• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سورہ کہف کی ابتدائی آیات سے چند اسباق

شمولیت
فروری 07، 2013
پیغامات
453
ری ایکشن اسکور
924
پوائنٹ
26
درس قرآن:
سورہ کہف کی ابتدائی آیات سے چند اسباق
بیان از محترم ڈاکٹر شجاع اللہ حفظہ اللہ
ہفتہ وار درسِ قرآن مسجد توحید، لاہور


الحمدللّٰہ والصلاة والسلام علی سید الانبیاء
یہ سورہ مبارکہ زبر دست فضیلت کی حامل ہے۔سیدنااُ سید بن حضیر رضی اللہ عنہ تہجد کی نماز میں سورہ کہف کی تلاوت کر رہے تھے کہ ان کا گھوڑا بدکا، اُن کا بچہ یحییٰ اُس کے قریب لیٹاہوا تھا وہ ڈرے کہ گھوڑابچے کو کہیں کچل نہ ڈالے، اُنہوں نے قرآن پڑھنا بندکر دیا توگھوڑا بھی پر سکون ہوگیا۔ پھر جب قرآن پڑھنا شروع کیا تو گھوڑا دوبارہ مضطرب ہو گیا۔ تیسری مرتبہ جب اُنہوں نے نماز ختم کر کے سر اُونچا کیا تو ایک بادل سا نظر آیا جس میں جلتے ہوئے چراغوں کی مانند روشنی تھی۔ یہ واقعہ نبی اکرم ﷺسے ذکر کیا گیاتو آپﷺنے فرمایا کہ یہ سکینت تھی ٫یہ فرشتے تھے جو تیرا قرآن سننے کے لیے آسمان سے نازل ہو ئے تھے۔1

اسی طر ح سورہ کہف کی آخری اور پہلی دس آیات فتنہ دجال سے ڈھال ہیں۔نبی کریمﷺفرماتے ہیں :
''جس نے سورہ کہف کے شروع کی دس آیتیں حفظ کر لیں وہ فتنہ دجال سے بچا لیا گیا۔''2

ہمیں ان آیات کو سمجھنے کی بے حد ضرورت ہے اس لیے کہ دجل آج جتنا زوردار ہے اس سے پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔ اس کی کئی وجوہات ہیں۔ ایک تو خلافت کا نظام مفقود ہے، دوسراہمارا ایمان کمزور اور علم ناقص ہے جس کی وجہ سے فتنہ قبول کرنے میں کچھ دیرنہیں لگتی۔پھر کفارگمراہ کرنے کے نت نئے حربے استعمال کر رہے ہیں، مواصلات کا نظام دنیا بھر کے کفر و شرک، فحاشی و عریانی کو اہل اسلام میں نشر کررہا ہے۔ ان حالات میں صرف اور صرف وہی بچ سکتا ہے جس کو اللہ تعالیٰ اپنے خاص فضل سے بچالے۔اس لیے اللہ تعالیٰ سے تعلق مضبوط کرنا اور جاہلیت کے حملوں سے باخبر رہنا بے حد ضروری ہے۔

اس سورت کی اس سے بڑھ کر فضیلت کیا ہو گی کہ اس میں ایک ایسا واقعہ بیان ہوا ہے جس میں اللہ کی عبادت کے لیے زبردست رہنمائی ہے خاص کر ایسے دور میں جب اہل توحید کمزور اور اجنبی ہوں، کفر کی ہر سو حکمرانی ہو، قوت و غلبہ دشمنان اسلام کو حاصل ہو، ایسے مشکل حالات میں اللہ کی توحید پر قائم رہنا، وقت کے باطل خدائوں کا انکار کرنا، پھر باطل سے مفاہمت، سودے بازی کرنے کی بجائے اللہ کے لیے سب کو ناراض کر لینا، سب سے علیحدگی اختیار کر لینا، بس ایک اللہ کا ہی ہو رہنا اس واقعہ کا بنیادی سبق ہے۔ جسے جاننے کے بعد کوئی شخص یہ بہانہ نہیں بنا سکتا کہ آج ہم کمزور ہیں، ہر طرف کفر، شرک، بدعت، اور بے حیائی کا دور دورہ ہے، ہر طرف دھوکہ بازی ہے۔اس لیے ہم دین کی بنیاد پر باطل سے ٹکر نہیں لے سکتے۔یہ واقعہ اُن لوگوں کے فلسفے کو رد کرتا ہے جو کہتے ہیں اتنے تھوڑے لوگ حق کا آوازہ بلند نہیںکر سکتے ہیں، لڑکیوں کے رشتوں کے لیے، لڑکوں کی نوکری کے لیے اور یہاں زندہ رہنے کے لیے کہتے ہیں، بھائی اس دنیا کا بھی کچھ خیا ل کرو، پتہ نہیں تم کس دنیاکی بات کر تے ہو۔

(اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ اَنزَلَ عَلَی عَبْدِہِ الْکِتَابَ وَلَمْ یَجْعَلْ لَّہُ عِوَجًا)

''سب تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے اپنے بندے پر یہ کتاب نازل فرمائی اور اس میں کوئی کجی نہیں رکھی۔''

یہ وہ کتاب ہے جو اپنے اندرہمارے لیے ہر قسم کی راہنمائی لیے ہوئے ہے۔(وَلَقَدْ صَرَّفْنَا لِلنَّاسِ فِیْ ہَذَا الْقُرْآنِ مِنْ کُلِّ مَثَلٍ ) ہم نے اس قرآن میں پھیر پھیر کر ہر مثال بیان کر دی ہے۔ جس کو جس مشکل، پریشانی میں بھی اللہ کا راستہ دیکھنا ہے وہ قرآن کے ذریعے سے اللہ کا را ستہ اس طرح سے دیکھ سکتا ہے کہ اندھیرے قریب نہ پھٹکیں گے او ر وہ اجالوں کے اندر سفر کرتا ہوا اس پگڈنڈی پر ایسا گامزن ہوگا کہ اس کی آخری منزل جنت کے علاوہ کچھ نہ ہو گی۔ یہ سیدھا اور مستقیم راستہ ہے جو اللہ کی خوشنودی اور جنت کی طرف جا تا ہے۔

(وَیُنذِرَ الَّذِیْنَ قَالُوا اتَّخَذَ اللّٰہُ وَلَدًا o مَّا لَہُم بِہِ مِنْ عِلْمٍ وَّ لَا لِآبَائِہِمْ کَبُرَتْ کَلِمَةً تَخْرُجُ مِنْ اَفْوَاہِہِمْ اِن یَقُولُونَ اِلَّا کَذِبًا)
''اور ان لوگوں کو ڈرائے جو کہتے ہیں اللہ نے کسی کو بیٹا بنا لیا ہے۔اس بات کا انہیں کوئی علم نہیں اورنہ ہی ان کے آباء و اجداد کو تھا، بہت بڑی بات ہے جو ان کے منہ سے نکلتی ہے جو کچھ وہ کہتے ہیں سراسر جھوٹ ہے۔''

بیٹا بنانا اللہ رب العزت کے ساتھ گستاخی اور تکبر کی ایک مثال ہے۔ عیسائیوں نے عیسیٰ ، یہودیوں نے عزیر کواللہ کا بیٹا کہا۔ صادق المصدوقﷺنے فرما یا تھا ''کہ تم پہلوں کا راستہ چلو گے یہاں تک جیسے بالشت بالشت کے برابر ہو جاتی ہے تم انکے برابر ہو جاؤگے۔ اور اگر وہ کسی جانور کے بل میں گھسے تو تم بھی گھسو گے۔ پوچھا گیا کیا آپ کی مرادیہودونصاریٰ ہیں۔ فرمایا اور کون ہیں۔''

انہوں نے کہا خداتین ہیں (معاذاللہ) مریم، عیسیٰ اور اللہ ربّ العزت۔ مسلمانوں میں سے ایک گروہ نے کہا کہ ہر چیز ہی خدا ہے، وحدت الوجود کا خبیث عقیدہ جسے غالی صوفیاء نے اپنایا اُ س کی رو سے کائنات کی ہر چیز اللہ کا مظہر ہے، یقینا یہ یہود ونصاریٰ کے کفر سے کہیں بڑھ کر کفرکرنے والے ہیں۔ یہود و نصاریٰ نے اللہ کے بیٹے بنائے تو اسلام کے دعویداروں نے سیدھانبی ۖ کو اللہ کے نورکاٹکڑاور جزوبنادیااور کہا:
((الصلوٰة والسلام علیک یا نورمن نوراللّٰہ.))

