• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن نسائی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
26-مَنْ شَهَرَ سَيْفَهُ ثُمَّ وَضَعَهُ فِي النَّاسِ
۲۶- باب: جو تلوار نکال کر لوگوں پر چلانا شروع کر دے​


4102- أَخْبَرَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا الْفَضْلُ بْنُ مُوسَى، قَالَ: حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ ابْنِ طَاوُسٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ ابْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " مَنْ شَهَرَ سَيْفَهُ، ثُمَّ وَضَعَهُ؛ فَدَمُهُ هَدَرٌ "۔
* تخريج: تفرد بہ النسائي (تحفۃ الأشراف: ۵۲۶۲) (صحیح) (الصحیحۃ ۲۳۴۵، وتراجع الالبانی ۲۲۴)
۴۱۰۲- عبداللہ بن زبیر رضی الله عنہما روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''جو اپنی تلوار باہر نکال لے پھر اسے چلانا شروع کر دے تو اس کا خون رائیگاں اور بے کار ہے'' ۱؎۔
وضاحت ۱؎: یعنی: ناحق مسلمانوں کو مارنے لگے تو اس کے قتل میں نہ دیت ہے نہ قصاص۔


4103- أَخْبَرَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا عَبْدُالرَّزَّاقِ بِهَذَا الإِسْنَادِ مِثْلَهُ، وَلَمْ يَرْفَعْهُ۔
* تخريج: انظر ما قبلہ (صحیح)
۴۱۰۳- عبدالرزاق بھی اس سند سے اسی جیسی روایت کرتے ہیں، لیکن وہ اسے مرفوع نہیں کرتے۔ (یعنی ابن زبیر کا قول بیان کرتے ہیں)


4104- أَخْبَرَنَا أَبُودَاوُدَ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ ابْنِ طَاوُسٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ ابْنِ الزُّبَيْرِ قَالَ: مَنْ رَفَعَ السِّلاحَ، ثُمَّ وَضَعَهُ؛ فَدَمُهُ هَدَرٌ۔
* تخريج: انظر حدیث رقم: ۴۱۰۲ (صحیح موقوف)
۴۱۰۴- عبداللہ بن زبیر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ جس نے ہتھیار اٹھایا اور اسے لوگوں پر چلایا تو اس کا خون رائیگاں اور بے کار ہے۔


4105- أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ السَّرْحِ، قَالَ: أَنْبَأَنَا ابْنُ وَهْبٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي مَالِكٌ وَعَبْدُاللَّهِ بْنُ عُمَرَ، وَأُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ، وَيُونُسُ بْنُ يَزِيدَ أَنَّ نَافِعًا أَخْبَرَهُمْ عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عُمَرَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " مَنْ حَمَلَ عَلَيْنَا السِّلاحَ؛ فَلَيْسَ مِنَّا "۔
* تخريج: خ/الفتن ۷ (۷۰۷۰)، م/الإیمان ۴۲ (۹۸)، (تحفۃ الأشراف: ۸۳۶۴)، وقد أخرجہ: ق/الحدود ۱۹ (۲۵۷۶)، حم (۲/۳، ۵۳) (صحیح)
۴۱۰۵- عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی للہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''جس نے ہم پر ہتھیار اٹھایا تو وہ ہم میں سے نہیں ہے'' ۱؎۔
وضاحت ۱؎: یہاں بھی '' ہتھیار اٹھانے '' سے مراد '' ناحق ہتھیار '' اٹھانا ہے، مسلمانوں کی ناحق خونریزی پر یہ شدید وعید سنائی گئی ہے کہ ایسے عمل کے مرتکب کو اگر قتل کر دیا جائے تو اس کے خون کا نہ تو قصاص ہے اور نہ ہی دیت۔ اور یہ کہ ایسا آدمی امت محمدیہ کے زمرہ سے خارج ہے۔ فاعتبروا یا أولی الأبصار (عبرت حاصل کرنی چاہیے)۔


4106- أَخْبَرَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلانَ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّزَّاقِ، قَالَ: أَنْبَأَنَا الثَّوْرِيُّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ ابْنِ أَبِي نُعْمٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ: بَعَثَ عَلِيٌّ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ بِالْيَمَنِ بِذُهَيْبَةٍ فِي تُرْبَتِهَا؛ فَقَسَمَهَا بَيْنَ الأَقْرَعِ بْنِ حَابِسٍ الْحَنْظَلِيِّ، ثُمَّ أَحَدِ بَنِي مُجَاشِعٍ وَبَيْنَ عُيَيْنَةَ بْنِ بَدْرٍ الْفَزَارِيِّ، وَبَيْنَ عَلْقَمَةَ بْنِ عُلاثَةَ الْعَامِرِيِّ، ثُمَّ أَحَدِ بَنِي كِلابٍ، وَبَيْنَ زَيْدِ الْخَيْلِ الطَّائِيِّ، ثُمَّ أَحَدِ بَنِي نَبْهَانَ، قَالَ: فَغَضِبَتْ قُرَيْشٌ، وَالأَنْصَارُ، وَقَالُوا: يُعْطِي صَنَادِيدَ أَهْلِ نَجْدٍ، وَيَدَعُنَا؛ فَقَالَ: إِنَّمَا أَتَأَلَّفُهُمْ؛ فَأَقْبَلَ رَجُلٌ غَائِرَ الْعَيْنَيْنِ نَاتِئَ الْوَجْنَتَيْنِ كَثَّ اللِّحْيَةِ مَحْلُوقَ الرَّأْسِ؛ فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ! اتَّقِ اللَّهَ قَالَ: مَنْ يُطِعِ اللَّهَ إِذَا عَصَيْتُهُ أَيَأْمَنُنِي عَلَى أَهْلِ الأَرْضِ، وَلا تَأْمَنُونِي فَسَأَلَ رَجُلٌ مِنْ الْقَوْمِ قَتْلَهُ؛ فَمَنَعَهُ؛ فَلَمَّا وَلَّى، قَالَ: " إِنَّ مِنْ ضِئْضِئِ هَذَا قَوْمًا يَخْرُجُونَ يَقْرَؤنَ الْقُرْآنَ لا يُجَاوِزُ حَنَاجِرَهُمْ يَمْرُقُونَ مِنْ الدِّينِ مُرُوقَ السَّهْمِ مِنْ الرَّمِيَّةِ يَقْتُلُونَ أَهْلَ الإِسْلامِ، وَيَدَعُونَ أَهْلَ الأَوْثَانِ لَئِنْ أَنَا أَدْرَكْتُهُمْ لأَقْتُلَنَّهُمْ قَتْلَ عَادٍ "۔
* تخريج: انظر حدیث رقم: ۲۵۷۹ (صحیح)
۴۱۰۶- ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ جس وقت علی رضی الله عنہ یمن میں تھے انھوں نے نبی اکرم صلی للہ علیہ وسلم کے پاس مٹی لگا ہوا سونے کا ایک ٹکڑا بھیجا۔ تو آپ صلی للہ علیہ وسلم نے اسے اقرع بن حابس حنظلی (جو بنی مجاشع کے ایک شخص تھے)، عیینہ بن بدر فزاری، علقمہ بن علاثہ عامری (جو بنی کلاب کے ایک شخص تھے)، زید الخیل طائی (جو بنی نبہان کے ایک شخص تھے) کے درمیان تقسیم کیا، ابوسعید خدری کہتے ہیں: اس پر قریش اور انصار غصہ ہوئے اور بولے: آپ اہل نجد کے سرداروں کو دیتے ہیں اور ہمیں چھوڑ دیتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: میں تو صرف ان کی تالیف قلب کر رہا ہوں، اتنے میں ایک شخص آیا، اس کی آنکھیں بیٹھی ہوئی تھیں، گال پھولے ہوئے تھے، داڑھی گھنی تھی اور سر منڈا ہوا تھا۔ وہ بولا: محمد! اللہ سے ڈرو، آپ صلی للہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''جب میں ہی نا فرمانی کرنے لگا تو اللہ کی اطاعت کون کرے گا۔ مجھے اللہ تعالیٰ زمین والوں پر امین بنا رہا ہے اور تم میرا اعتبار نہیں کرتے۔ اتنے میں لوگوں میں سے ایک شخص نے اس کے قتل کی اجازت طلب کی، آپ نے اسے منع فرما دیا''۔ جب وہ لوٹ گیا تو آپ صلی للہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''اس کے خاندان میں کچھ ایسے لوگ ہوں گے جو قرآن پڑھیں گے مگر وہ ان کے حلق کے نیچے نہ اترے گا، وہ دین سے اسی طرح نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے نکل جاتا ہے، وہ اہل اسلام کو قتل کریں گے اور بت پرستوں کو چھوڑ دیں گے، اگر میں انہیں پا جاؤں تو انہیں عاد کے لوگوں کی طرح قتل کروں '' ۱؎۔
وضاحت ۱؎: کتاب تحریم الدم یا کتاب المحاربۃ (جنگ) سے مطابقت اسی جملے سے ہے، یعنی: خارجیوں کا خون بہانا جائز ہے، اس لیے علی رضی الله عنہ نے ان سے جنگ کی تھی۔


4107- أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ خَيْثَمَةَ، عَنْ سُوَيْدِ بْنِ غَفَلَةَ، عَنْ عَلِيٍّ قَالَ: سَمِعْتُ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: يَخْرُجُ قَوْمٌ فِي آخِرِ الزَّمَانِ أَحْدَاثُ الأَسْنَانِ سُفَهَائُ الأَحْلامِ يَقُولُونَ: مِنْ خَيْرِ قَوْلِ الْبَرِيَّةِ، لايُجَاوِزُ إِيمَانُهُمْ حَنَاجِرَهُمْ يَمْرُقُونَ مِنْ الدِّينِ كَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنْ الرَّمِيَّةِ، فَإِذَا لَقِيتُمُوهُمْ؛ فَاقْتُلُوهُمْ؛ فَإِنَّ قَتْلَهُمْ أَجْرٌ لِمَنْ قَتَلَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ۔
* تخريج: خ/المناقب ۲۵ (۳۶۱۱)، فضائل القرآن ۳۶ (۵۰۵۷)، المرتدین ۶ (۶۹۳۰)، م/الزکاۃ ۴۸ (۱۰۶۶)، د/السنۃ ۳۱ (۴۷۶۷)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۱۲۱)، حم (۱/۸۱، ۱۱۳، ۱۳۱) (صحیح)
۴۱۰۷- علی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ''آخری زمانے میں کچھ لوگ ہوں گے جو کم سن اور کم عقل ہوں گے، بات چیت میں وہ لوگوں میں سب سے اچھے ہوں گے، لیکن ان کا ایمان ان کے حلق سے نیچے نہ اترے گا، وہ دین سے اسی طرح نکل جائیں گے، جس طرح تیر شکار سے نکل جاتا ہے، لہٰذا جب تم ان کو پاؤ تو انہیں قتل کرو کیونکہ ان کے قتل کرنے والے کو قیامت کے دن اجر ملے گا''۔


4108- أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَعْمَرٍ الْبَصْرِيُّ الْحَرَّانِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُودَاوُدَ الطَّيَالِسِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ الأَزْرَقِ بْنِ قَيْسٍ، عَنْ شَرِيكِ بْنِ شِهَابٍ قَالَ: كُنْتُ أَتَمَنَّى أَنْ أَلْقَى رَجُلا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَسْأَلُهُ عَنْ الْخَوَارِجِ؛ فَلَقِيتُ أَبَابَرْزَةَ فِي يَوْمِ عِيدٍ فِي نَفَرٍ مِنْ أَصْحَابِهِ؛ فَقُلْتُ لَهُ: هَلْ سَمِعْتَ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَذْكُرُ الْخَوَارِجَ؛ فَقَالَ: نَعَمْ، سَمِعْتُ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِأُذُنِي، وَرَأَيْتُهُ بِعَيْنِي أُتِيَ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمَالٍ؛ فَقَسَمَهُ؛ فَأَعْطَى مَنْ عَنْ يَمِينِهِ، وَمَنْ عَنْ شِمَالِهِ، وَلَمْ يُعْطِ مَنْ وَرَائَهُ شَيْئًا؛ فَقَامَ رَجُلٌ مِنْ وَرَائِهِ؛ فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ! مَا عَدَلْتَ فِي الْقِسْمَةِ رَجُلٌ أَسْوَدُ مَطْمُومُ الشَّعْرِ عَلَيْهِ ثَوْبَانِ أَبْيَضَانِ؛ فَغَضِبَ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَضَبًا شَدِيدًا، وَقَالَ: وَاللَّهِ لا تَجِدُونَ بَعْدِي رَجُلا هُوَ أَعْدَلُ مِنِّي، ثُمَّ قَالَ: يَخْرُجُ فِي آخِرِ الزَّمَانِ قَوْمٌ، كَأَنَّ هَذَا مِنْهُمْ يَقْرَؤنَ الْقُرْآنَ لا يُجَاوِزُ تَرَاقِيَهُمْ يَمْرُقُونَ مِنْ الإِسْلامِ كَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنْ الرَّمِيَّةِ سِيمَاهُمْ التَّحْلِيقُ لا يَزَالُونَ يَخْرُجُونَ حَتَّى يَخْرُجَ آخِرُهُمْ مَعَ الْمَسِيحِ الدَّجَّالِ؛ فَإِذَا لَقِيتُمُوهُمْ؛ فَاقْتُلُوهُمْ هُمْ شَرُّ الْخَلْقِ، وَالْخَلِيقَةِ. ٭قَالَ أَبُوعَبْدالرَّحْمَنِ رَحِمَهُ اللَّهُ: شَرِيكُ بْنُ شِهَابٍ لَيْسَ بِذَلِكَ الْمَشْهُورِ۔
* تخريج: تفرد بہ النسائي (تحفۃ الأشراف: ۱۱۵۹۸)، حم (۴/۴۲۱، ۴۲۴، ۴۲۵) (صحیح)
(الصحیحۃ ۲۴۰۶، و تراجع الالبانی ۴۲۲)
۴۱۰۸- شریک بن شہاب کہتے ہیں کہ میری خواہش تھی کہ میں صحابہ رسول میں سے کسی صحابی سے ملوں اور ان سے خوارج کے متعلق سوال کروں، تو میری ملاقات عید کے دن ابو برزہ رضی الله عنہ سے ان کے شاگردوں کی جماعت میں ہوئی۔ میں نے ان سے کہا: کیا آپ نے رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم کو خوارج کا تذکرہ کرتے سنا ہے؟ کہا: ہاں، میں نے رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم کو اپنے کانوں سے سنا اور اپنی آنکھوں سے دیکھا، آپ کے پاس کچھ مال آیا، آپ نے اسے تقسیم کیا اور اپنے دائیں اور بائیں جانب کے لوگوں کو دے دیا اور اپنے پیچھے والوں کو کچھ نہیں دیا۔ ایک شخص آپ کے پیچھے سے کھڑا ہوا اور بولا: محمد! آپ نے تقسیم میں انصاف نہیں کیا۔ وہ ایک کالا (سانولا) شخص تھا، جس کے بال منڈے ہوئے تھے اور دو سفید کپڑوں میں ملبوس تھا۔ رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم سخت غضبناک ہوئے اور فرمایا: '' اللہ کی قسم! تم میرے علاوہ کوئی ایسا شخص نہیں پاؤ گے جو مجھ سے زیادہ عادل ہو''۔ پھر فرمایا: '' آخری دور میں کچھ لوگ ہوں گے(شاید) یہ بھی انہیں میں سے ہوگا، وہ قرآن پڑھیں گے، مگر وہ ان کی ہنسلی سے نیچے نہ اترے گا، وہ اسلام سے اسی طرح نکل جائیں گے جس طرح تیر شکار سے نکل جاتا ہے۔ ان کی علامت یہ ہے کہ وہ سر منڈائے ہوں گے ۱؎، وہ ہمیشہ پیدا ہوتے رہیں گے یہاں تک کہ ان کا آخری شخص مسیح دجال کے ساتھ نکلے گا، لہٰذا جب تم انہیں پاؤ تو قتل کر دو، وہ بد نفس اور تمام مخلوقات میں بدتر ہیں ''۔
٭ابو عبدالرحمن (نسائی) کہتے ہیں: شریک بن شہاب مشہور نہیں ہیں ۲؎۔
وضاحت ۱؎: اس حدیث سے یہ استدلال قطعا درست نہیں ہے کہ سر منڈانا نعوذباللہ مکروہ ہے کیونکہ کسی چیز کا کسی قوم کے لئے علامت وشناخت بننا یہ اس کے مباح ہونے کے منافی نہیں ہو سکتا، چنانچہ نبی اکرم صلی للہ علیہ وسلم نے جب ایک بچے کو دیکھا کہ اس کے سرکے کچھ حصوں کا بال منڈا ہوا ہے اور کچھ کا چھوڑ دیا گیا ہے تو آپ نے فرمایا: اس کا پورا سر مونڈ دو یا پورا سر چھوڑ دو۔ آپ کا یہ فرمان سر منڈانے کے مباح ہونے کے لئے کافی ہے۔
وضاحت۲؎: یعنی مشہور نہیں ہیں بلکہ مقبول ہیں، اور مقبول اس کو کہتے ہیں جس کی دوسرے راوی سے متابعت پائی جائے تو اس کی روایت مقبول ہوگی، ورنہ وہ لین الحدیث ہوگا، یہاں اس حدیث کے اکثر ٹکڑوں کی متابعت موجود ہے، اس لیے حدیث مقبول ہوگی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
27-قِتَالُ الْمُسْلِمِ
۲۷- باب: مسلمان سے لڑنا​


4109- أَخْبَرَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا عَبْدُالرَّزَّاقِ، قَالَ: حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ عُمَرَ بْنِ سَعْدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا سَعْدُ بْنُ أَبِي وَقَّاصٍ أَنَّ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " قِتَالُ الْمُسْلِمِ كُفْرٌ، وَسِبَابُهُ فُسُوقٌ "۔
* تخريج: تفرد بہ النسائي (تحفۃ الأشراف: ۳۹۰۸)، حم (۱/۱۷۶، ۱۸۷) (صحیح)
۴۱۰۹- سعد بن ابی وقاص رضی الله عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''مسلمان سے لڑنا کفر (کا کام) اور اسے گالی دینا فسق ہے'' ۱؎۔
وضاحت ۱؎: '' فسق '' اللہ کی اطاعت سے نکل جانے کو کہتے ہیں، مسلمان کو گالی دینا اور سب وشتم کرنا بھی فسق ہے، اور یہاں '' کفر'' سے مراد کافروں کا عمل ہے، یعنی: ایک مسلمان کو کافر ہی ناحق قتل کرتا ہے کوئی مسلمان نہیں، یہ بطور زجز وتوبیخ کے ہے نہ کہ ایسے عمل کو حقیقی کفر کہا گیا ہے۔


4110- أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا الأَحْوَصِ عَنْ عَبْدِاللَّهِ قَالَ: سِبَابُ الْمُسْلِمِ فُسُوقٌ، وَقِتَالُهُ كُفْرٌ۔
* تخريج: تفرد بہ النسائي (تحفۃ الأشراف: ۹۵۲۱)، حم (۱/۴۴۶) ویأتی فیما یلی: ۴۱۱۱ (صحیح موقوف)
۴۱۱۰- عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ مسلمان کو گالی دینا فسق اور اس سے لڑنا کفر (کا کام) ہے۔


4111- أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ حَكِيمٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ أَبِي الأَحْوَصِ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ قَالَ: "سِبَابُ الْمُسْلِمِ فِسْقٌ، وَقِتَالُهُ كُفْرٌ". فَقَالَ لَهُ أَبَانُ: يَا أَبَا إِسْحَاقَ! أَمَا سَمِعْتَهُ إِلا مِنْ أَبِي الأَحْوَصِ، قَالَ: بَلْ سَمِعْتُهُ مِنْ الأَسْوَدِ وَهُبَيْرَةَ۔
* تخريج: انظر ما قبلہ (صحیح)
۴۱۱۱- عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں: مسلمان کو گالی دینا فسق اور اس سے لڑنا کفر (کا کام) ہے۔
ابان نے ابواسحاق سبیعی سے پوچھا: ابو اسحاق! کیا آپ نے اسے ابو الاحوص کے علاوہ کسی سے نہیں سنا؟ کہا: میں نے اسود اور ہبیرہ سے بھی سنا ہے۔


4112- أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَرْبٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ أَبِي الزَّعْرَائِ، عَنْ عَمِّهِ أَبِي الأَحْوَصِ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ قَالَ: "سِبَابُ الْمُسْلِمِ فُسُوقٌ، وَقِتَالُهُ كُفْرٌ"۔
* تخريج: تفرد بہ النسائي (تحفۃ الأشراف: ۹۵۲۷) (صحیح)
۴۱۱۲- عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں: مسلمان کو گالی دینا فسق اور اس سے لڑنا کفر (کا کام) ہے۔


4113- أَخْبَرَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلانَ، قَالَ: حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ جَرِيرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَالْمَلِكِ بْنَ عُمَيْرٍ يُحَدِّثُهُ عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ، عَنْ أَبِيهِ أَنَّ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " سِبَابُ الْمُسْلِمِ فُسُوقٌ وَقِتَالُهُ كُفْرٌ "۔
* تخريج: ت/الإیمان ۱۵(۲۶۳۴)، (تحفۃ الأشراف: ۹۳۶۰)، حم (۱/۴۱۷، ۴۶۰) (صحیح)
۴۱۱۳- عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے فرمایا: '' مسلمان کو گالی دینا فسق اور اس سے لڑنا کفر (کا کام) ہے''۔


