• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سورۃ مائدہ ایت 55 سے امامت علی کا غلط استدلال اور اسکا رد

ڈاکٹر محمد

مبتدی
شمولیت
ستمبر 19، 2015
پیغامات
37
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
2
اب مجھے بتاؤ کہ کیا نماز تراویح کی ادائیگی کا حکم بالکل اسی طرح قرآن میں موجود ہے جسطرح زکوٰۃ کی ادائیگی کا؟
ہاں بالکل نماز تراویح کا حکم نہ تو قرآن میں ہے اور نہ ہی رسول خدا نے اس کا حکم دیا، یہ تو ایک بدعت ہے۔ میرے پاس مسحتبی نمازوں کی بہت ساری مثالیں تھیں، لیکن تراویح کے بدعت ہونے پر تیرا اقرار و اعتراف لینا منظور تھا۔
 

ڈاکٹر محمد

مبتدی
شمولیت
ستمبر 19، 2015
پیغامات
37
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
2
محترم -

جو صحیح روایات حضرت علی رضی الله عنہ اور اہل بیت کی شان میں احادیث یا تفاسیر کی کتب میں درج ہیں ان پر ہر مسلمان کے لئے ایمان لانا واجب ہے - لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ قرآن کی بیشتر آیات اور روایات کو صرف اہل بیت و علی رضی الله عنہ کی شان سے مختص کردیا جائے- یہ منہج تو سبایوں (عبدللہ بن سبا کے پیروکاروں) کا ہے کہ ہر خوصوصیت والی روایت یا پھر قرانی آیات کے شان نزول کو اہل بیت سے مسنوب کردیا جائے اور وہ آیات جو بعینہ منافقین کے لئے نازل ہوئیں ان کو نعوز باللہ دیگر اصحاب کرام رضوان الله آجمین اور ام المومنین حضرت عائشہ رضی الله عنھما سے منسوب کردیا جائے - گویا سبایوں کے نزیک صرف اہل بیت نے ہی نبی کریم صل الله علیہ و آ له وسلم کی دعوت پر لبیک کہا اور دیگر اصحاب کرام ان کے نزدیک مرتد ہو گئے؟؟ - یہ تو نبی کریم کی ذات پر ایک بڑا بہتان ہے-
قیاس مع الفارق ہے، اپنے مذکورہ بیان میں خود آپ کہتے ہیں کہ عبد اللہ بن سبا کے پیروکار ہر خصوصیت والی آیات و روایات کو اہلبیت سے منسوب کرتے ہیں، اور ہر مذمت والی آیات و روایات کو بعض صحابہ اور فلاں فلاں کی طرف منسوب کرتے ہیں؛ یعنی منسوب کرنے کی دلیل نہیں ہوتی، علی الاطلاق منسوب کرتے ہیں۔
مگر اس آیت کا شان نزول ان حقائق میں سے جس کا اعتراف بعض حقیقت پسند سنی مفسرین کو بھی ہے، ایسے مفسرین کا نام خود آپ لوگوں نے ذکر کیا ہے اور یہ کہہ کر رد کیا ہے کہ ہم انھیں نہیں مانتے۔ جہاں گاڑی پھنس جاتی ہے تو ہم نہیں مانتے سے کام چلاتے ہیں۔
 