کسی نے یوں کہا :
وہی جو مستوی عرش تھا خدا ہو کر
اُتر پڑا مدینے میں مصطفی ہو کر​

(وَجَعَلُوا لَہُ مِنْ عِبَادِہِ جُزْئً ا اِنَّ الْاِنسَانَ لَکَفُور مُّبِیْن)
''انہوں نے اللہ کے بندوں کو اللہ کا جزو بنا دیابے شک انسان صریح ناشکرا ہے۔''

انسان تو ہر حال میں اللہ کا محتاج ہے اور اس محتاجی کا وہ دن رات نظارہ کرتا ہے، دن رات اللہ تبارک وتعالیٰ کے چلائے سے چلتا ہے۔ جسے دلیل چاہیے صرف ایک چھوٹا سا کا م کرے، اپنے ناک اورمنہ پر اچھے طریقے سے ہاتھ رکھے تاکہ سانس نہ آ ئے۔ اسے تھوڑی دیر میں پتہ چل جائے گا کہ وہ کتنا عا جز ہے اور اس کا رب کتنا عظیم ہے۔رب ذوالجلال والاکرام کے بارے میں یہ گندی بات، اتنی بڑی گالی کہ اللہ نے بیٹا بنایا، اللہ کے نور سے کو ئی جدا ہوا۔ بہت بڑی بات ہے جو انکے منہ سے نکل رہی ہے۔ وہ سراسر جھوٹ بول رہے ہیں۔

(فَلَعَلَّکَ بَاخِع نَّفْسَکَ عَلٰی آثَارِہِمْ اِن لَّمْ یُؤْمِنُوا بِہَذَا الْحَدِیْثِ اَسَفًا)
''آپ شاید ان کافروں کے پیچھے اپنے آپ کو ہلاک ہی کر ڈالیں گے اس غم سے کہ یہ لوگ اس قرآن پر ایمان کیوں نہیں لاتے۔''

نبی اکرم ﷺاور ہر نبی و رسول قوم کا سخت ہمدرد اور غمگسار ہوتا ہے۔ وہ قوم کو جہنم کی وعید سنا کر خوش نہیں ہوتا بلکہ وہ جہنم کی وعید اسی لیے سناتا ہے کہ شاید وہ اس سے ڈر کر جنت کا راستہ اختیار کرلیں اور وہ جنت کی خوشخبری بار بار اس لیے سناتا ہے کہ شاید وہ مغفرت طلب کرتے ہوئے بار گاہ الٰہی میں جنت کھری کر لیں۔وہ انھیں مغفرت پر ابھارتا ہے، انہیں امید دلاتا ہے۔جو عمل کرنا چا ہے اس کے لیے اللہ کا دین موزوں ہے۔البتہ جس کی نیت خراب ہو اور جس کی کو شش صادق نہ ہو اس کے لیے کو ئی راستہ نہیں۔ اور جو دین کے متعلق یہ سمجھے کہ اس کے فلاں اور فلاں احکامات پر چلنا ممکن نہیں تو وہ اللہ رب العزت پر بہتان تراش رہا ہے۔ اللہ کا سارا دین ہی قابل عمل ہے۔ فرمایا کہ آپ غمزدہ نہ ہوں۔ آپ تو اللہ کا دیا ہو ا پیغام پہنچا رہے ہیں یہی بد نصیب ہیں۔

(اِنَّا جَعَلْنَا مَا عَلَی الْاَرْضِ زِیْنَةً لَّہَا لِنَبْلُوَہُمْ اَیُّہُمْ اَحْسَنُ عَمَلًاo وَاِنَّا لَجَاعِلُونَ مَا عَلَیْْہَا صَعِیْدًا جُرُزًا)

''جو کچھ ارض پر موجود ہے اسے ہم نے اس کی زینت بنا دیا ہے تاکہ آزمائیں کہ ان میں سے کون اچھے عمل کرتا ہے۔''

اس میں لطیف نکتہ ہے کہ اے نبی ﷺ! آپ اتنا غم نہ کریں کہ اپنی جان کے درپے ہو جائیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ دنیا کی رونق اور لذات کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں ورنہ آپ کا رسول ہونا ان پر عیاں ہے۔

(الَّذِیْنَ آتَیْْنَاہُمُ الْکِتَابَ یَعْرِفُونَہُ کَمَا یَعْرِفُونَ اَبْنَاء ہُمْ وَاِنَّ فَرِیْقًا مِّنْہُمْ لَیَکْتُمُونَ الْحَقَّ وَہُمْ یَعْلَمُون) (البقرہ : ١٤٦)
''جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی ہے وہ اس (رسول اور اسلام ) کو یوں پہچانتے ہیں جیسے اپنے بیٹوں کو، تب بھی ان میں یقینا ایک گروہ ایسا ہے جو عمدًا حق چھپاتا ہے۔''

آپ یہ غم ہرگزنہ کریں کہ آپ نے منصب نبوت کا حق اداکرنے میں کوئی کسر چھوڑی ہے، آپ تو حق پہنچا رہے ہیں، یہی اس دنیا پر ریجھ گئے ہیں۔اہل حق کو ہمیشہ یہ پریشانی لاحق ہوتی ہے کہ جب یہ شرک کرنے والے کوئی دلیل بھی نہیں رکھتے تو پھر یہ ایمان کیوں نہیں لاتے اور کیوں جہنم کی طرف سر پٹ دوڑے جا رہے ہیں۔جب اہل شرک یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ اگر تم ہمارے عقیدہ کو باطل ثابت کردو تو ہم اسے چھوڑ دیں گے۔ اس پرداعیان حق غمگین ہو جاتے ہیں کہ ہم نے کہیں غلطی کا ارتکاب کیا ہے جس کی وجہ سے واقعتا انہیں سمجھ نہیں آ رہی جبکہ حقیقت میں غیراللہ کے پجاری یہ بات اہل ایمان کو ستانے کے لیے کرتے ہیں۔اصل میں انہیں پتہ ہوتا ہے کہ توحید کے راستے پر چلتے ہوئے ہماری رنگین دنیا ہم سے چھن جائے گی۔توحید کو عملًا قبول نہ کرنے کا اکثروبیشتر سبب دوستیاں، خاندان، رشتہ داریاں اوراس زمین کی خوبصورتیوں کے چھن جانے کا خوف ہے۔ انہیں کی وجہ سے لوگ کفر کرتے ہیں۔

