• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سو کروڑ ڈالر 228سو کروڑ یوروسے زیادہ

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
سو کروڑ ڈالر 228سو کروڑ یوروسے زیادہ

حافظ یوسف سراج

کبھی کبھی یوں محسوس ہوتا ہے کہ بدعت کا رد کرتے کرتے ہم نے بدعت کے تنفر میں بھی کچھ اچھی روایات قائم ہونے نہیں دیں اور جو قائم ہوئیں انھیں پنپنے نہیں دیا. ظاہر ہے کچھ چیزیں دین ہوتی ہیں اور کچھ چیزیں رسوم و روایات یعنی انسانوں کے دین پر عمل پیرا ہونے اور دوسروں کو اچھائی کی طرف راغب کرنے کے اپنے اپنے موثر طریقے. جیسے مارکیٹ میں ایڈز چلتی ہیں. اور جس طرح بازار کے لوگ مختلف مناسبات اور تہواروں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی پراڈکٹ کی تشہیر کرتے ہیں ایسے ہی اگر اچھائی یا دین کے فروغ کے لئے بھی مناسبات اور مواقع سے فائدہ اٹھا لیا جائے تو شاید اس سے کچھ بہتری پیدا ہوسکے.

اب مثلاً آج دو چیزوں کا دن ہے.

1. چھ ستمبر یوم دفاع
2. عشرہ ذوالحجہ کا تیسرا دن.


چھ ستمبر کو چونکہ میڈیا ایونٹ کے طور پر لے رہا ہے. فوج اس دن میں بھر پور شریک ہے. قوم کو اس بارے senstise کیا گیا ہے. چنانچہ آج ہم پاکستانیوں کی اکثریت یہ تو جانتی ہے کہ آج چھ ستمبر یوم دفاع ہے.مگر وہ یہ نہیں جانتی کہ اس دفعہ یہ چھ ستمبر کس بابرکت عشرے میں آیا ہے. انھیں قطعاً اندازہ نہیں کہ ان کے لئے ان آسان ترین دس دنوں میں خیر ،برکت اور دین و دنیا کے نفع کی آسمان کی طرف سے کس قدر لوٹ سیل لگا دی گئی ہے. اب چونکہ وہ جانتے نہیں. سو جسے وہ جانتے نہیں اس بارے کاوش یا خواہش بھی کیا کریں گے سو عالم یہ ہے کہ منافع اور فائدے کا دریا ان کی ہر سانس کے ساتھ اور ان کے ہر در کی دہلیز کیساتھ بہہ رہا ہے مگر وہ بے چارے اس سے ایک قطرے کا بھی فائدہ نہیں اٹھا رہے.

آپ نے کئی ایسے مواقع دیکھے ہوں گے کہ جب آپ کی معمولی سی کوشش سے آپ کو اتنا فائدہ ہوجاتا ہے کہ آپ تو کیا آپ کی آئندہ کئی نسلیں بھی فراخی و خوشحالی سے زندگیاں گزار لیتی ہیں. مثلاً کسی نیلام یا انعام گھر میں سو کروڑ روپے یا ڈالر یا یورو یا پونڈ یا ایسا ہی کچھ قیمتی آپ کو محض ایک سوال کے درست جواب پر مل جائے تو غور کیجئے کہ آپ کی اس میں کیا محنت لگ جائے گی بھلا؟ پھر غور کیجئے کہ جس سوال پر آپ کو سو کروڑ مل گیا ، اس سوال کا جواب آپ کو ایک عرصے سے معلوم تھا. تاہم اس جاننے نے آپ کو کبھی سو کروڑ ڈالر کا فائدہ نہیں دیا. مگر یہاں ایک خاص ٹائم فریم میں آپ کو اس سے اتنا فائدہ ہو گیا کہ جو عمومی حالات اور عمومی قاعدوں کے تحت کبھی آپ کو ہونے والا نہ تھا. اب یوں دیکھئے کہ خدانخواستہ اگر یہی سوال آپ کو بروقت سوجھنے کے بجائے متعینہ وقت گزرنے کے بعد یاد آئے یا آپ کہیں کہ گو وقت گزر گیا لیکن اب بعد میں آپ ایک دفعہ کے بجائے ایک ہزار دفعہ یہی جواب دہرانے کو تیار ہیں تو کیا کوئی اس نادانی کو مانے گا اور ہمارے چاہنے کے باوجود کیا اس سے وہی فائدہ ہو سکے گا جو بر وقت جواب دینے پر ہوتا؟ یقیناً نہیں! کیونکہ ہر چیز حسب موقع ہی مفید ہوتی ہے. انگریزی میں کہتے ہیں کہ جو مکا آپ کو لڑائی کے بعد یاد آئے اسے اپنے ہی منہ پر جڑ لینا چاہئے .

اور پنجابی میں اس کا ترجمہ کچھ یوں بھی کیا جا سکتا ہے کہ

ویلے دی نماز تے کویلے دیاں ٹکراں!

اس سب تمہید کے بعد اب دو باتیں سن لیجئے.

