• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سوڈان میں ایرانی رافضیت کی سرگرمیاں: فضیلۃ الشیخ عبدالمعید مدنی حفظہ اللہ (علی گڑھ)

شمولیت
ستمبر 11، 2013
پیغامات
26
ری ایکشن اسکور
4
پوائنٹ
52
سوڈان میں ایرانی رافضیت کی سرگرمیاں
فضیلۃ الشیخ عبدالمعید مدنی حفظہ اللہ (علی گڑھ)
سوڈان اس وقت دنیا کا سب سے زیادہ مظلوم ملک ہے۔ اپنے غیر سب اسے تباہ کرنے پرتلے ہوئے ہیں۔ زمانے تک فوج کے ایک باغی جان قرنق کی قیادت میں جنوب سوڈان کو سوڈان سے توڑنے کی کوشش کی گئی۔ صلیبی اورصیہونی رعایت اسے اس کثرت سے ملی کہ وہ ایک دہے سے ز یادہ سوڈان سے لڑتا رہا۔ سوڈان کی فوجی حکومت نے کرنل بشیر کی قیادت میں اسے ناکام بنایا اوراس سے چھینی ہوئی زمین واپس لی اورایک مصالحانہ فارمولے کے ذریعے الگاؤپسند طاقتوں کو ہموار کیا۔ خود جان قرنق ایک ہوائی حادثے میں ہلاک ہوگیا اس لئے بھی ملک دشمن طاقت سمٹ کررہ گئی۔
جب ادھر سے صلیبی اورصیہونی مایوس ہوئے تودارفور کا قضیہ کھڑا کیا گیا اورولولہ پسندوں کو تلاش کرکے باہم مسلمانوں کو پوری طرح بھڑادیا گیا ۔ پھربے گھری بے وطنی اورسماجی واقتصادی مسائل کا زبردست بحران پیدا ہوا۔ اسے حل کرنے کے لئے گھات میں بیٹھے سوسے زیادہ عیسائی چرچ والے کودپڑے اورمسلمانوں کے دین وایمان کا سودا کرنے لگے جس کی بناء پر کئی مشنریوں کو ملک سے نکالنا پڑا۔
ان ملک دشمن طاقتو ں سے لڑنے پر سوڈان کا اقتصادی وسیاسی عالمی بائیکاٹ کیا گیا جس سے ملک کی معیشت چرمراگئی۔ ان بحرانوں سے نمٹنا ملک کے ہرفرد کی ذمہ داری ہے۔ حالات سدھارنے کی کوش کو دنیا کے ٹھگوں نے برا مانا اوراقوام متحدہ کے عالمی کورٹ کے ذریعہ کرنل بشیر کو انسانی نسل کشی کا مجرم گردانا گیا۔ بش بلیر اورجان ہاورڈ جیسے مجرموں اورفریبیوں کو مجرم نہ گردانا گیا مگر سازشوں کے درمیان گھرے ہوئے اوراچھے اور مسلمان حکمراں کو مجرم ہونے کا فیصلہ صادر کردیا گیا۔
سوڈان کے لئے ان سے بڑی مصیبت تشیع اورشیعہ ہیں ۔ اس وقت شیعہ سوڈان میں اپنے اثرورسوخ کو بڑھانے میں پوری طرح لگے ہوئے ہیں۔ دیدہ زیب عنوانات ہیں، دین داری کا حوالہ ہے۔ ہمدردی اورخیرخواہی کا مظاہرہ ہے اسلام کی آڑمیں کئی قسم کی سرگرمیاں ہیں۔ ثقافت اورعلم کا خوشنما ٹائیٹل ہے غریبوں کی امداد کا بہانہ ہے۔ طلباء کی معاونت کا جذبہ خیرہے۔اتحاد کا عنوان مگرہے ان سب کے پیچھے کینہ وحسد کی مکروہ ذہنیت اوراہل سنت سے نفرت کا جذبہ شر۔
سوڈان میں سرے سے کوئی جانتا ہی نہ تھا کہ شیعہ کون ہیں؟ اوران کا شیعی مذہب کیا ہے؟ ایران نے سوڈانی طلباء کو وظیفہ دینا شروع کیا اورشیعی افکار کو سوڈان میں داخل کرنے کا راستہ نکالا اورباقاعدہ طورپر اس کی خاطر مراکز بن گئے المراکز الثقافےۃ الایرانےۃ ۔اس عنوان کے تحت ایرانی سفارت خانہ سوڈان میں سرگرم ہوگیا اوراپنے اثرات بڑھانے لگا ۔ مراکز کی دیکھ بھال اورانھیں فعال بنانے کے نتیجے میں اسے موقع ملا کہ طلباء سے اس کا تعلق عوام سے جڑجائے اس کی خاطر ایرانی سفارت خانہ نے یہ شوسہ چھوڑا کہ سوڈانی عوام کو دنیا کی عوام سے جڑنا چاہیے جب لوگوں کے اندر اس کے لئے آمادگی پیدا ہوئی توسفارت خانے نے ایک جمیعۃ بنائی جمعےۃ الصداقۃ السودانےۃ الایرانےۃ اوراسے سفارت خانے کا ایک حصہ بنادیا گیا اس جمعےۃ نے باقاعدہ طورپر دعوتی اورعلمی وثقافتی سرگرمی جاری کردی اوراس سوسائٹی کا ممبربھی بنایا جانے لگا۔ اس کے امکان ثقافتی لائیربریوں میں حاضری دینے لگے۔
ان سرگرمیوں کے ساتھ ہی سوڈان کے صوفی مشائخ کو بھی ملانے کی کوشش کی گئی ان کو ریجھانے اور اپنے ساتھ ملانے کی بھرپور کوششیں ہوئیں۔ شیعوں کی خاص توجہ ان صوفیاء اورمشائخ پررہی جن کا تعلق اہل بیت سے تھا۔ انھیں بھرمایا گیا کہ آل بیت کی محبت اوران کے لئے فدا کاری ان کا مشترکہ عقیدہ ہے ان کے اصول ایک ہیں۔
باربار کی ملاقات زیارتوں اورمالی پیشکش اورمادی ترغیبات کے ذریعہ شیعہ علماء اورصوفیاء کے باہمی تعلقات استوار ہوگئے صوفیاء نے ان کی زبردست پذیرائی کی صوفیاء شیعوں کے دسترس میں آگئے توان کی پہنچ ان کے مریدوں تک بن گئی۔ انھیں ان کی مساجد اور ان کے گاؤں میں وعظ ونصیحت کرنے خطابات اورمحاضرات پیش کرنے کا بھرپور موقع ملا۔
