• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سورۃ النور آیت۔26

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,409
پوائنٹ
562
سُوۡرَةُ النُّور
ٱلۡخَبِيثَـٰتُ لِلۡخَبِيثِينَ وَٱلۡخَبِيثُونَ لِلۡخَبِيثَـٰتِ‌ۖ وَٱلطَّيِّبَـٰتُ لِلطَّيِّبِينَ وَٱلطَّيِّبُونَ لِلطَّيِّبَـٰتِ‌ۚ (٢٦)


اشرف تھانوی: (اور یہ قاعدہ کلیہ ہے کہ) گندی عورتیں گندے لوگوں کے لائق ہوتی ہیں اور گندے مرد گندی عورتوں کے لائق ہوتے ہیں اور ستھری عورتیں ستھرے مردوں کے لائق ہوتی ہیں اور ستھرے مرد ستھری عورتوں کے لائق ہوتے ہیں

احمد علی: ناپاک عورتیں ناپاک مردوں کے لیے ہیں اور ناپاک مرد ناپاک عورتو ں کے لیے ہیں او رپاک عورتیں پاک مردوں کے لیے ہیں اور پاک مرد پاک عورتوں کے لیے ہیں ۔

مولانا مودودی: خبیث عورتیں خبیث مردوں کے لئے ہیں اور خبیث مرد خبیث عورتوں کے لئے ہیں ۔ پاکیزہ عورتیں پاکیزہ مردوں کے لئے ہیں اور پاکیزہ مرد پاکیزہ عورتوں کے لئے ہیں۔

ڈاکٹر محسن: Bad statements are for bad people (or bad women for bad men) and bad people for bad statements (or bad men for bad women). Good statements are for good people (or good women for good men) and good people for good statements (or good men for good women),

مفتی تقی عثمانی: Vile women are for vile men, and vile men are for vile women; and good women are for good men, and good men are for good women.

پکٹھال: Vile women are for vile men, and vile men for vile women. Good women are for good men, and good men for good women;

یوسف علی : Women impure are for men impure and men impure are for women impure; and women of purity are for men of purity, and men of purity are for women of purity:

شاکر: Unclean things are for unclean ones and unclean ones are for unclean things, and the good things are for good ones and the good ones are for good things.

Qari Hanif Dar
بکواسات از ملحدین !

ایک چھوٹی سی مثال آپ کے سامنے رکھتا ہوں
ناپاک عورتیں نا پاک مردوں کے لیئے اور نا پاک مرد نا پاک عورتوں کے لیئے , اور پاک عورتیں پاک مردوں کے لیئے.اور پاک مرد پاک عورتوں کے لیئے.
(سورت النور)
قرآن کی اس آیت میں اللہ میاں کہہ رھے ھیں کہ جیسے مرد انکے لیئے ویسی ھی عورتیں اور جیسی عورتیں انکے لیئے ویسے مرد.
قرآن کی آیات میں لکھا ہے کہ
فرعون برا تھا لیکن اسکی بیوی آسیہ اچھی تھی نوح اور لوط اچھے تھے لیکن انکی بیویاں بری تھیں، یوسف اچھا تھا لیکن اس کی بیوی اپنی نفسانی خواہشات کی غلام تھی اور یوسف کو ورغلاتی رہتی تھی

جوابات از ربانیین !

عورتیں کا لفظ اللہ پاک نے استعمال نہیں فرمایا لفظ طیبہ استعمال فرمایا ھے ،، نیکیاں نیک لوگوں کی دسترس میں ھوتی ھیں اور نیک لوگ نیکیوں کی تلاش میں ھوتے ھیں ( کوئی گلہ نہیں کر سکتا کہ وہ تو نیکی کرنا چاھتا تھا مگر نیکی کی جگہ نہیں ملی ) بدیاں برے لوگوں کی دسترس میں ھوتی ھیں اور برے لوگ بدیوں کی تلاش میں ھوتے ھیں ( یہ مواقع اس لئے دیئے جاتے ھیں تا کہ نیک و بد کا امتحان ھو ،جب تک موقع نہ ملے سارے نیک ھی ھوتے ھیں مواقع انسان کو ننگا کرتے ھیں ) حضرت ابوبکر صدیق نے اپنی بیٹی پر الزام لگانے والوں کا خرچہ اللہ پاک کے ارشاد کے بعد دگنا کر دیا ،، حالانکہ سوچا تھا بند کر دونگا مگر اللہ پاک نے فرمایا کہ نیک تو نیکی کے لئے بنائے گئے ھیں پھر نیکی سے رکنے کا کیا مطلب ؟ کیا آپ کی نیکی میں کوئی عیب تھا جو اسے سزا دینے لگے ھیں ،،،،،( بظاھر تمام لوگ جہاد کے لئے نکلے تھے مگر جن کو خبیثات کی تلاش تھی ان کو جہاد میں بھی خباثت کا موقع مل گیا ،، حضرت صفوان بن معطلؓ کی ڈیوٹی لشکر کے پیچھے رہ جانے والی گری پڑی چیز کو اٹھانے کی لگائی گئ تھی ، ان کے مقدر میں ام المومنینؓ کی مدد تھی وہ اس نیکی تک پہنچے ،، خبیث لوگوں نے اس واقعے کو بھی اپنی خباثت کے اظھار کا ذریعہ بنا لیا ،الغرض کھاتی شھد کی مکھی بھی ھے اور گندھگی کی مکھی بھی ھے ،ایک کا کھانا بیماریاں پھیلاتا ھے تو دوسری کا کھانا شفا بخش مواد پیدا کرتا ھے )