آج کی دنیا میں بہت سے لوگوں کو کلمہ پڑھنے کے بعد ساری سمجھ ہے کہ حق کیا ہے اور باطل کیا ؟ اورتو اور کلمہ نہ پڑھنے والوں کے پاس بھی حق اس وضاحت کے ساتھ پہنچ چکاہے کہ اگر وہ سچے دل سے حق جاننا چاہیں تو کچھ بھی مشکل نہیں۔ یورپ وامریکہ میں بے شمار لوگ مسلمان ہو چکے اورہو رہے ہیں، روس اور چائنہ تک میں اسلام پھیل چکا ہے، اسلام کی کرنیں ہر طرف روشنی کر رہی ہیں۔ آج کے اس پڑھے لکھے دور میں، مواصلات کے ان ذرائع کے ہوتے ہوئے جو اس وقت اللہ نے انسان کو دے دئیے ہیں۔ کون شخص یہ کہہ سکتا ہے کہ میں حق جاننا چاہتا ہوں مگر مجھے پتہ نہیں چلتا۔ اصل بات تو یہ ہے کہ آج دنیا بھی پہلے سے کہیں زیادہ آسان اور خوبصورت ہو گئی ہے۔ آج ایک مزدور آدمی جو سارا دن مزدوری کرتا ہے، دوسو، تین سوروپے خون پسینا ایک کر کے کما تا ہے، بدنصیبی دیکھئے وہ بھی 15روپے میں چائے کا کپ پینے کے ساتھ اس بے حیا عو رت کاڈانس دیکھتا ہے جس کا ڈانس براہ راست دیکھنے کے لیے لوگ 10,10 ہزار کا ٹکٹ لیتے ہیں۔ یہ عیاشی ہے جو آج گھر گھر پہنچا دی گئی ہے۔ جیسے نبی کریمﷺنے فرمایا تھا: کہ گھر گھر عورتیں ناچیں گی اور گانے گائے جائیں گے۔ اللہ کی بغاوت و نافرمانی کی اصل وجہ یہ ہے کہ لوگ دنیا اور اس کی خوبصورتی میں مگن ہیں۔

(نَحْنُ نَقُصُّ عَلَیْْکَ نَبَاَہُم بِالْحَقِّ ط اِنَّہُمْ فِتْیَة آمَنُوا بِرَبِّہِمْ وَزِدْنَاہُمْ ہُدًی)

''ہم آپ کو ان کا بالکل سچا واقعہ بتلاتے ہیں وہ چند نوجوان تھے جو اپنے رب پر ایمان لائے اور ہم نے انہیں مزید رہنمائی بخشی۔''

یہ قصہ ہمارے لیے نہایت اہم ہے۔ اس لیے کہ امت میں بعض اوقات اتنی قدرت نہیں ہوتی کہ کفر کے ساتھ لڑ سکیں۔ اورحالات ایسے بن جاتے ہیں اگر وہ انہی میں رہے تو ڈر ہے کہ انہیں کفر میں گھسیٹ لیا جائے، ایسے حالات میں فرض ہے کہ وہ جگہ چھوڑ دیں چاہے جنگلوں میں جاکرہی اللہ کی عبادت کیوں نہ کرنی پڑے، مگراللہ کے ساتھ شرک نہ کریں۔ کبھی حالات ایسے ہوتے ہیں کہ کہ اہل ایمان پر لڑائی مسلط کر دی جاتی ہے تب اپنا دفاع کرنافرض ہے۔ جیسا عراق اور افغانستان میں ہوا۔ تو پھر لڑنے کا ہی حکم ہے وہاں سے بھاگنے کا حکم نہیں۔ آج اسی جہاد کی بدولت کفار پرمجاہدین کی ہیبت طاری ہے، جو احیائے خلافت کے لیے، دفاع اسلام کے لیے اپنی جان ہتھیلی پر لیے میدانوں میں کھڑے ہیں۔ان کی نصرت و مدد کرنا مسلمانوں پر فرض ہے۔اسی طرح جب معاشروں میں دعوت کاکام کرنا ممکن ہو تب بھی اس فریضہ کو ترک کرکے لوگوں سے قطع تعلقی کرنا درست نہیں ہے۔

لیکن اس بات کو اچھی طرح جاننا ضروری ہے کہ لا الٰہ الا اللہ اس دین کا وہ حصہ ہے کہ جسے کسی مصلحت کے نام پر چھپانا کسی صورت جائز نہیں کیونکہ توحید ہی سب سے بڑی مصلحت ہے۔ہر وہ نیکی جسے پانے کے لیے کلمہ توحید پر سودے بازی کرنی پڑے شریعت کی نگاہ میں محض شر ہے کیونکہ دین میں ہر بھلائی توحید ہی سے پھوٹتی ہے، 'شرک و مشرکین سے براء ت، توحید کی اساس ہے۔لا الٰہ الا اللہ کے اس بنیادی اور پہلے رکن کی قربانی دیناحقیقت میں ہر خیر اور بھلائی کی قربانی دینا ہے۔پس جس بھلے کام میں لا الٰہ الا اللہ کو پس پشت ڈالنا پڑے، شرک کے رد سے زبان روکنی پڑے، مشرکوں کو جہنمی کی بجائے جنتی، ائمہ کفر کو مشائخ اسلام، داعیان شرک، کو علمائے کرام کہنا پڑے یقینا وہ کام شریعت کی نگاہ میں ایک بدترین جرم، گناہ اور برائی ہے۔ایسی برائی کو نیکی اورمصلحت کہنا اللہ پر جھوٹ باندھنا ہے۔

یقینا ان معاشروں میں رہ کرنیکی کا حکم دینا، لوگوں کو توحید، سچائی، رزق حلال، اطاعت والدین، صلہ رحمی کی طرف بلانا اور انہیں شرک، سود، بدکاری، جھوٹ، غیبت، قطع تعلقی سمیت اُن کاموں سے روکنا جنہیں رب تعالیٰ نے حرام قرار دیانہایت عظیم کام ہے بلکہ یہی وہ کام ہیں جن کی خاطر انبیاء علیہم السلام دنیا میں تشریف لائے۔مگر ان سب کاموں میں توحید کا بیان اور شرک کا رد ایسا مسئلہ ہے کہ جب باقی نیکیاں کرنے کے لیے اس سے خاموشی اختیار کرنی پڑے، باطل خداؤں کے انکار سے رکنا پڑے تب باقی تمام نیکیاں لغو قرار پاتی ہیں کیونکہ لا الٰہ الا اللہ تمام نیکیوں کی جڑ ہے، اور شرک و مشرکین سے براء ت و عداوت لا الٰہ الا اللہ کا اساسی رکن ہے۔پس جب غیر اللہ کی عبادت کا رد نہ رہا تب کوئی اور نیکی چہ معنی دارد؟

اس واقعہ سے ہمیں یہی سبق ملتا ہے کہ جب معاشروں میں لا الٰہ الا اللہ کی پکار لگانا، باطل خداؤں سے کفر و دشمنی کرنا ممکن نہ رہے تب مومن معاشرے تو چھوڑ دیا کرتے ہیں، غاروں میں پناہ تو لے لیتے ہیں مگر وہ لا الٰہ الا اللہ پر سمجھوتہ نہیں کیاکرتے، وقت کے فرعونوں اور نمرودوں کی جھوٹی الوہیت کے پردے چاک کرنے سے نہیں رکا کرتے۔