صوفیاء کے ذریعہ شیعوں کو سوڈان میں داخلہ ملا اورسوڈانی عوام تک ان کی پہنچ بن گئی اوریہ کل کارنامہ اس اصول پر انجام پایا اہل بیت سے محبت اوروہابیت سے نفرت۔ ان صوفیاء نے رافضیت کے دخول کا پہلا راستہ دکھلایا۔ادارہ جاتی عمل کے اثرات فرد وجماعت پر سب سے زیادہ ہوتے ہیں۔ جب کوئی فرد کسی ادارے میں عملا شریک ہوجاتا ہے تودھیرے دھیرے اس کا جزء بن جاتا ہے اپنی ادارہ جاتی سرگرمی اورتعلق کے نتیجے میں وہ چاہے نہ چاہے ادارہ کے افکار کو قبول کرلیتاہے۔ سوڈانیوں کوشیعوں نے اپنے اداروں میں کام دیا حسب صلاحیت لیبر کے کام سے لے کر چپراسی ، چوکیداری، ڈرائیوری اورسکریٹری کا انھیں کام دیا گیا انھیں بطور مترجم بھی رکھا گیا۔ کام اصلا ہو نہ ہو پھر بھی انھیں ملازمت میں رکھا گیا اورپورے منصوبے کے ساتھ انھیں رکھا گیا تاکہ براہ راست ان پر اثرانداز ہوں رافضی دباؤ، لالچ، ملازمت عیاری اورتبلیغ کا ایک عام اورسیدھاسادھا انسان کیسے مقابلہ کرسکتا ہے۔ سوڈان میں رافضیت کے داخلے کا یہ دوسرا راستہ تھا۔
سوڈان میں رافضیت کے فروغ کا تیسرا راستہ یہ تھا کہ ایرانی رافضیوں نے سماج کی ضرورتوں کو دیکھتے ہوئے معاہد ، مدارس اورجمعیات قائم کئے تاکہ سماج میں عوام، عمال اور تعلیم یافتہ طبقے میں رافضیت کا عمل جاری رہے۔ ان اداروں نوکریوں اورعوام میں مساجد وغیرہ میں پہنچ کے ذریعہ رافضیت پورے سوڈان میں اور اس کے ہرطبقے میں پہنچ بناکر رافضی بنانے رافضیت سے انسیت پیدا کرنے اورسنیت کی جڑیں کھودنے کے عمل میں مصروف ہے۔ ایرانی ادارے مختلف قسم ہیں۔
اول : ثقافتی مراکز:
سوڈان میں یہ مراکز مثقفین اورانٹلکچویل طبقے کے لئے پرکشش ہیں اوران کے اندر رافضیت پھیلانے میں فعال اورمؤثر ہیں۔ اورثقافت ودانشوری کے نام پر رافضی دعاۃ کے لئے پردے کا کام دیتے ہیں انھیں مراکز میں بیٹھ کر رافضی دعاۃ سوڈانی سنی سماج کا شکار کرتے ہیں۔ اہم ثقافتی مراکز دوہیں۔
الف: المرکز الثقافی الایرانی خرطوم:
یہ مرکز ہندوستانی سفارت خانے کے قریب واقع ہے۔ ہندوستانی سفارت خانے کے قریب واقع ہونے میں بھی مصلحت ہوسکتی ہے۔ ہندوستانی کلچر کے اثرات سوڈان میں زیادہ ہیں اورلوگ اس سے مانوس ہیں۔یہ انسیت ایک وجہ بن سکتی ہے ۔تشیع کے جال میں عوام کو پھانسنے کی ہندوستانی سفارت خانے میں رافضی ہوں گے جواس مرکز کے پیچھے عقل مدبرہوسکتے ہیں ۔ بہرحال خرطوم میں یہ ایرانی ثقافتی مرکز رافقی افکار کی نشرواشاعت کے لئے عقل مدبر کی حیثیت رکھتا ہے۔ ا س مرکز کے تحت پانچ شعبے کام کرتے ہیں۔
*شعبہ ابلاغ وثقافت
اس شعبے میں ویڈیوآڈیوکیسیٹ فراہم ہوتے ہیں۔ ایرانی جرائد مہیا ہوتے ہیں اورسب سے اہم فلم جو دکھلائی جاتی ہے وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی جانشینی اورسقیفہ میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بیعت کابطلان۔ اس فلم میں یہ بھی دکھلایا جاتا ہے کہ یہ بیعت جانبنداری اورقبائلی عصبیت کی بناء پر منعقد ہوئی تھی۔ یہاں ایسی کیسٹیں تقسیم ہوتی ہیں جن میں اصحاب رسول کو گالی دی گئی ہوتی ہے خاص کر امامان امت حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما کو یہاں طلباء اورزائرین کو شیعی افکار کی حامل کتابیں دی جاتی ہیں۔
اورسب سے خطرناک اورمہلک کام جویہاں انجام پاتا ہے وہ یہ کہ ایرانی یونیورسٹیوں کے وظائف اس شعبے کے ذریعے سوڈانی طلباء کو ملتے ہیں۔ جامعۃ الامام خمینی کی وظائف خصوصی طورپر دےئے جاتے ہیں۔ یہ جامعہ اختصاصی طورپر فقہ جعفری کی تعلیم دیتا ہے۔ دس بیس سالوں میں لاتعداد سوڈانی طلباء اس سے منسلک ہوئے اوروہاں سے تعلیم حاصل کرکے فراغت حاصل کی۔ اوراکثرکی تعیین سوڈان میں ایرانی ثقافتی مراکز میں ہوگئی۔ اورکچھ کو ایرانی سفارت خانہ سوڈان میں نوکری مل گئی۔ کچھ متخرجین کو جوتشیع میں طاق ہوتے ہیں داعی متجول کی حیثیت سے تبلیغ رافضیت پر لگادیا جاتا ہے جوخاص کر کھیل کی انجمنوں میں نوجوانوں کو اپنا شکار بناتے ہیں مالی ترغیبات اورعیاری سے انھیں رافضیت کی طرف راغب کرتے ہیں۔
عیار ایرانی رافضی وظائف انھیں طلباء کو دیتے ہیں جو شعبہ تربیت کے کسی دورانیہ کو پورا کرچکے ہوں اورمال کے بدلے اپنا عقیدہ چھوڑچکے ہیں اوررافضیت کی اشاعت میں خودکو آمادہ کرچکے ہیں۔
*شعبہ تربیت:
مختلف موضوعات اور مہارتوں کے مطابق پانچ تربیت گاہیں کام کرتی ہیں۔
(۱) فارسی زبان کا تربیتی دورانیہ
پہلا تربیتی دورانیہ عوام وخواص دونوں کے لئے ہوتا ہے۔ فارسی زبان کی تعلیم وتربیت کے دوران مشتشرکین کو رافضی افکار پلائے جاتے ہیں فارسی زبان سکھلانا دراصل ایک بہانہ ہے۔ تدریس کے دوران امامت، رجعت مہدی اورمسیح کا ذکر بطور خاص آتا ہے اس شاطرانہ چال میں بہت سے طلباء آگئے اور رافضیت کے باطل کو حق سمجھ بیٹھے۔
۲۔ خط فارسی کا تربیتی دورانیہ
