• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سورۃ البقرۃ

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

الۗمّۗ۝۱ۚ ذٰلِكَ الْكِتٰبُ لَا رَيْبَ۝۰ۚۖۛ فِيْہِ۝۰ۚۛھُدًى لِّلْمُتَّقِيْنَ۝۲ۙ الَّذِيْنَ يُؤْمِنُوْنَ بِالْغَيْبِ وَيُـقِيْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ وَمِمَّا رَزَقْنٰھُمْ يُنْفِقُوْنَ۝۳ۙ وَالَّذِيْنَ يُؤْمِنُوْنَ بِمَآ اُنْزِلَ اِلَيْكَ وَمَآ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ۝۰ۚ وَبِالْاٰخِرَۃِ ھُمْ يُوْقِنُوْنَ۝۴ۭ اُولٰۗىِٕكَ عَلٰي ھُدًى مِّنْ رَّبِّہِمْ۝۰ۤوَاُولٰۗىِٕك َ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ۝۵ اِنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا سَوَاۗءٌ عَلَيْہِمْ ءَاَنْذَرْتَھُمْ اَمْ لَمْ تُنْذِرْھُمْ لَا يُؤْمِنُوْنَ۝۶ خَتَمَ اللہُ عَلٰي قُلُوْبِہِمْ وَعَلٰي سَمْعِہِمْ۝۰ۭ وَعَلٰٓي اَبْصَارِہِمْ غِشَاوَۃٌ۝۰ۡوَّلَھُمْ عَذَابٌ عَظِيْمٌ۝۷ۧ
شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے ۔​

الٓمٓ (۱)اس کتاب میں کچھ شک۱؎ نہیں ہے،پرہیزگاروں کے واسطے ہدایت ۲؎ہے۔(۲) جوغیب۳؎ پر ایمان لاتے ہیںاور نماز کو قائم رکھتے ہیں اور جو کچھ ہم نے انھیں دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔(۳) اور جو یقین رکھتے ہیں اس چیز پر جو تم پر اتری اور جو کچھ تم سے پہلے اترا اس پر بھی اور وہ آخرت کایقین رکھتے ہیں۔ (۴) ان ہی لوگوں کو اپنے پروردگار کی طرف سے ہدایت ہے اور وہی مرادکو پہنچے ۔(۵) بے شک جو لوگ منکر ہوئے ان کے لیے برابر ہے کہ تو ان کو ڈرائے یا نہ ڈرائے وہ نہ مانیں گے۔(۶) خدانے مہر کردی ہے ان کے دلوں پر اور ان کے کانوں پر اور ان کی آنکھوں پرپردہ پڑا ہے اور ان کے لیے بڑا عذاب ہے۔(۷)


حروف مقطعات کا فلسفہ

قرآن کی انتیس سورتوں کے آغاز میں یہ حروف آتے ہیں۔ مفسرین نے مختلف معانی ان کے بیان فرمائے ہیں جو کھلا ہوا ثبوت ہے اس بات کا کہ یہ حروف بے معنی نہیں۔ قطرب۔مبرد‘فراء اور محققین کا ایک عظیم القدر گروہ اس بات پر متفق ہے کہ یہ حروف قرآن کے ان حروف تہجی سے مرکب ہیں جن سے قرآن کے الفاظ بنے ہیں ۔ مقصد یہ ہے کہ قرآن اپنے طرز بیان، الفاظ کی شوکت اور معنویت کے اعتبار سے جو معجزہ ہے تو اس کی ترتیب میں انھیں روز مرہ کے حروف سے کام لیا گیا ہے تمھیں اگر اس کی ساحری ومعجز نمائی سے انکار ہے تو آؤ ایک سورۃ ہی ایسی لکھ دو جو قرآن کی کسی سورت سے لگاؤ کھاسکے۔علامہ زمخشری نے کشاف میں ایک باریک نکتہ یہ بیان کیا ہے کہ یہ حروف جو مقطعات کی شکل میں آئے ہیں سب قسم کے حروف کا ایک بہترین اور زیادہ تر استعمال ہونے والا مجموعہ ہے ۔ غور کرکے دیکھو ان حروف کے بعد جہاں جہاں یہ آئے ہیں عموماً کتاب ،آیات،ذکر، تنزیل قرآن وغیرہ کا ذکر ہے جو اس بات پر دال ہے کہ یہ آیات بینات، ذکر جمیل، یہ قرآن معجزہ طراز انھیں حروف کے الٹ پھیر کا نتیجہ ہے ۔ حوصلہ ہے تو تم بھی میدان میں آکر دیکھو ۔ ان حروف کا فلسفہ یہ بھی ہے کہ قرآن نے جس طرح اپنے ادب کو ملحوظ رکھا ہے ، جس طرح اس کا لغت ، اس کی تشریح، اس کی تفسیر اور اس کا انداز بیان بغیر کسی تغیر وتبدل کے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے سینوں میں محفوظ ہے ، اسی طرح اس کے حروف کا تلفظ بھی محفوظ رہنا چاہیے تھا۔ حروف مقطعات سے یہ ضرورت پوری ہوجاتی ہے۔ گویا قرآن تلفظ وترتیل سے لے کر تشریح وتوضیح تک سب کچھ اپنے اندر رکھتا ہے اور کسی بیرونی چیز کا مرہونِ منت نہیں۔