4114- أَخْبَرَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلانَ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُودَاوُدَ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قَالَ: قُلْتُ لِحَمَّادٍ: سَمِعْتُ مَنْصُورًا، وَسُلَيْمَانَ، وَزُبَيْدًا يُحَدِّثُونَ عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ أَنَّ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " سِبَابُ الْمُسْلِمِ فُسُوقٌ، وَقِتَالُهُ كُفْرٌ ".
مَنْ تَتَّهِمُ أَتَتَّهِمُ مَنْصُورًا؟ أَتَتَّهِمُ زُبَيْدًا؟ أَتَتَّهِمُ سُلَيْمَانَ؟ قَالَ: لا، وَلَكِنِّي أَتَّهِمُ أَبَاوَائِلٍ۔
* تخريج: خ/الإیمان ۳۶ (۴۸)، الأدب ۴۴ (۶۰۴۴)، الفتن ۸ (۷۰۷۶)، م/الإیمان ۲۸ (۶۲)، ت/البر ۵۲ (۱۹۸۳)، الإیمان ۱۵ (۲۶۳۵)، ق/المقدمۃ ۹ (۶۹)، (تحفۃ الأشراف: ۹۲۴۳، ۹۲۵۱، ۹۲۹۹)، حم (۱/۳۸۵، ۴۳۳)، ویأتي عند المؤلف بأرقام: ۴۱۱۵-۴۱۱۸) (صحیح)
۴۱۱۴- عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے فرمایا: '' مسلمان کو گالی دینا فسق اور اس سے لڑنا کفر (کا کام) ہے ''۔
(اس حدیث کی روایت کے بارے میں شعبہ نے حماد سے کہا) آپ کس پر (وہم اور غلطی کی) تہمت (اور الزام) لگاتے ہیں؟ منصور پر، زبید پر یا سلیمان اعمش پر؟ انہوں نے کہا: نہیں، میں تو ابو وائل پر تہمت لگاتا ہوں ۱؎۔
وضاحت ۱؎: یعنی مجھے ابو وائل شقیق بن سلمہ کے سلسلہ میں شکہے کہ انہوں نے عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ سے یہ حدیث سنی ہے یا نہیں۔ واضح رہے کہ ابو وائل شقیق بن سلمہ ثقہ راوی ہیں (واللہ اعلم)، نیز دیکھئے اگلی روایت۔


4115- أَخْبَرَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلانَ، قَالَ: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ زُبَيْدٍ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ، قَالَ: قَالَ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " سِبَابُ الْمُسْلِمِ فُسُوقٌ، وَقِتَالُهُ كُفْرٌ ". قُلْتُ لأَبِي وَائِلٍ: سَمِعْتَهُ مِنْ عَبْدِاللَّهِ، قَالَ: نَعَمْ۔
* تخريج: انظر حدیث رقم: ۴۱۱۴ (صحیح)
۴۱۱۵- عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''مسلمان کو گالی دینا فسق اور اس سے لڑنا کفر (کا کام) ہے''۔ زبید کہتے ہیں کہ میں نے ابو وائل سے کہا: کیا آپ نے اسے عبداللہ بن مسعود سے سنا ہے؟ کہا: ہاں۔


4116- أَخْبَرَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلانَ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ قَالَ: قَالَ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " سِبَابُ الْمُسْلِمِ فُسُوقٌ، وَقِتَالُهُ كُفْرٌ "۔
* تخريج: انظر حدیث رقم: ۴۱۱۴ (صحیح)
۴۱۱۶- عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''مسلمان کو گالی دینا فسق اور اس سے لڑنا کفر (کا کام) ہے''۔


4117- أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ قَالَ: قَالَ عَبْدُاللَّهِ: "سِبَابُ الْمُسْلِمِ فُسُوقٌ، وَقِتَالُهُ كُفْرٌ"۔
* تخريج: انظر حدیث رقم: ۴۱۱۴ (صحیح)
۴۱۱۷- ابو وائل کہتے ہیں کہ عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ نے کہا: مسلمان کو گالی دینا فسق اور اس سے لڑنا کفر (کا کام) ہے۔


4118- أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلائِ، عَنْ أَبِي مُعَاوِيَةَ، عَنْ الأَعْمَشِ، عَنْ شَقِيقٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ قَالَ: "قِتَالُ الْمُؤْمِنِ كُفْرٌ، وَسِبَابُهُ فُسُوقٌ"۔
* تخريج: انظر حدیث رقم: ۴۱۱۴ (صحیح)
۴۱۱۸- عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں: مومن کو قتل کرنا کفر (کا کام) اور اسے گالی دینا فسق ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
28-التَّغْلِيظُ فِيمَنْ قَاتَلَ تَحْتَ رَايَةٍ عُمِّيَّةٍ
۲۸- باب: اندھی عصبیت کے جھنڈے تلے لڑنے والے کے بارے میں (وارد) سختی کا بیان​


4119- أَخْبَرَنَا بِشْرُ بْنُ هِلالٍ الصَّوَّافُ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُالْوَارِثِ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَيُّوبُ، عَنْ غَيْلانَ بْنِ جَرِيرٍ، عَنْ زِيَادِ بْنِ رِيَاحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ خَرَجَ مِنْ الطَّاعَةِ، وَفَارَقَ الْجَمَاعَةَ؛ فَمَاتَ مَاتَ مِيتَةً جَاهِلِيَّةً، وَمَنْ خَرَجَ عَلَى أُمَّتِي يَضْرِبُ بَرَّهَا، وَفَاجِرَهَا لا يَتَحَاشَى مِنْ مُؤْمِنِهَا، وَلا يَفِي لِذِي عَهْدِهَا؛ فَلَيْسَ مِنِّي، وَمَنْ قَاتَلَ تَحْتَ رَايَةٍ عُمِّيَّةٍ يَدْعُو إِلَى عَصَبِيَّةٍ أَوْ يَغْضَبُ لِعَصَبِيَّةٍ؛ فَقُتِلَ؛ فَقِتْلَةٌ جَاهِلِيَّةٌ "۔
* تخريج: م/الإمارۃ ۱۳ (۱۸۴۸)، ق/الفتن ۷ (۳۹۴۸)، (تحفۃ الأشراف: ۹۱۲۹۰۲)، حم (۲/۲۹۶، ۳۰۶، ۴۸۸) (صحیح)
۴۱۱۹- ابو ہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے فرمایا: '' جو (امیر کی) اطاعت سے نکل گیا اور (مسلمانوں کی) جماعت چھوڑ دی پھر مر گیا تو وہ جاہلیت کی موت مرا، اور جو میرے امتی کے خلاف اٹھے اور اچھے اور خراب سبھوں کو مارتا جائے اور مومن کو بھی نہ چھوڑے اور عہد والے سے بھی وفا نہ کرے تو اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں، اور جو عصبیت کے جھنڈے تلے لڑے اور لوگوں کو عصبیت کی طرف بلائے یا اس کا غصہ عصبیت کی وجہ سے ہو، پھر وہ مارا جائے تو اس کی موت جاہلیت کی موت ہے'' ۱؎۔
وضاحت ۱؎: کیونکہ عصبیت زمانۂ جاہلیت ہی کی خصوصیات میں سے ہے، مسلمان کو ہمیشہ حق کا متلاشی ہونا چاہیے، اور حق ہی کے لیے اس کا تعاون ہونا چاہیے، اندھی عصبیت میں ذات برادری، پارٹی، جماعت اور علاقہ والوں کی اندھی حمایت مسلمان کا شیوہ نہیں ہے۔


4120- أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ، قَالَ: حَدَّثَنَا عِمْرَانُ الْقَطَّانُ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَبِي مِجْلَزٍ، عَنْ جُنْدُبِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ قَالَ: قَالَ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ قَاتَلَ تَحْتَ رَايَةٍ عُمِّيَّةٍ يُقَاتِلُ عَصَبِيَّةً، وَيَغْضَبُ لِعَصَبِيَّةٍ؛ فَقِتْلَتُهُ جَاهِلِيَّةٌ ".
٭قَالَ أَبُو عَبْدالرَّحْمَنِ: عِمْرَانُ الْقَطَّانُ لَيْسَ بِالْقَوِيِّ۔
* تخريج: م/الإمارۃ ۱۳ (۱۸۵۰)، (تحفۃ الأشراف: ۳۲۶۷) (صحیح)
۴۱۲۰- جندب بن عبداللہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے فرمایا: '' جوشخص عصبیت کے جھنڈے تلے لڑے اور وہ اپنی قوم کی عصبیت میں لڑے یا عصبیت میں غصہ ہو تو اس کی موت جاہلیت کی موت ہوگی''۔
٭ابو عبدالرحمن (نسائی) کہتے ہیں: عمران القطان زیادہ قوی نہیں ہیں ۱؎۔
وضاحت ۱؎: مسلم کی سند میں '' عمران القطان'' نہیں ہیں، بلکہ ان کی جگہ معتمر بن سلیمان التیمی ہیں، قتادہ بھی نہیں ہیں، ان کی جگہ سلیمان التیمی ہیں، اس لیے حدیث صحیح ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
29-تَحْرِيمُ الْقَتْلِ
۲۹- باب: قتل کی حرمت کا بیان​


4121- أَخْبَرَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلانَ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ، عَنْ شُعْبَةَ، قَالَ: أَخْبَرَنِي مَنْصُورٌ، قَالَ: سَمِعْتُ رِبْعِيًّا يُحَدِّثُ عَنْ أَبِي بَكْرَةَ قَالَ: قَالَ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِذَا أَشَارَ الْمُسْلِمُ عَلَى أَخِيهِ الْمُسْلِمِ بِالسِّلاحِ فَهُمَا عَلَى جُرُفِ جَهَنَّمَ؛ فَإِذَا قَتَلَهُ خَرَّا جَمِيعًا فِيهَا "۔
* تخريج: خ/الفتن ۱۰ (۷۰۸۳ تعلیقًا)، م/الفتن ۴ (۲۸۸۸)، ق/الفتن ۱۱ (۳۹۶۵)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۶۷۲)، حم (۵/۴۱) (صحیح)
۴۱۲۱- ابو بکرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''جب ایک مسلمان اپنے دوسرے مسلمان بھائی پر ہتھیار اٹھائے (اور دونوں جھگڑنے کے ارادے سے ہوں) تو وہ دونوں جہنم کے کنارے پر ہیں، جب ایک دوسرے کو قتل کرے گا تو دونوں ہی اس میں جا گریں گے'' ۱؎۔
وضاحت ۱؎: اس لیے کہ دونوں ہی ایک دوسرے کے قتل کے درپے تھے، ایک کامیاب ہو گیا۔


4122- أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ سُلَيْمَانَ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَعْلَى، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ رِبْعِيٍّ، عَنْ أَبِي بَكْرَةَ قَالَ: إِذَا حَمَلَ الرَّجُلانِ الْمُسْلِمَانِ السِّلاحَ أَحَدُهُمَا عَلَى الآخَرِ؛ فَهُمَا عَلَى جُرُفِ جَهَنَّمَ؛ فَإِذَا قَتَلَ أَحَدُهُمَا الآخَرَ؛ فَهُمَا فِي النَّارِ۔
* تخريج: انظر ما قبلہ (صحیح)
۴۱۲۲- ابو بکرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ جب دو مسلمان آپس میں ایک دوسرے کے خلاف ہتھیار اٹھا لیں تو وہ دونوں جہنم کے کنارے پر ہیں، پھر جب ان میں سے ایک دوسرے کو قتل کرے گا تو وہ دونوں جہنم میں ہوں گے۔


4123- أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ يَزِيدَ، عَنْ سُلَيْمَانَ التَّيْمِيِّ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ أَبِي مُوسَى، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " إِذَا تَوَاجَهَ الْمُسْلِمَانِ بِسَيْفَيْهِمَا؛ فَقَتَلَ أَحَدُهُمَا صَاحِبَهُ؛ فَهُمَا فِي النَّارِ"، قِيلَ: يَا رسول اللَّهِ! هَذَا الْقَاتِلُ فَمَا بَالُ الْمَقْتُولِ؟ قَالَ: "أَرَادَ قَتْلَ صَاحِبِهِ "۔
* تخريج: ق/الفتن ۱۱ (۳۹۶۴)، (تحفۃ الأشراف: ۸۹۸۴)، حم (۴/۴۰۱، ۴۰۳، ۴۱۰، ۴۱۸) ویأتي عند المؤلف فیما یلي وبرقم۴۱۲۹ (صحیح)
۴۱۲۳- ابو موسیٰ اشعری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی للہ علیہ وسلم نے فرمایا: '' جب دو مسلمان اپنی تلواروں کے ساتھ آمنے سامنے ہوں اور ان میں ایک دوسرے کو قتل کر دے تو وہ دونوں جہنم میں ہوں گے''، عرض کیا گیا: اللہ کے رسول! یہ تو قاتل ہے، لیکن مقتول کا قصور کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: '' اس نے اپنے (مقابل) ساتھی کو مارنا چاہا تھا ''۔


4124- أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَزِيدُ - وَهُوَ ابْنُ هَارُونَ - قَالَ: أَنْبَأَنَا سَعِيدٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ الْحَسَنِ، عَنْ أَبِي مُوسَى الأَشْعَرِيِّ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "إِذَا تَوَاجَهَ الْمُسْلِمَانِ بِسَيْفَيْهِمَا؛ فَقَتَلَ أَحَدُهُمَا صَاحِبَهُ؛ فَهُمَا فِي النَّارِ مِثْلَهُ سَوَائً"۔
* تخريج: انظر ما قبلہ(صحیح)
۴۱۲۴- ابو موسیٰ اشعری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی للہ علیہ وسلم نے فرمایا: '' جب دو مسلمان تلواروں کے ساتھ آمنے سامنے ہوں، پھر ان میں سے ایک اپنے ساتھی کو قتل کر دے تو وہ دونوں جہنم میں ہوں گے''۔


4125- أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ الْمِصِّيصِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا خَلَفٌ، عَنْ زَائِدَةَ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ الْحَسَنِ، عَنْ أَبِي بَكْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " إِذَا تَوَاجَهَ الْمُسْلِمَانِ بِسَيْفَيْهِمَا كُلُّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا يُرِيدُ قَتْلَ صَاحِبِهِ؛ فَهُمَا فِي النَّارِ" قِيلَ لَهُ: يَا رسول اللَّهِ! هَذَا الْقَاتِلُ فَمَا بَالُ الْمَقْتُولِ؟ قَالَ: "إِنَّهُ كَانَ حَرِيصًا عَلَى قَتْلِ صَاحِبِهِ "۔
* تخريج: تفرد بہ النسائي (تحفۃ الأشراف: ۱۱۶۶۶)، حم ۵/۴۶، ۵۱، یأتي فیما یلي: ۴۱۲۶ (صحیح)
۴۱۲۵- ابو بکرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی للہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''جب دو مسلمان اپنی تلواروں کے ساتھ آمنے سامنے ہوں، ان میں سے ہر ایک دوسرے کو قتل کرنا چاہتا ہو، تو وہ دونوں جہنم میں ہوں گے''۔ آپ سے عرض کیا گیا: اللہ کے رسول! یہ تو قاتل ہے لیکن مقتول کا کیا معاملہ ہے؟ آپ نے فرمایا: '' وہ بھی تو اپنے ساتھی کے قتل کا حریص اور خواہش مند تھا ''۔


4126- أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، قَالَ: حَدَّثَنَا الْخَلِيلُ بْنُ عُمَرَ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، قَالَ: حَدَّثَنِي قَتَادَةُ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ أَبِي بَكْرَةَ قَالَ: قَالَ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِذَا الْتَقَى الْمُسْلِمَانِ بِسَيْفَيْهِمَا؛ فَقَتَلَ أَحَدُهُمَا صَاحِبَهُ؛ فَالْقَاتِلُ، وَالْمَقْتُولُ فِي النَّارِ "۔
* تخريج: انظر ما قبلہ (صحیح)
۴۱۲۶- ابو بکرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے فرمایا: '' جب دو مسلمان اپنی تلواروں کے ساتھ بھڑ جائیں پھر ان میں سے ایک دوسرے کو قتل کر دے تو قاتل و مقتول دونوں جہنم میں ہوں گے''۔


4127- أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ فَضَالَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّزَّاقِ، قَالَ: أَنْبَأَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ الْحَسَنِ، عَنِ الأَحْنَفِ بْنِ قَيْسٍ، عَنْ أَبِي بَكْرَةَ قَالَ: قَالَ: سَمِعْتُ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: "إِذَا تَوَاجَهَ الْمُسْلِمَانِ بِسَيْفَيْهِمَا؛ فَقَتَلَ أَحَدُهُمَا صَاحِبَهُ؛ فَالْقَاتِلُ، وَالْمَقْتُولُ فِي النَّارِ" قَالُوا: يَا رسول اللَّهِ! هَذَا الْقَاتِلُ فَمَا بَالُ الْمَقْتُولِ؟ قَالَ: " إِنَّهُ أَرَادَ قَتْلَ صَاحِبِهِ "۔
* تخريج: خ/الإیمان ۲۲ (۳۱)، الدیات ۲ (۶۸۷۵)، الفتن ۱۰ (۷۰۸۲)، م/الفتن ۴ (۲۸۸۸)، د/الفتن ۵ (۴۲۶۸، ۴۲۶۹)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۶۵۵)، حم (۵/۴۳، ۵۱) (صحیح)
۴۱۲۷- ابو بکرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ''جب دو مسلمان اپنی تلواروں کے ساتھ آمنے سامنے ہوں پھر ان میں سے ایک دوسرے کو قتل کر دے تو قاتل اور مقتول دونوں جہنم میں ہوں گے''، انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! یہ تو قاتل ہے آخر مقتول کا کیا معاملہ ہے؟ آپ نے فرمایا: '' اس نے بھی اپنے ساتھی کے قتل کا ارادہ کیا تھا ''۔


4128- أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ، عَنْ حَمَّادٍ، عَنْ أَيُّوبَ، وَيُونُسَ، وَالْعَلائِ بْنِ زِيَادٍ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنِ الأَحْنَفِ بْنِ قَيْسٍ، عَنْ أَبِي بَكْرَةَ قَالَ: قَالَ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِذَا الْتَقَى الْمُسْلِمَانِ بِسَيْفَيْهِمَا؛ فَقَتَلَ أَحَدُهُمَا صَاحِبَهُ؛ فَالْقَاتِلُ وَالْمَقْتُولُ فِي النَّارِ "۔
* تخريج: انظر ما قبلہ (صحیح)
۴۱۲۸- ابو بکرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے فرمایا: '' جب دو مسلمان اپنی تلواروں کے ساتھ بھڑ جائیں پھر ان میں سے ایک دوسرے کو قتل کر دے تو قاتل اور مقتول دونوں جہنم میں ہوں گے''۔


4129- أَخْبَرَنَا مُجَاهِدُ بْنُ مُوسَى، قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ - وَهُوَ ابْنُ عُلَيَّةَ - عَنْ يُونُسَ، عَنْ الْحَسَنِ، عَنْ أَبِي مُوسَى الأَشْعَرِيِّ أَنَّ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "إِذَا تَوَاجَهَ الْمُسْلِمَانِ بِسَيْفَيْهِمَا؛ فَقَتَلَ أَحَدُهُمَا صَاحِبَهُ؛ فَالْقَاتِلُ وَالْمَقْتُولُ فِي النَّارِ" قَالَ رَجُلٌ: يَا رسول اللَّهِ! هَذَا الْقَاتِلُ فَمَا بَالُ الْمَقْتُولِ؟ قَالَ: " إِنَّهُ أَرَادَ قَتْلَ صَاحِبِهِ "۔
* تخريج: انظر حدیث رقم: ۴۱۲۳ (صحیح)
۴۱۲۹- ابو موسیٰ اشعری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''جب دو مسلمان اپنی تلواروں کے ساتھ آمنے سامنے ہوں پھر ان میں سے ایک دوسرے کو قتل کر دے تو قاتل اور مقتول دونوں جہنم میں ہوں گے''، ایک شخص نے کہا: اللہ کے رسول! یہ تو قاتل ہے لیکن مقتول کا کیا معاملہ ہے؟ آپ نے فرمایا: '' اس نے بھی اپنے ساتھی کے قتل کا ارادہ کیا تھا ''۔


4130- أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ بْنِ الْحَكَمِ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ وَاقِدِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ زَيْدٍ أَنَّهُ سَمِعَ أَبَاهُ يُحَدِّثُ عَنْ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " لا تَرْجِعُوا بَعْدِي كُفَّارًا يَضْرِبُ بَعْضُكُمْ رِقَابَ بَعْضٍ "۔
* تخريج: خ/المغازي ۷۷ (۴۴۰۲)، الأدب ۹۵ (۶۰۴۳)، الحدود ۹ (۶۷۸۵)، الدیات ۲ (۶۸۶۸)، الفتن ۸ (۷۰۷۷)، م/الإیمان ۲۹ (۶۶، ۴۴۰۳)، د/السنۃ ۱۶ (۴۶۸۶)، ق/الفتن۵(۳۹۴۳)، (تحفۃ الأشراف: ۷۴۱۸) حم (۲/۸۵، ۸۷، ۱۰۴) (صحیح)
۴۱۳۰- عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی للہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''تم میرے بعد کافر نہ ہو جانا ۱؎ کہ تم آپس میں ایک دوسرے کی گردن مارنے لگو''۔
وضاحت ۱؎: یعنی کافروں کی طرح نہ ہو جانا کہ کفریہ اعمال کرنے لگو، جیسے ایک دوسرے کو ناحق قتل کرنا۔


