• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سورۃ مائدہ ایت 55 سے امامت علی کا غلط استدلال اور اسکا رد

HUMAIR YOUSUF

رکن
شمولیت
مارچ 22، 2014
پیغامات
191
ری ایکشن اسکور
56
پوائنٹ
57
علی رضی اللہ کسی بھی طرح " خلیفہ بلا فصل " ثابت نہیں ہوتے۔شیعہ حضرات سورۃ مائدہ اس آیت کا حوالہ دے کر حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی خلافت ثابت کرتے ہیں۔

اِنَّمَا وَلِیُّکُمُ اللّٰہُ وَ رَسُوۡلُہٗ وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا الَّذِیۡنَ یُقِیۡمُوۡنَ الصَّلٰوۃَ وَ یُؤۡتُوۡنَ الزَّکٰوۃَ وَ ہُمۡ رٰکِعُوۡنَ ﴿۵۵﴾ ﴿005:055﴾
تمہارے دوست تو خدا اور اس کے پیغمبر اور مومن لوگ ہی ہیں جو نماز پڑھتے اور زکوۃ دیتے اور (خدا کے آگے) جھکتے ہیں

( جس کے اثبات کے لئے مختلف تفاسیرو روایات کا سہارا بھی لیتے ہیں جو کسی طرح بھی ان کے غلط نظریات کو صحیح ثابت کرنے میں ناکام رہیں ہیں )

اور ہم انشا اللہ ان تمام رویات کو غلط ثابت کر کے رہیں گے۔ہم ان سے کچھ سوالات ضرور کریں گے تا کہ ان کی غلط توجیہات کو بھی منظر عام پر لا سکیں ۔ثابت کیا جائے کہ ولی کے معنوں میں ایک معنیٰ " بلا فصل خلیفہ " بھی ھےعربی لغط سے جواب درکار ہےجب ولایت کے مستحقین کے لئے لفظ مومنین لایا گیا ھے تو اس کی تخصیص صرف علی رضی اللہ کے ساتھ کیوں کی گئی؟
کیا حالت رکوع میں زکوٰۃ دینا قرآن و سنت سے جائز ہے یا زکوٰ ۃ صرف حالت رکوع میں دینے کا حکم ہے؟
اگر یہ فعل آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم سے منقول نہیں تو کیا یہ بدعت نہیں کہلوائی جائے گی ؟کیا شیعہ حضرات حالت رکوع میں زکوٰۃ دینے کے پابند ہیں۔
اگر کوئی شخص حالت رکوع میں ادائے زکوٰۃ کرے تو کیا وہ بھی خلیفہ بلا فصل ہی کہلوایا جائے گا کیونکہ آپ اسے بہت بڑی نیکی اور ولایت کے استحقاق کے لئے ضروری سمجھتے ہیں

کیا حضرت علی رضی اللہ کے پاس اتنا سونا موجود تھا کہ جس پر زکوٰۃ واجب تھی اگر نہیں تھا تو زکوٰہ دینے کا کیا مقصد؟
کیا آپ رضی اللہ بھی اس دور میں سرمایہ دار تھے یا کہ نبی صلیٰ اللہ علیہ و آلہ وسلم کی طرح فقیرانہ زندگی ہی گزارتے رہے
کیا نماز میں یہ فعل ادا کرنا نماز کو خراب کرنے اور فعل کثیرہ کا باعث تو نہیں
" من کنت مولا فعلی مولا " سے خلیفہ بلا فصل کیسے ثابت ہوتا ہے کہیں مزکور ہو تو دکھائیں جیسا کے آپ ولی کے معنیی سردار کے لیتے ہیں تواگر مولا کے معنی سردارہی کے لئے جائیں تو علی رضی اللہ تو تمام انبیاء کو بھی سردار ثابت ہوئے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تمام نبیوں کے سردار ہیں

اور کیا اس سے علی رضی اللہ کا مرتبہ آپ صلیی اللہ علیہ وسلم کے برابر نہ ہو گیا اور زمانہ نبوت میں دو افراد ایک ہی عہدہ پر فائز ثابت نہیں نہ ہوں گے۔اگر مولا کے معنیٰ محبوب اور دوست کے سمجھے جائیں تو کیا حرج ہے

اس آیت سے قبل والی آیت

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مَنۡ یَّرۡتَدَّ مِنۡکُمۡ عَنۡ دِیۡنِہٖ فَسَوۡفَ یَاۡتِی اللّٰہُ بِقَوۡمٍ یُّحِبُّہُمۡ وَ یُحِبُّوۡنَہٗۤ ۙ اَذِلَّۃٍ عَلَی الۡمُؤۡمِنِیۡنَ اَعِزَّۃٍ عَلَی الۡکٰفِرِیۡنَ ۫ یُجَاہِدُوۡنَ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ وَ لَا یَخَافُوۡنَ لَوۡمَۃَ لَآئِمٍ ؕ ذٰلِکَ فَضۡلُ اللّٰہِ یُؤۡتِیۡہِ مَنۡ یَّشَآءُ ؕ وَ اللّٰہُ وَاسِعٌ عَلِیۡمٌ ﴿۵۴﴾
﴿005:054﴾

ترجمہ :اے ایمان والو! اگر کوئی تم میں سے اپنے دین سے پھر جائے گا تو خدا ایسے لوگ پیدا کردے گا جن کو وہ دوست رکھے اور جسے وہ دوست رکھیں اور جو مومنوں کے حق میں نرمی کریں اور کافروں سے سختی سے پیش آئیں خدا کی راہ میں جہاد کریں اور کسی ملامت کرنے والے سے نہ ڈریں۔ یہ خدا کا فضل ہے وہ جسے چاہتا ہے دیتا ہے اور خدا بڑی کشائش والا اور جاننے والا ہے۔