ناقابل اصلاح گروہ
آفتاب نبوت جب چمکتا ہے تو چند آنکھیں بینائی کھو بیٹھتی ہیں اور ایسے شپرہ چشم لوگ پیدا ہوجاتے ہیں جنھیں نصف النہار کے وقت بھی حق سجھائی نہیں دیتا، جب اللہ کی عنایت وکرم کے بادل گھر کے آتے ہیں تو ایسی زمین بھی ہوتی ہے جوشور اور سنگلاخ ہو، وہاں روئیدگی کی قطعاً امید نہیں ہوتی۔ کفر وعناد کا زقوم تو وہاں اُگتا ہے مگر ایمان کا گل وریحان نہیں اُگتا۔ یہاں اسی چیز کا ذکر ہے۔ایک ناقابل اصلاح گروہ جس کا تمرد حد سے بڑھ گیا ہے جو تیئس سال تک چشمہ ٔ فیض سے سیراب ہوتا ہے لیکن انکار وناشکری سے باز نہیں آتا جو خود کہتا ہے قلوبنا غلف کہ ہمارے دلوں میں حق کے لیے کوئی جگہ نہیں،کیوں کر ہدایت پذیر ہوسکتا ہے ؟ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ان کے دلوں پر مہر لگادی گئی ہے اور ان کے کانوں پر بھی۔ نہ کان حق کی آواز کو سنتے ہیں اور نہ دل ہی حق نیوش ہے ۔ آنکھوں کی بصیرت بھی نہیں رکھتے۔ اس پر بھی تعصب وعناد کی پٹی بندھی ہے یعنی یہ لوگ صحیح استعداد کھو بیٹھے ہیں۔
آپ ان کی مخالفت سے نہ کڑھیں۔ یہاں چند نکات ملحوظ رہیں:

(ا) ختم کا لفظ محض ان کی حالت کو واضح کرنے کے لیے اختیار کیا گیا ہے ، ورنہ اللہ تعالیٰ ایک طبیب کی طرح کسی حالت میں بھی مریض کفر سے مایوس نہیں ہوتا ہے

(ب) قلب، سمع اور بصر کا ذکر بجائے خود دلیل ہے اس بات کی مراد دل انقلاب پذیر ہے جو ٹھس ہوگیا ہے اور اس کے کان جن میں فطرت نے سماعت کی قوت رکھی تھی اب نہیں رہی اور ایسی آنکھیں ہیں جو بصارت سے بہرہ ور تھیں اب محروم ہوگئی ہیں ورنہ قلب کی جگہ فواد اور سمع کی جگہ اُذن اور بصر کی جگہ عین کا استعمال کیا جاتا۔

(ج) اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ آپ تبلیغ واشاعت روک دیں۔ یہ کہا کہ ان کی حالت یہ ہے کہ نہ مانیں گے۔ نہ یہ کہ آپ بھی اپنے فرائض سے تغافل برتیں۔ یعنی سَوَآئٌ عَلَیْہِمْ فرمایا ہے ۔ سواء لک نہیں کہاکیوں کہ مصلح کو کسی وقت بھی مایوس نہ ہونا چاہیے۔

(د) حدیث میں اس انداز بیان کی تشریح نہایت حکیمانہ طرز میں مذکور ہے۔رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں۔ جب کوئی انسان پہلی دفعہ گناہ کا ارتکاب کرتا ہے تو دل پر ایک سیاہ نقطہ سا پڑجاتا ہے ، دوسری دفعہ دونقطے پڑجاتے ہیں اور بار بار اکتسابِ معصیت سے دل سیاہ دھبوں سے اَٹ جاتا ہے یعنی پہلے پہل اقدامِ گناہ پر ضمیر ملامت کرتا ہے اور عادت ہونے پر اس کی زندگی ختم ہوجاتی ہے ۔ ان آیات کا یہی مفہوم ہے کہ یہ لوگ مردہ ضمیر ہوچکے ہیں۔ گناہ کا احساس باقی نہیں رہا
 
Top