حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بطور مفتی
آپ بال کی کھال اتارنے کے سخت خلاف تھے۔ اس لئے واقع ہونے سے پہلے فرضی مسائل کا جواب ہی نہیں دیتے تھے۔
ایسے سوالات کے بارے میں آپ فرماتے "
لا ادری" یعنی میں نہیں جانتا۔
(المعرفۃ والتاریخ ٤٩٠/١ واسنادہ حسن )
ایک دفعہ ایک شخص کے سوال پر آپ نے فرمایا "
لا ادری"
کیا تمھارا یہ ارادہ ہے کہ جہنم میں ہماری پیٹھوں کا پل بنا کر کہو:ابن عمر رضی اللہ عنہ نے ہمیں یہ فتویٰ دیا تھا؟
(الفقیہ والمتفقہ للخطیب البغدادی ١٧٢/٢ واسنادہ حسن)
نافع بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے ایک مسئلہ پوچھا تو انھوں نے سر جھکا لیا اور کوئی جواب نہ دیا لوگ سمجھے کہ آپ نے سوال نہیں سنا۔کہا گیا:اللہ آپ پر رحم کرے،کیا آپ نے سوال نہیں سنا؟ فرمایا:جی ہاں! سنا ہے لیکن تمھارا کیا خیال ہے،کیا اللہ تعالیٰ ہم سے نہیں پوچھے گا کہ تم لوگوں کو کیا مسئلے بتاتے تھے؟ہمیں سوال سمجھنے دو،اگر ہمارے پاس جواب ہوا تو دیں گے ورنہ کہیں گے ہمیں کچھ علم نہیں۔
(ابن سعد ١٦٨/٤ وسندہ حسن)
ایک شخص نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے حجر اسود کو چومنے کا پوچھا ۔انھوں نے کہا:میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہے کہ آپ اس کو ہاتھ لگاتے اور چومتے تھے۔اس شخص نے کہا بھلا بتائیں!اگر ہجوم ہو یا عاجز ہو جاؤں تو کیا کروں؟انھوں نے کہا :یہ اگر مگر یمن میں جا کر رکھو۔میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہے کہ آپ حجر اسود کو ہاتھ لگاتے اور چومتے تھے۔
(صحیح بخاری کتاب الحج باب تقبیل الحجر ٣٧٣/٣ حدیث ١٦١١)
ایک دفعہ آپ سے وتر کا مسئلہ پوچھا گیا۔آپ نے فرمایا وتر رات کے آخری حصے میں ہوتا ہے۔پوچھنے والے نے کچھ کہنا چاہا :
ارایت ارایت(یعنی اگر مگر) تو آپ نے فرمایا اپنی اس اگر مگر کو اس ستارے پر رکھو۔آپ نے آسمان کی طرف اشارہ کیا اور کہا:رات کی نماز دو رکعت ہے اور وتر رات کی آخری ایک رکعت ہوتی ہے۔
(المعجم الکبیر للطبرانی ٢٦٤/١٢ واسنادہ حسن)
آپ کی اس سختی کی وجہ سے لوگوں کے منہ بند ہو گئے جو فرضی مسائل اور موشگافیوں میں سرگرداں تھے۔
(تحقیقی،اصلاحی اور علمی مقالات نمبر ١ از حافظ زبیر علی زئی ،صفحہ نمبر ٣٢٩-٣٣٠)