پس نوشت: اہل علم سے مندرجہ بالا آیات کے درست ترجمہ اور تفہیم کی درخواست ہے کہ ان آیات میں آیا نیک و بد مردوں اور عورتوں کا ذکر ہے یا نہیں
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
اعوذ بالله من الشيطان الرجيم
الْخَبِيثَاتُ لِلْخَبِيثِينَ وَالْخَبِيثُونَ لِلْخَبِيثَاتِ وَالطَّيِّبَاتُ لِلطَّيِّبِينَ وَالطَّيِّبُونَ لِلطَّيِّبَاتِ أُولَئِكَ مُبَرَّءُونَ مِمَّا يَقُولُونَ لَهُمْ مَغْفِرَةٌ وَرِزْقٌ كَرِيمٌ (26)
خبیث عورتیں خبیث مرد کے لائق ہیں اور خبیث مرد خبیث عورتوں کے لائق ہیں اور پاک عورتیں پاک مردوں کے لائق ہیں اور پاک مرد پاک عورتوں کے لائق ہیں (١) ایسے پاک لوگوں کے متعلق جو کچھ بکواس (بہتان باز) کر رہے ہیں وہ ان سے بالکل بری ہیں، ان کے لئے بخشش ہے اور عزت والی روزی (٢)
(ترجمہ محمد جونا گڑھی )
اس کی تفسیر میں حافظ صلاح الدین یوسف صاحب لکھتے ہیں ـ
٢٦۔ ١ اس کا ایک مفہوم تو یہی بیان کیا گیا ہے جو ترجمے سے واضح ہے۔ اس صورت میں یہ ہم معنی آیت ہوگی، اور خبیثات اور خبیثیوں سے زانی مرد و عورت اور طیبات اور رفیون سے مراد پاک دامن عورت اور مرد ہونگے۔ دوسرے معنی اس کے ہیں کہ ناپاک باتیں ناپاک مردوں کے لئے اور ناپاک مرد ناپاک باتوں کے لئے ہیں اور پاکیزہ باتیں پاکیزہ مردوں کے لئے اور پاکیزہ مرد پاکیزہ باتوں کے لئے ہیں اور مطلب یہ ہوگا کہ ناپاک باتیں وہی مرد عورت کرتے ہیں جو ناپاک ہیں اور پاکیزہ باتیں کرنا پاکیزہ مردوں اور عورتوں کا شیوہ ہے۔ اس میں اشارہ ہے۔ اس بات کی طرف کہ حضرت عائشہ پر ناپاکی کا الزام عائد کرنے والے ناپاک اور ان سے اس کی براءت کرنے والے پاک ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور محترمہ رفعت اعجاز صاحبہ نے اس کا ترجمہ کیا ہے :
ناپاک عورتیں ناپاک مردوں اور ناپاک مرد ناپاک عورتوں کے لیے ، پاک عورتیں پاک مردوں کے لیے اور پاک مرد پاک عورتوں کے لیے ہیں۔ یہ لوگ ان باتوں سے جو کہتے ہیں بری ہیں۔ ان کے لیے بخشش اور عزت کی روزی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور مفتی تقی عثمانی صاحب اس کا ترجمہ کرتے ہیں :
گندگی عورتیں گندے مردوں کے لائق ہیں، اور گندے مرد گندی عورتوں کے لائق۔ اور پاکباز عورتیں پاکباز مردوں کے لائق ہیں، اور پاکباز مرد پاکباز عورتوں کے لائق (١٤)۔ یہ (پاکباز مرد اور عورتیں) ان باتوں سے بالکل مبرا ہیں جو یہ لوگ بنا رہے ہیں۔ ان (پاکبازوں) کے حصے میں تو مغفرت ہے اور باعزت رزق۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر اسرار احمد اس ترجمہ لکھتے ہیں :
ناپاک عورتیں نا پاک مردوں کے لیے ہیں اور ناپاک مرد ناپاک عورتوں کے لیے اور پاکباز عورتیں پاکباز مردوں کے لیے ہیں اور پاکباز مرد پاکباز عورتوں کے لیے یہ لوگ بری ہیں ان باتوں سے جو لوگ کہتے ہیں ان کے لیے مغفرت ہے اور رزق کریم ہے‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حافظ عبد السلام بھٹوی اس کا ترجمہ کرتے ہیں :ؒ
