• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سوره کہف میں ذی القرنین اور یاجوج ماجوج اور موسی و خضر کے واقعات ترتیب میں کیوں بیان ہوئے ہیں-

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,898
پوائنٹ
436

سوره کہف میں ذی القرنین اور یاجوج ماجوج اور موسی و خضر کے واقعات ترتیب میں کیوں بیان ہوئے ہیں، اس میں کیا حکمت ہے؟ کیا خضر زندہ ہیں؟ کیا کسی نے سد یاجوج ماجوج کو دیکھا ہے؟


جواب سوره کہف الله تعالی نے اہل کتاب کے کچھ سوالات کے جوابات کے سلسے میں نازل کی ہے

اہل کتاب کے سوالات تو ہم تک نہیں پہنچے لیکن تاریخ کی کتب میں اس پر کچھ وضاحت ملتی ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہود کا ان شخصیات و قوموں پر اختلاف تھا یہود کے نزدیک

اول موسی و خضر والے واقعہ میں موسی بن عمران علیہ السلام نہیں کوئی اور ہے

دوم خضر، ذی القرنین کے ساتھی تھے اور انہوں نے آب حیات پیا ہوا تھا

- سوم ذی القرنین پر بھی اختلاف ہے کہ کون ہے؟ بائبل میں ان کا تذکرہ نہیں ہے

چہارم یاجوج ماجوج کون ہیں ؟ حزقی ایل کی کتاب کے مطابق یاجوج ایک شخص ہے اور ماجوج قوم ہے

کتاب البدء والتاريخ از المطهر بن طاهر المقدسي (المتوفى: نحو 355هـ) کے مطابق

زعم وهب أن اسم الخضر بليا بن ملكان بن بالغ بن عابر بن ارفخشد بن سام بن نوح وكان أبوه ملكا وقال قوم الخضر بن عاميل من ولد إبراهيم وفي كتاب أبي حذيفة أن ارميا هو الخضر صاحب موسى وكان الله أخّر نبوّته إلى أن بعثه نبيا زمن ناشية الملك قبل أن يغزو نصر بيت المقدس وكثير من الناس يزعمون أنه كان مع ذي القرنين وزيراً له وابن خالته وروى عن ابن عباس رضي الله عنه أن الخضر هو اليسع وإنما سمي خضرا لأنه لما شرب من عين الجنة لم يدع قدمه بالأرض إلا اخضر ما حوله فهذا الاختلاف في الخضر قالوا وهو لم يمت لأنه أعطى الخلد إلى النفخة الأولى موكل بالبحار ويغيث المضطرين واختلفوا في موسى الذي طلبه فقيل هو موسى بن عمران وقال أهل التوراة أنّه موسى بن منشا ابن يوسف بن يعقوب وكان نبيا قبل موسى بن عمران [2] كان قد قصّ الله خبرهما في القرآن المجيد عز من قائل وَإِذْ قال مُوسى لِفَتاهُ لا أَبْرَحُ حَتَّى أَبْلُغَ مَجْمَعَ الْبَحْرَيْنِ أَوْ أَمْضِيَ حُقُباً 18: 60 إلى آخر القصة وقد ذكرتهما بمعانيها ودعاويها في المعاني،،،


وھب بن منبہ نے دعوی کیا کہ خضر کا نام بليا بن ملكان بن بالغ بن عابر بن ارفخشد بن سام بن نوح ہے اور ان کا باپ ایک بادشاہ تھا اور ایک قوم نے کہا خضر بن عاميل (نام تھا) ابراہیم کی اولاد میں اور ابی حذیفه کی کتاب میں ہے کہ ارمیا ہی خضر ہے جو موسی کے صاحب تھے اور الله نے ان کی نبوت کو موخر کیا ….یہاں تک کہ انہوں نے بیت المقدس کی نصرت کی اور بہت سے لوگوں نے دعوی کیا کہ وہ ذی القرنین کے ساتھ تھے اور اس کے وزیر تھے اور ان کے خالہ زاد بھائی تھے اور ابن عبّاس رضی الله عنہ سے روایت کیا جاتا ہے کہ الخضر ہی الیسع ہیں اور ان کو خضر اس لئے کہا جاتا ہے کہ انہوں نے جنت کی نہر میں سے پیا تھا اور ان کے قدم زمین پر پڑنے سے اس کے ارد گرد سبزہ ہوتا ہے تو یہ اختلاف ہے خضر سے متعلق اور کہا جاتا ہے ان کی موت نہیں ہوئی کیونکہ ان کو صور میں پھونکنے تک زندگی حاصل ہے موکل سمندر پر ہیں اور مضطر کی دعا سنتے ہیں اور ان کے بارے میں اختلاف ہے کہ موسی نے جن کو طلب کیا تھا پس کہا جاتا ہے کہ وہ موسی بن عمران ہیں اور اہل توریت کہتے ہیں وہ موسى بن منشا ابن يوسف بن يعقوب جو موسی بن عمران سے قبل نبی تھے جن کے قصے کی خبر الله نے قرآن میں دی ہے کہا وَإِذْ قالمُوسى لِفَتاهُ لا أَبْرَحُ حَتَّى أَبْلُغَ مَجْمَعَ الْبَحْرَيْنِ أَوْ أَمْضِيَ حُقُباً 18: 60 سے آخر تک


