• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سوال : عورت کا نماز میں پیر ڈھانکنے کے متعلق

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
عورت پیر ڈھانکے بغیر نماز پڑھتی ہے تو کیا اسکی نماز میں کوئی نقص واقع ہوگا؟
جزاکم اللہ خیرا
وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ
نماز میں عورت کے پاؤں ڈھانپنے کے متعلق اہل علم کے دو قول ہیں ؛
ایک قول قدم ڈھانپنے کے وجوب کا ہے ، اور دوسرا عدم وجوب کا ۔۔۔۔
نماز میں پاؤں ڈھانپنے کے وجوب کے قائلین میں سعودی عرب کے مشہور محقق عالم علامہ عبدالعزیز بن بازؒ بھی شامل ہیں ،
ان کا فتویٰ ہے کہ :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال
حكم تغطية المرأة قدميها في الصلاة
هل هناك دليل على وجوب تغطية المرأة لقدميها في الصلاة ؟.
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
الجواب
الحمد لله
الواجب على المرأة الحرّة المكلفة ستر جميع بدنها في الصلاة ما عدا الوجه و الكفين لأنها عورة كلها (۱) ، فإن صلت و قد بدا شيء من عورتها كالساق والقدم والرأس أو بعضه لم تصح صلاتها لقول النبي صلى الله عليه و سلم : " لا يقبل الله صلاة حائض إلا بخمار " رواه أحمد وأهل السنن إلا النسائي بإسناد صحيح .

و لما روى أبو داود عن أم سلمة عن النبي صلى الله عليه و سلم أنها سألت النبي عن المرأة تصلي في درع و خمار بغير إزار فقال : " المرأة عورة " (۲)

وأما الوجه فالسنّة كشفه في الصلاة ، إذا لم يكن هناك أجانب ، أما القدمان فالواجب سترهما عند جمهور أهل العلم ، وبعض أهل العلم يسامح في كشف القدمين ، ولكن الجمهور يرون المنع ، وأن الواجب سترهما ولهذا روى أبو داود عن أم سلمة - رضي الله عنها - أنها سئلت عن المرأة تصلي في خمار وقميص ، قالت " لا بأس إذا كان الدرع يغطي قدميها " فستر القدمين أولى وأحوط بكل حال ، أما الكفان فأمرهما أوسع إن كشفتهما فلا بأس ، وإن سترتهما فلا بأس ، وبعض أهل العلم يرى أن سترهما أولى والله ولي التوفيق

فتاوى المرأة المسلمة للشيخ عبد العزيز بن باز ص: 57.

https://islamqa.info/ar/1046
ترجمہ :
سوال : ۔کیا نماز میں عورت کے پاؤں ڈھانپنے کے واجب ہونے کی کوئی دلیل ہے ؟
الجواب :
سب تعریفیں اللہ ہی کیلئے ہیں ،آزاد ، مکلف عورت پر نماز میں اپنا تمام جسم سوائے چہرے اور ہتھیلیوں کے ڈھانپنا واجب ہے ،
اور اگر نماز میں اس کے جسم کا کوئی قابل ستر حصہ جیسے پنڈلی ، قدم ، یا سر وغیرہ میں سے کچھ ننگا رہ گیا تو اس کی نماز صحیح نہیں ہوگی ۔
کیونکہ ، ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بالغہ عورت کی نماز بغیر اوڑھنی کے اللہ تعالیٰ قبول نہیں کرتا“۔ (سنن ابوداود ۶۴۱ ،سنن الترمذی/الصلاة ۱۶۰ (۳۷۷)، سنن ابن ماجہ/الطھارة ۱۳۲ (۶۵۵)
اور امام ابوداود نے ام المؤمنین سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت نقل فرمائی ہے کہ انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: کیا عورت کرتہ اور اوڑھنی میں جب کہ وہ ازار (تہبند) نہ پہنے ہو، نماز پڑھ سکتی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(پڑھ سکتی ہے ، جبکہ اس کا ستر مکمل ہو) اور عورت مکمل چھپانے کی چیز ہے “۔
اور (دوران نماز ) چہرے کو کھلا رکھنا سنت سے ثابت ہے ، اگر وہاں کوئی غیر مرد نہ ہو ۔ اور جمہور کے نزدیک دونوں قدموں کو ڈھانپنا واجب ہے ، جبکہ بعض اہل علم ستر قدم میں نرمی کا رویہ رکھتے ہیں ( یعنی واجب نہیں کہتے )
لیکن جمہور نماز میں عورت کے پاؤں ننگے کرنے سے روکتے ہیں ، اور انکے ستر کو ضروری سمجھتے ہیں ، اور اس قول کی دلیل سنن ابوداود کی وہ روایت ہے جس میں :
ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: کیا عورت کرتہ اور اوڑھنی میں جب کہ وہ ازار (تہبند) نہ پہنے ہو، نماز پڑھ سکتی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(پڑھ سکتی ہے) جب کرتہ اتنا لمبا ہو کہ اس کے دونوں قدموں کے اوپری حصہ کو ڈھانپ لے“۔
سو بہتر اور احتیاط والا عمل یہی ہے کہ قدموں کو ہر حال میں ڈھانپا جائے ، اور ہتھیلیوں کے بارے میں آسانی ہے اگر بےپردہ ہوں تب بھی ٹھیک ہے اور اگر پردہ میں ہوں تو بھی جائز ہے ۔ انتہی

