• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سورۃ مائدہ ایت 55 سے امامت علی کا غلط استدلال اور اسکا رد

ڈاکٹر محمد

مبتدی
شمولیت
ستمبر 19، 2015
پیغامات
37
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
2
کیوں جی کیا شیعہ مذہب میں الصلوٰۃ سے مراد نماز کے علاوہ بھی کچھ ہے؟اگر ایسا ہی تم آپ کو ہی متجہد کی نئی ڈگری الاٹ کردی جائے گی
نمازیں صرف فریضہ نمازوں میں ہی منحصر نہیں ہیں، نفلی نمازیں بھی نماز ہیں، جس کو تم لوگ نماز تراویح کہتے ہو کیا وہ نماز نہیں ہے؟ پھر نماز کو صرف فریضہ نمازوں میں کیسے منحصر کر سکتے ہو؟
زکات فطرہ، زکات ہے کہ نہیں؟ پھر لفظ زکات کو صرف مخصوص زکات (یعنی وہ زکات جس میں ایک سال کا گذرنا، سونا چاندی وغیرہ کا ہونا اور حد نصاب تک پہنچنا شرط ہے) میں کیسے محدود کرتے ہو؟ اس انحصار اور تحدید کا نہ تو کوئی سنی قائل ہوا ہے اور نہ ہی کوئی شیعہ۔ جب جہالت سے اپنی بات نہیں بنتی تو وہ کٹ حجتی پر اتر آتی ہے۔
اب حسب ذیل آیات پر غور کرو اور بتاؤ کہ یہ آیات زکات سے متعلق ہیں کہ نہیں؟
خذ من اموالهم صدقة تطهرهم وتزكيهم بها
ان تبدوا الصدقات فنعما هي وان تخفوها وتؤتوها الفقراء فهو خير لكم
اگر یہ آیات کریمہ وجوب زکات پر دلالت کر رہی ہیں تو بتاؤ کہ ان آیتوں میں تو صرف صدقہ کا لفظ آیا ہے، پھر زکات کا معنی کہاں سے نکل رہا ہے؟
 

ڈاکٹر محمد

مبتدی
شمولیت
ستمبر 19، 2015
پیغامات
37
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
2
یہ پھر آپ نے بچکانہ حرکت کی۔ جب یہ میں ثابت کرچکا تھا،وہ بھی آپ ہی کتب سے کہ قرآن جب کسی مذہبی اصطلاح کی بات کرتا ہے تو لازما ہمیں اس سے اسی کی مراد لینا پڑتی ہے۔ یہاں پر اگر اس کے معنوں میں تبدیلی بذات خود کرینگے تو یہ قرآن کی معنوی تحریف سمجھا جائے گا، جو کہ کفر کے برابر ہے۔ زکوٰۃ بے شک مال کی صفائی ہے، لیکن اس کو ہم صدقہ کے برابر لینا چاہیں، ایسا ہر گز نہیں۔ یہ وہ مال ہے جسکا ادا کرنا ہم پر اللہ نے فرض قرار دیا ہے، جبکہ صدقات دینا ایسی کوئی پابندی اللہ نے ہم پر نہیں رکھی۔
کٹ حجتی پہ کٹ حجتی! کیا جہالت ہے؟ کتنی بار بتانا پڑے گا کہ جو تم حوالہ دے رہے ہو وہ صرف اتنا کہہ رہا ہے کہ زکات اپنے اصطلاحی معنی میں استعمال ہوا ہے، وہ یہ نہیں کہہ رہا ہے کہ زکات صرف واجب زکات میں محدود ہے۔
اور دوسری بات یہ ہے کہ تم کو تو زکات کے معنی میں تحدید کا بالکل بھی حق نہیں ہے؛ کیونکہ تمھارے خلفاء نے پیغمبرؐ کے بعد دوسری اشیاء پر بھی زکات وضع کی تھی، بعض میں واجب تھی اور بعض میں مستحب، جب دوسری اشیاء پر زکات وضع کی تو ظاہر ہے کہ وہ سونا چاندی بھی نہیں تھے، ان بعض میں سال پورا ہونے کی شرط بھی نہیں تھی اور نہ حد نصاب تک پہنچنے کی شرط تھی۔
جو حوالہ دیا ہے وہ یہ بھی بتا رہا ہے کہ قرآن جب کسی اصطلاح کی بات کرتا ہے تب وہ اصطلاحی معنی مقصود ہوتا ہے، اور جب شرعی اصطلاح کی بات نہیں ہوتی ہے تو لفظ اپنے اصلی معنی میں استعمال ہوتا ہے۔
إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آَمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا سورۂ احزاب آیت۵۶
ترجمہ: بیشک اللہ اور اس کے ملائکہ رسول پر صلٰوات بھیجتے ہیں تو اے صاحبانِ ایمان تم بھی ان پر صلٰوات بھیجتے رہو اور سلام کرتے رہو
یہاں پر بھی کہو کہ آیت میں لفظ یصلون اور صلوا نماز کے معنی میں ہے اور وہ بھی واجب نماز کے معنی میں؛ کیونکہ تمھاری نظر میں صرف واجب نمازیں ہی نماز ہیں، اور نافلہ نمازیں نماز نہیں ہیں۔
 