خط فارسی کی تعلیم کے ذریعہ تشیع کے افکار کو ذہنوں میں راسخ کیا جاتاہے مثلا جو تختیاں نمونے کی لکھنے کے لئے دی جاتی ہیں۔ جوبزعم خویش جعفر صادق کا یہ قول ہوتا ہے التقےۃ دینی، ودین آبائی، فمن لا تقےۃ لہ لا دین لہ۔ تقیہ میرا دین ہے اورمیرے آباء کا دین ہے، جس کے پاس تقیہ نہیں ہے اس کے پاس دین نہیں ہے۔ دوران مشق معلم اس مقولے کی توضیح وتشریح کرتا ہے اوراس سے مماثل دیگر شیعی افکار وآراء بیا ن کرتا ہے اوراصول رافضیت کی مشق کراتا ہے اس تکرار توضیح اورتمرین کے ساتھ شیعی اغراء وترغیب جاری رہتی ہے اور ماحول کا دباؤ بنارہتا ہے۔ اس طرح بہت سے بچے رافضی افکار سے متاثرہوجاتے ہیں۔
تقیہ کیا ہے مکروفریب جھوٹ منافقت اور دوگلاپن۔ ہندوستان میں اس کے مماثل چانکیا کا فلسفہ ہے اوریورپ میں مغربی فلسفہ ہے ۔ میکاویلی کا ۔ ان سب کا ماحصل ہے اپنا مقصد حاصل کرنے کے لئے سب کچھ روا ہے۔
۳۔ فقہ مقارن کا تربیتی دورانیہ
فقہ مقارن کے تربیتی کورس میں ایک شیعی کتاب الفقہ المقارن علی المذاہب الخمسہ پڑھائی جاتی ہے۔ جس میں مذاہب اربعہ حنفی مالکی شافعی حنبلی کے ساتھ ایک مزعوم فقہ فقہ جعفری کی تعلیم دی جاتی ہے۔ اورتربیتی دورانیہ میں اس ماہ کو پڑھانے کے لئے براہ راست ایران سے رافضی مدرسین آتے ہیں۔ یہ مدرسین ہمیشہ اورہرمسئلے میں فقہ جعفری کو ترجیح دیتے ہیں اوراس پر پورا زور دیتے ہیں کہ امام جعفر صادق معصوم ہیں۔ اوریہ کہ تمام سنی فقہی مسالک فقہ جعفری سے ماخوذ ہیں۔ لولا السنتان لہک النعمان اگردوسال نہ ہوتے تونعمان برباد ہوگیا ہوتا دوسال سے وہ دوسال مراد ہیں جن میں ابوحنیفہ رحمہا اللہ نے امام جعفر صادق سے تعلیم حاصل کی۔ ابوحنیفہ رحمہ اللہ سے اس قول کی نسبت صحیح ہے یا شیعہ تقیہ کی چھاپ اس پر بھی ہے؟ دریافت کرنے کی ضرورت ہے۔
دس سالوں کے اندر فقہ مقارن کے ۹۰ کے دورانیہ کا انعقاد ہوچکا ہے جن میں بکثرت شیعی عقائد زیر بحث آئے خاص کر سب صحابہ اور طعن فی الصحابہ کا مسئلہ۔ ایک طرف روافض کی یہ تیزی ہے۔ دوسری طرف ان کے بالمقابل سوڈان اہل سنت کا دعاۃ کی تیاری کے متعلق سست رو رویہ ہے اورحیران کن بات یہ ہے کہ سوڈان میں ایرانی روافض کے لئے کھلی چھٹی ہے۔کہ عوام وحکومت ان کے نشاطات رافضیت میں بھرپور حصہ لیں۔
۴۔ علم منطق میں دورہ
اس دورے میں منطق کی کتاب (خلاصۃ المنطق) پڑھائی جاتی ہے۔ یہ طلباء کے عقائد میں تشکیک پیدا کرنے کا ایک راستہ ہے ۔ تشکیک سے ابتداء ہوتی ہے اس تشکیک کا دورہ مکمل ہوتا ہے تب فقہ مقارن کا دورہ ہوتا ہے پھر طلباء سنی سے شیعہ بنائے جاتے ہیں۔
۵۔اصول فقہ کا تربیتی دورہ
یہ دورہ خصوصی طورپر گریجویٹ طلباء کے لئے منعقدہوتا ہے اوراخص طورپر جامعہ ام درمان الاسلامیہ اورجامعہ القرآن الکریم والعلوم الاسلامیہ سوڈان کے طلباء کے لئے ہوتا ہے ۔ اصول فقہ کی شیعوں اورایرانی انقلابیوں کے نزدیک بڑی اہمیت ہے۔ اس کی تدریس کے لئے ایران سے مدرس فراہم ہوتا ہے۔ اس مادے کی تدریس میں خصوصی طورپرشیعہ اوراہل سنت کے درمیان اختلاف پر گفتگوہوتی ہے اور امامان امت حضرت ابوبکروحضرت عمررضی اللہ عنہما پرکلام ہوتا ہے۔ اور موقع بے موقع مسلسل وہابیت کا بھوت اہم اصولی مسائل کی تدریس میں ان کے اوپر سواررہتا ہے ۔ وہابیت کی مذمت اور برائی ان انقلابیوں کا سب سے اہم مشغلہ ہے۔ دوران تدریس چند صحابہ کو چھوڑکر سب کی تکفیر ہوتی ہے۔ اکثر طلباء اس شیعی ضلالت وکفرکو تسلیم نہیں کرتے لیکن جب گھرکے صحن میں شیعی ناچ کو اجازت ملی ہے توکسی دن ناچ دیکھنے والوں کے پیر میں حرکت آہی سکتی ہے۔
* شعبہ مکتبہ
خرطوم کے مرکز ثقافی میں ایک عام لائبریری ہے جس میں متنوع موضوعات اور اختصاصات پر کتابوں کا بہت بڑا ذخیرہ ہے۔ یہ سارا جتن اس لئے کیا گیا ہے کہ ہرمیدان کے طلباء اورتحقیق پرکام کرنے والے اور ہرصلاحیت ولیاقت کے لوگوں کی ضرورت پوری ہوسکے۔ اورسماج کے ہرطبقے کے لوگ یہاں آئیں۔ اس لائبریری میں ایک گوشہ شیعی علوم کے متعلق ہے۔ اورعربی وفارسی دونوں زبانوں میں ہے۔ لائبریری میں ایرانی وسوڈانی اخبارات بھی میسر ہوتے ہیں۔
*شعبہ تقریبات
شعبہ تقریبات شیعی مشن کا سب سے زیادہ خرافاتی فسادی اوراہم شعبہ ہے یہ شعبہ شیعہ مکاروں کے رونے دھونے ناچنے گانے کو سنے طعنہ دینے اور گالی دینے کا شعبہ ہے اس شعبے کو شعبہ تکفر، شعبہ منکرات، شعبہ فجور، شعبہ مکروبے حیائی شعبہ الزام تراشی کہہ سکتے ہیں۔
اس شعبے کے تحت دینی وسیاسی تقریبات کا انعقاد ہوتا ہے۔ جیسے اثنا عشری ائمہ کی جشن میلاد، سیدہ فاطمہ زہرا کی جشن میلاد، علی بن ابی طالب کی جشن میلا د، جشن اسراء ومعراج، جشن یوم عاشوراء اس جشن کے موقع پر شیعہ جمع ہوکر سوگ مناتے ہیں روتے ہیں اورصحابہ کرام کو گالی دیتے ہیں دیگر تقریبات میں بھی یہی ہوتاہے ائمہ پر سوگ منانا اوریوم وفات منانا۔
