• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سیدہ فاطمہ رضی ﷲ عنہا کا جنازہ کس نے پڑھایا ؟

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
بسم ﷲ الرحمن الرحیم

سیدہ فاطمہ رضی ﷲ عنہا

اپنے زمانے میں اور قیامت تک دنیا کی ساری عورتوں کی سردار اور نبی ﷺ کا جگر گوشہ اور نسبت مصطفائی
سید الخلق رسول ﷲ ﷺ کی بیٹی
اور حسنین کی والدہ

زیر نظر مسئلہ یہ ھے کہ سیدہ فاطمہ رضی ﷲ عنہا کا جنازہ کس نے پڑھایا

اس مسئلہ پر بہت سے لوگوں نے اپنے اپنے انداز فکر کے لحاظ سے روشنی ڈالی ہے

اور مختلف آراء اور نظریات سامنے آۓ

شیعہ رافضیوں نے یہ ثابت کرنے کی ناپاک کوشش بھی کی کہ سیدہ فاطمہ رضی ﷲ عنہا سیدنا ابوبکر صدیق رضی ﷲ عنہ سے ناراض تھیں اور سیدہ فاطمہ رضی ﷲ عنہا نے وصیت فرمائی تھی کہ وہ میرے جنازہ میں شریک نہ ہوں

اور سیدنا علی رضی ﷲ عنہ نے ان کو رات کو ھی دفن کر دیا تھا
اور خلیفتہ المسلیمین کو اس کی
خبر ہی نہ ہونے دی
جبکہ ایسی بکواس اور جھوٹی کہانی شیعہ کتب سے ملتی ہیں
مگر اس کے برعکس جمہور علماء اھلسنت و الجماعت کا موقف اور مستند ترین کتب میں یہ حقیقت روز روشن کی طرح موجود ہے کہ سیدہ فاطمہ بنت رسول ﷲ ﷺ کا جنازہ سیدنا ابوبکر صدیق نے پرھایا اور اسی پر امت مسلمہ کا اتفاق ہے

اﷲ تعالی کی لعنت ہو یہودیوں و مجوسیوں کی گندی نسل شیعہ رافضیوں پر جو اہل بیت و اصحاب محمد ﷺ پر بہتان لگتے ہیں-
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
بسم ﷲ الرحمن الرحیم

سیدہ فاطمہ رضی ﷲ عنہا

اپنے زمانے میں اور قیامت تک دنیا کی ساری عورتوں کی سردار اور نبی ﷺ کا جگر گوشہ اور نسبت مصطفائی
سید الخلق رسول ﷲ ﷺ کی بیٹی
اور حسنین کی والدہ

زیر نظر مسئلہ یہ ھے کہ سیدہ فاطمہ رضی ﷲ عنہا کا جنازہ کس نے پڑھایا

اس مسئلہ پر بہت سے لوگوں نے اپنے اپنے انداز فکر کے لحاظ سے روشنی ڈالی ہے

اور مختلف آراء اور نظریات سامنے آۓ

شیعہ رافضیوں نے یہ ثابت کرنے کی ناپاک کوشش بھی کی کہ سیدہ فاطمہ رضی ﷲ عنہا سیدنا ابوبکر صدیق رضی ﷲ عنہ سے ناراض تھیں اور سیدہ فاطمہ رضی ﷲ عنہا نے وصیت فرمائی تھی کہ وہ میرے جنازہ میں شریک نہ ہوں

اور سیدنا علی رضی ﷲ عنہ نے ان کو رات کو ھی دفن کر دیا تھا
اور خلیفتہ المسلیمین کو اس کی
خبر ہی نہ ہونے دی
جبکہ ایسی بکواس اور جھوٹی کہانی شیعہ کتب سے ملتی ہیں
مگر اس کے برعکس جمہور علماء اھلسنت و الجماعت کا موقف اور مستند ترین کتب میں یہ حقیقت روز روشن کی طرح موجود ہے کہ سیدہ فاطمہ بنت رسول ﷲ ﷺ کا جنازہ سیدنا ابوبکر صدیق نے پرھایا اور اسی پر امت مسلمہ کا اتفاق ہے