ڈاکٹر محمد

مبتدی
شمولیت
ستمبر 19، 2015
پیغامات
37
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
2
لیکن ایسا کرنا حضرت علی رض کی نماز میں خشوع و خضوع کی کمی کو تو ظاہر کرتا ہے، جسکو بقول آپکی ہی ویب سائٹ کے مطابق "کراہیت" کا درجہ حاصل ہے۔
تم دشمن آل محمد ہو جو زکات جیسی عبادت کو خضو و خشوع کے منافی سمجھتے ہو؛ عبادت کبھی عبادت سے ٹکراؤ نہیں رکھتی، ہاں دشمنان علیؑ ،حضرتؑ کی فضیلت کم کرنے کے لئے اپنے اوہام و خیال میں کبھی فعل کثیر کا باعث کہتے ہیں تو کبھی خضوع و خشوع سے مانع بتاتے ہیں۔ یہ تمھاری اور تیرے جیسے دشمنان آل محمد کی خیالی بافت ہے۔
اگر آپ کو ان لوگوں سے بے انتہا محبت ہے تو مجھے کوئی ایسی واضح و صریح آیت بتاسکتے ہیں، جس میں اللہ تعالیٰ نے باقاعدہ نام لیکر آپ کے آئمہ معصومین کا تذکرہ کیا ہو؟؟؟ امید ہے اس سوال کا جواب دے کر آپ اپنے آئمہ سے محبت کا ثبوت دیں گے۔
۱۔ آیت۳۳، سورۂ احزاب۔ إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا ترجمہ: بس اللہ کا ارادہ یہ ہے اے اہلبیت علیھم السّلام کہ تم سے ہر برائی کو دور رکھے اور اس طرح پاک و پاکیزہ رکھے جو پاک و پاکیزہ رکھنے کا حق ہے
۲۔ آیت۲۳، سورۂ شوری۔ قُلْ لَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا إِلَّا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبَى ترجمہ: آپ کہہ دیجئے کہ میں تم سے اس تبلیغ رسالت کا کوئی اجر نہیں چاہتا علاوہ اس کے کہ میرے اقربا سے محبت کرو
ان آیتوں میں اللہ نے ایسے اوصاف کا ذکر کیا ہے جس میں تاویل کر کے معنی کو آل رسولؐ سے اپنے بزرگوں کی طرف نہیں پھیر سکتے۔
اگر رب العزت ان کے نام ذکر کر دیتا تو نہ جانے تم جیسے مبغض و عدو اہلبیتؑ ناموں میں کتنی معنوی تحریف کر لیتے۔ جیسا کہ حدیث نبوی: انا مدینۃ العلم و علیٌ بابہا کے ساتھ ہوا، اس حدیث میں پیغمبرؐ نام بنام علیؑ کی فضیلت بیان کی مگر دشمن علیؑ نے اس میں بھی بہانہ تلاش لیا اور کہا کہ علی کا معنی بلند کے ہے اور مطلب یہ ہوگا کہ میں علم کا شہر ہوں اور اس کا دروازہ بلند ہے؛ نہ یہ کہ علیؑ اس کا دروازہ ہیں۔
جس کی عقل اندھی ہوجاتی ہے، حسد اور کینہ دل کو سیاہ کر دیتا ہے وہ ہر لفظ میں بہانہ تلاش لیتا ہے، تم سے بحث کرنا بیکار ہے، حقیقت کے اثبات کے بعد بھی تم لوگ بہانہ تلاش کرنے والے عقل کے اندھے، دشمن رسول، دشمن اہلبیتؑ اور دشمن خدا ہو۔
 