ان دینی تقریبات کے پہلو بہ پہلو سیاسی تقریبات کا بھی انعقاد ہوتا ہے۔ تقریبات توزبردستی منعقدہوسکتے ہیں اوربلاسبب تاکہ ناؤ ونوش کا انتظام ہولہو ولعب کا دورچلے اورزیادہ سے زیادہ کمزوراورانحلال پسند طبائع ان کا اسیربنیں اورتشیع کی گودمیں گریں ۔ سیاسی تقریبات میں زیادہ اہم ہیں۔ ایرانی انقلاب کی برسی جشن میلاد خمینی، سوگ وفات خمینی عید نیروز(مجوسی عید جوشیعوں کا سب سے اہم تیوہار ہے۔ ان کے سوا وہ تمام جشن اوربزم آرائیاں جنھیں شیعہ مناتے اور سجاتے ہیں اورسارے عالم میں دھمال مچاتے ہیں جیسے یوم العمال یوم الکفاح یوم المضطہدین وغیرہ وغیرہ ان کااختفالات اورجشنوں میں دستاویزی فلمیں دکھلائی جاتی ہیں۔ اس موقع پر ایک الوثنےۃ السعودےۃ نام کی تقسیم کی جاتی ہے۔ اورشیخ الاسلام محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ کے متعلق ایک جعلی یورپی سیاح مسٹر ہنفر کی جعلی یادداشت تقسیم کی جاتی ہے جس میں شیخ الاسلام پرتہمتیں ہیں ان کی تجریح ہے دس سالوں کے اندر یہودصفات ایرانی شیعوں نے اس یاد داشت کو ۲۰لاکھ کی تعداد میں تقسیم کیا ہے وہابیت دشمنی کا مظاہرہ اتنی شدت اورمحنت سے اس لئے کی جاتی ہے تاکہ سعودی عرب کو ٹارگٹ بنایاجائے اس سے سارے تحریکی مارے خوشی کے اچھلنے لگتے ہیں اورسلفیت کو ٹارگٹ بنایا جاتا ہے اس سے سارے طرقی صوفی اورتقلیدی مگن ہوجاتے ہیں۔ اس طرح خمینی ایرانی شیعہ سارے اہل سنت کو بے وقوف بناکر اپنا ہمنوابنالیتے ہیں ہیں ان کے مقابلے میں میدان میں سارے عالم میں اہل حدیث رہ جاتے ہیں۔ دیگر کم ہی لوگ خمینی انقلاب کی خطرناکی کومحسوس کرتے ہیں ۔اللہ کرے تمام اہل سنت اس خطرناکی کو محسوس کریں اورخمینی انقلاب کو کیفر کردار تک پہنچانے میں لگ جائیں۔ اوراہل حدیث دشمنی سعودی عرب دشمنی اوروہابیت دشمنی میں میں اتنا آگے نہ نکل جائیں گے کہ دشنام طراز مشن کے ساتھ لگ جائیں او راپنا دین وایمان تباہ کردیں ۔جشن میلاد خمینی کے موقع پر یہ اوراس طرح کی فلمیں دکھلائی جاتی ہیں اورقسم لی جاتی ہیں اورٹارگٹ سعودی عرب اورسلفیت کو بنایا جاتا ہے۔ خمینیت سلفیت دشمنی اور سعودیہ دشمنی کا نام ہے۔ان تقریبات میں وزراء اہل کاران حکومت وجھاء اشراف مشائخ طرق وغیرہم کو بلایا جاتا ہے وہ شریک ہوتے ہیں قیمتی ہدیہ پاتے ہیں ۔ ایران کی زیارت کی دعوت ملتی ہے اس دعوت کے نتیجے میں فوجی سربراہوں ، مشائخ طرق، اساتذہ جامعات اور طلباء نے بکثرت طہران کی زیارت کی ہے۔
شعبۂ تقریبات ’’جامعۃ افریقیا العالمیۃ ،،خرطوم کے طلباء کو دعوت دیتا ہے یہ جامعہ جامعہ ازھر اور جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ کی مانند ہے .یہ پہلے ’’المر کز الاسلامی الافریقی ،،تھا جسے بلادخلیج خصوصاکویت اورسعودی عرب نے افریقہ میں اسلام کی اشاعت کے لئے قائم کیا تھا اوراس کے سب سے بڑے محرک شیخ ہاشم ہدیہ رئیس انصارالسنہ لمحمدیہ سوڈان تھے۔ اب اسے عالمی اسلامی جامعہ بنادیا گیا ہے تاکہ خصوصی طورپر افریقی طلباء اس میں تعلیم حاصل کرسکیں۔ اس پراثرانداز ہونے کے لئے ایرانی خمینیت ہرہتھکنڈے استعمال کررہی ہے اورکرچکی ہے اوراس میں کامیاب ہے اس وقت اس کا ایک بڑا ذمہ دار وہ شخص ہے جو سوڈان میں رافضیت کے داخلے کا سبب بنا اوراس کی تقویت کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ جامعہ کے اہم ذمہ داروں میں خمینیت گروہ کے لوگ ہیں مالی ترغیبات ، پروپیگنڈہ اورطہران کی شبھ یاتراوں اورماؤ ونوش کے وسیلوں سے خمینیت نے اس جامعہ کو اپنے نرغے میں لے لیا ہے۔ اس جامعہ میں مختلف ممالک کے طلباء ہیں۔ اس لئے ان پر اثرانداز ہونا آسان بھی ہے۔ اورنتیجہ خیز بھی ۔ یہاں سے فارغ ہوکر تشیع کے حامل یا متاثرطلباء خمینیت کے لئے کام کریں گے اورایرانی گرگے ایرانی سفارت خاتونوں کی نگرانی میں ان سے کام لیں گے۔
اس جامعہ پر اثرانداز ہونے کی ایک خطرناک راہ شیعوں نے یہ نکالی ہے کہ انہوں نے سوڈان حکومت سے اس کے پہلو میں ایک زمین حاصل کرلی ہے۔ یہ زمین ایک وسیع قطعہ ہے اس پر ایک شیعی اسلامی مرکز قائم ہے۔ جس میں مسجد ہے، رہائش کمرے ہیں، لائبریری ہے جس میں جامعہ میں پڑھنے والے افریقی طلباء آتے ہیں تاکہ خمینیت کے دام فریب میں آسانی سے آجائیں جامعہ کے قریب اس مرکزکے ہونے میں یہ فائدہ ملحوظ ہے کہ افریقی طلباء شیعوں کے فریب وہ تقریبات میں شامل ہوسکیں۔نیز اس مرکزسے وابستہ افریقی طلباء کو مال واسباب ملتے ہیں کہ وہ جامعہ میں رافضیت کی ترویج واشاعت کرسکیں۔
ب۔ المرکز الثقافی الایرانی، ام درمان:
اس شہر میں آباد رافضیت اختیار کرنے والے سوڈانیوں کی خواہش پر اس مرکز کا قیام عمل میں آیا ہے۔ اس کی بھی سرگرمیاں ٹھیک اس طرح ہیں جس طرح خرطوم کے ایرانی ثقافتی مرکز کا ہے۔اس کی سرگرمیاں ان نورافضیوں سے قائم ہیں جنہوں نے فارسی زبان میں مختلف فنون وعلوم میں تعلیم حاصل کی ہے۔ اس میں ہفتہ واری اجتماعات ہوتے ہیں اورطلباء کا جم غفیر اس میں شریک ہوتا ہے۔ کبھی کبھی ان اجتماعات میں ایران سے شیعہ طلباء آتے ہیں۔ ان کی آمد پر رافضیت کی نشرواشاعت کے لئے خصوصی پروگرام ہوتے ہیں۔
