• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن الترمذی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
8 - بَاب مَا جَاءَ فِي النَّهْيِ عَنْ الْبَوْلِ قَائِمًا
۸-باب: کھڑے ہوکر پیشاب کرنے کی ممانعت​


12- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، أَخْبَرَنَا شَرِيكٌ، عَنْ الْمِقْدَامِ بْنِ شُرَيْحٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: مَنْ حَدَّثَكُمْ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ كَانَ يَبُولُ قَائِمًا فَلاَ تُصَدِّقُوهُ، مَا كَانَ يَبُولُ إِلاَّ قَاعِدًا. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عُمَرَ وَبُرَيْدَةَ وَعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ حَسَنَةَ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَائِشَةَ أَحْسَنُ شَيْئٍ فِي هَذَا الْبَابِ وَأَصَحُّ. وَحَدِيثُ عُمَرَ إِنَّمَا رُوِيَ مِنْ حَدِيثِ عَبْدِ الْكَرِيمِ بْنِ أَبِي الْمُخَارِقِ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، عَنْ عُمَرَ قَالَ: رَآنِي النَّبِيُّ ﷺ - وَأَنَا أَبُولُ قَائِمًا - فَقَالَ: "يَا عُمَرُ، لاَ تَبُلْ قَائِمًا، فَمَا بُلْتُ قَائِمًا بَعْدُ".
قَالَ أَبُوعِيسَى: وَإِنَّمَا رَفَعَ هَذَا الْحَدِيثَ عَبْدُ الْكَرِيمِ بْنُ أَبِي الْمُخَارِقِ، وَهُوَ ضَعِيفٌ عِنْدَ أَهْلِ الْحَدِيثِ: ضَعَّفَهُ أَيُّوبُ السَّخْتِيَانِيُّ وَتَكَلَّمَ فِيهِ. وَرَوَى عُبَيْدُ اللَّهِ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: قَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: مَا بُلْتُ قَائِمًا مُنْذُ أَسْلَمْتُ. وَهَذَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ عَبْدِ الْكَرِيمِ. وَحَدِيثُ بُرَيْدَةَ فِي هَذَا غَيْرُ مَحْفُوظٍ.
وَمَعْنَى النَّهْيِ عَنْ الْبَوْلِ قَائِمًا: عَلَى التَّأْدِيبِ لاَ عَلَى التَّحْرِيمِ، وَقَدْ رُوِيَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: إِنَّ مِنْ الْجَفَاءِ أَنْ تَبُولَ وَأَنْتَ قَائِمٌ۔
* تخريج: ن/الطہارۃ ۲۵ (۲۹)، ق/الطہارۃ ۱۴ (۳۰۷)، (تحفۃ الأشراف:۱۶۱۴۷)، حم (۶/۱۳۶، ۱۹۲، ۲۱۳) (صحیح) (تراجع الالبانی /۱۲، الصحیحہ : ۲۰۱)
۱۲- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں : جوتم سے یہ کہے کہ نبی اکرم ﷺ کھڑے ہوکر پیشاب کرتے تھے تو تم اس کی تصدیق نہ کرنا، آپ بیٹھ کرہی پیشاب کرتے تھے ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- اس باب میں عمر، بریدہ،عبدالرحمن بن حسنہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۲- اس باب میں عائشہ رضی اللہ عنہا کی یہ حدیث سب سے زیادہ عمدہ اورصحیح ہے،۳- عمر رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ مجھے نبی اکرم ﷺ نے کھڑے ہوکر پیشاب کرتے ہوئے دیکھاتو فرمایا: ''عمر! کھڑے ہوکر پیشاب نہ کرو''، چنانچہ اس کے بعد سے میں نے کبھی بھی کھڑے ہوکر پیشاب نہیں کیا۔ عمر رضی اللہ عنہ کی اس حدیث کو عبدالکریم ابن ابی المخارق نے مرفوعاً روایت کیاہے اور وہ محدّثین کے نزدیک ضعیف ہیں، ایوب سختیانی نے ان کی تضعیف کی ہے اور ان پر کلام کیاہے، نیزیہ حدیث عبیداللہ نے نافع سے اور نافع نے ابن عمر سے کہ عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے جب سے اسلام قبول کیاکبھی کھڑے ہوکر پیشاب نہیں کیا۔ یہ حدیث عبدالکریم بن ابی المخارق کی حدیث سے (روایت کے اعتبارسے) زیادہ صحیح ہے ۲؎ ، ۴- اس باب میں بریدۃ رضی اللہ عنہ کی حدیث محفوظ نہیں ہے،۵- کھڑے ہوکر پیشاب کرنے کی ممانعت ادب کے اعتبارسے ہے حرام نہیں ہے ۳؎ ،۶- عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ تم کھڑے ہوکر پیشاب کرو یہ پھوہڑپن ہے ۴؎ ۔
وضاحت ۱؎ : ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کایہ دعویٰ اپنے علم کے لحاظ سے ہے ، ورنہ بوقت ضرورت نبی اکرمﷺنے کھڑے ہوکربھی پیشاب کیا ہے جیساکہ اگلی حدیث میں آرہاہے، ہاں آپ کی عادت مبارکہ عام طورپربیٹھ ہی کرپیشاب کرنے کی تھی ، اورگھرمیں کھڑے ہوکرپیشاب کرنے کی ضرورت ہی پیش نہیں آتی ہے۔
وضاحت ۲؎ : یعنی عبدالکریم کی مرفوع روایت کہ (نبی اکرمﷺنے کھڑے ہوکرپیشاب سے روکا) ضعیف ہے، جبکہ عبیداللہ العمری کی موقوف روایت صحیح ہے۔
وضاحت ۳؎ : یعنی کھڑے ہوکرپیشاب کرناحرام نہیں بلکہ منع ہے۔
وضاحت ۴؎ : دونوں (مرفوع و موقوف) حدیثوں میں فرق یوں ہے کہ مرفوع کا مطلب ہے : نبی اکرم ﷺنے عمر رضی اللہ عنہ کو جب سے منع کیا تب سے انہوں نے کھڑے ہوکر پیشاب نہیں کیا، اور موقوف روایت کا مطلب ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ اپنی عادت بیان کررہے ہیں کہ اسلام لانے کے بعد میں نے کبھی کھڑے ہوکر پیشاب نہیں کیا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
9- بَاب الرُّخْصَةِ فِي ذَلِكَ
۹-باب: کھڑے ہوکر پیشاب کرنے کی اجازت کابیان​


13- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ الاَعْمَشِ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ حُذَيْفَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ أَتَى سُبَاطَةَ قَوْمٍ، فَبَالَ عَلَيْهَا قَائِمًا، فَأَتَيْتُهُ بِوَضُوئٍ فَذَهَبْتُ لاِتَأَخَّرَ عَنْهُ، فَدَعَانِي حَتَّى كُنْتُ عِنْدَ عَقِبَيْهِ، فَتَوَضَّأَ وَمَسَحَ عَلَى خُفَّيْهِ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: و سَمِعْت الْجَارُودَ يَقُولُ: سَمِعْتُ وَكِيعًا يُحَدِّثُ بِهَذَا الْحَدِيثِ عَنْ الأعْمَشِ، ثُمَّ قَالَ وَكِيعٌ: هَذَا أَصَحُّ حَدِيثٍ رُوِيَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ فِي الْمَسْحِ، و سَمِعْت أَبَاعَمَّارٍ الْحُسَيْنَ بْنَ حُرَيْثٍ، يَقُولُ: سَمِعْتُ وَكِيعًا، فَذَكَرَ نَحْوَهُ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَهَكَذَا رَوَى مَنْصُورٌ وَعُبَيْدَةُ الضَّبِّيُّ عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ حُذَيْفَةَ مِثْلَ رِوَايَةِ الأْعمَشِ. وَرَوَى حَمَّادُ بْنُ أَبِي سُلَيْمَانَ وَعَاصِمُ بْنُ بَهْدَلَةَ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ. وَحَدِيثُ أَبِي وَائِلٍ عَنْ حُذَيْفَةَ أَصَحُّ. وَقَدْ رَخَّصَ قَوْمٌ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ فِي الْبَوْلِ قَائِمًا.