ڈاکٹر محمد

مبتدی
شمولیت
ستمبر 19، 2015
پیغامات
37
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
2
حسب ذیل آیت کو بھی ان آیتوں میں شامل کر لو جو اہلبیتؑ کی فضیلت بیان کر رہی ہیں اور تم اس حقیقت سے انکار نہیں کر سکتے
سورۂ آل عمران آیت ۶۱، فَمَنْ حَاجَّكَ فِيهِ مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَكُمْ وَنِسَاءَنَا وَنِسَاءَكُمْ وَأَنْفُسَنَا وَأَنْفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَلْ لَعْنَةَ اللَّهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ ترجمہ: پیغمبر علم کے آجانے کے بعد جو لوگ تم سے کٹ حجتی کریں ان سے کہہ دیجئے کہ آؤ ہم لوگ اپنے اپنے فرزند, اپنی اپنی عورتوں اور اپنے اپنے نفسوں کو بلائیں اور پھر خدا کی بارگاہ میں دعا کریں اور جھوٹوں پر خدا کی لعنت قرار دیں
واقعہ مباہلہ میں نہ ازواج شامل تھیں اور نہ صحابیت کا کوئی ذکر ملتا ہے، جن کو ہم مانتے ہیں صرف وہی تھے۔
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
جب تفاسیر مذکورہ آیات کی شان نزول میں مختلف ہیں، تو کیا یہ ضروری ہے کہ آپ علیؑ سے بغض عناد رکھنے کی وجہ سے مخالف ہی والی تفسیر کو اختیار کریں؟ حضرت علیؑ کی فضیلت والی تفسیر کو کیوں نہیں مانتے ہو؟
دوسری بات یہ کہ صحیح ہے کہ حضرت علیؑ جب حالت نماز میں ہوتے تھے تو انھیں دنیا کی کوئی خبر ہی نہ ہوتی تھی، یہاں تک کہ ان کے پاؤں سے نماز کی حالت میں تیر کھینچا گیا اور انھیں درد کا احساس ہی نہیں ہوا، کیونکہ اس وقت علیؑ کا نفس بارگاہ احدیت میں اپنی تمام تر توجہات کے ساتھ پہنچا ہوا تھا، لیکن یہاں سائل کے سوال کا دنیاوی امور سے مقائسہ نہیں کیا جا سکتا، سائل نے بھی بارگاہ احدیت میں سوال کیا تھا اور اس وقت علیؑ بارگاہ خداوندی میں تھے، جب سائل نے مانگا تو علیؑ نے دیدیا، کوئی منافات نہیں ہے اس میں اور خدا سے لو لگانے میں؛ کیونکہ سوال بھی خدا ہی کی بارگاہ میں تھا۔ یہ بھی سچ ہے کہ سائل بھی کوئی معمولی انسان نہ تھا، وہ بھی خدا کا فرستادہ تھا جو مخلصین کے اس امتحان سے ان کی فضیلت دنیا والوں پر آشکار کرنا چاہتا تھا۔
محترم -