کتاب المنتظم فی تاريخ الأمم والملوك از ابن الجوزی (المتوفى: 597هـ) کے مطابق

الخضر قَدْ كَانَ قبل موسى، قَالَ الطبري : كَانَ فِي أَيَّام أفريدُونَ الْمَلِك بْن أثفيان. قَالَ: وقيل: إنه كَانَ عَلَى مقدمة ذي الْقَرْنَيْنِ الأكبر، الَّذِي كَانَ أَيَّام إِبْرَاهِيم.


وذي الْقَرْنَيْنِ عِنْدَ قوم هُوَ أفريدُونَ، وزعم بَعْضهم أَنَّهُ من ولد من كَانَ آمن بالخليل عَلَيْهِ السَّلام، وهاجر مَعَهُ من أرض بابل.


وَقَالَ عَبْد اللَّهِ بْن شوذب: الخضر من ولد فارس .


وَقَالَ ابْن إِسْحَاق: هُوَ من سبط هَارُون بْن عمران.


وقول من قَالَ: إنه كَانَ فِي زمان أفريدُونَ أَكْثَر من ألف سَنَة، والخضر قديم إلا أَنَّهُ لما كَانَ ذكره لَمْ ينبغ إلا في زمان موسى ذكرناه هاهنا.


خضر موسی سے قبل تھے طبری کہتے ہیں یہ شاہ (ایران) افریدوں بن أثفيان کے دور میں تھے اور کہا : کہا جاتا ہے کہ ذی القرنین کے سالار تھے جو ابراہیم کے دور میں تھے

اور ذی القرنین ایک قوم کے نزدیک افریدوں ہے اور ان میں بعض کا دعوی ہے کہ وہ ابراہیم پر ایمان لائے اور ان کے ساتھ ہجرت کی بابل میں اور عَبْد اللَّهِ بْن شوذب کہتے ہیں خضر فارس میں پیدا ہوئے اور محمد بن اسحاق کہتے ہیں وہ ہارون بن عمران کی نسل میں سے ہیں اور جو کہتے ہیں کہ ذی القرنین افریدوں کے دور میں تھے تو وہ ہزار سال سے زیادہ ہے اور خضر تو پرانے ہیں پس جب ان کا اس میں دور ذکر ہوتا ہے تو ان کو موسی کے دور تک نہیں پہنچاتا


کتاب الکامل از ابن الأثير (المتوفى: 630هـ) کے مطابق

قَالَ أَهْلُ الْكِتَابِ: إِنَّ مُوسَى صَاحِبَ الْخَضِرِ هُوَ مُوسَى بْنُ مَنْشَى بْنِ يُوسُفَ بْنِ يَعْقُوبَ، وَالْحَدِيثُ الصَّحِيحُ عَنِ النَّبِيِّ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – أَنَّ مُوسَى صَاحِبَ الْخَضِرِ هُوَ مُوسَى بْنُ عِمْرَانَ عَلَى مَا نَذْكُرُهُ. وَكَانَ الْخَضِرُ مِمَّنْ كَانَ أَيَّامَ أَفْرِيدُونَ الْمَلِكِ بْنِ أَثْغِيَانَ فِي قَوْلِ عُلَمَاءِ أَهْلِ الْكُتُبِ الْأُوَلِ قَبْلَ مُوسَى بْنِ عِمْرَانَ.


