• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سيدنا جعفر بن ابی طالب رضي اللہ عنہ

ابو عکاشہ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 30، 2011
پیغامات
412
ری ایکشن اسکور
1,491
پوائنٹ
150
جلیل القدر صحابی ، مبلغ اسلام اور عظیم جرنیل ذوالجناحین سیدنا جعفر طیار رضی اللہ عنہ کا ذکر خیر

1 ۔ سيدنا جعفر رضي اللہ عنہ کي دربارِ حبش ميں اسلام پر تقرير
مسلمانوں نے نجاشي سے گفتگو کے ليے اپني طرف سے سيدنا جعفر رضی اللہ عنہ کو منتخب کيا،
انہوں نے اس طرح تقرير کي :بادشاہ سلامت ! ہماري قوم نہايت جاہل تھي،ہم بت پوجتے تھے، مردار کھاتے تھے،بدکارياں کرتے تھے،رشتہ داروں اورپڑوسيوں کو ستاتے تھے،طاقت ورکمزوروں کو کھاجاتا تھا، غرض! ہم اسي بدبختي ميں تھے کہ اللہ نے خود ہي ہماري جماعت ميں سے ايک شخص کو ہمارے پاس رسول بنا کر بھيجا، ہم اس کي شرافت،راستي،ديانت داري اورپاکبازي سے اچھي طرح آگاہ تھے،اس نے ہم کو شرک وبت پرستي سے روک کر توحيد کي دعوت دي،راست بازي، امانت داري، ہمسايہ اوررشتہ داروں سے محبت کاسبق ہم کو سکھايا اورہم سے کہا کہ ہم جھوٹ نہ بوليں،بے وجہ دنيا ميں خونريزي نہ کريں،بدکاري اورفريب سے بازآئيں،يتيم کا مال نہ کھائيں،شريف عورتوں پر بدنامي کا داغ نہ لگائيں،بت پرستي چھوڑديں،ايک اللہ پر ايمان لائيں، نماز پر پڑھيں،روزے رکھيں، زکوۃ ديں،ہم اس پر ايمان لائے اوراس کي تعليم پرچلے ہم نے بتوں کو پوجنا چھوڑا،صرف ايک خدا کي پرستش کي،اورحلال کو حلال اورحرام کو حرام سمجھا، اس پر ہماري قوم ہماري جان کي دشمن ہوگئي، اس نے طرح طرح سے ظلم و تشدد کرکے ہم کو پھر بت پرستي اورجاہليت کے برے کاموں ميں مبتلا کرنا چاہا، يہاں تک کہ ہم لوگ ان کے ظلم و ستم سے تنگ آکر آپ کي حکومت ميں چلے آئے ۔
نجاشي نے کہا تمہارے نبي پر جو کتاب نازل ہوئي، اس کو کہيں سے پڑھ کر سناو،سیدنا جعفر رضی اللہ عنہ نے سورۃ مريم کي چند آيتيں تلاوت کيں تو نجاشي پر ايک خاص کيفيت طاري ہوگئي اس نے کہا اللہ کي قسم !يہ اور تورات ايک ہي چراغ کے پرتو ہيں اورقريش کے سفيروں سے مخاطب ہوکر کہا
واللہ! ميں ان کو کبھي واپس جانے نہ دوں گا۔
سفرائے قریش نجاشی سے صریح انکار سننے کے باوجود نہ ٹلے ۔انہوں نے کہا، کل ہم بادشاہ سے ایسی بات کریں گےکہ مسلمانوں کی خوشیوں پر پانی پھر جائے گا۔وہ پھر دربار میں پہنچ گئے اور کہا، یہ لوگ عیسیٰ ؑ بن مریم کے بارے میں بڑی غلط باتیں کرتے ہیں۔نجاشی نے سیدنا جعفر رضی اللہ عنہ کو بلا کر اس باب میں اسلام کا نقطۂ نظر دریافت کیا تو انھوں نے جواب دیا، عیسیٰ علیہ السلام اﷲ کا کلمہ اور اس کی روح ہیں،اﷲ نے کنواری مریم علیھا السلام کی طرف اسے القا کیا ،اس عفیفہ کو کسی بشر نے چھوا تھا نہ پہلے اس کا کوئی بچہ ہوا تھا ۔نجاشی نے ایک تنکا اٹھایا اور کہا،جو تم نے عیسیٰ علیہ السلام کی حقیقت بتائی ،اس میں اس تنکے جتنا اضافہ بھی نہیں کیا جا سکتا۔اس پر پادریوں نے ناک بھوں چڑھائی۔نجاشی نے کہا،چاہے تم ناک بھوں چڑھا لو۔ پھر سیدنا جعفر اور ان کے ساتھیوں سے مخاطب ہوکر کہا،جاؤ! میرے ملک میں اطمینان و سکون سے رہو۔جو تمھیں برا بھلا کہے گا ،سزا جھیلے گا۔اس نے قریش کے دیے ہوئے تحائف واپس کرنے کا حکم دیا اور کہا، ہمیں ان کی چنداں حاجت نہیں۔ (مسند احمد: ۴۴۰۰،۲۲۴۹۸)