26-24 گندی عورتیں گندے مردوں کے لیے ہیں اور گندے مرد گندی عورتوں کے لیے ہیں اور پاک عورتیں پاک مردوں کے لیے ہیں اور پاک مرد پاک عورتوں کے لیے ہیں ۔ یہ لوگ اس سے بری کیے ہوئے ہیں جو وہ کہتے ہیں، ان کے لیے بڑی بخشش اور باعزت روزی ہے۔‘‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور حافظ عبد السلام بھٹوی اس کی تفسیر میں لکھتے ہیں :
اَلْخَبِيْثٰتُ لِلْخَبِيْثِيْنَ ۔۔ : اس آیت میں یہ نفسیاتی حقیقت بیان کی گئی ہے کہ خبیث (گندے) مردوں کا نبھاؤ خبیث عورتوں سے اور پاکیزہ مردوں کا نبھاؤ پاکیزہ عورتوں ہی سے ہوسکتا ہے، ایسا نہیں ہوسکتا کہ ایک مرد خود تو بڑا پاکیزہ ہے مگر وہ ایک خبیث عورت سے برسوں نبھاؤ کرتا چلا جائے۔ مقصود عائشہ (رض) کی پاکیزگی کا بیان ہے کہ ان میں خباثت کا ادنیٰ شائبہ بھی ہوتا تو یہ کیسے ممکن تھا کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو ازل سے ابد تک پاکیزہ ہستیوں کے سردار تھے، ان کے ساتھ نہایت محبت و اطمینان سے برسوں نبھاؤ کرتے چلے جاتے؟ بعض مفسرین نے ’’ اَلْخَبِيْثٰتُ ‘‘ سے مراد گندے اقوال و افعال اور ’’َالطَّيِّبٰتُ ‘‘ سے مراد پاکیزہ اقوال و افعال لیے ہیں، یعنی کوئی آدمی جیسا خود ہوتا ہے ویسے ہی وہ اعمال کرتا ہے اور ویسے ہی اقوال زبان پر لاتا ہے۔ اب چونکہ عائشہ (رض) پاک تھیں، ان کی سیرت اور ان کے اقوال و افعال بھی پاک تھے اور یہ منافق خود گندے تھے، اس لیے ان سے ایسے ہی گندے اقوال و افعال کی توقع تھی۔
اُولٰۗىِٕكَ مُبَرَّءُوْنَ مِمَّا يَقُوْلُوْنَ ۭ : یعنی طیّب مرد اور طیّب عورتیں ان باتوں سے صاف بری کیے ہوئے ہیں جو خبیث مرد اور خبیث عورتیں کہتے ہیں۔ ’’ مُبَرَّءُوْنَ ‘‘ اسم مفعول کا صیغہ ہے ’’ بری کیے ہوئے۔ ‘‘ اس میں ام المومنین عائشہ (رض) کی واشگاف الفاظ میں براءت کا ذکر ہے ۔ یعنی اہل ایمان میں سے جو یہ سنتا ہے وہ ’’ سُبْحٰنَكَ ھٰذَا بُهْتَانٌ عَظِيْمٌ ‘‘ کہہ کر انھیں پاک قرار دیتا ہے اور رب تعالیٰ بھی ’’ۧاِنَّ الَّذِيْنَ جَاۗءُوْ بالْاِفْكِ عُصْبَة ‘‘ کے ساتھ ان کی براءت کا اعلان فرماتے ہیں۔ ’’ مِمَّا يَقُوْلُوْنَ ‘‘ یعنی بہتان تراشوں کی صرف منہ کی باتیں ہیں، ان کی حقیقت کچھ نہیں۔
لَهُمْ مَّغْفِرَةٌ وَّرِزْقٌ كَرِيْمٌ : ’’ مَّغْفِرَةٌ ‘‘ پر تنوین تعظیم کی وجہ سے ’’ بڑی بخشش ‘‘ ترجمہ کیا گیا ہے، یعنی خبیث لوگوں کے برا کہنے سے وہ برے نہیں ہو جاتے، بلکہ ان کی تہمتوں کی وجہ سے انھیں جو رنج پہنچتا ہے اور وہ اس پر صبر کرتے ہیں تو یہ چیز ان کی خطاؤں اور لغزشوں کی بخشش کا ذریعہ بنتی ہے اور مفسد لوگ جس قدر انھیں ذلیل کرنا چاہتے ہیں اسی قدر انھیں عزت کی روزی ملتی ہے۔ اس میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، عائشہ، ان کے والدین اور صفوان (رض) سب کے لیے جنت کی بشارت ہے، جو حقیقی رزق کریم ہے، کیونکہ اس بہتان سے ان سب کی عزت و آبرو پر حملہ ہوا اور سب کو نہایت رنج پہنچا۔(تفسیر القرآن الکریم )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فی الحال یہ دیکھ لیں ۔۔مزید تراجم ان شاء اللہ رات کو پیش کر دئے جائیں ؛
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
تفسیر روح القرآن ۔۔ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی صاحب