آپ کی پیش کردہ ما قبل آیت میں جس محبت وموءدت کا ذکر فرمایا گیا ہے ہم سیاق و سباق کے حولے سے یہ مطلب کیوں نہیں لے سکتے ، اور جن تفاسیر کا آپ لوگ سہارا لیتے ہیں وہ تمام موضوعی اورضعیف ہیں جن کے راوی بھی مجہول مزکور ہیں

" انما ولیکم " میں "ولی " کی اضافت "کم " کی طرف ہے اللہ پاک کی طرف نہیں اس لئے اس آیت سے آپ کس طرح " علی ولی اللہ " ثابت کر رہے ہیں ، کیا جواب ہے آپ کے پاس، اگر بفرض محال آپ کی اس غلط بات کو مان بھی لیا جائے تو تمام بارہ اماموں کی خلافت اس آیت سے کیسے ثابت کریں گے؟

اس سے ماقبل آیت 50 میں لفظ ولی کا بھی استعمال دیکھ لیں

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَتَّخِذُوا الۡیَہُوۡدَ وَ النَّصٰرٰۤی اَوۡلِیَآءَ ۘؔ بَعۡضُہُمۡ اَوۡلِیَآءُ بَعۡضٍ ؕ وَ مَنۡ یَّتَوَلَّہُمۡ مِّنۡکُمۡ فَاِنَّہٗ مِنۡہُمۡؕ اِنَّ اللّٰہَ لَا یَہۡدِی الۡقَوۡمَ الظّٰلِمِیۡنَ ﴿۵۱﴾ ﴿005:051﴾
ترجمہ: اے ایمان والو! یہود اور نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ۔ یہ ایک دوسرے کے دوست ہیں۔ اور جو شخص تم میں سے انکو دوست بنائیگا وہ بھی انہیں میں سے ہوگا۔ بیشک خدا ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا ۔

یہاں آپ دوست مراد کیوں لیتے ہیں سردار کیوں نہیں ،امید ہے آپ جواب دینے سے معزور ہی رہیں گے

شیعہ حضرات کے خود ساختہ دین میں ان کا کلمہ بھی مسلمانوں کے کلمے سے مختلف ہے ۔۔۔ ایسا کلمہ جو نہ تو صحابہ رضی اللہ عنہ نے پڑھا نہ ہی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے پڑھایا اور نہ ہی علی رضی اللہ نے کسی کو پڑھایا ۔۔۔ غور طلب بات یہ ہے کہ یہ کلمہ بظاہر علی رضی اللہ کی شان بیان کرنے کیلئے اور اپنی عقیدت کے اظہار کیلئے استعمال کیا جا تا یے لیکن کیا کریں ہر وہ عمل یا نظریہ جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے قولی یا فعلی ثابت نہ ہو اپنے اندر خامی ہی رکھتا ہے جس کی مثال ان کے کلمے کا یہ جزو یعنی " علی ولی اللہ " کہنا ۔۔۔

ہم آپ کے سامنے سورۃ النساء کی مندرجہ ذیل آیت پیش کرتے ہیں اور اس کے بعد ولی کون ہیں اور ان کا کیا مقام ہے اس پر بھی روشنی ڈالیں گے ۔۔۔

انشا اللہ

وَ مَنۡ یُّطِعِ اللّٰہَ وَ الرَّسُوۡلَ فَاُولٰٓئِکَ مَعَ الَّذِیۡنَ اَنۡعَمَ اللّٰہُ عَلَیۡہِمۡ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَ الصِّدِّیۡقِیۡنَ وَ الشُّہَدَآءِ وَ الصّٰلِحِیۡنَ ۚ وَ حَسُنَ اُولٰٓئِکَ رَفِیۡقًا ﴿ؕ۶۹﴾ ﴿004:069﴾ ترجمہ: اور جو لوگ خدا اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے ہیں وہ قیامت کے دن ان لوگوں کے ساتھ ہوں گے جن پر خدا نے بڑا فضل کیا یعنی انیباء اور صدیق اور شہدا اور نیک لوگ اور ان لوگوں کی رفاقت بہت ہی خوب ہے

اس آیت کریمہ میں اللہ پاک نے لوگوں کے سامنے اپنے نیک بندوں کے چار درجات بیان فرمائے ہین جن کی صحبت قیامت کے دن مومنوں کو مل سکتی ہے جن میں پہلے دو درجات تو رہتی دنیا میں نصیب نہین ہو سکتے لیکن بقیہ دو درجات انسان اپنی سعی سے اس دنیا میں حاصل کر سکتا ہے


یعنی نبوت کا اختتام ہو چکا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم خاتم النبیین ہیں
اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ ہی صحابیت کا در بھی بند ہو چکا اب نہ کوئی نبی آئے گا اور نہ کوئی صحابی ( صدیقین )بن سکتا ہے


اگر کسی کو لفظ صدیق اور صحابی میں فرق نظر آئے تو یہ آیت پڑہ لے


وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا بِاللّٰہِ وَ رُسُلِہٖۤ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الصِّدِّیۡقُوۡنَ ٭ۖ وَ الشُّہَدَآءُ عِنۡدَ رَبِّہِمۡؕ لَہُمۡ اَجۡرُہُمۡ وَ نُوۡرُہُمۡؕ وَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا وَ کَذَّبُوۡا بِاٰیٰتِنَاۤ اُولٰٓئِکَ اَصۡحٰبُ الۡجَحِیۡمِ ﴿٪۱۹﴾
﴿057:019﴾ اور جو لوگ خدا اور اس کے پیغمبروں پر ایمان لائے یہی اپنے پروردگار کے نزدیک صدیق اور شہید ہیں ان کے لئے ان (کے اعمال) کا صلہ ہوگا اور ان (کے ایمان) کی روشنی اور جن لوگوں نے کفر کیا اور ہماری آیتوں کو جھٹلایا وہی اہل دوزخ ہیں مندرجہ بالا آیت صحابہ رضی اللہ تعالیٰ اجمعین کیلئے ہی اتری تھی