2 ۔ سیدنا جعفر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلي اللہ عليہ وسلم کے مدينہ منورہ کي ہجرت کے چھ سال بعد تک حبشہ ہي ميں رہے،7 ھ ميں وہ حبش سے مدينہ آئے،يہ وہ زمانہ تھا کہ خيبر فتح ہوگيا تھا اور مسلمان اس کي خوشي منا رہے تھے کہ مسلمانوں کو اپنے دور افتادہ بھائيوں کہ واپسي کي دوہري خوشي حاصل ہوئي،سیدنا جعفررضی اللہ عنہ سامنے آئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو گلے سے لگايا اورپيشاني چوم کر فرمايا، ميں نہيں جانتا کہ مجھ کو جعفر کےآنے سے زيادہ خوشي ہوئي يا خيبر کي فتح سے ؟
(طبقات ابن سعد، مختصراً ذکر صحیح بخاري غزوہ خيبر ميں ہے )

سيدنا جعفر بن ابوطالب رضي اللہ عنہ کي آمد سے جہاں آپ صلي اللہ عليہ وسلم کو بے پناہ مسرت تھي وہيں عمومي طورپر تمام مسلمان اور خصوصي طورپر فقراء بہت خوش تھے ۔ اس لئے کہ جعفر رضي اللہ عنہ کي غريب پروري کا يہ عالم تھا کہ انہيں ’’ابوالمساکين‘‘ کے لقب سے ياد کيا جاتا تھا۔
سيدنا ابوہريرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہيں، ميں بھوک کي شدت کم کرنے کے ليے پيٹ پر پتھر باندھ ليا کرتا تھا ۔ اپنے پاس بيٹھے ہوئے صحابہ سے قرآن کي آيات سنتا اور ان کے بارے ميں سوالات کرتا ،محض اس ليے کہ وہ مجھے لے جاکرکچھ کھلا پلاديں ۔ مسکينوں کے ليے سب سے بھلے جعفر بن ابوطالب تھے وہ ہميں ساتھ لے جاتے اور گھر ميں موجود کھانا کھلا تے يہ بھي ہوا کہ وہ گھي کا خالي مشکيزہ اٹھا لائے اور ہم نے اسے پھاڑ کر اس ميں چپکا ہوا گھي چاٹ ليا ( صحیح بخاري )

