• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالی کے ایک گستاخ کی سزا

محمد فراز

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 26، 2015
پیغامات
536
ری ایکشن اسکور
151
پوائنٹ
116
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
تفقه على أبي إسحاق، وبرع في الفقه، وكان من أهل الدين. أَنْبَأَنَا أَبُو الْمَعْمَرِ الأَنْصَارِيُّ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا الْقَاسِمِ يُوسُفَ بْنَ عَلِيٍّ الزَّنْجَانِيَّ، يَقُولُ سَمِعْتُ شَيْخَنَا أَبَا إِسْحَاقَ بْنَ عَلِيِّ ابن الفيروزآبادي، يَقُولُ: سَمِعْتُ الْقَاضِي أَبَا الطَّيِّبِ يَقُولُ: كُنَّا فِي حَلَقَةِ النَّظَرِ بِجَامِعِ الْمَنْصُورِ فَجَاءَ شَابٌّ خُرَاسَانِيٌّ فَسَأَلَ مَسْأَلَةَ الْمُصَرَّاةِ وَطَالَبَ بِالدَّلِيلِ، فَاحْتَجَّ الْمُسْتَدِلُّ بِحَدِيثِ أَبِي هُرَيْرَةَ الْوَارِدِ فِيهَا، فَقَالَ الشَّابُّ وَكَانَ خَبِيثًا: أَبُو هُرَيْرَةَ غَيْرُ مَقْبُولِ الْحَدِيثِ، قَالَ الْقَاضِي: فَمَا اسْتَتَمَّ كَلامَهُ حَتَّى سَقَطَتْ عَلَيْهِ حَيَّةٌ عَظِيمَةٌ مِنْ سَقْفِ الْجَامِعِ فَوَثَبَ النَّاسُ مِنْ أَجْلِهَا، وَهَرَبَ الشَّابُّ مِنْ يَدِهَا فَلَمْ يُرَ لَهَا أَثَرٌ. توفي يوسف في صفر هذه السنة، ودفن عند أبي حامد الأسفراييني.
قاضی ابوالطیب رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ہم جامع منصور میں ایک حلقے میں بیٹھے ہوئے تھے کہ اتنے میں ایک خراسانی نوجوان آیا تو اس نے جانور کے تھنوں میں دودھ روکنے کے مسئلے کے بارے میں پوچھا اور دلیل کا مطالبہ کیا تو ایک استدلال کرنے والے(محدث)نے اس مسئلے میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالی کی بیان کردہ حدیث پیش کی تو وہ خبیث نوجوان بولا:[ أَبُو هُرَيْرَةَ غَيْرُ مَقْبُولِ الْحَدِيثِ]ابوہریرہ کی حدیث مقبول نہیں ہے قاضی ابوالطیب نے فرمایا:اس نوجوان نے اپنی بات پوری نہیں کی تھی کہ اتنے میں جامع مسجد کی چھت سے ایک بہت بڑا سانپ گرپڑا تو لوگ بھاگنے لگے اور وہ نوجوان بھی اس سانپ کے آگے بھاگنے لگا (لوگوں نے بولا تب تب تو اس نے توبہ کی تو)بعد میں یہ سانپ غائب ہو گیا۔
(المنتظم لابن الجوزی17/106وسندہ صحیح)
قال شیخ زبیر علی زئی رحمہ اللہ فتاوی علمیہ وسنده صحیح جلد 2 پیج 266​
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
سیدنا ابوہریرهؓ کی ایک عظیم الشان کرامت

امام أبو الفرج عبد الرحمن بن علي بن محمد الجوزي (المتوفى: 597 ھ)
پانچویں صدی ہجری کے آخری سال کے واقعات کے ضمن میں لکھتے ہیں :