اَلْخَبِیْثٰتُ لِلْخَبِیْثِیْنَ وَالْخَبِیْثُوْنَ لِلْخَبِیْثٰتِ ج وَالطَّیِّبٰتُ لِلطَّیِّبِیْنَ وَالطَّیِّـبُوْنَ لِلطَّیِّبٰتِ ج اُوْلٰٓئِکَ مُبَرَّئُ وْنَ مِمَّا یَقُوْلُوْنَ ط لَھُمْ مَّغْفِرَۃٌ وَّرِزْقٌ کَرِیْمٌ ۔ (النور : ٢٦)
(خبیث عورتیں خبیث مردوں کے لیے ہیں اور خبیث مرد خبیث عورتوں کے لیے ہیں اور پاکیزہ عورتیں پاکیزہ مردوں کے لیے ہیں اور پاکیزہ مرد پاکیزہ عورتوں کے لیے، یہ مبرا ہیں ان تہمتوں سے جو وہ لگاتے ہیں، ان کے لیے ہی بخشش اور عزت والی روزی ہے۔ )
ایک فطری اور واقعاتی دلیل
اللہ تعالیٰ نے انسانی فطرت اس طرح بنائی ہے کہ انسان اپنی رفاقت اور اپنی معاشرت کے لیے ہمیشہ ایسے ساتھی کو تلاش کرتا ہے جس کے ساتھ فطری ہم آہنگی ہو، عادتوں میں یکسانی ہو، میلانات اور رجحانات ملتے جلتے ہوں، طبعی ذوق میں باہمی مناسبت ہو۔ اور اگر ایک ساتھ رہنے والوں میں ان چیزوں کا فقدان ہو تو کوئی شخص بھی ایسے شخص کو ساتھی بنانے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ جبر اور حبس ہو تو ایک مجبوری ہے، ورنہ اختیار اور ارادہ کے ساتھ ہر طرح کا اختلاف ہوتے ہوئے بھی مصاحبت اور معاشرت ایک خواب تو ہوسکتا ہے، حقیقت نہیں ۔
وقتی رفاقت بھی کسی قسم کی یکسانی کے بغیر ایک سزا سے کم نہیں، لیکن اگر میاں بیوی کی طرح زندگی بھر کی رفاقت کا تعلق ہو جس میں خلوت و جلوت کا امتیاز بھی ختم ہوجائے تو ایسی صورت میں اگر طبیعتوں میں مناسبت نہ ہو اور دونوں ایک دوسرے سے وفا کے رشتے میں منسلک نہ ہوں، ایک دوسرے کا لباس ہونے کے باوجود ایک دوسرے سے بیگانہ اور بیزار ہوں، ایک شرم و حیاء کا پتلا اور دوسرا شرم و حیاء کو رجعت پسندی، تنگ نظری اور گائودی اخلاق کی علامت سمجھتا ہو تو ایسے زندگی بھر کے ساتھی چند روز کے ساتھی بھی نہیں رہ سکتے اور مزید یہ بات بھی ہے کہ انسان اگرچہ اپنے اندر بڑی گہرائی رکھتا ہے اور اس کی شخصیت کی کئی پرتیں ہیں لیکن چند دنوں کی ہر وقت کی رفاقت بھی ہر گہرائی میں جھانکنے کے قابل بنا دیتی ہے اور شخصیت کی پرتیں کھلنے میں دیر نہیں لگتی۔ تعلق میں خیانت اور وفا میں کمزوری ہزار کوشش سے بھی چھپائے نہیں چھپتی۔ شوہر اگر برا ہے تو برائی صرف ایک برائی تک محدود تو نہیں رہتی، برائی، برائی کو جنم دیتی ہے تو وہ کس کس برائی پر پردہ ڈال سکتا ہے۔ اسی طرح اگر بیوی نام کی حد تک صالحات، قانتات اور حافظات میں شامل ہے، لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ، تو جس طرح متعفن کھانا اپنے تعفن کو چھپا نہیں سکتا اسی طرح برائی اور تعلقات میں خیانت اور وفا میں فریب دیر تک چھپا نہیں رہ سکتا۔ اگر یہ اصول صحیح ہے اور کوئی شخص بھی اس سے انکار نہیں کرسکتا تو سوال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے آخری رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) طیب ہی نہیں اطیب ہیں۔ جس طرح ان کے اعمال پاکیزہ ، ان کا احساس معصوم، ان کے ہر کام پر عصمتِ الٰہی کا سایہ اور ان کے ہر تعلق میں وفا کی خوشبو رچی بسی ہے اور ان کا پاکیزہ مزاج کسی طرح کی برائی، بے وفائی اور ناگواری کو برداشت نہیں کرسکتا تو یہ کیسے ممکن ہے کہ ان کی رفیقۂ حیات جو تمام ازواج مطہرات میں سب سے زیادہ محبوب ہوں، جنھیں سب سے زیادہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اعتماد حاصل ہو، اور وحی لے کر آنے والا وہ فرشتہ جسے اللہ تعالیٰ نے مطاعِ ملائکہ اور امین بنایا ہے، وہ اس وقت وحی لے کر نازل ہو جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت عائشہ صدیقہ ( رض) کے لحاف میں ہوں، لیکن ان تمام فضائل اور قربتوں کے باوجود آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنی محبوب رفیقۂ حیات کی بے وفائی کی بھنک بھی نہ پڑ سکے۔ ایک معمولی علم و دانش کا آدمی تو شب و روز کی یکجائی میں اس طرح کی غلطی کا ارتکاب نہ کرسکے لیکن جس ذات عظیم پر وحیِ الٰہی اترتی ہو وہ ایسا بے خبر ثابت ہو تو یہ ایک ایسی بات ہے جسے نہ عقل قبول کرتی ہے، نہ اخلاق قبول کرتے ہیں۔ یہی وہ حقیقت ہے جس کی طرف اس آیت کریمہ میں اشارہ کیا گیا ہے۔ اس لیے اس حقیقت سے انکار کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ طیب مرد اور طیب عورتیں ہی انسانیت کا وہ اثاثہ ہیں جو باتیں بنانے والوں کی فضول باتوں سے بری ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے بخشش لکھ دی ہے اور وہ ان تمام نعمتوں کی مستحق ہیں جنھیں اللہ تعالیٰ اہل جنت کو عطا فرمائے گا۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
تفسیر ’’ دعوت القرآن ‘‘ جناب شمس پیزادہ صاحب