4131- أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ الزُّبَيْرِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا شَرِيكٌ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي الضُّحَى، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: قَالَ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لاتَرْجِعُوا بَعْدِي كُفَّارًا يَضْرِبُ بَعْضُكُمْ رِقَابَ بَعْضٍ لا يُؤْخَذُ الرَّجُلُ بِجِنَايَةِ أَبِيهِ، وَلاجِنَايَةِ أَخِيهِ". ٭قَالَ أَبُوعَبْدالرَّحْمَنِ هَذَا خَطَأٌ وَالصَّوَابُ مُرْسَلٌ۔
* تخريج: تفرد بہ النسائي (تحفۃ الأشراف: ۷۴۵۲)، ویأتي عند المؤلف بأرقام: ۴۱۳۲-۴۱۳۴) (صحیح)
۴۱۳۱- عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے فرمایا: '' تم لوگ میرے بعد کافر نہ ہو جانا کہ تم آپس میں ایک دوسرے کی گردن مارنے لگو، آدمی کو نہ اس کے باپ کے گناہ کی وجہ سے پکڑا جائے گا اور نہ ہی اس کے بھائی کے گناہ کی وجہ سے''۔ ٭ابو عبدالرحمن نسائی کہتے ہیں: یہ غلط ہے(کہ یہ متصل ہے) صحیح یہ ہے کہ یہ مرسل ہے ۱؎۔
وضاحت ۱؎: یعنی: جس سند میں مسروق ہیں اس سند سے اس روایت کا مرسل ہونا ہی صواب ہے، مسروق کے واسطے سے جس نے اس روایت کو متصل کر دیا ہے اس نے غلطی کی ہے، یہ مطلب نہیں ہے کہ سرے سے یہ حدیث ہی مرسل ہے، دیگر محدثین کی سندیں متصل ہیں۔


4132- أَخْبَرَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ يَعْقُوبَ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُوبَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ، عَنْ الأَعْمَشِ، عَنْ مُسْلِمٍ، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ قَالَ: قَالَ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لا تَرْجِعُوا بَعْدِي كُفَّارًا يَضْرِبُ بَعْضُكُمْ رِقَابَ بَعْضٍ، وَلا يُؤْخَذُ الرَّجُلُ بِجَرِيرَةِ أَبِيهِ، وَلا بِجَرِيرَةِ أَخِيهِ"۔
* تخريج: انظر حدیث رقم: ۴۱۳۱ (صحیح)
۴۱۳۲- عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے فرمایا: '' تم میرے بعد کافر نہ ہو جاناکہ آپس میں ایک دوسرے کی گردنیں مارو، کوئی شخص اپنے باپ کے گناہ کی وجہ سے نہ پکڑا جائے گا اور نہ ہی اس کے بھائی کے گناہ کی وجہ سے''۔


4133- أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلائِ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ مُسْلِمٍ، عَنْ مَسْرُوقٍ قَالَ: قَالَ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لا أُلْفِيَنَّكُمْ تَرْجِعُونَ بَعْدِي كُفَّارًا يَضْرِبُ بَعْضُكُمْ رِقَابَ بَعْضٍ لايُؤْخَذُ الرَّجُلُ بِجَرِيرَةِ أَبِيهِ، وَلا بِجَرِيرَةِ أَخِيهِ هَذَا الصَّوَابُ "۔
* تخريج: انظر حدیث رقم: ۴۱۳۱ (صحیح)
(اس لیے کہ یہ روایت مرسل ہے)
۴۱۳۳- مسروق کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے فرمایا: '' میں تمہیں اس طرح نہ پاؤں کہ تم میرے بعد کافر ہو جاؤ کہ تم ایک دوسرے کی گردنیں مارو، آدمی سے نہ اس کے باپ کے جرم و گناہ کا مواخذہ ہوگا اور نہ ہی اس کے بھائی کے جرم و گناہ کا''۔
یہی صحیح ہے ۱؎۔
وضاحت ۱؎: یعنی مسروق کی سند سے مرسل روایت ہی صحیح ہے۔


4134- أَخْبَرَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ يَعْقُوبَ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَعْلَى، قَالَ: حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ، عَنْ أَبِي الضُّحَى، عَنْ مَسْرُوقٍ قَالَ: قَالَ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لا تَرْجِعُوا بَعْدِي كُفَّارًا " مُرْسَلٌ۔
* تخريج: انظر حدیث رقم: ۴۱۳۱(صحیح)
(مسروق نے صحابی کا ذکر نہیں کیا، اس لیے یہ روایت بھی مرسل ہے، لیکن دوسرے طرق سے تقویت پاکر حدیث صحیح ہے)
۴۱۳۴- مسروق کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''میرے بعد کافر نہ ہو جانا''۔
(یہ حدیث) مرسل ہے۔


4135- أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ زُرَارَةَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا إِسْمَاعِيلُ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ، عَنْ أَبِي بَكْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " لا تَرْجِعُوا بَعْدِي ضُلاَّلا يَضْرِبُ بَعْضُكُمْ رِقَابَ بَعْضٍ "۔
* تخريج: تفرد بہ النسائي (تحفۃ الأشراف: ۱۱۷۰۰)، وقد أخرجہ: د/المناسک ۶۸ (۱۹۴۷) حم (۵/۳۷، ۴۴، ۴۵، ۴۹) (صحیح)
۴۱۳۵- ابو بکرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی للہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''تم میرے بعد کافر نہ ہو جانا کہ آپس میں ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگو''۔


4136- أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ، وَعَبْدُالرَّحْمَنِ، قَالا: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ مُدْرِكٍ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا زُرْعَةَ بْنَ عَمْرِو بْنِ جَرِيرٍ، عَنْ جَرِيرٍ أَنَّ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ اسْتَنْصَتَ النَّاسَ، قَالَ: " لا تَرْجِعُوا بَعْدِي كُفَّارًا يَضْرِبُ بَعْضُكُمْ رِقَابَ بَعْضٍ "۔
* تخريج: خ/العلم ۴۳ (۱۲۱)، المغازي ۷۷ (۴۴۰۵)، الدیات ۲ (۶۸۶۹)، الفتن ۸ (۷۰۸۰)، م/الإیمان ۲۹ (۶۵)، ق/الفتن ۵ (۳۹۴۲)، (تحفۃ الأشراف: ۳۲۳۶)، حم (۴/۳۵۸، ۳۶۳، ۳۶۶)، دي/المناسک ۷۶ ۱۹۶۲) (صحیح)
۴۱۳۶- جریر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے حجۃالوداع میں لوگوں کو خاموش کیا اور فرمایا: ''میرے بعد تم کافر نہ ہو جانا کہ تم ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگو''۔


4137- أَخْبَرَنَا أَبُو عُبَيْدَةَ بْنُ أَبِي السَّفَرِ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، عَنْ قَيْسٍ، قَالَ: بَلَغَنِي أَنَّ جَرِيرَ بْنَ عَبْدِاللَّهِ قَالَ: قَالَ لِي رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "اسْتَنْصِتْ النَّاسَ" ثُمَّ قَالَ: "لا أُلْفِيَنَّكُمْ بَعْدَ مَا أَرَى تَرْجِعُونَ بَعْدِي كُفَّارًا يَضْرِبُ بَعْضُكُمْ رِقَابَ بَعْضٍ "۔
* تخريج: تفرد بہ النسائي (تحفۃ الأشراف: ۳۲۴۴) (صحیح)
۴۱۳۷- جریر بن عبداللہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ مجھ سے رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے فرمایا: '' لوگوں سے خاموش رہنے کو کہو''، پھر فرمایا: '' اس کے بعد جب میں تمہیں دیکھوں (قیامت کے روز) تو ایسا نہ پاؤں کہ تم کافر ہو جاؤ اور ایک دوسرے کی گردنیں مارو''۔

* * *​
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207

38-كِتَابُ قَسْمِ الْفَيْئِ
۳۸- کتاب: مالِ فی ٔ ۱؎ کی تقسیم سے متعلق احکام و مسائل​



4138- أَخْبَرَنَا هَارُونُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ الْحَمَّالُ، قَالَ: حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ، عَنْ يُونُسَ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ هُرْمُزَ أَنَّ نَجْدَةَ الْحَرُورِيَّ حِينَ خَرَجَ فِي فِتْنَةِ ابْنِ الزُّبَيْرِ أَرْسَلَ إِلَى ابْنِ عَبَّاسٍ يَسْأَلُهُ عَنْ سَهْمِ ذِي الْقُرْبَى لِمَنْ تُرَاهُ، قَالَ: هُوَ لَنَا لِقُرْبَى رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَسَمَهُ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَهُمْ، وَقَدْ كَانَ عُمَرُ عَرَضَ عَلَيْنَا شَيْئًا رَأَيْنَاهُ دُونَ حَقِّنَا، فَأَبَيْنَا أَنْ نَقْبَلَهُ، وَكَانَ الَّذِي عَرَضَ عَلَيْهِمْ أَنْ يُعِينَ نَاكِحَهُمْ، وَيَقْضِيَ عَنْ غَارِمِهِمْ، وَيُعْطِيَ فَقِيرَهُمْ، وَأَبَى أَنْ يَزِيدَهُمْ عَلَى ذَلِكَ۔
* تخريج: م/الجہاد ۴۸ (۱۸۱۲)، د/الخراج۲۰(۲۹۸۲)، ت/السیر ۸ (۱۵۵۶)، (تحفۃ الأشراف: ۶۵۵۷)، حم (۱/۲۴۸، ۲۹۴، ۳۰۸، ۳۲۰، ۳۴۴، ۳۴۹، ۳۵۲)، دي/السیر ۳۲ (۲۵۱۴) (صحیح)
۴۱۳۸- یزید بن ہرمز سے روایت ہے کہ نجدہ حروری جب عبداللہ بن زبیر کے عہد میں شورش و ہنگامہ کے ایام میں (حج کے لئے) نکلا ۲؎ تو اس نے ابن عباس رضی الله عنہما کے پاس ایک شخص کو بھیجا کہ وہ ان سے معلوم کرے کہ(مال غنیمت میں سے) ذی القربی کا حصہ(اب) کس کو ملنا چاہئے ۳؎، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم سے قربت کے سبب وہ ہمارا ہے، رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے اسے انہیں قرابت والوں میں تقسیم کیا تھا، اور عمر رضی الله عنہ نے ہمیں ہمارے حق سے کچھ کم حصہ دیا تھا تو ہم نے اسے قبول نہیں کیا، اور جو بات انہوں نے جواز میں پیش کی وہ یہ تھی کہ وہ اس کے ذریعہ (رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم کے قرابت داروں کا) نکاح کرانے والوں کی مدد کریں گے، اور ان کے قرض داروں کا قرض ادا کیا جائے گا اور ان کے فقراء و مساکین کو دیا جائے گا، اور اس سے زائد دینے سے انکار کر دیا۔
وضاحت ۱؎: مال فئی اس مال کو کہتے ہیں جو مسلمانوں کو کفار سے جنگ وجدال کئے بغیر حاصل ہو، لیکن مؤلف نے اس میں فیٔ اور غنیمت دونوں سے متعلق احادیث ذکر کی ہیں، اور پہلی حدیث میں فیٔ کے ساتھ ساتھ '' غنیمت '' میں سے بھی رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم کے ذوی القربی کے حصے کی بابت سوال کیا گیا ہے۔
وضاحت۲؎: یہ اس وقت کی بات ہے جب کہ حجاج نے مکہ پر چڑھائی کر کے عبداللہ بن زبیر رضی الله عنہ کو قتل کیا تھا۔
وضاحت۳؎: رسول اکرم صلی للہ علیہ وسلم نے مال غنیمت سے ذوی القربی کا حصہ اپنے رشتہ داروں میں تقسیم کیا تھا، آپ کی وفات کے بعد سوال یہ پیدا ہوا کہ یہ حصہ '' رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم کے رشتہ داروں کا تھا یا امام وقت کے رشتہ داروں کا؟ '' ابن عباس رضی الله عنہما کا خیال تھا (نیز قرآن کا سیاق بھی اسی کی تائید کرتا ہے) کہ یہ رسول اکرم صلی للہ علیہ وسلم کے رشتہ داروں کا تھا اور اب بھی ہے اس لیے ہمیں ملنا چاہیے، جب کہ عمر رضی الله عنہ نے آپ کے رشتہ داروں کے ہاتھ میں نہ دے کر خود ہی آپ کے رشتہ داروں کی ضروریات میں خرچ کیا، ابوبکر اور عمر رضی الله عنہما کا موقف بھی یہی تھا کہ امام وقت ہی اس خمس (غنیمت کے پانچویں حصہ) کو رسول اکرم صلی للہ علیہ وسلم کے رشتہ داروں میں خرچ کرے گا۔


4139- أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَزِيدُ - وَهُوَ ابْنُ هَارُونَ - قَالَ: أَنْبَأَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، وَمُحَمَّدُ بْنُ عَلِيٍّ عَنْ يَزِيدَ بْنِ هُرْمُزَ قَالَ: كَتَبَ نَجْدَةُ إِلَى ابْنِ عَبَّاسٍ يَسْأَلُهُ عَنْ سَهْمِ ذِي الْقُرْبَى، لِمَنْ هُوَ؟ قَالَ يَزِيدُ بْنُ هُرْمُزَ: وَأَنَا كَتَبْتُ كِتَابَ ابْنِ عَبَّاسٍ إِلَى نَجْدَةَ كَتَبْتُ إِلَيْهِ كَتَبْتَ تَسْأَلُنِي عَنْ سَهْمِ ذِي الْقُرْبَى، لِمَنْ هُوَ؟ وَهُوَ لَنَا أَهْلَ الْبَيْتِ، وَقَدْ كَانَ عُمَرُ دَعَانَا إِلَى أَنْ يُنْكِحَ مِنْهُ أَيِّمَنَا، وَيُحْذِيَ مِنْهُ عَائِلَنَا، وَيَقْضِيَ مِنْهُ عَنْ غَارِمِنَا؛ فَأَبَيْنَا إِلا أَنْ يُسَلِّمَهُ لَنَا، وَأَبَى ذَلِكَ؛ فَتَرَكْنَاهُ عَلَيْهِ۔
* تخريج: انظر ما قبلہ (صحیح)
۴۱۳۹- یزید بن ہرمز کہتے ہیں کہ نجدہ نے ابن عباس رضی الله عنہما کو یہ سوال لکھا کہ (نبی اکرم صلی للہ علیہ وسلم کے) رشتہ داروں کا حصہ (آپ کے بعد) کس کا ہے؟ نجدہ کے پاس ابن عباس رضی الله عنہما کا جواب میں نے ہی لکھ کر بھیجا، میں نے لکھا کہ تم نے یہ سوال مجھے لکھ کر بھیجا ہے کہ (نبی کے) رشتہ داروں کا حصہ کس کا ہے؟ وہ ہم اہل بیت کا ہے۔ البتہ عمر رضی الله عنہ نے ہم سے کہا کہ وہ اس مال سے ہماری بیواؤں کا نکاح کرائیں گے، اس کو ہمارے فقراء ومساکین پر خرچ کریں گے اور ہمارے قرض داروں کا قرض ادا کریں گے، لیکن ہم اصرار کرتے رہے کہ وہ ہم ہی کو دیا جائے، تو انہوں نے اس سے انکار کیا، لہٰذا ہم نے اسے انہیں پر چھوڑ دیا۔


4140- أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ يَحْيَى، قَالَ: حَدَّثَنَا مَحْبُوبٌ - يَعْنِي: ابْنَ مُوسَى- قَالَ: أَنْبَأَنَا أَبُو إِسْحَاقَ - وَهُوَ الْفَزَارِيُّ - عَنِ الأَوْزَاعِيِّ، قَالَ: كَتَبَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِالْعَزِيزِ إِلَى عُمَرَ بْنِ الْوَلِيدِ كِتَابًا فِيهِ، وَقَسْمُ أَبِيكَ لَكَ الْخُمُسُ كُلُّهُ، وَإِنَّمَا سَهْمُ أَبِيكَ كَسَهْمِ رَجُلٍ مِنْ الْمُسْلِمِينَ، وَفِيهِ حَقُّ اللَّهِ، وَحَقُّ ال رسول، وَذِي الْقُرْبَى، وَالْيَتَامَى، وَالْمَسَاكِينِ، وَابْنِ السَّبِيلِ؛ فَمَا أَكْثَرَ خُصَمَائَ أَبِيكَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ؛ فَكَيْفَ يَنْجُو مَنْ كَثُرَتْ خُصَمَاؤُهُ، وَإِظْهَارُكَ الْمَعَازِفَ، وَالْمِزْمَارَ بِدْعَةٌ فِي الإِسْلامِ، وَلَقَدْ هَمَمْتُ أَنْ أَبْعَثَ إِلَيْكَ مَنْ يَجُزُّ جُمَّتَكَ جُمَّةَ السُّوئِ۔
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (صحیح الإسناد)
۴۱۴۰- اوزاعی کہتے ہیں کہ عمر بن عبدالعزیز نے عمر بن ولید کو ایک خط لکھا: تمہارے باپ نے تقسیم کر کے پورا خمس (پانچواں حصہ) تمہیں دے دیا، حالانکہ تمہارے باپ کا حصہ ایک عام مسلمان کے حصے کی طرح ہے، اس میں اللہ کا حق ہے اور رسول، ذی القربی، یتیموں، مسکینوں اور مسافروں کا حق ہے۔ تو قیامت کے دن تمہارے باپ سے جھگڑنے والے اور دعوے دار کس قدر زیادہ ہوں گے، اور جس شخص پر دعوے دار اتنی کثرت سے ہوں گے وہ کیسے نجات پائے گا؟ اور جو تم نے باجے اور بانسری کو رواج دیا ہے تو یہ سب اسلام میں بدعت ہیں، میں نے ارادہ کیا تھا کہ میں تمہارے پاس ایسے شخص کو بھیجوں جو تمہارے بڑے بڑے اور برے لٹکتے بالوں کو کاٹ ڈالے ۱؎۔
وضاحت ۱؎: جمہ ایسے بالوں کو کہتے ہیں جو گردن تک لٹکتے ہیں، اس طرح کا بال رکھنا مکروہ نہیں ہے، عمر بن عبدالعزیز نے اس لئے ایسا کہا کیونکہ عمر بن الولید اپنے انہیں بالوں کی وجہ سے گھمنڈ میں مبتلا رہتا تھا۔


4141- أَخْبَرَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عَبْدِالْحَكَمِ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعَيْبُ بْنُ يَحْيَى، قَالَ: حَدَّثَنَا نَافِعُ بْنُ يَزِيدَ، عَنْ يُونُسَ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيَّبِ أَنَّ جُبَيْرَ بْنَ مُطْعِمٍ حَدَّثَهُ أَنَّهُ جَائَ هُوَ وَعُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُكَلِّمَانِهِ فِيمَا قَسَمَ مِنْ خُمُسِ حُنَيْنٍ بَيْنَ بَنِي هَاشِمٍ، وَبَنِي الْمُطَّلِبِ بْنِ عَبْدِ مَنَافٍ؛ فَقَالا: يَا رسول اللَّهِ! قَسَمْتَ لإِخْوَانِنَا بَنِي الْمُطَّلِبِ بْنِ عَبْدِ مَنَافٍ، وَلَمْ تُعْطِنَا شَيْئًا، وَقَرَابَتُنَا مِثْلُ قَرَابَتِهِمْ؛ فَقَالَ لَهُمَا رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّمَا أَرَى هَاشِمًا، وَالْمُطَّلِبَ شَيْئًا وَاحِدًا " قَالَ جُبَيْرُ بْنُ مُطْعِمٍ: وَلَمْ يَقْسِمْ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِبَنِي عَبْدِ شَمْسٍ، وَلالِبَنِي نَوْفَلٍ مِنْ ذَلِكَ الْخُمُسِ شَيْئًا كَمَا قَسَمَ لِبَنِي هَاشِمٍ، وَبَنِي الْمُطَّلِبِ۔
* تخريج: خ/الخمس ۱۷ (۳۱۴۰)، المناقب ۲ (۳۵۰۲)، المغازي ۳۸ (۴۲۲۹)، د/الخراج ۲۰ (۲۹۷۹، ۲۹۸۰)، ق/الجہاد ۴۶ (۲۸۸۱)، (تحفۃ الأشراف: ۳۱۸۵)، حم (۴/۸۱، ۸۳، ۸۵) (صحیح)
۴۱۴۱- جبیر بن مطعم رضی الله عنہ بیان کرتے ہیں کہ وہ اور عثمان بن عفان رضی الله عنہ رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم کے پاس غزوۂ حنین کے اس خمس ۱؎ کے سلسلے میں آپ سے گفتگو کرنے آئے جسے آپ نے بنی ہاشم اور بنی مطلب بن عبد مناف کے درمیان تقسیم کر دیا تھا، انہوں نے کہا کہ اللہ کے رسول! آپ نے ہمارے بھائی بنی مطلب بن عبد مناف میں مال فیٔ بانٹ دیا اور ہمیں کچھ نہ دیا، حالانکہ ہمارا رشتہ انہی لوگوں کے رشتہ کی طرح ہے، رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: '' میں تو ہاشم اور مطلب کو ایک ہی سمجھتا ہوں ''، لیکن رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے اس خمس میں سے بنی عبد شمس کو کچھ نہ دیا اور نہ ہی بنی نوفل کو جیسا کہ بنی ہاشم اور بنی مطلب کو دیا ۲؎۔
وضاحت ۱؎: دونوں اس خمس کے بارے میں بات چیت کرنے آئے تھے جو ذوی القربیٰ کا حصہ ہے۔
وضاحت۲؎: جبیر بن مطعم اور عثمان رضی الله عنہما کو اعتراض بنو ہاشم کو دینے پر نہیں تھا کیوں کہ نبی اکرم صلی للہ علیہ وسلم سے ان کا تعلق سب کو معلوم تھا، انہیں اعتراض بنو مطلب کو دیکر بنو عبد مناف کو نہ دینے پر تھا کہ بنو ہاشم کے سوا سب سے آپ صلی للہ علیہ وسلم سے قرابت برابر تھی تو ایک کو دینا اور دوسرے کو نہ دینا؟ اور آپ صلی للہ علیہ وسلم کے جواب کا حاصل یہ تھا کہ بنو مطلب نے بھی بنو ہاشم کی طرح آپ کا زمانۂ جاہلیت میں بھی ساتھ دیا تھا، جبکہ بنو عبد مناف نے دشمن کا رول ادا کیا تھا۔ (دیکھئے اگلی حدیث)