قَالَ أَبُو عِيسَى: وَعَبِيدَةُ بْنُ عَمْرٍو السَّلْمَانِيُّ رَوَى عَنْهُ إِبْرَاهِيمُ النَّخَعِيُّ، وَعَبِيدَةُ مِنْ كِبَارِ التَّابِعِينَ، يُرْوَى عَنْ عَبِيدَةَ أَنَّهُ قَالَ: أَسْلَمْتُ قَبْلَ وَفَاةِ النَّبِيِّ ﷺ بِسَنَتَيْنِ، وَعُبَيْدَةُ الضَّبِّيُّ، صَاحِبُ إِبْرَاهِيمَ: هُوَ عُبَيْدَةُ بْنُ مُعَتِّبٍ الضَّبِّيُّ وَيُكْنَى أَبَا عَبْدِ الْكَرِيمِ۔
* تخريج: خ/الوضوء ۶۰(۲۲۴) و۶۱(۲۲۵) و۶۲(۲۲۶) والمظالم ۲۷ (۲۴۷۱) م/الطہارۃ۲۲(۲۷۳) د/الطہارۃ۱۲(۲۳) ن/الطہارۃ۱۷،۲۴(۱۸،۲۶،۲۷،۲۸) ق/الطہارۃ ۱۳(۳۰۵) (تحفۃ الأشراف: ۳۳۳۵) حم ( ۵/۳۹۴) دي/الطہارۃ ۹ (۶۹۵) (صحیح)
۱۳- حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کا گزر ایک قوم کے کوڑے کرکٹ کے ڈھیر پرسے ہوا تو آپ نے اس پر کھڑے ہوکر پیشاب کیا، میں آپ کے لیے وضو کا پانی لایا،اسے رکھ کرمیں پیچھے ہٹنے لگا،تو آپ نے مجھے اشارے سے بلایا ، میں (آکر)آپ کی ایڑیوں کے پاس کھڑاہوگیا، آپ نے وضو کیا اور اپنے موزوں پر مسح کیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- وکیع کہتے ہیں: یہ حدیث مسح کے سلسلہ میں نبی اکرم ﷺ سے مروی حدیثوں میں سب سے زیادہ صحیح ہے ۔۲- یہ حدیث بروایت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ بھی نبی اکرمﷺ سے مروی ہے ۱؎ ابووائل کی حدیث جسے انہوں نے حذیفہ سے روایت کیا (مغیرہ کی روایت سے)زیادہ صحیح ہے ۲؎ ، ۳- محدّثین میں سے اہل علم کی ایک جماعت نے کھڑے ہوکرپیشاب کرنے کی اجازت دی ہے۔
وضاحت ۱؎ : یعنی حماداورعاصم نے بھی ابووائل ہی سے روایت کی ہے مگر ابووائل نے حذیفہ کے علاوہ ''مغیرہ بن شعبہ'' رضی اللہ عنہ سے بھی روایت کیا ہے ،ایسااکثر ہوتا ہے کہ ایک راوی نے ایک حدیث دودوراویوں سے روایت ہوتی ہے اس لیے ممکن ہے کہ ابووائل نے دونوں صحابیوں سے سناہو۔
وضاحت ۲؎ : کیونکہ اعمش والی روایت صحیحین میں بھی ہے جبکہ عام والی روایت صرف ابن ماجہ میں ہے گرچہ وہ بھی صحیح ہے ، (معاملہ صرف ''زیادہ صحیح'' ہونے کا ہے)۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
10- بَاب مَا جَاءَ فِي الاسْتِتَارِ عِنْدَ الْحَاجَةِ
۱۰-باب: قضائے حاجت کے وقت پردہ کرنے کابیان​


14- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ السَّلاَمِ بْنُ حَرْبٍ الْمُلاَئِيُّ، عَنْ الاَعْمَشِ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ ﷺ إِذَا أَرَادَ الْحَاجَةَ لَمْ يَرْفَعْ ثَوْبَهُ حَتَّى يَدْنُوَ مِنْ الأرْضِ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَكَذَا رَوَى مُحَمَّدُ بْنُ رَبِيعَةَ، عَنْ الأعْمَشِ، عَنْ أَنَسٍ هَذَا الْحَدِيثَ.