وَقِيلَ: إِنَّهُ بَلَغَ مَعَ ذِي الْقَرْنَيْنِ الْأَكْبَرِ الَّذِي كَانَ فِي أَيَّامِ إِبْرَاهِيمَ الْخَلِيلِ، وَإِنَّهُ بَلَغَ مَعَ ذِي الْقَرْنَيْنِ نَهْرَ الْحَيَاةِ فَشَرِبَ مِنْ مَائِهِ وَلَا يَعْلَمُ ذُو الْقَرْنَيْنِ وَمَنْ مَعَهُ، فَخُلِّدَ وَهُوَ حَيٌّ عِنْدَهُمْ إِلَى الْآنِ.


وَزَعَمَ بَعْضُهُمْ: أَنَّهُ كَانَ مِنْ وَلَدِ مَنْ آمَنَ مَعَ إِبْرَاهِيمَ، وَهَاجَرَ مَعَهُ، وَاسْمُهُ بَلْيَا بْنُ مَلْكَانَ بْنِ فَالَغَ بْنِ عَابِرِ بْنِ شَالَخَ بْنِ أَرْفَخْشَذَ بْنِ سَامِ بْنِ نُوحٍ، وَكَانَ أَبُوهُ مَلِكًا عَظِيمًا. وَقَالَ آخَرُونَ: ذُو الْقَرْنَيْنِ الَّذِي كَانَ عَلَى عَهْدِ إِبْرَاهِيمَ أَفْرِيدُونُ بْنُ أَثْغِيَانَ، وَعَلَى


مَقْدَمَتِهِ كَانَ الْخَضِرُ.


اہل کتاب کہتے ہیں موسی جو خضر کے صاحب تھے وہ مُوسَى بْنُ مَنْشَى بْنِ يُوسُفَ بْنِ يَعْقُوبَ تھے اور صحیح حدیث میں ہے کہ موسی جو خضر کےصاحب تھے وہ موسی بن عمران ہیں … اورخضر جوشاہ افریدوں کے دور میں تھے جیسا اہل کتاب کے علماء کا قول ہے تو وہ تو موسی بن عمران سے پہلے کے ہیں

اور کہا جاتا ہے خضر ذی القرنین الاکبر کے ساتھ تھے جو ابراہیم کے دور میں تھے اور وہ ذی القرنین کے ساتھ آب حیات تک پہنچے اور انہوں نے اس میں سے پیا ، ذی القرنین اور ان کے ساتھ والوں کو پتا نہیں تھا، پس خضر کو حیات جاویداں ملی اور وہ زندہ ہیں اب بھی

اور بعض نے دعوی کیا کہ وہ ان ایمان والوں کی اولاد میں سے ہیں جو ابراہیم پر ایمان لائے اور ان کے ساتھ ہجرت کی اور ان کا نام بَلْيَا بْنُ مَلْكَانَ بْنِ فَالَغَ بْنِ عَابِرِ بْنِ شَالَخَ بْنِ أَرْفَخْشَذَ بْنِ سَامِ بْنِ نُوحٍ ہے اور ان کے باپ ایک عظیم بادشاہ تھے اور دوسرے کہتے ہیں ذی القرنین جو ابراہیم کے دور میں تھے أَفْرِيدُونُ بْنُ أَثْغِيَانَ تھے اور ان کے سالار خضر تھے


کتاب البداية والنهاية از ابن کثیر (المتوفى: 774هـ) کے مطابق

قَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْكِتَابِ إِنَّ مُوسَى هَذَا الَّذِي رَحَلَ إِلَى الْخَضِرِ هُوَ مُوسَى بْنُ مِيشَا بْنِ يُوسُفَ بْنِ يَعْقُوبَ بْنِ إِسْحَاقَ بْنِ إِبْرَاهِيمَ الْخَلِيلِ وَتَابَعَهُمْ عَلَى ذَلِكَ بَعْضُ مَنْ يَأْخُذُ مِنْ صُحُفِهِمْ وَيَنْقُلُ عَنْ كُتُبِهِمْ مِنْهُمْ نَوْفُ بْنُ فَضَالَةَ الْحِمْيَرِيُّ الشَّامِيُّ الْبِكَالِيُّ. وَيُقَالُ إِنَّهُ دِمَشْقِيٌّ وَكَانَتْ أُمُّهُ زَوْجَةَ كَعْبِ الْأَحْبَارِ وَالصَّحِيحُ الَّذِي دَلَّ عَلَيْهِ ظَاهِرُ سِيَاقِ الْقُرْآنِ وَنَصُّ الْحَدِيثِ الصَّحِيحِ الصَّرِيحِ الْمُتَّفَقِ عَلَيْهِ أَنَّهُ مُوسَى بْنُ عِمْرَانَ صَاحِبُ بَنِي إِسْرَائِيلَ. قَالَ الْبُخَارِيُّ حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ حَدَّثَنَا عمر بْنُ دِينَارٍ أَخْبَرَنِي سَعِيدُ بْنُ جُبَيْرٍ قَالَ قُلْتُ لِابْنِ عَبَّاسٍ إِنَّ نَوْفًا الْبِكَالِيَّ يَزْعُمُ أَنَّ مُوسَى صَاحِبَ الْخَضِرِ لَيْسَ هُوَ مُوسَى صَاحِبَ بَنِي إِسْرَائِيلَ. قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ كَذَبَ عَدُوُّ اللَّهِ.