نمبر 1.یہ جو دن گزر رہے ہیں، یعنی حج والے اسلامی مہینے ذوالحجہ کے یہ دس دن. میرا مطلب ہے کہ عیدالاضحیٰ آنے سے پہلے والے دس دن. یقین کیجئے کی یہ ا?پ کی زندگی کے سنہرے ترین دن ہیں. یوں سمجھے کہ آپ نیلام گھر میں کئی سو کروڑ یورو کئی ٹن سونا بلکہ اس سے کہیں بڑھ کر منافع کما سکتے ہیں. بات یہ ہے کہ آپ کی پوری زندگی میں آنے والے کسی بھی دس دنوں میں کئے گئے آعمال ان دس دنوں میں کئے گئے نیکی و خیر کے اعمال کی کبھی برابری نہیں کر سکتے. لیکن دیکھئے لگتا یوں ہے کہ شاید ہمیں اس اہم ترین موقع اور Golden chance کی کچھ خبر ہی نہیں .ہم انھیں اسی طرح معمول کے مطابق اڑائے چلے جاتے ہیں. لیجئے پیارے رسول کی زبان اقدس سے ان گنتی کے محض دس دنوں کی فضیلت اک ذرا ملاحظہ فرمائیے

سیدنا ابن عباس سے مروی ہے کہ رسولِ معظمﷺ نے فرمایا


عن ابن عباس قال قال رسول الله صلی اللہ علیه وسلم ما من أیام ۔۔۔۔ العمل الصالح فیهن أحب الی الله ۔۔۔۔ من هذہ الأیام العشرة، قالوا: یا رسول الله ولا الجهاد في سبیل اللہ؟ قال: ولا الجهاد في سبیل الله إلا رجل خرج بنفسه وما له فلم یرجع من ذلك بشيء (رواہ البخاری)

’’ذی الحجہ کے دس دنوں میں کیا گیا نیک کام خدا کو جتنا محبوب ہے اس کے علاوہ دیگر دنوں میں نہیں‘‘۔ صحابہؓ نے عرض کیا:اے اللہ کے رسول! کیا اللہ کے راستے میں اور دنوں میں کیا گیا جہاد بھی (ان دنوں کے عمل سے بڑھ کر نہیں)؟ فرمایا :’’نہیں۔ اور دنوں کا جہاد فی سبیل اللہ بھی نہیں‘ سوائے اس شخص کے کہ جواپنی جان و مال کے ساتھ نکلے اور پھر ان میں سے کسی چیز کے ساتھ بھی واپس نہ لوٹے (یعنی ہر دو چیزیں رب کی راہ میں پیش کر ڈالے) ‘‘۔

اسی مفہوم کی روایت سیدنا ابن عمرؓ کے حوالے سے مسند احمد میں بھی موجود ہے۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان دس دنوں کا کوئی عام عمل تو خیر باقی دنوں کے اعمال سے کیا میل کھائے گا کہ یہاں کا اک عام عمل عام دنوں کے جہاد سے بھی بڑھ کر ہے. اللہ اکبر!

یہ نصیب اکبر لوٹنے کی جا ہے!
کچھ اندازہ ہوا یہ دن کتنے قیمتی ہیں. پھر اس کے باوجود اگر آپ ان دنوں سے مسلمانوں کو فائدہ اٹھاتے نہیں دیکھتے تو دو ہی باتیں ہیں.

یا تو انھیں واقعی اس کا علم ہی نہیں.

یا پھر وہ اس سے فائدہ اٹھانے کا طریقہ نہیں جانتے. بالکل ویسے ہی کہ جیسے ایک شخص بی ایم ڈبلیو کا مالک تو ہے مگر نہ اسے ڈرائیور میسر ہے اور نہ اسے ڈرائیونگ آتی ہو.

میں دیکھتا ہوں کہ رمضان میں ادنٰی سے ادنٰی ایمان والا بھی محنت کرتا ہے. حالانکہ ان دس دنوں سے وہ دن کہیں مشکل یوں ہوتے کہ خالی پیٹ یعنی روزے کیساتھ مشقت اٹھانا ظاہر ہے آسان نہیں ہوتا. جبکہ یہاں روزہ فرض نہیں .دیگر نفل عبادات کے مانند ہے اور کوئی بھی عمل کیا جا سکتا. یہ فضیلت ہر نیک عمل کے لئے ہے

لوگوں کی عدم دلچسپی کی وجہ شاید یہ بھی ہے کہ جس طرح رمضان میں علمائے دین نے انھیں ایک ماحول دیا، یہاں وہ نہیں دیا سو سوائے مخصوص ترین اقلیت کے اکثریت ان عظیم ترین بابرکت دنوں سے فائدہ نہیں اٹھا رہی یا نہیں اٹھا سک رہی. تجویز یہ ہے کہ اگر علماء ان دس دنوں کی تشہیر کے ساتھ ساتھ مختلف پروگرام بھی مرتب کرسکیں . وہ خطبہ و وعظ کے ساتھ ساتھ عبادات کی عملی مجالس بھی بپا کریں تو عین ممکن ہے آہستہ آہستہ ہم ان دس دنوں سے بھی فائدہ اٹھانے والے بن جائیں. ڈر لیکن یہ ہے کہ کہیں میری یہ تجویز بدعت کے زمرے میں شمار کرکے مجھے احاطہ سرزنش میں نہ پکڑ لایا جائے. ویسے تو خیر یہ بھی غنیمت ہی ہوگا، جہاں ثقہ علما کے برعکس جاہلوں کے ہاں روش اور روٹین کفر سازی کی in ہو وہاں محض بدعتی کہہ کے چھوڑ دینا تو عین سخاوت اور جان بخشی ہو گی.
 
Last edited:
Top