اس مرکز کا ڈائرکٹرسوڈانی ہے جو ادارہ جاتی امورمیں بڑا ماہر ہے اور کام کرنے میں بڑا تیز ہے اورطلباء کو رافضیت کے جال میں پھانسنے میں بڑا ماہر ہے۔
دوم ۔ عام لائبریریاں:
رافضیت کی تبلیغ اوراس کی نشرواشاعت کے لئے ایرانی رافضیوں نے لائبریریاں قائم کرنے پر سب سے زیادہ توجہ دی ہے۔ سوڈان میں رافضیوں کی قائم کردہ ان لائبریریوں میں سوڈانی طلباء کی بھیڑلگی رہتی ہے۔ کیوں کہ لائبریریوں میں کافی سہولتیں میسرہیں اورکشش کی دیگر مادی ترغیبات ہیں۔
اہم لائبریریاں :
۱۔ المرکز الثقافی الایرانی خرطوم کی پبلک لائبریری
۲۔ المرکز الثقافی الایرانی ام درمان کی پبلک لائبریری
۳۔ لائبریری محلہ سبحانہ خرطوم
۴۔ لائبریری مرکز فاطمہ زہراء، محلہ عمارات، خرطوم
۵۔ لائبریری مدرسہ الجیل الاسلامی محلہ مایوجنوب خرطوم
اس محلے میں دار فور وفلاتہ قبیلے کے لوگ بستے ہیں۔یہاں جہالت عام ہے۔ طبعی شرافت رواداری اورنرم دلی میں یہ لوگ مشہورہیں مسافروں سے یہ بڑی محبت کرتے ہیں۔ اجنبیوں سے انھیں بڑا لگاؤ ہوتا ہے۔ ان خوبیوں کا ناجائز فائدہ اٹھاکر شیعہ فریبوں نے انھیں اپنے دام فریب میں پھنسالیا ہے۔
لائبریری معہد الامام جعفر الصادق محلہ عمارات وسط خرطوم
ان چالاک اورفریبی شیعوں نے سوڈانی حکومت کو اپنی مسلم دوستی دکھلاکر کافی سہولت حاصل کرلی ہے حکومتوں کے درمیان ڈپلومیٹک عرف اوردستورکے مطابق معاہدوں کے ذریعہ رافضیوں نے سوڈان میں درآمد کردہ اپنی کتابوں اورکیسٹوں پرکسٹم ڈیوٹی معاف کروالی ہے۔ اس طرح انہوں نے رافضیت کو ترویج دینے والی اسی لاکھ کتابوں کو سوڈان میں چند سالوں میں درآمد کیا ہے۔ یہ کتابیں صوفیوں طالب علموں اور سوڈان میں دینی اداروں میں تقسیم ہوئیں خرطوم دارالحکومت سوڈان میں موجود المعہد الایرانی کے ذمہ داروں کی نگرانی میں ان کی تقسیم عمل میں آئی۔
منقسم ہونے والی چند گمراہ کن، جھوٹ کی پوٹ کتابیں:
۱۔ الوہابےۃ فی المیزان جعفر سبحانی عقیدہ سلف سے متعلق فریب اورمغالطوں پر مشتمل نہ سرکاپتہ نہ پیرکا۔
معالم المدرسین (تین اجزاء) مرتضی العسکری کی یہ کتاب دانشوروں اوراعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں میں تقسیم کی جاتی ہے۔ یہ کتاب مذہب اہل سنت کے متعلق تشکیکات اورشبہات سے بھری ہے۔ یہ شبہات ایسے پرفریب اور پرکشس بنائے گئے ہیں کہ عوام انھیں فورا مان سکتی ہے۔ ذی علم اور طالبان علم ان کو سمجھ سکتے ہیں۔
۳۔ برأۃ الشیعۃ من افتراء ت الوہابےۃ محمد احمد خیر نورافضی سوڈانی
۴۔ زبدۃ الاحکام الخمینی
۵۔ القرآن ووعاوی التحریف رسول جعفریان
۶۔ مخالفۃ الوہابےۃ للقرآن والسنۃ عمر عبدالسلام
۷۔الاسلام والوثنےۃ فی السعودےۃ فہدالقحطانی (جعلی نام)
اس جھوٹی اور مکروفریب میں ڈوبی کتاب کو بکثرت تقسیم کیا جاتا ہے ۔ قابل غور یہ ہے کہ تقسیم ہونے والی کتابیں سعودی عرب کے خلاف ہیں آل سعود کے خلاف ہیں شیخ الاسلام کے خلاف ہیں۔ دعوۃ حق کے خلاف ہیں صحابہ کے خلاف ہیں۔ اورقابل افسوس ہے کہ تحریکی لونڈے جنھیں خمینیت کے نشے نے پاگل بنارکھا ہے وہ ہردم گردن اکڑتے اورلمباکئے لڑنے کے لئے ٹینی مرغوں کے لئے طرح تیار رہتے ہیں اورخمینی الحاد کی بانگ لگاتے رہتے ہیں۔
ان رافضی عیاروں نے سوڈان میں مصحف کے دس لاکھ نسخے بھی تقسیم کئے ۔ اس کا پس منظریہ ہے کہ ایک شیعہ داعی نے سوڈان کی کسی مسجد میں ایک خطیب سے سنا کہ شیعوں کا عقیدہ یہ ہے کہ قرآن ناقص ہے۔ اس نے فورا ایران میں اپنے آقاؤں کو اس کی خبردی۔ آقاؤں نے شام کے ایک ناشرکوآرڈر دے کر مصحف کے دس لاکھ نسخے چھپوائے سرخ رنگ میں پشت پر لفظ اللہ چھپوایا اورنیچے الحمد للہ المنسخۃ الایرانےۃ ثبت کیا ۔ اس شاندار دیدہ زیب اورقیمتی مصحف کو سوڈان میں تقسیم کردیا گیا جس کا یہ فائدہ ہوا کہ عوام کا ذہن شیعوں کے متعلق صاف ہوگیا کہ ان کے عقیدے کے مطابق قرآن ناقص ہے۔
سوم: تعلیمی ادارے:
الف: مدارس: ان کی تفصیل اس طرح ہے۔
(۱) مدرسہ الامام علی بن ابی طالب ثانوی برائے طلاب منطقہ الحاج یوسف ضلع شرق نیل یہ مدرسہ منطقہ شیعہ میں کھولا گیا ہے اس علاقے میں لوگ غربت بھکمری اورتنگدستی کے شکار ہیں۔ یہ مدرسہ اس توقع پر کھولا گیا ہے کہ یہاں مسلم بچے پڑھنے کے لئے آئیں گے۔
۲۔ مدرسۃ الجیل الاسلامی مرحلۃ الاساس برائے طلاب یہ مدرسہ ضلع خرطوم کے مایو علاقے میں قائم ہے یہ علاقہ دارالحکومت کا انٹیریر علاقہ ہے جہاں جنوب سوڈان اورمغربی سوڈان سے لوگ آکر بس گئے ہیں اور تنگدستی کے شکارہیں۔