سیدنا ابو موسیٰؓ کہتے ہیں کہ ہم یمن میں تھے کہ ہمیں رسول اللہﷺ کے مکہ سے نکلنے کی خبر پہنچی۔ پس ہم بھی آپﷺ کی طرف ہجرت کر کے روانہ ہوئے۔ میں اور میرے دو بھائی ایک ابو بردہ اور دوسرے ابو رہم تھے ، میں ان سے چھوٹا تھا اور ترپن یا باون یا کہا کہ پچاس سے کچھ اوپر آدمی میری قوم میں سے ہمارے ساتھ آئے۔ سیدنا ابو موسیٰ کہتے ہیں کہ ہم سب جہاز میں سوار ہوئے۔ اتفاق سے یہ جہاز ہمیں حبش کے ملک نجاشی بادشاہ کے پاس لے گیا۔وہاں ہمیں سیدنا جعفرؓ بن ابی طالب اور ان کے ساتھی ملے۔ سیدنا جعفرؓ نے کہا کہ ہمیں رسول اللہﷺ نے یہاں بھیجا ہے اور ہمیں یہاں ٹھہرنے کا حکم کیا ہے ، پس تم بھی ہمارے ساتھ ٹھہرو۔ پس ہم نے ان کے پاس قیام کیا۔ پھر ہم سب اکٹھے روانہ ہوئے اور ہم نبیﷺ کے پاس اس وقت پہنچے جب آپﷺ خیبر فتح کر چکے تھے۔ رسول اللہﷺ نے وہاں کے مالِ غنیمت سے ہمارا حصہ لگایا اور خیبر کی لڑائی سے جو شخص غائب تھا، اس کو حصہ نہ ملا سوائے ہماری کشتی والوں کے۔ اور بعض لوگ ہمیں (یعنی اہل سفینہ سے ) کہنے لگے کہ ہجرت میں ہم لوگ تم پر سبقت لے گئے ہیں۔ اور سیدہ اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا (جو ہمارے ساتھ آئی تھیں) اُمّ المؤمنین حفصہ رضی اللہ عنہا سے ملنے کو گئیں اور انہوں نے بھی نجاشی کے ملک میں مہاجرین کے ساتھ ہجرت کی تھی۔ سیدنا عمرؓ اُمّ المؤمنین حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئے اور سیدہ اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا ان کے پاس موجود تھیں۔ سیدنا عمرؓ نے اسماء رضی اللہ عنہا کو دیکھ کر پوچھا کہ یہ کون ہے ؟ اُمّ المؤمنین حفصہ رضی اللہ عنہا نے جواب دیا کہ یہ اسماء بنت عمیس ہے۔ تو انہوں نے کہا کہ جو حبش کے ملک میں گئی تھیں اور اب سمندر کا سفر کر کے آئی ہیں؟ اسماء رضی اللہ عنہا بولیں جی ہاں میں وہی ہوں۔ سیدنا عمرؓ نے کہا کہ ہم ہجرت میں تم سے سبقت لے گئے ، لہٰذا رسول اللہﷺ پر تم سے زیادہ ہمارا حق ہے۔ یہ سن کر انہیں غصہ آ گیا اور کہنے لگیں "اے عمر! اللہ کی قسم ہرگز نہیں، تم نے جھوٹ کہا۔ تم تو رسول اللہﷺ کے پاس موجود تھے ، تم میں سے بھوکے کو کھانا کھلاتے اور تمہارے جاہل کو نصیحت کرتے تھے اور ہم ایک دور دراز دشمنوں کی زمین حبشہ میں تھے ، اور ہماری یہ سب تکالیف اللہ اور اس کے رسولﷺ کی راہ میں تھیں۔ اللہ کی قسم! مجھ پر اس وقت تک کھانا پینا حرام ہے جب تک رسول اللہﷺ سے تمہاری بات کا ذکر نہ کر لوں اور ہم کو ایذا دی جاتی تھی اور ہمیں ہر وقت خوف رہتا تھا۔ عنقریب میں نبی کریمﷺ سے ذکر کروں گی، ان سے پوچھوں گی اور اللہ کی قسم نہ میں جھوٹ بولوں گی، نہ میں کجروی کروں گی اور نہ میں اس سے زیادہ کہوں گی"۔ جب نبیﷺ تشریف لائے تو سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا نے عرض کیا کہ یا نبی اللہﷺ! عمرؓ نے اس اس طرح کہا ہے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ تم سے زیادہ کسی کا حق نہیں ہے۔ کیونکہ عمرؓ اور ان کے ساتھیوں کی ایک ہجرت ہے اور تم کشتی والوں کی تو دو ہجرتیں ہوئیں(ایک مکہ سے حبش کو اور دوسری حبش سے مدینہ طیبہ کو)۔ سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا نے کہا کہ میں نے سیدنا ابو موسیٰ اور کشتی والوں کو دیکھا کہ وہ گروہ در گروہ میرے پاس آتے اور اس حدیث کو سنتے تھے۔ اور دنیا میں کوئی چیز ان کو رسول اللہﷺ کے اس فرمان سے زیادہ خوشی کی نہ تھی نہ اتنی بڑی تھی۔ سیدنا ابو بردہرضی اللہ عنہ نے کہا کہ سیدہ اسماء رضی اللہ عنھا نے کہا کہ میں نے ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ وہ مجھ سے اس حدیث کو (خوشی کے لئے ) بار بار سننا چاہتے۔ (صحیح مسلم سیدنا جعفر بن ابی طالب، اسماء بنتِ عمیس اور ان کی کشتی والوں کی فضیلت کا بیان۔)