4142- أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، قَالَ: حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ، عَنْ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ قَالَ: لَمَّا قَسَمَ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَهْمَ ذِي الْقُرْبَى بَيْنَ بَنِي هَاشِمٍ، وَبَنِي الْمُطَّلِبِ أَتَيْتُهُ أَنَا، وَعُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ؛ فَقُلْنَا: يَا رسول اللَّهِ! هَؤُلائِ بَنُوهَاشِمٍ لا نُنْكِرُ فَضْلَهُمْ لِمَكَانِكَ الَّذِي جَعَلَكَ اللَّهُ بِهِ مِنْهُمْ أَرَأَيْتَ بَنِي الْمُطَّلِبِ أَعْطَيْتَهُمْ، وَمَنَعْتَنَا؛ فَإِنَّمَا نَحْنُ وَهُمْ مِنْكَ بِمَنْزِلَةٍ؛ فَقَالَ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِنَّهُمْ لَمْ يُفَارِقُونِي فِي جَاهِلِيَّةٍ، وَلا اسْلامٍ إِنَّمَا بَنُو هَاشِمٍ، وَبَنُو الْمُطَّلِبِ شَيْئٌ وَاحِدٌ، وَشَبَّكَ بَيْنَ أَصَابِعِهِ"۔
* تخريج: انظر ما قبلہ (صحیح)
۴۱۴۲- جبیر بن مطعم رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے ذی القربی کا حصہ بنی ہاشم اور بنی مطلب میں تقسیم کیا تو میں اور عثمان بن عفان رضی الله عنہ آپ کے پاس آئے، ہم نے عرض کیا: اللہ کے رسول! یہ بنی ہاشم ہیں، آپ کے مقام کی وجہ سے ان کی فضیلت کا انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اللہ تعالیٰ نے اس مرتبے کے ساتھ آپ کو ان میں سے بنایا ہے، لیکن بنی مطلب کے بارے میں کیا خیال ہے؟ آپ نے انہیں دیا اور ہمیں نہیں دیا۔ حالانکہ آپ کے لئے ہم اور وہ ایک ہی درجے کے ہیں، رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے فرمایا: '' انہوں نے مجھے نہ زمانۂ جاہلیت میں چھوڑا اور نہ اسلام میں، بنو ہاشم اور بنو مطلب تو ایک ہی چیز ہیں ''، اور آپ نے اپنے ہاتھوں کی انگلیاں ایک دوسرے کے اندر ڈالیں۔


4143- أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ يَحْيَى بْنِ الْحَارِثِ، قَالَ: حَدَّثَنَا مَحْبُوبٌ - يَعْنِي: ابْنَ مُوسَى- قَالَ: أَنْبَأَنَا أَبُوإِسْحَاقَ - وَهُوَ الْفَزَارِيُّ - عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ عَيَّاشٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ مُوسَى، عَنْ مَكْحُولٍ، عَنْ أَبِي سَلاَّمٍ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ الْبَاهِلِيِّ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ قَالَ: أَخَذَ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ حُنَيْنٍ وَبَرَةً مِنْ جَنْبِ بَعِيرٍ، فَقَالَ: " يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّهُ لا يَحِلُّ لِي مِمَّا أَفَائَ اللَّهُ عَلَيْكُمْ قَدْرُ هَذِهِ إِلا الْخُمُسُ، وَالْخُمُسُ مَرْدُودٌ عَلَيْكُمْ ".
٭قَالَ أَبُو عَبْدالرَّحْمَنِ: اسْمُ أَبِي سَلاَّمٍ مَمْطُورٌ - وَهُوَ حَبَشِيٌّ - وَاسْمُ أَبِي أُمَامَةَ صُدَيُّ بْنُ عَجْلانَ، وَاللَّهُ تَعَالَى أَعْلَمُ۔
* تخريج: تفرد بہ النسائي (تحفۃ الأشراف: ۵۰۹۲)، حم (۵/۳۱۶، ۳۱۸، ۳۱۹) (حسن صحیح)
۴۱۴۳- عبادہ بن صامت رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ غزوۂ حنین کے دن رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے اونٹ کی دم کا بال (ہاتھ میں) لے کر فرمایا: ''لوگو! جو اللہ تمہیں مال فیٔ کے طور پر دیتا ہے اس میں سے میرے لئے خمس(پانچواں حصہ) کے سوا اس کی مقدار کے برابر بھی حلال نہیں ہے، اور وہ خمس بھی تم ہی پر لوٹایا جاتا ہے''۔


4144- أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ يَزِيدَ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ أَنَّ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَتَى بَعِيرًا؛ فَأَخَذَ مِنْ سَنَامِهِ وَبَرَةً بَيْنَ إِصْبَعَيْهِ، ثُمَّ قَالَ: " إِنَّهُ لَيْسَ لِي مِنْ الْفَيْئِ شَيْئٌ، وَلا هَذِهِ إِلا الْخُمُسُ، وَالْخُمُسُ مَرْدُودٌ فِيكُمْ "۔
* تخريج: تفرد بہ النسائي (تحفۃ الأشراف: ۸۷۹۲) (حسن، صحیح)
۴۱۴۴- عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم ایک اونٹ کے پاس آئے اور اس کی کوہان سے اپنی دو انگلیوں کے درمیان ایک بال لیا پھر فرمایا: '' خمس (پانچویں حصے) کے علاوہ مالِ فیٔ میں سے میرا کچھ بھی حق نہیں اس بال کے برابر بھی نہیں اور خمس بھی تم ہی پر لوٹا دیا جاتا ہے''۔


4145- أَخْبَرَنَا عُبَيْدُاللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَمْرٍو - يَعْنِي ابْنَ دِينَارٍ- عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَوْسِ بْنِ الْحَدَثَانِ، عَنْ عُمَرَ؛ قَالَ: كَانَتْ أَمْوَالُ بَنِي النَّضِيرِ مِمَّا أَفَائَ اللَّهُ عَلَى رسولهِ مِمَّا لَمْ يُوجِفْ الْمُسْلِمُونَ عَلَيْهِ بِخَيْلٍ، وَلارِكَابٍ؛ فَكَانَ يُنْفِقُ عَلَى نَفْسِهِ مِنْهَا قُوتَ سَنَةٍ، وَمَا بَقِيَ جَعَلَهُ فِي الْكُرَاعِ، وَالسِّلاحِ عُدَّةً فِي سَبِيلِ اللَّهِ۔
* تخريج: خ/الجہاد ۸۰ (۲۹۰۴)، الخمس ۱ (۳۰۹۴)، المغازي ۱۴ (۴۰۳۳)، تفسیرسورۃ الحشر ۳ (۴۸۸۵)، النفقات ۳ (۵۳۵۷)، الفرائض ۳ (۶۷۲۸)، الاعتصام ۵ (۷۳۰۵)، م/الجہاد ۱۵ (۱۷۵۷)، د/الخراج ۱۹ (۲۹۶۵)، ت/السیر ۴۴ (۱۶۱۰)، الجہاد ۳۹ (۱۷۱۹)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۶۳۱)، حم (۱/۲۵، ۴۸) (صحیح)
۴۱۴۵- عمر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ بنی نضیر کا مالِ غنیمت مالِ فیٔ میں سے تھا جو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو عطا کیا یعنی مسلمانوں نے اس پر نہ گھوڑے دوڑائے اور نہ جنگ کی۔ آپ اسی میں سے سال بھر کا خرچ اپنے اوپر کرتے، جو بچ جاتا اسے گھوڑوں اور ہتھیار میں جہاد کی تیاری کے لئے صرف کرتے۔


4146- أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ يَحْيَى بْنِ الْحَارِثِ، قَالَ: حَدَّثَنَا مَحْبُوبٌ - يَعْنِي ابْنَ مُوسَى - قَالَ: أَنْبَأَنَا أَبُو إِسْحَاقَ - هُوَ الْفَزَارِيُّ - عَنْ شُعَيْبِ بْنِ أَبِي حَمْزَةَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ فَاطِمَةَ أَرْسَلَتْ إِلَى أَبِي بَكْرٍ تَسْأَلُهُ مِيرَاثَهَا مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ صَدَقَتِهِ، وَمِمَّا تَرَكَ مِنْ خُمُسِ خَيْبَرَ، قَالَ أَبُو بَكْرٍ: إِنَّ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: لا نُورَثُ۔
* تخريج: خ/الخمس ۱(۳۰۹۲)، فضائل الصحابۃ ۱۲ (۳۷۱۱)، المغازي ۱۴ (۴۰۳۵، ۴۰۳۶)، ۳۸ (۴۲۴۰، ۴۲۴۱)، الفرائض ۳ (۶۷۲۵)، م/الجہاد ۱۶ (۱۷۵۹)، د/الخراج ۱۹ (۲۹۶۸، ۲۹۶۹، ۲۹۷۰)، (تحفۃ الأشراف: ۶۶۳۰)، حم (۱/۴، ۶، ۹، ۱۰) (صحیح)
۴۱۴۶- ام المومنین عائشہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ فاطمہ رضی الله عنہا نے ابو بکر رضی الله عنہ کے پاس ایک آدمی بھیجا وہ ان سے نبی اکرم صلی للہ علیہ وسلم کے صدقے میں سے اپنا حصہ اور خیبر کے خمس (پانچویں حصے) میں سے اپنا حصہ مانگ رہی تھیں، ابوبکر رضی الله عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: '' ہمارا(یعنی انبیاء کا) کوئی وارث نہیں ہوتا''۔


4147- أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ يَحْيَى، قَالَ: حَدَّثَنَا مَحْبُوبٌ، قَالَ: أَنْبَأَنَا أَبُوإِسْحَاقَ، عَنْ زَائِدَةَ، عَنْ عَبْدِالْمَلِكِ بْنِ أَبِي سُلَيْمَانَ، عَنْ عَطَائٍ فِي قَوْلِهِ عَزَّ وَجَلَّ: { وَاعْلَمُوا أَنَّمَا غَنِمْتُمْ مِنْ شَيْئٍ فَأَنَّ لِلَّهِ خُمُسَهُ وَلِل رسول وَلِذِي الْقُرْبَى } قَالَ: خُمُسُ اللَّهِ، وَخُمُسُ رسولهِ وَاحِدٌ كَانَ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَحْمِلُ مِنْهُ، وَيُعْطِي مِنْهُ، وَيَضَعُهُ حَيْثُ شَائَ، وَيَصْنَعُ بِهِ مَا شَائَ۔
* تخريج: تفرد بہ النسائي (تحفۃ الأشراف: ۱۹۰۵۶) (صحیح الإسناد)
(سند صحیح ہے، لیکن متن مرسل ہے اس لئے کہ عطاء نے اسے نبی اکرم سے منسوب کر کے بیان کیا ہے، واسطہ میں صحابی کا ذکر نہیں کیا ہے)
۴۱۴۷- عطاء آیت کریمہ: { وَاعْلَمُوا أَنَّمَا غَنِمْتُمْ مِنْ شَيْئٍ فَأَنَّ لِلَّهِ خُمُسَهُ وَلِل رسول وَلِذِي الْقُرْبَى} ۱؎ کے سلسلے میں کہتے ہیں: اللہ کا خمس اور رسول کا خمس ایک ہی ہے، رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم اس سے لوگوں کو سواریاں دیتے، نقد دیتے، جہاں چاہتے خرچ کرتے اور جو چاہتے اس سے کرتے۔
وضاحت ۱؎: جان لو کہ تمہیں جو مالِ غنیمت ملا ہے اس کا خمس اللہ کے لئے اور رسول اور ذی القربی کے لئے ہے۔ (الأنفال: ۴۱)


4148- أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ يَحْيَى بْنِ الْحَارِثِ، قَالَ: حَدَّثَنَا مَحْبُوبٌ - يَعْنِي ابْنَ مُوسَى - قَالَ: أَنْبَأَنَا أَبُو إِسْحَاقَ - هُوَ الْفَزَارِيُّ - عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ قَيْسِ بْنِ مُسْلِمٍ، قَالَ: سَأَلْتُ الْحَسَنَ بْنَ مُحَمَّدٍ عَنْ قَوْلِهِ عَزَّ وَجَلَّ: { وَاعْلَمُوا أَنَّمَا غَنِمْتُمْ مِنْ شَيْئٍ فَأَنَّ لِلَّهِ خُمُسَهُ } قَالَ: هَذَا مَفَاتِحُ كَلامِ اللَّهِ الدُّنْيَا وَالآخِرَةُ لِلَّهِ، قَالَ: اخْتَلَفُوا فِي هَذَيْنِ السَّهْمَيْنِ بَعْدَ وَفَاةِ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَهْمِ ال رسول، وَسَهْمِ ذِي الْقُرْبَى؛ فَقَالَ قَائِلٌ: سَهْمُ ال رسول صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِلْخَلِيفَةِ، مِنْ بَعْدِهِ، وَقَالَ قَائِلٌ: سَهْمُ ذِي الْقُرْبَى لِقَرَابَةِ ال رسول صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَالَ قَائِلٌ: سَهْمُ ذِي الْقُرْبَى لِقَرَابَةِ الْخَلِيفَةِ، فَاجْتَمَعَ رَأْيُهُمْ عَلَى أَنْ جَعَلُوا هَذَيْنِ السَّهْمَيْنِ فِي الْخَيْلِ، وَالْعُدَّةِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ؛ فَكَانَا فِي ذَلِكَ خِلافَةَ أَبِي بَكْرٍ، وَعُمَرَ۔
* تخريج: تفرد بہ النسائي (تحفۃ الأشراف: ۱۸۵۷۹) (صحیح الإسناد مرسل)
۴۱۴۸- قیس بن مسلم کہتے ہیں کہ میں نے حسن بن محمد سے آیت کریمہ: { وَاعْلَمُوا أَنَّمَا غَنِمْتُمْ مِنْ شَيْئٍ فَأَنَّ لِلَّهِ خُمُسَهُ } کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا: یہ تو اللہ سے کلام کی ابتدا ہے جیسے کہا جاتا ہے ''دنیا اور آخرت اللہ کے لئے ہے''، انہوں نے کہا: ان دونوں حصوں ''یعنی رسول اور ذی القربی کے حصہ'' میں رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم کی موت کے بعد لوگوں میں اختلاف ہوا، تو کہنے والوں میں سے کسی نے کہا کہ رسول کا حصہ ان کے بعد خلیفہ کا ہوگا، ایک جماعت نے کہا کہ ذی القربی کا حصہ رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم کے رشتہ داروں کا ہوگا، دوسروں نے کہا: ذی القربی کا حصہ خلیفہ کے رشتہ داروں کا ہوگا۔ بالآخر ان کی رائیں اس پر متفق ہو گئیں کہ ان لوگوں نے ان دونوں حصوں کو گھوڑوں اور جہاد کی تیاری کے لئے طے کر دیا، یہ دونوں حصے ابوبکر اور عمر(رضی الله عنہما) کی خلافت کے زمانہ میں اسی کام کے لئے رہے۔


4149- أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ يَحْيَى بْنِ الْحَارِثِ، قَالَ: حَدَّثَنَا مَحْبُوبٌ، قَالَ: أَنْبَأَنَا أَبُوإِسْحَاقَ، عَنْ مُوسَى بْنِ أَبِي عَائِشَةَ، قَالَ: سَأَلْتُ يَحْيَى بْنَ الْجَزَّارِ عَنْ هَذِهِ الآيَةِ {وَاعْلَمُوا أَنَّمَا غَنِمْتُمْ مِنْ شَيْئٍ فَأَنَّ لِلَّهِ خُمُسَهُ وَلِل رسول} قَالَ: قُلْتُ: كَمْ كَانَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ الْخُمُسِ، قَالَ: خُمُسُ الْخُمُسِ۔
* تخريج: تفرد بہ النسائي (تحفۃ الأشراف: ۱۹۵۳۱) (صحیح الإسناد مرسل)
(سند صحیح ہے، لیکن رسول اکرم صلی للہ علیہ وسلم سے روایت کرنے والے صحابی کا تذکرہ سند میں نہیں ہے)
۴۱۴۹- موسیٰ بن ابی عائشہ کہتے ہیں کہ میں نے یحییٰ بن جزار سے اس آیت: { وَاعْلَمُوا أَنَّمَا غَنِمْتُمْ مِنْ شَيْئٍ فَأَنَّ لِلَّهِ خُمُسَهُ وَلِل رسول } کے بارے میں پوچھا، میں نے کہا: نبی اکرم صلی للہ علیہ وسلم کا خمس میں سے کتنا حصہ ہوتا تھا: انہوں نے کہا: خمس کا خمس ۱؎۔
وضاحت ۱؎: یعنی پانچویں حصے کا پانچواں حصہ، کیونکہ خمس کا اکثر حصہ تو آپ صلی للہ علیہ وسلم اسلامی کاموں میں خرچ کر دیتے تھے۔


4150- أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ يَحْيَى بْنِ الْحَارِثِ، قَالَ: حَدَّثَنَا مَحْبُوبٌ، قَالَ: أَنْبَأَنَا أَبُوإِسْحَاقَ، عَنْ مُطَرِّفٍ، قَالَ: سُئِلَ الشَّعْبِيُّ، عَنْ سَهْمِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَصَفِيِّهِ؛ فَقَالَ: أَمَّا سَهْمُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَكَسَهْمِ رَجُلٍ مِنْ الْمُسْلِمِينَ، وَأَمَّا سَهْمُ الصَّفِيِّ؛ فَغُرَّةٌ تُخْتَارُ مِنْ أَيِّ شَيْئٍ شَائَ۔
* تخريج: د/الخراج۲۱(۲۹۹۱)، تحفۃ الأشراف: ۱۸۸۶۸) (صحیح الإسناد مرسل)
(سند صحیح ہے، لیکن رسول اکرم صلی للہ علیہ وسلم سے روایت کرنے والے صحابی کا تذکرہ سند میں نہیں ہے)
۴۱۵۰- مطرف کہتے ہیں کہ عامر شعبی سے نبی اکرم صلی للہ علیہ وسلم کے حصے اور آپ کے صفی کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا: نبی اکرم صلی للہ علیہ وسلم کا حصہ ایک مسلمان شخص کے حصے کی طرح ہوتا تھا۔ رہا صفی ۱؎ کے حصے کا معاملہ تو آپ کو اختیار ہوتا کہ غلام، لونڈی اور گھوڑے وغیرہ میں سے جسے چاہیں لے لیں۔
وضاحت ۱؎: صفی مالِ غنیمت کے اُس حصے کو کہتے ہیں جسے حاکم تقسیم سے قبل اپنے لیے مقرر کر لے۔


4151- أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ يَحْيَى، قَالَ: حَدَّثَنَا مَحْبُوبٌ، قَالَ: أَنْبَأَنَا أَبُوإِسْحَاقَ، عَنْ سَعِيدٍ الْجُرَيْرِيِّ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ الشِّخِّيرِ قَالَ: بَيْنَا أَنَا مَعَ مُطَرِّفٍ بِالْمِرْبَدِ إِذْ دَخَلَ رَجُلٌ مَعَهُ قِطْعَةُ أَدَمٍ، قَالَ: كَتَبَ لِي هَذِهِ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَهَلْ أَحَدٌ مِنْكُمْ يَقْرَأُ قَالَ: قُلْتُ: أَنَا أَقْرَأُ فَإِذَا فِيهَا مِنْ مُحَمَّدٍ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِبَنِي زُهَيْرِ بْنِ أُقَيْشٍ أَنَّهُمْ إِنْ شَهِدُوا أَنْ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رسول اللَّهِ، وَفَارَقُوا الْمُشْرِكِينَ، وَأَقَرُّوا بِالْخُمُسِ فِي غَنَائِمِهِمْ، وَسَهْمِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَصَفِيِّهِ؛ فَإِنَّهُمْ آمِنُونَ بِأَمَانِ اللَّهِ وَ رسولهِ۔
* تخريج: د/الخراج ۲۱ (۲۹۹۹)، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۶۸۳)، حم (۵/۷۷، ۷۸، ۳۶۳) (صحیح الإسناد)
۴۱۵۱- یزید بن شخیر کہتے ہیں کہ میں مطرف کے ساتھ کھلیان میں تھا کہ اچانک ایک آدمی چمڑے کا ایک ٹکڑا لے کر آیا اور بولا: میرے لئے رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے یہ لکھا ہے، تو کیا تم میں سے کوئی اسے پڑھ سکتا ہے؟ انہوں نے کہا: میں پڑھوں گا، تو دیکھا کہ اس تحریر میں یہ تھا: '' اللہ کے نبی محمد صلی للہ علیہ وسلم کی طرف سے بنی زہیر بن اقیش کے لئے: اگر یہ لوگ ''لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ '' (اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور محمد اللہ کے رسول ہیں) کی گواہی دیں اور کفار ومشرکین کا ساتھ چھوڑ دیں اور اپنے مال غنیمت میں سے خمس، نبی کے حصے اور ان کے صفی کا اقرار کریں تو وہ اللہ اور اس کے رسول کی امان میں رہیں گے''۔