وَرَوَى وَكِيعٌ وَأَبُو يَحْيَى الْحِمَّانِيُّ عَنْ الأعْمَشِ قَالَ: قَالَ ابْنُ عُمَرَ: كَانَ النَّبِيُّ ﷺ إِذَا أَرَادَ الْحَاجَةَ لَمْ يَرْفَعْ ثَوْبَهُ حَتَّى يَدْنُوَ مِنْ الأرْضِ . وَكِلاَالْحَدِيثَيْنِ مُرْسَلٌ، وَيُقَالُ: لَمْ يَسْمَعْ الأعْمَشُ مِنْ أَنَسٍ وَلاَ مِنْ أَحَدٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ. وَقَدْ نَظَرَ إِلَى أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: رَأَيْتُهُ يُصَلِّي، فَذَكَرَ عَنْهُ حِكَايَةً فِي الصَّلاَةِ. وَالأَعْمَشُ اسْمُهُ - سُلَيْمَانُ بْنُ مِهْرَانَ أَبُومُحَمَّدٍ الْكَاهِلِيُّ - وَهُوَ مَوْلًى لَهُمْ. قَالَ الأَعْمَشُ: كَانَ أَبِي حَمِيلاً فَوَرَّثَهُ مَسْرُوقٌ۔
* تخريج: د/الطہارۃ ۶ (۱۴) (تحفۃ الأشراف:۸۹۲) دی الطہارۃ۷ (۶۹۳) (صحیح)
۱۴- انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : نبی اکرم ﷺ جب قضائے حاجت کا ارادہ فرماتے تو جب تک زمین سے بالکل قریب نہ ہوجاتے اپنے کپڑے نہیں اٹھاتے تھے۔
دوسری سندمیں اعمش سے روایت ہے، ابن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ جب قضائے حاجت کا ارادہ فرماتے تواپنے کپڑے جب تک زمین سے قریب نہیں ہوجاتے نہیں اٹھاتے تھے ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ دونوں احادیث مرسل ہیں، اس لیے کہ کہاجاتاہے: دونوں احادیث کے راوی سلیمان بن مہران الأعمش نے نہ ہی تو انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے سماعت کی ہے اور نہ ہی کسی اورصحابی سے ، صرف اتناہے کہ انس کوصرف انہوں نے دیکھا ہے، اعمش کہتے ہیں کہ میں نے انہیں صلاۃپڑھتے دیکھاہے پھر ان کی صلاۃ کی کیفیت بیان کی ۔
وضاحت ۱؎ : یہاں مرسل سے ''منقطع مراد ہے ، اس کی تشریح خود امام ترمذی نے کردی ہے کہ اعمش کا انس رضی اللہ عنہ سے سماع نہیں ہے، ویسے عام اصطلاحی مرسل: وہ حدیث ہوتی ہے جس کی سند کے آخرسے تابعی کے بعدوالاراوی ساقط ہو، ایسی روایت ضعیف ہوتی ہے کیونکہ اس میں اتصال سندمفقودہوتا ہے جوصحیح حدیث کی ایک لازمی شرط ہے، اسی طرح محذوف راوی کاکوئی تعین نہیں ہوتا، ممکن ہے وہ کوئی غیرصحابی ہو، اس صورت میں اس کے ضعیف ہو نے کااحتمال بڑھ جاتا ہے ۔اورانقطاع کا مطلب یہ ہے کہ سند میں کوئی راوی چھوٹا ہواہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
11- بَاب مَا جَاءَ فِي كَرَاهَةِ الإسْتِنْجَاءِ بِالْيَمِينِ
۱۱-باب: داہنے ہاتھ سے استنجا کرنے کی کراہت​


15- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي عُمَرَ الْمَكِّيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي قَتَادَةَ، عَنْ أَبِيهِ: أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ نَهَى أَنْ يَمَسَّ الرَّجُلُ ذَكَرَهُ بِيَمِينِهِ. وَفِي هَذَا الْبَاب عَنْ عَائِشَةَ، وَسَلْمَانَ، وَأبِي هُرَيْرَةَ، وَسَهْلِ بْنِ حُنَيْفٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَأَبُو قَتَادَةَ الأَنْصَارِيُّ اسْمُهُ الْحَارِثُ بْنُ رِبْعِيٍّ. وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ عَامَّةِ أَهْلِ الْعِلْمِ كَرِهُوا الإسْتِنْجَاءَ بِالْيَمِينِ.
* تخريج: خ/الوضوء ۱۸(۱۵۳) و۱۹ (۱۵۴) والأشربۃ ۲۵ (۵۶۳۰) م/الطہارۃ ۱۸(۳۶۷) د/الطہارۃ ۱۸ (۳۱) ن/الطہارۃ ۲۳ (۲۴، ۲۵) ق/الطہارۃ ۱۵(۳۱۰) (تحفۃ الأشراف: ۱۲۱۰۵) حم (۵/۲۹۶، ۳۰۰، ۳۱۰) دي/ الطہارۃ ۱۳ (۷۰۰) (صحیح)
۱۵- ابوقتادۃحارث بن ربعی انصاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : نبی اکرم ﷺ نے اس بات سے منع فرمایاہے کہ آدمی اپنے داہنے ہاتھ سے اپناذکر (عضوتناسل)چھوئے ۱؎ ۔اس باب میں عائشہ، سلمان، ابوہریرہ اور سھل بن حنیف رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے ،۲- اکثر اہل علم کا اسی پرعمل ہے، ان لوگوں نے داہنے ہاتھ سے استنجا کرنے کو مکروہ جاناہے۔
وضاحت ۱؎ : اس سے معلوم ہواکہ ناپسندیدہ کاموں کے لیے بایاںہاتھ استعمال کیاجائے تاکہ دائیں ہاتھ کااحترام ووقارقائم رہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
12- بَاب الاسْتِنْجَاءِ بِالْحِجَارَةِ
۱۲ -باب: پتھر سے استنجاکرنے کا بیان​


16- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ الأعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ، قَالَ: قِيلَ لِسَلْمَانَ قَدْ عَلَّمَكُمْ نَبِيُّكُمْ ﷺ كُلَّ شَيْئٍ حَتَّى الْخِرَائَةَ؟ فَقَالَ سَلْمَانُ: أَجَلْ، نَهَانَا أَنْ نَسْتَقْبِلَ الْقِبْلَةَ بِغَائِطٍ أَوْ بَوْلٍ، وَأَنْ نَسْتَنْجِيَ بِالْيَمِينِ، أَوْ أَنْ يَسْتَنْجِيَ أَحَدُنَا بِأَقَلَّ مِنْ ثَلاَثَةِ أَحْجَارٍ، أَوْ أَنْ نَسْتَنْجِيَ بِرَجِيعٍ أَوْ بِعَظْمٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب عَنْ عَائِشَةَ، وَخُزَيْمَةَ بْنِ ثَابِتٍ، وَجَابِرٍ، وَخَلاَّدِبْنِ السَّائِبِ، عَنْ أَبِيهِ.
قَالَ أَبُوعِيسَى: وَحَدِيثُ سَلْمَانَ - فِي هَذَا الْبَابِ - حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَهُوَ قَوْلُ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَمَنْ بَعْدَهُمْ، رَأَوْا أَنَّ الأِسْتِنْجَاءَ بِالْحِجَارَةِ يُجْزِءُ، وَإِنْ لَمْ يَسْتَنْجِ بِالْمَاءِ، إِذَا أَنْقَى أَثَرَ الْغَائِطِ وَالْبَوْلِ، وَبِهِ يَقُولُ الثَّوْرِيُّ وَابْنُ الْمُبَارَكِ وَالشَّافِعِيُّ وَأَحْمَدُ وَإِسْحَاقُ.
