• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سورۃ الاعلیٰ کی ان آیات کی تشریح

sknizamudin

مبتدی
شمولیت
مارچ 03، 2018
پیغامات
10
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
8
آیات کی تشریح قد افلح من تزکی ٨٧:١٤ قرآن

Sent from my Redmi Note 4 using Tapatalk
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
آیات کی تشریح قد افلح من تزکی ٨٧:١٤ قرآن
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے :​
قَدْ أَفْلَحَ مَنْ تَزَكَّى (14) وَذَكَرَ اسْمَ رَبِّهِ فَصَلَّى (15)
یقیناً وہ شخص کامیاب (٦) ہوگا جو (کفر و شرک سے) پاک ہوگیا ،اور جس نے اپنے رب کو یاد کیا ،پھر نماز پڑھی "

علامہ عبدالرحمن کیلانیؒ اس کی تفسیر میں فرماتے ہیں :
[١٠] یعنی جس نے اپنے آپ کو کفر و شرک ' عقائد فاسدہ سے اور اخلاقی رذیلہ سے پاک کرلیا وہ کامیاب ہوگیا۔ یہاں بعض لوگوں نے تزکی ٰسے مراد زکوٰۃ اور بالخصوص صدقہ فطر اور (وذکر اسم ربہ) سے مراد تکبیرات عیدین اور فصلی سے مراد نماز عید لی ہے۔ اور اگر اس آیت کو اس کے عام مفہوم میں لیا جائے تو زیادہ مناسب ہے۔ یعنی جو شخص اپنے نفس کو پاکیزہ بنا لے پھر اللہ کو زبان سے بھی یاد کرتا رہے اور دل میں بھی یاد رکھے۔ پھر اسی کی تائید کے طور پر باقاعدگی سے نمازیں ادا کرتا رہے تو سمجھ لو کہ اس کی زندگی سنور گئی اور کامیاب ہوگیا۔ یہاں کامیابی سے مراد اخروی کامیابی تو یقینی ہے اور اس دنیا میں اس کی کامیاب زندگی کا انحصار اللہ تعالیٰ کی مرضی پر موقوف ہے کیونکہ دارالجزا آخرت ہے یہ دنیا نہیں۔
(تیسیر القرآن )
اور امام ابن کثیر اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں :
يقول تعالى: {قد أفلح من تزكى} أي: طهر نفسه من الأخلاق الرذيلة، وتابع ما أنزل الله على رسوله، صلوات الله وسلامه عليه، {وذكر اسم ربه فصلى} أي: أقام الصلاة في أوقاتها؛ ابتغاء رضوان الله وطاعة لأمر الله وامتثالا لشرع الله
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ’ جس نے رذیل اخلاق سے اپنے تئیں پاک کر لیا ، احکام اسلام کی تابعداری کی ، نماز کو ٹھیک وقت پر قائم رکھا ، صرف اللہ تعالیٰ کی رضا مندی اور اس کی خوشنودی طلب کرنے کے لیے اس نے نجات اور فلاح پا لی ‘
آگے امام ابن کثیرؒ نے اس کی تفسیر میں مشہور تابعی ابوالعالیہؒ کا قول نقل کیا ہے ،وہ فرماتے ہیں :
عن أبي خلدة قال: دخلت على أبي العالية فقال لي: إذا غدوت غدا إلى العيد فمر بي. قال: فمررت به فقال: هل طعمت شيئا؟ قلت: نعم. قال: أفضت على نفسك من الماء؟ قلت: نعم. قال: فأخبرني ما فعلت بزكاتك؟ قلت: وكأنك قلت: قد وجهتها؟ قال: إنما أردتك لهذا. ثم قرأ: {قد أفلح من تزكى وذكر اسم ربه فصلى} وقال: إن أهل المدينة لا يرون صدقة أفضل منها ومن سقاية الماء.
ابوالعالیہ رحمہ اللہ نے ایک مرتبہ ابوخلدہ رحمہ اللہ سے فرمایا کہ کل جب عید گاہ جاؤ تو مجھ سے ملتے جانا ، جب میں گیا تو مجھ سے کہا : کچھ کھا لیا ہے ؟ میں نے کہا : ہاں ، فرمایا : غسل کرلیا ؟ میں نے کہا ہاں ، فرمایا : زکوٰۃ فطر ادا کر چکے ہو ؟ میں نے کہا ہاں ، فرمایا : بس یہی کہنا تھا کہ اس آیت {قد أفلح من تزكى وذكر اسم ربه فصلى} میں یہی مراد ہے ۔ اہل مدینہ صدقہ فطرسے اور پانی پلانے سے افضل اور کوئی صدقہ نہیں جانتے تھے ،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کے بعد مشہور تابعی ابوقتادۃ کا تفسیری قول نقل کیا ہے کہ :
(وَقَالَ قَتَادَةُ فِي هَذِهِ الْآيَةِ {قَدْ أَفْلَحَ مَنْ تَزَكَّى وَذَكَرَ اسْمَ رَبِّهِ فَصَلَّى} زَكَّى مَالَهُ وَأَرْضَى خَالِقَهُ ۔۔۔
قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :اس آیت میں وہ سعادت مند آدمی مراد ہے جس نے اپنے مال کو پاک کر لیا اور اپنے رب کو راضی کر لیا "
https://archive.org/stream/FPtkather/tkather14#page/n324
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اس آیت کی تفسیر میں ایک مرفوع حدیث نقل ہے ،جس میں بتایا گیا ہے کہ (تزکیٰ ) سے زکاۃ الفطر مراد ہے
تو اس حدیث کے متعلق علامہ البانیؒ لکھتے ہیں :