4152- أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ يَحْيَى بْنِ الْحَارِثِ، قَالَ: أَنْبَأَنَا مَحْبُوبٌ، قَالَ: أَنْبَأَنَا أَبُوإِسْحَاقَ، عَنْ شَرِيكٍ، عَنْ خُصَيْفٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ؛ قَالَ: الْخُمُسُ الَّذِي لِلَّهِ، وَلِل رسول كَانَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَرَابَتِهِ لايَأْكُلُونَ مِنْ الصَّدَقَةِ شَيْئًا؛ فَكَانَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خُمُسُ الْخُمُسِ، وَلِذِي قَرَابَتِهِ خُمُسُ الْخُمُسِ، وَلِلْيَتَامَى مِثْلُ ذَلِكَ، وَلِلْمَسَاكِينِ مِثْلُ ذَلِكَ، وَلابْنِ السَّبِيلِ مِثْلُ ذَلِكَ .
* تخريج: تفرد بہ النسائي (تحفۃ الأشراف: ۱۹۲۶۱) (ضعیف الإسناد مرسل)
(خصیف اور شریک حافظے کے ضعیف راوی ہیں، نیز مجاہد نے نبی اکرم ﷺ سے روایت میں صحابی کا ذکر نہیں کیا)
٭قَالَ أَبُوعَبْدالرَّحْمَنِ: قَالَ اللَّهُ جَلَّ ثَنَاؤُهُ: وَاعْلَمُوا أَنَّمَا غَنِمْتُمْ مِنْ شَيْئٍ، فَأَنَّ لِلَّهِ خُمُسَهُ، وَلِل رسول، وَلِذِي الْقُرْبَى، وَالْيَتَامَى، وَالْمَسَاكِينِ، وَابْنِ السَّبِيلِ، وَقَوْلُهُ عَزَّوَجَلَّ: لِلَّهِ ابْتِدَائُ كَلامٍ لأَنَّ الأَشْيَائَ كُلَّهَا لِلَّهِ عَزَّوَجَلَّ، وَلَعَلَّهُ إِنَّمَا اسْتَفْتَحَ الْكَلامَ فِي الْفَيْئِ، وَالْخُمُسِ بِذِكْرِ نَفْسِهِ لأَنَّهَا أَشْرَفُ الْكَسْبِ، وَلَمْ يَنْسِبِ الصَّدَقَةَ إِلَى نَفْسِهِ عَزَّوَجَلَّ لأَنَّهَا أَوْسَاخُ النَّاسِ، وَاللَّهُ تَعَالَى أَعْلَمُ، وَقَدْ قِيلَ يُؤْخَذُ مِنْ الْغَنِيمَةِ شَيْئٌ؛ فَيُجْعَلُ فِي الْكَعْبَةِ، وَهُوَ السَّهْمُ الَّذِي لِلَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، وَسَهْمُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الإِمَامِ يَشْتَرِي الْكُرَاعَ مِنْهُ، وَالسِّلاحَ، وَيُعْطِي مِنْهُ مَنْ رَأَى مِمَّنْ رَأَى فِيهِ غَنَائً، وَمَنْفَعَةً لأَهْلِ الإِسْلامِ، وَمِنْ أَهْلِ الْحَدِيثِ، وَالْعِلْمِ، وَالْفِقْهِ، وَالْقُرْآنِ، وَسَهْمٌ لِذِي الْقُرْبَى، وَهُمْ بَنُو هَاشِمٍ، وَبَنُوالْمُطَّلِبِ بَيْنَهُمْ الْغَنِيُّ مِنْهُمْ، وَالْفَقِيرُ، وَقَدْ قِيلَ إِنَّهُ لِلْفَقِيرِ مِنْهُمْ دُونَ الْغَنِيِّ كَالْيَتَامَى، وَابْنِ السَّبِيلِ - وَهُوَ أَشْبَهُ الْقَوْلَيْنِ بِالصَّوَابِ عِنْدِي - وَاللَّهُ تَعَالَى أَعْلَمُ، وَالصَّغِيرُ، وَالْكَبِيرُ، وَالذَّكَرُ، وَالأُنْثَى سَوَائٌ لأَنَّ اللَّهَ عَزَّوَجَلَّ جَعَلَ ذَلِكَ لَهُمْ، وَقَسَّمَهُ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيهِمْ وَلَيْسَ فِي الْحَدِيثِ أَنَّهُ فَضَّلَ بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ، وَلاخِلافَ نَعْلَمُهُ بَيْنَ الْعُلَمَائِ فِي رَجُلٍ لَوْ أَوْصَى بِثُلُثِهِ لِبَنِي فُلانٍ أَنَّهُ بَيْنَهُمْ، وَأَنَّ الذَّكَرَ وَالأُنْثَى فِيهِ سَوَائٌ، إِذَا كَانُوا يُحْصَوْنَ؛ فَهَكَذَا كُلُّ شَيْئٍ صُيِّرَ لِبَنِي فُلانٍ أَنَّهُ بَيْنَهُمْ بِالسَّوِيَّةِ إِلا أَنْ يُبَيِّنَ ذَلِكَ الآمِرُ بِهِ، وَاللَّهُ وَلِيُّ التَّوْفِيقِ، وَسَهْمٌ لِلْيَتَامَى مِنْ الْمُسْلِمِينَ، وَسَهْمٌ لِلْمَسَاكِينِ مِنْ الْمُسْلِمِينَ، وَسَهْمٌ لابْنِ السَّبِيلِ مِنْ الْمُسْلِمِينَ، وَلايُعْطَى أَحَدٌ مِنْهُمْ سَهْمُ مِسْكِينٍ، وَسَهْمُ ابْنِ السَّبِيلِ، وَقِيلَ لَهُ: خُذْ أَيَّهُمَا شِئْتَ وَالأَرْبَعَةُ أَخْمَاسٍ يَقْسِمُهَا الإِمَامُ بَيْنَ مَنْ حَضَرَ الْقِتَالَ مِنْ الْمُسْلِمِينَ الْبَالِغِينَ۔
۴۱۵۲- مجاہد کہتے ہیں: (قرآن میں) جو خمس اللہ اور رسول کے لئے آیا ہے، وہ نبی اکرم صلی للہ علیہ وسلم اور آپ کے رشتہ داروں کے لئے تھا، وہ لوگ صدقہ وزکاۃ کے مال سے نہیں کھاتے تھے، چنانچہ نبی اکرم صلی للہ علیہ وسلم کے لئے خمس کا خمس تھا اور رشتہ داروں کے خمس کا خمس اور اتنا ہی یتیموں کے لئے، اتنا ہی فقراء و مساکین کے لئے اور اتنا ہی مسافروں کے لئے۔
٭ابو عبدالرحمن(امام نسائی) کہتے ہیں: اللہ تعالی نے فرمایا: '' اور جان لو کہ جو کچھ تمہیں مالِ غنیمت سے ملے تو: اللہ کے لئے، رسول کے لئے، رشتہ داروں، یتیموں، مسکینوں اور مسافروں کے لئے اس کا خمس ہے، اللہ کے اس فرمان {وَاعْلَمُوا أَنَّمَا غَنِمْتُمْ مِنْ شَيْئٍ فَأَنَّ لِلَّهِ خُمُسَهُ وَلِل رسول وَلِذِي الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ } میں اللہ کا قول'' لِلَّهِ ''(یعنی اللہ کے لئے ہے) ابتدائے کلام کے طور پر ہے کیونکہ تمام چیزیں اللہ ہی کی ہیں اور مالِ فیٔ اور خمس کے سلسلے میں بات کی ابتداء بھی اس ''اپنے ذکر'' سے شاید اس لئے کی ہے کہ وہ سب سے اعلی درجے کی کمائی (روزی) ہے، اور صدقے کی اپنی طرف نسبت نہیں کی، اس لئے کہ وہ لوگوں کا میل (کچیل) ہے۔ واللہ اعلم۔
ایک قول یہ بھی ہے کہ غنیمت کا کچھ مال لے کر کعبے میں لگایا جائے گا اور یہی اللہ تعالیٰ کا حصہ ہے اور نبی کا حصہ امام کے لئے ہوگا جو اس سے گھوڑے اور ہتھیار خریدے گا، اور اسی میں سے وہ ایسے لوگوں کو دے گا جن کو وہ مسلمانوں کے لیے مفید سمجھے گا جیسے اہل حدیث، اہل علم، اہل فقہ، اور اہل قرآن کے لئے، اور ذی القربی کا حصہ بنو ہاشم اور بنو مطلب کا ہے، ان میں غنی (مال دار) اور فقیر سب برابر ہیں، ایک قول کے مطابق ان میں بھی غنی کے بجائے صرف فقیر کے لئے ہے جیسے یتیم، مسافر وغیرہ، دونوں اقوال میں مجھے یہی زیادہ صواب سے قریب معلوم ہوتا ہے، واللہ اعلم۔
اسی طرح چھوٹا، بڑا، مرد، عورت سب برابر ہوں گے، اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ ان سب کے لئے رکھا ہے اور رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے اسے انہی سب میں تقسیم کیا ہے، اور حدیث میں کہیں ایسا نہیں ہے کہ آپ نے ان میں سے ایک کو دوسرے پر ترجیح دی ہو، ہمیں اس سلسلے میں علماء کے درمیان کسی اختلاف کا بھی علم نہیں ہے کہ ایک شخص اگر کسی کی اولاد کے لئے ایک تہائی کی وصیت کرے تو وہ ان سب میں تقسیم ہوگا اور مرد و عورت اس سلسلے میں سب برابر ہوں گے جب وہ شمار کئے جائیں گے، اسی طرح سے ہر وہ چیز جو کسی کی اولاد کے لئے دی گئی ہو تو وہ ان میں برابر ہوگی، سوائے اس کے کہ اس چیز کا حکم کرنے والا اس کی وضاحت کر دے۔ واللہ ولی التوفیق۔
اور ایک حصہ مسلم یتیموں کے لئے اور ایک حصہ مسلم مساکین کے لئے اور ایک حصہ مسلم مسافروں کے لئے ہے۔ ان میں سے کسی کو مسکین کا حصہ اور مسافر کا حصہ نہیں دیا جائے گا، اور اس سے کہا جائے گا کہ ان (دو) میں سے جو چاہے لے لے اور بقیہ چار خمس کو امام ان بالغ مسلمانوں میں تقسیم کرے گا جو جنگ میں شریک ہوئے۔


4153- أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ - يَعْنِي ابْنَ إِبْرَاهِيمَ - عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ عِكْرِمَةَ بْنِ خَالِدٍ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَوْسِ بْنِ الْحَدَثَانِ، قَالَ جَائَ الْعَبَّاسُ، وَعَلِيٌّ إِلَى عُمَرَ يَخْتَصِمَانِ؛ فَقَالَ الْعَبَّاسُ: اقْضِ بَيْنِي وَبَيْنَ هَذَا؛ فَقَالَ النَّاسُ: افْصِلْ بَيْنَهُمَا فَقَالَ عُمَرُ لا افْصِلُ بَيْنَهُمَا قَدْ عَلِمَا أَنَّ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "لا نُورَثُ مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ، قَالَ: فَقَالَ الزُّهْرِيُّ: وَلِيَهَا رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخَذَ مِنْهَا قُوتَ أَهْلِهِ، وَجَعَلَ سَائِرَهُ سَبِيلَهُ سَبِيلَ الْمَالِ ثُمَّ وَلِيَهَا أَبُوبَكْرٍ بَعْدَهُ، ثُمَّ وُلِّيتُهَا بَعْدَ أَبِي بَكْرٍ؛ فَصَنَعْتُ فِيهَا الَّذِي كَانَ يَصْنَعُ ثُمَّ أَتَيَانِي؛ فَسَأَلانِي أَنْ أَدْفَعَهَا إِلَيْهِمَا عَلَى أَنْ يَلِيَاهَا بِالَّذِي وَلِيَهَا بِهِ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَالَّذِي وَلِيَهَا بِهِ أَبُو بَكْرٍ، وَالَّذِي وُلِّيتُهَا بِهِ فَدَفَعْتُهَا إِلَيْهِمَا، وَأَخَذْتُ عَلَى ذَلِكَ عُهُودَهُمَا ثُمَّ أَتَيَانِي يَقُولُ: هَذَا اقْسِمْ لِي بِنَصِيبِي مِنْ ابْنِ أَخِي، وَيَقُولُ: هَذَا اقْسِمْ لِي بِنَصِيبِي مِنْ امْرَأَتِي، وَإِنْ شَائَا أَنْ أَدْفَعَهَا إِلَيْهِمَا عَلَى أَنْ يَلِيَاهَا بِالَّذِي وَلِيَهَا بِهِ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَالَّذِي وَلِيَهَا بِهِ أَبُوبَكْرٍ، وَالَّذِي وُلِّيتُهَا بِهِ دَفَعْتُهَا إِلَيْهِمَا، وَإِنْ أَبَيَا كُفِيَا ذَلِكَ، ثُمَّ قَالَ: وَاعْلَمُوا أَنَّمَا غَنِمْتُمْ مِنْ شَيْئٍ؛ فَأَنَّ لِلَّهِ خُمُسَهُ، وَلِل رسول، وَلِذِي الْقُرْبَى، وَالْيَتَامَى، وَالْمَسَاكِينِ، وَابْنِ السَّبِيلِ هَذَا لِهَؤُلائِ {إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَائِ وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ} هَذِهِ لِهَؤُلائِ وَمَا أَفَائَ اللَّهُ عَلَى رسولهِ مِنْهُمْ فَمَا أَوْجَفْتُمْ عَلَيْهِ مِنْ خَيْلٍ، وَلارِكَابٍ.
قَالَ الزُّهْرِيُّ: هَذِهِ لِ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَاصَّةً قُرًى عَرَبِيَّةً فَدْكُ كَذَا وَكَذَا، فَمَا أَفَائَ اللَّهُ عَلَى رسولهِ مِنْ أَهْلِ الْقُرَى فَلِلَّهِ، وَلِل رسول، وَلِذِي الْقُرْبَى، وَالْيَتَامَى، وَالْمَسَاكِينِ، وَابْنِ السَّبِيلِ، { وَ لِلْفُقَرَائِ الْمُهَاجِرِينَ الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِنْ دِيَارِهِمْ وَأَمْوَالِهِمْ وَالَّذِينَ تَبَوَّؤا الدَّارَ وَالإِيمَانَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَالَّذِينَ جَاؤا مِنْ بَعْدِهِمْ } فَاسْتَوْعَبَتْ هَذِهِ الآيَةُ النَّاسَ؛ فَلَمْ يَبْقَ أَحَدٌ مِنْ الْمُسْلِمِينَ إِلا لَهُ فِي هَذَا الْمَالِ حَقٌّ أَوْ قَالَ: حَظٌّ إِلا بَعْضَ مَنْ تَمْلِكُونَ مِنْ أَرِقَّائِكُمْ وَلَئِنْ عِشْتُ إِنْ شَائَ اللَّهُ لَيَأْتِيَنَّ عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ حَقُّهُ أَوْ قَالَ حَظُّهُ۔
* تخريج: خ/فرض الخمس ۱ (۳۰۹۴)، المغازي ۱۴ (۴۰۳۳)، النفقات ۳ (۵۳۵۸)، الفرائض ۳ (۶۷۲۸) إعتصام ۵ (۷۳۰۵)، م/الجہاد ۵ (۱۷۵۷)، د/الخراج ۱۹ (۲۹۶۳)، ت/السیر ۴۴ (۱۶۱۰)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۶۳۳) (صحیح)
۴۱۵۳- مالک بن اوس بن حدثان کہتے ہیں کہ عباس اور علی رضی الله عنہما جھگڑتے ہوئے عمر رضی الله عنہ کے پاس آئے، عباس رضی الله عنہ نے کہا: میرے اور ان کے درمیان فیصلہ کیجیے، لوگوں نے کہا: ان دونوں کے درمیان فیصلہ فرما دیجئے، تو عمر رضی الله عنہ نے کہا: میں ان کے درمیان فیصلہ نہیں کر سکتا، انہیں معلوم ہے کہ رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: '' ہمارا ترکہ کسی کو نہیں ملتا، جو کچھ ہم چھوڑیں وہ صدقہ ہے''۔
راوی کہتے ہیں: زہری ۱؎ نے (آگے روایت کرتے ہوئے اس طرح) کہا: (عمر رضی الله عنہ نے کہا:) رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم (جب) اس مال کے ولی ونگراں رہے تو اس میں اپنے گھر والوں کے خرچ کے لئے لیتے اور باقی سارا اللہ کی راہ میں خرچ کرتے، پھر آپ کے بعد ابو بکر رضی الله عنہ متولی ہوئے اور ان کے بعد میں متولی ہوا، تو میں نے بھی اس میں وہی کیا جو ابوبکر کرتے تھے، پھر یہ دونوں میرے پاس آئے اور مجھ سے مطالبہ کیا کہ اسے میں ان کے حوالے کر دوں کہ وہ اس میں اس طرح عمل کریں گے جیسے رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم کرتے تھے اور جیسے ابو بکر رضی الله عنہ کرتے تھے اور جیسے تم کرتے ہو، چنانچہ میں نے اسے ان دونوں کو دے دیا اور اس پر ان سے اقرار لے لیا، پھر اب یہ میرے پاس آئے ہیں، یہ کہتے ہیں: میرے بھتیجے کی طرف سے میرا حصہ مجھے دلائیے ۲؎ اور وہ کہتے ہیں: مجھے میرا حصہ بیوی کی طرف سے دلائیے ۳؎، اگر انہیں منظور ہو کہ میں وہ مال ان کے سپرد کر دوں اس شرط پر کہ یہ دونوں اس میں اسی طرح عمل کریں گے جیسے رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے کیا اور جیسے میں نے کیا تو میں ان کے حوالے کرتا ہوں، اور اگر انہیں (یہ شرط) منظور نہ ہو تو وہ گھر میں بیٹھیں ۴؎، پھر عمر رضی الله عنہ نے یہ آیات پڑھیں: { وَاعْلَمُوا أَنَّمَا غَنِمْتُمْ مِنْ شَيْئٍ فَأَنَّ لِلَّهِ خُمُسَهُ وَلِل رسول وَلِذِي الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ } ۵؎۔
اور یہ ان لوگوں کے لئے ہے { إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَائِ وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ } ۶؎۔
اور یہ ان لوگوں کے لئے ہے ''{ وَمَا أَفَائَ اللَّهُ عَلَى رسولهِ مِنْهُمْ فَمَا أَوْجَفْتُمْ عَلَيْهِ مِنْ خَيْلٍ وَلا رِكَابٍ }۷؎۔
زہری کہتے ہیں کہ یہ رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم کے لئے خاص ہے اور وہ عربیہ کے چند گاؤں ہیں جیسے فدک وغیرہ۔
اور اسی طرح { فَمَا أَفَائَ اللَّهُ عَلَى رسولهِ مِنْ أَهْلِ الْقُرَى فَلِلَّهِ وَلِل رسول وَلِذِي الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ وَ لِلْفُقَرَائِ الْمُهَاجِرِينَ الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِنْ دِيَارِهِمْ وَأَمْوَالِهِمْ وَالَّذِينَ تَبَوَّؤا الدَّارَ وَالإِيمَانَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَالَّذِينَ جَاؤا مِنْ بَعْدِهِمْ }۸؎، اس آیت میں سبھی لوگ آگئے ہیں، اور کوئی مسلمان ایسا نہیں جس کا اس مال میں حق نہ ہو، یا یہ کہا: حصہ نہ ہو، سوائے چند لوگوں کے جنہیں تم اپنا غلام بناتے ہو اور اگر میں زندہ رہا تو ان شاء اللہ ہر ایک کو اس کا حق۔ یا کہا: اس کا نصیب مل کر رہے گا۔
وضاحت ۱؎: مالک بن اوس سے اس حدیث کو روایت کرنے والے ایک راوی زہری بھی ہیں، دیکھئے حدیث نمبر: ۴۱۴۵
وضاحت ۲؎: کیونکہ عباس رضی الله عنہ رسول اکرم صلی للہ علیہ وسلم کے چچا تھے۔
وضاحت ۳؎: کیونکہ علی رضی الله عنہ فاطمہ رضی الله عنہا کے شوہر تھے۔
وضاحت ۴؎: یعنی جس عہد و پیمان کے تحت یہ مال تمہیں دیا گیا ہے اسی پر اکتفا کرو مزید کسی مطالبہ کی قطعی ضرورت نہیں۔
وضاحت ۵؎: جان لو جو کچھ تمہیں غنیمت میں ملے تو اس کا خمس اللہ کے لئے ہے، رسول کے لئے، ذی القربی، یتیموں، مسکینوں اور مسافروں کے لئے ہے (الانفال: ۴۱)
وضاحت۶؎: صدقات فقرائ، مساکین، زکاۃ کا کام کرنے والے لوگوں، مؤلفۃالقلوب، غلاموں، قرض داروں اور مسافروں کے لئے ہیں (التوبۃ: ۶۰)
وضاحت۷؎: اور ان کی طرف سے جو اللہ اپنے رسول کو لوٹائے تو جس پر تم نے گھوڑے دوڑائے اور زین کسے(الحشر: ۶)
وضاحت ۸؎: جو اللہ گاؤں والوں کی طرف سے اپنے رسول پر لوٹائے تو وہ اللہ کے لئے رسول کے لئے اور ذی القربی، یتیموں، مسکینوں، مسافروں اور ان فقراء مہاجرین لوگوں کے لئے ہے جو اپنے گھروں اور اپنے اموال سے نکال دیے گئے اور جنہوں نے الدار(مدینہ) کو اپنا جائے قیام بنایا اور ایمان لائے اس سے پہلے اور اس کے بعد(الحشر: ۷-۱۰)

* * *​
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
38-كِتَابُ قَسْمِ الْفَيْئِ
۳۸- کتاب: مالِ فی ٔ ۱؎ کی تقسیم سے متعلق احکام و مسائل​