* تخريج: م/الطہارۃ ۱۷ (۲۶۲) د/الطہارۃ ۴(۷) ن/الطہارۃ ۳۷ (۴۱) ق/الطہارۃ ۱۶ (۳۱۶) (تحفۃ الأشراف: ۴۵۰۵) حم (۵/۴۳۷، ۴۳۸، ۴۳۹) (صحیح)
۱۶- عبدالرحمن بن یزید کہتے ہیں: سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے بطور طنز یہ بات کہی گئی کہ تمہارے نبی نے تمہیں ساری چیزیں سکھائی ہیں حتی کہ پیشاب پاخانہ کرنابھی، توسلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے بطورفخرکہا: ہاں، ایساہی ہے ہمارے نبی نے ہمیں پیشاب پاخانہ کے وقت قبلہ کی طرف منہ کرنے، داہنے ہاتھ سے استنجا کرنے، اورتین پتھرسے کم سے استنجا کرنے، اورگوبراورہڈی سے استنجا کرنے سے ہمیں منع فرمایاہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اس باب میں عائشہ ،خزیمہ بن ثابت جابر اور خلاد بن السائب رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں ،۲- سلمان رضی اللہ عنہ کی حدیث اس باب میں حسن صحیح ہے،۳- صحابہ وتابعین میں سے اکثراہل علم کایہی قول ہے کہ پتھرسے استنجا کرلینا کافی ہے جب وہ پاخانہ اورپیشاب کے اثرکو زائل وپاک کردے اگرچہ پانی سے استنجا نہ کیا گیاہو،یہی قول ثوری، ابن مبارک ، شافعی ، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
13- بَاب مَا جَاءَ فِي الاسْتِنْجَاءِ بِالْحَجَرَيْنِ
۱۳-باب: دوپتھرسے استنجا کرنے کا بیان​


17-حَدَّثَنَا هَنَّادٌ وَقُتَيْبَةُ، قَالاَ: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ: خَرَجَ النَّبِيُّ ﷺ لِحَاجَتِهِ، فَقَالَ: "الْتَمِسْ لِي ثَلاَثَةَ أَحْجَارٍ، قَالَ: فَأَتَيْتُهُ بِحَجَرَيْنِ وَرَوْثَةٍ، فَأَخَذَ الْحَجَرَيْنِ وَأَلْقَى الرَّوْثَةَ، وَقَالَ إِنَّهَا رِكْسٌ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: وَهَكَذَا رَوَى قَيْسُ بْنُ الرَّبِيعِ هَذَا الْحَدِيثَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، نَحْوَ حَدِيثِ إِسْرَائِيلَ. وَرَوَى مَعْمَرٌ وَعَمَّارُ بْنُ رُزَيْقٍ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ. وَرَوَى زُهَيْرٌ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الأَسْوَدِ، عَنْ أَبِيهِ الأَسْوَدِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ. وَرَوَى زَكَرِيَّا بْنُ أَبِي زَائِدَةَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ الأَسْوَدِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ. وَهَذَا حَدِيثٌ فِيهِ اضْطِرَابٌ. حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ الْعَبْدِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ، قَالَ: سَأَلْتُ أَبَا عُبَيْدَةَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ: هَلْ تَذْكُرُ مِنْ عَبْدِ اللَّهِ شَيْئًا؟ قَالَ: لاَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: سَأَلْتُ عَبْدَاللَّهِ بْنَ عَبْدِالرَّحْمَنِ:أَيُّ الرِّوَايَاتِ فِي هَذَا الْحَدِيثِ عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ أَصَحُّ؟ فَلَمْ يَقْضِ فِيهِ بِشَيْئٍ. وَسَأَلْتُ مُحَمَّدًا عَنْ هَذَا؟ فَلَمْ يَقْضِ فِيهِ بِشَيْئٍ. وَكَأَنَّهُ رَأَى حَدِيثَ زُهَيْرٍ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الأَسْوَدِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ: أَشْبَهَ، وَوَضَعَهُ فِي كِتَابِ الْجَامِعِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَأَصَحُّ شَيْئٍ فِي هَذَا عِنْدِي حَدِيثُ إِسْرَائِيلَ وَقَيْسٍ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ، لإِنَّ إِسْرَائِيلَ أَثْبَتُ وَأَحْفَظُ لِحَدِيثِ أَبِي إِسْحَاقَ مِنْ هَؤُلاْءِ، وَتَابَعَهُ عَلَى ذَلِكَ قَيْسُ بْنُ الرَّبِيعِ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: و سَمِعْت أَبَا مُوسَى مُحَمَّدَ بْنَ الْمُثَنَّى يَقُولُ: سَمِعْتُ عَبْدَالرَّحْمَنِ بْنَ مَهْدِيٍّ يَقُولُ: مَا فَاتَنِي الَّذِي فَاتَنِي مِنْ حَدِيثِ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ إِلاَّلِمَا اتَّكَلْتُ بِهِ عَلَى إِسْرَائِيلَ، لأَنَّهُ كَانَ يَأْتِي بِهِ أَتَمَّ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَزُهَيْرٌ فِي أَبِي إِسْحَاقَ لَيْسَ بِذَاكَ لأَنَّ سَمَاعَهُ مِنْهُ بِآخِرَةٍ. قَالَ: و سَمِعْت أَحْمَدَ بْنَ الْحَسَنِ التِّرْمِذِيَّ، يَقُولُ: سَمِعْتُ أَحْمَدَ بْنَ حَنْبَلٍ يَقُولُ: إِذَا سَمِعْتَ الْحَدِيثَ عَنْ زَائِدَةَ وَزُهَيْرٍ فَلاَتُبَالِي أَنْ لاَتَسْمَعَهُ مِنْ غَيْرِهِمَا إِلاَّحَدِيثَ أَبِي إِسْحَاقَ. وَأَبُو إِسْحَاقَ اسْمُهُ: عَمْرُو بْنُ عَبْدِ اللَّهِ السَّبِيعِيُّ الْهَمْدَانِيُّ. وَأَبُو عُبَيْدَةَ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ لَمْ يَسْمَعْ مِنْ أَبِيهِ، وَلاَ يُعْرَفُ اسْمُهُ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف بہذا السند (تحفۃ الأشراف ۹۶۲۲)، وأخرجہ کل من خ/الطہارۃ ۲۱ (۱۵۶) و ن/الطہارۃ ۳۸ (۴۲) وق/الطہارۃ ۱۶ (۳۱۴) من طریق الأسود بن یزید عنہ کما في تحفۃ الأشراف: ۹۱۷۰) (صحیح)
(متابعت کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے، لیکن اس کی سند میں ابوعبیدہ اور ان کے والد ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے درمیان انقطاع ہے جیسا کہ مولف نے بیان کردیا ہے۔)
۱۷- عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ قضائے حاجت کے لیے نکلے توآپ نے فرمایا: ''میرے لیے تین پتھرڈھونڈلاؤ''،میں دوپتھراورایک گوبرکا ٹکڑالے کرآپ کی خدمت میں آیا توآپ نے دونوں پتھروں کو لے لیا اورگوبرکے ٹکڑے کو پھینک دیا اورفرمایا:'' یہ ناپاک ہے'' ۱؎ ۔