3 ۔ سيدنا براءبن عازب رضي اللہ عنہ روايت کرتے ہيں کہ
عمرۂ قضا ادا کرنے کے بعد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم اور صحابہ مکہ سے لوٹنے لگے تو سید الشہدا حمزہ کی بیٹی عمارہ چچا چچا کرتے ہوئے آپ کے پیچھے لپکی
سيدنا علي رضي اللہ عنہ نے اسے لے ليا اور اس کا ہاتھ پکڑ کر سيدہ فاطمہ رضي اللہ عنھا سے کہا کہ اپنے چچا کي بيٹي کو لے لو انہوں نے اس کو سوار کرليا
تو اس کے متعلق سيدنا علي رضي اللہ تعالٰي عنہ، سيدنا زيد رضي اللہ تعالٰي عنہ اور سيدنا جعفر رضي اللہ تعالٰي عنہ جھگڑنے لگے
سيدنا علي رضي اللہ تعالٰي عنہ نے کہا ميں اس لڑکي کا مستحق ہوں کہ وہ ميرے چچا کي بيٹي ہے اور
سيدنا جعفر رضي اللہ تعالٰي عنہ نے دعوٰي کيا کہ وہ ميرے چچا کي بيٹي ہے اور اس کي خالہ ميري زوجيت ميں ہے (اس ليے ميں زيادہ مستحق ہوں)
سيدنا زيد رضي اللہ عنہ نے (اپنے استحقاق کا دعوي کيا اور) کہا کہ ميرے بھائي کي بيٹي ہے
چنانچہ نبي صلي اللہ عليہ وسلم نے اس کي خالہ کے حق ميں فيصلہ کيا اور فرمايا خالہ بمنزلہ ماں کے ہے
اورسيدنا علي رضي اللہ تعالٰي عنہ سے فرمايا کہ ميں تجھ سے ہوں اور تو مجھ سے اور
سيدنا جعفر رضي اللہ عنہ سے فرمايا کہ تم صورت سيرت ميں مجھ سے زيادہ مشابہ ہو
اور سيدنا زيد رضي اللہ عنہ سے کہا تو ہمارا بھائي اور مولا ہے ۔
صحيح بخاري:جلد اول:حديث نمبر 2586 صلح کا بيان

4 ۔ جنگ موتہ اور سيدنا جعفر رضي اللہ عنہ کی شہادت
(رحيق المختوم سے ليے گئے اقتباسات)
لشکر موتہ کے امراء اور رسول اللہ صلي اللہ عليہ وسلم کي وصيت:
رسول اللہ صلي اللہ عليہ وسلم نے اس لشکر کا سپہ سالار سيدنا زيد بن حارثہ رضي اللہ عنہ کو مقرر کيا اور فرمايا اگر زيد قتل کر دئيے جائيں تو جعفر اور جعفر قتل کر دئيے جائيں تو عبداللہ بن رواحہ سپہ سالار ہوں گے۔
(صحيح بخاري 2/611)
آپ صلي اللہ عليہ وسلم نے لشکر کے ليے سفيد پرچم باندھا اور اسے
سيدنا زيد بن حارثہ رضي اللہ عنہ کے حوالے کيا ۔ لشکر کو آپ صلي اللہ عليہ وسلم نے يہ وصيت بھي فرمائي کہ جس مقام پر سیدنا حارث بن عمير رضي اللہ عنہ قتل کيے گئے تھے وہاں پہنچ کر اس مقام کے باشندوں کو اسلام کي دعوت ديں اگر وہ اسلام قبول کر ليں تو بہتر، ورنہ اللہ سے مدد مانگيں اور لڑائي کريں آپ صلي اللہ عليہ وسلم نے فرمايا اللہ کے نام سے اللہ کي راہ ميں اللہ کے ساتھ کفر کرنے والوں سے غزوہ کرو اور ديکھو بدعہدي نہ کرنا ، خيانت نہ کرنا، کسي بچے اور عورت اور انتہائي عمر رسيدہ بڈھے کو اور گرجے ميں رہنے والے تارک الدنيا کو قتل نہ کرنا، کھجور اور کوئي درخت نہ کاٹنا اور کسي عمارت کو منہدم نہ کرنا۔ (ايضاً رحمۃ اللعالمين 2 /271)