بعض اہل کتاب کہتے ہیں کہ موسی جنہوں نے خضر کے ساتھ سفر کیا وہ مُوسَى بْنُ مِيشَا بْنِ يُوسُفَ بْنِ يَعْقُوبَ بْنِ إِسْحَاقَ بْنِ إِبْرَاهِيمَ الْخَلِيلِ ہیں اور اس قول کی اتباع جو کرتے ہیں جو ان کے کچھ صحف لیتے ہیں اور ان کی کتابوں سے نقل کرتے ہیں جن میں نَوْفُ بْنُ فَضَالَةَ الْحِمْيَرِيُّ الشَّامِيُّ الْبِكَالِيُّ ہیں اور ان کو دمشقی بھی کہا جاتا ہے اور ان کی ماں کعب الاحبار کی بیوی تھیں …. سعید بن جبیر نے ابن عبّاس سے کہا نوف البکالی کہتا ہے کہ موسی جو صاحب الخضر تھے وہ بنی اسرئیل والے موسی نہیں ہیں ابن عبّاس نے کہا جھوٹ بولتا ہے الله کا دشمن


الكامل از ابن اثیر میں ذكر ملك أفريدون میں اثیر لکھتے ہیں

وهو أفريدون بن أثغيان ، وهو من ولد جم شيد . وقد زعم بعض نسابة الفرس أن نوحا هو أفريدون الذي قهر الضحاك ، وسلبه ملكه ، وزعم بعضهم أن أفريدون هو ذو القرنين صاحب إبراهيم الذي ذكره الله في كلامه العزيز ، وإنما ذكرته في هذا الموضع لأن قصته في أولاده الثلاثة شبيهة بقصةنوح على ما سيأتي ولحسن سيرته ، وهلاك الضحاك على يديه ، ولأنه قيل إن هلاك الضحاك كان على يد نوح .


اور فارس کے بعض نسب والوں نے دعوی کیا کہ نوح ہی افریدوں ہے جن کی جنگ الضحاك سے ہوئی تھی اور وہ أفريدون بن أثغيان ہیں جو جمشید کی اولاد میں سے ہیں اور ان سے ملک چھنا اور بعض نے دعوی کیا کہ افریدوں ذی القرنین ہیں جن کا ذکر قرآن میں کیا گیا ہے …


وأما باقي نسابة الفرس فإنهم ينسبون أفريدون إلى جم شيد الملك.


اور بقیہ نسب فارس والوں نے افریدوں کی نسبت جمشید سے کی ہے


اس بحث کا لب لباب ہے

اس اختلاف میں جو چیز ظاہر ہوتی ہے وہ یہ کہ موسی و خضر ہم عصر ہیں- خضر انسان تھے- قرآن کے مطابق موسی علیہ السلام صاحب تورات ہیں کوئی اور نہیں – ذی القرنین اور خضر ہم عصر نہیں، بلکہ ذی القرنین ایک بہت قدیم بادشاہ ہیں جب تاریخ لکھنے کا بھی آغاز نہیں ہوا تھا- قدیم ایرانی و فارسی نساب نے ذی القرنین کو شاہ افریدوں کہا گیا ہے جن کا ذکر قدیم فارس کی داستانوں میں ملتا ہے- یہودی شاید بابل کی غلامی کے دور میں ان سے واقف ہوئے