" هي زكاة الفطر . آية : *( قد أفلح من تزكى )* " .
قال الألباني في " السلسلة الضعيفة و الموضوعة " ( 3/275 ) :
ضعيف جدا .
أخرجه البزار في " مسنده " ( 1/429/905 ) و ابن عدي في " الكامل " ( ق 333/1 )
و البيهقي ( 4/159 ) من طريق عبد الله بن نافع عن كثير بن عبد الله المزني عن
أبيه عن جده أن رسول الله صلى الله عليه وسلم سئل عن قوله : *( قد أفلح من تزكى
و ذكر اسم ربه فصلى )* قال : فذكره .
قلت : و هذا إسناد ضعيف جدا ، كثير هذا هو ابن عبد الله بن عمرو بن عوف ، قال
الشافعي و أبو داود :
" ركن من أركان الكذب " .
و قال الدارقطني و غيره :
" متروك " .
و عبد الله بن نافع هو الصائغ المخزومي المدني ، قال الحافظ :
" ثقة صحيح الكتاب ، في حفظه لين " .
و الحديث أورده السيوطي في " الدر المنثور " ( 6/339 ) بتخريج البزار و ابن
المنذر و ابن أبي حاتم و الحاكم في " الكنى " و ابن مردويه و البيهقي في " سننه
" بسند ضعيف عن كثير بن عبد الله بن عمرو بن عوف به .
قلت : فضعف إسناده بعبد الله بن نافع ، و تضعيفه بكثير أولى لما عرفت من سوء
حاله ، و لكن لعله سكت عنه لشهرته بذلك .
و للحديث شاهد موقوف ، رواه أبو حماد الحنفي عن عبيد الله ( و في نسخة عبد الله
) ابن عمر عن نافع عن عمر أنه كان يقول :
" نزلت هذه الآية : *( قد أفلح من تزكى و ذكر اسم ربه فصلى )* في زكاة رمضان "
قلت : و هو مع وقفه ضعيف الإسناد جدا ، فإن أبا حماد الحنفي و اسمه مفضل بن
صدقة قال النسائي :
" متروك " .
و قال ابن معين :
" ليس بشيء " .
و عبد الله بن عمر إن كان هو المكبر فضعيف ، و إن كان المصغر فثقة .

سلسلة الأحاديث الضعيفة والموضوعة وأثرها السيء في الأمة
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
وَذَكَرَ اسْمَ رَبِّهِ فَصَلَّى (15)
اور جس نے اپنے رب کو یاد کیا ،پھر نماز پڑھی "
قرآن مجید کی مختصر تفسیر "اشرف الحواشی " میں اس آیہ کے ذیل میں لکھا ہے ؛
بعض مفسرین نے … جیسے عطار … نے لفظ ” تزکی“ کے لفظ سے یہ سمجھا ہے کہ اس آیت میں زکوۃ یعنی صدقہ فطر ادا کرنے پھر تکبیریں کہنے اور پھر عید کی نماز پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے لیکن یہ مطلب لینا اس لئے صحیح نہیں ہے کہ آیت مکی ہے حالانکہ صدقہ فطر اور عید کا حکم مدینہ میں دیا گیا ہے۔
(تنبیہ) اس آیت سے معلوم ہوا کہ تکبیر تکریمہ (یعنی نماز شروع کرتے وقت ” اللہ اکبر“ کہنا) فرض ہے اور یہی چیز حدیث میں نبی ﷺ سے ثابت ہے چنانچہ آپ کا ارشاد ہے :” نماز کی کنجی طہارت ہے، اس کی تحریم ” اللہ اکبر“ کہنا ہے اور اس کی تحلیل (کھولنا) سلام پھیرنا ہے۔“ (ابودائود۔ ترمذی وغیرہ من علی)
حنفیہ نے محض یہ دیکھ کر کہ آیت میں ” اللہ کا نام لینے“ کا تو ذکر ہے، لفظ ” اللہ اکبر“ کا ذکر نہیں ہے۔ یہ مسئلہ نکالا ہے کہ نماز شروع کرتے وقت ” اللہ اکبر“ کہنا فرض نہیں ہے، اللہ تعالیٰ کا مطلق نام لینا جس سے اس کی تعظیم ظاہر ہوجاتی ہو کافی ہے البتہ ” اللہ اکبر“ کہنا سنت یا واجب قرار پائے گا۔ (تفسیر عثمانی)
حالانکہ جس چیز کا آیت میں حکم دیا گیا ہے۔ اس کو نبی ﷺ نے ” اللہ اکبر“ کا حکم دے کر مطلق سے مقید فرما دیا ہے۔ اس کے ہوتے ہوئے نماز کو ” اللہ اکبر“ کے علاوہ کسی اور لفظ سے شروع کرنا ہرگز صحیح نہیں ہو سکتا۔ واضح رہے کہ حنفیہ کے نزدیک واجب کا لفظ فرض کے معنی میں نہیں ہے بلکہ وہ اس سے کم تردرجہ کی چیز ہے۔ کیونکہ وہ رہ جائے تو نماز کے آخر میں سجدہ سہو سے اس کی تلاف یہو جاتی ہے جبکہ فرض رہ جائے تو اسے ادا کئے بغیر اس کی کسی طرح تلافی نہیں ہو سکتی۔
 
Top