جو صحیح روایات حضرت علی رضی الله عنہ اور اہل بیت کی شان میں احادیث یا تفاسیر کی کتب میں درج ہیں ان پر ہر مسلمان کے لئے ایمان لانا واجب ہے - لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ قرآن کی بیشتر آیات اور روایات کو صرف اہل بیت و علی رضی الله عنہ کی شان سے مختص کردیا جائے- یہ منہج تو سبایوں (عبدللہ بن سبا کے پیروکاروں) کا ہے کہ ہر خوصوصیت والی روایت یا پھر قرانی آیات کے شان نزول کو اہل بیت سے مسنوب کردیا جائے اور وہ آیات جو بعینہ منافقین کے لئے نازل ہوئیں ان کو نعوز باللہ دیگر اصحاب کرام رضوان الله آجمین اور ام المومنین حضرت عائشہ رضی الله عنھما سے منسوب کردیا جائے - گویا سبایوں کے نزیک صرف اہل بیت نے ہی نبی کریم صل الله علیہ و آ له وسلم کی دعوت پر لبیک کہا اور دیگر اصحاب کرام ان کے نزدیک مرتد ہو گئے؟؟ - یہ تو نبی کریم کی ذات پر ایک بڑا بہتان ہے-
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
کہیں سے بھی فعل کثیر لازم نہیں آتا، شانے پر رکھی چادر کی طرف ہاتھ کا اشارہ یا انگوٹھی کی طرف اشارہ جس سے سائل کو سوال کا جواب مل جائے اور وہ خود لے لے، یہ سائل کا فعل حضرت علیؑ کی نماز کے لئے مبطل قرار نہیں پاتا، یہ تمھاری نگاہوں پر علیؑ سے بغص و عداوت کا پردہ پڑگیا ہے جو تم ایسی باتیں کر رہے ہو، کیونکہ تیرے بزرگوں کوئی ایسا شرف نہیں ملا جس کا ذکر قرآن نے کیا ہو۔
قلیل و کثیر کی بات تو بعد کی ہے ،
قابل توجہ تو یہ بات ہے کہ نماز اللہ سے مناجات کا نام ہے،یعنی پوری طرح اپنے رب کی طرف متوجہ ہوکر اس کی حمد و ثناء اور دعاء و استغفار ۔
کما قال سید الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم :«إن أحدكم إذا قام في صلاته فإنه يناجي ربه‘‘
اب دیکھئے اللہ کا ایک مخلص عبادت گذار بندہ اپنے مولا سے راز ونیاز کر رہا ہے ،تو کیا کوئی تصور کر سکتا ہے کہ اس دوران اپنے رب سے توجہ ہٹا کر بندوں کی طرف ملتفت
ہو جائے ؟؟؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور پھر یہ بھی قابل توجہ ہے کہ:
قرآن کسی فرد واحد کی بات نہیں کر رہا بلکہ جمع کے صیغہ میں اہل ایمان کے اوصاف بتا رہا ہے :
(( وَالَّذِينَ آمَنُواْ الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلاَةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَهُمْ رَاكِعُونَ )) تمہارے دوست نہیں مگر اللہ اور اس کا رسول اور ایمان والے کہ نماز قائم کرتے ہیں اور زکوٰة دیتے ہیں اور اللہ کے حضور جھکے ہوئے ہیں (ترجمہ احمد رضا خان بریلوی)
اب قرآن کی جمع کو واحد بنانا تحریف نہیں تو کیا ہے ؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور تیسرا نکتہ جس سے صرف نظر ممکن نہیں ،وہ یہ کہ :
مجئ الآية بالفعل المضارع يدل على أن الآية الكريمة لا تشير إلى حادثة حدثت وانتهت، وإنما تدل على الاستمرار والدوام، أي أن صفات المؤمنين وطبيعتهم الصلاة والزكاة وهم خاضعون متذللون، ولا يستقيم المعنى أن يكون من صفاتهم دوام إخراج الزكاة وهم راكعون في الصلاة!!
آیت زیر بحث میں مومنین کی صفات تمام مضارع کے صیغہ میں وارد ہیں،یہ کسی ایک واقعہ کی حکایت کیلئے نہیں ،جو وقوع پذیر ہوا ،اور ختم ہو گیا ،
بلکہ آیت کریمہ میں وارد مضارع کے صیغے استمرار اور دوام پر دلالت کر رہے ہیں ،جس کا مطلب واضح ہے کہ : مومنین کی صفات اور ان کی طبیعت ومزاج میں نماز و زکاۃ ،اور خضوع و خشوع پایا جاتا ہے ،یعنی جب بھی کہیں اہل ایمان پائے جائیں گے یہ صفات بتفاوت ان میں پائی جائیں گی ۔
اور اس پہلو کو سامنے رکھتے ہوئے کوئی عقل مند اسے کسی ایک وقت اور کسی ایک شخص کیلئے خاص نہیں کرسکتا ۔۔