4138- أَخْبَرَنَا هَارُونُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ الْحَمَّالُ، قَالَ: حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ، عَنْ يُونُسَ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ هُرْمُزَ أَنَّ نَجْدَةَ الْحَرُورِيَّ حِينَ خَرَجَ فِي فِتْنَةِ ابْنِ الزُّبَيْرِ أَرْسَلَ إِلَى ابْنِ عَبَّاسٍ يَسْأَلُهُ عَنْ سَهْمِ ذِي الْقُرْبَى لِمَنْ تُرَاهُ، قَالَ: هُوَ لَنَا لِقُرْبَى رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَسَمَهُ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَهُمْ، وَقَدْ كَانَ عُمَرُ عَرَضَ عَلَيْنَا شَيْئًا رَأَيْنَاهُ دُونَ حَقِّنَا، فَأَبَيْنَا أَنْ نَقْبَلَهُ، وَكَانَ الَّذِي عَرَضَ عَلَيْهِمْ أَنْ يُعِينَ نَاكِحَهُمْ، وَيَقْضِيَ عَنْ غَارِمِهِمْ، وَيُعْطِيَ فَقِيرَهُمْ، وَأَبَى أَنْ يَزِيدَهُمْ عَلَى ذَلِكَ۔
* تخريج: م/الجہاد ۴۸ (۱۸۱۲)، د/الخراج۲۰(۲۹۸۲)، ت/السیر ۸ (۱۵۵۶)، (تحفۃ الأشراف: ۶۵۵۷)، حم (۱/۲۴۸، ۲۹۴، ۳۰۸، ۳۲۰، ۳۴۴، ۳۴۹، ۳۵۲)، دي/السیر ۳۲ (۲۵۱۴) (صحیح)
۴۱۳۸- یزید بن ہرمز سے روایت ہے کہ نجدہ حروری جب عبداللہ بن زبیر کے عہد میں شورش و ہنگامہ کے ایام میں (حج کے لئے) نکلا ۲؎ تو اس نے ابن عباس رضی الله عنہما کے پاس ایک شخص کو بھیجا کہ وہ ان سے معلوم کرے کہ(مال غنیمت میں سے) ذی القربی کا حصہ(اب) کس کو ملنا چاہئے ۳؎، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم سے قربت کے سبب وہ ہمارا ہے، رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے اسے انہیں قرابت والوں میں تقسیم کیا تھا، اور عمر رضی الله عنہ نے ہمیں ہمارے حق سے کچھ کم حصہ دیا تھا تو ہم نے اسے قبول نہیں کیا، اور جو بات انہوں نے جواز میں پیش کی وہ یہ تھی کہ وہ اس کے ذریعہ (رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم کے قرابت داروں کا) نکاح کرانے والوں کی مدد کریں گے، اور ان کے قرض داروں کا قرض ادا کیا جائے گا اور ان کے فقراء و مساکین کو دیا جائے گا، اور اس سے زائد دینے سے انکار کر دیا۔
وضاحت ۱؎: مال فئی اس مال کو کہتے ہیں جو مسلمانوں کو کفار سے جنگ وجدال کئے بغیر حاصل ہو، لیکن مؤلف نے اس میں فیٔ اور غنیمت دونوں سے متعلق احادیث ذکر کی ہیں، اور پہلی حدیث میں فیٔ کے ساتھ ساتھ '' غنیمت '' میں سے بھی رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم کے ذوی القربی کے حصے کی بابت سوال کیا گیا ہے۔
وضاحت۲؎: یہ اس وقت کی بات ہے جب کہ حجاج نے مکہ پر چڑھائی کر کے عبداللہ بن زبیر رضی الله عنہ کو قتل کیا تھا۔
وضاحت۳؎: رسول اکرم صلی للہ علیہ وسلم نے مال غنیمت سے ذوی القربی کا حصہ اپنے رشتہ داروں میں تقسیم کیا تھا، آپ کی وفات کے بعد سوال یہ پیدا ہوا کہ یہ حصہ '' رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم کے رشتہ داروں کا تھا یا امام وقت کے رشتہ داروں کا؟ '' ابن عباس رضی الله عنہما کا خیال تھا (نیز قرآن کا سیاق بھی اسی کی تائید کرتا ہے) کہ یہ رسول اکرم صلی للہ علیہ وسلم کے رشتہ داروں کا تھا اور اب بھی ہے اس لیے ہمیں ملنا چاہیے، جب کہ عمر رضی الله عنہ نے آپ کے رشتہ داروں کے ہاتھ میں نہ دے کر خود ہی آپ کے رشتہ داروں کی ضروریات میں خرچ کیا، ابوبکر اور عمر رضی الله عنہما کا موقف بھی یہی تھا کہ امام وقت ہی اس خمس (غنیمت کے پانچویں حصہ) کو رسول اکرم صلی للہ علیہ وسلم کے رشتہ داروں میں خرچ کرے گا۔


4139- أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَزِيدُ - وَهُوَ ابْنُ هَارُونَ - قَالَ: أَنْبَأَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، وَمُحَمَّدُ بْنُ عَلِيٍّ عَنْ يَزِيدَ بْنِ هُرْمُزَ قَالَ: كَتَبَ نَجْدَةُ إِلَى ابْنِ عَبَّاسٍ يَسْأَلُهُ عَنْ سَهْمِ ذِي الْقُرْبَى، لِمَنْ هُوَ؟ قَالَ يَزِيدُ بْنُ هُرْمُزَ: وَأَنَا كَتَبْتُ كِتَابَ ابْنِ عَبَّاسٍ إِلَى نَجْدَةَ كَتَبْتُ إِلَيْهِ كَتَبْتَ تَسْأَلُنِي عَنْ سَهْمِ ذِي الْقُرْبَى، لِمَنْ هُوَ؟ وَهُوَ لَنَا أَهْلَ الْبَيْتِ، وَقَدْ كَانَ عُمَرُ دَعَانَا إِلَى أَنْ يُنْكِحَ مِنْهُ أَيِّمَنَا، وَيُحْذِيَ مِنْهُ عَائِلَنَا، وَيَقْضِيَ مِنْهُ عَنْ غَارِمِنَا؛ فَأَبَيْنَا إِلا أَنْ يُسَلِّمَهُ لَنَا، وَأَبَى ذَلِكَ؛ فَتَرَكْنَاهُ عَلَيْهِ۔
* تخريج: انظر ما قبلہ (صحیح)
۴۱۳۹- یزید بن ہرمز کہتے ہیں کہ نجدہ نے ابن عباس رضی الله عنہما کو یہ سوال لکھا کہ (نبی اکرم صلی للہ علیہ وسلم کے) رشتہ داروں کا حصہ (آپ کے بعد) کس کا ہے؟ نجدہ کے پاس ابن عباس رضی الله عنہما کا جواب میں نے ہی لکھ کر بھیجا، میں نے لکھا کہ تم نے یہ سوال مجھے لکھ کر بھیجا ہے کہ (نبی کے) رشتہ داروں کا حصہ کس کا ہے؟ وہ ہم اہل بیت کا ہے۔ البتہ عمر رضی الله عنہ نے ہم سے کہا کہ وہ اس مال سے ہماری بیواؤں کا نکاح کرائیں گے، اس کو ہمارے فقراء ومساکین پر خرچ کریں گے اور ہمارے قرض داروں کا قرض ادا کریں گے، لیکن ہم اصرار کرتے رہے کہ وہ ہم ہی کو دیا جائے، تو انہوں نے اس سے انکار کیا، لہٰذا ہم نے اسے انہیں پر چھوڑ دیا۔


4140- أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ يَحْيَى، قَالَ: حَدَّثَنَا مَحْبُوبٌ - يَعْنِي: ابْنَ مُوسَى- قَالَ: أَنْبَأَنَا أَبُو إِسْحَاقَ - وَهُوَ الْفَزَارِيُّ - عَنِ الأَوْزَاعِيِّ، قَالَ: كَتَبَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِالْعَزِيزِ إِلَى عُمَرَ بْنِ الْوَلِيدِ كِتَابًا فِيهِ، وَقَسْمُ أَبِيكَ لَكَ الْخُمُسُ كُلُّهُ، وَإِنَّمَا سَهْمُ أَبِيكَ كَسَهْمِ رَجُلٍ مِنْ الْمُسْلِمِينَ، وَفِيهِ حَقُّ اللَّهِ، وَحَقُّ ال رسول، وَذِي الْقُرْبَى، وَالْيَتَامَى، وَالْمَسَاكِينِ، وَابْنِ السَّبِيلِ؛ فَمَا أَكْثَرَ خُصَمَائَ أَبِيكَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ؛ فَكَيْفَ يَنْجُو مَنْ كَثُرَتْ خُصَمَاؤُهُ، وَإِظْهَارُكَ الْمَعَازِفَ، وَالْمِزْمَارَ بِدْعَةٌ فِي الإِسْلامِ، وَلَقَدْ هَمَمْتُ أَنْ أَبْعَثَ إِلَيْكَ مَنْ يَجُزُّ جُمَّتَكَ جُمَّةَ السُّوئِ۔
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (صحیح الإسناد)
۴۱۴۰- اوزاعی کہتے ہیں کہ عمر بن عبدالعزیز نے عمر بن ولید کو ایک خط لکھا: تمہارے باپ نے تقسیم کر کے پورا خمس (پانچواں حصہ) تمہیں دے دیا، حالانکہ تمہارے باپ کا حصہ ایک عام مسلمان کے حصے کی طرح ہے، اس میں اللہ کا حق ہے اور رسول، ذی القربی، یتیموں، مسکینوں اور مسافروں کا حق ہے۔ تو قیامت کے دن تمہارے باپ سے جھگڑنے والے اور دعوے دار کس قدر زیادہ ہوں گے، اور جس شخص پر دعوے دار اتنی کثرت سے ہوں گے وہ کیسے نجات پائے گا؟ اور جو تم نے باجے اور بانسری کو رواج دیا ہے تو یہ سب اسلام میں بدعت ہیں، میں نے ارادہ کیا تھا کہ میں تمہارے پاس ایسے شخص کو بھیجوں جو تمہارے بڑے بڑے اور برے لٹکتے بالوں کو کاٹ ڈالے ۱؎۔
وضاحت ۱؎: جمہ ایسے بالوں کو کہتے ہیں جو گردن تک لٹکتے ہیں، اس طرح کا بال رکھنا مکروہ نہیں ہے، عمر بن عبدالعزیز نے اس لئے ایسا کہا کیونکہ عمر بن الولید اپنے انہیں بالوں کی وجہ سے گھمنڈ میں مبتلا رہتا تھا۔


4141- أَخْبَرَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عَبْدِالْحَكَمِ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعَيْبُ بْنُ يَحْيَى، قَالَ: حَدَّثَنَا نَافِعُ بْنُ يَزِيدَ، عَنْ يُونُسَ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيَّبِ أَنَّ جُبَيْرَ بْنَ مُطْعِمٍ حَدَّثَهُ أَنَّهُ جَائَ هُوَ وَعُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُكَلِّمَانِهِ فِيمَا قَسَمَ مِنْ خُمُسِ حُنَيْنٍ بَيْنَ بَنِي هَاشِمٍ، وَبَنِي الْمُطَّلِبِ بْنِ عَبْدِ مَنَافٍ؛ فَقَالا: يَا رسول اللَّهِ! قَسَمْتَ لإِخْوَانِنَا بَنِي الْمُطَّلِبِ بْنِ عَبْدِ مَنَافٍ، وَلَمْ تُعْطِنَا شَيْئًا، وَقَرَابَتُنَا مِثْلُ قَرَابَتِهِمْ؛ فَقَالَ لَهُمَا رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّمَا أَرَى هَاشِمًا، وَالْمُطَّلِبَ شَيْئًا وَاحِدًا " قَالَ جُبَيْرُ بْنُ مُطْعِمٍ: وَلَمْ يَقْسِمْ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِبَنِي عَبْدِ شَمْسٍ، وَلالِبَنِي نَوْفَلٍ مِنْ ذَلِكَ الْخُمُسِ شَيْئًا كَمَا قَسَمَ لِبَنِي هَاشِمٍ، وَبَنِي الْمُطَّلِبِ۔
* تخريج: خ/الخمس ۱۷ (۳۱۴۰)، المناقب ۲ (۳۵۰۲)، المغازي ۳۸ (۴۲۲۹)، د/الخراج ۲۰ (۲۹۷۹، ۲۹۸۰)، ق/الجہاد ۴۶ (۲۸۸۱)، (تحفۃ الأشراف: ۳۱۸۵)، حم (۴/۸۱، ۸۳، ۸۵) (صحیح)
۴۱۴۱- جبیر بن مطعم رضی الله عنہ بیان کرتے ہیں کہ وہ اور عثمان بن عفان رضی الله عنہ رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم کے پاس غزوۂ حنین کے اس خمس ۱؎ کے سلسلے میں آپ سے گفتگو کرنے آئے جسے آپ نے بنی ہاشم اور بنی مطلب بن عبد مناف کے درمیان تقسیم کر دیا تھا، انہوں نے کہا کہ اللہ کے رسول! آپ نے ہمارے بھائی بنی مطلب بن عبد مناف میں مال فیٔ بانٹ دیا اور ہمیں کچھ نہ دیا، حالانکہ ہمارا رشتہ انہی لوگوں کے رشتہ کی طرح ہے، رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: '' میں تو ہاشم اور مطلب کو ایک ہی سمجھتا ہوں ''، لیکن رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے اس خمس میں سے بنی عبد شمس کو کچھ نہ دیا اور نہ ہی بنی نوفل کو جیسا کہ بنی ہاشم اور بنی مطلب کو دیا ۲؎۔
وضاحت ۱؎: دونوں اس خمس کے بارے میں بات چیت کرنے آئے تھے جو ذوی القربیٰ کا حصہ ہے۔
وضاحت۲؎: جبیر بن مطعم اور عثمان رضی الله عنہما کو اعتراض بنو ہاشم کو دینے پر نہیں تھا کیوں کہ نبی اکرم صلی للہ علیہ وسلم سے ان کا تعلق سب کو معلوم تھا، انہیں اعتراض بنو مطلب کو دیکر بنو عبد مناف کو نہ دینے پر تھا کہ بنو ہاشم کے سوا سب سے آپ صلی للہ علیہ وسلم سے قرابت برابر تھی تو ایک کو دینا اور دوسرے کو نہ دینا؟ اور آپ صلی للہ علیہ وسلم کے جواب کا حاصل یہ تھا کہ بنو مطلب نے بھی بنو ہاشم کی طرح آپ کا زمانۂ جاہلیت میں بھی ساتھ دیا تھا، جبکہ بنو عبد مناف نے دشمن کا رول ادا کیا تھا۔ (دیکھئے اگلی حدیث)


4142- أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، قَالَ: حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ، عَنْ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ قَالَ: لَمَّا قَسَمَ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَهْمَ ذِي الْقُرْبَى بَيْنَ بَنِي هَاشِمٍ، وَبَنِي الْمُطَّلِبِ أَتَيْتُهُ أَنَا، وَعُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ؛ فَقُلْنَا: يَا رسول اللَّهِ! هَؤُلائِ بَنُوهَاشِمٍ لا نُنْكِرُ فَضْلَهُمْ لِمَكَانِكَ الَّذِي جَعَلَكَ اللَّهُ بِهِ مِنْهُمْ أَرَأَيْتَ بَنِي الْمُطَّلِبِ أَعْطَيْتَهُمْ، وَمَنَعْتَنَا؛ فَإِنَّمَا نَحْنُ وَهُمْ مِنْكَ بِمَنْزِلَةٍ؛ فَقَالَ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِنَّهُمْ لَمْ يُفَارِقُونِي فِي جَاهِلِيَّةٍ، وَلا اسْلامٍ إِنَّمَا بَنُو هَاشِمٍ، وَبَنُو الْمُطَّلِبِ شَيْئٌ وَاحِدٌ، وَشَبَّكَ بَيْنَ أَصَابِعِهِ"۔
* تخريج: انظر ما قبلہ (صحیح)
۴۱۴۲- جبیر بن مطعم رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے ذی القربی کا حصہ بنی ہاشم اور بنی مطلب میں تقسیم کیا تو میں اور عثمان بن عفان رضی الله عنہ آپ کے پاس آئے، ہم نے عرض کیا: اللہ کے رسول! یہ بنی ہاشم ہیں، آپ کے مقام کی وجہ سے ان کی فضیلت کا انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اللہ تعالیٰ نے اس مرتبے کے ساتھ آپ کو ان میں سے بنایا ہے، لیکن بنی مطلب کے بارے میں کیا خیال ہے؟ آپ نے انہیں دیا اور ہمیں نہیں دیا۔ حالانکہ آپ کے لئے ہم اور وہ ایک ہی درجے کے ہیں، رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے فرمایا: '' انہوں نے مجھے نہ زمانۂ جاہلیت میں چھوڑا اور نہ اسلام میں، بنو ہاشم اور بنو مطلب تو ایک ہی چیز ہیں ''، اور آپ نے اپنے ہاتھوں کی انگلیاں ایک دوسرے کے اندر ڈالیں۔


4143- أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ يَحْيَى بْنِ الْحَارِثِ، قَالَ: حَدَّثَنَا مَحْبُوبٌ - يَعْنِي: ابْنَ مُوسَى- قَالَ: أَنْبَأَنَا أَبُوإِسْحَاقَ - وَهُوَ الْفَزَارِيُّ - عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ عَيَّاشٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ مُوسَى، عَنْ مَكْحُولٍ، عَنْ أَبِي سَلاَّمٍ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ الْبَاهِلِيِّ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ قَالَ: أَخَذَ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ حُنَيْنٍ وَبَرَةً مِنْ جَنْبِ بَعِيرٍ، فَقَالَ: " يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّهُ لا يَحِلُّ لِي مِمَّا أَفَائَ اللَّهُ عَلَيْكُمْ قَدْرُ هَذِهِ إِلا الْخُمُسُ، وَالْخُمُسُ مَرْدُودٌ عَلَيْكُمْ ".
٭قَالَ أَبُو عَبْدالرَّحْمَنِ: اسْمُ أَبِي سَلاَّمٍ مَمْطُورٌ - وَهُوَ حَبَشِيٌّ - وَاسْمُ أَبِي أُمَامَةَ صُدَيُّ بْنُ عَجْلانَ، وَاللَّهُ تَعَالَى أَعْلَمُ۔
* تخريج: تفرد بہ النسائي (تحفۃ الأشراف: ۵۰۹۲)، حم (۵/۳۱۶، ۳۱۸، ۳۱۹) (حسن صحیح)
۴۱۴۳- عبادہ بن صامت رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ غزوۂ حنین کے دن رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے اونٹ کی دم کا بال (ہاتھ میں) لے کر فرمایا: ''لوگو! جو اللہ تمہیں مال فیٔ کے طور پر دیتا ہے اس میں سے میرے لئے خمس(پانچواں حصہ) کے سوا اس کی مقدار کے برابر بھی حلال نہیں ہے، اور وہ خمس بھی تم ہی پر لوٹایا جاتا ہے''۔


4144- أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ يَزِيدَ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ أَنَّ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَتَى بَعِيرًا؛ فَأَخَذَ مِنْ سَنَامِهِ وَبَرَةً بَيْنَ إِصْبَعَيْهِ، ثُمَّ قَالَ: " إِنَّهُ لَيْسَ لِي مِنْ الْفَيْئِ شَيْئٌ، وَلا هَذِهِ إِلا الْخُمُسُ، وَالْخُمُسُ مَرْدُودٌ فِيكُمْ "۔
* تخريج: تفرد بہ النسائي (تحفۃ الأشراف: ۸۷۹۲) (حسن، صحیح)
۴۱۴۴- عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم ایک اونٹ کے پاس آئے اور اس کی کوہان سے اپنی دو انگلیوں کے درمیان ایک بال لیا پھر فرمایا: '' خمس (پانچویں حصے) کے علاوہ مالِ فیٔ میں سے میرا کچھ بھی حق نہیں اس بال کے برابر بھی نہیں اور خمس بھی تم ہی پر لوٹا دیا جاتا ہے''۔


4145- أَخْبَرَنَا عُبَيْدُاللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَمْرٍو - يَعْنِي ابْنَ دِينَارٍ- عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَوْسِ بْنِ الْحَدَثَانِ، عَنْ عُمَرَ؛ قَالَ: كَانَتْ أَمْوَالُ بَنِي النَّضِيرِ مِمَّا أَفَائَ اللَّهُ عَلَى رسولهِ مِمَّا لَمْ يُوجِفْ الْمُسْلِمُونَ عَلَيْهِ بِخَيْلٍ، وَلارِكَابٍ؛ فَكَانَ يُنْفِقُ عَلَى نَفْسِهِ مِنْهَا قُوتَ سَنَةٍ، وَمَا بَقِيَ جَعَلَهُ فِي الْكُرَاعِ، وَالسِّلاحِ عُدَّةً فِي سَبِيلِ اللَّهِ۔
* تخريج: خ/الجہاد ۸۰ (۲۹۰۴)، الخمس ۱ (۳۰۹۴)، المغازي ۱۴ (۴۰۳۳)، تفسیرسورۃ الحشر ۳ (۴۸۸۵)، النفقات ۳ (۵۳۵۷)، الفرائض ۳ (۶۷۲۸)، الاعتصام ۵ (۷۳۰۵)، م/الجہاد ۱۵ (۱۷۵۷)، د/الخراج ۱۹ (۲۹۶۵)، ت/السیر ۴۴ (۱۶۱۰)، الجہاد ۳۹ (۱۷۱۹)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۶۳۱)، حم (۱/۲۵، ۴۸) (صحیح)
۴۱۴۵- عمر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ بنی نضیر کا مالِ غنیمت مالِ فیٔ میں سے تھا جو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو عطا کیا یعنی مسلمانوں نے اس پر نہ گھوڑے دوڑائے اور نہ جنگ کی۔ آپ اسی میں سے سال بھر کا خرچ اپنے اوپر کرتے، جو بچ جاتا اسے گھوڑوں اور ہتھیار میں جہاد کی تیاری کے لئے صرف کرتے۔


4146- أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ يَحْيَى بْنِ الْحَارِثِ، قَالَ: حَدَّثَنَا مَحْبُوبٌ - يَعْنِي ابْنَ مُوسَى - قَالَ: أَنْبَأَنَا أَبُو إِسْحَاقَ - هُوَ الْفَزَارِيُّ - عَنْ شُعَيْبِ بْنِ أَبِي حَمْزَةَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ فَاطِمَةَ أَرْسَلَتْ إِلَى أَبِي بَكْرٍ تَسْأَلُهُ مِيرَاثَهَا مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ صَدَقَتِهِ، وَمِمَّا تَرَكَ مِنْ خُمُسِ خَيْبَرَ، قَالَ أَبُو بَكْرٍ: إِنَّ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: لا نُورَثُ۔
* تخريج: خ/الخمس ۱(۳۰۹۲)، فضائل الصحابۃ ۱۲ (۳۷۱۱)، المغازي ۱۴ (۴۰۳۵، ۴۰۳۶)، ۳۸ (۴۲۴۰، ۴۲۴۱)، الفرائض ۳ (۶۷۲۵)، م/الجہاد ۱۶ (۱۷۵۹)، د/الخراج ۱۹ (۲۹۶۸، ۲۹۶۹، ۲۹۷۰)، (تحفۃ الأشراف: ۶۶۳۰)، حم (۱/۴، ۶، ۹، ۱۰) (صحیح)
۴۱۴۶- ام المومنین عائشہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ فاطمہ رضی الله عنہا نے ابو بکر رضی الله عنہ کے پاس ایک آدمی بھیجا وہ ان سے نبی اکرم صلی للہ علیہ وسلم کے صدقے میں سے اپنا حصہ اور خیبر کے خمس (پانچویں حصے) میں سے اپنا حصہ مانگ رہی تھیں، ابوبکر رضی الله عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: '' ہمارا(یعنی انبیاء کا) کوئی وارث نہیں ہوتا''۔


