• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سیدسلیم شاہ کے مزعومہ تضادات کا جائزہ

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اس طرح باطنی حضرات کی تاویلات ہیں جن کی بنیاد پر انہوں نے شرعی واجبات سے راہِ فرار اختیار کیا ہے۔ بہرحال اگر کسی نے متواتر قراء ات کا اِنکار معقول تاویل کی وجہ سے کیاہے تو اُسے کافر نہیں قرار دیاجائے گا۔ البتہ اگر کوئی شخص تکبر و عناد اور بدنیتی کی بناء پر قراء تِ متواترہ کا اِنکار کرتا ہے تو اس کے کفر میں کوئی شبہ نہیں ہے ایسا انسان بالاجماع گمراہ اور اہل ایمان کے راستہ سے ہٹا ہوا ہے۔ (رشد:۲؍۱۵۸)
یہی رائے جمہور کی بھی ہے کہ قراء اتِ متواترہ کے بارے میں علم ہونے کے باوجود جو شخص ان کا اِنکار کرے گا اسے بلا تردد کافر قرار دیا جائے گا۔علامہ ابن جزری﷫ فرماتے ہیں:
’’أن الإجماع منعقد علی أن من زاد حرکۃ أو حرفا في القرآن أو نقص من تلقاء نفسہ مصرا علی ذلک یکفر۔‘‘ (منجد المقرئین:ص۹۷،۲۴۴)
’’اور اس بات پر اُمت کا اجماع ہے کہ جو کوئی اپنی طرف سے قرآن کریم میں کسی حرکت یا حرف کا اِضافہ کرے یا کمی کرے(تنبیہ کیے جانے اور تواتر تسلیم ہوجانے کے باوجود) اس (کمی وزیادتی) پر مصر ہو تو وہ کافر ہے۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(٧) سید صاحب مزید لکھتے ہیں:
٭ قرآن اور قراء ات مختلف ہیں یا ایک، اس کے بارے میں اَحمد میاں تھانوی صاحب لکھتے ہیں کہ ’’آپ یوں نہیں کہہ سکتے کہ یہ قراء ات ہیں اور یہ قرآن ہے اگر آپ قرآن اور قراء ات کو الگ الگ کریں گے تو اس میں قرآن کس کو کہیں گے؟‘‘
٭ حمزہ صاحب کا خیال ہے کہ’’قرآن اور قراء ات میں فرق ہے قرآن کہتے ہیں ان الفاظ کو جو منزل من اﷲ ہیں اور قراء ات اس قرآن کی خبر کو کہتے ہیں۔‘‘
٭ ڈاکٹر مفتی عبدالواحد صاحب کا خیال ہے کہ’’ قرآن اور چیز ہے اور قراء ات او رچیز ہیں قرآن تو اس چیز کا نام ہے جو مصاحف کے اَندر ثبت ہے اور رسول ﷺ پر نازل کیا گیا ہے اور تواتر سے نقل ہوتا چلا آیا ہے جبکہ قراء ات زبان سے اس کی اَدائیگی کا نام ہے قرآن ایک ہے اور قراء ات متعدد ہیں‘‘ مدنی صاحب بھی قراء ات اور قرآن کو ایک ہی چیز قرار دیتے ہیں۔‘‘
اِس قدر لکھنے کے بعد سید صاحب کچھ زیادہ ہی سیخ پا ہوگئے ہیں اور محترم حافظ زبیر صاحب کی زندگی کا مشن جاوید اَحمد غامدی صاحب کی مخالفت قرار دے رہے ہیں۔ اس کا جواب تو محترم حافظ صاحب کی وہ رشحات علم ہی ہیں جو آپ کو گاہے گاہے آئینہ دکھاتی رہتی ہیں۔ وہ آپ کی آنکھوں میں اس لیے کھٹکتے ہیں کیونکہ قرآن وحدیث کے مستند ذرائع سے لیس ہو کر اَبطال باطل اور اِستحاق حق کا فریضہ جو اَدا کر رہے ہیں اور وہ آپ کے بگھارے ہوئے فلسفے کے غبارے سے ہوا نکالنے میں کسی قسم کی دقیقہ فروگزاشت جو نہیں کرتے۔
