• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سود ایک جنگ اللہ اور اس کے رسول کے خلاف !

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
سودی نظام سے اہلیان اسلام کی جان کب چھوٹے گی؟؟
  • گزشتہ دنوں برادرم انصار عباسی نے سود کےخلاف یکے بعد دیگرے کئی کالم لکھے۔ ان کالموں میں وزیر اعظم نواز شریف سے درخواست کی گئی ہے کہ سودی نظام سے پاکستانی عوام کی جان چھڑائیں۔ میاں صاحب کی حکومت وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ گئی تھی اور آج برسہابرس گزر جانے کے باوجود عدالت عظمیٰ نے ا س کیس کا فیصلہ نہیں سنایا۔ عباسی صاحب کی توقع ہے کہ مسلم لیگ (ن) اپنی غلطی سے رجوع کرے گی اور ان کی تحریر کے مطابق انہیں حکوت سے مثبت پیغام بھی ملا ہے۔
  • قرآن کہتا ہے کہ سود اللہ اور اللہ کے رسولۖ کے ساتھ اعلانیہ جنگ ہے لیکن کیا وجہ ہے کہ تمام مسلمان ممالک سود سے پاک مالیاتی نظام وضع کرنے میں ابھی تک ناکام ہیں؟ یہ درست ہے کہ مسلمان ممالک کو دور غلامی سے آزاد ہوئے زیادہ عرصہ نہیں گزرا اور ابھی ٹرانزیشن کا دور چل رہا ہے جس میں فوری طور پر یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ سرمایہ داری نظام کا متبادل نظام جلد قائم ہو جائے گا۔ خاص طور پر ایسے وقت جب معیشت پر مغربی طاقتوں کی ابھی بھی اجارہ داری قائم ہے اور وہی ساری دنیا کی معیشت کو چلا رہے ہیں کوئی مسلمان ملک دنیا سے الگ تھلگ ہوکر اپنے معاملات ظاہر ہے نہیں چلاسکتا لیکن دوسری طرف ہمیں قرآن و سنت کے احکامات کی طرف جلد لوٹنا ہے۔ بانی پاکستان نے سٹیٹ بینک آف پاکستان کے افتتاح کے موقع پر واضح کہا تھا کہ مغرب کا سرمایہ داری نظام ان وعدوں کی تکمیل میں معاون نہیں ہوسکتا جو ہم نے ایک نئے وطن کے قیام کیلئے مسلمانان برصغیر سے کیے تھے۔ پاکستان دوسرے اسلامی ممالک کی طرح کاایک عام ملک نہیں ہے یہ اسلام کے نظریے پر وجود میں آیا اور اس کے قیام کا مقصد اسلامی تعلیمات کے مطابق ایک ماڈل اسلامی ملک بنانا تھا۔ اس لحاظ سے پاکستان کی حکومت پر دوسرے مسلمان ممالک کی نسبت زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ سود سے پاک مالیاتی نظام وضع کرنے کی کوشش کرے گی تمام مسلمان ممالک میں سود سے چھٹکارے کی شدید خواہش پائی جاتی ہے اس لئے بالاتفاق ایک متبادل نظام وجود میں لایا جاسکتا ہے جس کو 57 مسلمان ممالک اختیار کرلیں تو دنیا کے مالیاتی سیٹ اپ میں یہ ایک بہت بڑا "اپ سیٹ" ہوگا جسے سرمایہ داری نظام کے وارث بہ امر مجبوری قبول کرلیں گے۔

  • بدقسمتی یہ ہے کہ سودی نظام کے خاتمے کیلئے پاکستان میں حکومتی سطح پر ابھی تک کوئی سنجیدہ کوشش نہیں ہوئی۔ "سود سے پاک بینکاری" بھی محض نام کی حد تک ہی رہی ہے۔ حال ہی میں مولانا تقی عثمانی صاحب کی معاونت سے ایک بینک پاکستان میں قائم ہوا ہے جس کا دعویٰ ہے کہ وہ سود سے حقیقتاً پاک نظام کے تحت معاملات چلا رہا ہے۔