۳۔ مدرسہ فاطمۃ الزہرا، یہ بھی مایو کے علاقے میں قائم ہے اوراوپر کے معیار ہی کا مدرسہ ہے اورطالبات کے لئے ہے۔
ب۔ معاہد:
۱۔ معہد الامام علی العلمی ثانوی: قراء ات کے لئے یہ معہد ام درن کے شہر میں الفتیحاب کے علاقے میں قائم ہے ۱۹۹۶میں یہ قائم ہوا۔ اسے اس لئے قائم کیا گیا تھا تاکہ خلاوی میں جنھیں ہمارے ہاں اسلامی مکاتب کہہ لیجئے۔ جوبچے قرآن اوردینیات پڑھتے ہیں جن کی حیثیت پرائیویٹ اداروں کی ہے اور غیر تسلیم شدہ ہیں انھیں اس معہد میں پڑھایاجائے۔ پہلے ہی سال اس معہد میں ایسے گھناؤنے اخلاقی جرائم کا ارتکاب ہوا کہ یہ معہد بند ہوگیا۔ متعہ والے بے حیاشیعوں سے اس سے زیادہ کی توقع عبث ہے۔ الحمد للہ یہ معہد بندہوچکا ہے۔
۲۔ معہد الامام جعفر الصادق الثانوی قرآنی اور دینی علوم کے لئے محلہ عمارات خرطوم میں یہ معہد واقع ہے۔
یہ معہد شیعوں کا سب سے خطرناک اڈھ ہے۔ اس میں صرف قرآن کریم کے حفاظ کو داخلہ ملتا ہے۔ اس میں کئی چالاکیاں ہیں ۔ کسی کو خطرہ نہ ہو کہ ان کے بچوں کو شیعہ تعلیم دی جاتی ہے اورپڑھ کر نکلیں توکسی کو شبہہ نہ ہو کہ وہ شیعہ تعلیم حاصل کرکے آئے ہیں اوررافضیت پھیلائیں گے ۔ اس طرح ان کے لئے کوئی خطرہ نہ ہوگا کہ انھیں شیعہ بنائیں اوران کے ذریعہ تشیع پھیلائیں۔ ان کے لئے رافضیوں کا ہدف یہی ہے کہ مدت تعلیم میں انھیں گڑھ کر اورچھیل چھال کر شیعہ بنائیں اور پڑھ کر نکلیں توکسی مکتب میں پڑھائیں یا کسی مسجد میں امامت کریں توان کے ذریعہ گاؤں اوربستی پر اپنا اثرجمالیں۔
اس معہد میں داخلے کے شرائط دلچسپ ہیں۔
۱۔ امیدوار کامل مکمل قرآن کریم کا حافظ ہو۔
۲۔ اس کی عمر سترہ سال سے زیادہ نہ ہو۔
۳۔ امیدوار سوڈانی ہو۔
۴۔ امیدوار ہرقسم کی بیماری سے محفوظ ہو۔
۵۔ صوفی ہو سلفیت سے اس کا کوئی تعلق نہ ہو نہ ہی علوم شرعیہ سے کسی طرح کی آگاہی رکھتا ہو۔
اتفاق سے ایک طالب علم اس معہد میں آگیا جورافضیوں کی تکفیر صحابہ کے غلیظ جہنمی عمل کی وہ شرعی دلائل سے تردید کرتا تھا۔ اسے معہدسے نکال دیا گیا اوراسے کہا گیا تم وہابی ہو۔
معہد دومنزلہ ہے اس میں طلباء کے لئے ہاسٹل بھی ہے جس میں طلباء کے آرام کی ساری سہولتیں موجود ہیں مطبخ ہے جس سے انھیں تین ٹائم لذیذ کھانے مفت میں ملتے ہیں۔ طلباء کے رہنے کے آرام دہ کمرے اوربسترہیں۔ اس میں ایک شاندارلائبریری ہے جس میں سنی ورافضی کتابیں بکثرت موجودہیں۔ ویڈیوسسٹم ہے اذان کے لئے کئی مکبرالصوت ہیں، مطالعہ ہال اورمسجد ہے اس معہد میں طلباء کو لباس جوتے غذاء علاج اورسفر خرچ سبھی کچھ ملتے ہیں معہد میں تین کورس ہے۔
(۱) قسم التجوید: اس میں مدت تعلیم تین سال ہے تعلیم کی تکمیل کے بعد یہاں تجوید کی ڈگری ملتی ہے۔
(۲) قسم القراء ت: مدت تعلیم چار سال کورس پورا کرنے کے بعد قراء ات کی سند دی جاتی ہے۔
(۳) القسم الثانوی العلمی: مدت تعلیم تین سال کورس پورا ہونے پر علوم دینیہ کی سند ملتی ہے۔
فریب کاروں کی کوشش جاری ہے کہ کلےۃ العلوم اللغوےۃ والشرعےۃ کھولاجائے۔
چہارم: جمعیات روابط اورمنظمات:
(۱) رابطہ اصدقاء المرکز الثقافی الایرانی :
یہ ایک رافضی انجمن ہے اس میں رافضیت کی دعوت دی جاتی ہے۔ جولوگ اس میں آتے ہیں ان کو رافضیوں کے لکچر سنائے جاتے ہیں ۔ اورکتب وہدایا پیش کئے جاتے ہیں۔
۲۔رابطۃ الثقلین۔
(۳) رابطۃ آل البیت
(۴) رابطۃ المودۃ۔
(۵) رابطۃ الظہیریہ چاروں رابطے طلابی ہیں ان کا اشراف ایرانی شامی لبنانی اور ترکی یونیورسٹیوں کے فضلا کرتے ہیں۔ ان کی متنوع سرگرمیاں ہیں جیسے لکچر دینے اور سنانے کا نظم کرنا، اجتماعات کا انتظام کرنا حائطی مجلات شائع کرنااورلیف لیٹ چھاپنا۔
۶۔ رابطۃ الزہراء۔یہ رابطہ مدارس معاہد اورجامعات کی طالبات کے لئے خاص ہے اس کی نگرانی شیعی نسائی تحریک کی نہایت سرگرم خاتون کرتی ہیں جن کے رگ وریشے میں رافضیت سماگئی ہے۔ جواسلامی عالمی انسانی سوڈانی یونیٹ کی نہایت اہم اورفعال رکن بھی ہیں۔

ایرانی ثقافتی مرکز ان روابط کے فائننس کے لئے بھاری رقم دیتا ہے اورجوان کے ممبرہوتے ہیں ان کی تعلیمی فیس ادا کرتا ہے ان کو لباس اوردرسی کتابیں فراہم کرتا ہے اورمواصلات کے خرچے برداشت کرتا ہے نیز دیگر طلباء سے متعلق ضروریات پوری کرتا ہے۔
۷۔جمعیۃ الصداقۃ السودانیہ الایرانیہ:
یہ جمعیت دونوں ملکوں کی اہم سیاسی شخصیات کے تعاون سے وجود میں آئی ہے اس کی صدارت ڈاکٹر مکاشفی طہ کباشی کررہے ہیں۔ سوڈان میں کئی اعتبار سے ان کی شخصیت بڑی اہم ہے۔ صوفیاء سے ان کا بڑا گہرا ربط ہے۔
سوڈان میں ان کا شمار کبار زعماء صوفیاء اورصوفیاء کی مشہور ترین شخصیات میں ہوتا ہے۔ صدر جعفرنمیری کے زمانے میں اسلامی شریعت کے نفاذ کے وقت یہ قضاء کے رئیس تھے۔ محمود محمدطہ حزب جمہوری کے بانی اورقائد کی ردت اورقتل کا آخری فرمان انہوں نے ہی صادر کیا تھا۔