(ابواسحاق سبیعی ثقہ اورمدلس راوی ہیں، بڑھاپے میں حافظہ میں اختلاط ہوگیا تھا اس لیے جن رواۃ نے ان سے اختلاط سے پہلے سنا ان کی روایت مقبول ہے ، اور جن لوگوں نے اختلاط کے بعد سنا ان کی روایت ضعیف ، یہ حدیث ابواسحاق سے ان کے تلامذہ نے مختلف انداز سے روایت کی ہے )۔
امام ترمذی نے یہاں ابن مسعود کی اس حدیث کو بسنداسرائیل عن ابی اسحاق عن ابی عبیدہ عن ابن مسعود روایت کرنے کے بعد اسرائیل کی متابعت ۲؎ میں قیس بن الربیع کی روایت کا ذکرکیا ہے ، پھربسندمعمروعماربن رزیق عن ابی اسحاق عن علقمہ عن ابن مسعود کی روایت ذکرکی ہے ، پھربسندزکریابن ابی زائدہ و زہیرعن ابی اسحاق عن عبدالرحمن بن یز ید عن اسودبن یزید عن عبداللہ بن مسعود روایت ذکرکی اورفرمایا کہ اس حدیث میں اضطراب ہے ، نیز اسرائیل کی روایت کوصحیح ترین قراردیا ، یہ بھی واضح کیاکہ ابوعبیدۃ کا سماع اپنے والد ابن مسعود سے نہیں ہے پھروـاضح کیا کہ زہیرنے اس حدیث کو بسندابواسحاق عن عبدالرحمن بن الاسود عن أبیہ عن عبداللہ بن مسعود روایت کیا ہے ،گویا کہ محمدبن اسماعیل بخاری نے اپنی صحیح میں اس کو جگہ دے کر اپنی ترجیح کا ذکرکردیا ہے ، جب کہ ترمذی کا استدلال یہ ہے کہ اسرائیل و قیس عن أبی اسحاق زیادہ صحیح روایت اس لیے ہے کہ اسرائیل ابواسحاق کی حدیث کے زیادہ حافظ ومتقن ہیں ، قیس نے بھی اسرائیل کی متابعت کی ہے ، اور واضح رہے کہ زہیرنے ابواسحاق سے آخرمیں اختلاط کے بعد سناہے ،اس لیے ان کی روایت اسرائیل کی روایت کے مقابلے میں قوی نہیں ہے۳؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اس سے معلوم ہو اکہ جوچیز خودناپاک ونجس ہو اس سے طہارت حاصل نہیں ہوسکتی،امام احمداوردارقطنی کی روایت میں ''ائتني بغيرها'' (اس کے بدلے دوسرا پتھرلے آؤ) کااضافہ ہے جس سے معلوم ہو کہ قضائے حاجت کے بعدتین پتھراستعمال کرناواجب ہے خواہ صفائی اس سے کم ہی میں کیوں نہ حاصل ہوجائے، اوراگرتین سے بھی مطلوبہ صفائی حاصل نہ ہو تو مزیدبھی پتھر استعمال کئے جاسکتے ہیں البتہ ان کی تعدادطاق ہونی چاہئے، آج کل صفائی کے لیے ٹسوپیپراستعمال ہوتے ہیں ان کی تعدادبھی اتنی ہی ہونی چاہئے۔
وضاحت ۲؎ : متابعت سے مرادایک راوی کا دوسرے کے ساتھ اس حدیث کی روایت میں شریک ہونا ہے، اس کے جاننے کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ اگرراوی ضعیف ہے تو اس کی حدیث کو تقویت حاصل ہوجاتی ہے اوراگرثقہ ہے تو اس کا تفردختم ہوجاتاہے۔
وضاحت ۳؎ : واضح رہے کہ امام ترمذی نے اسرائیل کی روایت کو زہیرکی روایت پرجسے امام بخاری نے اپنی صحیح میں جگہ دی ہے تین وجہوں سے ترجیح دی ہے۔ (الف ) ابواسحاق کے تلامذہ میں اسرائیل: زہیر،معمراوردیگرلوگوں سے زیادہ ثقہ اورابواسحاق سبیعی کی حدیث کوزیادہ یادرکھنے والے ہیں(ب) قیس بن ربیع نے اسرائیل کی متابعت کی ہے(ج)اسرائیل کا سماع ابواسحاق سبیعی سے اختلاط سے پہلے ہے ، ان کی آخری عمرمیں نہیں ہے اس کے برخلاف زہیرکا ابواسحاق سے سماع ان کی آخری عمرمیںہے، لیکن صاحب تحفہ الأحوذی کے نزدیک یہ تینوں وجہیں محل نظرہیں،تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو تحفہ الاحوذی ج۱ص۲۸۔صاحب تحفۃالاحوذی کے معارضات کا خلاصہ یہ ہے کہ (۱)بقول امام ابوداود:زہیراسرائیل کے مقابلہ میں اثبت ہیں(۲) زہیرکی بھی متابعت موجود ہے بلکہ دددومتابعت ہے(۳)بقول ذہبی: امام احمد کہتے ہیں کہ زہیرنے ابواسحاق سبیعی سے اختلاط سے پہلے سناہے جبکہ اسرائیل نے آخری عمرمیں سناہے، علاوہ ازیں اگراسرائیل کی روایت کوترجیح دیتے ہیں توان کی روایت ابوعبیدہ سے ہے اور ابوعبیدہ کی اپنے باپ ابن مسعود سے سماع نہیں ہے توروایت کوضعیف مانناپڑے گا،جبکہ زہیرکی روایت سے حدیث متصل ہوتی ہے ، اوراکثرائمہ نے اسے صحیح ہی قراردہاہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
14- بَاب مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ مَا يُسْتَنْجَى بِهِ
۱۴-باب: کن کن چیزوں سے استنجا کرنا مکروہ ہے​


18- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِيَاثٍ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ أَبِي هِنْدٍ، عَنْ الشَّعْبِيِّ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "لاَتَسْتَنْجُوا بِالرَّوْثِ وَلاَبِالْعِظَامِ، فَإِنَّهُ زَادُ إِخْوَانِكُمْ مِنْ الْجِنِّ". وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَسَلْمَانَ، وَجَابِرٍ، وَابْنِ عُمَرَ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: وَقَدْ رَوَى هَذَا الْحَدِيثَ إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ وَغَيْرُهُ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ أَبِي هِنْدٍ، عَنْ الشَّعْبِيِّ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ أَنَّهُ كَانَ مَعَ النَّبِيِّ ﷺ لَيْلَةَ الْجِنِّ، الْحَدِيثَ بِطُولِهِ، فَقَالَ الشَّعْبِيُّ: إِنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: "لاَتَسْتَنْجُوا بِالرَّوْثِ وَلاَبِالْعِظَامِ فَإِنَّهُ زَادُ إِخْوَانِكُمْ مِنْ الْجِنِّ". وَكَأَنَّ رِوَايَةَ إِسْمَاعِيلَ أَصَحُّ مِنْ رِوَايَةِ حَفْصِ بْنِ غِيَاثٍ. وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا الْحَدِيثِ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ. وَفِي الْبَاب عَنْ جَابِرٍ وَابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (أخرجہ النسائی فی الکبری) (تحفۃ الأشراف: ۹۴۶۵)
یہ کتاب التفسیر میں بھی آئے گی(۳۲۵۸) (صحیح)