اﷲ تعالی کی لعنت ہو یہودیوں و مجوسیوں کی گندی نسل شیعہ رافضیوں پر جو اہل بیت و اصحاب محمد ﷺ پر بہتان لگتے ہیں-
یہ کتنا بڑا جھوٹ کس ڈھٹائی سے بولا جارہا ہے اس کا جائزہ اصح کتاب بعد کتاب اللہ یعنی صحیح بخاری سے لیتے ہیں
امام بخاری نے صحیح بخاری میں حدیث بیان کی کہ
أن فاطمةَ والعباسَ عليهما السلامُ، أتيا أبا بكرٍ يلتمسان ميراثُهما من رسولِ اللهِ صلى الله عليه وسلم، وهما حينئذٍ يطلبان أرضيهما من فدَكَ، وسهمهما من خيبرَ، فقال لهما أبو بكرٍ: سمعتُ رسولَ اللهِ صلى الله عليه وسلم يقولُ: لا نُورثُ، ما تركنا صدقةٌ، إنما يأكلُ آلُ محمدٍ من هذا المالِ. قال أبو بكرٍ: واللهِ لا أدعُ أمرًا رأيتُ رسولَ اللهِ صلى الله عليه وسلم يصنَعُه فيه إلا صنعتُه، قال: فهجرته فاطمةُ، فلم تكلِّمْه حتى ماتت
صحيح البخاري - الصفحة أو الرقم: 6725
ترجمہ داؤد راز
حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے آپ نے فرمایا تھا کہ ہمارا کوئی وارث نہیں ہوتا جو کچھ ہم چھوڑیں وہ سب صدقہ ہے، بلاشبہ آل محمد اسی مال میں سے اپنا خرچ پورا کرے گی۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا، واللہ، میں کوئی ایسی بات نہیں ہونے دوں گا، بلکہ جسے میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو کرتے دیکھا ہو گا وہ میں بھی کروں گا۔ بیان کیا کہ اس پر حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے ان سے تعلق کاٹ لیا اور موت تک ان سے کلام نہیں کیا۔
اس روایت میں صاف طور سے بیان ہوا کہ خاتون جنت حضرت فاطمہ حضرت ابو بکر سے ناراض ہی اس دنیا سے رخصت ہوئیں اور اس بات کا الزام آپ دوسروں سے سر رکھ رہے ہیں کہ فلاں ایسا کہتے ہیں ارے یہ تو آپ کی اصح کتاب بعد کتاب اللہ میں درج ہے


أنَّ فاطمةَ عليها السلامُ، بنتَ النبيِّ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ، أرسلتْ إلى أبي بكرٍ تسألهُ ميراثَها منْ رسولِ اللهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ، مما أفاء اللهُ عليهِ بالمدينةِ وفدَكَ، وما بقي من خمُسِ خبيرَ، فقال أبو بكرٍ : إنَّ رسولَ اللهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ قال : ( لا نورثُ، ما تركنا صدقةٌ، إنما يأكل آلُ محمدٍ - صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ - في هذا المالِ ) . وإني واللهِ لا أغيِّر شيئًا منْ صدقةِ رسولِ اللهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ عن حالِها التي كانت عليها في عهدِ رسولِ اللهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ، ولأعملنَّ فيها بما عمل بهِ رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ . فأبى أبو بكرٍ أن يدفعَ إلى فاطمةَ منها شيئًا، فوجَدتْ فاطمةُ على أبي بكرٍ في ذلكَ، فهجَرتْهُ فلمْ تُكلِّمهُ حتى تُوفيتْ، وعاشت بعدَ النبيِّ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ ستةَ أشهرٍ، فلما توفيتْ دفنها زوجُها عليٌّ ليلًا، ولم يُؤذِنْ بها أبا بكرٍ وصلَّى عليها
صحيح البخاري - الصفحة أو الرقم: 4240
صحيح مسلم - الصفحة أو الرقم: 1759
صحيح ابن حبان - الصفحة أو الرقم: 3577
صحيح ابن حبان - الصفحة أو الرقم: 997
السنن الكبرى للبيهقي - الصفحة أو الرقم: 4/29 ،خلاصة حكم المحدث: صحيح