اور اسی نکتہ کا دوسرا پہلو بھی ہے کہ :مومنین میں یہ صفات پائی جاتی رہیں گی ۔۔۔تو اگر رکوع میں زکاۃ کو اس آیت ثابت کرنا ہی ہے تو ساتھ ہی یہ ثابت
ہوجائے گا کہ مومنین جب بھی نماز ادا کریں تو حالت رکوع میں زکاۃ بھی دیا کریں کیونکہ یہ ممدوح فعل ہے
اور یہ بات کسی کو بقائمی ہوش قبول نہیں ہو سکتی ،فتدبر
 

HUMAIR YOUSUF

رکن
شمولیت
مارچ 22، 2014
پیغامات
191
ری ایکشن اسکور
56
پوائنٹ
57
نمازیں صرف فریضہ نمازوں میں ہی منحصر نہیں ہیں، نفلی نمازیں بھی نماز ہیں، جس کو تم لوگ نماز تراویح کہتے ہو کیا وہ نماز نہیں ہے؟ پھر نماز کو صرف فریضہ نمازوں میں کیسے منحصر کر سکتے ہو؟
لاحول ولا قوۃ الا باللہ۔ اب یہ جو تم نے جہالت کی بے انتہا بات کی ہے، مجھے تو لگتا ہے ہے کہ تم شائد ڈنگروں کے ڈاکٹر ہو (ماڈریٹر حضرات سے معذرت کے ساتھ)۔ ماروں گھٹنا پھوٹے آنکھ اسی کو کہتے ہیں۔ اب مجھے بتاؤ کہ کیا نماز تراویح کی ادائیگی کا حکم بالکل اسی طرح قرآن میں موجود ہے جسطرح زکوٰۃ کی ادائیگی کا؟ آیت مذکورہ کو دوبارہ پڑھو اور مجھے صاف صاف بتاؤ کہ اس میں کیا مومن بندوں کو زکوٰۃ ادا کرنے کا حکم دیا جارہا ہے یا پھر صدقات ادا کرنے کا کہا جارہا ہے؟؟؟ جسطرح اس آیت میں لفظ صلوٰۃ سے تم نماز ہی مراد لیتے ہو، بالکل اسی طرح زکوٰۃ سے مراد اسی "فرض زکوٰۃ" کو کیوں نہیں لیتے؟ جب قرآن میں دسیوں جگہ الصلوۃ کا لفظ نماز (وہ بھی پنچ وقتہ فرض نماز، نہ کہ کسی بھی نفلی نماز) کے معنوں میں لیا گیا ہے، تو تم وہی پھر ایک مرغے کی ایک ٹانگ لیکر کیوں بیٹھے ہوئے ہو؟؟
اِنَّمَا وَلِیُّکُمُ اللّٰہُ وَ رَسُوۡلُہٗ وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا الَّذِیۡنَ یُقِیۡمُوۡنَ الصَّلٰوۃَ وَ یُؤۡتُوۡنَ الزَّکٰوۃَ وَ ہُمۡ رٰکِعُوۡنَ

