• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے فضائل

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
آپ سب سے پہلے تو اس بات کا جواب دیں نا کہ امام بخاری کا اس حدیث کو نقل کرنا کہاں سے حجت کے طور پر ثابت ہے۔۔
بخاری کا نقل کر دینا مرور زمانہ کے ساتھ حجت بن گیا ہے ، جس طرح صرف میری یا آپ کی بات کی کوئی حیثیت نہیں ، لیکن اگر چودہ صدیوں کے لوگ آپ سے یا مجھ سے اتفاق کریں ، تو وہ حجت بن جائے گا ۔ صحیحین کو ’ تلقی بالقبول ‘ اسی معنی میں ہے ۔
حدیث کو اصول ِ حدیث پر پرکھا جائے گا یا یہ دیکھا جائے گا کہ امام بخاری نے نقل کی ہےتو بات ختم۔
امام بخاری نے بھی احادیث کو ’ اصول حدیث ‘ پر ہی پرکھا ہے ۔ لیکن احادیث کو بخاری یہ خصوصیت حاصل ہے کہ ان کی ’ تحقیق ‘ کو تلقی بالقبول بھی حاصل ہے ۔
جو احادیث امام بُخاری نے نقل نہیں کی ہیں ان کا کیا ہوگا۔۔۔ اگر آپ بخاری و مسلم کے علاوہ تمام کتابوں کو نفی کردیں تو ان دونوں کتابوں کو آدھی سے زیادہ احادیث ویسے ہی ضعیف ہو جائیں گی۔۔۔
کس بڑے کی فضول بات یا پھر کسی بچے کا بچگانہ اعتراض ۔ ایسی بات کبھی کسی نے کی ہے ؟
جہاں تک حوالے کی بات ہے تو آپ رجال کی کتابوں میں ثور بن یزید کے ترجمے میں پڑھ لیں۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔ ۔۔۔
اگر رجال کی کتابیں آپ کی دسترس میں ہیں تو نقل کردیں ۔
ایک اور بات کا جواب کہ رافضی کا لفظ تو لگ بھگ 140 ھجری کے سامنے آیا۔۔ اس سے پہلے تو کہیں بھی کسی بھی جگہ صحیح سند سے یہ ثابت ہی نہیں کہ کسی نے صحابہ کو گالیاں دی ہوں۔ شیعہ اُسی کا کہا جاتا تھا جو افضلیت کے حوالے سے اختلاف رکھتا تھا اور مسئلہ افضلیت اختلافی ہی رہا ہے اہل سنت کے ہاں بھی حتٰی کہ حاکم نیشاپوری عمر کو افضل سمجھتے تھے۔اس لیے کم از کم اس دور سے پہلے کے جو راوی تھے جن پر تشیع کی جرح ہے وہ قابلِ قبول کیسے ہو سکتی ہے۔ اگر کسی صحیح سند سے ثابت ہو جائے کہ واقعی رفض اس سے پہلے موجود تھا تو بات بنتی ہے۔ ۔۔۔ صرف صحیح سند سے بتادیں ۔۔۔
شیعہ کب تھے کب نہیں تھے ، ان سب باتوں کا حالیہ بحث سے کوئی تعلق نہیں ۔
 

difa-e- hadis

رکن
شمولیت
جنوری 20، 2017
پیغامات
294
ری ایکشن اسکور
30
پوائنٹ
71
ثور بن یزید کو امام مالک نے ناصبی کہا ہے اور یہ ایسی مجالس میں بیٹھنا پسند کرتا جس میں علی رضی اللہ عنہ کو برا کہا جاتا تھا حوالہ پیش ہے

soor bin yazeed.png
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
1۔ آپ اس سمندری جہاد میں بذات خود شامل تھے۔ جس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : میری امت کا پہلا لشکر ج سمندر میں جہاد کرے گا، ان ( مجاہدین) کےلیے ( جنت) واجب ہے۔ ( صحیح بخاری:2799۔2800، 2924)
کیا اس روایت میں صریحاََ لکھا ہے کہ آپ شامل تھے؟ اگر نہیں تو اس بات کا حوالہ کیا ہے کہ آپ اس لشکر میں شامل تھے؟
بعض اہل فکر یہ ادھار کھائے بیٹھے ہیں کہ سیدنا حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ اور ان کی آل اولاد کو کسی بھی صورت جنّتی قرار دینا جائز نہیں ہے -اس کی لئے انھیں چاہے ان کی مناقبت میں صحیح سے صحیح ترین روایت کو مسترد کرنا پڑے یا ان روایات کی باطل سے باطل تاویلات کرنی پڑیں وہ اس کی پروا کیے بغیر اس پر اپنا قیمتی وقت برباد کرتے رہتے ہیں- جیسے یہ کہنا کہ "کیا اس روایت میں صریحاََ لکھا ہے کہ آپ شامل تھے؟ اگر نہیں تو اس بات کا حوالہ کیا ہے کہ آپ اس لشکر میں شامل تھے؟"

