• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سیدسلیم شاہ کے مزعومہ تضادات کا جائزہ

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
سیدسلیم شاہ کے مزعومہ تضادات کا جائزہ

عمران اسلم​
تاریخ اِسلامی کے تمام اَدوار اس بات کے شاہد ہیں کہ شریعتِ اِسلامیہ کے بہت سے مسائل اَیسے ہیں جن پر اہل علم حضرات ایک دوسرے سے مختلف آراء کا اِظہار کرتے رہے ہیں۔ اور یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ مابعد اَدوار کے تمام لوگ اس اختلاف کو علمی اَنداز میں قبول کرتے اور کتاب وسنت سے قریب تر مؤقف کو اَپنانے میں کسی قسم کی پس وپیش کو خاطرمیں نہیں لاتے رہے۔لیکن موجودہ دور میں ایک ایسے تجدد پسند طبقے کا ظہور ہوا جس نے اس علمی اختلاف کو اپنی مکروہ خواہشات کے تانے بانے بننے کے لیے اِستعمال کیا۔ اورتو اور ایسے ڈھیروں مسائل پر بھی تجدد پسندی کی چادر اوڑھا دی گئی جن پر صدیوں سے پوری اُمت متفقہ طور پر عمل کرتی آئی ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
انہی مباحث میں سے ایک ’تعدد قراء ات‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔دنیا بھر کے کروڑہا مسلمان قرآن کریم کی ایک سے زیادہ قراء ات کو من وعن تسلیم کرتے اور ان کے پڑھنے پڑھانے میں مشغول ہیں۔ برصغیر پاک وہند میں یہ موضوع عوامی سطح سے ذرا بلند ہے اَلبتہ علمی حلقے علم قراء ات کے تمام مباحث سے آشنا ہیں اس اَمر کی شدید ضرورت محسوس کی جا رہی تھی کہ اس اَہم ترین موضوع کو عوام تک رسائی بھی دی جائے لہٰذا اَراکینِ رُشد نے اس کا بیڑہ اٹھایا۔ دیگر اَہل علم حضرات کے تعاون اور اَراکین رشد کی انتھک محنت کی تیسری کڑی ’رُشد قراء ات نمبر سوم‘ کی صورت میں آپ کے سامنے ہے۔رُشد کے اس کام کو جہاں بہت سے عوامی اور علمی حلقوں کی جانب سے داد و تحسین موصول ہوئی وہیں ’تعدد قراء ات‘ کو فتنۂ عجم قرار دینے والوں کی سٹی بھی گم گئی کہ اس قدر بھاری بھرکم اور ناقابل تردید دلائل سے جان چھڑائی جائے تو کیسے؟ لہٰذا جب تمام تر کوشش کے بعد بھی ان کا کوئی جواب نہ بن پایا تو اِنتہائی بھونڈے طریقے سے ’رشد‘ میں اغلاط اور تضادات کا خارزار دکھا کر غم غلط کرنے کی کوشش کی گئی۔
یہی کہا تھا، میری آنکھ دیکھ سکتی ہے
کہ مجھ پہ ٹوٹ پڑا سارا شہر نابینا​
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
’رشد قراء ات نمبر‘ کو دیکھ کر آپے سے باہر ہونے والوں میں سے ایک نام سید سلیم شاہ صاحب کا ہے، جنہوں نے ’رشد‘ کی غوطہ زَنی کے بعد اس کی ڈھیروں ’اَغلاط‘ کی نشاندہی کی ہے ان کی گرانقدر آراء کا بوجھ ماہنامہ’ طلوعِ اسلام‘ کے شمارہ جنوری ۲۰۱۰ء نے اُٹھایا ہے۔ سید صاحب ’رشد‘ کے دو قراء ات نمبر دیکھ کر کافی غصے میں دکھائی دیتے ہیں اور اِن بھاری بھرکم جلدوں کو ’علمی رعب ودبدبہ‘کا نام دے رہے ہیں۔ بہر حال جو کچھ بھی ہے ’رُشد‘ نے تواتمام حجت کرتے ہوئے ’رشد وہدایت‘ کی طرف دعوت دے دی ہے، اب آپ کی مرضی چاہیں تو اس سے سرفراز ہوں یا ’علمی رعب ودبدبے‘ کا نام دے کر اپنے دل کو تسلی دینے کی راہ نکالیں۔