( لیکن یہ حدیث ضعیف ہے کیونکہ ::
امام ابوداؤد کہتے ہیں: اس حدیث کو مالک بن انس، بکر بن مضر، حفص بن غیاث، اسماعیل بن جعفر، ابن ابی ذئب اور ابن اسحاق نے محمد بن زید سے، محمد بن زید نے اپنی والدہ سے، اور محمد بن زید کی والدہ نے ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت کیا ہے، لیکن ان میں سے کسی نے بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر نہیں کیا ہے، بلکہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا پر ہی اسے موقوف کر دیا ہے۔

تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبله، (تحفة الأشراف: ۱۸۲۹۱) (ضعیف) (مذکورہ سبب سے یہ مرفوع حدیث بھی ضعیف ہے​

قال الشيخ زبیر علی زئی في انوار الصحیفة فی احادیث ضعیفة من السنن الاربعة:
إسناده ضعيف ¤ أم محمد مجھولة الحال ، انظر الحديث السابق : 639


ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ۔
اس کے مقابل دوسرا فتوی پاؤں ڈھانپنے کے غیر واجب ہونے کا ہے
علامہ محمد بن صالح العثیمینؒ کا فتوی ملاحظہ فرمائیں :

حكم كشف المرأة كفيها وقدميها في الصلاة
سوال :
ما حكم ظهور القدمين والكفين من المرأة في الصلاة، مع العلم أنها ليست أمام رجال ولكن في البيت؟
ــــــــــــــــــــــــــــــــــ
جواب :
المشهور من مذهب الحنابلة - رحمهم الله - أن المرأة البالغة الحرة كلها عورة في الصلاة إلا وجهها، وعلى هذا فلا يحل لها أن تكشف كفيها وقدميها. وذهب كثير من أهل العلم إلى جواز كشف المرأة كفيها وقدميها. والاحتياط أن تتحرز المرأة من ذلك، لكن لو فرض أن امرأة فعلت ثم جاءت تستفتي فإن الإنسان لا يجرؤ أن يأمرها بالإعادة.
الشيخ ابن عثيمين

ترجمہ :
عورت کا نماز میں اپنے ہاتھوں اور پاؤں کو ننگا کرنا
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اگر نماز میں عورت کے دونوں ہاتھ اور پاؤں ننگے ہوں تو اس کا کیا حکم ہے ۔جب کہ وہاں کوئی نہ ہو اور عورت اپنے گھر میں نماز ادا کررہی ہو؟

الجواب ــــــــــــــــــــــ​

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
حنابلہ ۔کے مذہب میں مشہور قول یہ ہے کہ نماز میں آزاد اور بالغ عورت کا چہرے کے سوا سارا جسم پردہ ہے۔ لہذا اس کے لئے ہاتھوں اور پاؤں کو ننگاکرنا جائز نہیں لیکن بہت سے اہل علم کا مذہب یہ ہے کہ عورت کے لئے نماز میں ہاتھوں اور پاؤں کو ننگا رکھنا جائز ہے۔جب کہ احتیاط اسی میں ہے کہ اس سے پرہیز کیا جائے۔ لیکن فرض کیا کہ اگر عورت نے نماز میں اپنے ہاتھوں اور پاؤں کو ننگا کرلیا اور پھر وہ اس سلسلے میں فتویٰ طلب کرے تو کوئی انسان یہ نہیں کہہ سکتا کہ وہ اپنی نماز کو دوہرائے۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
فتاویٰ اسلامیہ
ج1ص381
محدث فتویٰ​
 
Top