جنگ کا آغاز اور سپہ سالاروں کي يکے بعد ديگرے شہادت:
اس کے بعد موتہ ہي ميں فريقين کے درميان ٹکراؤ ہوا اور نہايت تلخ لڑائي شروع ہوئي، تين ہزار کي نفري دو لاکھ ٹڈي دل کے طوفاني حملوں کا مقابلہ کر رہي تھي، عجيب و غريب معرکہ تھا، دنيا پھٹي پھٹي آنکھوں سے ديکھ رہي تھي،ليکن جب ايمان کي باد بہاري چلتي ہے تو اسي طرح کے عجائبات ظہور ميں آتے ہيں
سب سے پہلے رسول اللہ صلي اللہ عليہ وسلم کے چہيتے سیدنا زيد بن حارثہ رضي اللہ عنہ نے علم ليا اور ایسی بے جگري سے لڑے کہ اسلامي شہبازوں کے علاوہ کہيں اور اس کي نظير نہيں ملتي، وہ لڑتے رہے لڑتے رہے يہاں تک کہ دشمن کے نيزوں ميں گتھ گئے اور جام شہادت نوش فرما کر زمين پر آرہے،
اس کے بعد سیدنا جعفر رضي اللہ عنہ کي باري تھي، انہوں نے لپک کر جھنڈا اٹھايا اور بے نظير جنگ شروع کردي،جب لڑائي کي شدت شباب کو پہنچي تو اپنے سرخ و سياہ گھوڑے کي پشت سے کود پڑے کوچيں کاٹ ديں اور وار پر وار کرتے اور روکتے رہے يہاں تک کہ دشمن کي ضرب سے داہنا ہاتھ کٹ گيا، اس کے بعد انہوں نے جھنڈا بائيں ہاتھ ميں لے ليا اور اسے مسلسل بلند رکھا يہاں تک کہ باياں ہاتھ بھي کاٹ ديا گيا، پھر دونوں باقيماندہ بازوؤں سے جھنڈا آغوش ميں لے ليا اور اس وقت تک بلند رکھا جب تک کہ خلعت شہادت سے سرفراز نہ ہو گئے، کہا جاتا ہے کہ ايک رومي نے ان کو ايسي تلوار ماري کہ ان کے دو ٹکڑے ہو گئے، اللہ نے انہيں ان کے دونوں بازوؤں کے عوض جنت ميں دوبازو عطا کئے جن کے ذريعے وہ جہاں چاہتے اڑتے ہيں، اسي ليے ان کا لقب جعفر طيار اور جعفر ذوالجناحين پڑ گيا۔ (طيار معني اڑنے والا اور ذوالجناحين معني دو بازوؤں والا)
امام بخاري نے نافع کے واسطے سے ابن عمر رضي اللہ عنہ کا يہ بيان روايت کيا ہے کہ ميں نے جنگ موتہ کے روز سیدنا جعفر رضی اللہ عنہ کے پاس جبکہ وہ شہيد ہو چکے تھے، کھڑے ہو کر ان کے جسم پر نيزے اور تلوار کے پچاس زخم شمار کئے، ان ميں سے کوئي بھي زخم پيچھے نہيں لگا تھا۔
(صحيح بخاري 2/611)
ايک دوسري روايت ميں ابن عمر رضي اللہ عنہ کا يہ بيان اس طرح مروي ہےکہ ميں بھي اس جنگ ميں مسلمانوں کے ساتھ تھا، ہم نے جعفر بن ابي طالب رضی اللہ عنہ کو تلاش کيا تو انہيں مقتولين ميں پايا اور ان کے جسم ميں نيزے اور تير کے نوّے سے زيادہ زخم پائے،نافع سے عمري کي روايت ميں اتنا اور اضافہ ہے کہ " ہم نے يہ سب زخم ان کے جسم کے اگلے حصے ميں پائے"۔
( فتح الباري 7/512)
اس طرح کي شجاعت و بسالت سے بھرپور جنگ کے بعد
سیدنا جعفر رضي اللہ عنہ بھي شہيد کر ديے گئے
رسول اللہ صلي اللہ عليہ وسلم نے جنگ موتہ ہي کے روز جبکہ ابھي ميدان جنگ سے کسي قسم کي اطلاع نہيں آئي تھي وحي کي بناء پر فرمايا :
کہ جھنڈا زيد نے ليا اور وہ شہيد کر دئيے گئے، پھر جعفر نے ليا اور وہ بھي شہيد کر دئيے گئے ، پھر ابن رواحہ نے ليا اور وہ بھي شہيد کر دئيے گئے -------
اس دوران آپ صلي اللہ عليہ وسلم کي آنکھيں اشک بار تھيں ------- يہاں تک کہ جھنڈا اللہ کي تلواروں ميں سے ايک تلوار نے ليا ( اور ايسي جنگ لڑي کہ ) اللہ نے ان پر فتح عطا کي۔ (صحيح بخاري 2/ 611)

