• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سورہ فاتحہ پڑھنے کا محل قیام ہے

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,391
ری ایکشن اسکور
453
پوائنٹ
209
قراءت فاتحہ اور قراءت قران کا محل قیام کی حالت ہے ۔ سورہ فاتحہ پڑھنے والی تمام روایات اس کی دلیل ہیں ۔ آپ کے سامنے چند دلائل پیش کئے جاتے ہیں۔
(1)عن عبادة بن الصامت رضي الله عنه قال : كنا خلف النبي صلى الله عليه وسلم في صلاة الفجر ، فقرأ فثقلت عليه القراءة ، فلما فرغ ، قال : " لعلكم تقرءون خلف إمامكم ؟ قلنا : نعم ، يا رسول الله قال : لا تفعلوا إلا بفاتحة الكتاب ، فإنه لا صلاة لمن لم يقرأ بها (ابوداؤد :823)

ترجمہ: سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ ہم لوگ نبی ﷺ کے پیچھے فجر کی نماز میں تھے تو آپ نے قراءت کی اور آپ پہ قراءت بوجھل ہوگئی ۔ جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو پوچھا :شاید تم لوگ امام کے پیچھے قراءت کرتے ہو؟ تو صحابہ نے کہا ہاں اے اللہ کے رسول ۔ تو آپ نے فرمایا: فاتحہ کے علاوہ کچھ مت پڑھو کیونکہ اس شخص کی نماز نہیں ہوتی جو فاتحہ نہیں پڑھتا۔
٭ ترمذی ، دارقطنی نے اس کی سند کو حسن اور بیہقی نے صحیح قرار دیا ہے ۔
گوکہ اس روایت میں کھڑے ہونے کا ذکر نہیں ہے مگر قرآن کی قراءت قیام میں ہی ہوتی ہے ۔ اسی لئے جہری نماز میں قیام کی حالت میں بلند آواز سے اور سری نماز میں آہستے سے قرات کی جاتی ہے ۔ سورہ فاتحہ بھی قراءت ہے اور قرآن کی ایک سورت ہے ۔

(2) عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ كَانَ إِذَا قَامَ إِلَى الصَّلَاةِ الْمَكْتُوبَةِ كَبَّرَ وَرَفَعَ يَدَيْهِ حَذْوَ مَنْكِبَيْهِ وَيَصْنَعُ مِثْلَ ذَلِكَ إِذَا قَضَى قِرَاءَتَهُ وَأَرَادَ أَنْ يَرْكَعَ وَيَصْنَعُهُ إِذَا رَفَعَ مِنْ الرُّكُوعِ۔(صحيح أبي داود:744)


ترجمہ : علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب فرض نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو تکبیر کہتے اور اپنے ہاتھوں کو کندھوں تک بلند کرتے، اور جب قراءت سے فارغ ہو کر رکوع کرنے کا ارادہ کرتے تب اور رکوع سے اٹھتے وقت بھی اسی طرح ہاتھ اٹھاتے تھے۔
اس روایت میں صریح طور پہ قیام کی حالت میں قرات کا ذکر ہوا ہے ۔

(3) ألا إنِّي نُهيتُ أنْ أقرأَ راكعًا أو ساجدًا، أمَّا الرُّكوعُ فعظِّموا فيه الرَّبَّ، وأمَّا السُّجودُ فاجتَهِدوا في الدُّعاءِ فقَمِنٌ أنْ يُستجابَ لكم(صحيح مسلم : 1896)


ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: خبردار! میں رکوع اور سجدے میں قرآن حکیم پڑھنے سے منع کیا گیا ہوں۔ پس تم رکوع میں اپنے رب کی عظمت بیان کرو اور سجدے میں خوب دعا مانگو۔ تمہاری دعا قبولیت کے لائق ہوگی۔
یہ حدیث بتلاتی ہے کہ قرآن کی قرات رکوع و سجدے کی حالت میں منع ہے ، اس طرح صرف قیام کا محل بچتا ہے ، اس لئے فاتحہ پڑھنے کا محل صرف قیام ہے۔

(4) عن أبي بكرة أنه انتهى إلى النبيِّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم وهو راكعٌ، فركَع قبلَ أن يصِل إلى الصفِّ، فذكَر ذلك للنبيِّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم فقال : زادَك اللهُ حِرصًا ولا تَعُدْ(صحيح البخاري:783)