بقیہ دو مقامات انسان اپنی کوشش سے حاصل کر سکتا ہے اگر اللہ پاک قبول و منظور فرمائیں اور وہ دو مقام شہید اورصالحین کے ہیں
قیامت تک کوئی بھی شخص خود کو اللہ پاک کے رستے میں کٹوا ڈالے یا نیک اعمال بھی ساتھ کرتا رہے تووہ شہید اور صالح ( ولی ) بن سکتا ہے جبکہ یہ مقامات صحابہ رضی اللہ حاصل کر چکے جن میں شہدا بھی تھے اور صالحین بھی تھے۔
اب دیکھنے کا مقام یہ ہے کہ کیا علی رضی اللہ کو صرف لقب ولی سے پکارنا کیا ان کی شان کم کرنے کے مترادف ہے یا نہیں جبکہ اللہ پاک نے انہیں صدیق اور صحابی پکارا ۔قرآن پاک میں لفظ ولی دو طرح استعمال کیا گیا ہے

1- اللہ پاک کیلئے
2- نیک لوگوں کیلئے

اللہ تعالیٰ کی کتاب نے اٹھاسی (۸۸) مقامات پر ”ولی“ ” اولیا “اور ”ولایت “ کے الفاظ استعمال کئے ہیں - اسی طرح اولیا ءکرام کے لئے (12) مقامات پرا اللہ کی کتاب نے ” لاَخَوف عَلَیھِم وَلاَ ھُم یَخزَنُونَ “ کے جملہ کو استعمال فرمایا ہے

پہلے ہم دیکھیں گے کہ اللہ پاک کیلئے کیسے استعمال ہوا اس کیلئے ہم نے تین آیات کا انتخاب کیا ہے

وَ مَا لَکُم مِن دُون ِاللہِ مِن وَّ لِیٍ وَلاَ نَصِیرٍ

ترجمہ: اور اللہ کے علاوہ تمہارے لئے نہ کوئی ولی ہے اور نہ کوئی مدد گار - ( البقرہ : 107) قارئین کرام ! یقینا مذکورہ معنوں میں اللہ کے علاوہ کوئی ولی نہیں ہے اور اللہ نے اس بات کو واضح کردیا تو اب دیکھئے حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنے اللہ سے کس طرح مخاطب ہورہے ہیں :

اَنتَ وَلِیُّنَا فَا غفِر لَنَا وَ ار حَمنَا و اَنتَ خَیرُ الغَافِرِین

ترجمہ: ( اے اللہ) تو ہی ہمارا ولی ہے - لہٰذا ہمیں بخش دے‘ ہم پر رحم فرما کیونکہ تو ہی سب سے بہتر بخشنے والا ہے-( الاعراف:155)


اسی طرح حضرت یوسف علیہ السلام اپنے اللہ سے یوں مخاطب ہوتے ہیں :

فَا طِرَ السَّمٰوٰ تِ وَ الاَ ر ضِ اَ نتَ وَلِیِّ فِی الدُّ نیَا وَ الآ خِرَ ةِ تَوَ فَّنِی مُسلَِماً وَّ اَلحِقنِی بِا الصَّالِحِینَ

ترجمہ : آسمانوں اور زمین کے پید ا کرنے والے ! تو ہی دنیا اور آخرت میں میرا ولی ہے - مجھے مسلمان کی حیثیت سے فوت کرنا اور مجھے نیک لوگوں کے ساتھ شامل کرنا ۔( یوسف : ۱۰۱)


اب اللہ کے آخری رسول کا انداز بھی ملاحظہ کیجئے- آپ مشرکین مکہ کو توحید کی دعوت دیتے رہتے - ان کے ٹھہرائے ہوئے معبودوں کی بے بسی ثابت کرتے کرتے انہیں آگا ہ کرتے ہیں:

اِ نَّ وَلِیَّ اللَّہُ الَّذِ ی نَزَّ لَ الکِتَا بَ وَ ھُوَ یتَولَّی الصَّالِحِینَ

ترجمہ : بلا شبہ میرا ولی تو وہ اللہ ہے کہ جس نے کتاب نازل فرمائی اور وہی نیک لوگوں کا والی ہے - ( الاعراف : 196)

آگاہ رہیے! جن معنوں میں اللہ ہی ولی ہے اور اس کے سوا دوسرا کوئی ولی نہیں ہے -ان معنوں اور مفہوم میں اگر کوئی شخص کسی بندے کو ”ولی “ بنادے تو یہ اللہ کے ساتھ شرک ہوگا۔اب آتے ہیں دوسرے مفہوم یعنی نیک لوگوں ( صالحین و ولی ) کیلئے کیسے استعمال ہوا


وَالمُومِنُونَ وَالمُومِنَاتُ بَعضُھُم اَولِیَائُ بَعضٍ یَا مُرُ و نَ بِالمَعرُوفِ ِوَ یَنھَون َ عَنِ المُنکَرِ وَ یُقِیمُو نََ الصَّّلٰو ةَ وَ یُ تُو ن َ الزَّ کا ة َ وَ یُطِیعُون َ اللَّہَ وَ رَسُولَہُ اُ ولٰٓئِکَ سَیَرحَمُھُمُ اللَّہُ اِ نَّ اللَّہََ عَزِیز حَکِیم

ترجمہ : مومن مرد اور مومن عورتیں ایک دوسرے کے ولی ہیں- وہ نیکی کاحکم دیتے ہیں اور برائی سے روکتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں ا ور زکوٰة دیتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرتے ہیں - ان لوگوں پر اللہ ہرصورت رحم فرمائے گا- بلاشبہ اللہ غالب حکمت والاہے -