۱۸- عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' گوبر اور ہڈی سے استنجا نہ کرو کیوں کہ وہ تمہارے بھائیوں جنوں کی خوراک ہے '' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں۱- اس باب میں ابوہریرہ ، سلمان، جابر، ابن عمر رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث مروی ہیں۲- اسماعیل بن ابراہیم وغیرہ نے بسند داودابن ابی ہندعن شعبی عن علقمہ روایت کی ہے کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ لیلۃ الجن میں نبی اکرمﷺ کے ساتھ تھے ۲؎ آگے انہوں نے پوری حدیث ذکرکی جولمبی ہے،شعبی کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا گوبر اور ہڈی سے استنجا نہ کرو کیوں کہ یہ تمہارے بھائیوں (جنوں)کی خوراک ہے،۳- گویااسماعیل بن ابراہیم کی روایت حفص بن غیاث کی روایت سے زیادہ صحیح ہے ۳؎ ،۴- اہل علم کا اسی حدیث پرعمل ہے ،۵- اوراس باب میں جابر اور ابن عمر رضی اللہ عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت ۱؎ : یہی صحیح ہے کہ ہڈی اورگوبردونوں کوآپ ﷺنے جنوں کا توشہ قراردیا، اوروہ روایتیں ضعیف ہیں جن میں ہے کہ ہڈی جنوں کا، اورگوبر اُن کے جانوروں کا توشہ ہے (دیکھئے ضعیفہ رقم : ۱۰۳۸)
وضاحت ۲؎ : امام ترمذی نے اس سندسے جس لمبی حدیث کی طرف اشارہ کیا ہے اس کو خودوہ سورہ احقاف کی تفسیرمیں (رقم:۳۲۵۸) لائے ہیں(نیزیہ حدیث مسلم (رقم ۴۵۰) میں بھی ہے)اس میں توصاف ذکرہے کہ سوال کرنے پر عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے اپنے کو لیلۃ الجن میں موجودہو نے سے انکارکیا ، اورصحیح بات یہی ہے کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے اس لیلۃ الجن میں موجودرہنے کی تمام روایات ضعیف ہیں، جن میں جنوں نے اپنے کھانے کا سوال کیاتھا ، یا جس میں نبیذسے وضوکاذکرہے، ہاں دوتین بارکسی اورموقع سے جنوں سے ملاقات کی رات آپ نبی اکرمﷺکے ساتھ تھے (الکوکب الدری فی شرح الترمذی)
وضاحت ۳؎ : حفص بن غیاث اوراسماعیل بن ابراہیم کی حدیثوں میں فرق یہ ہے کہ حفص کی روایت سے '' لا تستنجوا ......کی حدیث متصل مرفوع ہے،جبکہ اسماعیل کی روایت سے یہ شعبی کی مرسل حدیث ہوجاتی ہے (اوراس ارسال پردیگربہت سے ثقات نے اسماعیل کی متابعت کی ہے) اورمرسل حدیث ضعیف ہوتی ہے ، مگر صحیح بخاری میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت (جس کا تذکرہ مؤلف نے کیا ہے)اس کی صحیح شاہد ہے، نیز دیگرشواہدسے اصل حدیث ثابت ہے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
15- بَاب مَا جَاءَ فِي الإِسْتِنْجَاءِ بِالْمَاءِ
۱۵-باب: پانی سے استنجاکرنے کا بیان​


19- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ وَمُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبِي الشَّوَارِبِ الْبَصْرِيُّ، قَالاَ: حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ مُعَاذَةَ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: مُرْنَ أَزْوَاجَكُنَّ أَنْ يَسْتَطِيبُوا بِالْمَاءِ، فَإِنِّي أَسْتَحْيِيهِمْ، فَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ كَانَ يَفْعَلُهُ. وَفِي الْبَاب عَنْ جَرِيرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْبَجَلِيِّ، وَأَنَسٍ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَعَلَيْهِ الْعَمَلُ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ: يَخْتَارُونَ الإسْتِنْجَاءَ بِالْمَاءِ، وَإِنْ كَانَ الإسْتِنْجَاءُ بِالْحِجَارَةِ يُجْزِءُ عِنْدَهُمْ، فَإِنَّهُمْ اسْتَحَبُّوا الإسْتِنْجَاءَ بِالْمَاءِ، وَرَأَوْهُ أَفْضَلَ. وَبِهِ يَقُولُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ وَابْنُ الْمُبَارَكِ وَالشَّافِعِيُّ وَأَحْمَدُ وَإِسْحَاقُ۔
* تخريج: ن/الطہارۃ ۴۱(۴۶) (تحفۃ الأشراف: ۱۷۹۷۰) (صحیح)
۱۹- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں :تم عورتیں اپنے شوہروں سے کہو کہ وہ پانی سے استنجا کیاکریں، میں ان سے(یہ بات کہتے ) شرمارہی ہوں،کیونکہ رسول اللہ ﷺ ایساہی کرتے تھے۔
اما م ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے ،۲- اس باب میں جریر بن عبداللہ بجلی ، انس ، اورابوہریرہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- اسی پر اہل علم کاعمل ہے ۱؎ ، وہ پانی سے استنجاء کرنے کو پسندکرتے ہیں اگرچہ پتھرسے استنجاء ان کے نزدیک کافی ہے پھربھی پانی سے استنجاء کو انہوں نے مستحب اورافضل قراردیاہے ۔ سفیان ثوری ، ابن المبارک ، شافعی ، احمد ، اسحاق بن راہویہ بھی اسی کے قائل ہیں۔
وضاحت ۱؎ : یہاں باربار آپ احادیث میں یہ جملہ پڑھ رہے ہیں : اسی پراہل علم کا عمل ہے ، تواہل علم سے مرادمحدّثین فقہاء اورقرآن وسنت کا صحیح فہم رکھنے والے لوگ ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
16- بَاب مَا جَاءَ أَنَّ النَّبِيَّﷺ كَانَ إِذَا أَرَادَ الْحَاجَةَ أَبْعَدَ فِي الْمَذْهَبِ
۱۶-باب: نبی اکرمﷺکے قضائے حاجت کے لیے دورتشریف لے جانے کابیان​


20- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ الثَّقَفِيُّ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ قَالَ: كُنْتُ مَعَ النَّبِيِّ ﷺ فِي سَفَرٍ، فَأَتَى النَّبِيُّ ﷺ حَاجَتَهُ فَأَبْعَدَ فِي الْمَذْهَبِ. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي قُرَادٍ، وَأَبِي قَتَادَةَ، وَجَابِرٍ، وَيَحْيَى بْنِ عُبَيْدٍ، عَنْ أَبِيهِ، وَأَبِي مُوسَى، وَابْنِ عَبَّاسٍ، وَبِلاَلِ بْنِ الْحَارِثِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَيُرْوَى عَنْ النَّبِيِّ ﷺ: أَنَّهُ كَانَ يَرْتَادُ لِبَوْلِهِ مَكَانًا كَمَا يَرْتَادُ مَنْزِلاً. وَأَبُو سَلَمَةَ اسْمُهُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ الزُّهْرِيُّ.
