• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن نسائی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
30-بَاب الْوُضُوءُ مِنْ مَسِّ الذَّكَرِ
۳۰-باب: عضوتناسل چھونے سے وضو کا بیان​


445 - أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ - يَعْنِي: ابْنَ أَبِي بَكْرٍ - قَالَ عَلَى أَثَرِهِ: قَالَ أَبُو عَبْدِالرَّحْمَانِ: -وَلَمْ أُتْقِنْهُ- عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ بُسْرَةَ قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " مَنْ مَسَّ فَرْجَهُ، فَلْيَتَوَضَّأْ "
* تخريج: انظرحدیث رقم: ۱۶۳ (صحیح)
۴۴۵- بسرۃ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: '' جو اپنا ذکر(عضو تناسل) چھوئے، تو چاہئے کہ وہ وضو کرے ''۔


446 - أَخْبَرَنَا عِمْرَانُ بْنُ مُوسَى قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَوَائٍ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ بُسْرَةَ بِنْتِ صَفْوَانَ؛ أَنَّ النَّبِيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " إِذَا أَفْضَى أَحَدُكُمْ بِيَدِهِ إِلَى فَرْجِهِ، فَلْيَتَوَضَّأْ "
* تخريج: انظر حدیث رقم: ۱۶۳ (صحیح)
۴۴۶ - بسرہ بنت صفوان رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: '' جب تم میں سے کوئی اپنا ہاتھ اپنے ذَکر (عضو تناسل) تک لے جائے (چھوئے) تو چاہئے کہ وہ وضو کرے ''۔


447 - أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ مَرْوَانَ بْنِ الْحَكَمِ أَنَّهُ قَالَ: الْوُضُوءُ مِنْ مَسِّ الذَّكَرِ، فَقَالَ مَرْوَانُ: أَخْبَرَتْنِيهِ بُسْرَةُ بِنْتُ صَفْوَانَ، فَأَرْسَلَ عُرْوَةُ قَالَتْ: ذَكَرَ رَسُولُ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا يُتَوَضَّأُ مِنْهُ فَقَالَ: "مِنْ مَسِّ الذَّكَرِ"۔
* تخريج: انظرحدیث رقم: ۱۶۳ (صحیح)
۴۴۷-عروہ بن زبیر مروان بن حکم سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا: شرم گاہ چھونے پر وضو ہے، تو مروان نے کہا: مجھ سے اِسے بسرہ بنت صفوان نے بیان کیا ہے، تو عروہ نے بسرہ کے پاس (اس کی تصدیق کے لیے آدمی) بھیجا، تو انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے ان چیزوں کا ذکر کیا جن سے وضو کیا جاتا ہے، تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: '' ذَکر چھونے سے بھی وضو ہے ''۔


448- أَخْبَرَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبِي، عَنْ بُسْرَةَ بِنْتِ صَفْوَانَ أَنَّ النَّبِيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " مَنْ مَسَّ ذَكَرَهُ، فَلا يُصَلِّي حَتَّى يَتَوَضَّأَ " ٭قَالَ أَبُو عَبْدالرَّحْمَنِ: هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ لَمْ يَسْمَعْ مِنْ أَبِيهِ هَذَا الْحَدِيثَ، وَاللَّهُ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى أَعْلَمُ۔
* تخريج: انظرحدیث رقم: ۱۶۳ (صحیح)
۴۴۸- بسرہ بنت صفوان رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: '' جو اپنا ذکر (عضو تناسل) چھوئے، تو صلاۃ نہ پڑھے یہاں تک کہ وضو کر لے ''۔ ٭ابوعبدالرحمن(امام نسائی) کہتے ہیں: ہشام بن عروہ نے اس حدیث ۱؎ کو اپنے باپ سے نہیں سنا ہے، واللہ سبحانہ تعالیٰ اعلم۔
وضاحت ۱؎: اور دوسری حدیثوں کا سماع ان سے ثابت ہے، اور یہ حدیث بواسطہ ''عروہ عن مروان، عن بسرۃ'' متصل اور صحیح ہے، دیکھئے سند رقم ۱۶۳، ۱۶۴۔

---​
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207

5-كِتَاب الصَّلاةِ
۵-کتاب: صلاۃ کے احکام ومسائل ۱؎


1- فَرْضُ الصَّلاةِ، وَذِكْرُ اخْتِلافِ النَّاقِلِينَ فِي إِسْنَادِ حَدِيثِ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَاخْتِلافُ أَلْفَاظِهِمْ فِيهِ
۱-باب: صلاۃ کی فرضیت اور اِس سلسلے میں انس بن مالک کی حدیث کی سند اور الفاظ میں راویوں کے اختلاف کا بیان​
وضاحت ۱؎: اسلام کے پانچ ارکان ہیں یعنی کلمہ توحید ورسالت کا اقرار واذعان، صلاۃ، زکاۃ، صوم اور حج، اردو میں نماز صلاۃ کے معنی میں اور اس کی جگہ رائج ہے، اسی طرح صوم اور صیام کی جگہ روزہ کے لفظ کا رواج ہے، نیز مصلی کی جگہ نمازی اور تارک صلاۃ کی جگہ بے نماز اور صائم کے بجائے روزہ دار کے الفاظ زبان زد عام وخاص ہیں، چونکہ صلاۃ اور صوم ارکان اسلام میں سے ہیں، اور ان کی حیثیت ایک دینی اور شرعی اصطلاح کی ہے، اس لیے ہم نے تراجم حدیث کی کتابوں میں صلاۃ اور مصلی اور تارک صلاۃ کی تراکیب استعمال کی ہیں، ایسے ہی صوم، صیام، اور صائم کے الفاظ کو استعمال کیا ہے، صوم یعنی روزہ، اور اس کی جمع صیام ہے، نیز صائم کی جمع بھی صیام ہے، جیسے نائم (سونے والا) کی جمع نیام ہے، ایسے ہی صیام مصدرہے، ارکان اسلام میں سے دو اہم رکن یعنی نماز وروزہ کی جگہ ہم اپنے قارئین کرام سے گزارش کرتے ہیں کہ وہ صوم وصلاۃ کا لفظ استعمال کریں، اور اس کے استعمال کے عادی ہوں، یہ واضح رہے کہ اردو میں صوم وصلاۃ، اور مصلی اور اس کی جمع مصلیانِ یعنی صلاۃ ادا کرنے والے اور اسی سے مصلیٰ یعنی صلاۃ کی جگہ جس کو اردو میں جائے نماز بھی کہتے ہیں، سب استعمال ہے، اور صلاۃ کی جمع صلوات اور اسی سے صلاۃ التسبیح، صلاۃ الخوف وغیرہ کی تراکیب استعمال ہیں، نیز پابند صوم وصلاۃ اور ماہِ صیام وغیرہ کی تراکیب بھی نظم ونثر میں عام طور پر مروج ہیں، اس لیے قارئین ان اصطلاحات کا خیال رکھیں۔


449- أَخْبَرَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا هِشَامٌ الدَّسْتَوَائِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا قَتَادَةُ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ مَالِكِ بْنِ صَعْصَعَةَ أَنَّ النَّبِيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " بَيْنَا أَنَا عِنْدَ الْبَيْتِ بَيْنَ النَّائِمِ وَالْيَقْظَانِ، إِذْ أَقْبَلَ أَحَدُ الثَّلاثَةِ بَيْنَ الرَّجُلَيْنِ، فَأُتِيتُ بِطَسْتٍ مِنْ ذَهَبٍ، مَلآنَ حِكْمَةً وَإِيمَانًا، فَشَقَّ مِنْ النَّحْرِ إِلَى مَرَاقِّ الْبَطْنِ، فَغَسَلَ الْقَلْبَ بِمَائِ زَمْزَمَ، ثُمَّ مُلِئَ حِكْمَةً وَإِيمَانًا، ثُمَّ أُتِيتُ بِدَابَّةٍ دُونَ الْبَغْلِ وَفَوْقَ الْحِمَارِ، ثُمَّ انْطَلَقْتُ مَعَ جِبْرِيلَ - عَلَيْهِ السَّلامُ -فَأَتَيْنَا السَّمَائَ الدُّنْيَا، فَقِيلَ: مَنْ هَذَا؟ قَالَ: جِبْرِيلُ، قِيلَ: وَمَنْ مَعَكَ؟ قَالَ: مُحَمَّدٌ، قِيلَ: وَقَدْ أُرْسِلَ إِلَيْهِ! مَرْحَبًا بِهِ، وَنِعْمَ الْمَجِيئُ جَائَ، فَأَتَيْتُ عَلَى آدَمَ -عَلَيْهِ السَّلامُ-، فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ، قَالَ: مَرْحَبًا بِكَ مِنْ ابْنٍ وَنَبِيٍّ، ثُمَّ أَتَيْنَا السَّمَائَ الثَّانِيَةَ، قِيلَ: مَنْ هَذَا؟ قَالَ: جِبْرِيلُ، قِيلَ: وَمَنْ مَعَكَ؟ قَالَ: مُحَمَّدٌ، فَمِثْلُ ذَلِكَ، فَأَتَيْتُ عَلَى يَحْيَى وَعِيسَى، فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِمَا، فَقَالا: مَرْحَبًا بِكَ مِنْ أَخٍ وَنَبِيٍّ، ثُمَّ أَتَيْنَا السَّمَائَ الثَّالِثَةَ، قِيلَ: مَنْ هَذَا؟ قَالَ: جِبْرِيلُ، قِيلَ: وَمَنْ مَعَكَ؟ قَالَ: مُحَمَّدٌ، فَمِثْلُ ذَلِكَ، فَأَتَيْتُ عَلَى يُوسُفَ -عَلَيْهِ السَّلام -، فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ، قَالَ: مَرْحَبًا بِكَ مِنْ أَخٍ وَنَبِيٍّ، ثُمَّ أَتَيْنَا السَّمَائَ الرَّابِعَةَ، فَمِثْلُ ذَلِكَ، فَأَتَيْتُ عَلَى إِدْرِيسَ -عَلَيْهِ السَّلام-، فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ، فَقَالَ: مَرْحَبًا بِكَ مِنْ أَخٍ وَنَبِيٍّ، ثُمَّ أَتَيْنَا السَّمَائَ الْخَامِسَةَ، فَمِثْلُ ذَلِكَ، فَأَتَيْتُ عَلَى هَارُونَ- عَلَيْهِ السَّلامُ -، فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ، قَالَ: مَرْحَبًا بِكَ مِنْ أَخٍ وَنَبِيٍّ، ثُمَّ أَتَيْنَا السَّمَائَ السَّادِسَةَ، فَمِثْلُ ذَلِكَ، ثُمَّ أَتَيْتُ عَلَى مُوسَى -عَلَيْهِ السَّلام-، فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ، فَقَالَ: مَرْحَبًا بِكَ مِنْ أَخٍ وَنَبِيٍّ، فَلَمَّا جَاوَزْتُهُ بَكَى، قِيلَ: مَا يُبْكِيكَ؟ قَالَ: يَا رَبِّ! هَذَا الْغُلامُ الَّذِي بَعَثْتَهُ بَعْدِي يَدْخُلُ مِنْ أُمَّتِهِ الْجَنَّةَ أَكْثَرُ وَأَفْضَلُ مِمَّا يَدْخُلُ مِنْ أُمَّتِي، ثُمَّ أَتَيْنَا السَّمَائَ السَّابِعَةَ، فَمِثْلُ ذَلِكَ، فَأَتَيْتُ عَلَى إِبْرَاهِيمَ -عَلَيْهِ السَّلام -، فَسَلَّمْتُ، عَلَيْهِ، فَقَالَ: مَرْحَبًا بِكَ مِنْ ابْنٍ وَنَبِيٍّ، ثُمَّ رُفِعَ لِي الْبَيْتُ الْمَعْمُورُ، فَسَأَلْتُ جِبْرِيلَ، فَقَالَ: هَذَا الْبَيْتُ الْمَعْمُورُ، يُصَلِّي فِيهِ كُلَّ يَوْمٍ سَبْعُونَ أَلْفَ مَلَكٍ، فَإِذَا خَرَجُوا مِنْهُ لَمْ يَعُودُوا فِيهِ آخِرَ مَا عَلَيْهِمْ، ثُمَّ رُفِعَتْ لِي سِدْرَةُ الْمُنْتَهَى، فَإِذَا نَبْقُهَا مِثْلُ قِلالِ هَجَرٍ، وَإِذَا وَرَقُهَا مِثْلُ آذَانِ الْفِيَلَةِ، وَإِذَا فِي أَصْلِهَا أَرْبَعَةُ أَنْهَارٍ: نَهْرَانِ بَاطِنَانِ، وَنَهْرَانِ ظَاهِرَانِ، فَسَأَلْتُ جِبْرِيلَ، فَقَالَ: أَمَّا الْبَاطِنَانِ، فَفِي الْجَنَّةِ، وَأَمَّا الظَّاهِرَانِ، فَالْفُرَاتُ وَالنَّيْل، ثُمَّ فُرِضَتْ عَلَيَّ خَمْسُونَ صَلاةً، فَأَتَيْتُ عَلَى مُوسَى، فَقَالَ: مَا صَنَعْتَ؟ قُلْتُ: فُرِضَتْ عَلَيَّ خَمْسُونَ صَلاةً، قَالَ: إِنِّي أَعْلَمُ بِالنَّاسِ مِنْكَ، إِنِّي عَالَجْتُ بَنِي إِسْرَائِيلَ أَشَدَّ الْمُعَالَجَةِ، وَإِنَّ أُمَّتَكَ لَنْ يُطِيقُوا ذَلِكَ، فَارْجِعْ إِلَى رَبِّكَ فَاسْأَلْهُ أَنْ يُخَفِّفَ عَنْكَ، فَرَجَعْتُ إِلَى رَبِّي، فَسَأَلْتُهُ أَنْ يُخَفِّفَ عَنِّي، فَجَعَلَهَا أَرْبَعِينَ، ثُمَّ رَجَعْتُ إِلَى مُوسَى -عَلَيْهِ السَّلام -، فَقَالَ: مَا صَنَعْتَ؟ قُلْتُ: جَعَلَهَا أَرْبَعِينَ، فَقَالَ لِي مِثْلَ مَقَالَتِهِ الأُولَى، فَرَجَعْتُ إِلَى رَبِّي -عَزَّ وَجَلَّ -، فَجَعَلَهَا ثَلاثِينَ. فَأَتَيْتُ عَلَى مُوسَى عَلَيْهِ السَّلام، فَأَخْبَرْتُهُ، فَقَالَ لِي مِثْلَ مَقَالَتِهِ الأُولَى، فَرَجَعْتُ إِلَى رَبِّي، فَجَعَلَهَا عِشْرِينَ، ثُمَّ عَشْرَةً، ثُمَّ خَمْسَةً، فَأَتَيْتُ عَلَى مُوسَى -عَلَيْهِ السَّلام -، فَقَالَ لِي مِثْلَ مَقَالَتِهِ الأُولَى، فَقُلْتُ: إِنِّي أَسْتَحِي مِنْ رَبِّي -عَزَّ وَجَلَّ -أَنْ أَرْجِعَ إِلَيْهِ، فَنُودِيَ: أَنْ قَدْ أَمْضَيْتُ، فَرِيضَتِي وَخَفَّفْتُ عَنْ عِبَادِي، وَأَجْزِي بِالْحَسَنَةِ عَشْرَ أَمْثَالِهَا "
* تخريج: خ/بدء الخلق ۶ (۳۲۰۷)، أحادیث الأنبیاء ۲۲ (۳۳۹۳)، ۴۲ (۳۴۳۰)، مناقب الأنصار ۴۲ (۳۸۸۷)، م/الإیمان ۷۴ (۱۶۴)، ت/تفسیر سورۃ الم نشرح (۳۳۴۶) (مختصراً، وقال: في الحدیث قصۃ طویلۃ)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۲۰۲)، حم۲/۲۰۷، ۲۰۸، ۲۱۰ (صحیح)
۴۴۹- انس بن مالک، مالک بن صعصعہ رضی اللہ عنہ ما سے روایت کر تے ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: '' میں کعبہ کے پاس نیم خواب اور نیم بیداری میں تھا کہ اسی دوران میرے پاس تین (فرشتے)آئے، ان تینوں میں سے ایک جو دو کے بیچ میں تھا میری طرف آیا، اور میرے پاس حکمت وایمان سے بھرا ہوا سونے کا ایک طشت لایا گیا، تو اس نے میرا سینہ حلقوم سے پیٹ کے نچلے حصہ تک چاک کیا، اور دل کو آب زمزم سے دھویا، پھر وہ حکمت وایمان سے بھر دیا گیا، پھر میرے پاس خچر سے چھوٹا اور گدھے سے بڑا ایک جا نور لا یا گیا، میں جبریل علیہ السلام کے ساتھ چلا، تو ہم آسمان دنیا پر آئے، تو پوچھا گیا کون ہو؟ انہوں نے کہا: جبریل ہوں، پو چھا گیا آپ کے ساتھ کون ہیں؟ انہوں نے کہا: محمد ( صلی الله علیہ وسلم ) ہیں، پوچھا گیا: کیا بلائے گئے ہیں؟ مرحبا مبارک ہو ان کی تشریف آوری، پھر میں آدم علیہ السلام کے پاس آیا، اور میں نے انہیں سلام کیا، انہوں نے کہا: خوش آمدید تمہیں اے بیٹے اور نبی!، پھر ہم دوسرے آسمان پر آئے، پو چھا گیا: کون ہو؟ انہوں نے کہا: جبریل ہوں، پو چھا گیا: آپ کے سا تھ کون ہیں؟ انہوں نے کہا ـ: محمد ( صلی الله علیہ وسلم ) ہیں، یہاں بھی اسی طرح ہوا، یہاں میں عیسی اور یحییٰ کے پاس آیا، اور میں نے ان دونوں کو سلام کیا، ان دونوں نے کہا: خوش آمدید تمہیں اے بھائی اور نبی!، پھر ہم تیسرے آسمان پر آئے، پو چھا گیا کون ہو؟ انہوں نے کہا: جبریل ہوں، پوچھا گیا: آپ کے ساتھ کون ہیں؟ انہوں نے کہا: محمد ( صلی الله علیہ وسلم ) ہیں، یہاں بھی اسی طرح ہوا، یہاں میں یوسف علیہ السلام کے پاس آیا، اور میں نے انہیں سلام کیا، انہوں نے کہا: خوش آمدید تمہیں اے بھائی اور نبی!، پھر ہم چوتھے آسمان پر آئے، وہاں بھی اسی طرح ہوا، یہاں میں ادریس علیہ السلام کے پاس آیا، اور میں نے انہیں سلام کیا، انہوں نے کہا: خوش آمدید تمہیں اے بھائی اور نبی!، پھر ہم پانچویں آسمان پر آئے، یہاں بھی ویسا ہی ہوا، میں ہارون علیہ السلام کے پاس آیا، اور میں نے انہیں سلام کیا، انہوں نے کہا: خوش آمدید تمہیں اے بھائی، اور نبی!، پھر ہم چھٹے آسمان پر آئے، یہاں بھی ویسا ہی ہوا، تو میں موسیٰ علیہ السلام کے پاس آیا، اور میں نے انہیں سلام کیا، انہوں نے کہا: خوش آمدید تمہیں اے بھائی اور نبی!، تو جب میں ان سے آگے بڑھا، تو وہ رونے لگے ۱؎، ان سے پوچھا گیا آپ کو کون سی چیز رلا رہی ہے؟ انہوں نے کہا: پروردگار! یہ لڑکا جسے تو نے میرے بعد بھیجا ہے اس کی امت سے جنت میں داخل ہونے والے لوگ میری امت کے داخل ہونے والے لوگوں سے زیادہ اور افضل ہوں گے، پھر ہم ساتویں آسمان پر آئے، یہاں بھی ویسا ہی ہوا، تو میں ابراہیم علیہ السلام کے پاس آیا، اور میں نے انہیں سلام کیا، انہوں نے کہا: خوش آمدید تمہیں اے بیٹے اور نبی! پھر بیت معمور ۲؎ میرے قریب کر دیا گیا، میں نے (اس کے متعلق)جبریل سے پوچھا تو انہوں نے کہا: یہ بیت معمورہے، اس میں روزانہ ستر ہزار فرشتے صلاۃ ادا کرتے ہیں، جب وہ اس سے نکلتے ہیں تو پھر دوبارہ اس میں واپس نہیں ہوتے، یہی ان کا آخری داخلہ ہوتا ہے، پھر سدرۃ المنتھی ۳؎ میرے قریب کر دیا گیا، اس کے بیر ہجر کے مٹکوں جیسے، اور اس کے پتے ہاتھی کے کان جیسے تھے، اور اس کی جڑ سے چار نہریں نکلی ہوئی تھی، دو نہریں ۴؎ باطنی ہیں، اور دو ظاہری، میں نے جبریل سے پوچھا، تو انہوں نے کہا: باطنی نہریں تو جنت میں ہیں، اور ظاہری نہریں فرات اور نیل ہیں، پھر میرے اوپر پچاس وقت کی صلاتیں فرض کی گئیں، میں لوٹ کر موسیٰ (علیہ السلام)کے پاس آیا، تو انہوں نے پوچھا: آپ نے کیا کیا؟ میں نے کہا: میرے اوپر پچاس صلاتیں فرض کی گئیں ہیں، انہوں نے کہا: میں لوگوں کو آپ سے زیادہ جانتا ہوں، میں بنی اسرائیل کو خوب جھیل چکا ہوں، آپ کی امت اس کی طاقت بالکل نہیں رکھتی، اپنے رب کے پاس واپس جایئے، اور اس سے گزارش کیجیے کہ اس میں تخفیف کر دے، چنانچہ میں اپنے رب کے پاس واپس آیا، اور میں نے اس سے تخفیف کی گزارش کی، تو اس نے چالیس صلاتیں کر دیں، پھر میں موسیٰ علیہ السلام کے پاس واپس آیا، انہوں نے پوچھا: آپ نے کیا کیا؟ میں نے کہا: اس نے انہیں چالیس صلاتیں کر دی ہیں، پھر انہوں نے مجھ سے وہی بات کہی جو پہلی بار کہی تھی، تومیں پھر اپنے رب عزوجل کے پاس واپس آیا، تو اس نے انہیں تیس کر دیں، پھر میں موسیٰ علیہ السلام کے پاس آیا، اور انہیں اس کی خبر دی، تو انہوں نے پھر وہی بات کہی جو پہلے کہی تھی، تو میں اپنے رب کے پاس واپس گیا، تو اس نے انہیں بیس پھر دس اور پھر پانچ کر دیں، پھر میں موسیٰ علیہ السلام کے پاس آیا، تو انہوں نے پھر وہی بات کہی جو پہلے کہی تھی، تومیں نے کہا: (اب مجھے)اپنے رب عزوجل کے پاس (بار بار)جانے سے شرم آ رہی ہے، تو آواز آئی: میں نے اپنا فریضہ نافذ کر دیا ہے، اور اپنے بندوں سے تخفیف کر دی ہے، اور میں نیکی کا بدلہ دس گنا دیتا ہوں ''۔
وضاحت ۱؎: موسیٰ علیہ السلام کا یہ رونا حسد کے طور پر نہیں تھا، بلکہ یہ بطور تاسف ورنج تھا کہ میری امت نے میری ایسی پیروی نہیں کی جیسی محمد صلی الله علیہ وسلم کی ان کی امت نے کی۔
وضاحت ۲؎: خانہ کعبہ کے عین اور ساتویں آسمان پر ایک عبادت خانہ ہے جہاں فرشتے بہت بڑی تعداد میں عبادت کرتے ہیں۔
وضاحت ۳؎: بیری کا وہ درخت جو ساتویں آسمان پرہے، اور جس سے آگے کوئی نہیں جا سکتا۔
وضاحت ۴؎: ان دونوں سے مراد جنت کی دونوں نہریں کوثر اور سلسبیل ہیں۔