( التوبہ : 81)

اس فرمان الٰہی سے معلوم ہوا کہ ولی وہ ہے جو

( 1) نیکی کی تلقین کرے

(2) برائی سے روکے

(3) نماز قائم کرے

(4) زکوٰة اداکرے

(5) اللہ کی اطاعت کرے

(6) رسول کی اطاعت بجالائے

یہ چھ خصوصیات جن میں پائی جا ئیں وہ ولی ہیں اور مومنین جو ان خصوصیات کے حامل ہیں - ولی ہیں جس میں کسی شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے

اب ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ اہل تشیع علی رضی اللہ کو " علی ولی اللہ " کہہ کر ان کو ان کے اصلی مقام صحابیت سے گرا رہے ہیں

یہ ناہنجار طبقہ علی رضی اللہ کو " رب " بھی کہتا ہے تو ہم نے شروع ہی میں تیں آیات پیش کر کے نہ صرف ان کی نفی کر دی بلکہ ان کے کفر و شرک کو بھی واضح کردیا ہے

آیت کی ٍغلط تفسیر کا رد:
اس کی سند میں ایک راوی خالد بن یزید العمری کذاب (جھوٹا) اور متروک ہے۔ اسے حافظ ابن حجر نے (الکافی الشاف فی تخریج احادیث الکشاف لابن حجر 649/1 ، المائدہ:55) متروک ،
یحیٰ بن معین نے (کتاب الجرح و التعدیل 360/3 ، و سندہ صحیح) میں کذاب (جھوٹا) ،
امام ابو حاتم الرازی نے(کتاب الجرح و التعدیل 360 رقم : 1630) میں کذاب کہا ہے. اس کے علاوہ حافظ ہیثمی اور حافظ ابن حبان نے بھی اس پر شدید جرح کی ہیں۔
جبکہ اس کا دوسرا راوی اسحاق بن عبد اللہ بن محمد بن علی بن حسین نامعلوم ہے۔ حافظ ہیثمی نے کہا: "اسے طبرانی نے الاوسط میں روایت کیا ہے اور اس میں ایسے راوی ہیں جنیں میں نہیں جانتا۔" (مجمع الزوائد 17/7 ، سورۃ المائدۃ)
حافظ ابن کثیر نے اس روایت اور دوسری روایات کی طرف اشارہ کرکے فرمایا: "ان (روایات) میں سے سرے سے کوئی چیز بھی صحیح نہیں ہے ، سندوں کے ضعیف اور راویوں کے مجہول ہونے کی وجہ سے۔" (تفسیر ابن کثیر : 567/2 ، المائدہ :55)
اس روایت کو علامہ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ نے سلسلہ ضعیفہ میں ذکر کیا ہے۔ (ج 10 ص 582 ح 4921)
نوٹ: یہ روایت اور اس مفہوم کی دیگر تمام روایات ضعیف یا باطل و مردود ہیں۔
امام ابو جعفر الباقر رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو ایمان لائے ہیں ۔۔۔ اور علی ان لوگوں میں سے ہیں جو ایمان لائے ہیں (تفسیر ابن جریر 594/4 ح 12225)


 

HUMAIR YOUSUF

رکن
شمولیت
مارچ 22، 2014
پیغامات
191
ری ایکشن اسکور
56
پوائنٹ
57
منہاج السنۃ النبویہ میں شیخ السلام ابن تیمیہ ؒ اسی آیت کی تشریح میں فرماتے ہیں:

سورۃ مائدہ آیت 55
ترجمہ: تمہارا ولی اللہ تعالیٰ ہے، اسکا رسول اور وہ مومن ہیں جو نماز کی پابندی کرتے، زکوٰۃ ادا کرتے اور رکوع کرنے والے ہیں۔

شیعہ کہتے ہیں کہ اس آیت پر اجماع ہے کہ یہ آیت حضرت علی رض کی شان میں اتری۔ اسکا جواب یہ ہے کہ یہ آیت حضرت علی کے بارے میں نازل نہیں ہوئ تھی اور اس ضمن میں اجماع کا دعوی سراسر بے بنیاد اور کذب صریح ہے، بلکہ اجماع اس بات پر ہوا ہے کہ یہ آیت خاص طور پر حضرت علی کے بارے میں نازل نہیں ہوئ۔ شیعہ کی بیان کردہ روایت صاف جھوٹی ہے۔ ثعلبی کی تفسیر موضوعات کا پلندہ ہے۔ ثعلبی اور اسکا تلمیذ واحدی دونوں "حاطب الیل (رات کا لکڑہارا جو خشک و تر میں تمیز کئے بغیر ہر قسم کی لکڑی جمع کرتا ہے) تھے۔ علاوہ ازیں شیعہ مصنف کے ذکر کردہ دلائل سب باطل ہیں اور وہی شخص انکو تسلیم کرسکتا ہے جو گونگا، بہرہ، صاحب ہوس و ضلالت ہو اور اللہ تعالیٰ نے اسکےدل کو قبول حق سے اندھا کردیا ہو۔

