۴- ڈاکٹر عبدالعزیز بن عبداللہ الشایع :کتا ب الفرائض کے شروع سے کتاب العلم کے آخرتک ۔
(۱۴) ۵- ڈاکٹربکر بن محمد البخاری : کتاب الأحکام سے کتاب الطب تک ۔
(۱۵) ۶- ڈاکٹراحمد بن محمد المنیعی
(۱۶) تراث الترمذی العلمي ،تالیف: الدکتور اکرم ضیا ء العمری (مطبوع)۔
(۱۷) جامع الترمذی فی الدراسات المغربیۃ : روایۃ ودرایۃ ، تالیف: محمد حسینی صقلی (مقالہ برائے ڈبلومہ ، جامعۃ محمد الخامس ، کلیۃ الآداب ، رباط ، ۱۴۰۹ھ )۔
(۱۸) الحدیث الحسن مطلقا عندالإمام الترمذی : عمر حسن فلاتہ ۔
(۱۹) الحدیث المنکرودلالتہ عند الإمام الترمذی ، تالیف: ڈاکٹر محمد بن ترکی الترکی (مطبوع)
(۲۰) حکم العمل بالحدیث الضعیف وأثرہ الأحکام: دراسۃ تطبیقیۃ علی ما ورد فی قسم العبادات من جامع الترمذی من أحادیث ضعیفۃ علیہا العمل ، تالیف:ڈاکٹر محمد ابراہیم السعیدی ، (مقالہ برائے ایم اے ، ام القری یونیورسٹی ، مکہ مکرمہ)
(۲۱) دراسات حول ما یقول الترمذي فیہ حدیث صحیح: محمد علی محمد صالح (مقالہ برائے ایم اے ، جامعہ اسلامیہ، مدینہ منورہ ، ۱۴۰۱ھ)
(۲۲) دراسات في سنن الترمذي (الأحادیث التي انفرد بہا الترمذي عن الکتب الستۃ) تالیف: ڈاکٹریوسف ابراہیم النور(مقالہ برائے ڈاکٹریٹ ، ام درمان یونیورسٹی )
(۲۳) دراسۃ مسائل العقیدۃ في سنن الترمذي ، تالیف:ڈاکٹر یوسف بن علی الطریف(مقالہ برائے ایم اے جامعۃ الامام ، القسم الثانی)
(۲۴) دراسۃ مسائل العقیدۃ في سنن الترمذي، تالیف:ڈاکٹر فہد بن سلیمان الفہید (مقالہ برائے ایم اے ، جامعۃ الامام ) دراسۃ القسم الاول : الاعتصام بالکتاب والسنۃ ، والإیمان باللہ ، وبالملائکۃ وبالکتب ، وبالرسل۔
(۲۵) الرجال الذین تفرد الترمذي بالروایۃ عنہم ، تالیف: یوسف النور عبدالرحمن ابراہیم (مقالہ برائے ایم ایے جامعۃ القرآن ، أم درمان، سوڈان)
(۲۶) الرجال الذین تکلم فیہم الترمذی فی جامعہ: تجریدا وتحقیقا، تالیف:ڈاکٹر حسن بن غانم الغانم (مقالہ برائے ایم اے، جامعۃ الإمام ، ریاض )۔
(۲۷) زوائد الإمام الترمذی علی الأصول الثمانیۃ ، تالیف: ڈاکٹرفیصل محمد العقیل ( جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ )
(۲۸) السلسبیل فیمن ذکر ہم الترمذي بجرح أو تعدیل ، تالیف: محمد عبداللہ بن الشیخ محمد الشنقیطی (مطبوع)
(۲۹) سؤالات الترمذي للبخاري حول أحادیث في جامع الترمذي ، تالیف: ڈاکٹریوسف محمد الدخیل-رحمہ اللہ- (مقالہ برائے ایم اے، جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ) ۔
(۳۰) غرائب الترمذي في الجامع: جمعا وتحقیقا وتخریجا ودراسۃ ، تالیف: ڈاکٹرمحمدعلی محمد صالح ، (مقالہ برائے ڈاکٹریٹ ، جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ) ۔
(۳۱) الغریب المطلق عندالإمام الترمذی دراسۃ نقدیۃ استقرائیۃ لمدلول المصطلح في جامعہ الکبیر : تالیف: ڈاکٹر یحیی بن عبداللہ الثمالی (مطبوع)
(۳۲) فقہ الإمام الترمذي في سننہ: ودراسۃ نقولہ للمذاہب، تالیف: مطلق سرحان الصہیبی (مقالہ برائے ایم اے ، ام القریٰ یونیورسٹی ، مکہ مکرمہ) شروع کتاب الطہارۃ سے باب ماجاء فی بدایۃ الأذان ۔
(۳۳) فقہ الإمام الترمذي في سننہ ، ودراسۃ نقولہ للمذاہب، تالیف:ڈاکٹر مازن عبدالعزیز الحارثی ، (مقالہ برائے ایم اے ، ام القریٰ یونیورسٹی ، مکہ مکرمہ)شروع کتاب النکاح سے آخر کتا ب الطلاق واللعان تک ۔
(۳۴) فقہ الحدیث عندأئمۃ السلف بروایۃ الإمام الترمذي،تالیف: محمد بن أحمد کنعان (مطبوع)۔
(۳۵) المتروکون ومرویاتہم في کتاب الجامع للإمام الترمذي، تالیف: ڈاکٹرموسیٰ سکر بوتس(مقالہ برائے ایم اے ام القریٰ یونیورسٹی ، مکہ مکرمہ)
(۳۶) منہج التعلیل عندالإمام الترمذي من خلال کتابہ الجامع، تالیف: طارق أسعد حلمی( مقالہ برائے ایم اے ، اردن یونیورسٹی)۔
(۳۷) منہج العلامۃ الجلیل الشیخ المبارکفوری في کتابہ: تحفۃ الأحوذي ، تالیف: ڈاکٹرعبداللہ بن رفدان الشہرانی ، استاذ حدیث، جامعہ ام القری (مطبوع) یہ دراصل ایم اے کا مقالہ تھا جسے موصوف نے ام القریٰ یونیورسٹی میں پیش کیا۔
فہارس سنن الترمذی:
۱- فہارس سنن الترمذی ، بیروت دار الکتب العلمیۃ ، علی طبعۃ الشیخ أحمد شاکر (مطبوع)
۲- المرشد إلی أحادیث سنن الترمذی، صدقی البیک (مطبوع)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
کتاب الشمائل کی شروح ومختصرات:

امام ترمذی کی سنن کی طرح کتا ب الشمائل بھی بڑی مقبول عام کتاب ہے ، اور علماء نے اس کی بھی کئی شرحیں لکھیں ہیں، جن کا ذکر فائدے سے خالی نہ ہوگا :
۱- شرح القسطلانی
۲- شرح السیوطی
۳- شرح ابن حجر الہیتمی المکی
۴- شرح ملا علی القاری
۵- شرح عبدالرؤو ف المناوی
۶- شرح سلیمان الجمل
۷- المواہب اللدنیۃ علی الشمائل المحمدیۃ : تالیف ابراہیم مصری باجوری
۸- درر الفضائل فی شرح علیم الدین قریشی قنوجی (ت: ۱۲۲۳ھ)
۹- اردو ترجمہ شمائل ترمذی : ازمولانا محمد زکریا کاندھلوی
۱۰- شرح الوصائل فی شرح الشمائل ، از شیخ الحدیث حافظ ثناء اللہ بن عیسیٰ خان (ولادت : ۱۳۶۰= ۱۹۴۰م)
۱۱- مختصر الشمائل المحمدیہ از علامہ البانی ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
وفات

امام صاحب کی وفات جیسا کہ امام مزی نے اپنی کتاب تہذیب الکمال کے اندر بیان کیا ہے کہ آپ کی وفات (۱۳) رجب المرجب کو سوموار کی رات میں ۲۷۹؁ھ کے اندر (۷۰)برس کی عمر میں ہوئی،رحمۃ اللہ علیہ رحمۃ واسعۃ۔
 
Top