اور پھر اگر مانا کہ آیت
خذ من اموالهم صدقة تطهرهم وتزكيهم بها (سورہ توبہ آیت 103)
ترجمہ" ان کے مال میں سے زکوٰة قبول کر لو کہ اس سے تم ان کو (ظاہر میں بھی) پاک اور (باطن میں بھی) پاکیزہ کرتے ہو" میں لفظ صدقات کا بدل زکوۃ ہے تو کیا ایسی کوئی دوسری آیت بتا سکتے ہو جسمیں لفظ زکوٰۃ آیا ہو اور اسکا بدل صدقہ کسی ترجمہ میں بتایا گیا ہو؟ کسی اہلسنت کے ماخذ سے باحوالہ بتاؤ؟
جسکی آنکھوں پر صحابہ دشمنی کا سیاہ چشمہ لگا ہوا ہوتا ہے اسکو ساری کی ساری دنیا ہی سیاہ دکھائی دیتی ہے۔ اللہ کی مار ہو روافض پر، جس نے اللہ کی صاف و شفاف آیات مبارکہ میں بھی اپنے خواہش نفس کی پیروی کرتے ہوئے اپنی مرضی کے ٹانکے فٹ کرکے ان میں نہ صرف معنوی تحریف کری بلکہ وہ وہ مطالب نکالے جو صرف اپنے من چاہے ہیں، چاہے اس میں کتنا ہی جھوٹ و منگھڑت بات ہی کیوں نہ بولنا پڑے۔ جس روایت کی تم بات کرتے ہو، وہ اہلسنت علماء کے نزدیک متفقہ طور پر ایک منگھڑت و جھوٹی روایت ہے، اور اس آیت کی تفسیر اسی طرح ہے ہی نہیں جسطرح تم بیان کررہے ہو۔اسی بات کو تمہارا مولوی بھی بیان کررہا ہے، جسکا میں ثبوت بھی میں اوپر دے چکا ہوں، لیکن پھر بھی اپنے کالے دل اور کالے دماغ پر جمنے والی سیاہی کے سبب تم اسکا انکار کررہے ہو۔
 

HUMAIR YOUSUF

رکن
شمولیت
مارچ 22، 2014
پیغامات
191
ری ایکشن اسکور
56
پوائنٹ
57
تم دشمن آل محمد ہو جو زکات جیسی عبادت کو خضو و خشوع کے منافی سمجھتے ہو؛ عبادت کبھی عبادت سے ٹکراؤ نہیں رکھتی، ہاں دشمنان علیؑ ،حضرتؑ کی فضیلت کم کرنے کے لئے اپنے اوہام و خیال میں کبھی فعل کثیر کا باعث کہتے ہیں تو کبھی خضوع و خشوع سے مانع بتاتے ہیں۔ یہ تمھاری اور تیرے جیسے دشمنان آل محمد کی خیالی بافت ہے۔
اسکو کہتے ہیں اپنے ہی منہ کی کھانا۔ جب کچھ جواب نہ بن سکے تو تو اسی طرح آئیں بائیں شائیں بک کر اپنے نامہ اعمال میں کچھ اور سیاہی کا اضافہ کرنا۔ یہ تو تمہاری ہی ویب سائٹ بتاتی ہے کہ نماز میں خشوع و خضوع کی کمی نماز میں کراہیت کا سبب ہے، حرام ہے جو ایک لفظ کی یہاں میں کچھ کمی بیشی کی ہو۔ یعنی جو تیرے چمچے اس ویب سائٹ کو چلارہے ہیں انہوں نے کیا ایسی خیالی بافت لکھی ہوئی ہے۔ اور یقینا تو اس بات کا قائل ہے کہ تیرے مولا علی اپنی نماز کو کراہیت سے بھرپور ادا کرتے تھے (استغفر اللہ) واہ رے واہ، دیکھ لی محب اہل بیت کی محبت

۱۔ آیت۳۳، سورۂ احزاب۔ إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًاترجمہ: بس اللہ کا ارادہ یہ ہے اے اہلبیت علیھم السّلام کہ تم سے ہر برائی کو دور رکھے اور اس طرح پاک و پاکیزہ رکھے جو پاک و پاکیزہ رکھنے کا حق ہے
او ڈنگر ڈاکٹر، ذرا دکھا مجھے یہاں اپنے کچھ مزعومہ آئمہ کے نام؟؟؟ جو بقول تیرے اس آیت میں چھپے ہوئے ہیں۔ بغیر کسی روایت کا سہارا لئے بغیر۔ اگر تو موجودہ قرآن سے نہیں دکھا سکتا تو اپنے غار والے چھپے رستم والا قرآن ہی لے آ، جسکو وہ 1400 سال سے اپنی بغل میں دابے بیٹھا ہوا ہے۔ ہاں اگر قرآن کی بات قرآن سے کی جائے تو اہل بیت کے معنی کچھ اسطرح ہی سامنے آتے ہیں
2.jpg