450- أَخْبَرَنَا يُونُسُ بْنُ عَبْدِالأَعْلَى، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي يُونُسُ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ وَابْنُ حَزْمٍ، قَالاَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " فَرَضَ اللَّهُ- عَزَّوَجَلَّ -عَلَى أمَّتِي خَمْسِينَ صَلاةً، فَرَجَعْتُ بِذَلِكَ حَتَّى أَمُرَّ بِمُوسَى -عَلَيْهِ السَّلام-، فَقَالَ: مَا فَرَضَ رَبُّكَ عَلَى أُمَّتِكَ؟ قُلْتُ: فَرَضَ عَلَيْهِمْ خَمْسِينَ صَلاةً، قَالَ لِي مُوسَى: فَرَاجِعْ رَبَّكَ- عَزَّ وَجَلَّ -، فَإِنَّ أُمَّتَكَ لا تُطِيقُ ذَلِكَ، فَرَاجَعْتُ رَبِّي -عَزَّ وَجَلَّ-، فَوَضَعَ شَطْرَهَا، فَرَجَعْتُ إِلَى مُوسَى، فَأَخْبَرْتُهُ، فَقَالَ: رَاجِعْ رَبَّكَ، فَإِنَّ أُمَّتَكَ لاَتُطِيقُ ذَلِكَ، فَرَاجَعْتُ رَبِّي عَزَّ وَجَلَّ، فَقَالَ: هِيَ خَمْسٌ وَهِيَ خَمْسُونَ، لاَ يُبَدَّلُ الْقَوْلُ لَدَيَّ، فَرَجَعْتُ إِلَى مُوسَى، فَقَالَ: رَاجِعْ رَبَّكَ، فَقُلْتُ: قَدْ اسْتَحْيَيْتُ مِنْ رَبِّي- عَزَّوَجَلَّ-"
* تخريج: خ/الصلا ۃ۱/۳۴۹ وأحادیث الأنبیاء ۵ (۳۳۴۲)، م/الإیمان ۷۴ (۱۶۳)، ق/إقامۃ ۱۹۴ (۱۳۹۹)، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۵۶) (صحیح)
۴۵۰- انس بن مالک اور ابن حزم رضی اللہ عنہ ما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ''اللہ عزوجل نے میری امت پر پچاس صلاتیں فرض کیں، تومیں انہیں لے کر لوٹا، تو موسیٰ علیہ السلام کے پاس سے گزر ہوا، تو انہوں نے پوچھا: آپ کے رب نے آپ کی امت پرکیا فرض کیا ہے؟ میں نے کہا: اس نے ان پر پچاس صلاتیں فرض کی ہیں، تو موسیٰ نے مجھ سے کہا: جا کر اپنے رب سے پھر سے بات کیجئے، آپ کی امت اس کی طاقت نہیں رکھے گی، تومیں نے اپنے رب عزوجل سے بات کی، تو اس نے اس میں سے آدھا ۱؎ معاف کر دیا، تو میں موسیٰ علیہ السلام کے پاس آیا، اور میں نے انہیں اس کی خبر دی، تو انہوں نے کہا: اپنے رب سے پھر بات کیجئے، آپ کی امت اس کی طاقت نہیں رکھے گی، چنانچہ میں نے اپنے رب سے پھر سے بات کی، تو اس نے کہا: یہ پانچ صلاتیں ہیں جو (اجر میں)پچاس (کے برابر) ہیں، میرے نزدیک فرمان بدلا نہیں جاتا، پھر میں موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس واپس آیا، تو انہوں نے کہا: اپنے رب سے جا کر پھر بات کیجئے، میں نے کہا: مجھے اپنے رب کے پاس (بار بار)جانے سے شرم آ رہی ہے''۔
وضاحت ۱؎: یعنی پانچ پانچ کر کے پانچ بارمیں آدھا معاف کیا، یا شطر سے مراد آدھا نہیں بلکہ کچھ حصہ ہے۔


451- أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ هِشَامٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا مَخْلَدٌ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ عَبْدِالْعَزِيزِ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ أَبِي مَالِكٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " أُتِيتُ بِدَابَّةٍ فَوْقَ الْحِمَارِ وَدُونَ الْبَغْلِ، خَطْوُهَا عِنْدَ مُنْتَهَى طَرْفِهَا، فَرَكِبْتُ وَمَعِي جِبْرِيلُ- عَلَيْهِ السَّلام-، فَسِرْتُ، فَقَالَ: انْزِلْ فَصَلِّ، فَفَعَلْتُ، فَقَالَ: أَتَدْرِي أَيْنَ صَلَّيْتَ؟ صَلَّيْتَ بِطَيْبَةَ وَإِلَيْهَا الْمُهَاجَرُ، ثُمَّ قَالَ: انْزِلْ فَصَلِّ، فَصَلَّيْتُ، فَقَالَ: أَتَدْرِي أَيْنَ صَلَّيْتَ؟ صَلَّيْتَ بِطُورِ سَيْنَائَ حَيْثُ كَلَّمَ اللَّهُ -عَزَّ وَجَلَّ- مُوسَى -عَلَيْهِ السَّلام-، ثُمَّ قَالَ: انْزِلْ فَصَلِّ، فَنَزَلْتُ فَصَلَّيْتُ، فَقَالَ: أَتَدْرِي أَيْنَ صَلَّيْتَ؟ صَلَّيْتَ بِبَيْتِ لَحْمٍ حَيْثُ وُلِدَ عِيسَى -عَلَيْهِ السَّلام-، ثُمَّ دَخَلْتُ بَيْتَ الْمَقْدِسِ، فَجُمِعَ لِي الأَنْبِيَائُ -عَلَيْهِمْ السَّلام-، فَقَدَّمَنِي جِبْرِيلُ حَتَّى أَمَمْتُهُمْ، ثُمَّ صُعِدَ بِي إِلَى السَّمَائِ الدُّنْيَا، فَإِذَا فِيهَا آدَمُ -عَلَيْهِ السَّلام-، ثُمَّ صُعِدَ بِي إِلَى السَّمَائِ الثَّانِيَةِ، فَإِذَا فِيهَا ابْنَا الْخَالَةِ عِيسَى وَيَحْيَى -عَلَيْهِمَا السَّلام-، ثُمَّ صُعِدَ بِي إِلَى السَّمَائِ الثَّالِثَةِ، فَإِذَا فِيهَا يُوسُفُ -عَلَيْهِ السَّلام-، ثُمَّ صُعِدَ بِي إِلَى السَّمَائِ الرَّابِعَةِ، فَإِذَا فِيهَا هَارُونُ -عَلَيْهِ السَّلام-، ثُمَّ صُعِدَ بِي إِلَى السَّمَائِ الْخَامِسَةِ، فَإِذَا فِيهَا إِدْرِيسُ -عَلَيْهِ السَّلام-، ثُمَّ صُعِدَ بِي إِلَى السَّمَائِ السَّادِسَةِ، فَإِذَا فِيهَا مُوسَى -عَلَيْهِ السَّلام-، ثُمَّ صُعِدَ بِي إِلَى السَّمَائِ السَّابِعَةِ، فَإِذَا فِيهَا إِبْرَاهِيمُ -عَلَيْهِ السَّلام-، ثُمَّ صُعِدَ بِي فَوْقَ سَبْعِ سَمَوَاتٍ، فَأَتَيْنَا سِدْرَةَ الْمُنْتَهَى، فَغَشِيَتْنِي ضَبَابَةٌ، فَخَرَرْتُ سَاجِدًا، فَقِيلَ لِي: إِنِّي يَوْمَ خَلَقْتُ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضَ فَرَضْتُ عَلَيْكَ وَعَلَى أُمَّتِكَ خَمْسِينَ صَلاةً، فَقُمْ بِهَا أَنْتَ وَأُمَّتُكَ، فَرَجَعْتُ إِلَى إِبْرَاهِيمَ، فَلَمْ يَسْأَلْنِي عَنْ شَيْئٍ، ثُمَّ أَتَيْتُ عَلَى مُوسَى، فَقَالَ: كَمْ فَرَضَ اللَّهُ عَلَيْكَ وَعَلَى أُمَّتِكَ؟ قُلْتُ: خَمْسِينَ صَلاةً، قَالَ: فَإِنَّكَ لا تَسْتَطِيعُ أَنْ تَقُومَ بِهَا أَنْتَ وَلا أُمَّتُكَ، فَارْجِعْ إِلَى رَبِّكَ، فَاسْأَلْهُ التَّخْفِيفَ، فَرَجَعْتُ إِلَى رَبِّي، فَخَفَّفَ عَنِّي عَشْرًا، ثُمَّ أَتَيْتُ مُوسَى، فَأَمَرَنِي بِالرُّجُوعِ، فَرَجَعْتُ، فَخَفَّفَ عَنِّي عَشْرًا، ثُمَّ رُدَّتْ إِلَى خَمْسِ صَلَوَاتٍ، قَالَ: فَارْجِعْ إِلَى رَبِّكَ، فَاسْأَلْهُ التَّخْفِيفَ، فَإِنَّهُ فَرَضَ عَلَى بَنِي إِسْرَائِيلَ صَلاتَيْنِ فَمَا قَامُوا بِهِمَا، فَرَجَعْتُ إِلَى رَبِّي -عَزَّ وَجَلَّ-، فَسَأَلْتُهُ التَّخْفِيفَ، فَقَالَ: إِنِّي يَوْمَ خَلَقْتُ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضَ فَرَضْتُ عَلَيْكَ وَعَلَى أُمَّتِكَ خَمْسِينَ صَلاةً، فَخَمْسٌ بِخَمْسِينَ، فَقُمْ بِهَا أَنْتَ وَأُمَّتُكَ، فَعَرَفْتُ أَنَّهَا مِنْ اللَّهِ- تَبَارَكَ وَتَعَالَى- صِرَّى، فَرَجَعْتُ إِلَى مُوسَى -عَلَيْهِ السَّلام -، فَقَالَ: ارْجِعْ، فَعَرَفْتُ أَنَّهَا مِنْ اللَّهِ صِرَّى -يَقُوْلُ: أَيْ حَتْمٌ - فَلَمْ أَرْجِعْ "
* تخريج: تفرد بہ النسائي، (تحفۃ الأشراف ۱۷۰۱) (منکر)
(فریضئہ صلاۃ پانچ وقت ہو جانے کے بعد پھر اللہ سے رجوع، اور اس کے جواب سے متعلق ٹکڑا صحیح نہیں ہے، صحیح یہی ہے کہ پانچ ہو جانے کے بعد آپ نے شرم سے رجوع ہی نہیں کیا)
۴۵۱- یزید بن ابی مالک کہتے ہیں کہ انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے ہم سے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ''میرے پاس گدھے سے بڑا اور خچر سے چھوٹا ایک جانور لایا گیا، اس کا قدم وہاں پڑتا تھا جہاں تک اس کی نگاہ پہنچتی تھی، تو میں سوار ہو گیا، اور میرے ہمراہ جبریل علیہ السلام تھے، میں چلا، پھر جبریل نے کہا: اتر کر صلاۃ پڑھ لیجیے، چنانچہ میں نے ایسا ہی کیا، انہوں نے پوچھا: کیا آپ جانتے ہیں کہ آپ نے کہاں صلاۃ پڑھی ہے؟ آپ نے طیبہ میں صلاۃ پڑھی ہے، اور اسی کی طرف ہجرت ہوگی، پھر انہوں نے کہا: اتر کر صلاۃ پڑھئے، تومیں نے صلاۃ پڑھی، انہوں نے کہا: کیا جانتے ہیں کہ آپ نے کہاں صلاۃ پڑھی ہے؟ آپ نے طور سینا پر صلاۃ پڑھی ہے، جہاں اللہ عزوجل نے موسیٰ علیہ السلام سے کلام کیا تھا، پھر کہا: اتر کر صلاۃ پڑھئے، میں نے اتر کر صلاۃ پڑھی، انہوں نے پوچھا: کیا آپ جانتے ہیں کہ آپ نے کہاں صلاۃ پڑھی ہے؟ آپ نے بیت اللحم میں صلاۃ پڑھی ہے، جہاں عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش ہوئی تھی، پھر میں بیت المقدس میں داخل ہوا، تو وہاں میرے لئے ابنیاء علیہم السلام کو اکٹھا کیا گیا، جبریل نے مجھے آگے بڑھایا یہاں تک کہ میں نے ان کی امامت کی، پھر مجھے لے کر جبریل آسمان دنیا پر چڑھے، تو کیا دیکھتا ہوں کہ وہاں آدم علیہ السلام موجود ہیں، پھر وہ مجھے لے کر دوسرے آسمان پر چڑھے، تو دیکھتا ہوں کہ وہاں دونوں خالہ زاد بھائی عیسیٰ اور یحیی علیہما السلام موجود ہیں، پھر تیسرے آسمان پر چڑھے، تو دیکھتا ہوں کہ وہاں یوسف علیہ السلام موجود ہیں، پھر چوتھے آسمان پر چڑھے تو وہاں ہارون علیہ السلام ملے، پھر پانچویں آسمان پر چڑھے تو وہاں ادریس علیہ السلام موجود تھے، پھر چھٹے آسمان پر چڑھے وہاں موسیٰ علیہ السلام ملے، پھر ساتویں آسمان پر چڑھے وہاں ابراہیم علیہ السلام ملے، پھر ساتویں آسمان کے اوپر چڑھے اور ہم سدرۃ المنتہی تک آئے، وہاں مجھے بدلی نے ڈھانپ لیا، اور میں سجدے میں گر پڑا، تو مجھ سے کہا گیا: جس دن میں نے زمین وآسمان کی تخلیق کی تم پر اور تمہاری امت پر میں نے پچاس صلاتیں فرض کیں، تو تم اور تمہاری امت انہیں ادا کرو، پھر میں لوٹ کر ابراہیم علیہ السلام کے پاس آیا، تو انہوں نے مجھ سے کچھ نہیں پوچھا، میں پھر موسیٰ علیہ السلام کے پاس آیا، تو انہوں نے پوچھا: تم پر اور تمہاری امت پر کتنی (صلاتیں) فرض کی گئیں؟ میں نے کہا: پچاس صلاتیں، تو انہوں نے کہا: نہ آپ اسے انجام دے سکیں گے اور نہ ہی آپ کی امت، تو اپنے رب کے پاس واپس جایئے اور اس سے تخفیف کی درخواست کیجئے، چنانچہ میں اپنے رب کے پاس واپس گیا، تو اس نے دس صلاتیں تخفیف کر دیں، پھر میں موسیٰ (علیہ السلام)کے پاس آیا، تو انہوں نے مجھے پھر واپس جانے کا حکم دیا، چنانچہ میں پھر واپس گیا تو اس نے (پھر) دس صلاتیں تخفیف کر دیں، میں پھر موسیٰ (علیہ السلام)کے پاس آیا انہوں نے مجھے پھر واپس جانے کا حکم دیا، چنانچہ میں واپس گیا، تو اس نے مجھ سے دس صلاتیں تخفیف کر دیں، پھر (بار بار درخواست کرنے سے)پانچ صلاتیں کر دی گئیں، (اس پر بھی)موسیٰ (علیہ السلام)نے کہا: اپنے رب کے حضور واپس جایئے اور تخفیف کی گزارش کیجئے، اس لیے کہ بنی اسرائیل پر دو صلاتیں فرض کی گئیں تھیں، تو وہ اسے ادا نہیں کر سکے، چنانچہ میں اپنے رب کے حضور واپس آیا، اور میں نے اس سے تخفیف کی گزارش کی، تو اس نے فرمایا: جس دن میں نے زمین وآسمان پیدا کیا، اسی دن میں نے تم پر اور تمہاری امت پر پچاس صلاتیں فرض کیں، تواب یہ پانچ پچاس کے برابر ہیں، انہیں تم ادا کرو، اور تمہاری امت (بھی)، تو میں نے جان لیا کہ یہ اللہ عزوجل کا قطعی حکم ہے، چنانچہ میں موسی علیہ السلام کے پاس واپس آیا، تو انہوں نے کہا: پھر جایئے، لیکن میں نے جان لیا تھا کہ یہ اللہ کا قطعی یعنی حتمی فیصلہ ہے، چنانچہ میں پھر واپس نہیں گیا''۔


452- أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ سُلَيْمَانَ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ مِغْوَلٍ، عَنْ الزُّبَيْرِ بْنِ عَدِيٍّ، عَنْ طَلْحَةَ بْنِ مُصَرِّفٍ، عَنْ مُرَّةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: لَمَّا أُسْرِيَ بِرَسُولِ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، انْتُهِيَ بِهِ إِلَى سِدْرَةِ الْمُنْتَهَى، وَهِيَ فِي السَّمَائِ السَّادِسَةِ، وَإِلَيْهَا يَنْتَهِي مَا عُرِجَ بِهِ مِنْ تَحْتِهَا وَإِلَيْهَا يَنْتَهِي مَا أُهْبِطَ بِهِ مِنْ فَوْقِهَا، حَتَّى يُقْبَضَ مِنْهَا، قَالَ: {إِذْ يَغْشَى السِّدْرَةَ مَا يَغْشَى} قَالَ: فَرَاشٌ مِنْ ذَهَبٍ، فَأُعْطِيَ ثَلاثًا: الصَّلَوَاتُ الْخَمْسُ، وَخَوَاتِيمُ سُورَةِ الْبَقَرَةِ، وَيُغْفَرُ لِمَنْ مَاتَ مِنْ أُمَّتِهِ لا يُشْرِكُ بِاللَّهِ شَيْئًا الْمُقْحِمَاتُ.
* تخريج: م/الإیمان ۷۶ (۱۷۳)، ت/تفسیر سورۃ النجم (۳۲۷۶)، (تحفۃ الأشراف ۹۵۴۸)، حم۱/۳۸۷، ۴۲۲) (صحیح)
۴۵۲- عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ (معراج کی شب)جب رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کو لے جایا گیا تو جبریل علیہ السلام آپ کو لے کر سدرۃ المنتہی پہنچے، یہ چھٹے آسمان پرہے ۱؎ جو چیزیں نیچے سے اوپر چڑھتی ہیں ۲؎ یہیں ٹھہر جاتی ہیں، اور جو چیزیں اس کے اوپر سے اترتی ہیں ۳؎ یہیں ٹھہر جاتی ہیں، یہاں تک کہ یہاں سے وہ لی جاتی ہیں ۴ ؎ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ما نے آیت کریمہ ''إِذْ يَغْشَى السِّدْرَةَ مَا يَغْشَى'' ۵؎ (جب کہ سدرۃ کو ڈھانپ لیتی تھیں وہ چیزیں جواس پر چھا جاتی تھیں) پڑھی اور (اس کی تفسیر بیان کرتے ہوئے) کہا: وہ سونے کے پروانے تھے، تو (وہاں)آپ کو تین چیزیں دی گئیں: پانچ صلاتیں، سورہ بقرۃ کی آخری آیتیں ۶؎، اور آپ کی امت میں سے اس شخص کی کبیرہ گناہوں کی بخشش، جو اللہ کے ساتھ بغیر کچھ شرک کئے مرے۔
وضاحت ۱؎: اس سے پہلے انس والی روایت میں ہے کہ ساتویں آسمان پرہے، دونوں میں تطبیق اس طرح دی جاتی ہے کہ اس کی جڑ چھٹے آسمان پرہے اور شاخیں ساتویں آسمان پر ہیں۔
وضاحت ۲؎: یعنی نیک اعمال یا روحیں وغیرہ۔
وضاحت ۳؎: یعنی اوامر اور فرامین الٰہی وغیرہ۔
وضاحت ۴؎: مطلب یہ ہے کہ فرشتے یہیں سے اسے وصول کرتے ہیں اور جہاں حکم ہوتا ہے اسے پہنچاتے ہیں۔
وضاحت ۵؎: النجم: ۱۶۔
وضاحت ۶؎: یعنی یہ طے ہوا کہ آپ کو عنقریب یہ آیتیں دی جائیں گی، یہ تاویل اس لئے کرنی پڑ رہی ہے کہ یہ آیتیں مدنی ہیں اور معراج کا واقعہ مکی دور میں پیش آیا تھا، یا یہ کہا جائے کہ یہ آیتیں مکی ہیں اور باقی پوری سورت مدنی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
2-بَاب أَيْنَ فُرِضَتِ الصَّلاةُ؟
۲-باب: صلاۃ کہاں فرض ہوئی؟​


453- أَخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ، عَنْ ابْنِ وَهْبٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ أَنَّ عَبْدَ رَبِّهِ ابْنَ سَعِيدٍ حَدَّثَهُ أَنَّ الْبُنَانِيَّ حَدَّثَهُ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّ الصَّلَوَاتِ فُرِضَتْ بِمَكَّةَ، وَأَنَّ مَلَكَيْنِ أَتَيَا رَسُولَ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَذَهَبَا بِهِ إِلَى زَمْزَمَ، فَشَقَّا بَطْنَهُ، وَأَخْرَجَا حَشْوَهُ فِي طَسْتٍ مِنْ ذَهَبٍ، فَغَسَلاهُ بِمَائِ زَمْزَمَ، ثُمَّ كَبَسَا جَوْفَهُ حِكْمَةً وَعِلْمًا۔
* تخريج: تفرد بہ النسائي، (تحفۃ الأشراف ۴۵۴) (صحیح)
۴۵۳- انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ پنج وقتہ صلاتیں مکہ میں فرض کی گئیں، دو فرشتے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے پاس آئے، وہ دونوں آپ کو زمزم کے پاس لے گئے، اور آپ کا پیٹ چاک کیا، اور اندر کی چیزیں نکال کر سونے کے ایک طشت میں رکھیں، اور انہیں آب زمزم سے دھویا، پھر آپ کا پیٹ علم وحکمت سے بھرکر بند کر دیا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
3-بَاب كَيْفَ فُرِضَتْ الصَّلاةُ؟
۳-باب: صلاۃ کیسے فرض ہوئی؟​


454- أَخْبَرَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا سُفْيَانُ: عَنْ الزُّهْرِيّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: أَوَّلَ مَا فُرِضَتْ الصَّلاةُ رَكْعَتَيْنِ، فَأُقِرَّتْ صَلاةُ السَّفَرِ، وَأُتِمَّتْ صَلاةُ الْحَضَرِ۔
* تخريج: خ/الصلاۃ ۱ (۳۵۰)، وتقصیر الصلاۃ ۵ (۱۰۹۰)، ومناقب الأنصار ۸ (۳۹۳۵)، م/صلاۃ المسافرین۱ (۶۸۵)، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۴۳۹)، دي/ الصلاۃ ۱۷۹ (۱۵۵۰)، وقد أخرجہ: د/الصلاۃ ۲۷۰ (۱۱۹۸) (صحیح)
۴۵۴- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ابتداء میں دو رکعت صلاۃ فرض کی گئی، پھر سفر کی صلاۃ (دوہی) باقی رکھی گئی اور حضر کی صلاۃ (بڑھا کر) پوری کر دی گئی۔


455- أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ هَاشِمٍ الْبَعْلَبَكِّيُّ، قَالَ: أَنْبَأَنَا الْوَلِيدُ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبُوعَمْرٍو - يَعْنِي: الأَوْزَاعِيَّ - أَنَّهُ سَأَلَ الزُّهْرِيَّ عَنْ صَلاةِ رَسُولِ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمَكَّةَ قَبْلَ الْهِجْرَةِ إِلَى الْمَدِينَةِ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: فَرَضَ اللَّهُ- عَزَّ وَجَلَّ -الصَّلاةَ عَلَى رَسُولِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوَّلَ مَا فَرَضَهَا رَكْعَتَيْنِ رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ أُتِمَّتْ فِي الْحَضَرِ أَرْبَعًا، وَأُقِرَّتْ صَلاةُ السَّفَرِ عَلَى الْفَرِيضَةِ الأُولَى۔
* تخريج: تفرد بہ النسائی، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۵۲۶) (صحیح)
۴۵۵- ولید کہتے ہیں کہ ابو عمرو اوزاعی نے مجھے خبر دی ہے کہ انہوں نے زہری سے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی صلاۃ کے بارے میں پوچھا کہ مدینہ کی طرف ہجرت کرنے سے پہلے مکہ میں آپ کی صلاۃ کیسی ہوتی تھی، تو انہوں نے کہا: مجھے عروہ نے خبر دی ہے، وہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ ابتداء میں اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی الله علیہ وسلم پر دو دو رکعت صلاۃ فرض کی، پھر حضر میں چار رکعت کر کے انہیں مکمل کر دی، اور سفر کی صلاۃ سابق حکم ہی پر برقرار رکھی گئی۔


456- أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ صَالِحِ بْنِ كَيْسَانَ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: فُرِضَتِ الصَّلاةُ رَكْعَتَيْنِ رَكْعَتَيْنِ، فَأُقِرَّتْ صَلاةُ السَّفَرِ، وَزِيدَ فِي صَلاةِ الْحَضَرِ۔
* تخريج: خ/الصلاۃ ۱ (۳۵۰)، م/صلاۃ المسافرین۱ (۶۸۵)، د/الصلاۃ ۲۷۰ (۱۱۹۸)، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۳۴۸)، ط/قصر الصلاۃ ۲ (۸)، حم۶/۲۷۲ (صحیح)
۴۵۶- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ صلاۃ دو دو رکعت فرض کی گئی، پھر سفر کی صلاۃ (دو ہی) برقرار رکھی گئی، اور حضر کی صلاۃ میں اضافہ کر دیا گیا ۱؎۔
وضاحت ۱؎: ابن خزیمہ (۱/۱۵۷) اور ابن حبان (۳/۱۸۰)کی روایت میں ہے کہ جب رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم مدینہ آئے، تو حضر کی صلاۃ میں دو دو رکعتوں کا اضافہ کر دیا گیا، اور فجر اور مغرب کی صلاۃ میں اضافہ اس لئے نہیں کیا گیا کہ فجر میں قرأت لمبی ہوتی ہے اور مغرب دن کی وترہے۔


457- أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ، قَالاَ: حَدَّثَنَا أَبُوعَوَانَةَ عَنْ بُكَيْرِ بْنِ الأَخْنَسِ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: فُرِضَتِ الصَّلاَةُ عَلَى لِسَانِ النَّبِيِّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْحَضَرِ أَرْبَعًا، وَفِي السَّفَرِ رَكْعَتَيْنِ، وَفِي الْخَوْفِ رَكْعَةً۔
* تخريج: م/المسافرین حدیث ۶ (۶۸۷)، د/الصلاۃ ۲۸۷ (۱۲۴۷)، ق/إقامۃ ۷۳ (۱۰۶۸)، (تحفۃ الأشراف: ۶۳۸۰)، بدون الشطر الأخیر، حم۱/۲۳۷، ۲۴۳، ۲۵۴، ۳۵۵، ویأتی عند المؤلف (برقم: ۱۴۴۲، ۱۴۴۳، ۱۵۳۳) (صحیح)
۴۵۷- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ صلاۃ بزبان نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم حضر میں چار رکعت، سفر میں دو رکعت، اور خوف میں ایک رکعت فرض کی گئی ۱؎۔
وضاحت ۱؎: اس سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی خوف کی حالت میں ایک ہی رکعت پر اکتفا کرے تو جائز ہے، کئی ایک صحابہ کرام اور ائمۂ عظام اس کے قائل بھی ہیں، حذیفہ رضی اللہ عنہ کی روایت میں اس کی صراحت بھی ہے۔


458- أَخْبَرَنَا يُوسُفُ بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ الشُّعَيْثِيُّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بَكْرِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ هِشَامٍ، عَنْ أُمَيَّةَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ خَالِدِ بْنِ أَسِيدٍ أَنَّهُ قَالَ لابْنِ عُمَرَ: كَيْفَ تَقْصُرُ الصَّلاةَ؟، وَإِنَّمَا قَالَ اللَّهُ -عَزَّوَجَلَّ-: { لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَنْ تَقْصُرُوا مِنْ الصَّلاَةِ إِنْ خِفْتُمْ } فَقَالَ ابْنُ عُمَرَ: يَاابْنَ أَخِي! إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَتَانَا وَنَحْنُ ضُلاَّلٌ، فَعَلَّمَنَا، فَكَانَ فِيمَا عَلَّمَنَا أَنَّ اللَّهَ -عَزَّوَجَلَّ- أَمَرَنَا أَنْ نُصَلِّيَ رَكْعَتَيْنِ فِي السَّفَرِ.
قَالَ الشُّعَيْثِيُّ: وَكَانَ الزُّهْرِيُّ يُحَدِّثُ بِهَذَا الْحَدِيثِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ۔
* تخريج: ق/إقامۃ ۷۳ (۱۰۶۶)، حم۲/۹۴، ۱۴۸، ویأتي عند المؤلف (برقم: ۱۴۳۵) (صحیح)
۴۵۸- امیہ بن عبد اللہ بن خالد بن اسید سے روایت ہے کہ انہوں نے ابن عمر رضی اللہ عنہم سے پوچھاکہ آپ صلاۃ (بغیر خوف کے)کیسے قصر کرتے ہیں؟ حالانکہ اللہ عزوجل کا فرمان ہے: { لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَنْ تَقْصُرُوا مِنْ الصَّلاَةِ إِنْ خِفْتُمْ} ۱؎ (اگر خوف کی وجہ سے تم لوگ صلاۃ قصر کرتے ہو تو تم پر کوئی حرج نہیں)تو ابن عمر رضی اللہ عنہم نے کہا: بھتیجے! رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم ہمارے پاس اس وقت آئے جب ہم گمراہ تھے، آپ نے ہمیں تعلیم دی، آپ کی تعلیمات میں سے یہ بھی تھا کہ ہم سفر میں دو رکعت صلاۃ پڑھیں، شعیثی کہتے ہیں کہ زہری اس حدیث کو عبداللہ بن ابوبکر کے طریق سے روایت کرتے تھے۔
وضاحت ۱؎: النساء: ۱۰۱۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
4-بَاب كَمْ فُرِضَتْ فِي الْيَوْمِ وَاللَّيْلَةِ؟
۴-باب: دن اور رات میں کتنی صلاتیں فرض کی گئیں؟​


459- أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ أَبِي سُهَيْلٍ، عَنْ أَبِيهِ أَنَّهُ سَمِعَ طَلْحَةَ بْنَ عُبَيْدِاللَّهِ يَقُولُ: جَائَ رَجُلٌ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - مِنْ أَهْلِ نَجْدٍ - ثَائِرَ الرَّأْسِ، نَسْمَعُ دَوِيَّ صَوْتِهِ، وَلا نَفْهَمُ مَا يَقُولُ، حَتَّى دَنَا، فَإِذَا هُوَ يَسْأَلُ عَنِ الإِسْلامِ؟، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : "خَمْسُ صَلَوَاتٍ فِي الْيَوْمِ وَاللَّيْلَةِ " قَالَ: هَلْ عَلَيَّ غَيْرُهُنَّ، قَالَ: " لاَ إِلاَّ أَنْ تَطَّوَّعَ "، قَالَ: " وَصِيَامُ شَهْرِ رَمَضَانَ "، قَالَ: هَلْ عَلَيَّ غَيْرُهُ؟، قَالَ: " لاَ إِلاَّ أَنْ تَطَّوَّعَ" وَذَكَرَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الزَّكَاةَ، قَالَ: هَلْ عَلَيَّ غَيْرُهَا؟، قَالَ: " لاَ إِلاَّ أَنْ تَطَّوَّعَ "، فَأَدْبَرَ الرَّجُلُ وَهُوَ يَقُولُ: وَاللَّهِ لا أَزِيدُ عَلَى هَذَا، وَلا أَنْقُصُ مِنْهُ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : "أَفْلَحَ إِنْ صَدَقَ"
* تخريج: خ/الإیمان ۳۴ (۴۶)، والصوم ۱ (۱۸۹۱)، والشہادات ۲۶ (۲۶۷۸)، والحیل ۳ (۶۹۵۶)، م/الإیمان ۲ (۱۱)، د/الصلاۃ ۱ (۳۹۱، ۳۹۲)، الأیمان والنذور ۵ (۳۲۵۲)، م/قصر الصلاۃ ۲۵ (۹۴)، (تحفۃ الأشراف: ۵۰۰۹)، ویأتي عند المؤلف بأرقام: ۲۰۹۲، ۵۰۳۱، حم۱/۱۲۶، دي/الصلاۃ ۲۰۸ (۱۶۱۹) (صحیح)
۴۵۹- ابو سہیل اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ کو کہتے سنا کہ اہل نجد کا ایک آدمی پراگندہ سر رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے پاس آیا، ہم اس کی آواز کی بھنبھناہٹ سن رہے تھے، لیکن جو کہہ رہا تھا اسے سمجھ نہیں پا رہے تھے، یہاں تک کہ وہ قریب آگیا، تو معلوم ہوا کہ وہ اسلام کے متعلق پوچھ رہا ہے، رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے اس سے فرمایا: '' (اسلام) دن اور رات میں پانچ وقت کی صلاۃ پڑھنا ہے''، اس نے پوچھا: کیا میرے اوپر ان کے علاوہ بھی ہے؟ آپ نے فرمایا: ''نہیں، الا یہ کہ تم نفل پڑھو''، نیز آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ''ماہ رمضان کا صوم ہے''، اس نے پوچھا: اس کے علاوہ بھی کوئی صوم ہے؟ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: '' نہیں، إلا یہ کہ تم نفل رکھو''، رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے اس سے زکوٰۃ کا بھی ذکر کیا، تو اس نے پوچھا: کیا میرے اوپر اس کے علاوہ بھی کچھ ہے؟ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ''نہیں، إلا یہ کہ تم نفل صدقہ دو''، پھر وہ آدمی پیٹھ پھیر کر جانے لگا، اور وہ کہہ رہا تھا: قسم اللہ کی! میں اس سے نہ زیادہ کروں گا نہ کم، (یہ سن کر) رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ''کامیاب ہو گیا اگر اس نے سچ کہا''۔


460- أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا نُوحُ بْنُ قَيْسٍ، عَنْ خَالِدِ بْنِ قَيْسٍ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ قَالَ: سَأَلَ رَجُلٌ رَسُولَ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! كَمْ افْتَرَضَ اللَّهُ- عَزَّوَجَلَّ عَلَى عِبَادِهِ مِنَ الصَّلَوَاتِ؟ قَالَ: " افْتَرَضَ اللَّهُ عَلَى عِبَادِهِ صَلَوَاتٍ خَمْسًا "، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! هَلْ قَبْلَهُنَّ أَوْ بَعْدَهُنَّ شَيْئًا؟ قَالَ: " افْتَرَضَ اللَّهُ عَلَى عِبَادِهِ صَلَوَاتٍ خَمْسًا "، فَحَلَفَ الرَّجُلُ لا يَزِيدُ عَلَيْهِ شَيْئًا، وَلاَيَنْقُصُ مِنْهُ شَيْئًا، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " إِنْ صَدَقَ لَيَدْخُلَنَّ الْجَنَّةَ "
* تخريج: تفرد بہ النسائي، (تحفۃ الأشراف ۱۱۶۶)، وقد أخرجہ: حم۳/۲۶۷، م/في الإیمان ۳ (۱۲)، ت/في الزکاۃ ۲ (۶۱۹) والمؤلف في الصوم ۱ (برقم: ۲۰۹۳) من طریق ثابت عن أنس مطولاً (صحیح)
۴۶۰- انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ـرسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سے ایک آدمی نے دریافت کیا: اللہ کے رسول! اللہ عزوجل نے اپنے بندوں پر کتنی صلاتیں فرض کی ہیں؟ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: '' اللہ نے اپنے بندوں پر پانچ صلاتیں فرض کی ہیں''، اس نے دریافت کیا: اللہ کے رسول! کیا ان سے پہلے یا بعد میں بھی کوئی چیز ہے''؟ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ''اللہ نے اپنے بندوں پر پانچ صلاتیں ہی فرض کی ہیں''، تو اس آدمی نے قسم کھائی کہ وہ نہ اس پر کوئی اضافہ کرے گا، اور نہ کوئی کمی کریگا '' رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ''اگر اس نے سچ کہا تو وہ ضرور جنت میں داخل ہوگا''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
5-بَابُ الْبَيْعَةِ عَلَى الصَّلَوَاتِ الْخَمْسِ
۵-باب: پانچوں صلاتوں پر بیعت کرنے کابیان​


461- أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ مَنْصُورٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو مُسْهِرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عَبْدِالْعَزِيزِ، عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ أَبِي إِدْرِيسَ الْخَوْلانِيِّ، عَنْ أَبِي مُسْلِمٍ الْخَوْلانِيِّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي الْحَبِيبُ الأَمِينُ عَوْفُ بْنُ مَالِكٍ الأَشْجَعِيُّ، قَالَ: كُنَّا عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ: " أَلا تُبَايِعُونَ رَسُولَ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؟ " فَرَدَّدَهَا ثَلاثَ مَرَّاتٍ، فَقَدَّمْنَا أَيْدِيَنَا، فَبَايَعْنَاهُ، فَقُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ! قَدْ بَايَعْنَاكَ فَعَلامَ؟ قَالَ: " عَلَى أَنْ تَعْبُدُوا اللَّهَ، وَلا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا، وَالصَّلَوَاتِ الْخَمْسِ - وَأَسَرَّ كَلِمَةً خَفِيَّةً - أَنْ لا تَسْأَلُوا النَّاسَ شَيْئًا "
* تخريج: م/الزکاۃ ۳۵ (۱۰۴۳) مطولاً، د/الزکاۃ ۲۷ (۱۶۴۲) مطولاً، ق/الجہاد ۴۱ (۲۸۶۷) مطولاً، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۹۱۹) (صحیح)
۴۶۱- عوف بن مالک اشجعی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے پاس تھے، آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ''کیا تم لوگ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سے بیعت نہیں کرو گے؟ ''آپ نے اس بات کو تین مرتبہ دہرایا، تو ہم سب نے اپنا ہاتھ بڑھایا، اور آپ سے بیعت کی، پھر ہم نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم نے آپ سے بیعت تو کر لی، لیکن یہ بیعت کس چیز پرہے؟ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: '' یہ بیعت اس بات پرہے کہ تم اللہ کی عبادت کرو گے، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرو گے، پانچوں صلاتیں ادا کرو گے''، اور آپ نے ایک اور بات آہستہ سے کہی کہ'' لوگوں سے کچھ مانگو گے نہیں''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
6-بَاب الْمُحَافَظَةِ عَلَى الصَّلَوَاتِ الْخَمْسِ
۶-باب: پانچوں صلاتوں کی محافظت کا بیان​


462- أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يَحْيَى بْنِ حَبَّانَ، عَنْ ابْنِ مُحَيْرِيزٍ أَنَّ رَجُلا مِنْ بَنِي كِنَانَةَ- يُدْعَى: الْمُخْدَجِيَّ -سَمِعَ رَجُلا بِالشَّامِ- يُكْنَى: أَبَا مُحَمَّدٍ- يَقُولُ: الْوِتْرُ وَاجِبٌ، قَالَ الْمُخْدَجِيُّ: فَرُحْتُ إِلَى عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ، فَاعْتَرَضْتُ لَهُ وَهُوَ رَائِحٌ إِلَى الْمَسْجِدِ، فَأَخْبَرْتُهُ بِالَّذِي قَالَ أَبُو مُحَمَّدٍ، فَقَالَ عُبَادَةُ: كَذَبَ أَبُو مُحَمَّدٍ، سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " خَمْسُ صَلَوَاتٍ كَتَبَهُنَّ اللَّهُ عَلَى الْعِبَادِ، مَنْ جَائَ بِهِنَّ لَمْ يُضَيِّعْ مِنْهُنَّ شَيْئًا اسْتِخْفَافًا بِحَقِّهِنَّ كَانَ لَهُ عِنْدَ اللَّهِ عَهْدٌ أَنْ يُدْخِلَهُ الْجَنَّةَ، وَمَنْ لَمْ يَأْتِ بِهِنَّ، فَلَيْسَ لَهُ عِنْدَ اللَّهِ عَهْدٌ، إِنْ شَائَ عَذَّبَهُ وَإِنْ شَائَ أَدْخَلَهُ الْجَنَّةَ "
* تخريج: د/الصلاۃ ۳۳۷ (۱۴۲۰)، ق/إقامۃ ۱۹۴ (۱۴۰۱)، (تحفۃ الأشراف: ۵۱۲۲)، ط/صلاۃ اللیل ۳/۱۴ (۱۴)، حم۵/۳۱۵، ۳۱۹، ۳۲۲، دي/الصلاۃ ۲۰۸ (۱۶۱۸) (صحیح)
۴۶۲- ابن محریز سے روایت ہے کہ بنی کنانہ کے ایک آدمی نے جسے مخد جی کہا جاتا تھا شام میں ایک آدمی کو جس کی کنیت ابو محمد تھی کہتے سنا کہ وتر واجب ہے، مخد جی کہتے ہیں: تومیں عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کے پاس گیا، اور میں نے مسجد جاتے ہوئے انہیں راستے ہی میں روک لیا، اور انہیں ابو محمد کی بات بتائی، تو عبادہ رضی اللہ عنہ نے کہا: ابو محمد نے جھوٹ کہا ہے، میں نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: '' اللہ نے اپنے بندوں پر پانچ صلاتیں فرض کی ہیں، جو انہیں ادا کرے گا، اور ان میں سے کس کو ہلکا سمجھتے ہوئے ضائع نہیں کرے گا، تو اللہ کا اس سے پختہ وعدہ ہے کہ وہ اسے جنت میں داخل کرے گا، اور جس نے انہیں ادا نہیں کیا تو اللہ کا اس سے کوئی وعدہ نہیں ہے، اگر چاہے تو اسے عذاب دے، اور چاہے تو اسے جنت میں داخل کرے''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
7- فَضْلُ الصَّلَوَاتِ الْخَمْس
۷-باب: پنج وقتہ صلاتوں کی فضیلت کا بیان​


463- أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنِ ابْنِ الْهَادِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " أَرَأَيْتُمْ لَوْ أَنَّ نَهَرًا بِبَابِ أَحَدِكُمْ يَغْتَسِلُ مِنْهُ كُلَّ يَوْمٍ خَمْسَ مَرَّاتٍ، هَلْ يَبْقَى مِنْ دَرَنِهِ شَيْئٌ؟ " قَالُوا: لاَ يَبْقَى مِنْ دَرَنِهِ شَيْئٌ، قَالَ: " فَكَذَلِكَ مَثَلُ الصَّلَوَاتِ الْخَمْسِ، يَمْحُو اللَّهُ بِهِنَّ الْخَطَايَا "
* تخريج: خ/مواقیت ۶ (۵۲۸)، م/المساجد ۵۱ (۶۶۷)، ت/الأمثال ۵ (۲۸۶۸)، (تحفۃ الأشراف: ۱۴۹۹۸)، حم ۲/۳۷۹، ۴۲۶، ۴۲۷، ۴۴۱، دي/الصلاۃ ۱/۱۲۲۱ (صحیح)
۴۶۳- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ''تم لوگوں کا کیا خیال ہے کہ اگر کسی کے دروازے پر کوئی نہر ہو جس سے وہ ہر روز پانچ مرتبہ غسل کرتا ہو، کیا اس کے جسم پر کچھ بھی میل باقی رہے گا''، لوگوں نے کہا: کچھ بھی میل باقی نہیں رہے گا، آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ''تو اسی طرح پانچوں صلاتوں کی مثال ہے، اللہ تعالیٰ ان کی وجہ سے گناہوں کو مٹا دیتا ہے '' ۱؎۔
وضاحت ۱؎: لیکن شرط یہ ہے کہ ان صلاتوں کو سنت کے مطابق خشوع وخضوع کے ساتھ ادا کیا جائے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
8- بَاب الْحُكْمِ فِي تَارِكِ الصَّلاَةِ
۸-باب: تارک صلاۃ کاحکم​


464- أخْبَرَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ، قَالَ: أَنْبَأَنَا الْفَضْلُ بْنُ مُوسَى، عَنِ الْحُسَيْنِ بْنِ وَاقِدٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " إِنَّ الْعَهْدَ الَّذِي بَيْنَنَا وَبَيْنَهُمْ الصَّلاةُ، فَمَنْ تَرَكَهَا فَقَدْ كَفَرَ "
* تخريج: ت/الإیمان ۹ (۲۶۲۱)، ق/إقامۃ ۷۷ (۱۰۷۹)، (تحفۃ الأشراف: ۱۹۶۰)، حم۵/۳۴۶، ۳۵۵ (صحیح)
۴۶۴- بریدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ''ہمارے اور منافقوں کے درمیان جو (فرق کر نے والا) عہد ہے، وہ صلاۃ ہے، تو جو اسے چھوڑ دے گا، کافر ہو جائے گا '' ۱؎۔
وضاحت ۱؎: جمہور کے نزدیک یہ حکم ایسے شخص کے لئے ہے جو صلاۃ کے ترک کو حلال سمجھے، اور جو شخص محض سستی کی وجہ سے اسے چھوڑ دے تو وہ کافر نہیں ہوتا، لیکن صحابہ ٔکرام سے لے کر آج تک کے بہت سے محققین کے نزدیک صلاۃ کی فرضیت کے عدم انکار کے باوجود عملاً چھوڑ دینے والا بھی کافرہے، دیکھئے اس موضوع پر عظیم کتاب ''تعظيم قدر الصلاة'' مؤلفہ امام محمد بن نصر مروزی (تحقیق دکتور عبدالرحمن الفریوائی)، اور تارک صلاۃ کا حکم'' تصنیف شیخ ابن عثیمین (ترجمہ: دکتور عبدالرحمن الفریوائی)۔


465- أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَبِيعَةَ، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " لَيْسَ بَيْنَ الْعَبْدِ وَبَيْنَ الْكُفْرِ إِلا تَرْكُ الصَّلاةِ "
* تخريج: م/الإیمان ۳۵ (۸۲)، (تحفۃ الأشراف: ۲۸۱۷)، وقد أخرجہ: د/السنۃ ۱۵ (۴۶۷۸)، ت/الإیمان ۹ (۲۶۲۰)، ق/إقامۃ ۷۷ (۱۰۷۸)، حم۳/۳۷۰، ۸۹ (صحیح)
۴۶۵- جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: '' بندے اور کفر کے درمیان سوائے صلاۃ چھوڑ دینے کے کوئی اور حد فاصل نہیں ''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
9-بَاب الْمُحَاسَبَةِ عَلَى الصَّلاةِ
۹-باب: صلاۃ پر محاسبہ ہونے کا بیان​


466- أَخْبَرَنَا أَبُو دَاوُدَ، قَالَ: حَدَّثَنَا هَارُونُ - هُوَ ابْنُ إِسْمَاعِيلَ الْخَزَّازُ - قَالَ: حَدَّثَنَا هَمَّامٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ الْحَسَنِ، عَنْ حُرَيْثِ بْنِ قَبِيصَةَ، قَالَ: قَدِمْتُ الْمَدِينَةَ، قَالَ: قُلْتُ: اللَّهُمَّ يَسِّرْ لِي جَلِيسًا صَالِحًا، فَجَلَسْتُ إِلَى أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: فَقُلْتُ: إِنِّي دَعَوْتُ اللَّهَ -عَزَّ وَجَلَّ- أَنْ يُيَسِّرَ لِي جَلِيسًا صَالِحًا، فَحَدِّثْنِي بِحَدِيثٍ سَمِعْتَهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَعَلَّ اللَّهَ أَنْ يَنْفَعَنِي بِهِ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: "إِنَّ أَوَّلَ مَا يُحَاسَبُ بِهِ الْعَبْدُ بِصَلاتِهِ، فَإِنْ صَلَحَتْ، فَقَدْ أَفْلَحَ وَأَنْجَحَ، وَإِنْ فَسَدَتْ، فَقَدْ خَابَ وَخَسِرَ " قَالَ هَمَّامٌ: لاَ أَدْرِي هَذَا مِنْ كَلامِ قَتَادَةَ أَوْ مِنْ الرِّوَايَةِ " فَإِنْ انْتَقَصَ مِنْ فَرِيضَتِهِ شَيْئٌ، قَالَ: " انْظُرُوا هَلْ لِعَبْدِي مِنْ تَطَوُّعٍ؟ فَيُكَمَّلُ بِهِ مَا نَقَصَ مِنْ الْفَرِيضَةِ، ثُمَّ يَكُونُ سَائِرُ عَمَلِهِ عَلَى نَحْوِ ذَلِكَ " ٭خَالَفَهُ أَبُو الْعَوَّامِ .
* تخريج: ت/الصلاۃ ۱۸۹ (۴۱۳)، حم۲/۴۲۵، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۲۳۹) وقد أخرجہ: ق/إقامۃ الصلاۃ ۲۰۲ (۱۴۲۵) (صحیح)
۴۶۶- حریث بن قبیصہ کہتے ہیں کہ میں مدینہ آیا، وہ کہتے ہیں: میں نے دعا کی اے اللہ! مجھے کوئی نیک ہم نشیں عنایت فرما، تو مجھے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی ہم نشینی ملی، وہ کہتے ہیں: تومیں نے ان سے کہا کہ میں نے اللہ عزوجل سے دعا کی تھی کہ مجھے ایک نیک ہم نشیں عنایت فرما تو (مجھے آپ ملے ہیں)آپ مجھ سے کوئی حدیث بیان کیجیے جسے آپ نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سے سنی ہو، ہو سکتا ہے اللہ اس کے ذریعہ مجھے فائدہ پہنچائے، انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: '' (قیامت کے دن)بندے سے سب سے پہلے اس کی صلاۃ کے بارے میں بازپرس ہوگی، اگر یہ درست ہوئی تو یقینا وہ کامیاب وکامراں رہے گا، اور اگر خراب رہی تو بلاشبہ ناکام ونامراد رہے گا''، راوی ہمام کہتے ہیں: مجھے نہیں معلوم یہ قتادہ کی بات ہے یا روایت کا حصہ ہے، اگر اس کے فرائض میں کوئی کمی رہی تو اللہ فرمائے گا: ''دیکھو میرے بندے کے پاس کوئی نفل ہے؟ (اگر ہو تو) ۱؎ فرض میں جو کمی ہے اس کے ذریعہ پوری کر دی جائے، پھر اس کا باقی عمل بھی اسی طرح ہوگا''۔
٭راوی ابوالعوام نے (جو اگلی سند میں ہیں)ہمام کی مخالفت کی ہے ۱؎۔
وضاحت ۱؎: مخالفت اس طرح ہے کہ ہمام نے اسے بطریق قتادہ عن الحسن عن حریث عن ابی ہریرہ، اور ابوالعوام نے بطریق قتادہ عن الحسن عن ابی رافع عن ابی ہریرہ روایت کیا ہے۔


467- أَخْبَرَنَا أَبُو دَاوُدَ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعَيْبٌ - يَعْنِي: ابْنَ بَيَانِ بْنِ زِيَادِ بْنِ مَيْمُونٍ - قَالَ: كَتَبَ عَلِيُّ بْنُ الْمَدِينِيِّ عَنْهُ، قَالَ: أَخْبَرَنَا أَبُو الْعَوَّامِ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ الْحَسَنِ، عَنْ أَبِي رَافِعٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ النَّبِيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " إِنَّ أَوَّلَ مَا يُحَاسَبُ بِهِ الْعَبْدُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ صَلاتُهُ، فَإِنْ وُجِدَتْ تَامَّةً كُتِبَتْ تَامَّةً، وَإِنْ كَانَ انْتُقِصَ مِنْهَا شَيْئٌ قَالَ: انْظُرُوا هَلْ تَجِدُونَ لَهُ مِنْ تَطَوُّعٍ، يُكَمِّلُ لَهُ مَا ضَيَّعَ مِنْ فَرِيضَةٍ مِنْ تَطَوُّعِهِ؟، ثُمَّ سَائِرُ الأَعْمَالِ تَجْرِي عَلَى حَسَبِ ذَلِكَ "
* تخريج: تفرد بہ النسائی، (تحفۃ الأشراف: ۱۴۶۶۰)، حم۴/۱۰۳ (صحیح)
۴۶۷- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ''قیامت کے دن سب سے پہلے بندہ سے اس کی صلاۃ کے بارے میں باز پرس ہوگی، اگر وہ پوری ملی تو پوری لکھ دی جائے گی، اور اگر اس میں کچھ کمی ہوئی تو اللہ تعالیٰ کہے گا: دیکھو تم اس کے پاس کوئی نفل پا رہے ہو کہ جس کے ذریعہ جو فرائض اس نے ضائع کئے ہیں اسے پورا کیا جا سکے، پھر باقی تمام اعمال بھی اسی کے مطابق جاری ہوں گے''۔


468 -أَخْبَرَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا النَّضْرُ بْنُ شُمَيْلٍ، قَالَ أَنْبَأَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ الأَزْرَقِ بْنِ قَيْسٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ يَعْمَرَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " أَوَّلُ مَا يُحَاسَبُ بِهِ الْعَبْدُ صَلاتُهُ، فَإِنْ كَانَ أَكْمَلَهَا وَإِلاَّ قَالَ اللَّهُ- عَزَّوَجَلَّ-: انْظُرُوا لِعَبْدِي مِنْ تَطَوُّعٍ؟، فَإِنْ وُجِدَ لَهُ تَطَوُّعٌ، قَالَ: أَكْمِلُوا بِهِ الْفَرِيضَةَ "
* تخريج: تفرد بہ النسائی، (تحفۃ الأشراف: ۱۴۸۱۸)، حم۴/۱۰۳ (صحیح)
۴۶۸- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ''سب سے پہلے بندہ سے صلاۃ کی باز پرس ہوگی، اگر اس نے اسے پورا کیا ہے (تو ٹھیک ہے) ورنہ اللہ عزوجل فرمائے گا: دیکھو میرے بندے کے پاس کوئی نفل ہے؟ اگر اس کے پاس کوئی نفل ملا تو فرمائے گا: اس کے ذریعہ فرض پورا کر دو ''۔
 
Top