(١) سید صاحب سبعہ اَحرف میں نزول قرآن میں سہولت کس کے لیے تھی اِس سلسلے میں ’رُشد‘ کی آراء پر اظہار کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ بخاری شریف کی اس حدیث کامفہوم ماضی بعید میں تو معلوم نہ ہو سکا تھا، تاہم ماہنامہ ’رُشد‘ نے جو ہماری راہنمائی فرمائی ہے وہ درج ذیل ہے:
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭ حمزہ صاحب کا خیال ہے کہ’’ عربی زبان کے حوالے سے لوگوں کو یہ مشکل پیدا ہوئی تھی اور یہ مشکل تاقیامت اَہل عرب کے لیے ہی باقی ہے……‘‘
٭ جبکہ دوسری جگہ رقمطراز ہیں کہ’’ اس مشقت کے حوالے سے آسانی کی وجہ صحابہ ﷢ بنے لیکن وہ آسانی صرف صحابہ کے لیے نہیں ہے بلکہ قیامت تک کے تمام لوگوں کے لیے ہے۔‘‘
٭ آگے ایک جگہ پر حمزہ صاحب پھر لکھتے ہیں کہ ’’قرآن کریم چونکہ عربی زبان میں نازل ہوا ہے، اس لیے قرآن مجید میں عربی زبان کے حوالے سے کوئی مشکل کا اِحساس پایا جائے اور اس مشکل کے اِعتبار سے کچھ سہولت دے جائے تو اس حوالے سے خاص اَہل عرب کے لیے ہی اس مشقت کا اِزالہ کیا جائے گا۔‘‘
٭ ڈاکٹر مفتی عبدالواحد صاحب بھی کہتے ہیں کہ ’’یہ سہولت پوری اُمت کے لیے تھی۔‘‘
٭ ڈاکٹر عبدالعزیز القاری بھی اسی قسم کے خیالات رکھتے ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
سید صاحب نے کافی جانفشانی کے بعد ’رُشد‘ میں سے اَیسی عبارتیں ڈھونڈ ماری ہیں جن کو اگر سیاق وسباق سے ہٹا کر پیش کیا جائے تو ان میں باہم تضاد نظر آتاہے، لیکن حقیقتاً ایسا کچھ نہیں ہے۔ طوالت سے بچتے ہوئے ہم اُن تمام عبارتوں کو نقل کرنے کے بجائے صرف اِس قدر وضاحت کرتے چلیں کہ سبعہ اَحرف پر نزول قرآن کی حکمت پوری اُمت کے لیے آسانی اور سہولت کے طور پر تھی لیکن اس کی وجہ وہ مشقت بنی جو اہل عرب کو بعض الفاظ بولنے میں درپیش تھی۔ اب اَصلاً مشقت تو اہل عرب کی دور ہوئی لیکن سہولت قیامت تک کے تمام لوگوں کو فراہم ہوگئی۔ اس سلسلے میں وارد شدہ بیشتر اَحادیث کی رو سے بھی سے بھی یہی اَندازہ ہوتا ہے کہ یہ آسانی اور سہولت پوری اُمت کے لیے ہے اور رسول اللہﷺ کا اپنی اُمت کے لیے سہولت کا مطالبہ کرنے کاسبب تو اہل عرب ہیں البتہ عمومی طور پر پوری اُمت کے لیے سہولت ہے۔ حضرت ابی بن کعب﷜ کی روایت ملاحظہ ہو:
عن أبي بن کعب أن النبی ﷺ کان عند أضائۃ بني غفار فأتاہ جبریل فقال: ’’إِنَّ اﷲَ یَأْمُرُکَ أَنْ تُقْرِئَ أُمَّتَکَ عَلـٰی حَرْفٍ۔ قال: ’’أَسْأَلُ اﷲَ مُعَافَاتَہٗ وَمَغْفِرَتَہٗ إِنَّ أُمَّتِيْ لَا تُطِیْقُ ذٰلِکَ‘‘۔ ثم أتاہ الثانیۃ فذکر نحو ہذا، حتی بلغ سبعۃ أحرف۔ قال: ’’إِنَّ اﷲَ یَأْمُرُکَ أَنْ تُقْرِئَ أُمَّتَکَ عَلـٰی سَبْعَۃِ أَحْرُفٍ فَأَیُّمَا حَرْفٍ قَرَئُوْا عَلَیْہِ فَقَدْ أَصَابُوْا‘‘۔ (سنن أبی داؤد: ۱۴۷۸)