اس طرح اس جمعےۃ کو قائم کرنے میں رابطہ الزہراء کی نگراں خاتون کا بڑا ہاتھ ہے۔ اورقابل ذکریہ ہے کہ (۱) مجلس الصداقۃ الشیعۃ العالمےۃ سے اس جمعےۃ کا بڑا گہراتعلق ہے۔ یہ مجلس اہم سرکاری پلیٹ فارم ہے جہاں سے قومی اور سرکاری ڈپلومیسی انجام پاتی ہے اس مجلس کے صدر حکمراں پارٹی کے ایک اہم ترین فرد ہیں جن کانام ہے ڈاکٹر احمد عبدالرحمن یہ جناب رافضیوں کے بڑے زبردست ہم نوا ہیں۔ اورسرکاری غیرسرکاری اسٹیج پر ان کی مدافعت کرتے ہیں۔ اس مجلس کے ذریعہ دوسری جمعیات الصداقہ سے شیعوں کے تعلقات قائم ہیں اس طرح افریقی ملکوں کے طلباء سے خصوصی طورپر شیعوں کے تعلقات استوار ہیں۔ ان اثرات کے نتیجے میں جامعۃ افریقیا العالمےۃ میں پڑھنے والے سنگال وسطی افریقہ مالی بورونڈی موزمبیق اورنائیجریا کے بہت سے طلباء شیعہ بن گئے ہیں۔
۸۔ منظمۃ طیبہ الاسلامیہ:
اس منظمہ کا کام ہے مدارس ومعاہد کھولنا۔ اوپر ذکر کردہ یہی مجلس ہے جوحوارلادیان میں پوری طرح ملوث ہے یہ مجلس دیانت ابراہیمی یا جبھہ المؤمنین کی دعوت کا اہم ممبرہے۔
بعض مدارس ومعاہد اس کے تابع ہیں۔ اس طرح (مجلس امناء المدارس الایرانیہ سوڈان) بھی اس کے تابع ہے۔ ان کے علاوہ اس تنظیم میں سوڈان کی اہم شخصیات کی ایک بڑی تعداد اس میں شامل ہے جو سوڈان میں ایرانی رافضیوں کی ہم نوا ہے۔
پنجم: اقتصادی اور سرمایہ کاری ادارے:
۱۔ ایران گیس کمپنی: سوڈان میں گیس بھرنے اور سپلائی کرنے کی بڑی اہم کمپنی ہے ہرمحلے میں اس کے ایک یا ایک سے زیادہ ایجنٹ ہیں اورگیس ایجنسی اس کو ملتی ہے جورافضی ہو تاکہ ہررافضی سوڈان میں مالی طورپر مضبوط ہو او ردوسروں کے لئے پرکشس بن سکے۔
اس کمپنی کے ذریعہ کمپنی کا ہرذمہ داراورکارکن رافضیت کو سوڈان میں پھیلاتا ہے اورکمپنی کے ذریعہ جس سے بھی کسی سوڈانی سے تعلق قائم ہوتا ہے اسے متعہ ازم کی دعوت دی جاتی ہے۔
۲۔ ایرانی ریسٹورینٹ: یہ ریسٹورینٹ تین منزلہ عمارت میں شارع المطارنمبر۱۵ محلہ العمارات خرطوم میں قائم تھا لیکن خسارے کا شکار ہوکر بند ہوگیا۔
۳۔ پٹرول میں سرمایہ کاری۔
سوڈان میں رافضی سرگرمیوں کی یہ تفصیل ہے۔ اب یہ سرگرمیاں دوچند ہوچکی ہیں۔

رافضیت کے فروغ کا مسئلہ صرف سوڈان ہی کا مسئلہ نہیں ہے سوڈان رافضیوں کی ہم گیر رافضی سرگرمیوں کا ایک ماڈل ہے۔ اس طرح کی ا ن کی سرگرمی پورے عالم میں جاری ہے کہیں ان کی جارحانہ سیاست ہے۔ گلف اورشرق اوسط میں ان کی جارحانہ عسکری سیاست جاری ہے۔ افغانستان وپاکستان میں ان کی دہشت گردی جاری تھی اور ہے مشرق بعید میں ان کی اقتصادی ودعوتی وسیاسی سرگرمی عیاں ہے۔ یورپ وامریکہ اورافریقہ میں ان کی ادارہ جاتی سرگرمیاں ہیں۔ بقہ پورے برصغیر میں سوڈان سے چند درچند گنا اضافہ کے ساتھ ان کی سرگرمیاں ہیں۔
میں نے بارہالکھا کہ ہروقت شیعہ انقلاب ایران سے پہلے کے مقابلے میں حد سے زیادہ طاقتور بن چکے ہیں۔ ولایت الفقیہ کے نظرےئے نے سارے شیعان عالم کو متحد اورسرگرم بنادیا ہے۔ رافضیوں کے نزدیک مہدی کی آمد سے قبل دلایہ الفقیہ امامت کی نیابت کرتی ہے اوراس کی قائم مقام ہے ولایت الفقہ مہدی کی آمد سے پہلے ایک اینٹرم وقفہ ہے اوراعدادی لمحہ ہے مہدی کی آمد پر استقبال کی تیاری کا لمحہ ہے۔ ولاےۃ الفقہیہ کا نظریہ اس لئے ہے کہ سارے عالم میں مہدی کی آمد کے لئے زمین ہموار ہوجائے ۔
اس وقت جس تیزی سے منصوبہ بندی اور جوش وخروش سے سارا عالم رافضیت اہل سنت کو گھیرنے میں لگا ہے اگریہی صورت حال رہی اوراہل سنت کی اسی طرح غفلت برقرار رہی توچند دہے میں رافضی صیہونیت اورصلیبیت سے زیادہ خطرناک ثابت ہوں گے گلف اورشرق اوسط کے علاقے میں یہ عملا تمام اعداء اسلام سے زیادہ خطرنانک بن چکے ہیں لبنان اورعراق کی مثال ہمارے سامنے ہے اس وقت بحرین اور سعودی عرب کے بعض شیعہ آبادی علاقے کو ملاکر ایران کا پندرہواں صوبہ بنانے کی بات ہوتی ہے۔
ایک طرف ایران کی ۳۰سالہ مسلسل ہمہ گیر منصوبہ بند اور پوری توانائی کے ساتھ محنت ہے۔ دوسری طرف اہل سنت کی غفلت بے حسی انتشار اور خلفشار کی حالت۔ ایک طرف رافضیت کا مشنری ورک ہے۔ دوسری طرف اہل سنت کی سستی کاہلی اور بے عملی ہے۔