ترجمہ داؤد راز

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی فاطمہ رضی اللہ عنہا نے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس کسی کو بھیجا اور ان سے اپنی میراث کا مطالبہ کیا آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اس مال سے جو آپ کو اللہ تعالیٰ نے مدینہ اور فدک میں عنایت فرمایا تھا اور خیبر کا جو پانچواں حصہ رہ گیا تھا۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے یہ جواب دیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ہی ارشاد فرمایا تھا کہ ہم پیغمبر وں کا کوئی وارث نہیں ہوتا ‘ ہم جو کچھ چھوڑ جائیں وہ سب صدقہ ہوتا ہے ‘البتہ آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم اسی مال سے کھاتی رہے گی اور میں خدا کی قسم جو صدقہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم چھوڑ گئے ہیں اس میں کسی قسم کا تغیر نہیں کروں گا ‘ جس حال میں وہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں تھا اب بھی اسی طرح رہے گا اور اس میں (اس کی تقسیم وغیرہ) میں میں بھی وہی طرز عمل اختیار کروں گا جو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنی زندگی میں تھا۔ غرض ابوبکرنے فاطمہ رضی اللہ عنہا کو کچھ بھی دینامنظور نہ کیا۔ اس پر فاطمہ ابوبکر رضی اللہ عنہما کی طرف سے خفا ہو گئیں اور ان سے ترک ملاقات کر لیا اور اس کے بعد وفات تک ان سے کوئی گفتگو نہیں کی۔ فاطمہ رضی اللہ عنہا آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد چھ مہینے تک زندہ رہیں جب ان کی وفات ہوئی تو ان کے شوہر علی رضی اللہ عنہ نے انہیں رات میں دفن کر دیا اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کو اس کی خبر نہیں دی اور خود ان کی نماز جنازہ پڑھ لی۔

اب اگر ایسا کہو تو تب تو بات ہے
اﷲ تعالی کی لعنت ہو یہودیوں و نصرانیوں کی گندی نسل خارجیوں اور نجدیوں پر جو اہل بیت سے محبت رکھنے والوں پر بہتان لگتے ہیں-
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
یہ کتنا بڑا جھوٹ کس ڈھٹائی سے بولا جارہا ہے اس کا جائزہ اصح کتاب بعد کتاب اللہ یعنی صحیح بخاری سے لیتے ہیں
امام بخاری نے صحیح بخاری میں حدیث بیان کی کہ
أن فاطمةَ والعباسَ عليهما السلامُ، أتيا أبا بكرٍ يلتمسان ميراثُهما من رسولِ اللهِ صلى الله عليه وسلم، وهما حينئذٍ يطلبان أرضيهما من فدَكَ، وسهمهما من خيبرَ، فقال لهما أبو بكرٍ: سمعتُ رسولَ اللهِ صلى الله عليه وسلم يقولُ: لا نُورثُ، ما تركنا صدقةٌ، إنما يأكلُ آلُ محمدٍ من هذا المالِ. قال أبو بكرٍ: واللهِ لا أدعُ أمرًا رأيتُ رسولَ اللهِ صلى الله عليه وسلم يصنَعُه فيه إلا صنعتُه، قال: فهجرته فاطمةُ، فلم تكلِّمْه حتى ماتت
صحيح البخاري - الصفحة أو الرقم: 6725
ترجمہ داؤد راز
حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے آپ نے فرمایا تھا کہ ہمارا کوئی وارث نہیں ہوتا جو کچھ ہم چھوڑیں وہ سب صدقہ ہے، بلاشبہ آل محمد اسی مال میں سے اپنا خرچ پورا کرے گی۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا، واللہ، میں کوئی ایسی بات نہیں ہونے دوں گا، بلکہ جسے میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو کرتے دیکھا ہو گا وہ میں بھی کروں گا۔ بیان کیا کہ اس پر حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے ان سے تعلق کاٹ لیا اور موت تک ان سے کلام نہیں کیا۔
اس روایت میں صاف طور سے بیان ہوا کہ خاتون جنت حضرت فاطمہ حضرت ابو بکر سے ناراض ہی اس دنیا سے رخصت ہوئیں اور اس بات کا الزام آپ دوسروں سے سر رکھ رہے ہیں کہ فلاں ایسا کہتے ہیں ارے یہ تو آپ کی اصح کتاب بعد کتاب اللہ میں درج ہے