رہی بات قرآن اور قراء ات کے مابین فرق کی تو اس سلسلے میں گذارش ہے کہ قرآن اور قراء ات کے مابین وہی فرق ہے جو حدیث اور سنت کے درمیان ہے۔ رسول اللہﷺکے اَقوال، اَفعال اور تقریرات کو سنت کا نام دیا جاتا ہے تو اس کی خبر کو حدیث کا۔اس اِعتبار سے آپ سنت اور حدیث کے مابین فرق بھی قرار دے سکتے ہیں اور یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ حدیث اور سنت کے درمیان کوئی فرق نہیں، کیونکہ بنیادی طور پر یہ ایک ہی حقیقت کے دو نام ہیں۔ بالکل اسی طرح قراء ات کے اَندر ہم جو چیز پڑھ رہے ہیں وہ قرآن ہے اور اس پڑھنے کا نام قراء ات ہے۔ ’الحمد ﷲ رب العالمین‘ قرآن مجید کو کہا جائے گا اور جس علم میں اُسے بطورِ روایت نقل کیا جائے گا اسے علم قراء ات کا نام دیں گے۔ جن حضرات نے قرآن اور قراء ات کے مابین فرق بیان کیا ہے انہوں نے اسی پہلو کو سامنے رکھ کر ایسا کہا ہے۔ ورنہ قرآن کو قراء ات سے یا قراء ات کو قرآن سے الگ نہیں کیا جاسکتا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(٨) سید صاحب کی نگاہِ عیار نے دو جملے اور ڈھونڈ مارے ہیں جن سے قراء اتِ قرآنیہ کے بارے میں ’ڈھیروں شکوک وشبہات‘ پیدا ہورہے ہیں۔چنانچہ لکھتے ہیں :
٭ نبی اکرمﷺنے اپنی زندگی میں جو مکمل قرآن لکھوایاتھا ڈاکٹر حمزہ مدنی اس کی ایک حکمت یہ بیان کرتے ہیں کہ’’ ما بعد اَدوار میں قرآن یا اس کے لفظوں کے حوالے سے کوئی اختلاف پیدا ہوجائے تو کوئی اَیسا معیار موجود ہوجو اختلافات کی صورت میں بطور معیار موجود ہو‘‘۔
٭ جبکہ اگلے ہی صفحہ پر حضرت عثمان﷜کے جمع کردہ قرآن کی حکمت بیان کرتے ہیں کہ ’’اس ضمن میں درپیش مشکل یہ تھی کہ لوگ قرآن کی تبیین کے ضمن میں رسول اللہﷺ کے اِرشادات کو بھی قرآن سے الگ نہ لکھنے کی وجہ سے غلطی سے تلاوت قرآن میں بطورِ قراء ات داخل کر لیا جاتا۔ حضرت عثمان﷜کے زمانے میں کسی مصدقہ مصحف کی عدم موجودگی کی وجہ سے اس قسم کے تغییری کلمات کا اِختلاف بھی زوروں پر پہنچا ہوا تھا۔ ‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
سید صاحب نے یہاں دو جملوں ’ایسا معیار موجود ہوجو اختلافات کی صورت میں بطور معیار موجود ہو‘ اور ’حضرت عثمان﷜ کے زمانے میں کسی مصدقہ مصحف کی عدم موجودگی‘ کو نشانے پر رکھتے ہوئے اس میں کجی کی صورت پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔ قارئین کرام اگر جمع قرآنی کے سلسلہ میں رسول اللہﷺاور ما بعد اَدوار کی تمام کیفیات پیش نظر رہیں تو اس قسم کے خیالات کا ابطال کرنے میں دیر نہیں لگے گی۔ رسولِ اکرمﷺ کی وفات کے بعد قرآن کریم جہاں لوگوں کے ذہنوں کی تختیوں پر نقش تھا وہیں یہ اَلفاظ کی صورت میں بھی مختلف لوگوں کے پاس موجود تھا، اور رسول اللہﷺ کا اَیسا کرنے کا مقصد اس اَندیشے کو زائل کرنا تھا کہ ما بعد اَدوار میں باقاعدہ ایک معیار کی عدم موجودگی میں اس میں کمی یا بیشی نہ کر دی جائے۔ سرور دو عالمﷺ کی وفات کے بعد حضرت ابو بکر صدیق﷜ نے تمام صحابہ کے اتفاق سے اس مختلف جگہوں پر لکھے ہوئے قرآن کو ایک جگہ پر مرتسم کر دیا اور اُسے اپنے پاس محفوظ رکھا۔پھر حضرت عمر ﷜ کے دورِ خلافت میں یہ مصحف آپ﷜ کے پاس رہا اور آپ﷜ کی وفات کے بعد یہ مصحف حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس منتقل ہوگیا۔ یاد رہے کہ یہ مصحف لوگوں کے پاس موجود نہیں تھا صرف حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس محفوظ تھا۔ اَب آپ حمزہ صاحب کی ذکر کردہ وہ مکمل عبارت ملاحظہ کریں جس کا ایک حصہ نقل کر کے سید صاحب اپنے آپ کو تیس مار خاں سمجھنے لگے ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
