• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سیدنا حسین رضی اللہ عنہ اور کوفی شیعان علی کا کردار

HUMAIR YOUSUF

رکن
شمولیت
مارچ 22، 2014
پیغامات
191
ری ایکشن اسکور
56
پوائنٹ
57
ایسا کہنا کہ شیعہ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کے ذمہ دار نہیں تھے، ایک دھوکہ کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ اگر کوی شخص جو ڈھٹائی سے ساتھ تمام حقیقتوں کو جھٹلانا چاہتا ہے ، چاہے وہ اسکے لئے وہ کتنی ہی بے تکی باتیں ہانکے، وہ ہر دفعہ اس سے انکار کرے گا کہ شیعان علی رضی اللہ عنہ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کے ذمہ دار ہیں۔ کربلا کوفی شیعان علی کی ایک دھوکہ دہی اور غداری کی ناقابل تردید کہانی ہے۔ اس وقت کے شیعہ ایک سیاسی گروہ کی حیثیت رکھتے تھے اور آج کل کے حالیہ مذہبی شیعاوں کے آباؤ اجداد تھے۔

یہ بات اب بالکل واضح ہے کہ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ اپنے شیعاوں کی دعوت پر کوفہ کی طرف روانہ ہوئے تھے۔ شیعاوں کے علاوہ انکو اور کوئی کیوں بلائے گا اور سیدنا حسین انکی سنیں گے کیوں؟ کیا کوئی کسی تحریک کے پیروکار اپنے قائد کے علاوہ کسی اور کو بھی بلائیں گے؟ اگر شیعہ سیدنا حسین رضی اللہ کے پیروکار نہیں تھے اور کن کے پیروکار تھے؟ کیوں کوئی قائد ان لوگوں کی طرف متوجہ ہوگا جو اسکے پیروکار نہیں ہوں؟ کیوں کوئی لیڈر ان لوگوں پر اتنا اعتماد کرے گا کہ اپنے بیویوں بچوں کے ہمراہ انکے دعوتی پیغام پر لبیک کہتے ہوئے ایک ایسی جگہ جہاں اسکے حامیوں کی تعداد کم ہو وہاں سے آنے کی ہمت کرے جہاں اسکے حامی تعداد میں نسبتا زدیادہ ہوں۔ جیسے حجاز جہاں شیعاوں کی نظر میں سنی زیادہ تھے بہ نسبت کوفہ
اگر کوئی یہ کہے کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے ۲۰ سالہ دور خلافت میں شیعہ بالکل ہی نیست و نابود ہوگئے تھے، تو اسکے جواب میں کہا جاسکتا ہے کہ انکے انتقال کے ۹۰ سال کے بعد کا اموی دور، تقریبا پانچ صدیوں کا عباسی دور نیز چار صدیوں کا عثمانی ترک دور بھی شیعاوں کے انکی تمام دشمنیوں ، مخالفتوں اور قتل عام کے بعد بھی انکی تعداد کو کم نہیں کرسکا تو سیدنا معاویہ کے یہ ۲۰ سالہ دور خلافت تو کسی گنتی میں نہیں۔ حالانکہ عباسی دور میں تو ان شیعاوں پر ظلم و ستم کی حد توڑی گئی، اسکے باوجود کہ شیعہ ایک لحاظ سے عباسی حکومت کے حامی تھے اور ان ہی پشت پناہی کے سبب عباسی اس قابل ہوئے کہ اموی خلافت کا خاتمہ کرسکیں۔

اب یہ سوال کہ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کو کوفہ بلانے والے کون لوگ تھے؟اگر وہ لوگ سنی تھے جو یزید کی ظالمانہ حکومت کا خاتمہ چاہتے تھے ، تو وہ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کو کیوں بلانا چاہتے تھے اور انکی مدد کیوں چاہتے تھے حالانکہ سنی حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی امامت پر یقین نہیں کرتے تھے؟ اہلسنت ( اس وقت مسلمان امت کو گروہ کثیر جو کسی فرقہ واریت یا سیاسی نظام کا حامی نہیں تھا) جنکی تعاد حجاز میں سب سے زیادہ تھی، کیوں انہوں نے حجاز میں ہی اپنی تحریک اور یزید کی خلافت کے خلاف مزاحمت کا آغاز کیا؟ اگر کوفہ کے اہلسنت نے سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کو اپنے یہاں مدعو کیا تھا تاکہ انکی قیادت کی جائے تو انہوں نے ساتھ ہی سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کو بھی مدعو کیوں نہیں کیا؟ اسی طرح اہلسنت عبداللہ بن عمر رضی اللہ یا عبد الرحمٰن بن ابی بکر رضی اللہ عنہ کو بھی کوفہ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ مدعو کرسکتے تھے کہ خلافت یزید کے خلاف ان سب حضرات کی مشترکہ قیادت کے ساتھ خروج کیا جائے؟ یاد رہے کہ یزید کی خلافت کی بیعت انہیں حضرات نے نہیں کی تھی، اسکے علاوہ پوری امت مسلمہ یزید کی بیعت خلافت کرچکی تھی۔