أنَّ فاطمةَ عليها السلامُ، بنتَ النبيِّ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ، أرسلتْ إلى أبي بكرٍ تسألهُ ميراثَها منْ رسولِ اللهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ، مما أفاء اللهُ عليهِ بالمدينةِ وفدَكَ، وما بقي من خمُسِ خبيرَ، فقال أبو بكرٍ : إنَّ رسولَ اللهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ قال : ( لا نورثُ، ما تركنا صدقةٌ، إنما يأكل آلُ محمدٍ - صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ - في هذا المالِ ) . وإني واللهِ لا أغيِّر شيئًا منْ صدقةِ رسولِ اللهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ عن حالِها التي كانت عليها في عهدِ رسولِ اللهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ، ولأعملنَّ فيها بما عمل بهِ رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ . فأبى أبو بكرٍ أن يدفعَ إلى فاطمةَ منها شيئًا، فوجَدتْ فاطمةُ على أبي بكرٍ في ذلكَ، فهجَرتْهُ فلمْ تُكلِّمهُ حتى تُوفيتْ، وعاشت بعدَ النبيِّ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ ستةَ أشهرٍ، فلما توفيتْ دفنها زوجُها عليٌّ ليلًا، ولم يُؤذِنْ بها أبا بكرٍ وصلَّى عليها
صحيح البخاري - الصفحة أو الرقم: 4240
صحيح مسلم - الصفحة أو الرقم: 1759
صحيح ابن حبان - الصفحة أو الرقم: 3577
صحيح ابن حبان - الصفحة أو الرقم: 997
السنن الكبرى للبيهقي - الصفحة أو الرقم: 4/29 ،خلاصة حكم المحدث: صحيح


ترجمہ داؤد راز

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی فاطمہ رضی اللہ عنہا نے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس کسی کو بھیجا اور ان سے اپنی میراث کا مطالبہ کیا آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اس مال سے جو آپ کو اللہ تعالیٰ نے مدینہ اور فدک میں عنایت فرمایا تھا اور خیبر کا جو پانچواں حصہ رہ گیا تھا۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے یہ جواب دیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ہی ارشاد فرمایا تھا کہ ہم پیغمبر وں کا کوئی وارث نہیں ہوتا ‘ ہم جو کچھ چھوڑ جائیں وہ سب صدقہ ہوتا ہے ‘البتہ آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم اسی مال سے کھاتی رہے گی اور میں خدا کی قسم جو صدقہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم چھوڑ گئے ہیں اس میں کسی قسم کا تغیر نہیں کروں گا ‘ جس حال میں وہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں تھا اب بھی اسی طرح رہے گا اور اس میں (اس کی تقسیم وغیرہ) میں میں بھی وہی طرز عمل اختیار کروں گا جو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنی زندگی میں تھا۔ غرض ابوبکرنے فاطمہ رضی اللہ عنہا کو کچھ بھی دینامنظور نہ کیا۔ اس پر فاطمہ ابوبکر رضی اللہ عنہما کی طرف سے خفا ہو گئیں اور ان سے ترک ملاقات کر لیا اور اس کے بعد وفات تک ان سے کوئی گفتگو نہیں کی۔ فاطمہ رضی اللہ عنہا آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد چھ مہینے تک زندہ رہیں جب ان کی وفات ہوئی تو ان کے شوہر علی رضی اللہ عنہ نے انہیں رات میں دفن کر دیا اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کو اس کی خبر نہیں دی اور خود ان کی نماز جنازہ پڑھ لی۔

اب اگر ایسا کہو تو تب تو بات ہے

ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خلافت میں فاطمہ رضی اللہ عنہما..الخ
شروع از M Aamir بتاریخ : 28 June 2013 10:26 AM
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خلافت میں فاطمہ رضی اللہ عنہما بنت محمد نے وراثت مانگی تو ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہنے (( لَا نُوْرَثُ مَا تَرْکَنَا صَدَقَۃٌ )) 1 ’’ہم و ارث نہیں بنائے جاتے جو ہم چھوڑیں وہ صدقہ ہے۔‘‘ حدیث سنائی تو پھر فاطمہ رضی اللہ عنہما نے ابو بکر رضی اللہ عنہ کی بیعت نہ کی اور کلام بھی نہ کیا۔ سوال یہ ہے کہ فاطمہ رضی اللہ عنہما نے حدیث کی مخالفت کیوں کی؟ (محمد حسین کراچی)

1 صحیح بخاری؍کتاب الفرائض؍باب قول النبی صلی الله علیہ وسلم لا نورث ما ترکنا صدقۃ

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتهالحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
فاطمہ رضی اللہ عنہما کا اپنی موت تک ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہکی بیعت نہ کرنا تو میرے علم میں نہیں لہٰذا آپ اس کا حوالہ ضرور دیں کہ یہ چیز کہاں ہے؟ رہاان کا مطالبۂ میراث تو ان کی معلومات میں ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی بیان کردہ حدیث شامل نہ ہونے پر مبنی تھا ۔ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے جب انہوں نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کا فرمان سن لیا اس کے بعد انہوں نے کبھی مطالبہ نہ کیا۔