سکندر ، ذی القرنین نہیں جیسا کہ بعض مفسرین کا دعوی ہے -سکندر تو موسی علیہ السلام کے بھی بعد کا ہے جبکہ ذی القرنین کا دور شاید ابراہیم علیہ السلام سے بھی پہلے کا ہے- بعض لوگوں نے ذی القرنین کی دیوار کو دیوار چین سے بھی نسبت دی ہے جو سن ٢٢٠ سے ٢٠٦ قبل مسیح میں بنی ہے- لھذا ذی القرنین اور سکندر ایک نہیں ہیں- ابو الکلام آزاد کی تحقیق کے مطابق ذی القرنین سے مراد قدیم ایرانی بادشاہ کوروش ہے جن کا دور ٥٣٩ سے ٥٣٠ قبل مسیح تھا لیکن یہ بھی بعد کے ہیں اور ذی القرنین نہیں ہیں یہ مغالطہ اس لئے ہوا کہ کوروش اور سنکندر دونوں کو سینگ والے تاج پہنے قدیم سکوں میں دکھایا گیا ہے سکندر نے بھی فارس میں سکونت اختیار کی اور وہ خالص بت پرست تھا اور کوروش قدیم اہرمن و یزدان والا دھرم رکھتا تھا – قرآن کے مطابق ذی القرنین مسلمان اور موحد تھا

کوروش اور سکندر دونوں کو قدیم سکوں افریدوں سے نسبت دینے کے لئے سینگوں والا تاج پہنے دکھایا گیا کیونکہ افریدوں کو ایک عادل شاہ کہا جاتا ہے

کیا خضر زندہ ہیں

کتاب شذرات الذهب في أخبار من ذهب از ابن العماد العَكري الحنبلي، أبو الفلاح (المتوفى: 1089هـ) کے مطابق

قيل: كان ملكا وقيل بشرا وهو الصحيح، ثم قيل: إنه عبد صالح ليس بنبيّ وقيل: بل نبيّ هو الصحيح. والصحيح عندنا أنه حيّ، وأنه يجوز أن يقف على باب أحدنا مستعطيا له، أو غير ذلك.


کہا جاتا ہے وہ (خضر) فرشتہ تھے اور کہا جاتا ہے بشر تھے اور یہ صحیح ہے پھر کہا جاتا ہے کہ وہ ایک صالح بندے تھے نبی نہیں تھے اور یہ صحیح ہے اور ہمارے نزدیک یہ صحیح ہے کہ وہ زندہ ہیں اور یہ بھی جائز ہے کہ کسی کے در پر رکیں اور دیں یا اسی طرح دیگر


شیعہ کے نزدیک خضر زندہ ہیں

کتاب ديوان المبتدأ والخبر في تاريخ العرب والبربر ومن عاصرهم من ذوي الشأن الأكبر از عبد الرحمن بن محمد بن محمد، ابن خلدون أبو زيد، ولي الدين الحضرمي الإشبيلي (المتوفى: 808هـ) کے مطابق

ومنهم من يقول إنّ كمال الإمام لا يكون لغيره فإذا مات انتقلت روحه إلى إمام آخر ليكون فيه ذلك الكمال وهو قول بالتّناسخ ومن هؤلاء الغلاة من يقف عند واحد من الأئمّة لا يتجاوزه إلى غيره بحسب من يعيّن لذلك عندهم وهؤلاء هم الواقفيّة فبعضهم يقول هو حيّ لم يمت إلّا أنّه غائب عن أعين النّاس ويستشهدون لذلك بقصّة الخضر


اور ان شیعوں میں سے بعض کہتے ہیں کہ بے شک امام کے کمالات کسی اور کے لئے نہیں پس جب وہ مرتے ہیں ان کی روحیں دوسرے امام میں جاتی ہیں اور یہ قول التناسخ ہے اور ان غالیوں میں سے … بعض کہتے ہیں کہ وہ مرے نہیں ہیں بلکہ لوگوں کی آنکھوں سے غائب ہیں اور اس پر دلیل قصہ خضر سے لیتے ہیں


ابن کثیر کتاب البداية والنهاية میں لکھتے ہیں کہ خضر کی وفات ہو چکی ہے جو مناسب ہے

{وَإِذْ أَخَذَ اللَّهُ مِيثَاقَ النَّبِيِّينَ لَمَا آتَيْتُكُمْ مِنْ كِتَابٍ وَحِكْمَةٍ ثُمَّ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مُصَدِّقٌ لِمَا مَعَكُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِهِ وَلَتَنْصُرُنَّهُ قَالَءَأَقْرَرْتُمْ} [آل عمران: 81] .