  • جہاں تک میری معلومات ہیں ان کے مطابق مجھے نام کی حد تک ہی چیزیں مختلف لگ رہی ہیں ایک عام آدمی کی حیثیت سے مجھے اس بینک اور دوسرے کسی بینک کے مالی معاملات میں کوئی خاص فرق محسوس نہیں ہوا لیکن خوشی یہ ہے کہ چلیں اس جانب کسی نے سنجیدہ کوشش تو کی ہے۔ رفتہ رفتہ چیزیں بہتری کی طرف بڑھیں گی۔ ایک شیڈول بینک سٹیٹ بینک آف پاکستان کی پالیسیوں اور مالیاتی ڈسپلن کے تحت ہی آپریٹ کرسکتا ہے' جب سٹیٹ بینک آف پاکستان کی پالیسیاں درست ہو جائیں گی تو نیچے بھی فرق پڑے گا۔ اصل کرنے والا کام حکومت کا ہے اور جب تک حکومت اصلاح احوال کیلئے مخلصانہ اقدامات نہیں اٹھاتی سب کچھ ویسے کا ویسا ہی رے گا۔ سود معاشرتی تباہی کا باعث ہے اس لئے اللہ کے رسولۖ نے اس سے سختی سے منع فرمایا ہے سود خودغرضی پر مبنی نظام ہے جو سنگ دلی سے مقروض سے رقم کی وصولی یقینی بناتا ہے۔ جبکہ اس کے مقابلے میں اسلام جس معاشی نظام کو قائم کرنا چاہتا ہے اس کی بنیادیں ہمدردی اور تعاون کے جذبات پر کھڑی ہیں۔

  • قرآن کی جس آیت مبارکہ میں سود خوروں کو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولۖ سے لڑائی کیلئے تیار ہو جانے کی بات کی گئی ہے اس سے اگلی آیت (سورہ بقرہ آیت نمبر280 ) میں اسلام کی ہمدردی و تعاون پر مبنی معاشی نظام کی ایک جھلک بیان فرمائی گئی ہے۔

"اور اگر کوئی تنگی والا ہو تو اسے آسانی تک مہلت دینی چاہیے اور صدقہ کرو تو تمہارے لئے بہت ہی بہتر ہے اگرتم میں علم ہو"۔
  • یعنی تنگ دست سے سود لینا تو درکنار اس سے اصل مال لینے میں بھی آسانی تک مہلت دینے کی بات کی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ اگر قرض بالکل ہی معاف کر دو تو زیادہ بہتر ہے۔ اب آپ دیکھئے کہ مملکت خداداد پاکستان میں کیا ہو رہا ہے؟ قرآن حکیم کے مطابق یہاں مجبور و تنگ دست کی امداد کی بجائے اس کے برعکس ہو رہا ہے۔ پہلے سے مجبور لوگوں پر مصیبتوں کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں اور ریاست خاموش تماشائی ہے۔

مصیبت بھی وہیں پر آتی ہے جہاں تنگ دستی ہو
یہ بلا بھی بے کسوں کو اور کستی ہے

  • گزشتہ دنوں میرے پاس ایک خاتون تشریف لائیں جس نے معاشی مجبوریوں کے پیش نظر کچھ رقم ایک سود خور سے قرض لی تھی۔ رقم واپس لوٹانے کیلئے کوئی آمدن نہ تھی اور سود خور ہر ماہ دروازے پر دستک دینے پہنچ جاتا تھا۔ ایک آدھ مہینے کے بعد بات دستک تک محدود نہ رہی بلکہ بچوں کو اٹھانے کی دھمکیاں بھی ملنا شروع ہوگئیں۔ اس سود خور سے جان چھڑانے کیلئے اس خاتون نے سلائی کڑھائی کے نام پر گھریلو خواتین کو چھوٹے قرضے دینے والے اداروں سے رجوع کیا اور ایک ایک کرکے چار اداروں سے رقم لی اور اسے سودخور کے حوالے کیا مگر یہ رقم سودخور سے جان چھڑانے میں ناکافی ثابت ہوئی۔ جن چار اداروں سے خاتون نے رقم لی وہ این آر ایس پی فرسٹ مائیکرو فنانس بینک ' نیشنل رورل سپورٹ پروگرام (شہری غربت کے خاتمے کا پروگرام) اور اصلاح فائونڈیشن ہیں۔ ان میں اصلاح فائونڈیشن واحد ادارہ ہے جس نے سود کے بغیر قرضہ دیا ہے اور یہ وصولی کیلئے تنگ بھی نہیں کرتے باقی ادارے "سود خور سے زیادہ "وصولی" میں کرخت نکلے ہیں۔ وہ سود خور شخص کی طرح گھر کا سامان اٹھانے کی خاتون کو دھمکیاں دیتے ہیں۔ خاتون نے ان اداروں سے رقم لیکر سود خور سے بچنے کی کوشش کی مگر اب دو جگہوںپر پھنس گئی ہے۔ کیا ریاست ان سودخوروں سے شہریوں کی جان نہیں چھڑاسکتی؟؟ کتنے ہی تنگ دست ہیں جو ان سودخوروں کے چنگل میں بری طرح پھنسے ہوئے ہیں۔ ریاست کو ان بے کسوں کی مدد کیلئے فوری طور پر آگے بڑھنا چاہیے۔ ریاست خاموش تماشائی رہی تو ظالموں کے ہاتھ کون روکے گا اور مظلوم کی دادرسی کیسے ممکن ہوگی۔