دیکھئے قرآن مجید میں ہے : {وَمَنْ یَّعْصِ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ فَـإِنَّ لَہٗ نَارَ جَھَنَّمَ خَالِدِیْنَ فِیْھَا أَبَدًا}[الجن:۲۳] [ ’’ اور جو اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے گا تو اس کے لیے دوزخ کی آگ ہے ۔ اور اس میں ہمیشہ رہیں گے۔‘‘ ] قرآن مجید میں ہی ہے: {وَعَصیٰٓ آدَمُ رَبَّہٗ فَغَویٰ} [طٰہٰ : ۱۲۱] [ ’’ اور آدم نے اپنے رب کی نافرمانی کی لہٰذا وہ بھٹک گئے۔‘‘ ] تو اب ان دونوں آیتوں کو دیکھ کر کوئی آدم علیہ السلامپر فتوے داغنے شروع کر دے اور ان کی توبہ و مغفرت والی آیات و احادیث کو نظر انداز کر دے تو کیا وہ حق پر ہو گا؟ نہیں 1ہر گز نہیں1 بالکل اسی طرح فاطمہ ، علی اور دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کے بارے میں توبہ و استغفار اور عفو و مغفرت والی آیات و احادیث کو نظر انداز کرنے والا بھی حق و انصاف پر نہیں۔



قرآن وحدیث کی روشنی میں احکام ومسائل
جلد 02 ص 649
محدث فتویٰ
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
باغ فدک حضرت فاطمہ رض کیوں نہ ملا
شروع از عبد الوحید ساجد بتاریخ : 05 June 2012 02:21 PM
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
باغ فدک جوکہ رسول اللہﷺ کی ملکیت تھا۔ وفات کے بعد سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو کیوں نہ مل سکا؟

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

فدک مدینہ منورہ سے تین منزلوں پر واقع ایک بستی کا نام ہے۔ 7ہجری میں جب خیبر فتح ہوا تو آپﷺ مدینہ تشریف لارہے تھے تو آپﷺ نے حضرت محیصہ بن مسعود کو اہل فدک کی طرف بھیجا کہ انہیں اسلام قبول کرلینے کی دعوت دیں۔ اس کے سردار یوشع بن نون یہودی نے فدک کی آدھی آمدنی پر صلح کرلی اور اسی میں باغ فدک مسلمانوں کے قبضہ میں آیا چونکہ یہ مال لڑائی کے بغیر اور صلح کرنےکے عوض تھا اس لیےاسے مال فئی کہتے ہیں۔ او ریہ باغ آپؐ کےحصہ میں آیا۔ آپؐ اس باغ سے اپنے گھر والوں پر بھی خرچ کرتے اور غربا میں بھی۔ آپؐ کی وفات کے بعد حضرت فاطمہؓ نے حضرت ابوبکرؓ سے اس باغ کامطالبہ کیا تو آپؓ نے انہیں یہ کہہ کر واپس کردیا کہ انبیاء کی وراثت نہیں ہوتی۔

اس سے متعلقہ روایات اس طرح ہیں:

«عن عائشه۔ أن فاطمة والعباس علیهما السلام أتیا أبابکر یلتمسان میراثھا من رسول اللہ صلی اللہ علیه وآله وسلم وھما یطلبان أرضیھما من فدک و سھمھما من خیبر فقال لھما ابوبکر سمعت رسو لاللہ صلی اللہ علیه وسلم یقول لا نورث ماترکنا صدقة انما یأکل آل محمد من ھذا المال قال ابوبکر واللہ لا أدع أمرا رأیت رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم يصنعه فیه إلا صنعته» (صحیح بخاری کتاب الفرائض بابقول النبی لا نورث ماترکنا صدقه)
’’اُم المؤمنین عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ حضرت فاطمہؓ اور حضرت عباسؓ دونوں ( رسول اللہﷺ کی وفات کے بعد) ابوبکر صدیقؓ کے پاس آئے آپؐ کا ترکہ مانگتے تھے یعنی جو زمین آپؐ کی فدک میں تھی او رجوحصہ خیبر کی اراضی میں تھا طلب کررہے تھے۔ حضرت ابوبکرؓ نے جواب دیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے آپؐ نے فرمایا ہم (انبیاء) جو کچھ چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے البتہ بات یہ ہے کہ محمد کی آل اس میں سے کھاتی پیتی رہے گی۔ ابوبکرؓ نے یہ فرمایاکہ اللہ کی قسم جس نے رسول اللہ ﷺ کوجو کام کرتے دیکھا میں اسے ضرور کروں گا اسے کبھی چھوڑنے کا نہیں۔‘‘