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
760
پوائنٹ
290
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
یہ انکا اسلوب هے ۔ اگر آپکی کاوشیں اور دلائل سے مفر ممکن نہ هو سکا تو مزید پیچیدگیاں اور اوهام لائے جائنگے ۔ آپ پر الزامات کی بارشیں هونگی تاوقتیکہ آپ زچ هو جائیں ۔ ان سے محض گفتگو کیلئے بهی اختصاصی علم ضروری هے ۔
آپ ان سے کسی بهی علمی بحث میں پیمانہ مقرر کروالیں ۔ الکتاب والسنہ ۔ اسکے بعد هی شروعات کریں ۔ اللہ آپکو کامیاب کرے ۔
آپکی محنت ضائع هونیکا ملال نہ کریں کہ وما توفیقی الا باللہ ۔
والسلام
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
قیاس مع الفارق ہے، اپنے مذکورہ بیان میں خود آپ کہتے ہیں کہ عبد اللہ بن سبا کے پیروکار ہر خصوصیت والی آیات و روایات کو اہلبیت سے منسوب کرتے ہیں، اور ہر مذمت والی آیات و روایات کو بعض صحابہ اور فلاں فلاں کی طرف منسوب کرتے ہیں؛ یعنی منسوب کرنے کی دلیل نہیں ہوتی، علی الاطلاق منسوب کرتے ہیں۔
مگر اس آیت کا شان نزول ان حقائق میں سے جس کا اعتراف بعض حقیقت پسند سنی مفسرین کو بھی ہے، ایسے مفسرین کا نام خود آپ لوگوں نے ذکر کیا ہے اور یہ کہہ کر رد کیا ہے کہ ہم انھیں نہیں مانتے۔ جہاں گاڑی پھنس جاتی ہے تو ہم نہیں مانتے سے کام چلاتے ہیں۔
کاش - اہل بیت و حضرت علی رضی الله عنہ کی جھوٹی محبّت کی دہائی دینے والے- ان کے اس قول پر عمل کرلیں تو شاید بات بن جائے -

"یہ مت دیکھو کہ کون کہہ رہا ہے- یہ دیکھو کہ کیا کہہ رہا ہے"
 

HUMAIR YOUSUF

رکن
شمولیت
مارچ 22، 2014
پیغامات
191
ری ایکشن اسکور
56
پوائنٹ
57
ویسے تو میں اس بحث میں اب پڑنا نہیں چاہتا، کیونکہ جب ان روافض کو آئینہ دکھایا جاتا ہے تو یہ مغلظات بکنے لگتے ہیں، جیسا کہ میرے ساتھ ایک جاہل المطلق کا واسطہ پڑگیا تھا۔ میں اب صرف اس دھاگے میں موجود کچھ شیعہ مغالطوں کا بتانا چاہتا ہوں، جسکو یہ رافضی ادھر دینے کی کوشش کررہے ہیں۔ اس بات کو سمجھیے اور اچھی طرح جانیے کہ "زکوۃ، صدقہ و خیرات" میں کیا فرق ہے؟ یہ بات صرف ان حضرات کے لئے ہے جو ان اصطلاحات کا فرق نہیں جانتے، یہ انکی تعلیم کے لئ ہے۔ اہل علم حضرات ان اصطلاحات سے بخوبی واقف ہونگے۔
رافضی کہتا ہے
زکات فطرہ، زکات ہے کہ نہیں؟ پھر لفظ زکات کو صرف مخصوص زکات (یعنی وہ زکات جس میں ایک سال کا گذرنا، سونا چاندی وغیرہ کا ہونا اور حد نصاب تک پہنچنا شرط ہے) میں کیسے محدود کرتے ہو؟ اس انحصار اور تحدید کا نہ تو کوئی سنی قائل ہوا ہے اور نہ ہی کوئی شیعہ۔ جب جہالت سے اپنی بات نہیں بنتی تو وہ کٹ حجتی پر اتر آتی ہے۔
ملاحظہ ہو اہلسنت کی طرف سے زکوٰۃ، صدقہ خیرات میں فرق:
صدقہ وخیرات اور زکوۃ کا فرق اورمصرف

سوال :۔ صدقہ اور خیرات میں کیا فرق ہے؟ اس کے حقیقی مستحق کون لوگ ہیں، صدقے اور خیرات کی ادائیگی کی بہترین صورت کیا ہے؟(عمر سلطان ٹوانہ، خوشاب)

جواب:۔ صدقہ اور خیرات دونوں ایک ہی چیز ہیں۔جو مال کسی عوض کے بغیر محض اللہ تعالی کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے خرچ کیا جاتا ہے اسے صدقہ اور خیرات کہتے ہیں۔یہی مطلب زکوۃ کا بھی ہے مگر زکوۃ کا ادار کرنا واجب ہے اور صدقہ نفلی ہوتا ہے۔صدقہ وخیرات کے مستحق وہی لوگ ہیں جو زکوۃ کے مستحق ہیں۔اگر کوئی شخص زکوۃ کا مستحق تو نہ ہو لیکن اس کے اہل وعیال زیادہ اورہاتھ تنگ ہواور کوئی اس کے ساتھ مالی تعاون کرے تو اسے اصطلاحی معنی کے لحاظ اگر چہ صدقہ نہ کہا جائے گا لیکن یہ عمل بھی صدقے جیسا ثواب رکھتا ہے۔صدقہ وخیرات کا بہترین مصرف علم دین ہے کیوں کہ علم دین سے ہی دین کے تمام شعبے زندہ رہتے ہیں۔

http://tafheemeislam.com/aap-ke-masail-aur-un-ka-hal.php?fatwa=MjM5OQ==#.Vj3U4dIrIsZ