لکھتے ہیں:
۳۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہاں خبیث سے مراد بدکار ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ خبیث عورتوں کے لیے خبیث مرد ہی موزوں ہیں اور خبیث مردوں کے لیے خبیث عورتیں۔ اسی طرح طیب یعنی پاکیزہ عورتوں کے لیے پاکیزہ مرد ہی موزوں ہیں اور پاکیزہ مردوں کے لیے پاکیزہ عورتیں۔
اس موزونیت کا تقاضا ہے کہ پاکیزہ عورتوں کا رشتہ پاکیزہ مردوں ہی سے کیا جائے اور پاکیزہ مرد پاکیزہ عورتوں ہی سے بیاہ کریں۔

۳۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی پاکیزہ عورتوں اور پاکیزہ مردوں کے خلاف تہمت کا جو فتنہ کھڑا کیا گیا ہے اس کا جھوٹ ہونا بالکل کھلی بات ہے۔ با اخلاق عورتوں اور با اخلاق مردوں پر بدکاری کی تہمت لگانے سے ان کا دامن داغدار نہیں ہوتا۔ وہ ان جھوٹے الزامات سے بالکل بری ہیں۔
الزامات سے بری ہونے کی بات یہاں عمومیت کے ساتھ کہی گئی ہے یعنی تمام پاکیزہ عورتوں اور مردوں کے بارے میں یہ ایک اصولی بات ہے۔ کسی واقعہ کے ساتھ مخصوص نہیں ہے۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
تفسیر ’’ معارف القرآن ‘‘ مفتی محمد شفیع دیوبندی