توحید کے اس فہم کی آج اسلامی تحریکوں کو شدید حاجت ہے۔آج دین کے نام پر دین کی اساس'' توحید ''پر سودے بازی ہو رہی ہے۔حرمت رسول کے نام پر اُن لوگوں کو پاسبان رسول اور محب نبی قرار دیا جارہا ہے جو آپ کے بد ترین گستاخ ہیں، جنہوں نے آپﷺکی دعوت کے اُس شجرمبارک کوجڑ سے اکھاڑنے کی کوشش کی جسے آپ نے اپنے خون سے پروان چڑھایا تھا، جس بات پر آپ کو طائف میں پتھر پڑے، راہ میں کانٹے بچھائے گئے، مکہ مکرمہ سے نکالا گیا، قتل کی سازشیں کی گئیں آج اُسی بات کا انکار کرنے والوں کو حرمت رسول کے پروگراموں کی زینت بنایا جا رہا ہے۔جن ائمہ کفر نے اس دھرتی پر آپﷺکے دین کو بدلا، شرک کو توحید اور کفر کو ایمان بتلایا، مساجد کو بے آباد اور شرک کے اڈوں کو آباد کیا، لوگوں کو شریعت کی بجائے طریقت کی تعلیم دی، اللہ کیساتھ سیدنا علی کو مشکل کشا، علی ہجویری کو داتا، دستگیر، گنج بخش، بری امام کو حاجت روا، باباجمال شاہ کو اولاد دینے والا، اجمیر والی سرکار کو کائنات میں تصرف کرنے والا، اور نہ جانے کتنوں کو اللہ کا شریک قرار دیا آج ایسے مشرکوں اور کافروں کو ہم نے اسلام کے نام پر اسلام کا قائد اور لیڈر بنا دیا جبکہ وہ کفر کے امام اور رہنما ہیں۔یہ سارا ظلم صرف دنیا کی چار دن کی زندگی کے لیے کیا جا رہا ہے۔کبھی یہ ظلم وطن کے مفاد میں کیا جاتا ہے اور کبھی قوم کے مفاد میں، کبھی جماعت کے مفاد میں تو کبھی مسلک کے مفاد میں، کبھی خاندان کے مفاد میںتو کبھی علاقہ اور شہر کے مفاد میں۔رب تعالیٰ نے کیا سچ فرمایا ہے :
( لَا تَجِدُ قَوْمًا یُؤْمِنُونَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ یُوَادُّونَ مَنْ حَادَّ اللّٰہَ وَرَسُولَہُ وَلَوْ کَانُوا آبَاء ہُمْ اَوْ اَبْنَاء ہُمْ اَوْ اِخْوَانَہُمْ اَوْ عَشِیْرَتَہُمْ أُوْلَئِکَ کَتَبَ فِیْ قُلُوبِہِمُ الْاِیْمَانَ وَاَیَّدَہُم بِرُوحٍ مِّنْہُ وَیُدْخِلُہُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِیْ مِن تَحْتِہَا الْاَنْہَارُ خَالِدِیْنَ فِیْہَا رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ وَرَضُوا عَنْہُ أُوْلَئِکَ حِزْبُ اللّٰہِ اَلَا اِنَّ حِزْبَ اللّٰہِ ہُمُ الْمُفْلِحُونَ)
'' جو لوگ اللہ اور آخرت پر یقین رکھتے ہیں آپ انہیں ایسا نہ پائیں گے کہ وہ اللہ اور رسول کے مخالفین سے دوستی گانٹھیں۔ خواہ وہ ان کے باپ ہوں یا بیٹے ہوں یا بھائی یا کنبہ والے ہوں۔یہی لوگ ہیں جن کے دلوں میں اللہ نے ایمان ثبت کردیا ہے اور اپنی مدد و تائید سے انہیں ہمکنار کیا۔ اللہ انہیں ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی ان میں ہمیشہ رہیں گے اللہ ان سے راضی ہو گیا اور وہ اللہ سے، یہی اللہ کی پارٹی ہے سن لو اللہ کی پارٹی کے لوگ ہی فلاح پائیں گے۔''
ہماری تحریکوں کے لیے کہف میں پناہ لینے والے ان نوجوانوں کے قصے میں بڑی عبرت ہے جن کا رب یوں تذکرہ کرتا ہے۔

( اِنَّہُمْ فِتْیَة آمَنُوا بِرَبِّہِمْ وَزِدْنَاہُمْ ہُدًی) وہ کچھ جوان تھے، دین پر لبیک کہنے والے جوان ہی ہوا کرتے ہیں بوڑھوں پر اپنے ماحول کی چھاپ زیادہ ہوتی ہے جس کی وجہ سے وہ نئی بات مشکل ہی سے قبول کرتے ہیں۔ کیونکہ اُن پر خاندان اورمعاشرے کے بہت گہرے اثرات ہوتے ہیں۔

یہ نوجوان اپنے رب پر ایمان لے آئے، ان کا یہ ایمان ایسا پکا اور سچا تھا کہ اللہ نے ان کی راہنمائی میں اضافہ کردیا، بے شک اللہ ان کے ایمان میں اضا فہ کرتا ہے جن کا ایمان سچا ہو اور وہ عمل کے میدان میں اس سچائی کو ثابت کر دیں۔ (لِیَزْدَادُوْا اِِیْمَانًا مَّعَ اِِیْمَانِہِمْ) (الفتح:٤) ہم نے ان کا ایمان اور بڑھا دیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ ایمان بڑھتا بھی ہے اور گھٹتا بھی ہے۔یہ عمل کرنے سے بڑھتا ہے، جو ڈر کر بیٹھ گیا اور کہا کہ یہ عمل کا زمانہ نہیں ہے، تو خطرہ ہے، اس کا ایمان، آخر کار اس کے دل سے نکل نہ جائے۔

(وَرَبَطْنَا عَلَی قُلُوبِہِمْ اِذْ قَامُوا فَقَالُوا رَبُّنَا رَبُّ السَّمَاوَاتِ وَالْاَرْضِ لَن نَّدْعُوَ مِن دُونِہِ اِلٰہًا لَقَدْ قُلْنَا اِذًا شَطَطًا)

''ہم نے ان کے دلوں کو مضبوط کر دیا جب انہوں نے کھڑے ہو کر اعلان کیا کہ ہمارا رب تو وہی ہے جو ارض و سماوات کا رب ہے ہم ا س کے سوا کسی الٰہ کو نہیں پکاریں گے اگر ہم ایسا کریں تو بعید از عقل بات ہوگی ''

(وَرَبَطْنَا عَلَی قُلُوبِہِمْ ) ''ہم نے ان کے دل ایمان پر جما دئیے ''