یہ وجہ ہے کہ اکثر زنادقہ اسلام میں تشیع کے دروازے سے داخل ہوئے ہیں اور ان اکاذیب کے بل بوتے پر اسلام کو مطعون کرنا شروع کیا۔ جہلاء ان مکذوبات کی بنا پر شبہات کا شکار ہوگئے۔ فرقہ ہائے اسمعیلیہ و نصیریہ بھی اسی وجہ سے گمراہ ہوئے۔ انہوں نے تفسیر اور مناقب و مثالب سے متعلق شیعہ کی روایت کردہ اکاذیب پر مہر تصدیق ثبت کردی۔ چنانچہ انہوں نے سب سے پہلے آل محمد پر اظہار رحم و کرم کا آغاز کیا، پھر صحابہ پر نقد وجرح اور گالم گلوچ کا بیڑا اٹھایا۔ بعد ازاں حضرت علی کو ہد ف ملامت بنایا۔ کیونکہ آپ یہ سب باتیں سنکر خاموش رہتے تھے، پھر رسول اللہ ﷺ کو تنقید کا نشانہ بنایا اور بعد ازاں خدا کی تردید و تکذیب پر اتر آئے۔ جیسا کہ صاحب البلاغ الاکبر نے اس ترتیب پر روشنی ڈالی ہے۔

شیعہ مصنف نے اپنی تائید میں ثعلبی کا حوالہ دیا ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ ثعلبی نے حضرت ابن عباس کا یہ قول بھی نقل کیا ہے "یہ آیت ابوبکر کی شان میں نازل ہوئی"۔ نیز ثعلبی نے عبدالمالک سے نقل کیا ہے کہ میں نے ابوجعفر سے آیت کی تفسیر پوچھی تو انہوں نے فرمایا "اس سے مراد سب مومن ہیں"۔ میں نے عرض کیا بعض لوگ اس سے حضرت علی مرا د لیتے ہیں۔ یہ سن کر امام باقر ؒ نے فرمایا "اہل ایمان میں علی بھی شامل ہیں"۔ ضحاک سے بھی یہی مراد ہے۔

علی بن ابی طلحہ حضرت ابن عباس سے ا س آیت کی تفسیر میں نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا " سب مومن و مسلم اللہ تعالیٰ کے ولی ہیں"۔ ہم شیعہ کے ادعاء اور اجماع کو معاف کرتے اور ان سے مطالبہ کرتے ہیں کہ اپنے دعوی کے اثبات میں ایک سند صحیح ہی پیش کریں۔ ثعلبی سے نقل کردہ روایت ضعیف ہے اور اسکے راوی مہتم بالکذب ہیں۔ باقی رہا فقیہ ابن المغازل واسطی تو اسکی کتاب اکاذیب کا پلندہے ۔ اسکی حقیقت سے ہر وہ شخص آشناہے جو علم حدیث سے معمولی سی بھی واقفیت رکھتا ہے۔

اگر آیت کا مطلب یہ قرار دیا جائے کہ حالت رکوع میں بھی زکوٰۃ ادا کی جاسکتی ہے تو یہ موالات کی شرط ٹھہری گی۔ اور حضرت علی کے سوا کوئی بھی مسلمان ولی نہیں بن سکے گا۔ بنا بریں حسن و حسین بھی امام نہیں ہونگے۔ علاوہ ازیں اس آیت میں یقیمون الصلوٰۃ جمع کا صیغہ ہے۔ لہذہ صرف واحد اسکا مصداق نہیں ہوسکتا۔ علاوہ ازیں تعریف کسی اچھے کام پر کی جاتی ہے۔ ظاہر یہ کہ نماز میں یہ کام کرنا فعل محمود نہیں ہے۔ اگر یہ اچھا کام ہوتا تو آنحضرت ﷺ بھی ایسا کرتے اور اسکی ترغیب دیتے۔ نیز حضرت علی بار بار یہ کام سرانجام دے رہے ہوتے۔

ظاہر یہ کہ نماز میں ایک طرح کا انہماک ہوتا ہے، لہذہ یہ فصل نماز کے منافی ہے۔ پھر یہ کہنا کس حدتک درست ہے کہ ولی وہی شخص ہوگا جو حالت رکوع میں سجدہ کرے۔ علاوہ ازیں ویوتون الزکوٰۃ ککے الفاظ وجود زکوٰۃ پر دلالت کرتے ہیں، حالانکہ عہد رسالت میں حضرت علی تنگدست تھے اور زکوٰۃ ان پر فرض نہ تھی۔ چاندی کی زکوٰۃ اس شخص پر فرض ہوتی ہے جو نصاب کا مالک ہو اور اس پر ایک سال گذر جائے، مگر حضرت علی صاحب نصاب نہ تھے۔ مزید براں اکثر علماء نے نزدیک زکوٰۃ میں انگوٹھی کا دینا کافی نہیں ہوتا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ شیعہ مصنف کی ذکر کردہ آیت مندرجہ زیل کی مانند ہے اور ان میں کوئی فرق نہیں پایا جاتا۔ اللہ تعالی فرماتے ہیں


وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ وَارْكَعُوا مَعَ الرَّاكِعِينَ البقرۃ آیت 43


ترجمہ: اور نماز پڑھا کرو اور زکوٰة دیا کرو اور (خدا کے آگے) جھکنے والوں کے ساتھ جھکا کرو

يَا مَرْيَمُ اقْنُتِي لِرَبِّكِ وَاسْجُدِي وَارْكَعِي مَعَ الرَّاكِعِينَآل عمران 43

ترجمہ : مریم اپنے پروردگار کی فرمانبرداری کرنا اور سجدہ کرنا اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرنا


متنازعہ آیت کی صحیح تفسیر:

مفسرین کے یہاں یہ بات عام طور سے مصروف ہے کہ زیر نظر آیت مولات کفار سے روکنے اور اہل اسلام کے ساتھ دوستانہ مراسم کرنے کا سلسلہ میں نازل ہوئی۔ غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ سیاق و کلام بھی اسی پر دلالت کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے

"اے ایمان والوں! یہود و نصاریٰ کو دوست مت بناؤ۔ تم میں سے جو شخص ان سے دوستی رکھے گا وہ انہی میں سے ہوگا۔ بےشک اللہ تعالیٰ ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا۔ (المائدہ 52 – 51)
اس آیت میں یہود و نصاریٰ کے ساتھ دوستانہ مراسم قائم کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ اسکے بعد فرمایا :