http://www.dailyausaf.com/2013/07/سودی-نظام-سے-اہلیان-اسلام-کی-جان-کب-چھوٹ/
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
سيونگ اكاؤنٹ ميں شراكت اور كام كرنے كا حكم !!!

ميں اس وقت محكمہ ڈاك ميں ملازم ہوں، محكمہ كا كپيوٹر آپريٹر ہوں، ڈاكخانہ اپنے پاس سيونگ اكاؤنٹ كے كھاتہ داروں كو سالانہ نفع اس اساس پر ديتا ہے كہ اس كے پاس رقم ركھنے والوں كا مال حكومتى نظام كے مطابق بنك ميں سرمايہ كارى كے ليے ديا جاتا ہے، اور بنك صرف حكومت كے ساتھ ہى حكومتى منصوبہ جات مكمل كرنے كا لين دين كرتا ہے يا پھر بنكوں اور سركارى محكموں كو قرض ديتا ہے، اور پھر وہ مال محدد كردہ نفع كے حساب سے واپس ڈاكخانہ ميں ہميں مل جاتا ہے، اور ہم بنك كے مقرر كردہ نفع كے مطابق رقم ركھنے والوں كو فائدہ ديتے ہيں، اور ڈاكخانہ اپنى كميش ركھتا ہے.

بہر حال ميرا كام يہ ہے كہ كھاتہ داروں كے مال كا حساب و كتاب اور اس كے جمع كرنے نكلوانے كے چيك اور واؤچر كمپيوٹر ميں فيڈ كرنا ہے، جس كے مطابق ہم ہر برس جولائى ميں كھاتہ داروں كے اكاؤنٹ ميں فائدہ جمع كرتے ہيں، اور اس كمپيوٹر كو اپنى دفترى كام ميں بھى مثلا كھاتہ داروں كا حساب چيك كرنے ميں بھى استعمال كرتے ہيں، تو كيا ميں سود كا لين دين لكھنے والوں ميں تو شامل نہيں ہوتا، اور كيا ڈاكخانہ كے فوائد حلال ہيں يا حرام ؟

يہ علم ميں رہے كہ ہم قرض نہيں ديتے، الحمد للہ سيونگ ميں سے ہى ڈاكخانہ كا نوے فيصد خرچ ہوتا ہے، تو كيا ميں اپنى ملازمت ترك كردوں يا كہ ميں كسى اور قسم اور دفتر ميں منتقل ہو جاؤں، يا مجھ پر كوئى حرج نہيں ؟


الحمد للہ:

اول:

دو چيزوں كى بنا پر سيونگ اكاؤنٹ نامى اكاؤنٹ ميں رقم ركھنى حرام ہے:

پہلى:

يہ ايسا معاہدہ ہے جس ميں راس المال پر فكس تناسب سے نفع ديا جاتا ہے، اور پھر راس المال كے ضائع نہ ہونے كى ضمانت بھى ہوتى ہے.

جو درحقيقت فائدہ پر قرض دينا ہے، اور علماء كرام كا اجماع ہے كہ ہر وہ قرض جو نفع لائے وہ سود ہے، اور يہاں قرض دينے والا كھاتہ دار ہے، اور قرض لينے والا اس اكاؤنٹ كو كھولنے والا ( يعنى ڈاكخانہ ) ہے.

ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" اور ہر وہ قرض جس ميں زيادہ ہونے كى شرط لگائى جائے وہ بغير كسى اختلاف كے حرام ہے.

ابن منذر رحمہ اللہ كہتے ہيں:

سب علماء اس پر جمع ہيں كہ ادھار دينے والا جب ادھار لينے والے پر يہ شرط ركھے كہ وہ زيادہ دےگا، يا ہديہ دےگا، اور اس شرط پر رقم ادھار دے تو اس رقم سے زيادہ لينا سود ہے.

اور بيان كيا جاتا ہے كہ: ابى بن كعب، اور ابن عباس، اور ابن مسعود رضى اللہ تعالى عنہم نے ہر اس قرض سے منع كيا ہے جو نفع لائے "

ديكھيں: المغنى ابن قدامہ ( 6 / 436 ).

دوسرى:

ڈاكخانہ اس كے پاس رقم جمع كرانے والوں كى رقم سودى بنكوں ميں ركھتا اور اس پر فكس اور معلوم تناسب سے نفع لے كر اس كا كچھ حصہ كھاتہ داروں ميں تقسيم كرتا ہے، اور يہ ايك اور سودى معاہدہ ہے جو ڈاكخانہ كر رہا ہے.

تو اس طرح پہلى صورت ميں ڈاكخانہ خود سود پر قرض ليتا ہے، اور دوسرى صورت ميں ڈاكخانہ سود پر قرض ديتا ہے، اور ان معاملات كى جانچ پركھ كرنے والے شخص پر اس كے يقينى حرام ہونے ميں كسى بھى قسم كا كوئى شك و شبہ نہيں رہتا، اور بلا شبہ اس ميں لكھنے، يا گواہى دينے يا كسى بھى صورت ميں اس كى معاونت كرنے كى ملازمت وغيرہ كرنا حرام ہے.

موسوعۃ فتاوى ازھر ميں درج ہے:

" شيخ الازہر جناب جاد الحق على جاد الحق رحمہ اللہ كے سامنے درج ذيل سوال پيش كيا گيا:

بنك يا كمپنيوں كو دى گئى رقم يا اس ميں سرمايہ كارى كردہ رقم پر بنك يا كمپينوں كى جانب سے ديے جانے والے فوائد كے متعلق كيا حكم ہے، آيا يہ سود شمار ہوتا ہے يا نہيں ؟


اس كے جواب ميں سود كى حرمت كے بيان ميں وارد شدہ دلائل اور نصوص بيان كرنے كے بعد درج ذيل كلام درج ہے:

" قرآن و سنت كى ان اور ان كے علاوہ دوسرى نصوص سے سود كى تمام قسموں كى حرمت ثابت ہوتى ہے، چاہے وہ اصل قرض پر زيادہ رقم لينے كى شكل ميں ہو، يا پھر قرض كى تاخير كے بدلے زيادہ رقم حاصل كى جائے، اور اس كى ادائيگى ميں تاخير ہونے پر، يا پھر معاہدہ ميں راس المال كى ضمانت كے ساتھ اس زيادہ فوائد كى شرط ركھى جائے، جب ايسا ہو اور جن فوائد كے متعلق دريافت كيا گيا ہے وہ بنكوں ميں ركھى جانے والى رقم كے معاہدہ جات ميں ہو، اور ڈاكخانہ اور بنكوں ميں سيونگ اكاؤنٹ ميں ركھى جانے والى رقم كے معاہدہ جات ميں، اور يہ رقم فائدہ پر قرض كے باب ميں ہو تو يہ زيادہ سود ( ربا الفضل ) يا فقھاء كے نام ميں زيادہ سود ہے جو كہ دين اسلام ميں قرآنى آيات اور احاديث نبويہ كى نصوص، اور مسلمانوں كے اجماع سے حرام ہے.

كسى بھى مسلمان شخص كے ليے اس كا لين دين كرنا جائز نہيں، اور نہ ہى وہ اس كا تقاضہ كر سكتا ہے، كيونكہ اس نے اللہ تعالى كے سامنے جواب دينا ہے كہ اس نے مال كہاں سے كمايا، اور كيسے خرچ كيا.