انبیاء کی وراثت ان کی وفات کے بعد ورثا میں تقسیم نہیں ہوتی۔ جیسا کہ اوپر حدیث میں گزر چکا ہے۔

یہی روایت حضرت ابوہریرہؓ سے بھی اس طرح مروی ہے کہ:

«قال لا تقسم ورثتی دینارا ماترکت بعد نفقة نسائی و مؤنة عاملی فھو صدقة»
’’آپؐ نے فرمایا: میرے وارث اگر میں ایک اشرفی چھوڑ جاؤں تو اس کو تقسیم نہیں کرسکتے بلکہ جو جائیداد میں چھوڑ جاؤں اس میں سے میری بیویوں اور عملہ کا خرچہ نکال کر جو بچے وہ سب اللہ کی راہ میں خیرات کیا جائے۔‘‘ (سنن ابی داؤد کتاب الخراج وإلا مارۃ والفئی باب فی صفا یارسول اللہ من الأموال 2974)

مذکورہ بالا احادیث سے معلوم ہوا کہ انبیاء کی وراثت درہم و دینار نہیں ہوتا جو کہ ان کی اولاد وغیرہ میں تقسیم ہوں۔ اس کی تائید معروف شیعہ محدث محمد بن یعقوب کلینی نے اپنی کتاب اصول کافی میں بروایت ابوالبختری امام ابوعبداللہ جعفر صادق سے اس معنی کی روایت نقل کی ہے:

«عن ابی عبداللہ قال ان العلماء ورثة الأنبیاء و ذالک ان الانبیاء ................ دراھما ولا دینارا وانما ورثوا احادیث من احادیثھم فمن اخذ بیشئ منھا اخذ بحظ وافر» (اصول کافی:1؍32 باب صفة العلم وفضله)
حضرت جعفر صادق نے فرمایا: ہر گاہ علماء انبیاء علیہم السلام کے وارث ہیں اس لیےکہ انبیاء علیہم السلام کی وراثت درہم و دینار کی صورت میں نہیں ہوتی وہ اپنی حدیثیں وراثت میں چھوڑتے ہیں جو انہیں لے لیتا ہے اس نے پورا حصہ پالیا۔‘‘

اور یہ صرف انبیاء کی اولاد ہی کے لیے قانون نہیں بلکہ ان کی بیویوں اور دوسرے رشتہ داروں کے لیےبھی ہے کہ انبیاء کی وراثت سے انہیں کچھ نہیں ملتا۔ یہی وجہ ہے کہ نبیؐ کی وفات کے بعد امہات المؤمنینؓ نے جب آپؐ کا ترکہ کے لیے ارادہ کیا تو حضرت عائشہؓ نے منع کردیا۔ حدیث کے الفاظ یہ ہیں:

«عن عائشه أن أزواج النبی صلی اللہ علیه وسلم حین توفی رسول اللہ صلی اللہ علیه وآله وسلم أردن أن یبعثن عثمان إلی أبی بکر یسألنه مبراثھن فقالت عائشة ألیس قد قال رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم لا نورث ماترکنا صدقة»( صحیح بخاری کتاب الفرائض باب قول النبی لانورث ماترکنا صدقة)
’’حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ کی وفات ہوگئی تو آپ ؐ کی بیویوں نے یہ ارادہ کیاکہ حضرت عثمانؓ کو ابوبکر صدیقؓ کے پاس بھیجیں اور اپنے ورثہ کا مطالبہ کریں تو اس وقت میں (عائشہ) ان کو کہا کیا تم کو معلوم نہیں کہ رسول اللہﷺ نے یہ فرمایا ہے: ہم پیغمبروں کا کوئی وارث نہیں ہم جو چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے۔‘‘

مذکورہ بالا بحث سے پتہ چلا کہ انبیاء کی وراثت ان کی اولاد اور رشتہ داروں میں تقسیم نہیں ہوسکتی او ریہ انبیاء کے لیے ایک قانون تھا جس پر حضرت محمدﷺ کی ذات بھی شامل ہے۔ لہٰذا ان احادیث کی روشنی میں حضرت ابوبکرؓ نے حضرت فاطمہؓ کو باغ فدک وراثت میں نہ دیا او راس طرح اس حدیث کے تحت امہات المؤمنین بھی آپؐ کے ترکہ سے محروم رہیں۔