"جن لوگوں کے دلوں میں کھوٹ ہے، آپ دیکھتے ہیں کہ وہ بھاگ بھاگ کر ان یہود و نصاریٰ کی طرف جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمیں انکے ساتھ دوستی نہ لگانے کی صورت میں کسی مصیبت میں گرفتار ہوجانے کا اندیشہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے عنقریب ہی کسی فتح یا کسی اور بات کی بشارت بنائے گا، جس سے وہ ان باتوں پر نادم ہونگے، جو انہوں نے اپنے جی میں پوشیدہ رکھی تھی۔

اسکے بعد فرمایا ، انما ولیکم اللہ۔ اسے معلوم ہوا کہ مومنین کا عام وصف ہے۔ مگر حضرت ابوبکر رض و علی رض اور سابقین اولین صحابہ ان میں بالا ولیٰ داخل ہیں۔ جو شخص حدیث نبویہ میں غور و فکر کرے گا، اس پر شیعہ مصنف کی دروغگوئی واضح ہوگئی اور شیعہ کی ذکر کردہ تفسیر صحیح ہوتی تو جن لوگوں نے حضرت علی کا ساتھ چھوڑا تھا اور انکی مدد کا حق ادا نہیں کیا وہ ذلیل و خوار ہوجاتے، حالانکہ ایسا نہیں ہوا۔ بلکہ وہ مظفر و منصور ہوئے او ر انہوں نے بلاد فارس، روم اور قبط کو فتح کیا۔

منہاج السنۃ النبویہ ، از علامہ ابن تیمیہ ؒ، تنقیح علامہ ذھبی ؒ، تخشیہ علامہ محب الدین خطیب ؒ، ترجمہ ؛ پروفیسر غلام احمد حریری۔ صفحہ نمبر 614 – 611
 

ڈاکٹر محمد

مبتدی
شمولیت
ستمبر 19، 2015
پیغامات
37
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
2
سورۃ مائدہ آیت 55 اِنَّمَا وَلِیُّکُمُ اللّٰہُ وَ رَسُوۡلُہٗوَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا الَّذِیۡنَ یُقِیۡمُوۡنَ الصَّلٰوۃَ وَ یُؤۡتُوۡنَ الزَّکٰوۃَ وَ ہُمۡ رٰکِعُوۡنَ
مذکورہ بالا آیت میں یقیمون الصلوٰۃ و یوتون الزکوٰۃ آیا ہے، اسی سیاق کو باقی رکھتے ہوئے و یرکعون الرکوع آنا چاہیے تھا پھر ایسا کیوں نہیں ہوا؟ کیا اس آیت میں ’’واو‘‘ واو حالیہ نہیں ہے؟ اگر نہیں تو پھر سیاق کو مد نظر رکھتے ہوئے کلام کرنا زیادہ فصیح ہوتا ہے، نہ کہ انداز تکلم کو ایسا بدل دینا کہ سامع یا مخاطب کو شبہہ ہو کہ واو حالیہ ہے۔
ثانیاً کیا آپ کی نظر میں صرف زکات واجب کو ہی عربی میں زکوٰۃ کہتے ہیں؟ صدقہ کو زکاۃ نہیں کہتے؟ یا زکوٰۃ کو صدقہ نہیں کہتے؟ خُذْمِنْأَمْوَالِهِمْ صَدَقَةًتُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِم یہ آیت کس بارے میں ہے؟
کیا وہ چیز جس کو قرآن ممدوح قرار دے وہ بھی آپ کی نظر میں بدعت شمار ہوتی ہے؟ قرآن نے حالت رکوع میں زکات دینے کو ممدوح جانا ہے۔
سورۂ مائدہ کی مذکورہ آیت حضرت علیؑ کی امامت و ولایت پر دلیل ہے، اور بلافصل خلیفہ ہونا دوسری دلیلوں سے ثابت ہے۔
اگر تمھارے عقیدہ میں ذرا بھی صداقت ہے اور تمھیں اپنی ولادت پاکیزگی پا یقین ہے تو مجھے بلاک نہ کرنا اور بات کو جاری رکھنے دینا، میری پوسٹ کو کاٹنا مت، میں تیرے ہر سوال کا جواب دوں گا۔
 

ڈاکٹر محمد

مبتدی
شمولیت
ستمبر 19، 2015
پیغامات
37
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
2
واجمع الجماهير على متن الحديث من خطبته في يوم عيد يزحم باتفاق الجميع وهو يقول: « من كنت مولاه فعلي مولاه » فقال عمر بخ بخ يا أبا الحسن لقد أصبحت مولاي ومولى كل مولى فهذا تسليم ورضى وتحكيم ثم بعد هذا غلب الهوى تحب الرياسة وحمل عمود الخلافة وعقود النبوة وخفقان الهوى في قعقعة الرايات واشتباك ازدحام الخيول وفتح الأمصار وسقاهم كأس الهوى فعادوا إلى الخلاف الأول: فنبذوه وراء ظهورهم واشتروا به ثمناً قليلا.
.الغزالي، أبو حامد محمد بن محمد، سر العالمين وكشف ما في الدارين، ج 1، ص 18، باب في ترتيب الخلافة والمملكة، تحقيق: محمد حسن محمد حسن إسماعيل وأحمد فريد المزيدي، ناشر: دار الكتب العلمية - بيروت / لبنان، الطبعة: الأولى، 1424هـ 2003م.
مذکورہ عبارت کا اردو ترجمہ کرو تاکہ ترجمہ میں میرے اور تمھارے بیچ کوئی اختلاف نہ ہو، حوالہ پہلے ہی درج کر چکا ہوں، ترجمہ نہیں کروگے تو میں خود ترجمہ کروں گا اور یہ تمھارے منھ کے کھانے کی دلیل ہوگی
 