ایمان کے بعد انعام ملتا ہے۔ انعام یہ ہے کہ اللہ دلوں کو مضبوط کر دیتا ہے۔ طواغیت کا خوف دلوں سے جاتا رہتا ہے، اللہ پر توکل ایمان کا ایسا مزہ دیتا ہے کہ پھر آدمی باطل کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر حق کی گواہی دیتا ہے۔ وہ دعوت حقہ لے کراٹھے، انہوں نے ببانگ دہل یہ اعلا ن کیا:
( رَبُّنَا رَبُّ السَّمَاوَاتِ وَالْاَرْضِ)
اپنی قوم کو سنا دیا کہ ہما را رب تو وہ ہے جو آسمان اور زمین کا رب ہے۔ جب رب وہی ہے تو الٰہ بھی وہی ہے، تو پھر اس کے سوا کسی الٰہ کو نہ پکاریں گے۔ ہمیشہ قوموں نے رب ایک مانا ہے الٰہ کئی بنائے ہیں۔ لارب الا اللّٰہ پر کفار مکہ کا ایمان تھا لیکن انہوں نے الٰہ کئی ایک بنا رکھے تھے۔الٰہ کہتے ہیں جس کی عبادت اور تعظیم کی جائے،جس کی اطاعت کی جائے، جس کے سامنے دل اور عمل سے ذلیل ہوکر اپنے آپ کو بچھادیاجائے۔ انہوں نے کہا:
( لَن نَّدْعُوَ مِن دُونِہِ اِلٰہًا لَقَدْ قُلْنَا اِذًا شَطَطًا)
ہم اس کے علاوہ کسی کی پکار نہ لگائیں گے۔ پکار کا شرک سب سے پہلا شرک ہے۔ کیونکہ تکالیف میں پکار لگانااورمشکلات میں کسی نہ کسی کا سہارا تلاش کرناہر انسان کی ضرورت ہے۔ جنگل کے انسان کو بھی اپنے دشمن کا خوف ہوتاہے یا کوئی نہ کوئی ضرورت لا حق ہوتی ہے۔ جب ضرورت وخوف میں وہ اپنے آپ کو کمزور محسوس کرتا ہے تو وہ کسی بڑی چیز کی پناہ پکڑتا ہے اگرموحدہو تو آسمان و زمین میںغور کرکے اس کوبنانے والے کے سامنے سجدہ ریز ہوتا ہے اور اگر کو تاہ نظر ہے تو کسی شجر و ہجر(جس کے اندر وہ کوئی کرشمہ دیکھتا ہے) کے سامنے جھک جاتا ہے، اسی شرک کا ان مومن جوانوں کو سامنا تھا، انہوں نے قوم و علاقہ کا کوئی مفاد خاطر میں لائے بغیر صاف صاف اعلان کیا :
(ہٰؤُلَاء قَوْمُنَا اتَّخَذُوا مِن دُونِہ اٰلِہَةً لَّوْلَا یَأْتُونَ عَلَیْْہِم بِسُلْطَانٍ بَیِّنٍ فَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَی عَلَی اللّٰہِ کَذِبًا)
''یہ ہماری قوم کے لوگ ہیں جنہوں نے اللہ کے سوا دوسروں کو الٰہ بنا رکھاہے، یہ ان پر واضح دلیل کیوں نہیں لاتے، بھلا اس سے بڑا ظالم کون ہو سکتا ہے جو اللہ پر جھوٹ باندھے۔''

ہماری قوم نے کئی الٰہ بنا لیے۔ الوہیت (حاجت روائی و مشکل کشائی )کے لیے انھوں نے اللہ کو دور جانا اور غیر اللہ کو قریب، اس لیے کسی کو بارش اورکسی کو جنگ کا الٰہ بنا لیا۔ان کی الو ہیت پریہ کھلی دلیل کیوں نہیں لاتے ؟اس سے بڑا ظالم کون ہے جس نے اللہ پر جھوٹ باندھا قوم کو صاف صاف بتا دیا کہ تم شرک کے راستے پر ہو، یہی قوم کی خیر خواہی ہے۔ شرک کرنے والوں سے فنڈ اور ووٹ لے کر جنت کی بشارت دینا، انہیں عالم دین ہو نے کا تأثر دینا، ان کی جماعتوں کو اسلامی جماعتیں باور کروانا اوراُن کی جدو جہد کو اسلام کی خدمت کہنا درحقیقت جہاں اللہ پر جھوٹ باندھنا ہے وہاں اُن کے ساتھ بھی بدخواہی کرنا ہے۔اگر مشرک کو یہ صاف صاف بتلا دیا جائے کہ تو اگر اسی حال میں مر گیا تو جہنم میں جائے گا، نہ تیرا جنازہ پڑھنا جائز ہے اور نہ تجھے غسل و کفن دے کر مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کرنا، نہ تجھ سے کسی مسلمان عورت کا نکاح کرنا درست ہے اور نہ تیرے پیچھے نماز ادا کرناتو شاید وہ فکر کرے اور شرک سے توبہ کرلے۔اسی لیے ان اللہ والوں نے اپنی قوم کو صاف صاف کہہ دیا کہ تم اللہ پر جھوٹ باندھ رہے ہو کہ اُس کے کئی شریک ہیں۔

(وَاِذِاعْتَزَلْتُمُوہُمْ وَمَا یَعْبُدُونَ اِلَّا اللّٰہَ فَأْوُوا اِلَی الْکَہْفِ یَنشُرْ لَکُمْ رَبُّکُم مِّن رَّحّمَتِہ ویُہَیِّئْ لَکُم مِّنْ اَمْرِکُم مِّرْفَقًا)
''اور اب جب تم نے اپنی قوم اور اور ان معبودوں سے جن کی یہ عبادت کرتے ہیں کنارہ کر لیا ہے تو آئو اس غار میں پناہ لے لو، تمہارا رب تم پر اپنی رحمت وسیع کر دے گا اور تمہارے معاملے میں آسانی کر دے گا۔''

(وَاِذِ اعْتَزَلْتُمُوہُمْ وَمَا یَعْبُدُونَ اِلَّا اللّٰہ)
یہاں اللہ تعالیٰ نے معبودان باطلہ سے پہلے اُن کے پجاریوں سے کنارہ کشی کا ذکر فرمایا ہے کیونکہ بت تو کوئی قوت نہیں رکھتے۔ معاشرے کی اصل قوت تو مشرکین ہیں جن سے دشمنی مول لینا مشکل ہوا کرتا ہے۔

معلوم ہوا کہ جس کے اندر صحیح معنوں میں ایمان داخل ہوگیاپھر وہ شرک برداشت نہیںکر سکتا۔ جب حالت یہ ہوکہ نظر آرہا ہو کہ میں اتنا کمزور ہوں کہ اگر میں یہاں رہا تو ایک نہ ایک دن یہ ظالم مجھ سے شرک کروا کر چھوڑیں گے ، تب ہجرت کرنا اور قوم سے علیحدہ ہونا واجب ہے۔ایسا نہ کرنا گمراہی کا دروازہ کھولنا ہے۔چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کتنے ہی نیک لوگوں نے کہا کہ اگر طاغوت کوئی نیک کام کرواتا ہے تو کر لینے میں کیا حرج ہے ؟ طاغوت طاقتور تھا اور یہ کمزور تھے۔ یہ ا س کے چنگل میں آگئے اب اتنا مجبور ہوئے کہ انھیں ان لوگوں کو اسلامی رہنما کہنا پڑا جو اسلام کے اندر ایک دھبہ ہیں، جو شرک کا جھنڈا اٹھائے ہوئے ہیں، جو قرآن و سنت سمجھنے کے باوجود شرک کی وکا لت کرتے ہیں، وہ لوگ جو صحابہf کو گالی نکالتے ہیں اور قرآن کو بدلی ہوئی کتاب کہتے ہیں۔ توحید کے دعویداروں کو انھیں اپنا بھائی کہنا پڑا۔ یقینا اصحاب کہف بصیرت والے تھے جنہوں نے کہا تھا :
(اِنَّہُمْ اِن یَظْہَرُوا عَلَیْْکُمْ یَرْجُمُوکُمْ اَوْ یُعِیْدُوکُمْ فِیْ مِلَّتِہِمْ وَلَن تُفْلِحُوا اِذًا اَبَدًا)
''اگر ان لوگوں کا تم پر بس چل گیا تو یا تو تمہیں رجم کر دیں گے یا پھر اپنے دین میں لوٹا لے جائیں گے اس صورت میں تم کبھی فلاح نہ پا سکو گے۔''

اس لیے طواغیت اورمشرکوں سے محبت کی پینگیں بڑھانے والوں کے بارے میں کہنا کہ وہ توحید کے زبردست داعی ہیں فہم توحید سے جہالت کی دلیل ہے۔یا د رکھیے کوئی توحید بیان کرتا ہو اور طواغیت اور ان کے اولیاء اس کی عزت بھی کرتے ہوں یہ ممکن نہیں ہے۔ یا تو یہ تحریک اور شخص توحید بیان نہیں کرتا یا پھر جو اس کی عزت کرتے ہیں وہ سارے موحد ہو چکے ہیں۔ اور اگر ایسا ہے پھر تو مسئلہ حل ہو گیا یعنی اسلام آگیا۔ اللہ سے دعا ہے کہ ہمیں اپنی توحید پر قائم رہنے اوراس کی دعوت دینے کی توفیق عطا فرمائے اور اسی پرہمارا خاتمہ فرمائے۔