5 ۔ جس وقت سیدنا جعفر بن ابي طالب رضی اللہ عنہ شہيد ہوئے
تو نبي کريم صلي اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
اصنعوا لآل جعفر طعاماً فقد اتاہم ما يشغلہم (مسند احمد، ترمذي و ابن ماجہ )
تم جعفر کے گھر والوں کے لئے کھانے کا بندوبست کرو ان کو مشغول کرنے والي چيز پہنچ چکي ہے ۔
ابن سعد کي روايت ہے کہ رسول اللہ صلي اللہ عليہ وسلم نے جعفر بن ابوطالب کے گھر جانے ميں تين دن کا توقف کيا،پھر ان کے گھر پہنچے
تو فرمايا : آج کے بعد ميرے بھائي پر مت رونا،پھر فرمايا، ميرے بھتيجوں کو لے آؤ،وہ ابھي چھوٹے چھوٹے تھے، آپ نے انھيں پيار کيا ،ساتھ چمٹايا اور نائي کو بلا کر ان کے سر منڈائے پھر فرمايا، محمد بن جعفر ہمارے چچا ابو طالب سے مشابہت رکھتا ہے، عبداللہ بن جعفر کي جسماني ساخت اور اس کے اخلاق مجھ سے ملتے جلتے ہيں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ کا ہاتھ پکڑا،اسے بلند کيا اور تين باردعا فرمائي،اےاللہ ! توجعفر کے اہل خانہ ميں اس کاقائم مقام ہو جا، بہترين طريقے سے جس طرح تو اپنے نيک بندوں ميں سے کسي کي جگہ پرکر ديتا ہے، عبداللہ کے ہاتھوں ميں برکت ڈال دے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنھا سے کہا، تو تنگ دستي سے ڈرتي ہے ، ميں دنيا و آخرت ميں ان بچوں کا ولي ہوں،ان کے باپ کي جگہ ہوں۔
(ابودؤد، رقم ۴۱۹۲، مسند احمد، رقم ۱۷۵۰)
رسول اللہ صلي اللہ عليہ وسلم نے خيبر سے حاصل ہونے والے مال فے ميں سے آل جعفر کے ليے پچاس وسق (ايک وسق :ساٹھ صاع، پچاس وسق: پچاس اونٹوں پر لادا جانے والا غلہ) سالانہ مقرر فرمائے۔
6 ۔نبي صلي اللہ عليہ وسلم کي جعفر رضی اللہ عنہ کي اولاد سے شفقت برقرار رہي ،
عبداللہ بن جعفررضی اللہ عنہ کہتے ہيں،رسول اکرم صلي اللہ عليہ وسلم سفر سے واپس آتے تو آپ کے گھرانے کے بچوں سے آپ کا استقبال کرايا جاتا،ايک بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسي غزوہ سے لوٹے تو مجھے لے جايا گيا ،آپ نے مجھے آگے بٹھا ليا پھر سيدہ فاطمہ رضی اللہ عنھا کے ايک بيٹے (حسن يا حسين رضی اللہ عنھما) کو لايا گيا،آپ نے اسے اپنے پيچھے سوار کر ليا،ہم تينوں اسي طرح مدينہ ميں داخل ہوئے۔ (مسلم، رقم ۶۳۴۹)

ايک بار سیدہ اسماء رضی اللہ عنھا نے رسول اللہ صلي اللہ عليہ وسلم سے سوال کيا،جعفر (رضی اللہ عنہ) کے لڑکوں کو نظر بہت جلد لگتي ہے ،کيا ميں ان کے ليے جھاڑ پھونک کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمايا: ’’ہاں! کيونکہ اگر کسي چيز کے تقدير پر غلبہ پانے کا امکان ہوتا تووہ نظر ہي ہوتي ۔‘‘
(ترمذی، رقم ۲۰۵۹، مسند احمد، رقم ۲۷۴۷۰)
 
Top