أَنْبَأَنَا أَبُو الْمَعْمَرِ الأَنْصَارِيُّ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا الْقَاسِمِ يُوسُفَ بْنَ عَلِيٍّ الزَّنْجَانِيَّ، يَقُولُ سَمِعْتُ شَيْخَنَا أَبَا إِسْحَاقَ بْنَ عَلِيِّ ابن الفيروزآبادي، يَقُولُ: سَمِعْتُ الْقَاضِي أَبَا الطَّيِّبِ يَقُولُ: كُنَّا فِي حَلَقَةِ النَّظَرِ بِجَامِعِ الْمَنْصُورِ فَجَاءَ شَابٌّ خُرَاسَانِيٌّ فَسَأَلَ مَسْأَلَةَ الْمُصَرَّاةِ وَطَالَبَ بِالدَّلِيلِ، فَاحْتَجَّ الْمُسْتَدِلُّ بِحَدِيثِ أَبِي هُرَيْرَةَ الْوَارِدِ فِيهَا، فَقَالَ الشَّابُّ وَكَانَ خَبِيثًا: أَبُو هُرَيْرَةَ غَيْرُ مَقْبُولِ الْحَدِيثِ، قَالَ الْقَاضِي: فَمَا اسْتَتَمَّ كَلامَهُ حَتَّى سَقَطَتْ عَلَيْهِ حَيَّةٌ عَظِيمَةٌ مِنْ سَقْفِ الْجَامِعِ فَوَثَبَ النَّاسُ مِنْ أَجْلِهَا، وَهَرَبَ الشَّابُّ مِنْ يَدِهَا فَلَمْ يُرَ لَهَا أَثَرٌ.
ترجمہ :

قاضی ابوالطیب رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ہم جامع منصور میں ایک علمی حلقے میں بیٹھے ہوئے تھے کہ اتنے میں ایک خراسانی نوجوان آیا ، تو اس نے جانور کے تھنوں میں دودھ روک کر اسے فرخت کرنے کے مسئلہ کے بارے میں پوچھا اور ساتھ دلیل کا مطالبہ کیا ، تو جواب دینے والے عالم نے اس مسئلہ میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالی کی بیان کردہ (صحیح بخاری کی ) حدیث پیش کی تو وہ خبیث نوجوان بولا( أبو هريرة غير مقبول الحديث )
یعنی ابوہریرہ کی حدیث مقبول نہیں ہے ، قاضی ابوالطیب نے فرمایا:اس نوجوان نے اپنی بات پوری نہیں کی تھی کہ اتنے میں جامع مسجد کی چھت سے ایک بہت بڑا سانپ گرپڑا تو لوگ بھاگنے لگے اور وہ نوجوان بھی اس سانپ کے آگے بھاگنے لگا (لوگوں نے بولا ۔ تُبْ تُبْ ، یعنی توبہ کر ،توبہ کر ، تو اس نے توبہ کی تو)بعد میں یہ سانپ غائب ہو گیا۔
المنتظم لابن الجوزی17/106۔۔وسندہ صحیح

قال شیخ زبیر علی زئی رحمہ اللہ فتاوی علمیہ وسنده صحیح جلد 2 پیج 266
)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اور یہی واقعہ امام الذھبی ؒ نے سیر اعلام النبلاء میں سیدنا الامام ابو ہریرۃ کے ترجمہ میں نقل فرمایا ہے :
قال الحافظ أبو سعد السمعاني: سمعت أبا المعمر المبارك بن أحمد، سمعت أبا القاسم يوسف بن علي الزنجاني الفقيه، سمعت الفقيه أبا إسحاق الفيروزابادي، سمعت القاضي أبا الطيب يقول:
كنا في مجلس النظر بجامع المنصور، فجاء شاب خراساني، فسأل عن مسألة المصراة ، فطالب بالدليل، حتى استدل بحديث أبي هريرة الوارد فيها، فقال - وكان حنفيا -: أبو هريرة غير مقبول الحديث
فما استتم كلامه حتى سقط عليه حية عظيمة من سقف الجامع، فوثب الناس من أجلها، وهرب الشاب منها وهي تتبعه.
فقيل له: تب تب.
فقال: تبت.
فغابت الحية، فلم ير لها أثر.
إسنادها أئمة.
(سیر اعلام النبلاء ، ج2 ص 619 )

ترجمہ :