* تخريج: د/الطہارۃ (۱) ن/الطہارۃ ۱۶ (۱۷) ق/الطہارۃ ۲۲ (۳۳۱) د/الطہارۃ ۴ (۶۸۶) (تحفۃ الأشراف: ۷۵۴۰) حم (۴/۲۴۴) (صحیح)
۲۰- مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : میں نبی اکرم ﷺ کے ساتھ ایک سفر میں تھا ،آپ قضائے حاجت کے لیے نکلے تو بہت دورنکل گئے ۱ ؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں عبدالرحمن بن ابی قراد ، ابو قتادہ، جابر، یحیی بن عبیدعن أبیہ، أبو موسی ، ابن عباس اور بلال بن حارث رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئیہیں، ۳- روایت کی جاتی ہے کہ نیزنبی اکرمﷺ پیشاب کے لئے اس طرح جگہ ڈھونڈھتے تھے جس طرح مسافر اترنے کے لئے جگہ ڈھونڈھتا ہے۔ ۴- ابوسلمہ کا نام عبداللہ بن عبدالرحمن بن عوف زہری ہے۔
وضاحت ۱؎ : ایسا صرف لوگوں کی نظروں سے دور ہوجانے کے لیے کرتے تھے، اب یہ مقصدتعمیر شدہ بیت الخلاء سے حاصل ہوجاتاہے ۔

17- بَاب مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ الْبَوْلِ فِي الْمُغْتَسَلِ
۱۷-باب: غسل خانے میں پیشاب کرنے کی کراہت​

21- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ وَأَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ مُوسَى مَرْدَوَيْهِ، قَالاَ: أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ أَشْعَثَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ الْحَسَنِ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ مُغَفَّلٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ نَهَى أَنْ يَبُولَ الرَّجُلُ فِي مُسْتَحَمِّهِ، وَقَالَ: إِنَّ عَامَّةَ الْوَسْوَاسِ مِنْهُ. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ رَجُلٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لاَ نَعْرِفُهُ مَرْفُوعًا إِلاَّ مِنْ حَدِيثِ أَشْعَثَ بْنِ عَبْدِاللَّهِ. وَيُقَالُ لَهُ أَشْعَثُ الأَعْمَى. وَقَدْ كَرِهَ قَوْمٌ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ الْبَوْلَ فِي الْمُغْتَسَلِ، وَقَالُوا: عَامَّةُ الْوَسْوَاسِ مِنْهُ. وَرَخَّصَ فِيهِ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ، مِنْهُمْ: ابْنُ سِيرِينَ، وَقِيلَ لَهُ: إِنَّهُ يُقَالُ إِنَّ عَامَّةَ الْوَسْوَاسِ مِنْهُ؟ فَقَالَ: رَبُّنَا اللَّهُ لاَشَرِيكَ لَهُ. و قَالَ ابْنُ الْمُبَارَكِ: قَدْ وُسِّعَ فِي الْبَوْلِ فِي الْمُغْتَسَلِ إِذَا جَرَى فِيهِ الْمَائُ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدَّثَنَا بِذَلِكَ أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ الآمُلِيُّ، عَنْ حِبَّانَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْمُبَارَكِ.
* تخريج: د/الطہارۃ ۱۵ (۲۷)، ن/الطہارۃ ۳۲ (۳۶)، ق/الطہارۃ ۱۲ (۳۰۴)، (تحفۃ الأشراف: ۹۶۴۸)، حم (۵/۵۶) (صحیح)
( سند میں حسن بصری مدلس راوی ہیں، جن کی وجہ سے یہ سند ضعیف ہے ، لیکن حدیث کا پہلا ٹکڑا دوسری روایات سے تقویت پاکر صحیح ہے ،اور دوسرا ٹکڑا ضعیف ہے، دیکھئے : ضعیف ابی داود رقم: ۶، وصحیح ابی داود رقم: ۲۲)
۲۱- عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : نبی اکرم ﷺنے اس بات سے منع فرمایاہے کہ آدمی اپنے غسل خانہ میں پیشاب کرے ۱؎ اورفرمایا:'' زیادہ تروسوسے اسی سے پیداہوتے ہیں''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اس باب میں ایک اور صحابی سے بھی روایت ہے، ۲- یہ حدیث غریب ہے ۲؎ ہم اسے صرف اشعث بن عبداللہ کی روایت سے مرفوع جانتے ہیں،انہیں اشعث اعمی بھی کہاجاتاہے،۳- اہل علم میں سے کچھ لوگوں نے غسل خانے میں پیشاب کرنے کو مکروہ قراردیاہے، ان لوگوں کا کہناہے کہ زیادہ تر وسو سے اسی سے جنم لیتے ہیں، ۴- بعض اہل علم نے اس کی رخصت دی ہے جن میں سے ابن سیرین بھی ہیں ،ابن سیرین سے کہاگیا :کہاجاتا ہے کہ اکثروسوسے اسی سے جنم لیتے ہیں؟تو انہوں نے جواب دیا کہ ہمارا رب اللہ ہے ، اس کاکوئی شریک نہیں۳؎ ، عبداللہ بن مبارک کہتے ہیں کہ غسل خانے میں پیشاب کرنے کو جائز قرار دیاگیاہے، بشرطیکہ اس میں سے پانی بہ جاتا ہو ۔
وضاحت ۱؎ : یہ ممانعت ایسے غسل خانوں کے سلسلے میں ہے جن میں پیشاب زمین میں جذب ہوجاتاہے ، یا رک جاتاہے ، پختہ غسل خانے جن میں پیشاب پانی پڑتے ہی بہہ جاتاہے ان میں یہ ممانعت نہیں(ملاحظہ ہوسنن ابن ماجہ رقم:۳۰۴)
وضاحت ۲؎ : امام ترمذی کسی حدیث کے بارے میں جبلفظ ''غریب''کہتے ہیں توایسی حدیثیں اکثر ضعیف ہوتی ہیں، ایسی ساری احادیث پرنظرڈالنے سے یہ بات معلوم ہوئی ہے ، یہ حدیث بھی ضعیف ہے (ضعیف ابی داودرقم۶)البتہ ''غسل خانہ میں پیشاب کی ممانعت''سے متعلق پہلاٹکڑاشواہدکی بناپرصحیح ہے۔
وضاحت ۳؎ : مطلب یہ ہے جو بھی وسوسے پیداہوتے ہیں ان سب کا خالق اللہ تعالیٰ ہے، غسل خانوں کے پیشاب کااس میں کوئی دخل نہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
18- بَاب مَا جَاءَ فِي السِّوَاكِ
۱۸-باب: مسواک کابیان​


22- حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "لَوْلاَ أَنْ أَشُقَّ عَلَى أُمَّتِي لأَمَرْتُهُمْ بِالسِّوَاكِ عِنْدَ كُلِّ صَلاَةٍ". قَالَ أَبُو عِيسَى: وَقَدْ رَوَى هَذَا الْحَدِيثَ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ. وَحَدِيثُ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ وَزَيْدِ بْنِ خَالِدٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ كِلاَهُمَا عِنْدِي صَحِيحٌ، لأَنَّهُ قَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ هَذَا الْحَدِيثُ. وَحَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ إِنَّمَا صَحَّ لأَنَّهُ قَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ. وَأَمَّا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ فَزَعَمَ أَنَّ حَدِيثَ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ أَصَحُّ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ، وَعَلِيٍّ، وَعَائِشَةَ، وَابْنِ عَبَّاسٍ، وَحُذَيْفَةَ، وَزَيْدِ بْنِ خَالِدٍ، وَأَنَسٍ، وَعَبْدِاللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، وَابْنِ عُمَرَ، وَأُمِّ حَبِيبَةَ، وَأَبِي أُمَامَةَ، وَأَبِي أَيُّوبَ، وَتَمَّامِ بْنِ عَبَّاسٍ، وَعَبْدِاللَّهِ بْنِ حَنْظَلَةَ، وَأُمِّ سَلَمَةَ، وَوَاثِلَةَ بْنِ الاَسْقَعِ،وَأَبِي مُوسَى.
