محمد علی جواد
سینئر رکن
- شمولیت
- جولائی 18، 2012
- پیغامات
- 1,986
- ری ایکشن اسکور
- 1,551
- پوائنٹ
- 304
محترم -اوپر مذکورہ واقعہ جس کی سند کو صحیح کہاگیاہے، ضرورت ہے کہ اسکے تمام رایوں کا تعارف پیش کیاجائے، تاکہ اس تصحیح کا اندازہ لگایاجاسکے،ورنہ درایتی نقطہ نگاہ سے دیکھئے کہ توواقعہ ہوتاہے قاضی ابوالطیب طبری کے دور میں اور اس واقعہ کا ذکر ہمیں پہلے پہل ملتاہے، ابن جوزی کی کتاب میں دونوں کے درمیان ایک طویل عرصہ ہے، پھر یہ واقعہ پیش آیا،شافعیوں کے سامنے، لیکن ان کی کتابیں اس سے خالی ہیں اور سب سے پہلے اس کو ذکر کرنے والے ایک حنبلی عالم ہیں،
دوسری بات یہ ہے کہ بہت ساری کرامتیں سن کر ہمارے اہل حدیث یاغیرمقلد حضرات فرمایاکرتے ہیں کہ ایسی کرامت صحابہ کرام کے دورمیں کیوں نہیں ہوئی، اسی طرز پر سوال یہ ہے کہ جب شیعہ اوررافضی حضرات تمام صحابہ کرام بالخصوص شیخین کی انتہائی برائی کرتے ہیں، ام المومنین حضرت عائشہ کی شان میں گستاخی کرتے ہیں تو ان سے کوئی اجگر کیوں نہیں لپٹتا،کیایہ سانپ صرف حنفیوں کیلئے مخصوص ہے، معتزلہ نے احادیث پر بڑی بے باکی سے گفتگو کی ہے،لیکن ان کے کسی فرد کے بارے میں یہ سننے میں نہیں آتاکہ کسی کوبرا نے ان کو ڈساہو،خوارج کا حضرت علی کے بارے میں موقف معلوم ہے، صحابہ کرام سے ان کی جنگ وکشت تاریخ کے صفحات پر مرقوم ہے، لیکن سانپ صرف ایک حنفی نوجوان کے مقدر میں آیا،سبحان اللہ،یہ ہے، سند پرستی کہ کوئی اگر کہے کہ کو اتمہارا کان لے گیا تو اپناکان ٹٹول کردیکھنے کے بجائے کہ واقعی کان اپنی جگہ ہے یانہیں، سیدھے کہنے لگو کہ کہنے والے کو فلاں شخص نے ثقہ کہاہے، اس لئے اگر چہ کان موجود ہےلیکن میں مانوں گا کہ کوا کان لے گیا۔
مذکورہ روایت کی اسنادی و درایتی حیثیت تو اہل علم ہی بہتر بیان کرسکتے ہیں - لیکن آپ کے اندازے بیان پر حیرت اس لئے نہیں ہوئی کہ حنفیوں کا وطیرہ ہمیشہ یہی رہا ہے کہ اپنے امام کے مرتبے کو سب سے بلند رکھو اور اس کو نیچے نہ گرنے دو - ظاہر ہے کہ جب آپ کے امام (ابو حنیفہ) چالیس سال تک (بلا ناغہ) عشاء کے وضو سے فجر کی نمار پڑھتے رہے اور اس پر کسی حنفی نے درایت کی رو سے کبھی اعتراض نہیں کیا (کہ اگر وہ اعتراض کردیتا تو شاید اس کو عذاب قبر کی نوید سنا دی جاتی)- تو پھر مذکورہ روایت پر اعتراض تو کچھ بھی مشکل نہیں-