( فَأْوُوا اِلَی الْکَہْفِ یَنشُرْ لَکُمْ رَبُّکُم مِّن رَّحْمَتِہ ویُہَیِّئْ لَکُم مِّنْ اَمْرِکُم مِّرْفَقًا)

''آؤ اس غار میں پنا ہ لے لو، تمہارا رب تم پر اپنی رحمت وسیع کر دے گا اور تمہارے معاملہ میں آسانی کر دے گا۔''

اللہ کی رحمتیں، ملکوں کا دفاع، معیشت میں ترقی، امن و سکون، خوشحالی اور خوشیاں صرف ایک اللہ پر ایمان لانے میں مضمر ہیں۔جیسا کہ اس آیت میں بیان ہوا ہے۔اس ملک اور اس کی عوام کے حقیقی محسن اورنجات دہندہ وہی لوگ ہیں جو انہیں ایک اللہ کی طرف بلاتے ہیں۔اس کے سوا تمام راستے ہلاکت و بربادی کے ہیں۔جب بھی ہمیں دنیا کی چکا چوند، مایوسی اور دشمن کے ہجوم کے غم نے گھیرا ہو تو یہ دعا کرنی چاہیے پس ہما رے لیے رحمت الٰہی کے دروازے کھل جائیں گے۔

(رَبَّنَا آتِنَا مِن لَّدُنکَ رَحْمَةً وَہَیِّئْ لَنَا مِنْ اَمْرِنَا رَشَدًا)
''اے ہمارے رب !اپنی جناب سے ہمیں رحمت عطا فرما اور اس معاملہ میں ہماری رہنمائی فرما۔(آمین)

۱ بخاری :٣٦١٤، مسلم:٧٩٥.
۲ (مسند احمد ) جبکہ مسلم کی روایت میں آخری دس آیات کا ذکر ہے۔ (مسلم:٨٠٩)
 

Rashid Iqbal Malik

مبتدی
شمولیت
مئی 03، 2017
پیغامات
10
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
13
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ
اصحاب الکہف پر جدید ترین تحقیق اسکی اہمیت اور افادیت
(علمِ روایت ودرایت کی روشنی میں ایک تحقیقی جائزہ)
مقدمہ
اصحابؒ الکہف کا قصہ بلاشبہ قرآن کریم کے چند اہم ترین موضوعات میں تصور کیا جاتا ہے۔ اس سورۃ کی شان نزول ہی اسکی اہمیت اور افادیت کی شاہد ہے۔ جسکی بدولت ایک طرف نبی کریمﷺکی شان نبوت کفار مکہ اور یہود مدینہ کے سامنے مزید نکھر کر سامنے آئی اور دوسری طرف انکے سوالات کا عظیم الشان جواب اللہ کریم نے سورہ الکہف کی صورت میں نازل فرمایا۔ اس واقعہ کی حقیقت تک پہنچنے سے پہلے ایک امر کا ادراک ضروری ہے کہ سورۃ الکہف کی آیات 9 سے 26 تک اللہ تعالی نے یہ واقعہ براہ راست بیان فرمایا ہے۔ اس کے علاوہ کسی اور جگہ اس واقعہ کا ذکر آتا ہے اور ناں ہی کسی حدیثﷺ میں اسکی کسی بھی لحاظ سے تصریح ملتی ہے۔ چنانچہ نبی کریمﷺکے وصال کے بعد تفسیری موضوع میں مسلم مفسرین کو کافی دقت کا سامنا کرنا پڑا۔ جس کی بنیادی طور پر دو وجوہات تھیں۔
۱۔ یہ واقعہ غیر عرب اقوام سے تعلق رکھتا تھا اور خطہ عرب سے باہر واقع ہوا تھا۔
۲۔ قدیم عرب مؤرخین اور مسلم علماء و مفسرین اس واقعہ سے کلی طور پر ناواقف تھے۔
اسکی روایت کرنے والوں متقدمین مفسرین میں اصحاب رسولﷺ حضرت عباس بن عبدالمطلب، حضرت عبداللہ ابن عباس اورحضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہم کا ذکر ملتا ہے۔جبکہ اسکے اصل راوی درحقیقت یہودیت اور نصرانیت سے نومسلم تابعینؒ کرام تھے جو اسرائیلی علوم سے عمومی واقفیت کی بنیاد پر اسرائیلیات کے بنیادی مصادر تھے۔مثلا ان ہی تابعین میں ایک تابعی کعبؒ بن الآحبارکا نام کثرت سے ملتا ہے ۔ تدّبر کی نگاہ سے دیکھا جائے تو متآخرین نے اِنھی مصادر کی روایات کو اِنھی کے طرق کے ساتھ یا بغیر کسی بیانِ سند کے اپنی اپنی تفسیری کتابوں میں محض نقل کردیا ہے اور پھر یہ واقعہ نقل در نقل ہوتا چلا گیا یہاں تک کہ اسکو حقّانیت کی سند مل گی۔ اس واقعہ کا موجودہ عیسائیت سے دور دور کا واسطہ نہیں اور نا ہی یہ ایک عیسائی روایت ہے۔ یہی اس سورۃ کی عظمت ہے جو ایک طرف تو اس قصہ کی اصل حقیقت بتاتی ہے اور دوسری طرف یہ فہم و شعور کہ کیوں عیسائیت اس واقعہ کو گلے سے لگا کر بیٹھی ہوئی ہے۔