* تخريج: خ/الجمعۃ ۸ (۸۸۷)، والتمنی ۹ (۷۲۴۰)، م/الطہارۃ ۱۵ (۲۵۲)، د/الطہارۃ ۲۵ (۴۶)، ن/الطہارۃ ۷ (۷)، ق/الطہارۃ ۷ (۲۸۷)، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۰۵۶)، ط/الطہارۃ ۳۲ (۱۴)، دی/الطہارۃ ۱۷ (۷۱۰)، والصلاۃ ۱۶۸ (۱۵۲۵)، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۰۵۶) (صحیح)
۲۲- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' اگرمجھے اپنی امت کو حرج اور مشقت میں مبتلا کرنے کا خطرہ نہ ہوتا تو میں انہیں ہرصلاۃ کے وقت مسواک کرنے کا حکم دیتا'' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں کہ بروایت ابوسلمہ ، ابوہریرہ اورزیدبن خالد رضی اللہ عنہما کی مروی دونوں حدیثیں میرے نزدیک صحیح ہیں، محمدبن اسماعیل بخاری کا خیال ہے کہ ابوسلمہ کی زیدبن خالد رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث زیادہ صحیح ہے ۲؎ ، ۳- اس باب میں ابوبکرصدیق،علی ، عائشہ، ابن عباس،حذیفہ ،زیدبن خالد، انس ،عبداللہ بن عمرو، ابن عمر، ام حبیبہ، ابوامامہ، ابوایوب، تمام بن عباس، عبداللہ بن حنظلہ، ام سلمہ ، واثلہ بن الاسقع اور ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت ۱؎ : مسواک واجب نہ کرنے کی مصلحت امت سے مشقت وحرج کودوررکھنا ہے، اس سے صرف مسواک کے وجوب کی نفی ہوتی ہے، رہا مسواک کا مسنون ہوناتو وہ علی حالہ باقی ہے ۔
وضاحت ۲؎ : امام بخاری نے اس طریق کو دووجہوں سے راجح قراردیا ہے: ایک تو یہ کہ اس سے ایک واقعہ وابستہ ہے اور وہ ابوسلمہ کایہ کہنا ہے کہ زید بن خالدمسواک اپنے کان پر اسی طرح رکھے رہتے تھے جیسے کاتب قلم اپنے کان پر رکھے رہتا ہے اور جب وہ صلاۃ کے لیے کھڑے ہوتے تومسواک کرتے، اور دوسری وجہ یہ ہے کہ یحییٰ بن ابی کثیرنے محمد بن ابراہیم کی متابعت کی ہے جس کی تخریج امام احمدنے کی ہے۔


23- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ الْجُهَنِيِّ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: "لَوْلاَأَنْ أَشُقَّ عَلَى أُمَّتِي لاَمَرْتُهُمْ بِالسِّوَاكِ عِنْدَ كُلِّ صَلاَةٍ، وَلأَخَّرْتُ صَلاَةَ الْعِشَاءِ إِلَى ثُلُثِ اللَّيْلِ" قَالَ: فَكَانَ زَيْدُ بْنُ خَالِدٍ يَشْهَدُ الصَّلَوَاتِ فِي الْمَسْجِدِ وَسِوَاكُهُ عَلَى أُذُنِهِ مَوْضِعَ الْقَلَمِ مِنْ أُذُنِ الْكَاتِبِ،لاَيَقُومُ إِلَى الصَّلاَةِ إِلاَّأُسْتَنَّ ثُمَّ رَدَّهُ إِلَى مَوْضِعِهِ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: د/الطہارۃ ۲۵ (۴۷) (تحفۃ الأشراف: ۳۷۶۶) حم (۴/۱۱۶) (صحیح)
۲۳- زید بن خالدجہنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے:'' اگر مجھے اپنی امت کو حرج و مشقت میں مبتلاکرنے کا خطرہ نہ ہوتاتومیں انہیں ہرصلاۃ کے وقت (وجوباً) مسواک کرنے کا حکم دیتا، نیز میں عشاء کو تہائی رات تک مؤخرکرتا (راوی حدیث) ابوسلمہ کہتے ہیں: اس لیے زیدبن خالد رضی اللہ عنہ صلاۃ کے لیے مسجد آتے تو مسواک ان کے کان پربالکل اسی طرح ہوتی جیسے کاتب کے کان پرقلم ہوتاہے، وہ صلاۃ کے لئے کھڑے ہوتے تو مسواک کرتے پھر اسے اس کی جگہ پرواپس رکھ لیتے ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱ ؎ : ہرصلاۃکے وقت مسواک مسنون ہے ، ''عند كل صلاة '' (ہرصلاۃکے وقت) سے جومقصدہے وہ مسجدمیں داخل ہوکر،وضو خانہ میں، یا صلاۃ کے وقت وضو کے ساتھ مسواک کرلینے سے بھی پورا ہوجاتاہے، یہ ہندوستان اورپاکستان کے باشندے عموماً نیم یا کیکر کی مسواک کرتے ہیں اورعرب میں پیلوکی مسواک کا استعمال بہت زیادہ ہے ، اوریہاں لوگ صلاۃ کے وقت بکثرت مسواک کرتے ہیں۔
 
Top