’’حضرت اُبی بن کعب﷜ سے روایت ہے کہ بے شک نبیﷺاَضاء ۃ بنی غفار کے پاس تھے آپﷺکے پاس جبریل﷤ آئے اور کہا یقینا اللہ آپ کو حکم دیتا ہے کہ آپ اپنی اُمت کو ایک حرف پر قرآن پڑھائیے، آپﷺنے فرمایا: ’’میں اللہ سے معافی اور بخشش کا سوال کرتاہوں ، میری اُمت اس (ایک حرف) پر پڑھنے کی طاقت نہیں رکھتی۔‘‘ سیدنا جبریل﷤ دوسری مرتبہ پھر آئے اور ویسا ہی ذکر کیا یہاں تک کہ سات حروف تک بات پہنچ گئی۔ (جبریل ﷤) کہتے ہیں: ’’اللہ تعالیٰ آپ کو حکم دیتا ہے کہ آپ اپنی امت کو سات حروف پر پڑھائی تو جو بھی وہ حرف پڑھیں گے درستگی کو پا لیں گے۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
مختلف قراء ات کا نزول مختلف عربی لہجات کے پیش نظر ہوا ہے اور یہ عربی لہجات اَہل عرب کے اَندر تھے، اہل عجم کا ان کے ساتھ کوئی تعلق نہیں تھا، اور اہل عرب کے اَندرہی یہ مشکل تھی کہ ایک لہجے کا پابند اگر دوسرے لہجے والے کو کیا جاتا تو اس کے لیے اس لہجے کو اختیار کرنا مشکل سمجھا جا تا تھا چنانچہ اس میں اہل عرب کو گنجائش دے دی گئی۔
جبکہ اہل عرب کے علاوہ تمام عجم جو لہجہ بھی اِختیار کریں گے وہ انہیں تکلفاً سیکھناپڑے گا۔لہٰذا ذکرکردہ تمام عبارات کو سیاق و سباق کے ساتھ پڑھا جائے تو حقیقتاً اَندازہ ہوگا کہ مشقت کا اِزالہ تو اَہل عرب سے ہوا لیکن سہولت سے مستفید پوری اُمت ہو گی۔
(٢) رشد میں بیان کردہ سبعہ احرف سے متعلقہ مختلف آراء کو سید صاحب نے عجب رنگ دیا ہے۔ کہتے ہیں :
٭ حمزہ صاحب اسے لہجات کا اِختلاف قرار دیتے ہیں۔
٭ ڈاکٹر مفتی عبدالواحد صاحب نے ابن جریر طبری کے حوالہ سے قبائل عرب کی سات لغات مراد لی ہیں۔
٭ محمد فیروز الدین شاہ صاحب کا کہنا ہے کہ یہ لغات ولہجات نہیں تھے۔
اس سب اِختلاف کو درج کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
’’کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اگر ’سبعہ اَحرف‘ کے مفہوم میں متقدمین میں اختلاف تھا تو ’رُشد‘ نے آکر کیا خاص کارنامہ سراَنجام دیا؟ اگر اس مسئلے کو حل کیا ہوتا تو کیابات تھی ’رُشد‘ کے مطالعے سے ہمیں تو یہی معلوم ہوا کہ: ان تمام حقائق کے باوجود جب اس سلسلے میں وارد ہونے والی جملہ اَحادیث کا بغور مطالعہ کیا جائے تو ایسی کوئی عبارت ہمیں دستیاب نہیں ہوئی جو ’سبعہ اَحرف‘ کی ایسی کامل اور شافی تفسیر کر دے جس سے نزاع ختم اور اختلاف کے دروازے بند ہوجائیں۔ (رشد۱؍۱۲۳)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