فَأَخَذَ اللَّهُ مِيثَاقَ كُلِّ نَبِيٍّ عَلَى أَنْ يُؤْمِنَ بِمَنْ يَجِيءُ بَعْدَهُ مِنَ الْأَنْبِيَاءِ، وَيَنْصُرُهُ، فَلَوْ كَانَ الْخَضِرُ حَيًّا فِي زَمَانِهِ، لَمَا وَسِعَهُ إِلَّا اتِّبَاعُهُ، وَالِاجْتِمَاعُ بِهِ، وَالْقِيَامُ بِنَصْرِهِ


اگر خضر زندہ ہوتے کو نبی علیہ السلام کی مدد کرتے

عرب جغرافیہ دان اور یاجوج ماجوج


عرب جغرافیہ دانوں نے زمین کو سات نصف دائروں یا اقلیم میں تقسیم کیا شمال کی جانب علاقہ جہاں کے بارے میں معلومات نہیں تھیں وہ یاجوج ماجوج کا مسکن تھا اس سے نیچے کا علاقہ جافث کی نسل یعنی نوح کی نسل سمجھا جاتا تھا جن میں چین کے لوگ ترک ، بلغار، الخزر، الن ، مغار، سلاوو، فرانک لوگ شامل تھے- بحيرة خوارزم، سیحون اور جیحوں کے دریا بھی اسی اقلیم میں ہیں- الخزر ایک یہودی ریاست تھی جو عباسیوں کے دور میں بھی موجود تھی اور اس کے پاس کے مسلمان علاقے اس کو خراج بھی دیتے تھے

یاجوج ماجوج بھی بائبل کے مطابق جافث کی نسل سے ہیں – ان کے اور باقی انسانوں کے درمیان بلند پہاڑ حائل ہیں اور ایک دیوار جو ذی القرنین نے بنائی موجودہ بنی آدم اور ان کے درمیان حائل ہے

أبو عبد الله أحمد بن محمد بن إسحاق الهمداني المعروف بابن الفقيه (ت 365) نے اس دیوار کا تذکرہ کتاب البلدان میں کیا ہے کتاب المسالك والممالك جو أبي القاسم عبيد الله بن عبد الله المعروف بابن خرداذبه المتوفى 300 هـ کی تالیف ہے اس میں ذکر ہے کہ ایک شخص سلام الترجمان ، الخليفة الواثق (227- 232 هـ) کے حکم پر سد يأجوج ومأجوج تک گیا

ہارون رشید کے پوتے خلیفہ واثق ٨٤٢ سے ٨٤٧ ع نے ایک روز سن ٨٤٢ ع میں خواب دیکھا کہ سد ذی القرنین ٹوٹ گئی ہے انہوں نے اس کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے ایک ہوشیارشخص سلام کو جو تیس زبانوں میں طاق تھے صورت حال جاننے کے لئے بھیجا – سلام ٨٤٤ع میں واپس آئے اور تمام واقعات کتاب کی صورت میں لکھے جن کو ابن الفقيه نے ان سے سن کر اپنی کتاب میں لکھا –

بحر الحال ہمارے نزدیک یہ قصہ گوئی صرف خلیفہ کی خواہش پر ہوئی کیونکہ ایک طویلسفر کے بعد سلام ترجمان کو کچھ تو عجیب و غریب بیان کرنا ہی تھا

قرآن کے مطابق یاجوج ماجوج قومیں ہیں

سد ذی القرنین قیامت کی نشانی ہے اسی وقت ظاہر ہو گی

هذا رحمة من ربي فإذا جاء وعد ربي جعله دكاء وكان وعد ربي حقا


ربط
 

Shahras

مبتدی
شمولیت
اپریل 01، 2014
پیغامات
17
ری ایکشن اسکور
4
پوائنٹ
13

سوره کہف میں ذی القرنین اور یاجوج ماجوج اور موسی و خضر کے واقعات ترتیب میں کیوں بیان ہوئے ہیں، اس میں کیا حکمت ہے؟ کیا خضر زندہ ہیں؟ کیا کسی نے سد یاجوج ماجوج کو دیکھا ہے؟

عنوان میں جو سوال "بقلم خود" قائم کیے گئے ہیں ان میں سے کسی کا بھی "مسکت جواب" پیش کردہ مواد میں نہیں. کاپی پیسٹ کرنے والے دوست کو مضمون میں پتا نہیں کیا اچھا لگا جو "یہ مواد" یہاں شیئر کردیا، خیر اپنی اپنی پسند ہے.

ویسے میرے ذہن میں بھی ایک سوال پیدا ہوا ہے اگر کاپی پیسٹ دوست جواب دینا پسند کریں تو. سوال یہ ہے کہ
"بینگ اے مسلم" کیا ان سوالوں کے جواب جاننا ہمارے لیے ضروری ہیں، اگر جاننا ضروری ہیں تو کیوں؟

فقط والسلام
 
Top