’’قرآن مجید کی اِبتدائے کتابت کے دور میں فرمایا تھا: ’’لَا تَکْتُبُوْا عَنِّيْ، وَمَنْ کَتَبَ عَنِّيْ غَیْرَ الْقُرْآنِ فَلْیَمْحُہٗ‘‘۔ (صحیح مسلم: ۵۳۲۶) کہ مجھ سے قرآن کریم کے علاوہ کچھ نہ لکھو، تاکہ وحی باللفظ کا وحی بالمعنی سے اِختلاط نہ ہوجائے، چنانچہ جب اِختلاط کا اَندیشہ ختم ہوگیا تو آپ نے حدیث لکھنے کی اِجازت دیدی، جیسا کہ رِوایات میں موجود ہے۔ اس ضمن میں درپیش مشکل یہ تھی کہ لوگ قرآن کی تبیین کے ضمن میں رسول اللہﷺکے اِرشادات کو بھی قرآن کے ہمراہ لکھ لیتے تھے، جنہیں بعد اَزاں قرآن سے الگ نہ لکھنے کی وجہ سے غلطی سے تلاوتِ قرآن میں بطورِ قراء ات داخل کرلیا جاتا۔ حضرت عثمان﷜ کے زمانہ میں کسی مصدقہ مصحف کی عدم موجودگی کی وجہ سے اس قسم کے تفسیری کلمات کا اختلاف بھی زوروں پر پہنچا ہوا تھا۔ لوگوں میں ان تفسیری توضیحات کے ضمن میں شدید اِختلاف چل رہا تھا کہ بعض لوگ اُنہیں قراء ت کا درجہ دے کر باقاعدہ تلاوت کرتے۔‘‘
اگر ہم ایک حوالے سے جناب سید کے مشکور نہ ہوں تو اِنتہائی نامناسب ہوگا کہ انہوں نے تضاداتِ رُشد پیش کرکے اہلِ رُشد کو ’بے حال‘ کرنے کے بعد اپنی گذارشات کے اَخیر میں ’رُشد‘ کے دو تین مضامین کو ’قابل قدر‘ بھی قرار دے دیا ہے۔ جس میں ڈاکٹر مفتی عبدالواحد صاحب، قاری حبیب الرحمن صاحب اور محترم عبدالعزیز القاری صاحب کے مضامین شامل ہیں اور ان مضامین کی پسندیدگی کی وجہ وہ عبارتیں ہیں جن کو سید صاحب نے سیاق وسباق سے ہٹا کر پیش کرنے کے بعد کھینچ تان کر یہ تأثر پیدا کرنے کی کوشش کی ہے کہ ’سبعہ اَحرف‘ کا مفہوم ابھی تک واضح نہیں ہو پایا ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
سید صاحب آپ نے ڈاکٹر عبدالعزیز القاری کے مضمون کو قابل قدر قرار دیا ہے۔ تو ہم سبعہ اَحرف اور قراء اتِ قرآنیہ سے متعلق انہی کا مؤقف پیش کرتے چلیں۔ ڈاکٹر عبدالعزیز القاری لکھتے ہیں:
’’اَحرف سبعہ قراء ات کی متعدد وجود ہیں جو باہم مختلف ہیں۔ اللہ کی طرف سے نازل کردہ ہیں اور قاری کے لیے جائز ہے کہ ان میں سے کسی ایک وجہ پر قرآن کی تلاوت کرے اور اس کی یہ تلاوت قرآن کی تلاوت ہی سمجھی جائے گی۔ سبعہ کے عدد سے مراد یہ ہے کہ وجوہ قراء ات(جو کہ منزل من اللہ ہیں) قرآن کے کسی ایک کلمہ میں اختلاف وتغیر کی اَنواع میں سے کسی ایک نوع کے ضمن میں زیادہ سے زیادہ سات تک ہو سکتی ہیں اسی طرح یہ بات لازمی نہیں کہ قرآن میں ہر جگہ پر تعداد سات ہی ہو۔ بلکہ لازم یہ ہے کہ بعض جگہ کم تو ہو سکتی ہے لیکن کسی بھی جگہ زیادہ سے زیادہ ایک کلمہ میں تبدیلی کی سات انواع ہی ہوسکتی ہیں۔‘‘
اَخیر میں ہم سید صاحب سے یہی عرض کریں گے کہ جناب! حدیث سبعہ اَحرف کے مفہوم سے متعلق بحث معرکۃ الآراء مسائل میں سے ہے جس کی تشریح و تعبیر میں اہل علم کے متعدد اَقوال موجود ہیںلیکن یہ بات طے ہے کہ سلف و خلف میں کوئی اَہل علم بھی تعددِّ قراء ات یا متنوع اَسالیب تلاوت کے نزول کا اِنکاری نہیں، بحث صرف سبعہ اَسالیب تلاوت کے بارے میں ہے جوایک علمی بحث ہے اور متنوع قراء اتِ قرآنیہ سے اس کاتعلق بھی اضافی ہے۔
٭_____٭_____٭
 
Top