4147- أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ يَحْيَى، قَالَ: حَدَّثَنَا مَحْبُوبٌ، قَالَ: أَنْبَأَنَا أَبُوإِسْحَاقَ، عَنْ زَائِدَةَ، عَنْ عَبْدِالْمَلِكِ بْنِ أَبِي سُلَيْمَانَ، عَنْ عَطَائٍ فِي قَوْلِهِ عَزَّ وَجَلَّ: { وَاعْلَمُوا أَنَّمَا غَنِمْتُمْ مِنْ شَيْئٍ فَأَنَّ لِلَّهِ خُمُسَهُ وَلِل رسول وَلِذِي الْقُرْبَى } قَالَ: خُمُسُ اللَّهِ، وَخُمُسُ رسولهِ وَاحِدٌ كَانَ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَحْمِلُ مِنْهُ، وَيُعْطِي مِنْهُ، وَيَضَعُهُ حَيْثُ شَائَ، وَيَصْنَعُ بِهِ مَا شَائَ۔
* تخريج: تفرد بہ النسائي (تحفۃ الأشراف: ۱۹۰۵۶) (صحیح الإسناد)
(سند صحیح ہے، لیکن متن مرسل ہے اس لئے کہ عطاء نے اسے نبی اکرم سے منسوب کر کے بیان کیا ہے، واسطہ میں صحابی کا ذکر نہیں کیا ہے)
۴۱۴۷- عطاء آیت کریمہ: { وَاعْلَمُوا أَنَّمَا غَنِمْتُمْ مِنْ شَيْئٍ فَأَنَّ لِلَّهِ خُمُسَهُ وَلِل رسول وَلِذِي الْقُرْبَى} ۱؎ کے سلسلے میں کہتے ہیں: اللہ کا خمس اور رسول کا خمس ایک ہی ہے، رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم اس سے لوگوں کو سواریاں دیتے، نقد دیتے، جہاں چاہتے خرچ کرتے اور جو چاہتے اس سے کرتے۔
وضاحت ۱؎: جان لو کہ تمہیں جو مالِ غنیمت ملا ہے اس کا خمس اللہ کے لئے اور رسول اور ذی القربی کے لئے ہے۔ (الأنفال: ۴۱)


4148- أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ يَحْيَى بْنِ الْحَارِثِ، قَالَ: حَدَّثَنَا مَحْبُوبٌ - يَعْنِي ابْنَ مُوسَى - قَالَ: أَنْبَأَنَا أَبُو إِسْحَاقَ - هُوَ الْفَزَارِيُّ - عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ قَيْسِ بْنِ مُسْلِمٍ، قَالَ: سَأَلْتُ الْحَسَنَ بْنَ مُحَمَّدٍ عَنْ قَوْلِهِ عَزَّ وَجَلَّ: { وَاعْلَمُوا أَنَّمَا غَنِمْتُمْ مِنْ شَيْئٍ فَأَنَّ لِلَّهِ خُمُسَهُ } قَالَ: هَذَا مَفَاتِحُ كَلامِ اللَّهِ الدُّنْيَا وَالآخِرَةُ لِلَّهِ، قَالَ: اخْتَلَفُوا فِي هَذَيْنِ السَّهْمَيْنِ بَعْدَ وَفَاةِ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَهْمِ ال رسول، وَسَهْمِ ذِي الْقُرْبَى؛ فَقَالَ قَائِلٌ: سَهْمُ ال رسول صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِلْخَلِيفَةِ، مِنْ بَعْدِهِ، وَقَالَ قَائِلٌ: سَهْمُ ذِي الْقُرْبَى لِقَرَابَةِ ال رسول صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَالَ قَائِلٌ: سَهْمُ ذِي الْقُرْبَى لِقَرَابَةِ الْخَلِيفَةِ، فَاجْتَمَعَ رَأْيُهُمْ عَلَى أَنْ جَعَلُوا هَذَيْنِ السَّهْمَيْنِ فِي الْخَيْلِ، وَالْعُدَّةِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ؛ فَكَانَا فِي ذَلِكَ خِلافَةَ أَبِي بَكْرٍ، وَعُمَرَ۔
* تخريج: تفرد بہ النسائي (تحفۃ الأشراف: ۱۸۵۷۹) (صحیح الإسناد مرسل)
۴۱۴۸- قیس بن مسلم کہتے ہیں کہ میں نے حسن بن محمد سے آیت کریمہ: { وَاعْلَمُوا أَنَّمَا غَنِمْتُمْ مِنْ شَيْئٍ فَأَنَّ لِلَّهِ خُمُسَهُ } کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا: یہ تو اللہ سے کلام کی ابتدا ہے جیسے کہا جاتا ہے ''دنیا اور آخرت اللہ کے لئے ہے''، انہوں نے کہا: ان دونوں حصوں ''یعنی رسول اور ذی القربی کے حصہ'' میں رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم کی موت کے بعد لوگوں میں اختلاف ہوا، تو کہنے والوں میں سے کسی نے کہا کہ رسول کا حصہ ان کے بعد خلیفہ کا ہوگا، ایک جماعت نے کہا کہ ذی القربی کا حصہ رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم کے رشتہ داروں کا ہوگا، دوسروں نے کہا: ذی القربی کا حصہ خلیفہ کے رشتہ داروں کا ہوگا۔ بالآخر ان کی رائیں اس پر متفق ہو گئیں کہ ان لوگوں نے ان دونوں حصوں کو گھوڑوں اور جہاد کی تیاری کے لئے طے کر دیا، یہ دونوں حصے ابوبکر اور عمر(رضی الله عنہما) کی خلافت کے زمانہ میں اسی کام کے لئے رہے۔


4149- أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ يَحْيَى بْنِ الْحَارِثِ، قَالَ: حَدَّثَنَا مَحْبُوبٌ، قَالَ: أَنْبَأَنَا أَبُوإِسْحَاقَ، عَنْ مُوسَى بْنِ أَبِي عَائِشَةَ، قَالَ: سَأَلْتُ يَحْيَى بْنَ الْجَزَّارِ عَنْ هَذِهِ الآيَةِ {وَاعْلَمُوا أَنَّمَا غَنِمْتُمْ مِنْ شَيْئٍ فَأَنَّ لِلَّهِ خُمُسَهُ وَلِل رسول} قَالَ: قُلْتُ: كَمْ كَانَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ الْخُمُسِ، قَالَ: خُمُسُ الْخُمُسِ۔
* تخريج: تفرد بہ النسائي (تحفۃ الأشراف: ۱۹۵۳۱) (صحیح الإسناد مرسل)
(سند صحیح ہے، لیکن رسول اکرم صلی للہ علیہ وسلم سے روایت کرنے والے صحابی کا تذکرہ سند میں نہیں ہے)
۴۱۴۹- موسیٰ بن ابی عائشہ کہتے ہیں کہ میں نے یحییٰ بن جزار سے اس آیت: { وَاعْلَمُوا أَنَّمَا غَنِمْتُمْ مِنْ شَيْئٍ فَأَنَّ لِلَّهِ خُمُسَهُ وَلِل رسول } کے بارے میں پوچھا، میں نے کہا: نبی اکرم صلی للہ علیہ وسلم کا خمس میں سے کتنا حصہ ہوتا تھا: انہوں نے کہا: خمس کا خمس ۱؎۔
وضاحت ۱؎: یعنی پانچویں حصے کا پانچواں حصہ، کیونکہ خمس کا اکثر حصہ تو آپ صلی للہ علیہ وسلم اسلامی کاموں میں خرچ کر دیتے تھے۔


4150- أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ يَحْيَى بْنِ الْحَارِثِ، قَالَ: حَدَّثَنَا مَحْبُوبٌ، قَالَ: أَنْبَأَنَا أَبُوإِسْحَاقَ، عَنْ مُطَرِّفٍ، قَالَ: سُئِلَ الشَّعْبِيُّ، عَنْ سَهْمِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَصَفِيِّهِ؛ فَقَالَ: أَمَّا سَهْمُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَكَسَهْمِ رَجُلٍ مِنْ الْمُسْلِمِينَ، وَأَمَّا سَهْمُ الصَّفِيِّ؛ فَغُرَّةٌ تُخْتَارُ مِنْ أَيِّ شَيْئٍ شَائَ۔
* تخريج: د/الخراج۲۱(۲۹۹۱)، تحفۃ الأشراف: ۱۸۸۶۸) (صحیح الإسناد مرسل)
(سند صحیح ہے، لیکن رسول اکرم صلی للہ علیہ وسلم سے روایت کرنے والے صحابی کا تذکرہ سند میں نہیں ہے)
۴۱۵۰- مطرف کہتے ہیں کہ عامر شعبی سے نبی اکرم صلی للہ علیہ وسلم کے حصے اور آپ کے صفی کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا: نبی اکرم صلی للہ علیہ وسلم کا حصہ ایک مسلمان شخص کے حصے کی طرح ہوتا تھا۔ رہا صفی ۱؎ کے حصے کا معاملہ تو آپ کو اختیار ہوتا کہ غلام، لونڈی اور گھوڑے وغیرہ میں سے جسے چاہیں لے لیں۔
وضاحت ۱؎: صفی مالِ غنیمت کے اُس حصے کو کہتے ہیں جسے حاکم تقسیم سے قبل اپنے لیے مقرر کر لے۔


4151- أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ يَحْيَى، قَالَ: حَدَّثَنَا مَحْبُوبٌ، قَالَ: أَنْبَأَنَا أَبُوإِسْحَاقَ، عَنْ سَعِيدٍ الْجُرَيْرِيِّ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ الشِّخِّيرِ قَالَ: بَيْنَا أَنَا مَعَ مُطَرِّفٍ بِالْمِرْبَدِ إِذْ دَخَلَ رَجُلٌ مَعَهُ قِطْعَةُ أَدَمٍ، قَالَ: كَتَبَ لِي هَذِهِ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَهَلْ أَحَدٌ مِنْكُمْ يَقْرَأُ قَالَ: قُلْتُ: أَنَا أَقْرَأُ فَإِذَا فِيهَا مِنْ مُحَمَّدٍ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِبَنِي زُهَيْرِ بْنِ أُقَيْشٍ أَنَّهُمْ إِنْ شَهِدُوا أَنْ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رسول اللَّهِ، وَفَارَقُوا الْمُشْرِكِينَ، وَأَقَرُّوا بِالْخُمُسِ فِي غَنَائِمِهِمْ، وَسَهْمِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَصَفِيِّهِ؛ فَإِنَّهُمْ آمِنُونَ بِأَمَانِ اللَّهِ وَ رسولهِ۔
* تخريج: د/الخراج ۲۱ (۲۹۹۹)، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۶۸۳)، حم (۵/۷۷، ۷۸، ۳۶۳) (صحیح الإسناد)
۴۱۵۱- یزید بن شخیر کہتے ہیں کہ میں مطرف کے ساتھ کھلیان میں تھا کہ اچانک ایک آدمی چمڑے کا ایک ٹکڑا لے کر آیا اور بولا: میرے لئے رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے یہ لکھا ہے، تو کیا تم میں سے کوئی اسے پڑھ سکتا ہے؟ انہوں نے کہا: میں پڑھوں گا، تو دیکھا کہ اس تحریر میں یہ تھا: '' اللہ کے نبی محمد صلی للہ علیہ وسلم کی طرف سے بنی زہیر بن اقیش کے لئے: اگر یہ لوگ ''لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ '' (اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور محمد اللہ کے رسول ہیں) کی گواہی دیں اور کفار ومشرکین کا ساتھ چھوڑ دیں اور اپنے مال غنیمت میں سے خمس، نبی کے حصے اور ان کے صفی کا اقرار کریں تو وہ اللہ اور اس کے رسول کی امان میں رہیں گے''۔


4152- أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ يَحْيَى بْنِ الْحَارِثِ، قَالَ: أَنْبَأَنَا مَحْبُوبٌ، قَالَ: أَنْبَأَنَا أَبُوإِسْحَاقَ، عَنْ شَرِيكٍ، عَنْ خُصَيْفٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ؛ قَالَ: الْخُمُسُ الَّذِي لِلَّهِ، وَلِل رسول كَانَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَرَابَتِهِ لايَأْكُلُونَ مِنْ الصَّدَقَةِ شَيْئًا؛ فَكَانَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خُمُسُ الْخُمُسِ، وَلِذِي قَرَابَتِهِ خُمُسُ الْخُمُسِ، وَلِلْيَتَامَى مِثْلُ ذَلِكَ، وَلِلْمَسَاكِينِ مِثْلُ ذَلِكَ، وَلابْنِ السَّبِيلِ مِثْلُ ذَلِكَ .
* تخريج: تفرد بہ النسائي (تحفۃ الأشراف: ۱۹۲۶۱) (ضعیف الإسناد مرسل)
(خصیف اور شریک حافظے کے ضعیف راوی ہیں، نیز مجاہد نے نبی اکرم ﷺ سے روایت میں صحابی کا ذکر نہیں کیا)
٭قَالَ أَبُوعَبْدالرَّحْمَنِ: قَالَ اللَّهُ جَلَّ ثَنَاؤُهُ: وَاعْلَمُوا أَنَّمَا غَنِمْتُمْ مِنْ شَيْئٍ، فَأَنَّ لِلَّهِ خُمُسَهُ، وَلِل رسول، وَلِذِي الْقُرْبَى، وَالْيَتَامَى، وَالْمَسَاكِينِ، وَابْنِ السَّبِيلِ، وَقَوْلُهُ عَزَّوَجَلَّ: لِلَّهِ ابْتِدَائُ كَلامٍ لأَنَّ الأَشْيَائَ كُلَّهَا لِلَّهِ عَزَّوَجَلَّ، وَلَعَلَّهُ إِنَّمَا اسْتَفْتَحَ الْكَلامَ فِي الْفَيْئِ، وَالْخُمُسِ بِذِكْرِ نَفْسِهِ لأَنَّهَا أَشْرَفُ الْكَسْبِ، وَلَمْ يَنْسِبِ الصَّدَقَةَ إِلَى نَفْسِهِ عَزَّوَجَلَّ لأَنَّهَا أَوْسَاخُ النَّاسِ، وَاللَّهُ تَعَالَى أَعْلَمُ، وَقَدْ قِيلَ يُؤْخَذُ مِنْ الْغَنِيمَةِ شَيْئٌ؛ فَيُجْعَلُ فِي الْكَعْبَةِ، وَهُوَ السَّهْمُ الَّذِي لِلَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، وَسَهْمُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الإِمَامِ يَشْتَرِي الْكُرَاعَ مِنْهُ، وَالسِّلاحَ، وَيُعْطِي مِنْهُ مَنْ رَأَى مِمَّنْ رَأَى فِيهِ غَنَائً، وَمَنْفَعَةً لأَهْلِ الإِسْلامِ، وَمِنْ أَهْلِ الْحَدِيثِ، وَالْعِلْمِ، وَالْفِقْهِ، وَالْقُرْآنِ، وَسَهْمٌ لِذِي الْقُرْبَى، وَهُمْ بَنُو هَاشِمٍ، وَبَنُوالْمُطَّلِبِ بَيْنَهُمْ الْغَنِيُّ مِنْهُمْ، وَالْفَقِيرُ، وَقَدْ قِيلَ إِنَّهُ لِلْفَقِيرِ مِنْهُمْ دُونَ الْغَنِيِّ كَالْيَتَامَى، وَابْنِ السَّبِيلِ - وَهُوَ أَشْبَهُ الْقَوْلَيْنِ بِالصَّوَابِ عِنْدِي - وَاللَّهُ تَعَالَى أَعْلَمُ، وَالصَّغِيرُ، وَالْكَبِيرُ، وَالذَّكَرُ، وَالأُنْثَى سَوَائٌ لأَنَّ اللَّهَ عَزَّوَجَلَّ جَعَلَ ذَلِكَ لَهُمْ، وَقَسَّمَهُ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيهِمْ وَلَيْسَ فِي الْحَدِيثِ أَنَّهُ فَضَّلَ بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ، وَلاخِلافَ نَعْلَمُهُ بَيْنَ الْعُلَمَائِ فِي رَجُلٍ لَوْ أَوْصَى بِثُلُثِهِ لِبَنِي فُلانٍ أَنَّهُ بَيْنَهُمْ، وَأَنَّ الذَّكَرَ وَالأُنْثَى فِيهِ سَوَائٌ، إِذَا كَانُوا يُحْصَوْنَ؛ فَهَكَذَا كُلُّ شَيْئٍ صُيِّرَ لِبَنِي فُلانٍ أَنَّهُ بَيْنَهُمْ بِالسَّوِيَّةِ إِلا أَنْ يُبَيِّنَ ذَلِكَ الآمِرُ بِهِ، وَاللَّهُ وَلِيُّ التَّوْفِيقِ، وَسَهْمٌ لِلْيَتَامَى مِنْ الْمُسْلِمِينَ، وَسَهْمٌ لِلْمَسَاكِينِ مِنْ الْمُسْلِمِينَ، وَسَهْمٌ لابْنِ السَّبِيلِ مِنْ الْمُسْلِمِينَ، وَلايُعْطَى أَحَدٌ مِنْهُمْ سَهْمُ مِسْكِينٍ، وَسَهْمُ ابْنِ السَّبِيلِ، وَقِيلَ لَهُ: خُذْ أَيَّهُمَا شِئْتَ وَالأَرْبَعَةُ أَخْمَاسٍ يَقْسِمُهَا الإِمَامُ بَيْنَ مَنْ حَضَرَ الْقِتَالَ مِنْ الْمُسْلِمِينَ الْبَالِغِينَ۔
۴۱۵۲- مجاہد کہتے ہیں: (قرآن میں) جو خمس اللہ اور رسول کے لئے آیا ہے، وہ نبی اکرم صلی للہ علیہ وسلم اور آپ کے رشتہ داروں کے لئے تھا، وہ لوگ صدقہ وزکاۃ کے مال سے نہیں کھاتے تھے، چنانچہ نبی اکرم صلی للہ علیہ وسلم کے لئے خمس کا خمس تھا اور رشتہ داروں کے خمس کا خمس اور اتنا ہی یتیموں کے لئے، اتنا ہی فقراء و مساکین کے لئے اور اتنا ہی مسافروں کے لئے۔
٭ابو عبدالرحمن(امام نسائی) کہتے ہیں: اللہ تعالی نے فرمایا: '' اور جان لو کہ جو کچھ تمہیں مالِ غنیمت سے ملے تو: اللہ کے لئے، رسول کے لئے، رشتہ داروں، یتیموں، مسکینوں اور مسافروں کے لئے اس کا خمس ہے، اللہ کے اس فرمان {وَاعْلَمُوا أَنَّمَا غَنِمْتُمْ مِنْ شَيْئٍ فَأَنَّ لِلَّهِ خُمُسَهُ وَلِل رسول وَلِذِي الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ } میں اللہ کا قول'' لِلَّهِ ''(یعنی اللہ کے لئے ہے) ابتدائے کلام کے طور پر ہے کیونکہ تمام چیزیں اللہ ہی کی ہیں اور مالِ فیٔ اور خمس کے سلسلے میں بات کی ابتداء بھی اس ''اپنے ذکر'' سے شاید اس لئے کی ہے کہ وہ سب سے اعلی درجے کی کمائی (روزی) ہے، اور صدقے کی اپنی طرف نسبت نہیں کی، اس لئے کہ وہ لوگوں کا میل (کچیل) ہے۔ واللہ اعلم۔
ایک قول یہ بھی ہے کہ غنیمت کا کچھ مال لے کر کعبے میں لگایا جائے گا اور یہی اللہ تعالیٰ کا حصہ ہے اور نبی کا حصہ امام کے لئے ہوگا جو اس سے گھوڑے اور ہتھیار خریدے گا، اور اسی میں سے وہ ایسے لوگوں کو دے گا جن کو وہ مسلمانوں کے لیے مفید سمجھے گا جیسے اہل حدیث، اہل علم، اہل فقہ، اور اہل قرآن کے لئے، اور ذی القربی کا حصہ بنو ہاشم اور بنو مطلب کا ہے، ان میں غنی (مال دار) اور فقیر سب برابر ہیں، ایک قول کے مطابق ان میں بھی غنی کے بجائے صرف فقیر کے لئے ہے جیسے یتیم، مسافر وغیرہ، دونوں اقوال میں مجھے یہی زیادہ صواب سے قریب معلوم ہوتا ہے، واللہ اعلم۔
اسی طرح چھوٹا، بڑا، مرد، عورت سب برابر ہوں گے، اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ ان سب کے لئے رکھا ہے اور رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے اسے انہی سب میں تقسیم کیا ہے، اور حدیث میں کہیں ایسا نہیں ہے کہ آپ نے ان میں سے ایک کو دوسرے پر ترجیح دی ہو، ہمیں اس سلسلے میں علماء کے درمیان کسی اختلاف کا بھی علم نہیں ہے کہ ایک شخص اگر کسی کی اولاد کے لئے ایک تہائی کی وصیت کرے تو وہ ان سب میں تقسیم ہوگا اور مرد و عورت اس سلسلے میں سب برابر ہوں گے جب وہ شمار کئے جائیں گے، اسی طرح سے ہر وہ چیز جو کسی کی اولاد کے لئے دی گئی ہو تو وہ ان میں برابر ہوگی، سوائے اس کے کہ اس چیز کا حکم کرنے والا اس کی وضاحت کر دے۔ واللہ ولی التوفیق۔
اور ایک حصہ مسلم یتیموں کے لئے اور ایک حصہ مسلم مساکین کے لئے اور ایک حصہ مسلم مسافروں کے لئے ہے۔ ان میں سے کسی کو مسکین کا حصہ اور مسافر کا حصہ نہیں دیا جائے گا، اور اس سے کہا جائے گا کہ ان (دو) میں سے جو چاہے لے لے اور بقیہ چار خمس کو امام ان بالغ مسلمانوں میں تقسیم کرے گا جو جنگ میں شریک ہوئے۔