جيسا كہ ترمذى كى حديث ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

روز قيامت اس وقت تك آدمى كے قدم نہيں ہل سكتے جب تك اس سے اس كى عمر كے متعلق سوال نہ كر ليا جائے كہ اس نے عمر كيسے بسر كر، اور اس كے عمل كے متعلق سوال نہ كر ليا جائے كہ اس نے كيا عمل كيا، اور اس كے مال كے متعلق دريافت نہ كر ليا جائے كہ اس نے كہاں سے كمايا اور كہاں خرچ كيا، اور اس كے جسم كے متعلق دريافت نہ كر ليا جائے كہ اس نے اس كے ساتھ كيا كيا "


واللہ سبحانہ تعالى اعلم.

دوم:

سيونگ اكاؤنٹ كے كھاتہ داروں كا كمپيوٹر ميں حساب و كتاب ركھنا اور شامل كرنے كى ملازمت كرنا يہ سود لكھنے ميں شامل ہوتا ہے.

امام مسلم رحمہ اللہ نے صحيح مسلم ميں جابر رضى اللہ تعالى عنہ سے بيان كيا ہے كہ:

" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے سود كھانے، اور سود كھلانے، اور سود لكھنے، اور سود كى گواہى دينے والے دونوں گواہوں پر لعنت كى اور فرمايا: يہ سب برابر ہيں "

صحيح مسلم حديث نمبر ( 1598 ).

اس ليے آپ پر اس عمل سے توبہ كرنا اور اس ملازمت كو جتنى جلدى ہو سكے ترك كر كے كسى اور محكمہ ميں منتقل ہونا جو سود سے دور ہو لازم اور ضرورى ہے، يا پھر آپ يہ كام بالكل ہى ترك كر ديں، تا كہ اس عظيم فتہ اور گناہ ميں شامل نہ ہوں.

اور آپ كے علم ميں ہونا چاہيے كہ جو شخص بھى كوئى چيز اللہ تعالى كے ترك كرتا ہے اللہ تعالى اس كے بدلے ميں اسے اس بھى بہتر اور اچھى چيز عطا فرماتا ہے، اور جو شخص بھى اس كا تقوى اختيا كرتا ہے اللہ تعالى اسے اور بھى زيادہ ديتا ہے، اور اس پر انعام كرتا ہے، اور اسے روزى وہاں سے ديتا ہے جہاں سے اسے گمان بھى نہيں ہوتا.

اللہ تعالى كا فرمان ہے:

﴿ اور جو كوئى بھى اللہ تعالى كا تقوى اختيار كرتا ہے، اللہ تعالى اس كے ليے نكلنے كى راہ بنا ديتا ہے، اور اسے روزى بھى وہاں سے ديتا ہے جہاں سے اس كو وہم وگمان بھى نہيں ہوتا، اور جو كوئى اللہ تعالى پر توكل كرتا ہے اللہ تعالى اس كو كافى ہو جاتا ہے، يقينا اللہ تعالى اپنے كام كو پورا كرنے والا ہے، اور اللہ تعالى نے ہر چيز كا اندازہ مقرر كر ركھا ہے ﴾
الطلاق ( 2 - 3 ).

اللہ تعالى ہميں اور آپ كو ان اعمال كى توفيق نصب فرمائے جن ميں خير و بھلائى اور ہدايت و كاميابى ہے.

واللہ اعلم .

الاسلام سوال و جواب

http://islamqa.info/ur/97896
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
٭٭٭ سود کا ایک بڑا ، دروازہ ٭٭٭


1924963_754145097987095_3130148733864188780_n.jpg

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے اپنے کسی (مسلمان ) بھائی کی کوئی (جائز) سفارش کی اور اس نے (جس کی سفارش کی گئی) اِس سفارش کے بدلے میں سفارش کرنے والے کو کوئی چیز ہدیہ (تحفہ) میں دی اور اس (سفارش کرنے والے ) نے اِسے قبول کر لیا تو وہ سود کے دروازوں میں سے ایک بڑے دروازے میں داخل ہو گیا

-------------------------------------------------------------
(السلسلة الصحيحة : 3465 ، ، تخريج مشكاة المصابيح : 3683 ، ، صحيح الجامع : 6316 ، ، سنن أبي داود : 3541)
 
Top