لو جی، یہاں تو قرآن نے تیرا پتہ ہی کاٹ کررکھ دیا۔ یہاں قرآنی مفہوم میں اہل بیت سے مراد صرف اور صرف نبی علیہ السلام کی بیوی ہی مراد ہیں، اور کوئی نہیں۔ اگر ہے تجھ میں دم تو لے آ کوئی اور ایسی آیت میں لفظ اہل بیت بول کر وہاں مراد بیٹی، نواسہ یا داماد مراد لیا گیا ہو؟ اور اگر تو حدیث کساء والی روایت لے کر زبردستی ان کو اہل بیت ثابت بھی کرسکتا ہے تو اس سے بھی تیری دال گلنے والی نہیں، کیونکہ پھر تیرے باقی کے 9 مزعومہ آئمہ اہل بیت سے نکل جاتے ہیں، کیونکہ انکے نام ہی روایت میں شامل نہیں ہیں۔

۱۔ ۔ آیت۲۳، سورۂ شوری۔ قُلْ لَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا إِلَّا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبَى ترجمہ: آپ کہہ دیجئے کہ میں تم سے اس تبلیغ رسالت کا کوئی اجر نہیں چاہتا علاوہ اس کے کہ میرے اقربا سے محبت کرو
ان آیتوں میں اللہ نے ایسے اوصاف کا ذکر کیا ہے جس میں تاویل کر کے معنی کو آل رسولؐ سے اپنے بزرگوں کی طرف نہیں پھیر سکتے۔
اوہو، تجھ کچھ پتہ ہے کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے اقربا کون کون تھے؟؟ انکے اقربا میں صرف ایک بیٹی، صرف ایک داماد اور صرف دو نواسے شامل نہیں تھے۔ بلکہ ان میں انکی چاروں بیٹیوں، تینوں دامادوں، سارے نواسوں، سارے نواسیوں، سارے چچاؤں، ساری پھوپھیوں اور ساری ازواج انکے اقرباء میں شامل تھے۔
2.jpg


erre.jpeg

یہ ہیں سیدنا مولانا محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے مکمل اہل بیت و اقراباء، ان سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم محبت کرنے کا فرمارہے ہیں۔ تو کرو اب ان سے محبت اور اسکا اقرار بھی کرو

باقی تیری باتیں گوز شتر کے برابر ہیں، تجھ جیسےجاہل سے بحث کرکے میں اپنا قیمتی وقت گنوانا نہیں چاہتا،
وَعِبَادُ الرَّحْمَٰنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْنًا وَإِذَا خَاطَبَهُمُ الْجَاهِلُونَ قَالُوا سَلَامًا
تو میری طرف سے تجھ کو سلام، تم جیسے عقل کے اندھے،جہل مرکب اور تعصب شدہ شخص سے بات کرنے کا مجھے کوئی شوق نہیں ہے
 

ڈاکٹر محمد

مبتدی
شمولیت
ستمبر 19، 2015
پیغامات
37
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
2
لو جی، یہاں تو قرآن نے تیرا پتہ ہی کاٹ کررکھ دیا۔ یہاں قرآنی مفہوم میں اہل بیت سے مراد صرف اور صرف نبی علیہ السلام کی بیوی ہی مراد ہیں، اور کوئی نہیں۔ اگر ہے تجھ میں دم تو لے آ کوئی اور ایسی آیت میں لفظ اہل بیت بول کر وہاں مراد بیٹی، نواسہ یا داماد مراد لیا گیا ہو؟ اور اگر تو حدیث کساء والی روایت لے کر زبردستی ان کو اہل بیت ثابت بھی کرسکتا ہے تو اس سے بھی تیری دال گلنے والی نہیں، کیونکہ پھر تیرے باقی کے 9 مزعومہ آئمہ اہل بیت سے نکل جاتے ہیں، کیونکہ انکے نام ہی روایت میں شامل نہیں ہیں۔
آیت۳۳، سورۂ احزاب۔ إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا
( گالیاں حذف: انتظامیہ )تجھ سے صرف ایک ہی سوال پوچھتا ہوں، اگر جواب نہ دے سکا تو ۔۔۔۔۔۔۔۔ آشکار ہو جائے گا۔ جیسا کہ تونے کے کہ یہ آیت نبی علیہ السلام کی بیویوں کے بارے میں ہے تو بس اتنا بتا کہ بیویاں مونث ہیں یا مذکر؟ آیت میں يُذْهِبَ عَنْكُمُ یعنی مذکر کی ضمیر ہے، تیرے حساب سے يُذْهِبَ عَنْكُن ہونا چاہیے تھا، اس کا کیا جواب ہے؟ جھوٹے پر خدا کی لعنت
یہاں جتنے بھی جوبات تجھ نے دئیے ہیں ان سب میں بات کو گھمانے پھرانے کی کوشش کی ہے، اور بہت سی باتوں کا تجھ سے الٹا سیدھا بھی جواب نہیں بنا تو ان کا جواب دینے سے گریز کیا ہے۔
 