فتوی کمیٹی
محدث فتوی
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خلافت میں فاطمہ رضی اللہ عنہما..الخ
شروع از M Aamir بتاریخ : 28 June 2013 10:26 AM
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خلافت میں فاطمہ رضی اللہ عنہما بنت محمد نے وراثت مانگی تو ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہنے (( لَا نُوْرَثُ مَا تَرْکَنَا صَدَقَۃٌ )) 1 ’’ہم و ارث نہیں بنائے جاتے جو ہم چھوڑیں وہ صدقہ ہے۔‘‘ حدیث سنائی تو پھر فاطمہ رضی اللہ عنہما نے ابو بکر رضی اللہ عنہ کی بیعت نہ کی اور کلام بھی نہ کیا۔ سوال یہ ہے کہ فاطمہ رضی اللہ عنہما نے حدیث کی مخالفت کیوں کی؟ (محمد حسین کراچی)

1 صحیح بخاری؍کتاب الفرائض؍باب قول النبی صلی الله علیہ وسلم لا نورث ما ترکنا صدقۃ

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتهالحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
فاطمہ رضی اللہ عنہما کا اپنی موت تک ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہکی بیعت نہ کرنا تو میرے علم میں نہیں لہٰذا آپ اس کا حوالہ ضرور دیں کہ یہ چیز کہاں ہے؟ رہاان کا مطالبۂ میراث تو ان کی معلومات میں ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی بیان کردہ حدیث شامل نہ ہونے پر مبنی تھا ۔ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے جب انہوں نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کا فرمان سن لیا اس کے بعد انہوں نے کبھی مطالبہ نہ کیا۔

دیکھئے قرآن مجید میں ہے : {وَمَنْ یَّعْصِ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ فَـإِنَّ لَہٗ نَارَ جَھَنَّمَ خَالِدِیْنَ فِیْھَا أَبَدًا}[الجن:۲۳] [ ’’ اور جو اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے گا تو اس کے لیے دوزخ کی آگ ہے ۔ اور اس میں ہمیشہ رہیں گے۔‘‘ ] قرآن مجید میں ہی ہے: {وَعَصیٰٓ آدَمُ رَبَّہٗ فَغَویٰ} [طٰہٰ : ۱۲۱] [ ’’ اور آدم نے اپنے رب کی نافرمانی کی لہٰذا وہ بھٹک گئے۔‘‘ ] تو اب ان دونوں آیتوں کو دیکھ کر کوئی آدم علیہ السلامپر فتوے داغنے شروع کر دے اور ان کی توبہ و مغفرت والی آیات و احادیث کو نظر انداز کر دے تو کیا وہ حق پر ہو گا؟ نہیں 1ہر گز نہیں1 بالکل اسی طرح فاطمہ ، علی اور دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کے بارے میں توبہ و استغفار اور عفو و مغفرت والی آیات و احادیث کو نظر انداز کرنے والا بھی حق و انصاف پر نہیں۔



قرآن وحدیث کی روشنی میں احکام ومسائل
جلد 02 ص 649
محدث فتویٰ
غیر متعلق
موضوع ہے "
سیدہ فاطمہ رضی ﷲ عنہا کا جنازہ کس نے پڑھایا ؟
اگر اس موضوع پر کچھ ارشاد فرمائیں تو نوازش ہوگی یا پھر آپ کی اصح کتاب بعد کتاب اللہ کی جو روایت پیش کی گئی اس سلسلے میں اسے مانتے ہوئے اس بات کا اعتراف فرمالیں کہ آپ نے جو اس دھاگے میں عجیب و غریب دعویٰ کیا ہے وہ جھوٹا دعویٰ ہے
 