اب حقیقت ملاحظه فرمائیں -
امام بخاری رحم الله اپنی صحیح میں "باب ما قيل في قتال الروم" میں روایت بیان کرتے ہیں کہ الله کے نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا

أَوَّلُ جَيْشٍ مِنْ أُمَّتِي يَغْزُونَ مَدِينَةَ قَيْصَرَ مَغْفُورٌ لَهُمْ

میری امّت کا پہلا لشکر جو قیصر کے شہر (قسطنطنیہ) پر حملہ کرے گا وہ مغفور ہے - (یاد رہے کہ یہ مسلمانوں کا پہلا سمندری جہاد تھا)
بخاری کے شا رح المهلب کہتے ہیں کہ:
قال المهلب : في هذا الحديث منقبة لمعاوية لأنه أول من غزا البحر ، ومنقبة لولده يزيد لأنه أول من غزا مدينة قيصر


المهلب کہتے ہیں کہ اس حدیث میں منقبت ہے معاویہ کی کیونکہ ان کے دور میں بحری حملہ ہوا اور منقبت ہے ان کے بیٹے کی کہ انہوں نے سب سے پہلے قیصر کے شہر پر حملہ کیا -
(بحوالہ فتح الباری شرح صحیح البخاری: كتاب الجهاد والسير: باب ما قيل في قتال الروم)


الذہبی اپنی کتاب تاريخ الإسلام ووفيات المشاهير والأعلام میں سن ٥٠ ھجری کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ:

وَفِيهَا غَزْوَةُ الْقُسْطَنْطِينِيَّةَ ، كَانَ أَمِيرُ الْجَيْشِ إِلَيْهَا يَزِيدُ بْنُ مُعَاوِيَةَ ، وَكَانَ مَعَهُ وُجُوهُ النَّاسِ ، وَمِمَّنْ كَانَ مَعَهُ أَبُو أَيُّوبُ الْأَنْصَارِيُّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ

اور اس میں غزوہ القسطنطنیہ ہوا اور امیر لشکر عساکر یزید بن معاویہ تھے اور ان کے ساتھ لوگ تھے اور ابو ايوب الانصاری رضی الله عنہ بھی ساتھ تھے -
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
ثور بن یزید کو امام مالک نے ناصبی کہا ہے اور یہ ایسی مجالس میں بیٹھنا پسند کرتا جس میں علی رضی اللہ عنہ کو برا کہا جاتا تھا حوالہ پیش ہے

19581 اٹیچمنٹ کو ملاحظہ فرمائیں
چار سطروں پر مشتمل ترجمہ کو سمجھنے کی جس میں صلاحیت نہ ہو ، اس کے لیے بہت بہتر ہے ، کہ وہ ان عظیم مسائل میں ٹانگ اڑانے سے گریز کرے ۔
بہر صورت اس ترجمے کی روشنی میں بھی روایت حدیث میں ان کی ثقاہت اور تثبت میں کوئی کلام نہیں ۔ اسی لیے امام بخاری نے ہی نہیں ، بلکہ دیگر جلیل القدر ائمہ کرام نے بھی بلا تامل ان کی احادیث کو لیا ہے ۔
ان پر ناصبیت کا الزام لگایا جاتا تھا (البتہ اس بات کو امام مالک کی طرف منسوب کرنا غلط ہے ) جس کی وجہ شاید یہ تھی کہ یہ ایسے لوگوں کی مجالس میں بیٹھتے تھے ، لیکن بہر صورت بذات خود انہوں نے اہل بیت کے متعلق کبھی کوئی بات نہیں کی تھی ۔
 

اسامہ نذیر

مبتدی
شمولیت
اگست 20، 2017
پیغامات
14
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
21
بے شک جنت میں جانے کے لیے تمام صحابہ بشمول سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے محبت لازم ہے اور ان سے محبت ایمان کا حصہ یے
 
Top