شیعاوں کے دھوکہ دینے کا ایک اہم ثبوت اس وقت بھی سامنے آتا ہے جب کوفہ میں دارالامراء کا ہزارہا شیعاوں نے ۸ ذی الحجہ۶۰ میں محاصر ہ کیا تھااور مسلم بن عقیل کے ساتھ دھوکہ دیا۔ انکو عبید اللہ بن زیاد کی صرف ایک دھمکی نے منتشر ہونے پر مجبور کردیا تھا۔ وہ سب مسلم بن عقیل کا ساتھ چھوڑ کر اپنے گھروں کو لوٹ گئے تھے ، جنکو اگلے دن ابن زیاد نے بڑی بے رحمی کے ساتھ قتل کروادیا تھا۔ اس وقت شیعہ کہاں تھے؟ شیعاوں کے دارالامرۃ کے اس محاصرہ کے وقت ابن زیاد اپنے صرف دس محافظوں کے ساتھ اکیلا تھا۔ اس وقت شیعوں نے مسلم بن عقیل کو کیوں چھوڑ دیا؟ روایات بتلاتی تھی ہیں کہ اس وقت محاصرہ کرنے والے شیعاوں کی تعداد کم از کم بیس سے چالیس ہزار کی تھی۔ لیکن سب لوگ ابن زیاد کی ایک دھمکی سے منتشر ہوگئے اور سوائے ہانی بن عروہ کے کسی کی گرفتاری عمل میں نہیں آئی۔ یہی اہل کوفہ کے دھوکہ دینے کی روش کربلا میں سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ پیش آئی۔ پھر وہی لوگ اس فوج کے ہمراہ ابن زیاد کے لشکر کے ساتھ ہوگئے۔

کربلا کی شہادت کے بعد، خوفزدہ اہل بیعت کوفہ جانے کے بجائے مدینہ جاکے منتقل ہوگئے اور اپنی تمام زندگی وہیں رہایش پذیر رہے، جہاں اہلنت کے عظیم مراکز تھے، چے جائیکے کوفہ جاکر بسیں جہاں انکے حامیوں کی تعداد زیادہ تھی۔ پھر کوفہ ہی سے توابون کے تحریک کا آغاز ہواجسکو مختار نے اپنے ایرانی موالیوں کے ساتھ قیادت کی۔ صرف اسی بات سے یہ ثابت ہوجاتا ہے کہ کوفہ اس وقت شیعان علی کا واحد بڑا مرکز تھا، جہاں سے وہ اپنی سیاسی تحریک کا سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد آغاز کرسکیں۔ اگر ان توابون کی تعد اد اتنی کم ہوتی تو کوئی سوچ سکتا ہے کہ یزید جیسی مستحکم خلافت کے خلاف کوئی اقدا م اٹھایا جاسکتا ہے؟ کیا یہ اقدام سراسر خودکشی کے مترادف نہیں ہوگا؟

اب یہ بالکل بات واضح اور صاف و شفاف ہوگئی ہے کہ سیدنا حسین رضی اللہ کی شہادت میں کوفے کے شیعان علی کا ہی ہاتھ تھا اوروہ ہی اسکے ذمہ دار تھے۔ اب اگر کوئی ابھی بھی اپنی ضد پر اڑا رہے اور کج بحثی پہ ڈٹا رہے، تو اسکا تمام مطالعہ ایک تعصبی اور یک طرفہ ہوگا اور تمام عقل و خورد سے ماروا ہوگا۔ اگر کسی کو سچائی جاننا ہے تو اپنی آنکھوں پر سے تعصب اور جہالت کا چشمہ ہٹانا ہوگا۔ یہاں ایک بات کی وضاحت ضروری ہے کہ شیعہ سے مراد آج کے اثناعشری شیعہ نہیں ہیں یا کوئی او ر موجودہ شیعہ اس سے مراد نہیں بلکہ وہ شیعہ مراد ہیں جو آج کل کے موجودہ شیعاؤں کے آباؤ اجداد ہیں۔
 
Top