ترجمہ : حضرت ابو بکرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب میں نماز پڑھنے کے لئے حضرت محمدﷺ تک پہنچا تو آپﷺ رکوع میں جا چکے تھے، تو ابوبکره نے صف تک پہنچنے سے پہلے ہی رکوع کرليا، جب آنحضرتﷺ کے پاس یہ فعل ذکر کیا گیا تو آپﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ تیری حرص میں برکت کرے آئندہ ایسا نہ کرنا۔
یہ روایت بھی ہمیں بتلاتی ہے ابوبکرہ رضی اللہ عنہ نے نبی ﷺ کو رکوع کی حالت میں پایا تو وہ قرات نہیں کی بلکہ رکوع میں چلے گئے اوریہ معلوم ہے کہ رکوع میں قرآن کی قرات نہیں بلکہ نبی ﷺ نے تسبیح سکھلائی ہےاور اس حالت میں قرات سے منع فرمایا ہے ۔

ان تمام دلائل سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ سورہ فاتحہ صرف قیام کی حالت میں پڑھی جائے اور قیام ہی سورہ فاتحہ کا محل ہے ۔

واللہ اعلم
 
Last edited by a moderator:

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
292
پوائنٹ
165
قراءت فاتحہ اور قراءت قران کا محل قیام کی حالت ہے ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: خبردار! میں رکوع اور سجدے میں قرآن حکیم پڑھنے سے منع کیا گیا ہوں۔
محترم! اس کے باوجود میں نے پڑھا ہے کہ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ سورہ فاتحہ کو امام کے پیچھے پڑھنا نہ چھوڑو بھلے رکوع ہی میں پڑھ لو۔
 

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,391
ری ایکشن اسکور
453
پوائنٹ
209
محترم! اس کے باوجود میں نے پڑھا ہے کہ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ سورہ فاتحہ کو امام کے پیچھے پڑھنا نہ چھوڑو بھلے رکوع ہی میں پڑھ لو۔
اس بات کی کوئی دلیل نہیں ہے ۔عبادت توقیفی ہے اس کے لئے دلیل چاہئے ۔
 

میرب فاطمہ

مشہور رکن
شمولیت
جون 06، 2012
پیغامات
195
ری ایکشن اسکور
218
پوائنٹ
107
قراءت فاتحہ اور قراءت قران کا محل قیام کی حالت ہے ۔ سورہ فاتحہ پڑھنے والی تمام روایات اس کی دلیل ہیں ۔ آپ کے سامنے چند دلائل پیش کئے جاتے ہیں۔
(1)عن عبادة بن الصامت رضي الله عنه قال : كنا خلف النبي صلى الله عليه وسلم في صلاة الفجر ، فقرأ فثقلت عليه القراءة ، فلما فرغ ، قال : " لعلكم تقرءون خلف إمامكم ؟ قلنا : نعم ، يا رسول الله قال : لا تفعلوا إلا بفاتحة الكتاب ، فإنه لا صلاة لمن لم يقرأ بها (ابوداؤد :823)

ترجمہ: سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ ہم لوگ نبی ﷺ کے پیچھے فجر کی نماز میں تھے تو آپ نے قراءت کی اور آپ پہ قراءت بوجھل ہوگئی ۔ جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو پوچھا :شاید تم لوگ امام کے پیچھے قراءت کرتے ہو؟ تو صحابہ نے کہا ہاں اے اللہ کے رسول ۔ تو آپ نے فرمایا: فاتحہ کے علاوہ کچھ مت پڑھو کیونکہ اس شخص کی نماز نہیں ہوتی جو فاتحہ نہیں پڑھتا۔
٭ ترمذی ، دارقطنی نے اس کی سند کو حسن اور بیہقی نے صحیح قرار دیا ہے ۔
گوکہ اس روایت میں کھڑے ہونے کا ذکر نہیں ہے مگر قرآن کی قراءت قیام میں ہی ہوتی ہے ۔ اسی لئے جہری نماز میں قیام کی حالت میں بلند آواز سے اور سری نماز میں آہستے سے قرات کی جاتی ہے ۔ سورہ فاتحہ بھی قراءت ہے اور قرآن کی ایک سورت ہے ۔