قاضی ابوالطیب رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ہم جامع منصور میں ایک علمی حلقے میں بیٹھے ہوئے تھے کہ اتنے میں ایک خراسانی نوجوان آیا ، تو اس نے جانور کے تھنوں میں دودھ روک کر اسے فرخت کرنے کے مسئلہ کے بارے میں پوچھا اور ساتھ دلیل کا مطالبہ کیا ، تو جواب دینے والے عالم نے اس مسئلہ میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالی کی بیان کردہ (صحیح بخاری کی ) حدیث پیش کی تو وہ خبیث نوجوان جو حنفی تھا بولا ( أبو هريرة غير مقبول الحديث )
ابوہریرہ کی حدیث مقبول نہیں ہے ، قاضی ابوالطیب نے فرمایا:اس نوجوان نے اپنی بات پوری نہیں کی تھی کہ اتنے میں جامع مسجد کی چھت سے ایک بہت بڑا سانپ گرپڑا ، تو لوگ بھاگنے لگے اور وہ نوجوان بھی اس سانپ کے آگے بھاگنے لگا اور سانپ اس پیچھے بھاگنے لگا تو لوگوں نے بولا ۔ تُبْ تُبْ ، یعنی توبہ کر ،توبہ کر ، تو اس نے توبہ کی تو اسی وقت وہ سانپ وہاں سے غائب ہوگیا ، اور اس کا کوئی نشان نہ ملا "
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی وہ حدیث جو استدلال میں پیش کی گئی اور مقلد نوجوان نے رد کردی ، وہ یہ ہے :
حدثنا محمد بن عمرو، حدثنا المكي، أخبرنا ابن جريج، قال: أخبرني زياد، أن ثابتا، مولى عبد الرحمن بن زيد، أخبره أنه سمع أبا هريرة رضي الله عنه، يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من اشترى غنما مصراة، فاحتلبها، فإن رضيها أمسكها، وإن سخطها ففي حلبتها صاع من تمر»
ابوہریرہ ؓ کو یہ کہتے سنا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس شخص نے « مصراۃ » (تھنوں میں دودھ روک کر بیچی گئی بکری خریدی اور اسے دوہا ۔ تو اگر وہ اس معاملہ پر راضی ہے تو اسے اپنے لیے روک لے اور اگر راضی نہیں ہے تو (واپس کر دے اور) اس کے دودھ کے بدلے میں ایک صاع کھجور دیدے ۔ (صحیح البخاری ، البیوع حدیث نمبر 2151 )

اور اس حنفی نوجوان نے اپنی فقہ کی تقلید میں ہی یہ گستاخانہ رویہ اختیا کیا تھا ،

ملا جیون حنفی نے ( نور الا نوار )میں لکھا ہے :وان عرف بالعدالة والضبط دون الفقه كانس و ابي هريرة ان وافق حديثه القياس عمل به وان خالفه يترك الا بالضرورة " کہ اگر یہ (صحابی ) روای عدالت اور ضبط کے ساتھ تو معروف ہو ،لیکن فقیہ نہ ہو جیسا کہ انس و ابو ہریرہ رضی اللہ عنھا ہیں تو اگر ان کی حدیث قیاس کے موافق ہو گی تو اِ س پر عمل کیا جائے گا اور اگر قیاس کے خلاف ہو گی تو ضرورت کے تحت چھوڑ دیا جائے گا وگرنہ رائے قیاس کا دروازہ بند ہو جائے گا۔(نور الانوار جلد اول ص 509 ، طبع مکتبۃ البشری )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وقال المباركفوري رحمه الله في " التحفة " (1/33) :
‏فَإِنْ قِيلَ : قَدْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ النَّخَعِيُّ أَيْضًا إِنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ لَمْ يَكُنْ فَقِيهًا وَالنَّخَعِيُّ مِنْ فُقَهَاءِ التَّابِعِينَ .
قُلْت : قَدْ نُقِمَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ النَّخَعِيِّ لِقَوْلِهِ إِنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ لَمْ يَكُنْ فَقِيهًا , قَالَ الْحَافِظُ الذَّهَبِيُّ فِي الْمِيزَانِ فِي تَرْجَمَتِهِ : وَكَانَ لَا يُحْكِمُ الْعَرَبِيَّةَ رُبَّمَا لَحَنَ وَنَقَمُوا عَلَيْهِ قَوْلَهُ لَمْ يَكُنْ أَبُو هُرَيْرَةَ فَقِيهًا . اِنْتَهَى
. ‏
یعنی علامہ عبدالرحمن مبارکپوری رحمۃ اللہ علیہ سنن الترمذی کی شرح تحفۃ الاحوذی میں لکھتے ہیں :
اگر کوئی کہے کہ : امام ابراہیم نخعی ؒ بھی سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو غیر فقیہ کہتے ہیں ، حالانکہ نخعیؒ تابعین کے فقہاء میں سے ہیں ،
علامہ عبدالرحمن مبارکپوری فرماتے ہیں کہ : سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو غیر فقیہ کہنے پر ابراہیم نخعی ؒ سے انتقام لیا گیا ، ( یعنی انہیں معاف نہیں کیا گیا ، نہ ان کا قول قبول کیا گیا ،بلکہ ان کے اس قول کو رد کردیا گیا )
امام ذہبی ؒ میزان الاعتدال میں فرماتے ہیں کہ : النخعیؒ خود عربی بھی اچھی طرح نہیں جاتے تھے ، انہوں نے کئی مقامات پر غلطی کی ، اورجناب ابوہریرہ کے متعلق ان کے قول پر انہیں علماء کے طعن کا سامنا کرنا پڑا ،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے گستاخوں میں ایک بد نصیب نام مصر کے ادیب محمود ابو ریہ (
15 ديسمبر 1889 ۔۔۔ ديسمبر 1970 م ) کا بھی ہے ، اس بدبخت نے سنت مصطفی ﷺ کے رد میں بدنام زمانہ کتاب ۔۔۔ (اضواء على السنة المحمدية ) ۔۔ لکھی ، اس کتاب کا بڑا حصہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی شان گھٹانے اور ان کے متعلق تشکیک پیدا کرنے کے لئے سیاہ کیا ، اور اپنی عاقبت و اعمال نامہ سیاہ کیا ، اور روافض کو خوشی کا سامان بہم پہنچایا ، بلکہ انہیں سیدنا الامام ابو ہریرہ کو گالیاں دینے کیلئے مواد فراہم کیا ،