صدقہ اور خیرات میں کیا فرق ہے ؟
الجواب بعون الوہاب ومنہ الصدق والصواب والیہ المرجع والمآب

صدقہ اور خیرات کا لفظ عموما نفلی صدقات پر بولا جاتا ہے ۔ اورویسے تو شریعت اسلامیہ نے ہر نیکی کو صدقہ قرار دیا ہے (صحیح بخاری:۶۰۲۱) ۔ لیکن صدقہ سے شریعت کی ایک خاص مراد بھی ہے اور وہ ہے" صدقات کے مستحق لوگوں پر خرچ کرنا "۔ صدقات خواہ نفلی ہوں یا فرضی (یعنی زکاۃ , عشر , فطرانہ وغیرہ) انکے مستحق صرف آٹھ قسم کے لوگ ہیں جنکا تذکرہ اللہ تعالى نے سورۃ التوبہ کی آیت نمبر ۶۰ میں فرمایا ہے :
إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللهِ وَابْنِ السَّبِيلِ فَرِيضَةً مِنَ اللهِ وَاللهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ
ترجمہ : یقینا صدقات صرف اور صرف فقراء , مساکین , صدقات کے عاملین, مؤلفات القلوب (ایسے نئی مسلمان جنہیں اسلام میں راسخ کرنا مقصود ہو انکی دل جوئی کے لیے), غلاموں کی آزادی , مصیبت زدہ لوگوں , مجاہدین فی سبیل اللہ , اور مسافروں کے لیے ہیں ۔ یہ اللہ کی طرف سے عائد کر دہ فریضہ ہے اورا للہ تعالى خوب جاننے والا اور کمال حکمت والا ہے ۔
لیکن کچھ لوگ صدقہ اور خیرات میں یہ فرق کرتے ہیں کہ ایسا مال جسے وہ صدقات کے مستحق لوگوں پر خرچ کریں اسے صدقہ سے تعبیر کرتے ہیں اور ایسا مال جسے وہ اللہ کی خوشنودی کے لیے اپنے اعزہ واقرباء اور دوست احباب سمیت دیگر لوگوں پر خرچ کریں اسے وہ لفظ خیرات سے تعبیر کر لیتے ہیں ۔ اور شرعا ان تعبیرات میں کوئی قباحت نہیں ہے ۔
مفتی کا نام: محمد رفیق طاہر

http://www.deenekhalis.net/play-2174.html
 

HUMAIR YOUSUF

رکن
شمولیت
مارچ 22، 2014
پیغامات
191
ری ایکشن اسکور
56
پوائنٹ
57
چند مزید باتیں جو اس دھاگے کو سمجھنے کے لئے ضروری ہیں۔

الذین یقیمون الصلوٰۃ و یوتون الزکوٰۃ وھم راکعون سے اگر مراد حضرت علی رض ہیں کہ انہوں نے حالت نماز میں زکوٰۃ ادا کی۔ حالانکہ یقیمون اور یوتون اور ھم اور راکعون یہ سب جمع کے صیغے ہیں۔ ان کلمات سے کبھی کوئی شخص واحد نہیں سمجھا جاسکتا۔ اسکے علاوہ اگر حضرت علی رض کے بحالت رکوع انگوٹھی خیرات کرنے کا واقعہ صحیح بھی تسلیم کرلیا جائے تو یہ ایک بار کا واقعہ تھا، جسکے ہوجانے کےبعد یہ آیت اتری، تو صیغہ ماضی لانا تھا اور یہاں زمانہ حال سے تا زندگی زمانہ مستقبل مراد ہے، کیونکہ ایسے مواقع میں مضارع کے صیغے مفہوم استمرار کے لئے آتے ہیں۔ یقیمون الصلوٰۃ کے معنی ہیں نماز قائم رکھتے ہیں، یعنی برابر نماز پڑھا کرتے ہیں۔ یوئتون الزکوۃ کے معنی ہیں زکوٰۃ دیا کرتے ہیں۔ کیا حضرت علی رض جب جب نماز پڑھتے تھے تو ہر مرتبہ بحالت رکوع زکوٰۃ دیا کرتے تھے۔ یا وہ ہر وقت حالت نماز میں رہتے تھے، پھر زکوٰۃ ایک صدقہ معین کا نام ہے، جسکی مقدار صاحب مال کی مالی حیثیت کے مطابق حساب سے معلوم ہوتی ہے ، کیا حضرت علی رض رسول اکرم صلی اللہ علی وسلم کی حیات طیبہ میں تھے کہ ان پر زکوٰۃ فرض ہو؟ اور ایک انگوٹھی خیرات کرنے کو کبھی ادائے زکوٰۃ نہیں کہا جاسکتا۔