4153- أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ - يَعْنِي ابْنَ إِبْرَاهِيمَ - عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ عِكْرِمَةَ بْنِ خَالِدٍ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَوْسِ بْنِ الْحَدَثَانِ، قَالَ جَائَ الْعَبَّاسُ، وَعَلِيٌّ إِلَى عُمَرَ يَخْتَصِمَانِ؛ فَقَالَ الْعَبَّاسُ: اقْضِ بَيْنِي وَبَيْنَ هَذَا؛ فَقَالَ النَّاسُ: افْصِلْ بَيْنَهُمَا فَقَالَ عُمَرُ لا افْصِلُ بَيْنَهُمَا قَدْ عَلِمَا أَنَّ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "لا نُورَثُ مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ، قَالَ: فَقَالَ الزُّهْرِيُّ: وَلِيَهَا رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخَذَ مِنْهَا قُوتَ أَهْلِهِ، وَجَعَلَ سَائِرَهُ سَبِيلَهُ سَبِيلَ الْمَالِ ثُمَّ وَلِيَهَا أَبُوبَكْرٍ بَعْدَهُ، ثُمَّ وُلِّيتُهَا بَعْدَ أَبِي بَكْرٍ؛ فَصَنَعْتُ فِيهَا الَّذِي كَانَ يَصْنَعُ ثُمَّ أَتَيَانِي؛ فَسَأَلانِي أَنْ أَدْفَعَهَا إِلَيْهِمَا عَلَى أَنْ يَلِيَاهَا بِالَّذِي وَلِيَهَا بِهِ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَالَّذِي وَلِيَهَا بِهِ أَبُو بَكْرٍ، وَالَّذِي وُلِّيتُهَا بِهِ فَدَفَعْتُهَا إِلَيْهِمَا، وَأَخَذْتُ عَلَى ذَلِكَ عُهُودَهُمَا ثُمَّ أَتَيَانِي يَقُولُ: هَذَا اقْسِمْ لِي بِنَصِيبِي مِنْ ابْنِ أَخِي، وَيَقُولُ: هَذَا اقْسِمْ لِي بِنَصِيبِي مِنْ امْرَأَتِي، وَإِنْ شَائَا أَنْ أَدْفَعَهَا إِلَيْهِمَا عَلَى أَنْ يَلِيَاهَا بِالَّذِي وَلِيَهَا بِهِ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَالَّذِي وَلِيَهَا بِهِ أَبُوبَكْرٍ، وَالَّذِي وُلِّيتُهَا بِهِ دَفَعْتُهَا إِلَيْهِمَا، وَإِنْ أَبَيَا كُفِيَا ذَلِكَ، ثُمَّ قَالَ: وَاعْلَمُوا أَنَّمَا غَنِمْتُمْ مِنْ شَيْئٍ؛ فَأَنَّ لِلَّهِ خُمُسَهُ، وَلِل رسول، وَلِذِي الْقُرْبَى، وَالْيَتَامَى، وَالْمَسَاكِينِ، وَابْنِ السَّبِيلِ هَذَا لِهَؤُلائِ {إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَائِ وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ} هَذِهِ لِهَؤُلائِ وَمَا أَفَائَ اللَّهُ عَلَى رسولهِ مِنْهُمْ فَمَا أَوْجَفْتُمْ عَلَيْهِ مِنْ خَيْلٍ، وَلارِكَابٍ.
قَالَ الزُّهْرِيُّ: هَذِهِ لِ رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَاصَّةً قُرًى عَرَبِيَّةً فَدْكُ كَذَا وَكَذَا، فَمَا أَفَائَ اللَّهُ عَلَى رسولهِ مِنْ أَهْلِ الْقُرَى فَلِلَّهِ، وَلِل رسول، وَلِذِي الْقُرْبَى، وَالْيَتَامَى، وَالْمَسَاكِينِ، وَابْنِ السَّبِيلِ، { وَ لِلْفُقَرَائِ الْمُهَاجِرِينَ الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِنْ دِيَارِهِمْ وَأَمْوَالِهِمْ وَالَّذِينَ تَبَوَّؤا الدَّارَ وَالإِيمَانَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَالَّذِينَ جَاؤا مِنْ بَعْدِهِمْ } فَاسْتَوْعَبَتْ هَذِهِ الآيَةُ النَّاسَ؛ فَلَمْ يَبْقَ أَحَدٌ مِنْ الْمُسْلِمِينَ إِلا لَهُ فِي هَذَا الْمَالِ حَقٌّ أَوْ قَالَ: حَظٌّ إِلا بَعْضَ مَنْ تَمْلِكُونَ مِنْ أَرِقَّائِكُمْ وَلَئِنْ عِشْتُ إِنْ شَائَ اللَّهُ لَيَأْتِيَنَّ عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ حَقُّهُ أَوْ قَالَ حَظُّهُ۔
* تخريج: خ/فرض الخمس ۱ (۳۰۹۴)، المغازي ۱۴ (۴۰۳۳)، النفقات ۳ (۵۳۵۸)، الفرائض ۳ (۶۷۲۸) إعتصام ۵ (۷۳۰۵)، م/الجہاد ۵ (۱۷۵۷)، د/الخراج ۱۹ (۲۹۶۳)، ت/السیر ۴۴ (۱۶۱۰)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۶۳۳) (صحیح)
۴۱۵۳- مالک بن اوس بن حدثان کہتے ہیں کہ عباس اور علی رضی الله عنہما جھگڑتے ہوئے عمر رضی الله عنہ کے پاس آئے، عباس رضی الله عنہ نے کہا: میرے اور ان کے درمیان فیصلہ کیجیے، لوگوں نے کہا: ان دونوں کے درمیان فیصلہ فرما دیجئے، تو عمر رضی الله عنہ نے کہا: میں ان کے درمیان فیصلہ نہیں کر سکتا، انہیں معلوم ہے کہ رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: '' ہمارا ترکہ کسی کو نہیں ملتا، جو کچھ ہم چھوڑیں وہ صدقہ ہے''۔
راوی کہتے ہیں: زہری ۱؎ نے (آگے روایت کرتے ہوئے اس طرح) کہا: (عمر رضی الله عنہ نے کہا:) رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم (جب) اس مال کے ولی ونگراں رہے تو اس میں اپنے گھر والوں کے خرچ کے لئے لیتے اور باقی سارا اللہ کی راہ میں خرچ کرتے، پھر آپ کے بعد ابو بکر رضی الله عنہ متولی ہوئے اور ان کے بعد میں متولی ہوا، تو میں نے بھی اس میں وہی کیا جو ابوبکر کرتے تھے، پھر یہ دونوں میرے پاس آئے اور مجھ سے مطالبہ کیا کہ اسے میں ان کے حوالے کر دوں کہ وہ اس میں اس طرح عمل کریں گے جیسے رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم کرتے تھے اور جیسے ابو بکر رضی الله عنہ کرتے تھے اور جیسے تم کرتے ہو، چنانچہ میں نے اسے ان دونوں کو دے دیا اور اس پر ان سے اقرار لے لیا، پھر اب یہ میرے پاس آئے ہیں، یہ کہتے ہیں: میرے بھتیجے کی طرف سے میرا حصہ مجھے دلائیے ۲؎ اور وہ کہتے ہیں: مجھے میرا حصہ بیوی کی طرف سے دلائیے ۳؎، اگر انہیں منظور ہو کہ میں وہ مال ان کے سپرد کر دوں اس شرط پر کہ یہ دونوں اس میں اسی طرح عمل کریں گے جیسے رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم نے کیا اور جیسے میں نے کیا تو میں ان کے حوالے کرتا ہوں، اور اگر انہیں (یہ شرط) منظور نہ ہو تو وہ گھر میں بیٹھیں ۴؎، پھر عمر رضی الله عنہ نے یہ آیات پڑھیں: { وَاعْلَمُوا أَنَّمَا غَنِمْتُمْ مِنْ شَيْئٍ فَأَنَّ لِلَّهِ خُمُسَهُ وَلِل رسول وَلِذِي الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ } ۵؎۔
اور یہ ان لوگوں کے لئے ہے { إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَائِ وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ } ۶؎۔
اور یہ ان لوگوں کے لئے ہے ''{ وَمَا أَفَائَ اللَّهُ عَلَى رسولهِ مِنْهُمْ فَمَا أَوْجَفْتُمْ عَلَيْهِ مِنْ خَيْلٍ وَلا رِكَابٍ }۷؎۔
زہری کہتے ہیں کہ یہ رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم کے لئے خاص ہے اور وہ عربیہ کے چند گاؤں ہیں جیسے فدک وغیرہ۔
اور اسی طرح { فَمَا أَفَائَ اللَّهُ عَلَى رسولهِ مِنْ أَهْلِ الْقُرَى فَلِلَّهِ وَلِل رسول وَلِذِي الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ وَ لِلْفُقَرَائِ الْمُهَاجِرِينَ الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِنْ دِيَارِهِمْ وَأَمْوَالِهِمْ وَالَّذِينَ تَبَوَّؤا الدَّارَ وَالإِيمَانَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَالَّذِينَ جَاؤا مِنْ بَعْدِهِمْ }۸؎، اس آیت میں سبھی لوگ آگئے ہیں، اور کوئی مسلمان ایسا نہیں جس کا اس مال میں حق نہ ہو، یا یہ کہا: حصہ نہ ہو، سوائے چند لوگوں کے جنہیں تم اپنا غلام بناتے ہو اور اگر میں زندہ رہا تو ان شاء اللہ ہر ایک کو اس کا حق۔ یا کہا: اس کا نصیب مل کر رہے گا۔
وضاحت ۱؎: مالک بن اوس سے اس حدیث کو روایت کرنے والے ایک راوی زہری بھی ہیں، دیکھئے حدیث نمبر: ۴۱۴۵
وضاحت ۲؎: کیونکہ عباس رضی الله عنہ رسول اکرم صلی للہ علیہ وسلم کے چچا تھے۔
وضاحت ۳؎: کیونکہ علی رضی الله عنہ فاطمہ رضی الله عنہا کے شوہر تھے۔
وضاحت ۴؎: یعنی جس عہد و پیمان کے تحت یہ مال تمہیں دیا گیا ہے اسی پر اکتفا کرو مزید کسی مطالبہ کی قطعی ضرورت نہیں۔
وضاحت ۵؎: جان لو جو کچھ تمہیں غنیمت میں ملے تو اس کا خمس اللہ کے لئے ہے، رسول کے لئے، ذی القربی، یتیموں، مسکینوں اور مسافروں کے لئے ہے (الانفال: ۴۱)
وضاحت۶؎: صدقات فقرائ، مساکین، زکاۃ کا کام کرنے والے لوگوں، مؤلفۃالقلوب، غلاموں، قرض داروں اور مسافروں کے لئے ہیں (التوبۃ: ۶۰)
وضاحت۷؎: اور ان کی طرف سے جو اللہ اپنے رسول کو لوٹائے تو جس پر تم نے گھوڑے دوڑائے اور زین کسے(الحشر: ۶)
وضاحت ۸؎: جو اللہ گاؤں والوں کی طرف سے اپنے رسول پر لوٹائے تو وہ اللہ کے لئے رسول کے لئے اور ذی القربی، یتیموں، مسکینوں، مسافروں اور ان فقراء مہاجرین لوگوں کے لئے ہے جو اپنے گھروں اور اپنے اموال سے نکال دیے گئے اور جنہوں نے الدار(مدینہ) کو اپنا جائے قیام بنایا اور ایمان لائے اس سے پہلے اور اس کے بعد(الحشر: ۷-۱۰)

* * *​
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207

39-كِتَابُ الْبَيْعَةِ
۳۹- کتاب: بیعت کے احکام و مسائل ۱؎


1-الْبَيْعَةُ عَلَى السَّمْعِ وَالطَّاعَةِ
۱- باب: حاکم اور امیر کی فرماں برداری اور اطاعت پر بیعت کا بیان​


4154- أَخْبَرَنَا الإِمَامُ أَبُوعَبْدِالرَّحْمَنِ النَّسَائِيُّ مِنْ لَفْظِهِ، قَالَ: أَنْبَأَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الْوَلِيدِ بْنِ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ قَالَ: بَايَعْنَا رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى السَّمْعِ، وَالطَّاعَةِ فِي الْيُسْرِ، وَالْعُسْرِ وَالْمَنْشَطِ، وَالْمَكْرَهِ، وَأَنْ لا نُنَازِعَ الأَمْرَ أَهْلَهُ، وَأَنْ نَقُومَ بِالْحَقِّ حَيْثُ كُنَّا لا نَخَافُ لَوْمَةَ لائِمٍ۔
* تخريج: خ/الفتن ۲ (۷۰۵۶)، الأحکام ۴۳ (۷۱۹۹، ۷۲۰۰)، م/الإمارۃ ۸ (۱۷۰۹)، ق/الجہاد ۴۱ (۲۸۶۶)، (تحفۃ الأشراف: ۵۱۱۸)، ط/الجھاد ۱ (۵)، حم (۳/۴۴۱، ۵/۳۱۶، ۳۱۸)، ویأتي فیما یلي: ۴۱۵۵-۴۱۵۹ (صحیح)
۴۱۵۴- عبادہ بن صامت رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم سے خوش حالی و تنگی، خوشی و غمی ہر حالت میں سمع و طاعت پر بیعت کی، نیز اس بات پر بیعت کی کہ ہم حکمرانوں سے حکومت کے لیے نہ جھگڑیں، اور جہاں بھی رہیں حق پر قائم رہیں، اور (اس سلسلے میں) ہم کسی ملامت گر کی ملامت سے نہ ڈریں ۲؎۔
وضاحت ۱؎: اس کتاب میں '' بیعت'' سے متعلق جو بھی احکام بیان ہوئے ہیں، یہ واضح رہے کہ ان کا تعلق صرف خلیفہ ٔ وقت یا مسلم حکمراں یا اس کے نائبین کے ذریعہ اس کے لیے بیعت لینے سے ہے۔ عہد نبوی سے لے کر زمانہ خیرالقرون بلکہ بہت بعد تک '' بیعت'' سے ''سیاسی بیعت'' ہی مراد لی جاتی رہی، بعد میں جب تصوف کا بدعی چلن ہوا تو '' شیخ طریقت'' یا '' پیر ومرشد'' قسم کے لوگ بیعت کے صحیح معنی ومراد کو اپنے بدعی اغراض ومقاصد کے لیے استعمال کرنے لگے، یہ شرعی معنی کی تحریف ہے، نیز اسلامی فرقوں اور جماعتوں کے پیشواؤں نے بھی ''بیعت'' کے صحیح معنی کا غلط استعمال کیا ہے، فالحذر، الحذر۔
وضاحت۲؎: یعنی: ہم آپ کی (اور آپ کے بعد آپ کے خلفاء کی اگر ان کی بات بھلائی کی ہو) اطاعت آسانی و پریشانی ہر حال میں کریں گے، خواہ وہ بات ہمارے موافق ہویا مخالف، اور اس بات پر بیعت کرتے ہیں کہ جو آدمی بھی شرعی قانونی طور سے ولی الامر بنا دیا جائے ہم اس سے اس کے عہدہ کو چھیننے کی کوشش نہیں کریں گے، وہ ولی الامر ہمارے فائدے کا معاملہ کرے یا اس کے کسی معاملہ میں ہمارا نقصان ہو، ہمارے غیروں کی ہم پر ترجیح ہو۔ '' اولیاء الأمور (اسلامی مملکت کے حکمرانوں) کے بارے میں سلف کا صحیح موقف اور منہج یہی ہے، اسی کی روشنی میں موجودہ اسلامی تنظیموں کو اپنے موقف ومنہج کا جائزہ لینا چاہیے۔


4155- أَخْبَرَنَا عِيسَى بْنُ حَمَّادٍ، قَالَ: أَنْبَأَنَا اللَّيْثُ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الْوَلِيدِ بْنِ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ، عَنْ أَبِيهِ أَنَّ عُبَادَةَ بْنَ الصَّامِتِ قَالَ: بَايَعْنَا رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى السَّمْعِ، وَالطَّاعَةِ فِي الْعُسْرِ، وَالْيُسْرِ، وَذَكَرَ مِثْلَهُ۔
* تخريج: انظر ما قبلہ (صحیح)
۴۱۵۵- عبادہ بن صامت رضی الله عنہ کہتے ہیں: ہم نے تنگی و خوشی کی حالت میں سمع و طاعت پر رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم سے بیعت کی، پھر اسی طرح بیان کیا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
2-بَاب الْبَيْعَةِ عَلَى أَنْ لا نُنَازِعَ الأَمْرَ أَهْلَهُ
۲- باب: امیر کی مخالفت نہ کرنے پر بیعت کا بیان​


4156- أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ وَالْحَارِثُ بْنُ مِسْكِينٍ - قِرَائَةً عَلَيْهِ وَأَنَا أَسْمَعُ - عَنِ ابْنِ الْقَاسِمِ، قَالَ: حَدَّثَنِي مَالِكٌ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عُبَادَةُ بْنُ الْوَلِيدِ بْنِ عُبَادَةَ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ عُبَادَةَ قَالَ: بَايَعْنَا رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى السَّمْعِ، وَالطَّاعَةِ فِي الْيُسْرِ، وَالْعُسْرِ، وَالْمَنْشَطِ، وَالْمَكْرَهِ، وَأَنْ لا نُنَازِعَ الأَمْرَ أَهْلَهُ، وَأَنْ نَقُولَ: أَوْ نَقُومَ بِالْحَقِّ حَيْثُمَا كُنَّا لا نَخَافُ لَوْمَةَ لائِمٍ۔
* تخريج: انظر حدیث رقم: ۴۱۵۴ (صحیح)
۴۱۵۶- عبادہ بن صامت رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے تنگی و خوش حالی، خوشی و غمی ہر حال میں رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم سے سمع و طاعت (سننے اور حکم بجا لانے) پر بیعت کی اور اس بات پر کہ ہم اپنے حکمرانوں سے حکومت کے لیے جھگڑا نہیں کریں گے، اور اس بات پر کہ ہم جہاں کہیں بھی رہیں حق کہیں گے یا حق پر قائم رہیں گے اور (اس بابت) ہم کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہیں ڈریں گے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
3-بَاب الْبَيْعَةِ عَلَى الْقَوْلِ بِالْحَقِّ
۳- باب: حق بات کہنے پر بیعت کا بیان​


4157- أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ أَيُّوبَ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ إِدْرِيسَ، عَنْ ابْنِ إِسْحَاقَ، وَيَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الْوَلِيدِ بْنِ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ قَالَ: بَايَعْنَا رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى السَّمْعِ، وَالطَّاعَةِ فِي الْعُسْرِ، وَالْيُسْرِ، وَالْمَنْشَطِ، وَالْمَكْرَهِ، وَأَنْ لا نُنَازِعَ الأَمْرَ أَهْلَهُ، وَعَلَى أَنْ نَقُولَ بِالْحَقِّ حَيْثُ كُنَّا۔
* تخريج: انظر حدیث رقم: ۴۱۵۴ (صحیح)
۴۱۵۷- عبادہ بن صامت رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم سے تنگی و خوش حالی، خوشی وغمی ہر حالت میں سمع و طاعت (سننے اور حکم بجا لینے) پر بیعت کی، اور اس بات پر کہ ہم حکمرانوں سے حکومت کے لیے جھگڑ انہیں کریں گے، اور اس بات پر کہ جہاں کہیں بھی رہیں حق بات کہیں گے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
4-الْبَيْعَةُ عَلَى الْقَوْلِ بِالْعَدْلِ
۴- باب: عدل و انصاف کی بات کہنے پر بیعت کا بیان​


4158- أَخْبَرَنِي هَارُونُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، قَالَ: حَدَّثَنِي الْوَلِيدُ بْنُ كَثِيرٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي عُبَادَةُ بْنُ الْوَلِيدِ أَنَّ أَبَاهُ الْوَلِيدَ حَدَّثَهُ، عَنْ جَدِّهِ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ قَالَ: بَايَعْنَا رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى السَّمْعِ، وَالطَّاعَةِ فِي عُسْرِنَا، وَيُسْرِنَا، وَمَنْشَطِنَا، وَمَكَارِهِنَا، وَعَلَى أَنْ لا نُنَازِعَ الأَمْرَ أَهْلَهُ، وَعَلَى أَنْ نَقُولَ بِالْعَدْلِ أَيْنَ كُنَّا لا نَخَافُ فِي اللَّهِ لَوْمَةَ لائِمٍ۔
* تخريج: انظر حدیث رقم: ۴۱۵۴ (صحیح)
۴۱۵۸- عبادہ بن صامت رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم سے اپنی تنگی و خوشحالی اور خوشی و غمی ہر حال میں سمع و طاعت (سننے اور حکم بجا لینے) پر بیعت کی، اور اس بات پر کہ حکمرانوں سے حکومت کے سلسلے میں جھگڑا نہیں کریں گے، نیز اس بات پر کہ جہاں کہیں بھی رہیں عدل و انصاف کی بات کہیں گے اور اللہ تعالیٰ کے معاملے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہیں ڈریں گے۔
 
Top