Last edited by a moderator:

ڈاکٹر محمد

مبتدی
شمولیت
ستمبر 19، 2015
پیغامات
37
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
2
لاحول ولا قوۃ الا باللہ۔ اب یہ جو تم نے جہالت کی بے انتہا بات کی ہے، مجھے تو لگتا ہے ہے کہ تم شائد ڈنگروں کے ڈاکٹر ہو (ماڈریٹر حضرات سے معذرت کے ساتھ)۔ ماروں گھٹنا پھوٹے آنکھ اسی کو کہتے ہیں۔ اب مجھے بتاؤ کہ کیا نماز تراویح کی ادائیگی کا حکم بالکل اسی طرح قرآن میں موجود ہے جسطرح زکوٰۃ کی ادائیگی کا؟ آیت مذکورہ کو دوبارہ پڑھو اور مجھے صاف صاف بتاؤ کہ اس میں کیا مومن بندوں کو زکوٰۃ ادا کرنے کا حکم دیا جارہا ہے یا پھر صدقات ادا کرنے کا کہا جارہا ہے؟؟؟ جسطرح اس آیت میں لفظ صلوٰۃ سے تم نماز ہی مراد لیتے ہو، بالکل اسی طرح زکوٰۃ سے مراد اسی "فرض زکوٰۃ" کو کیوں نہیں لیتے؟ جب قرآن میں دسیوں جگہ الصلوۃ کا لفظ نماز (وہ بھی پنچ وقتہ فرض نماز، نہ کہ کسی بھی نفلی نماز) کے معنوں میں لیا گیا ہے، تو تم وہی پھر ایک مرغے کی ایک ٹانگ لیکر کیوں بیٹھے ہوئے ہو؟؟
گالیاں حذف: انتظامیہ نے ایک جھوٹا دعویٰ کیا۔ دعویٰ بلا دلیل ہے، جاہل اپنی بات کو عین دلیل سمجھتا ہے۔ اگر صلاۃ کو واجب نماز میں اور اسی طرح زکات کو واجب زکات میں منحصر ہونے پر تیرے پاس کوئی دلیل ہے تو وہ بتا، حوالہ دے کہ کس سنی نے دونوں الفاظ کو واجب میں منحصر مانا ہے۔ قرآن سے کوئی دلیل دے! کوئی ایسی آیت بتا جو لفظ زکات کو اس زکات میں منحضر مانتی ہو جس کے شرائط کو لیکر تم اناڑیوں کے اعتراضات اٹھائے تھے۔ یہ کہہ کر:
خذ من اموالهم صدقة تطهرهم وتزكيهم بها (سورہ توبہ آیت 103)
ترجمہ" ان کے مال میں سے زکوٰة قبول کر لو کہ اس سے تم ان کو (ظاہر میں بھی) پاک اور (باطن میں بھی) پاکیزہ کرتے ہو" میں لفظ صدقات کا بدل زکوۃ ہے تو کیا ایسی کوئی دوسری آیت بتا سکتے ہو جسمیں لفظ زکوٰۃ آیا ہو اور اسکا بدل صدقہ کسی ترجمہ میں بتایا گیا ہو؟
خود بھی تسلیم کرتے ہو کہ صدقہ ہی زکات ہے۔ جھوٹے پر اللہ اور رسول کی لعنت
 
Last edited by a moderator:
Top