ڈاکٹر محمد

مبتدی
شمولیت
ستمبر 19، 2015
پیغامات
37
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
2
نیز ایک سوال یہ بھی کہ جو اللہ کی الوہیت و وحدانیت، حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی رسالت اور قرآن پر عقیدہ رکھتا ہو، کلمہ بھی پڑھتا ہو وہ صرف ابو بکر، عمر بن خطاب اور عثمان کی خلافت کے انکار سے یا علیٌ ولی اللہ کہنے سے ملحد ہو جائے گا؟ جبکہ خود اقرار کر چکے ہو کہ ہر مومن اللہ کا ولی ہوتا ہے تو کیا حضرت علیؑ اللہ کے ولی نہیں ہیں؟
 

ڈاکٹر محمد

مبتدی
شمولیت
ستمبر 19، 2015
پیغامات
37
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
2
سورۃ مائدہ آیت 55 اِنَّمَا وَلِیُّکُمُ اللّٰہُ وَ رَسُوۡلُہٗوَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا الَّذِیۡنَ یُقِیۡمُوۡنَ الصَّلٰوۃَ وَ یُؤۡتُوۡنَ الزَّکٰوۃَ وَ ہُمۡ رٰکِعُوۡنَ
مذکورہ بالا آیت میں یقیمون الصلوٰۃ و یوتون الزکوٰۃ آیا ہے، اسی سیاق کو باقی رکھتے ہوئے و یرکعون الرکوع آنا چاہیے تھا پھر ایسا کیوں نہیں ہوا؟ کیا اس آیت میں ’’واو‘‘ واو حالیہ نہیں ہے؟ اگر نہیں تو پھر سیاق کو مد نظر رکھتے ہوئے کلام کرنا زیادہ فصیح ہوتا ہے، نہ کہ انداز تکلم کو ایسا بدل دینا کہ سامع یا مخاطب کو شبہہ ہو کہ واو حالیہ ہے۔
ثانیاً کیا آپ کی نظر میں صرف زکات واجب کو ہی عربی میں زکوٰۃ کہتے ہیں؟ صدقہ کو زکاۃ نہیں کہتے؟ یا زکوٰۃ کو صدقہ نہیں کہتے؟ خُذْمِنْأَمْوَالِهِمْ صَدَقَةًتُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِم یہ آیت کس بارے میں ہے؟
کیا وہ چیز جس کو قرآن ممدوح قرار دے وہ بھی آپ کی نظر میں بدعت شمار ہوتی ہے؟ قرآن نے حالت رکوع میں زکات دینے کو ممدوح جانا ہے۔
سورۂ مائدہ کی مذکورہ آیت حضرت علیؑ کی امامت و ولایت پر دلیل ہے، اور بلافصل خلیفہ ہونا دوسری دلیلوں سے ثابت ہے۔
اگر تمھارے عقیدہ میں ذرا بھی صداقت ہے اور تمھیں اپنی ولادت کی پاکیزگی پر یقین ہے تو مجھے بلاک نہ کرنا اور بات کو جاری رکھنے دینا، میری پوسٹ کو کاٹنا مت، میں تیرے ہر سوال کا جواب دوں گا۔
اب سمجھے کہ خالق نے اچانک انداز تکلم کیوں بدلا؟ اس لئے کہ خالق کائنات نے بتانا یہ چاہا ہے کہ مذکورہ آیت میں واو حالیہ ہے اور آیت کا معنی یہ ہوگا: تمہارے مولا (نفسوں پر حاکم) تو بس خدا اور اس کے پیغمبر اور وہ مومن لوگ ہیں جو نماز پڑھتے اور حالت رکوع میں زکات دیتے ہیں۔
لہٰذا جس نے حالت رکوع میں زکات دیا وہ اس آیت کا بارز مصداق ہے اور وہ ہیں حضرت علی علیہ السلام
 

HUMAIR YOUSUF

رکن
شمولیت
مارچ 22، 2014
پیغامات
191
ری ایکشن اسکور
56
پوائنٹ
57
جناب جواب تو میں جب دونگا جب آپ میرے بھی کچھ سوالات کے جواب دیں، جو میری پہلی پوسٹ میں لکھے گئے تھے، اور سب سے پہلے آپ اپنا لہجہ و رویہ درست کریں۔ آپ کی لکھی ہوئی ان لائنوں نے مجھے آپکی "حیثیت" کا پتہ تو چل گیا ہے، لیکن میں آپ کی طرح منہ پھٹ اور بداخلاق نہیں ہونا چاہتا۔ سو بہتری اسی میں ہے کہ پہلے میرے اٹھائے ہوئے سوالات کا جواب عنایت کردیں پھر اپنا معاملہ چکا لیجئے گا، سوال کے جواب میں سوال کرنا کم عقلوں کی نشانی ہوتی ہے
اگر تمھارے عقیدہ میں ذرا بھی صداقت ہے اور تمھیں اپنی ولادت پاکیزگی پا یقین ہے تو مجھے بلاک نہ کرنا اور بات کو جاری رکھنے دینا، میری پوسٹ کو کاٹنا مت، میں تیرے ہر سوال کا جواب دوں گا۔
 

ڈاکٹر محمد

مبتدی
شمولیت
ستمبر 19، 2015
پیغامات
37
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
2
جناب آپ آیہ مذکورہ کا صحیح معنی ہی نہیں سمجھ سکے ہو، غلط معنی کا استنباط کیا ہے اور اسی کی بنیاد پر سارے غلط سوالات اٹھائے ہیں، پہلے آیت کے معنی اور مفہوم پر گفتگو کیجیے پھر سوال کیجیے۔ میں نے جو سوال پوچھا ہے وہ اسی کو درست کرنے کے لئے ہے۔ جب کوئی انسان کی بات کا غلط مطلب سمجھتا ہے تو اس پر جو سوالات اٹھاتا ہے تمام کے تمام غلط ہوتے ہیں، جبکہ سوال کرنے والا خود کو عقل کل سمجھتا ہے۔
 