ہندوستان کے جید محقق علامہ ضیاء الرحمن الاعظمی کا قول الجزائر کے ایک عالم ابو الولید الجزائری نقل فرماتے ہیں :

حدثنا الشيخ محمد ضياء الاعظمي عمن حضر وفاة ابي رية (صاحب اضواء على السنة المحمدية) انه كان يصيح ساعة الاحتضار:اه قتلني ابو هريرة،اه قتلني ابو هريرة...
نسال الله العفو والعافية في الدنيا والآخرة

(ملتقی اہل الحدیث )
شیخ ضیاء الرحمن فرماتے ہیں : محمود ابو ریہ کی موت کے وقت اس کے پاس موجود ایک شخص نے مجھے بتایا کہ :جب موت اس کے سر پرکھڑی تھی ، تو وہ چیخ چیخ کر کہہ رہا تھا ، مجھے ابوہریرہ نے قتل کردیا ، مجھے ابوہریرہ نے مار ڈالا ،
( یعنی ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی گستاخی نے مجھے عذاب میں مبتلا کر رکھا ہے )

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

اور سیدنا الامام ابو ہریرہ وہ خوش نصیب صحابی ہیں جنہیں جناب رسول اللہ ﷺ نے خصوصی دعاء سے نوازا تھا
سیدناابوہریرہ خود کہتے ہیں کہ :
قَالَ قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ ادْعُ اللهَ أَنْ يُحَبِّبَنِي أَنَا وَأُمِّي إِلَى عِبَادِهِ الْمُؤْمِنِينَ، وَيُحَبِّبَهُمْ إِلَيْنَا، قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «اللهُمَّ حَبِّبْ عُبَيْدَكَ هَذَا - يَعْنِي أَبَا هُرَيْرَةَ - وَأُمَّهُ إِلَى عِبَادِكَ الْمُؤْمِنِينَ، وَحَبِّبْ إِلَيْهِمِ الْمُؤْمِنِينَ» فَمَا خُلِقَ مُؤْمِنٌ يَسْمَعُ بِي وَلَا يَرَانِي إِلَّا أَحَبَّنِي

(صحیح مسلم، الفضائل )
میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول! اللہ سے دعا مانگیں کہ وہ میری اور میری والدہ کی محبت اپنے مومن بندوں کے دلوں میں ڈال دے اور ہمارے دلوں میں ان کی محبت پیدا فرما دے تو جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اے اللہ! اپنے بندوں کے ہاں محبوب بنا دے اور مؤمنین کی محبت ان کے دلوں میں ڈال دے اور کوئی مومن ایسا پیدا نہیں ہوا جس نے میرا ذکر سنا ، یا مجھے دیکھا ہوا اور اس نے مجھ سے محبت نہ کی ہو۔"
اللہ ان سے راضی ہو ، اور ہمیں ان سے محبت کرنے والوں میں شامل فرمائے ۔ آمین
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
Last edited:

رحمانی

رکن
شمولیت
اکتوبر 13، 2015
پیغامات
382
ری ایکشن اسکور
105
پوائنٹ
91
اوپر مذکورہ واقعہ جس کی سند کو صحیح کہاگیاہے، ضرورت ہے کہ اسکے تمام رایوں کا تعارف پیش کیاجائے، تاکہ اس تصحیح کا اندازہ لگایاجاسکے،ورنہ درایتی نقطہ نگاہ سے دیکھئے کہ توواقعہ ہوتاہے قاضی ابوالطیب طبری کے دور میں اور اس واقعہ کا ذکر ہمیں پہلے پہل ملتاہے، ابن جوزی کی کتاب میں دونوں کے درمیان ایک طویل عرصہ ہے، پھر یہ واقعہ پیش آیا،شافعیوں کے سامنے، لیکن ان کی کتابیں اس سے خالی ہیں اور سب سے پہلے اس کو ذکر کرنے والے ایک حنبلی عالم ہیں،
دوسری بات یہ ہے کہ بہت ساری کرامتیں سن کر ہمارے اہل حدیث یاغیرمقلد حضرات فرمایاکرتے ہیں کہ ایسی کرامت صحابہ کرام کے دورمیں کیوں نہیں ہوئی، اسی طرز پر سوال یہ ہے کہ جب شیعہ اوررافضی حضرات تمام صحابہ کرام بالخصوص شیخین کی انتہائی برائی کرتے ہیں، ام المومنین حضرت عائشہ کی شان میں گستاخی کرتے ہیں تو ان سے کوئی اجگر کیوں نہیں لپٹتا،کیایہ سانپ صرف حنفیوں کیلئے مخصوص ہے، معتزلہ نے احادیث پر بڑی بے باکی سے گفتگو کی ہے،لیکن ان کے کسی فرد کے بارے میں یہ سننے میں نہیں آتاکہ کسی کوبرا نے ان کو ڈساہو،خوارج کا حضرت علی کے بارے میں موقف معلوم ہے، صحابہ کرام سے ان کی جنگ وکشت تاریخ کے صفحات پر مرقوم ہے، لیکن سانپ صرف ایک حنفی نوجوان کے مقدر میں آیا،سبحان اللہ،یہ ہے، سند پرستی کہ کوئی اگر کہے کہ کو اتمہارا کان لے گیا تو اپناکان ٹٹول کردیکھنے کے بجائے کہ واقعی کان اپنی جگہ ہے یانہیں، سیدھے کہنے لگو کہ کہنے والے کو فلاں شخص نے ثقہ کہاہے، اس لئے اگر چہ کان موجود ہےلیکن میں مانوں گا کہ کوا کان لے گیا۔
إِنْ قِيلَ : قَدْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ النَّخَعِيُّ أَيْضًا إِنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ لَمْ يَكُنْ فَقِيهًا وَالنَّخَعِيُّ مِنْ فُقَهَاءِ التَّابِعِينَ .
قُلْت : قَدْ نُقِمَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ النَّخَعِيِّ لِقَوْلِهِ إِنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ لَمْ يَكُنْ فَقِيهًا , قَالَ الْحَافِظُ الذَّهَبِيُّ فِي الْمِيزَانِ فِي تَرْجَمَتِهِ : وَكَانَ لَا يُحْكِمُ الْعَرَبِيَّةَ رُبَّمَا لَحَنَ وَنَقَمُوا عَلَيْهِ قَوْلَهُ لَمْ يَكُنْ أَبُو هُرَيْرَةَ فَقِيهًا . اِنْتَهَى
. ‏
یعنی علامہ عبدالرحمن مبارکپوری رحمۃ اللہ علیہ سنن الترمذی کی شرح تحفۃ الاحوذی میں لکھتے ہیں :