تحقیقی مقالے کی اہمیت، افادیت اور وجہ تصنیف
بعثت نبوی ﷺکی تصدیق کے لیے نبوت کے درمیانی دور میں کفارمکہ نے یہودِ مدینہ سے رابطہ کیا اور جواباً مشیّت الٰہی کے تحت یہودِ مدینہ نے بھی انھی اصحابؒ کے متعلق سوال اٹھا دیا۔ چاہے یہودِ مدینہ کی نیت نبی کریمﷺ کے دعویٰ نبوت کی حقّانیت کی تصدیق ہی تھی بحرحال مشیّت الٰہی انکی سوچ سے کہیں اگے تھی۔ اللہ بزرگ و بر تر نے اس واقعہ سے عیسائیت کے پیشروں کی 1600 سو سال پہلے کی جانے والی ریشہ دوانیوں کو اکیسویں صدی میں بحر مردار کی دستاویزات کے شواہد کی روشنی میں کھولنا تھا اور اس عظیم خدمت کے لیے مجھے چننا تھا۔ یہ یقیناً بڑا دعویٰ ہے مگراس مقالے کو عالمی سطح پر مستند تحقیق کا درجہ ملنا اس دعویٰ کی سچائی کا بیّن ثبوت ہے۔
اس تحقیقی مقالے کی رو سے اس واقعہ کی تین جہتیں ہیں۔ اولاً، تاریخی، دوئم، مذہبی، سوئم، علمی۔ان تین جہتوں پر ہی حقائق کی روشنی میں دلائل دیے گئے ہیں۔ اس قصے کی بے مثل افادیت جاننےکے لیے اس امر کی آگاہی ضروری ہے کہ تقریباً تمام مروّجہ رواٰیت کا بنیادی ماخذ عیسائیت سے مشتق ہے۔چنانچہ اس علمی کاوش کو دو جہتی تناظر میں سمجھنے کی اشّد ضرورت ہے۔
۱۔ اس من گھڑت اسرائیلی روایت سے عیسائیت نے کیا پایا۔
۲۔ اور مسلمانوں نے کیا کھویا۔
مقدمہ میں مقالے کی افادیت اور مسلمانوں کو پہنچائے گئے نقصان کی تفصیل بیان کرنا قطاً مقصود نہیں صرف اجمالی ذکر ایک طرح کا توجہ دلاؤ نوٹس ہے۔ یہ مقالہ اول تا آخر اسی افادیت، اہمیت اور اثرات کو اجاگر کرنے کی کاوش ہے۔اگرچہ عظمت قرآن ایک مسّلم حقیقت ہے اور یہودِمدینہ کے اٹھائے گئے سوالات کے جوابات اسکی عظمت کے دلائل ہیں لیکن یہاں اس جواب کو عظیم الشان کہنا ایک مختلف پیرائے میں ہے۔ یہ پیرایا شاید اسلامی اسکالرشپ کی وسعتِ نظری سے بعید رہا۔ اسلامی علماء کرام کی اکثریت اس واقعہ کو ایک اسرائیلی روایت سمجھ کر نادانستگی میں من و عن تفسیر قرآن میں مزّین کرتے رہے۔ کچھ علماء نے تو پوری شد و مد کے ساتھ اس خود ساختہ عیسائی واقعہ کی باقاعدہ تبلیغ و ترویج کی۔ اسی لیے تقریباً تمام کتب تفاسیر میں اس واقعہ کا ذکر ایک عیسائی روایت کے طور پر ہی درج ہے مثلاً مشہور کتاب قصص الانبیاء میں مصنف سورۃ الکہف کی تفسیر میں یوں رقم طراز ہیں" کیوں کہ عرصہ ہوا یہاں کہ باشندوں نے شرک چھوڑ کر عیسائیت قبول کر لی ہے"۔ یہ مفسرین اس بات کو نظر انداز کر گئے کی تلثیثی عیسائیت اور حضرت عیسیؑ کے پیرؤکاروں میں عقیدے کا بنیادی فرق تھا اور عیسائی مبلیغین و مفسرین کے دعویٰ کا محور تلثیثی عیسائیت رہا ہے نا کہ توحیدی عقاید کا پرچار انکا مطلوب تھا۔
چنانچہ اس خود ساختہ اسرائیلی روایت کو اسلامی درجہ قبولیت کا ایک انتہائی غیرپسندیدہ اثر سامنے آیا جس کی حدت مسلم علماء کے سوا کوئی محسوس نہیں کر سکتا تھا۔ اس قبولیت کی بدولت مسیحی علماء اور موّرخین کو نبی کریمﷺ کی ذات اقدس پر کیچڑ اچھالنے کا ایک نادر موقعہ مل گیا۔ انھوں نے نبی کریم ﷺ پر علمی چوری کے پہ درپہ الزامات عائد کر دیئے۔ مثلاً اٹھارویں صدی عیسوی کے سب سے بڑے عیسائی موّرخ ایڈورڈ گّبن نے یہ کہہ کر دشنام طرازی کی کہ
ترجمہ ”اصحاب الکھف کی شہرت نا صرف عیسائی دنیا تک محدود تھی ۔ یہ کہانی مہومیٹ (محمدﷺ) نے اپنے شامی قافلوں کے دوران سیکھی اور بعد میں ایک وحی کے طور پر قرآن میں متعارف کردی". علٰی ھذاٰ القیاس۔
ان مسیحی مؤرخین اور مستشرقین نے اپنے اپنے ادوار میں اس ناپاک سعی میں حتی المقدور اپنا اپنا حصہ ڈالا اور دلائل سے یہ باور کرتے رہے کہ بالخصوص اس واقعہ کی رو سے قرآن اور نبی کریمﷺ موردِ الزام ہیں اور یہ کے اس واقعہ پر مسلمانوں کا کوئی حق نہیں تھا۔ یہ واقعہ زبردستی قرآن میں مذموم مقاصد کے لیے ٹھونسا گیا (نعوذباللہ و لعن اللہ علیہم اجمعین)۔بحرحال مسلمانوں پر علمی حملہ تو ہو چکا تھا۔ مستشرقین کا یہ الزام پوری شدومد کے ساتھ پوری اسلامی دنیا کی جامعات میں مسلم اسکالرز کو پی ایچ ڈی کی سطح تک پڑھایا جاتا ہے۔
مسلم علماء پر اسکا جواب ایک فرض کفایہ کی حیثیت رکھتا تھا اور رکھتا ہے۔اس زمن میں سرسری جواب تو یہ دیا گیاکہ یہ محض ایک تعصب زدہ الزام ہے ۔ برسبیل مثال پیر کرم شاہ نے اپنی تفسیر ضیاءالقرآن میں لکھا ہے کہ ”ہاں ایک چیز ضرور قابل غور ہے۔ گبن نے بڑی گستاخی سے کام لیتے ہوئے لکھا ہے کہ حضور کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) نے یہ واقعہ اپنے شام کے تجارتی سفروں کے اثناء میں علماء اہل کتاب سے سنا اور اسے وحی الٰہی کہہ کر قرآن میں درج کر دیا۔ کیونکہ قرآن کریم کی بیان کردہ تفصیلات جمیس کے مواعظ میں لکھی ہوئی تفصیلات سے کلی مطابقت نہیں رکھتیں۔ اس لیے اس گستاخ اور منہ پھٹ مؤرخ نے سپہر علم و حکمت کے نیّراعظم پر بےعملی اور جہالت کا الزام لگایا۔ اس طرح اس نے یہ صرف حقیقت کا منہ چڑایا ہے بلکہ مؤرخ کے بلند مقام کو بھی تعصب کی غلاظت سے آلودہ کر دیا ہے”۔
ضرورت اس امر کی تھی کہ مسلم علماء محسن انسانیتﷺ پر لگائے گئے الزامات کی تہہ تک پہنچتے اور ان مسیحی مؤرخین کو مناسب علمی و تحقیقی جواب دیتے۔ اس سارے قصے میں یا مسیحی علماء کا دعوی سچا ہےیا قرآن سچا ہے۔ مسلم علماء نے یہ جوابِ دعوی بدقسمتی سے پچھلے کم و بیش ڈھائی سو سال سے داخل نہیں کیا جسکی بدولت سوائے الزام در الزام کے کوئی سود مند مقصد حاصل نہیں ہو سکا۔
مقاصد
راقم الحروف نے دو مقاصد کے تحت اس کا جواب دینے کا بیڑا اٹھایا۔
گبن اور مستشرقین کا قرآن اور محمدﷺ پر علمی چوری کا الزام رد کیا جائے۔
2۔ یہ بتایا جائے کی الزام لگانے والوں نے دراصل خود یہ روایت عیسائیت کے فروغ کے لئے استعمال کیا۔