زکوٰۃ ایک صدقہ مفروضہ (فرض) کا نام ہے۔ اس لئے زکوٰۃ کو صدقہ کہہ سکتے ہیں، کیونکہ ہر زکوٰۃ صدقہ ہے، مگر صدقہ کو زکوٰۃ نہیں کہہ سکتے کیونکہ سدقے کی صرف ایک قسم زکوٰۃ ہے۔ زکوٰۃ کے علاوہ صدقے کی بہت سی قسمیں ہیں، جنکو زکوٰۃ نہیں کہہ سکتے۔

اس آیت کا مفہوم بالکل صاف اور واضح ہے۔ راکعون یہاں اپنے لغوی معنی میں خاضعون کے مفہوم میں یعنی یہ لوگ جن کو زکوٰۃ دیتے ہیں تو تواضع و انکسار کے ساتھ تاکہ لینے والا یہ نہ سمجھے کہ ہمیں حقیر سمجھ رہے ہیں۔ اس آیت سے پہلے جو آیت اس میں مومنین کی شان بتائی گئی ہے کہ ان کو اذلہ علی المومنین اعزہ علی الکافرین ہونا چاہئے یعنی ایمان والوں کے سامنے جھکے ہوئے منکسر اور کافروں کے مقابل غالب و باوقار ۔ اسی اذلہ کے مفہوم کو یہاں راکعون سے ادا کیا گیا ہے۔
 

ڈاکٹر محمد

مبتدی
شمولیت
ستمبر 19، 2015
پیغامات
37
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
2
انا نحن نزلنا الذکر و انا لہ لحافظون میں بھی جمع کی ضمیر اور جمع کے صیغے استعمال ہوئے ہیں جب کہ متکلم وحدہ لاشریک ہے، اس کا کیا جواب ہے آپ کے پاس۔
ایک تو میری اکثر پوسٹ حذف کر دی جاتی ہے، جبکہ وہ ٹریکنک کے بعد ہی شایع کی جاتی ہے۔میرے سبھی مراسلات ناظم کی نظارت کے بعد ہی منظر عام پر لائے جاتے ہیں۔ اتنی کڑی نظارتوں کے باوجود جہاں جہالت سے کام نہیں بنتا وہاں آخری چارہ مراسلات کو حذف کرنا ہے۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
ایک تو میری اکثر پوسٹ حذف کر دی جاتی ہے، جبکہ وہ ٹریکنک کے بعد ہی شایع کی جاتی ہے۔میرے سبھی مراسلات ناظم کی نظارت کے بعد ہی منظر عام پر لائے جاتے ہیں۔ اتنی کڑی نظارتوں کے باوجود جہاں جہالت سے کام نہیں بنتا وہاں آخری چارہ مراسلات کو حذف کرنا ہے۔
ڈاکٹر صاحب جھوٹ نہ بولیں ، میرے علم کے مطابق آپ کا کوئی مراسلہ حذف نہیں کیا گیا ، بتائیں کس جگہ آپ کا مراسلہ حذف ہوا ؟ اور ناظم کی نگرانی میں آپ اس لیے ہیں ، کیونکہ آپ کوثر و تسنیم سے دہلی زبان استعمال کرتے ہیں ۔
 
Top