فرماتے ہیں :
اَلْخَبِيْثٰتُ لِلْخَبِيْثِيْنَ وَالْخَبِيْثُوْنَ لِلْخَبِيْثٰتِ ۚ وَالطَّيِّبٰتُ للطَّيِّبِيْنَ وَالطَّيِّبُوْنَ للطَّيِّبٰتِ ۚ اُولٰۗىِٕكَ مُبَرَّءُوْنَ مِمَّا يَقُوْلُوْنَ ۭ لَهُمْ مَّغْفِرَةٌ وَّرِزْقٌ كَرِيْمٌ، یعنی گندی عورتیں گندے مردوں کے لائق ہوتی ہیں اور گندے مرد گندی عورتوں کے لائق ہوتے ہیں اور پاک صاف عورتیں پاک صاف مردوں کے لائق ہوتی ہیں اور پاک صاف مرد پاک صاف عورتوں کے لائق ہوتے ہیں ۔
اس آخری آیت میں اول تو عام ضابطہ یہ بتلا دیا گیا کہ اللہ تعالیٰ نے طبائع میں طبعی طور پر جوڑ رکھا ہے ۔ گندی اور بدکار عورتیں بدکار مردوں کی طرف اور گندے بدکار مرد گندی بدکار عورتوں کی طرف رغبت کیا کرتے ہیں ۔ اسی طرح پاک صاف عورتوں کی رغبت پاک صاف مردوں کی طرف ہوتی ہے اور پاک صاف مردوں کی رغبت پاک صاف عورتوں کی طرف ہوا کرتی ہے اور ہر ایک اپنی اپنی رغبت کے مطابق اپنا جوڑ تلاش کرتا ہے اور قدرة اس کو وہی مل جاتا ہے۔
اس عام عادت کلیہ اور ضابطہ سے واضح ہوگیا کہ انبیاء علیہم السلام جو دنیا میں پاکی اور صفائی ظاہری و باطنی میں مثالی شخصیت ہوتے ہیں اس لئے اللہ تعالیٰ ان کو ازواج بھی ان کے مناسب عطا فرماتے ہیں ۔ اس سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو تمام انبیاء کے سردار ہیں ان کو ازواج مطہرات بھی اللہ تعالیٰ نے پاکی اور صفائی ظاہری اور اخلاقی برتری میں آپ ہی کی مناسب شان عطا فرمائی ہیں اور صدیقہ عائشہ ان سب میں ممتاز ہیں ۔ ان کے بارے میں شک و شبہ وہی کرسکتا ہے جس کو خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان نہ ہو اور حضرت نوح حضرت لوط علیہما السلام کی بیبیوں کے بارے میں جو قرآن کریم میں ان کا کافر ہونا مذکور ہے تو ان کے متعلق بھی یہ ثابت ہے کہ کافر ہونے کے باوجود فسق و فجور میں مبتلا نہیں تھیں ۔ حضرت ابن عباس نے فرمایا ما بغت امراة نبی قط، یعنی کسی نبی کی عورت نے کبھی زنا نہیں کیا (ذکر فی الدرا المنثور) اس سے معلوم ہوا کہ کسی نبی کی بیوی کافر ہو جائے اس کا تو امکان ہے مگر بدکار فاحشہ ہو جائے یہ ممکن نہیں ۔ کیونکہ بدکاری طبعی طور پر موجب نفرت عوام ہے کفر طبعی نفرت کا موجب نہیں (بیان القرآن)
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,409
پوائنٹ
562
abc.gif

نوٹ: سب سے پہلی بات تو یہ کہ مجھے اس آیت کا ”درست مفہوم“ اپنے لئے درکار نہیں ہے ۔ مجھے اس آیت مبارکہ کا مفہوم ان لوگوں کو سمجھانے کے لئے درکار ہے، جو اس پر معترض ہیں۔