(2) عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ كَانَ إِذَا قَامَ إِلَى الصَّلَاةِ الْمَكْتُوبَةِ كَبَّرَ وَرَفَعَ يَدَيْهِ حَذْوَ مَنْكِبَيْهِ وَيَصْنَعُ مِثْلَ ذَلِكَ إِذَا قَضَى قِرَاءَتَهُ وَأَرَادَ أَنْ يَرْكَعَ وَيَصْنَعُهُ إِذَا رَفَعَ مِنْ الرُّكُوعِ۔(صحيح أبي داود:744)


ترجمہ : علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب فرض نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو تکبیر کہتے اور اپنے ہاتھوں کو کندھوں تک بلند کرتے، اور جب قراءت سے فارغ ہو کر رکوع کرنے کا ارادہ کرتے تب اور رکوع سے اٹھتے وقت بھی اسی طرح ہاتھ اٹھاتے تھے۔
اس روایت میں صریح طور پہ قیام کی حالت میں قرات کا ذکر ہوا ہے ۔

(3) ألا إنِّي نُهيتُ أنْ أقرأَ راكعًا أو ساجدًا، أمَّا الرُّكوعُ فعظِّموا فيه الرَّبَّ، وأمَّا السُّجودُ فاجتَهِدوا في الدُّعاءِ فقَمِنٌ أنْ يُستجابَ لكم(صحيح مسلم : 1896)


ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: خبردار! میں رکوع اور سجدے میں قرآن حکیم پڑھنے سے منع کیا گیا ہوں۔ پس تم رکوع میں اپنے رب کی عظمت بیان کرو اور سجدے میں خوب دعا مانگو۔ تمہاری دعا قبولیت کے لائق ہوگی۔
یہ حدیث بتلاتی ہے کہ قرآن کی قرات رکوع و سجدے کی حالت میں منع ہے ، اس طرح صرف قیام کا محل بچتا ہے ، اس لئے فاتحہ پڑھنے کا محل صرف قیام ہے۔

(4) عن أبي بكرة أنه انتهى إلى النبيِّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم وهو راكعٌ، فركَع قبلَ أن يصِل إلى الصفِّ، فذكَر ذلك للنبيِّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم فقال : زادَك اللهُ حِرصًا ولا تَعُدْ(صحيح البخاري:783)


ترجمہ : حضرت ابو بکرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب میں نماز پڑھنے کے لئے حضرت محمدﷺ تک پہنچا تو آپﷺ رکوع میں جا چکے تھے، تو ابوبکره نے صف تک پہنچنے سے پہلے ہی رکوع کرليا، جب آنحضرتﷺ کے پاس یہ فعل ذکر کیا گیا تو آپﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ تیری حرص میں برکت کرے آئندہ ایسا نہ کرنا۔
یہ روایت بھی ہمیں بتلاتی ہے ابوبکرہ رضی اللہ عنہ نے نبی ﷺ کو رکوع کی حالت میں پایا تو وہ قرات نہیں کی بلکہ رکوع میں چلے گئے اوریہ معلوم ہے کہ رکوع میں قرآن کی قرات نہیں بلکہ نبی ﷺ نے تسبیح سکھلائی ہےاور اس حالت میں قرات سے منع فرمایا ہے ۔

ان تمام دلائل سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ سورہ فاتحہ صرف قیام کی حالت میں پڑھی جائے اور قیام ہی سورہ فاتحہ کا محل ہے ۔

واللہ اعلم
اگر کوئی تیسری چوتھی رکعت میں سورہ فاتحہ کے بجائے تین بار سبحان اللہ پڑھ لے تو؟
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
292
پوائنٹ
165
اگر کوئی تیسری چوتھی رکعت میں سورہ فاتحہ کے بجائے تین بار سبحان اللہ پڑھ لے تو؟
محترمہ! یہ سوال ”فقہ“ سے تعلق رکھتا ہے اس لئے ”فقہاء“ سے پوچھیں نہ کہ ”محدثین“ سے۔
 