اگر کوئی کہے کہ : امام ابراہیم نخعی ؒ بھی سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو غیر فقیہ کہتے ہیں ، حالانکہ نخعیؒ تابعین کے فقہاء میں سے ہیں ،
علامہ عبدالرحمن مبارکپوری فرماتے ہیں کہ : سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو غیر فقیہ کہنے پر ابراہیم نخعی ؒ سے انتقام لیا گیا ، ( یعنی انہیں معاف نہیں کیا گیا ، نہ ان کا قول قبول کیا گیا ،بلکہ ان کے اس قول کو رد کردیا گیا )
عجیب جہالت ہے، ترجمہ کرنے سے پہلے ایک مرتبہ لغت کی جانب اگررجوع کرلیتے تو کیاہی اچھاہوتا،کس چیز کا انتقام لیااورکیاانتقام لیاگیا،یہ مترجم نے واضح نہیں کیا۔
نقم کا ترجمہ تنقید انکار اورمعیوب سمجھاہے، براہ کرم لکھنے سے پہلے ایک مرتبہ لغت کی جانب رجوع کرلیاکریں، بسااوقات تھوڑی سے تبدیلی سے معنی بدل جایاکرتے ہیں۔
نقم جب بھی قول کے ساتھ آئے گا،اس کا ترجمہ تنقید، انکار اور معیوب سمجھاہوگا، صحیح ترجمہ ہوگاکہ ابراہیم نخعی کے اس قول پر تنقید کی گئی ؍اس قول کو معیوب سمجھاگیا،اس قول کا انکار کیاگیا۔
امید ہے کہ ایڈمن حضرات ترجمہ درست کردیں گے۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
ورنہ درایتی نقطہ نگاہ سے دیکھئے کہ توواقعہ ہوتاہے قاضی ابوالطیب طبری کے دور میں اور اس واقعہ کا ذکر ہمیں پہلے پہل ملتاہے، ابن جوزی کی کتاب میں دونوں کے درمیان ایک طویل عرصہ ہے، پھر یہ واقعہ پیش آیا،شافعیوں کے سامنے، لیکن ان کی کتابیں اس سے خالی ہیں اور سب سے پہلے اس کو ذکر کرنے والے ایک حنبلی عالم ہیں،
درایت شریف کے اتنے نادر نشتر چلانے کا تکلف کیسا ؟
بلا جھجک صاف فرمادیتے کہ :
یہ سانپ کسی اہل حدیث نے چھت سے پھینکا ہوگا ، یا کسی شافعی نے (چائنہ کا کھلونا ) حنفی مقلد کو ڈرانے کیلئے پھینک دیا ہوگا ؟
ویسے سچ پوچھئے تو ایک مقلد کو کسی واقعہ کی روایتی ، و درایتی چھان بین کرتے خوشی ہوئی ،
کیونکہ یہاں تو مقلدین کے علماء و فضلاء تک کی تان اکثر ( بزرگ فرماتے ہیں ) پر ٹوٹتی ہے ،
بزرگ فرماتے ہیں مردہ قبر شریف سے باہر نکلا ، بزرگ فرماتے ہیں مردہ نے گھر میں دفن اشرفیوں کی دیگچی کی لوکیشن بتائی ،وغیرہما
اور یہ " بزرگ اکثر مجہول ۔۔ اور امام غائب ٹائپ ہستیاں " ہوتے ہیں ، سو اس ماحول میں کسی کا واقعات کی حقیقت کیلئے۔۔ درایتی ہتھیار اٹھانا۔۔خوش آئند ہے ، اور کوئی اعتراف کرے نہ کرے اہل حدیث حضرات کی محنت رنگ لا رہی ہے ،
ع ـــــ
ہمارے اشک تیری عاقبت سنوار چلے