قاری حنیف ڈار صاحب کا یہ ترجمہ ان معترضین کی ”ضرورت“ کو پورا کرتا ہے: نیکیاں نیک لوگوں کی دسترس میں ھوتی ھیں اور نیک لوگ نیکیوں کی تلاش میں ھوتے ھیں- بدیاں برے لوگوں کی دسترس میں ھوتی ھیں اور برے لوگ بدیوں کی تلاش میں ھوتے ھیں۔
انگریزی میں یہی ترجمہ شاکر صاحب نے بھی یوں کیا ہے: Unclean things are for unclean ones and unclean ones are for unclean things, and the good things are for good ones and the good ones are for good things

لیکن اکثر مترجمین نے اس آیت کا ترجمہ خبیث مرد اور خبیث عورتیں ہی کیا ہے ۔ اگر یہاں مراد مرد اور عورت ہی لیا جائے تو اس کے کئی مفہوم نکل سکتے ہیں۔ جیسے:
  1. خبیث عورتیں خبیث مردوں کے لئے (ہی موزوں ہیں، شادی کے لئے)
  2. خبیث عورتیں، خبیث مردوں کے لئے(ہی بنائی گئی ہیں،شادی کے لئے)
  3. خبیث عورتیں، خبیث مردوں کے لئے (یعنی خبیث عورتوں کی شادی خبیث مردوں ہی سے ممکن ہے)
وغیرہ وغیرہ
ان میں سے کوئی بھی مفہوم ”عملی دنیا“ میں ہمیشہ ”سچا“ ثابت نظر نہیں آتا۔ ازواج میں اکثر و بیشتر ایک پاک اور دوسرا خبیث بھی ہوتا ہے ۔ پھر اس آیت کے مفہوم کو مرد و عورت کے ترجمہ کے ساتھ کیسے ”ہم آہنگ“ کریں کہ ”معترضین“ کا اعتراض ختم ہوجائے۔

از راہ کرم جواب دیتے وقت اس بات کا خیال رکھئے کہ ”سننے والا“ کو ئی مسلمان نہیں بلکہ ایک قرآنی آیت پر اعتراض کرنے والا ہے۔ لہٰذا اس آیت کی تفاسیر کوٹ کرنے کی بجائے ایسی ”دلیل” دیجئے جو اس معترض کو مطمئن کرسکے۔
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,409
پوائنٹ
562
خَبِیث {خَبِیث} (عربی)

خ ب ث، خَبِیث

عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے اسم فاعل ہے اردو میں بطور صفت مستعمل ہے۔ 1663ء کو "میراں جی خدا نما، نورنین" میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی (واحد)

جمع غیر ندائی: خَبِیثوں {خَبی + ثوں (و مجہول)}

معانی
1. ناپاک، نجس، پلید، گندا۔

"ان کی ظاہری شکلوں سے دھوکا نہ کھانا یہ اندر سے بڑے بدمعاش، خبیث اور بد ہیں۔"، [1]

2. حرام، ممنوعہ، ناجائز۔

"پھر سے بت پوجنے لگیں اور تمام خبیث کام پھر کرنے لگیں جو ہم پہلے کرتے تھے۔"، [2]

3. بُرا، بُری، بد، خراب۔

"رحمت میرے رب کی خبیث لوگوں کے لیے نہیں ہے۔"، [3]

4. شریرالنفس، بدباطن۔

"عنایت نے اپنا فقرہ مکمل کرکے چھوڑا اگرچہ اس کا باپ خبیث کتے چپ کر کہتا رہا۔"، [4]

5. بھوت، پریت، جن۔

"کسی عالم علوی و سفلی کے گھر میں اتنےفرماں بردار موکل یا خبیث نہ ہوں گے۔"، [5]

6. { طب } سرطانی، ناسوری، ناسور دار۔

"کبھی کبھی تالو کی غیر خبیث (بے ضرر) اور خبیث دونوں قسم کی رسولیاں پائی جاتی ہیں۔"، [6]

7. زہریلا، متحفن، سمی، موذی، مہلک۔

"موسمی بخاروں کے اقسام؛ تعفن دم، ورم بطانۂقلب خبیث سوء القنیہ کی قسم خبیث۔"، [7]

انگریزی ترجمہ
wicked, malignant, impure; an evil spirit

مترادفات
شَیطان، گَنْدَہ، پَلِید، بُرا، جِن، بھُوت، بَد، اِبْلِیس،

http://www.urduencyclopedia.org/urdudictionary/index.php?title=خبیث
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,409
پوائنٹ
562
13017 اٹیچمنٹ کو ملاحظہ فرمائیں
نوٹ: سب سے پہلی بات تو یہ کہ مجھے اس آیت کا ”درست مفہوم“ اپنے لئے درکار نہیں ہے ۔ مجھے اس آیت مبارکہ کا مفہوم ان لوگوں کو سمجھانے کے لئے درکار ہے، جو اس پر معترض ہیں۔