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,391
ری ایکشن اسکور
453
پوائنٹ
209
اگر کوئی تیسری چوتھی رکعت میں سورہ فاتحہ کے بجائے تین بار سبحان اللہ پڑھ لے تو؟
میں تو کوئی فقیہ یا محدث نہیں ہوں ، دین کا ادنی سا طالب علم ہوں۔
اس قسم کے فرضی سوالات سے ہمیں پرہیز کرنا چاہئے ، یہ تو حنفیوں کی فقہ میں ہے کہ اگر کوئی ایسا کرلے ، ویساکرلے یا ایسا ہوجائے ویسا ہوجائے۔ ہمیں کوئی بھی سوال امرواقع کے متعلق پوچھنا چاہئے ۔
اگر واقعی کسی کے ساتھ ایسا ہوگیاہے تو اس کی دو حالت ہے ۔
(1) مقتدی سے سہوا یا حکم نہ جاننے کی وجہ سے تیسری یا چوتھی رکعت میں سورہ فاتحہ چھوٹ جائے تو اس کے لئے کوئی حرج نہیں ۔
(2) امام یا منفردسے اگر سہوا فاتحہ تیسری اور چوتھی رکعت میں چھوٹ جائے تو تیسری اور چوتھی رکعت کو لوٹائے کیونکہ اس نے نماز کا رکن ادا نہیں کیا جس کی وجہ سے اس کی وہ رکعت نہیں ہوئی ۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے :
لا صلاة لمن لم يقرأ بفاتحة الكتاب(صحیح البخاری : 756)
ترجمہ : اس کی نماز نہیں جس نے سورہ فاتحہ پڑھی ۔

 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
292
پوائنٹ
165
مقتدی سے سہوا یا حکم نہ جاننے کی وجہ سے تیسری یا چوتھی رکعت میں سورہ فاتحہ چھوٹ جائے تو اس کے لئے کوئی حرج نہیں ۔
محترم! اسکی آپ نے کوئی دلیل قرآن و حدیث سے نہیں دی؟

امام یا منفردسے اگر سہوا فاتحہ تیسری اور چوتھی رکعت میں چھوٹ جائے تو تیسری اور چوتھی رکعت کو لوٹائے کیونکہ اس نے نماز کا رکن ادا نہیں کیا جس کی وجہ سے اس کی وہ رکعت نہیں ہوئی ۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے :
لا صلاة لمن لم يقرأ بفاتحة الكتاب(صحیح البخاری : 756)
اس کی وجہ استدلال بھی لکھ دیں اور معارض احادیث کا معارضہ بھی ختم کریں یا ترجیح کی وجوح قرآن و حدیث سے مرحمت فرمائیں۔
 

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,391
ری ایکشن اسکور
453
پوائنٹ
209
جب انسان مثلا ظہر کی نماز میں فاتحہ پڑھنا بھول جائے نہ کہ عمدا اس نے اسے چھوڑا ہے تو کیا اس کی نماز درست ہے یا نہیں؟ آپ ہمیں فتوی دیجئے اللہ آپ...

سوال نمبر1: فتوی نمبر:10314

س 1: جب انسان مثلا ظہر کی نماز میں فاتحہ پڑھنا بھول جائے نہ کہ عمدا اس نے اسے چھوڑا ہے تو کیا اس کی نماز درست ہے یا نہیں؟ آپ ہمیں فتوی دیجئے اللہ آپ کو برکت دے اور جزائے خیر عطا فرمائے؟

ج 1: امام اور اکیلے نماز پڑھنے والوں کے لئے فاتحہ کی قراءت نماز میں رکن ہے اور مقتدی اگر پڑھنے پر قادر ہے تو اس پر واجب ہے، لہذا جو شخص کسی رکعت میں اسے پڑھنا بھول گیا تو اس کی بعد دوسرى رکعت اسے پہلی رکعت کی جگہ آ جائے، اور اس پر لازم ہے کہ وہ ایک ایسی رکعت کا اضافہ کرے جس کے ساتھ
ـ اس کی نماز مکمل ہو جائے جب کہ وہ امام یا اکیلے نماز پڑھنا، پھر وہ سلام پھیرنے سے پہلے اور تشہد کے بعد سجدہ سہو کر لے، اور اگر مقتدی نے اسے بھول کر یا جہالت کی وجہ سے چھوڑ دیا تو اس پر کچھـ لازم نہیں، اور اسی طرح اگر مقتدی نماز میں داخل ہوا جب کہ امام رکوع کر رہا تھا تو وہ امام کے ساتھـ رکوع کرتا اور فاتحہ اس سے ساقط ہو جاتا؛ ابو بكرہ ثقفی کی حدیث کے لئے جو اس مسئلہ میں وارد ہے۔

وبالله التوفيق۔ وصلى الله على نبينا محمد، وآله وصحبه وسلم۔


علمی تحقیقات اور فتاوی جات کی دائمی کمیٹی

 
Top