HUMAIR YOUSUF

رکن
شمولیت
مارچ 22، 2014
پیغامات
191
ری ایکشن اسکور
56
پوائنٹ
57
جناب آپ آیہ مذکورہ کا صحیح معنی ہی نہیں سمجھ سکے ہو، غلط معنی کا استنباط کیا ہے اور اسی کی بنیاد پر سارے غلط سوالات اٹھائے ہیں، پہلے آیت کے معنی اور مفہوم پر گفتگو کیجیے پھر سوال کیجیے۔ میں نے جو سوال پوچھا ہے وہ اسی کو درست کرنے کے لئے ہے۔ جب کوئی انسان کی بات کا غلط مطلب سمجھتا ہے تو اس پر جو سوالات اٹھاتا ہے تمام کے تمام غلط ہوتے ہیں، جبکہ سوال کرنے والا خود کو عقل کل سمجھتا ہے۔
جناب عالی آیت کا مفہوم تو صاف و واضح ہے، ہاں یہ جو تفسیری روایت لے کر اس صاف و شفاف آیت کا غلط مفہوم نکالنے کی کوشش کی گئی ہے وہ سراسر غلط ہے۔ اگر یہ تفسیر اسی طرح ہی کہتی ہے تو ذرا مجھے ان باتوں کا جواب عنایت کردیں، سیدھا سادھا۔ بات کو گھمانے کی کوشش نہ کی جائے

کیا حالت رکوع میں زکوٰۃ دینا قرآن و سنت سے جائز ہے یا زکوٰ ۃ صرف حالت رکوع میں دینے کا حکم ہے؟
اگر یہ فعل آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم سے منقول نہیں تو کیا یہ بدعت نہیں کہلوائی جائے گی ؟کیا شیعہ حضرات حالت رکوع میں زکوٰۃ دینے کے پابند ہیں۔
اگر کوئی شخص حالت رکوع میں ادائے زکوٰۃ کرے تو کیا وہ بھی خلیفہ بلا فصل ہی کہلوایا جائے گا کیونکہ آپ اسے بہت بڑی نیکی اور ولایت کے استحقاق کے لئے ضروری سمجھتے ہیں

کیا حضرت علی رضی اللہ کے پاس اتنا سونا موجود تھا کہ جس پر زکوٰۃ واجب تھی اگر نہیں تھا تو زکوٰہ دینے کا کیا مقصد؟
اور چونکہ یہ میری پوسٹ ہے لہذہ ان باتوں کا جواب پہلے مجھے لینے کا حق ہے، پھر ہی میں آپ کے سوالات کا جواب دینے کا پابند ہونگا۔ برائے مہربانی بحث کو کسی اور طرف گھمانے کی کوشش نہیں کیجئے گا
 

ڈاکٹر محمد

مبتدی
شمولیت
ستمبر 19، 2015
پیغامات
37
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
2
ایک بار پھر سے آپ نے اپنی جہالت کا مظاہرہ کر دیا، میں پہلے ہی عرض کر چکا ہوں کہ مذکورہ آیت میں واو حالیہ ہے اور آیت کا معنی یہ ہوگا: تمہارے مولا (نفسوں پر حاکم) تو بس خدا اور اس کے پیغمبر اور وہ مومن لوگ ہیں جو نماز پڑھتے اور حالت رکوع میں زکات دیتے ہیں۔
اور رہا تمھارے سوالوں کا جواب تو وہ سارے سوال غلط ہیں پھر بھی عرض کرتا ہوں:
1۔ تم زکات کو صرف واجب زکات میں کیوں منحصر کرتے ہو، قرآن میں زکات عام معنی میں استعمال ہوا ہے، اور ہر مال خیر کو جو راہ خدا میں دیا جائے اس کو زکات کہتے ہیں، صدقہ کو بھی زکات کہا ہے قرآن نے، ایسی بہت سی آیات موجود ہیں۔
2۔ حالت نماز میں فی سبیل اللہ انفاق کرنا بالکل جائز ہے اور کہیں سے بھی اس کا عدم جواز ثابت نہیں کر سکتے۔
3۔ اگر نماز کی حالت میں بھی کوئی سائل اللہ کے نام سے سوال کرے تو بالکل اس کو عطا کرنا بہترین عمل ہے، شیعہ کیا امت مسلمہ میں سے کوئی بھی اس فعل کا مخالف نہیں ہے۔
4۔ صدقہ دینے یا کسی بھوکے کو کھانا کھلانے میں سونا چاندی کا ہونا شرط نہیں ہے، پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ قرآن کی آیات میں زکات عام معنی میں استعمال ہوا ہے جو انفاقات مستحب کو بھی شامل ہے، لہٰذا علیّ کے پاس سونا چاندی کا ہونا لازم نہیں، کیونکہ حد نصاب تک پہنچنا زکات واجب کی شرط ہے۔
5۔ باقی جنتے سوالات عقل ناقص نے اٹھائے ہیں وہ زکات واجب کے مد نظر اٹھائے ہیں۔
6۔ نہیں حالت نماز میں ہر انفاق کرنے والا خلیفہ پیغمبر نہیں ہوتا، بلکہ یہ علی کا ایک وصف قرآن نے بیان کیا ہے؛ یعنی کچھ جانشین پیغمبر ایسے ہیں جو حالت رکوع میں زکات دیتے ہیں۔ اور علی کا بلافصل خلیفہ ہونا دوسری ادلہ سے ثابت ہے۔
 
Top