ایسا لگتا ہے پوری تاریخ تشیع میں خمینی سے زیادہ چالاک گہرا اور دانشمندشیعہ لیڈر پیدا ہی نہیں ہوا ابن العلقمی طوسی ابن المطہر الحلی خمینی کے مقابلے میں زیادہ خبیث ہوسکتے ہیں لیکن اس سے زیادہ دانشمندنہیں ہوسکتے۔ ان کے پاس اہل سنت سے صرف نفرت اوردشمنی تھی اورقلم اورزبان تھی ۔ خمینی نے اہل سنت دشمنی ہی کا مظاہرہ نہیں کیا بلکہ اس نے مسلم اتحاد مسلم دوستی اور دشمنوں کے مقابلے میں مسلم طاقت کی بات کی گویہ محض دکھاوا تھا اورہے اس کے پیچھے محض اہل سنت کو ہمنوا بنانے کی اور اپنا اصل چہرہ چھپانے کی کوشش ہے۔ خمینی کے پاس دینی وسیاسی اقتدار بھی تھا اورولاےۃ الفقہیہ کے نظرےئے کے ذریعے اس نے امامت کبری کا پورا اختیار اپنے ہاتھ میں لے لیا اورشیعوں کو متحد کردیا اورخالص رافضیت کو زندہ کرکے ایران کے اندرسارے ازموں کو ازم والوں کو کیفر کردار تک پہنچادیا ۔ اورشیعوں کو سارے عالم میں ایک مشن پر لگادیا اورانھیں ایک نئے روشن مستقبل کا خواب دکھلایا ۔ اس بناء پر شیعہ ولاےۃ الفقیہہ سے جڑگئے ہیں اورسارے عالم پر اپنی کمند ڈالنے کا خواب دیکھ رہے ہیں اوربڑی محنت بھی کررہے ہیں اور دشمنان اسلام رافضیت کی حقیقت اوران کی جدوجہد کا مطلب بھی سمجھتے ہیں اس لئے اندرسے اسے ان کی پشت پناہی بھی حاصل ہے۔ انقلاب ایران کے بعد تیس سالوں کے اندر ایران کے کسی مفاد کوان کے ذریعے نقصان نہیں پہنچااس کے برعکس علاقے میں وہ سپر پاور بن گیا۔ صلیب وصیہونیت کے خلاف ایران کے سخت ترین بیانات آتے ہیں مگراس کا ردعمل نہیں ہوتا اس کے بالمقابل اہل سنت کو ہرجگہ پسپا کردیا گیا جبکہ ایران کے مقابلے میں عشرعشیربھی انہوں نے جارحیت کا مظاہرہ نہیں کیا۔
سب سے زیادہ حیرت کی بات یہ ہے کہ ایران کے عزائم اہداف اکتسابات عقائد اصول او ر نشطاطات ہمارے سامنے ہیں اس ابلاغ کی دنیا میں کسی پر کوئی شے مخفی نہیں ہے اس کے باوجود حیرت ہے کہ اہل سنت کے اکثر گروہوں نے انھیں پھیلنے پھولنے کی راہ دیدی ہے۔ سب سے زیادہ حیرت اخوانی اورجماعت اسلامی تحریکیوں پرہے ان کی ساٹھ سترسالہ جہود کا ثمرہ ایرانیوں کو مل گیا ان کی ہموار کردہ زمین پر انہوں نے فصل کاٹ لی۔ اوریہ خمینی کی ڈفلی بچاتے رہ گئے۔
خمینی کے برعکس پوری تاریخ اسلامی میں ان تحریکیوں سے زیادہ نادان کم فہم فریب خوردہ ، خوابوں کی دنیا میں جینے والا کوئی دوسرا گروہ نظرنہیں آتا۔ ان کا عالم ودانشوربھی پہلے سرپھرا ہے اس کے بعد جو کچھ ہے یا سب کچھ ہے ایسا لگتا ہے تحریکیوں کا ہرفرد خواہ سنجیدہ ہو یا غیرسنجیدہ عالم ہو یا عامی ہو عمردراز ہو یا کم عمر ہو کچھ نہ کچھ شیخ چلی ضرورہے اور ان میں ایک اچھی خاصی تعداد شیخ چلیوں ہی کی ہے۔ ان کا سرپھرا پن یا شیخ چلی پن ہے کہ خمینیت ان سے خوش ہے اوریہ اس کی خدمت کرکے خوش ہیں۔ ایک بڑی حقیقت یہ بن گئی ہے کہ پورے عالم میں ان تحریکیوں کے سامنے موجودہ دینی نشاطات میں ایران بمقابلہ سعودی عرب ہے۔ ایران کے اندر انقلاب ہے اس لئے وہ قابل قبول ہے اوراس کی ہرغلطی معاف ہے یا بنادی گئی ہے اورسعودی عرب ایک شاہی حکومت ہے اس لئے وہ قابل رفض ہے اوراس کی ساری خوبیاں بے کارہیں۔ یہ ہے ان کا طاغوتی چانکیائی فلسفہ اورفیصلہ اوروہابیت بھی تووجہ نفرت ہے وہی وہابیت جوکتاب وسنت کی صحیح تعلیم کا نام ہے۔
اورصوفی وطرقی مشائخ تووہابیت سے نفرت کی بنیاد پر خمینیت کے غیرمشروط ساتھی ہیں۔ صوفی اتجاہ تحریکی اتجاہ خمینیت کاخادم ٹھہرا۔ اب بچا کیا ۔ اہل سنت کے اصولوں کو سمجھنے والے علماء اوران سے وابستہ عوام اورسلفی اتجاہ والے۔ سلفی اتجاہ کے حامل کچھ انقلابی سروری اورکچھ مادہ پرست نعروں اور ہنگاموں کی نذرہیں۔اورکچھ مشروعات کا چھکڑا ڈھکیلنے کے لئے ہیں۔ گاؤوی لوگ دھرتی کے بوجھ نہ علم نہ دین نہ انسانیت فقط وبال انسانیت۔
اہل سنت بیچارگی کا عالم ہے صحابہ کی توقیر عزت او ردین کے ساتھ کھلواڑ ہورہا ہے امہات المومنین کی عزت کا مذاق ہورہا ہے لیکن تحریکی اور صوفی کے لئے یہ شاید کچھ نہیں۔ ان کے خمینی ہی ہیرو ہے اورانقلاب ایران وقت کا سب سے بڑا اسلامی عملی ماڈل۔ تف ہے ایسی سوچ پر سوبارتف اورمشکل یہ ہے کہ یکرکے فقیر، خوش فہمی کے حقاء کی جنت میں رہنے والے جہود پسند تحریکی بھی بنے ہوئے ہیں۔ خود انھیں کسی حقیقت کی خبرنہیں حکومت الہیہ کا خواب دیکھتے ہیں اورنجی محفلوں میں کوئی وزیر اعظم کوئی وزیراعلی کوئی گونرکوئی کمشترک کے پوسٹ کا خواہش مند ہے اس نادانی جہالت کے ہوتے رافضیت کو کیا الجھن ۔ ایسے لوگ توخمینیت کی گاڑی کے قلی پہلے ہی سے بنے تیارہیں بس انھیں قلی والا ملہ پانے کا انتظار ہے۔
اورگرخافیائی ان کوحکم دے دے کہ بہشت زبرا میں پہنچ کرگورکن کریں توشاید بڑے تحریکی دانشوربھی کندھے پرپھاوڑارکھ کراور پرپگڑمی باندھے ایران کے لئے روانہ ہوجائیں گے۔ والعیاذ باللہ
اگرانھیں رافضیت اورخمینیت کوکی خطرناکیوں اورگمراہیوں کے تعلق آگاہ کیا جائے توہراراغیر اتحاد کی گردانی سنانے لگتا ہے ۔ جبکہ تشیع کا اتحاد سے ازلی ہرہے۔لیکن ان گاؤدی لوگوں کو کون سمجھائے ۔ اللہ تعالی انھیں عقل دے ۔آمین
 
Top