HUMAIR YOUSUF

رکن
شمولیت
مارچ 22، 2014
پیغامات
191
ری ایکشن اسکور
56
پوائنٹ
57
Fatima janaza.jpg
علی بہرام صاحب، آپ نے تحفہ اثنا عشریہ پڑھی ہے کبھی؟ اس میں صاف اور واضح لکھا ہوا ہے کہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنھا کی نماز جنازہ ادا فرمائی۔ آپ کے لئے اسکین دے رہا ہوں، بغور ملاحظہ فرمائیں
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
8132 اٹیچمنٹ کو ملاحظہ فرمائیں علی بہرام صاحب، آپ نے تحفہ اثنا عشریہ پڑھی ہے کبھی؟ اس میں صاف اور واضح لکھا ہوا ہے کہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنھا کی نماز جنازہ ادا فرمائی۔ آپ کے لئے اسکین دے رہا ہوں، بغور ملاحظہ فرمائیں
تحفہ اثناء عشریہ نہ آپ کے لئے حجت ہے نہ میرے لئے لیکن صحیح Bکاری آپ کے لئے ضرور حجت ہے اور ایسی میں لکھا ہوا ہے کہ خاتون جنت حضرت فاطمہ کی نماز جنازہ حضرت علی ادا فرمائی کیا آپ آپ کی اصح کتاب بعد کتاب اللہ کو نہیں مانے گے
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی فاطمہ رضی اللہ عنہا نے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس کسی کو بھیجا اور ان سے اپنی میراث کا مطالبہ کیا آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اس مال سے جو آپ کو اللہ تعالیٰ نے مدینہ اور فدک میں عنایت فرمایا تھا اور خیبر کا جو پانچواں حصہ رہ گیا تھا۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے یہ جواب دیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ہی ارشاد فرمایا تھا کہ ہم پیغمبر وں کا کوئی وارث نہیں ہوتا ‘ ہم جو کچھ چھوڑ جائیں وہ سب صدقہ ہوتا ہے ‘البتہ آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم اسی مال سے کھاتی رہے گی اور میں خدا کی قسم جو صدقہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم چھوڑ گئے ہیں اس میں کسی قسم کا تغیر نہیں کروں گا ‘ جس حال میں وہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں تھا اب بھی اسی طرح رہے گا اور اس میں (اس کی تقسیم وغیرہ) میں میں بھی وہی طرز عمل اختیار کروں گا جو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنی زندگی میں تھا۔ غرض ابوبکرنے فاطمہ رضی اللہ عنہا کو کچھ بھی دینامنظور نہ کیا۔ اس پر فاطمہ ابوبکر رضی اللہ عنہما کی طرف سے خفا ہو گئیں اور ان سے ترک ملاقات کر لیا اور اس کے بعد وفات تک ان سے کوئی گفتگو نہیں کی۔ فاطمہ رضی اللہ عنہا آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد چھ مہینے تک زندہ رہیں جب ان کی وفات ہوئی تو ان کے شوہر علی رضی اللہ عنہ نے انہیں رات میں دفن کر دیا اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کو اس کی خبر نہیں دی اور خود ان کی نماز جنازہ پڑھ لی۔
صحيح البخاري - الصفحة أو الرقم: 4240
صحيح مسلم - الصفحة أو الرقم: 1759
صحيح ابن حبان - الصفحة أو الرقم: 3577
صحيح ابن حبان - الصفحة أو الرقم: 997
 

HUMAIR YOUSUF

رکن
شمولیت
مارچ 22، 2014
پیغامات
191
ری ایکشن اسکور
56
پوائنٹ
57
تحفہ اثناء عشریہ نہ آپ کے لئے حجت ہے نہ میرے لئے لیکن صحیح Bکاری آپ کے لئے ضرور حجت ہے اور ایسی میں لکھا ہوا ہے کہ خاتون جنت حضرت فاطمہ کی نماز جنازہ حضرت علی ادا فرمائی کیا آپ آپ کی اصح کتاب بعد کتاب اللہ کو نہیں مانے گے
بہرام صاحب، بے شک "تحفہ اثنا عشریہ" جیسے آپ کے لئے حجت نہیں ہے، ویسے ہمارے لئے بھی نہیں ہے۔ لیکن اسی اسکین میں شاہ صاحب نے اسی بخاری کی حدیث، جسکا آپ نے حوالہ دیا ہے، اسکی وضاحت کی ہے۔ ذرا شروع سے اسکین بغور پڑھ لیجئے۔ اور شاہ صاحب نہ صرف ایک عالم دین تھے بلکہ ایک زبردست محدث بھی تھے اور ہر حدیث کا مطلب و مفہوم اچھی طرح جانتے تھے۔ تو انہوں نے جو صحیح بخاری کی مندرجہ بالا حدیث کا مفہوم بیان کیا ہے، آپ اسی پر اکتفا کیجئے۔ اپنی طرف سے کچھ اڑنگے نہیں لگائیے۔ کیونکہ آپ کی سمجھ بوجھ اور شاہ صاحب کی سمجھ بوجھ میں زمین آسمان کا فرق ہے۔
 
Top