ویسے تو میں اس بحث میں اب پڑنا نہیں چاہتا، کیونکہ جب ان روافض کو آئینہ دکھایا جاتا ہے تو یہ مغلظات بکنے لگتے ہیں، جیسا کہ میرے ساتھ ایک جاہل المطلق کا واسطہ پڑگیا تھا۔ میں اب صرف اس دھاگے میں موجود کچھ شیعہ مغالطوں کا بتانا چاہتا ہوں، جسکو یہ رافضی ادھر دینے کی کوشش کررہے ہیں۔ اس بات کو سمجھیے اور اچھی طرح جانیے کہ "زکوۃ، صدقہ و خیرات" میں کیا فرق ہے؟ یہ بات صرف ان حضرات کے لئے ہے جو ان اصطلاحات کا فرق نہیں جانتے، یہ انکی تعلیم کے لئ ہے۔ اہل علم حضرات ان اصطلاحات سے بخوبی واقف ہونگے۔
رافضی کہتا ہے
زکات فطرہ، زکات ہے کہ نہیں؟ پھر لفظ زکات کو صرف مخصوص زکات (یعنی وہ زکات جس میں ایک سال کا گذرنا، سونا چاندی وغیرہ کا ہونا اور حد نصاب تک پہنچنا شرط ہے) میں کیسے محدود کرتے ہو؟ اس انحصار اور تحدید کا نہ تو کوئی سنی قائل ہوا ہے اور نہ ہی کوئی شیعہ۔ جب جہالت سے اپنی بات نہیں بنتی تو وہ کٹ حجتی پر اتر آتی ہے۔
ملاحظہ ہو اہلسنت کی طرف سے زکوٰۃ، صدقہ خیرات میں فرق:
صدقہ وخیرات اور زکوۃ کا فرق اورمصرف
سوال :۔ صدقہ اور خیرات میں کیا فرق ہے؟ اس کے حقیقی مستحق کون لوگ ہیں، صدقے اور خیرات کی ادائیگی کی بہترین صورت کیا ہے؟(عمر سلطان ٹوانہ، خوشاب)
جواب:۔ صدقہ اور خیرات دونوں ایک ہی چیز ہیں۔جو مال کسی عوض کے بغیر محض اللہ تعالی کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے خرچ کیا جاتا ہے اسے صدقہ اور خیرات کہتے ہیں۔یہی مطلب زکوۃ کا بھی ہے مگر زکوۃ کا ادار کرنا واجب ہے اور صدقہ نفلی ہوتا ہے۔صدقہ وخیرات کے مستحق وہی لوگ ہیں جو زکوۃ کے مستحق ہیں۔اگر کوئی شخص زکوۃ کا مستحق تو نہ ہو لیکن اس کے اہل وعیال زیادہ اورہاتھ تنگ ہواور کوئی اس کے ساتھ مالی تعاون کرے تو اسے اصطلاحی معنی کے لحاظ اگر چہ صدقہ نہ کہا جائے گا لیکن یہ عمل بھی صدقے جیسا ثواب رکھتا ہے۔صدقہ وخیرات کا بہترین مصرف علم دین ہے کیوں کہ علم دین سے ہی دین کے تمام شعبے زندہ رہتے ہیں۔
http://tafheemeislam.com/aap-ke-masail-aur-un-ka-hal.php?fatwa=MjM5OQ==#.Vj3U4dIrIsZ
صدقہ اور خیرات میں کیا فرق ہے ؟
الجواب بعون الوہاب ومنہ الصدق والصواب والیہ المرجع والمآب
صدقہ اور خیرات کا لفظ عموما نفلی صدقات پر بولا جاتا ہے ۔ اورویسے تو شریعت اسلامیہ نے ہر نیکی کو صدقہ قرار دیا ہے (صحیح بخاری:۶۰۲۱) ۔ لیکن صدقہ سے شریعت کی ایک خاص مراد بھی ہے اور وہ ہے" صدقات کے مستحق لوگوں پر خرچ کرنا "۔ صدقات خواہ نفلی ہوں یا فرضی (یعنی زکاۃ , عشر , فطرانہ وغیرہ) انکے مستحق صرف آٹھ قسم کے لوگ ہیں جنکا تذکرہ اللہ تعالى نے سورۃ التوبہ کی آیت نمبر ۶۰ میں فرمایا ہے :
إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللهِ وَابْنِ السَّبِيلِ فَرِيضَةً مِنَ اللهِ وَاللهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ
ترجمہ : یقینا صدقات صرف اور صرف فقراء , مساکین , صدقات کے عاملین, مؤلفات القلوب (ایسے نئی مسلمان جنہیں اسلام میں راسخ کرنا مقصود ہو انکی دل جوئی کے لیے), غلاموں کی آزادی , مصیبت زدہ لوگوں , مجاہدین فی سبیل اللہ , اور مسافروں کے لیے ہیں ۔ یہ اللہ کی طرف سے عائد کر دہ فریضہ ہے اورا للہ تعالى خوب جاننے والا اور کمال حکمت والا ہے ۔
لیکن کچھ لوگ صدقہ اور خیرات میں یہ فرق کرتے ہیں کہ ایسا مال جسے وہ صدقات کے مستحق لوگوں پر خرچ کریں اسے صدقہ سے تعبیر کرتے ہیں اور ایسا مال جسے وہ اللہ کی خوشنودی کے لیے اپنے اعزہ واقرباء اور دوست احباب سمیت دیگر لوگوں پر خرچ کریں اسے وہ لفظ خیرات سے تعبیر کر لیتے ہیں ۔ اور شرعا ان تعبیرات میں کوئی قباحت نہیں ہے ۔
مفتی کا نام: محمد رفیق طاہر
http://www.deenekhalis.net/play-2174.html