اور عرض ہے کہ اس واقعہ کی اسناد و حوالہ ساتھ موجود ہے ، سو جلال جھٹک کر درایتی ہتھیاروں سے بے دریغ آپریشن کیجئے ،
ویسے ہم نے اس واقعہ پر اعتبار کیلئے جرح و تعدیل کے امام ذہبی رحمہ اللہ کا قول دیکھ رکھا ہے کہ (إسنادها أئمة ) لیکن آپ اس کا لحاظ کیئے بغیر ۔۔ اپنی درایت ۔۔ کی کسوٹی پر پرکھ لیجئے ، اور ہمیں بھی آگاہ فرمایئے گا ۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
عجیب جہالت ہے، ترجمہ کرنے سے پہلے ایک مرتبہ لغت کی جانب اگررجوع کرلیتے تو کیاہی اچھاہوتا،کس چیز کا انتقام لیااورکیاانتقام لیاگیا،یہ مترجم نے واضح نہیں کیا۔
نقم کا ترجمہ تنقید انکار اورمعیوب سمجھاہے، براہ کرم لکھنے سے پہلے ایک مرتبہ لغت کی جانب رجوع کرلیاکریں، بسااوقات تھوڑی سے تبدیلی سے معنی بدل جایاکرتے ہیں۔
نقم جب بھی قول کے ساتھ آئے گا،اس کا ترجمہ تنقید، انکار اور معیوب سمجھاہوگا، صحیح ترجمہ ہوگاکہ ابراہیم نخعی کے اس قول پر تنقید کی گئی ؍اس قول کو معیوب سمجھاگیا،اس قول کا انکار کیاگیا۔
غصہ جھٹک دیجئے !
ہم نے (نقم علیہ ) کے تحت صاف لکھا تھا کہ :
نہ ان کا قول قبول کیا گیا ،بلکہ ان کے اس قول کو رد کردیا گیا )
جو عجلت میں آپ کو نظر نہ آسکا ۔۔۔خیر کوئی بات نہیں اب دیکھ لیجئے ،فارجع البصر
اصل میں آپ قاضی ابوالطیب کا جملہ :
تو جواب دینے والے عالم نے اس مسئلہ میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالی کی بیان کردہ (صحیح بخاری کی ) حدیث پیش کی تو وہ خبیث نوجوان جو حنفی تھا بولا ( أبو هريرة غير مقبول الحديث )
ان الفاظ کو دیکھتے ہی آپ نے جواب کیلئے ہتھیاراٹھالئے ،اور لغت ہائے حجازی دیکھنے کی تلقین فرمانے لگے ،
شاید آپ کے ہاں ۔۔ انتقام لیا ۔۔ کا مطلب ۔۔ تلوار اٹھالی ۔۔ کیا جاتا ہوگا ،
بہرحال پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ،ہمارا مطلب امام نخعیؒ کو گولی ،لاٹھی کی زد میں لانا نہیں تھا ،
بس ان کے موقف کو رد کیا گیا ،یہی بتانا تھا ،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
امام ابراھیم نخعیؒ اور ملا جیون وغیرہما سیدنا الامام ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو فقاہت سے عاری کہتے ہیں
تو ان کے کہنے کی حیثیت نہیں ،
سیدنا ابوہریرہ کو امام الانبیاء ﷺ کی سند کافی ہے :
عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ المَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّهُ قَالَ: قِيلَ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَنْ أَسْعَدُ النَّاسِ بِشَفَاعَتِكَ يَوْمَ القِيَامَةِ؟ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَقَدْ ظَنَنْتُ يَا أَبَا هُرَيْرَةَ أَنْ لاَ يَسْأَلُنِي عَنْ هَذَا الحَدِيثِ أَحَدٌ أَوَّلُ مِنْكَ لِمَا رَأَيْتُ مِنْ حِرْصِكَ عَلَى الحَدِيثِ أَسْعَدُ النَّاسِ بِشَفَاعَتِي يَوْمَ القِيَامَةِ، مَنْ قَالَ لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، خَالِصًا مِنْ قَلْبِهِ، أَوْ نَفْسِهِ»


جناب سعید المقبری ؒ سیدنا ابوہریرہ ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے عرض کیا ، یا رسول اللہ ! قیامت کے دن آپ ﷺ کی شفاعت سے سب سے زیادہ سعادت کسے ملے گی ؟ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ، اے ابوہریرہ ؓ مجھے یقین تھا کہ تم سے پہلے کوئی اس کے بارے میں مجھ سے دریافت نہیں کرے گا ۔ کیونکہ میں نے حدیث کے متعلق تمہاری حرص دیکھ لی تھی ۔ سنو ! قیامت میں سب سے زیادہ فیض یاب میری شفاعت سے وہ شخص ہو گا ، جو سچے دل سے یا سچے جی سے « لا إلہ إلا اللہ » کہے گا ۔(صحیح بخاری ،کتاب العلم )
 
Last edited:
Top