قاری حنیف ڈار صاحب کا یہ ترجمہ ان معترضین کی ”ضرورت“ کو پورا کرتا ہے: نیکیاں نیک لوگوں کی دسترس میں ھوتی ھیں اور نیک لوگ نیکیوں کی تلاش میں ھوتے ھیں- بدیاں برے لوگوں کی دسترس میں ھوتی ھیں اور برے لوگ بدیوں کی تلاش میں ھوتے ھیں۔
انگریزی میں یہی ترجمہ شاکر صاحب نے بھی یوں کیا ہے: Unclean things are for unclean ones and unclean ones are for unclean things, and the good things are for good ones and the good ones are for good things

لیکن اکثر مترجمین نے اس آیت کا ترجمہ خبیث مرد اور خبیث عورتیں ہی کیا ہے ۔ اگر یہاں مراد مرد اور عورت ہی لیا جائے تو اس کے کئی مفہوم نکل سکتے ہیں۔ جیسے:
  1. خبیث عورتیں خبیث مردوں کے لئے (ہی موزوں ہیں، شادی کے لئے)
  2. خبیث عورتیں، خبیث مردوں کے لئے(ہی بنائی گئی ہیں،شادی کے لئے)
  3. خبیث عورتیں، خبیث مردوں کے لئے (یعنی خبیث عورتوں کی شادی خبیث مردوں ہی سے ممکن ہے)
وغیرہ وغیرہ
ان میں سے کوئی بھی مفہوم ”عملی دنیا“ میں ہمیشہ ”سچا“ ثابت نظر نہیں آتا۔ ازواج میں اکثر و بیشتر ایک پاک اور دوسرا خبیث بھی ہوتا ہے ۔ پھر اس آیت کے مفہوم کو مرد و عورت کے ترجمہ کے ساتھ کیسے ”ہم آہنگ“ کریں کہ ”معترضین“ کا اعتراض ختم ہوجائے۔

از راہ کرم جواب دیتے وقت اس بات کا خیال رکھئے کہ ”سننے والا“ کو ئی مسلمان نہیں بلکہ ایک قرآنی آیت پر اعتراض کرنے والا ہے۔ لہٰذا اس آیت کی تفاسیر کوٹ کرنے کی بجائے ایسی ”دلیل” دیجئے جو اس معترض کو مطمئن کرسکے۔
؟؟؟
 

نسرین فاطمہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 21، 2012
پیغامات
1,281
ری ایکشن اسکور
3,232
پوائنٹ
396
تفسیر عثمانی


یعنی بدکار اور گندی عورتیں گندے اور بدکار مردوں کے لائق ہیں ۔ اسی طرح بدکار اور گندے مرد اس قابل ہیں کہ ان کا تعلق اپنے جیسی گندی اور بدکار عورتوں سے ہو ۔ پاک اور ستھرے آدمیوں کا ناپاک بدکاروں سے کیا مطلب۔ ابن عباس نے فرمایا کہ پیغمبر کی عورت بدکار (زانیہ) نہیں ہوتی، یعنی اللہ تعالیٰ ان کی ناموس کی حفاظت فرماتا ہے۔ نقلہ فی موضح القرآن۔ (تنبیہ) آیت کا یہ مطلب تو ترجمہ کے موافق ہوا۔ مگر بعض مفسرین سلف سے یہ منقول ہے کہ "الخبیثات" اور "الطیبات" سے یہاں عورتیں مراد نہیں ۔ بلکہ اقوال و کلمات مراد ہیں ۔ یعنی گندی باتیں گندوں کے لائق ہیں ۔ اور ستھری باتیں ستھرے آدمیوں کے۔ پاکباز اور ستھرے مرد و عورت ایسی گندی تہمتوں سے بری ہوتے ہیں جیسا کہ آگے (اُولٰۗىِٕكَ مُبَرَّءُوْنَ مِمَّا يَقُوْلُوْنَ ۭ لَهُمْ مَّغْفِرَةٌ وَّرِزْقٌ كَرِيْمٌ) 24۔ النور:26) سے ظاہر ہے۔ یا یوں کہا جائے کہ گندی باتیں گندوں کی زبان سے نکلا کرتی ہیں تو جنہوں نے کسی پاکباز کی نسبت گندی بات کہی، سمجھ لو کہ وہ خود گندے ہیں ۔
 
Top