ان مقاصد کے حصول کے لئے یہ جواب رائج الوقت دو ہی طریقوں سے دیا جا سکتا تھا۔ اولاً اسکو کتابی شکل میں شائع کر دیا جاتا۔ اس طریقہ کا سب سے بڑا نقصان تھا کہ یہ مصنف کی ذاتی رائے سمجھی جاتی اس جوابِ دعوی کو درجہ استناد قطعاً ناں ملتا جو ہرگز مقصود نہیں تھا۔ اسی امر کی طرف میری توجہ میرے مہربان دوست ڈاکٹر عدیل صاحب نے کروائی جس پر میں نےاس موضوع پر کتاب لکھنے کے ارادے سے رجوع کر لیا۔ درجہ سند دینے کے لیے دوسرا طریقہ تھا کہ اس تحقیقی کام کو وقت کے نامور علماء (بشمول مسیحی علماء)کے سامنے کسی تحقیقی مجلے میں پیش کیا جاتاتاکہ علماء اسکو پرکھتے اور اپنی تمام تر علمی صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر اس مقالے کے دلائل کو جانچتے۔ چنانچہ اس مقالے کو کسی تحقیقی مجّلے میں شائع کرنے کا ارادہ کیا گیا۔ اس ارادے کو پایہ تکمیل پہنچانے میں بھی دو گانہ سوچ کار فرما تھی۔
۱۔ کیا صرف کسی بھی سطحی مجّلے میں جوابِ دعوی دائر کرنے پر اکتفا کیا جائے؟
۲۔ یا انتہائی معیاری تحقیقی مجلے کا انتخاب کرکے ان مستشرقین کی زبان میں، انکے علمی و تحقیقی مراکز تک پہنچایا جائے تاکہ مقصد کماحقہ حاصل ہو سکے۔
کسی بھی علاقائی مجّلے میں یہ تحقیق شائع تو ہو جاتی مگر اس عظیم الشان تحقیقی کام کا معیار گر جاتا دوسرا یہ بھی ممکن تھا کہ یہ داخلِ دفتر ہو جاتا اور مسیحی علماء تک پہنچنے سے رہ جاتا اور اگر پہنچ بھی جاتا تو وہ اسکو یک جنبشِ قلم رد کر دیتے۔ان تمام امکانات سے بچنے کی واحد صورت تھی کہ تحقیقی مجّلے کے چناؤ میں انتہائی احتیاط برتی جائے اور کسی ایسے مجّلے کا انتخاب کیا جائے جس میں درج ذیل خصوصیات پائی جائیں۔
۱۔وہ مجّلہ بین القوامی تحقیق کا علمبردار ہو۔
۲۔ کسی اسلامی ادارے سے وابسطہ ہو تاکہ اسلامی جوابِ دعوی سمجھا جائے۔
۳۔ غیر اسلامی مذاہب کے علماء اسکے ریویو بورڈ کے ممبر ہوں۔
۴۔یورپ میں شائع ہوتا ہو اور یورپی اسکالرشپ اس سے استفادہ حاصل کرتی ہو۔
۵۔ بین الاقوامی زبان میں ہو تاکہ محسن انسانیتﷺ پر لگائے گئے الزامات کا بھرپور جواب کھلے چیلنج کے ساتھ پوری دنیا کے علماء پڑھیں اور اسکو غلط ثابت کرنے کی اگر سعی کرنا چاہیں تو میدان میں اتریں۔
یہ صفات کسی بلند پایہ یورپی یونیورسٹی کے مجّلے میں پائی جاتی ہیں مگر چونکہ یہ جامعات پوائنٹ نمبر ۲ پر پورا نہیں اترتیں اس لیے اس عظیم تر سوچ کے ساتھ راقم الحروف نے’یونیورسٹی آف ملایا’ کےکثیرالاشعات مجّلے ”Al-Bayan Journal of Quran and Hadith Studies” کا انتخاب کیا۔یہ مجّلہ یورپ سے شائع ہوتا ہے اور بیش قیمت علمی ذخیرہ تصور کیا جاتا ہے۔اس بیش قیمت مجّلے کی قیمت 32 ہزار کے قریب ہے جس میں تقریباً چھے مقالے شامل ہوتے ہیں۔ اور اگر میرے اس ایک مقالے کو آن لائن پڑھنے کے لیے سرچ کیا جائے تو اسکی قیمت 3 ہزار سے کچھ اوپر ہے۔ قیمت لکھنے کا واحد مقصد عوام الناس کو مجّلے اور مقالے کی اہمیت سے آگاہ کرنا ہےوگرنہ یہ تحقیق تو انمول ہے۔
یہ تحقیقی کام میری آٹھ سالہ محنت شاقہ کا نچوڑ ہے۔ اور اللہ نے اسکے لئے بالخصوص مدد فرمائی اور مجھے عربی زبان کی عمومی سمجھ سے روشناس کروایا ایسے حالات پیدا کئے کہ میں نے ایک قومی ادارے سے ایک سالہ عربی کا ڈپلومہ حاصل کیا اور اسکی بنیاد پر ایم اے عربی میں داخلہ لیا جو بوجوہ ہنوز نا مکمل ہے۔ اسی خدمت لینے کے لئے اللہ نے مجھے اسلامی تعلیمات کی طرف راغب کیا جہاں مجھ پر یہ ادراک ہوا کہ یہ ان الزامات کا جواب دینا کتنا ضروری ہے۔ چنانچہ اس کام میں لگ گیا اور تحقیق مکمل کرنے کے بعد بھی ایک سال سے زائد عرصہ تک یہ تحقیقی کام دنیا کی بلند پایہ جامعات کے مسلم و غیر مسلم علماء کے ہر پہلو سے جائزہ لینے کے مختلف مراحل سے گزرتا ہوا جون 2017کے شمارے میں شائع ہو گا (انشاءاللہ)۔ یہ جوابِ دعویٰ اب ایک سند کا درجہ رکھتا ہے اور اسکا رد اسی سطح کی کوئی نئی تحقیق، اسی سطح کے تحقیقی مجّلے سے ہی ہوسکتی ہے جو الحمداللہ فی الوقت ممکن نہیں۔

اهداف
اس بین الاقوامی تحقیقی مقالے میں درج زیل اهداف حاصل کئے ہیں(الحمداللہ)۔
· مستشرقین کے قرآن اور محمد ﷺ پر علمی چوری کے الزامات یورپ کے معروف اسکالرز کے ریویوز کے بعد رد کیے جا چکے ہیں
· یہ ثابت کیا ہے کہ اس واقعہ کا استحصال کر کے بت پرست یورپ میں عیسائیت کو پھیلانے کے لیےکامیابی سے استعمال کیا گیا
· اسرائیلی روایت کی پرکھ اور جانچ کے لئےانتہائی آزمودہ کسوٹی دریافت کی ہے اور اسی کسوٹی پر پرکھتے ہوئے یہ عیسائی روایت کھنگالی ہے
· اصحاب الکہف پر نیا نظریہ دیا ہے جو موجودہ نظریات سے بالکل مختلف ہے.
· بحر مردار کی دستاویزات کی تحقیق پر کاری سوالات اٹھا ئےہیں اور دلائل سے ثابت کیا ہے کہ انکی ٹائم لائن غلط اور عیب زدہ ہے
· یہ تحقیقی پیپر بائیبل کے علماء کو متاثر کر یگا اور انکو چند انتہائی اہم امور پر جوابدہ بنائے گی۔
·
قرآن کی تمام تفاسیر میں اصحاب الکہف کی شرح تبدیل ہو جائے گی جو بہت بڑا کام ہے.
میں والد صاحب کا احسان مند ہوں جنھوں نے میری تعلیم وتربیت اس انداز سے کی کہ مجھے اس غیر معمولی سعادت کا اہل بنایا۔اس کام میں بالخصوص اپنے بڑے بھائی ملک خالد اقبال ، مربی و غمگسار محترم ڈاکٹر عدیل صاحب اور سید اظہار الحسن ہاشمی صاحب کا بے حد مشکور ہوں جنھوں نے میری خصوصی مدد فرمائی۔
میں اس عظیم سعادت کے چناؤ پر اللہ کریم کا بے حد مشکور ہوں اور اس کو روزِ قیامت سبیلِ نجات مانتا ہوں اور بطور وصیت لکھتا ہوں کہ محسن انسانیتﷺ پر لگائے گئے الزمات کا یہ رد میرے کفن کا حصہ بنے تاکہ سفرِ برزخ اور روز قیامت میرے ہمراہ ہو۔


راشد اقبال ملک
سعیلہ جہلم

rashid37009@gmail.com
May 2017
(جاری ہے)
http://deadseascrollsandislam.blogspot.com/2017/05/blog-post.html
 
Top