سبعہ اَحرف والی حدیث کے بارے میں پینتیس اَقوال ہوں یا چالیس ان سب پر ’رُشد‘ کا ایک یہی قول بھاری ہے۔ اَب جبکہ اس چیستاں کا کوئی ایسا معقول مفہوم دریافت ہی نہیں ہو سکا تو ’اہل رُشد‘ کی مرضی ہے کہ اس پر تمام عمر آپس میں یا کسی پر منکر حدیث کا لیبل لگا کر سرپھٹول کرتے پھریں۔‘‘
سید صاحب نے ان عبارات کو ایک دوسرے کے مقابل پیش کر کے جو طوفان برپا کیا ہے اور اپنے تئیں جو بہت دور کی کوڑی لائے ہیں اس کے جواب میں ہم اتنا ہی کہیں گے کہ سبعہ اَحرف کے مفہوم میں بیان کیا جانے والا تمام کا تمام اختلاف لفظی ہے جس کا عشرہ قراء ات کے ساتھ تعلق اِضافی ہے۔ جو سبعہ اَحرف سے مراد لغات لیتے ہیں وہ بھی عشرہ قراء ات کو مانتے ہیں۔ جو لہجات مراد لیتے ہیں وہ بھی عشرہ قراء ات کے قائل ہیں اور جو سبعہ سے اس کے علاوہ کوئی اور مفہوم مراد لیتے ہیں وہ بھی اُنہیں من وعن تسلیم کرتے ہیں مسئلہ تو صرف وابستگان ’اِشراق‘ اور’ طلوع اِسلام‘ کا ہے جو اس راعی جتنے اختلاف کو پہاڑ بنانے پر تلے ہیں۔ بصد ادب عرض ہے کہ سید صاحب! سبعہ اَحرف میں بیان کیا جانے والا اختلاف ہمیں دل و جان سے قبول ہے لیکن اس حوالے سے ’رُشد‘ نے جو کارنامہ سراَنجام دیا ہے وہ اسی شمارے میں حافظ فہداللہ مراد صاحب کاوہ مضمون ہے جس میں اس سے متعلقہ تمام اِشکالات کو دور کرتے ہوئے سبعہ اَحرف کا حقیقی مفہوم واضح کیا گیا ہے۔ ہم آپ کے زیر بارِ احسان ہوں گے کہ’ طلوع اِسلام‘ کی بغل سے نکلیں اور غیر جانبداری سے اس مضمون کا مطالعہ کر ڈالیں امکان ہے اس ’چیستاں کا معقول مفہوم‘ سمجھنے میں مشکل نہیں ہوگی۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
حدیث سبعہ اَحرف سے متعلقہ اَب تک جو اختلاف سامنے آیا ہے وابستگان علم تو اسے ایک علمی اختلاف قرار دیتے ہیں اور علمی انداز ہی میں اسے حل کرنے کے لیے کوشاں ہیں لیکن جناب مصر ہیں کہ حمزہ صاحب اسے لہجات کا اختلاف قرار دیتے ہیں ڈاکٹر مفتی عبدالواحدصاحب لغات کاجبکہ فیروز الدین شاہ صاحب کہتے ہیں کہ یہ لغات ولہجات نہیں تھے۔ تو شاہ صاحب آپ ایک بار پھر رُشد پر سرسری نظر دوڑائیے جس میں صفحہ نمبر۲۶۸ اور۲۷۳پر آپ کو ڈاکٹر حمزہ مدنی صاحب کا لہجات کے بجائے لغات کا مؤقف بھی مل جائے گا اسی طرح رُشد: ۱؍ ۲۶۹ ، ۲۷۰ پر اُنہوں نے اس کے لیے لغت ولہجہ دونوں لفظ اِستعمال کیے ہیں۔ مطلب یہ کہ آپ اُسے لغات کا اختلاف قرار دیں، لہجات کااِختلاف قراردیں یا پھر دونوں سے ہٹ کر کوئی اور اِختلاف اس سے عشرہ قراء ات پر کوئی حرف نہیں آتا۔
جہاں تک آپ نے عبدالعزیز القاری صاحب کے مضمون کا ایک جملہ نقل کیا ہے کہ’ حدیث سبعہ اَحرف کی ایسی کامل اور شافی تفسیر نہیں کی جاسکتی جس سے نزاع ختم اور اختلاف کے دروازے بن ہو جائیں۔‘
اگر ہم عبدالعزیر القاری صاحب کی اس سے ملحقہ مکمل عبارت نقل کریں تو احساس ہوگاکہ سید صاحب نے اس عبارت سے جو معنی کشید کرنے کی کوشش کی ہے فی الحقیقت ایسا کچھ نہیں ہے۔عبدالعزیز القاری کی مکمل عبارت ملاحظہ ہو:
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
یہ ہے وہ حدیث !!… جو اَہل علم میں ’حدیث حروف سبعہ‘کے نام سے معروف ہے۔ تمام اَئمہ اعلام (صحابہ، تابعین اور محدثین) کا اس حدیث کی روایت اور اُمت کے لیے نقل کرنے پر اتفاق و اجماع ہے۔ علاوہ اَزیں اس حدیث کی مذکورہ اَسانید اور روایت سے یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ جاتی ہے کہ یہ حدیث سنداً ’متواتر‘ہے جس کو ہر طبقہ سے جمہور محدثین اور ہر زمانہ سے ایک جم غفیر نے روایت کیاہے۔ لہٰذا اس حدیث کے تواتر میں نہ کوئی شک ہے اور نہ ہی کوئی اِضطراب ہے بلکہ ہم دیکھتے ہیں کہ جملہ رِوایات (قطع نظر اس سے کہ صحیح ہوں یا ضعیف) ’سبعہ‘ کے لفظ پر متفق و مجتمع ہیں۔ اسی طرح تمام اَحادیث آپﷺ کے اس فرمان ’علی سبعۃ أحرف‘ کو بالاتفاق نقل کرتی ہیں، ماسوائے سمرۃ بن جندب کی حدیث کے، جو عفان بن حماد کے طریق سے روایت ہونے والی حدیث ہے۔ جس کی تردید بھی اپنے مقام پر گذر چکی ہے۔
اِن تمام حقائق کے باوجود ! جب اس سلسلے میں وارد ہونے والی جملہ اَحادیث کا بغور مطالعہ کیا جائے تو ایسی کوئی عبارت ہمیں دستیاب نہیں ہوتی جو ’سبعہ اَحرف‘ کی ایسی کامل اور شافی تفسیر کردے جس سے نزاع ختم ہو اور اختلاف کے دروازے بند ہوجائیں۔لہٰذا مقصد کی تکمیل اور جواب کی تلاش و جستجو کے لیے اب ایسے علماء و محققین کی طرف ہم رجوع کرتے ہیں جو استنباط معانی میں تدبر و تفکر، دقت نظر اور غوروخوض کی اعلیٰ صلاحیتوں سے بہرہ ور ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
جب معاملہ اس قدر عظیم ہو کہ اس حدیث کو مشکلات اور متشابہات میں بھی شمار کیا گیاہے حتیٰ کہ ایک جماعت نے اس حدیث کے سمجھنے کو اور اس کے معانی و مفاہیم کے اِدراک کے اَہم کام کو اللہ تعالیٰ کی طرف تفویض کیا ہے تو مجھ جیسے کمترین کی طرف سے یہ عزم درست معلوم ہوتا ہے کہ اس عظیم حدیث کے معانی و مدلول پر اس قدر غور وفکر کیا جائے کہ عقل و فہم اس کے مشابہ ہونے کا اِنکار کردے اور قوم مسلم اس کی جامع مانع تفسیر کرکے سرفراز ہو۔ بایں وجہ کہ اس حدیث کاکتاب الٰہی سے گہرا تعلق ہے اور اپنے مدلول کے قابل قدر اور عالیٰ مقام ہونے سے گہرا واسطہ ہے۔‘‘(رشد قراء ات نمبر:۱؍۱۲۳)
سید سلیم صاحب کی عبارتوں میں قطع و برید ملاحظہ کیجئے کہ عبدالعزیز القاری تو ’سبعہ اَحرف‘ کے مفہوم کی شافی وضاحت کے لیے علماء ومحققین کی جانب رجوع کا درس دیں اور اس کی جامع ومانع تفسیر کر کے قوم مسلم کو سرفراز کرنے کے عزم کا اِظہار کریں اور سید صاحب بھرپور ملمع سازی اور فریب کاری کے ذریعے ان کی پوری عبارت نقل کرنے کے بجائے ایک جملہ ذکر کر کے نعرہ بلند کر دیں کہ اس چیستاں کا کوئی مفہوم دریافت ہی نہیں ہوسکا۔
 
Top