• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سید ابوالاعلی مودودی، جیل سے پھانسی کی سزا تک

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,423
پوائنٹ
521
سید ابوالاعلی مودودی، جیل سے پھانسی کی سزا تک
تحریر: میاں طفیل محمد
21 ستمبر 2013

ام المؤمنین حضرت عائشہؓ سے بڑھ کر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جاننے اور پہچاننے والی شخصیت اور کون ہو سکتی تھی۔ ان سے لوگوں نے جب پوچھا کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کیسے تھے؟ تو انہوں نے فرمایا: حضور صلی اللہ علیہ وسلم چلتا پھرتا قرآن تھے۔ میں بھی مولانا مودودیؒ صاحب کے بارے میں یہی کہتا اور کہہ سکتا ہوں کہ مولانا مودودی مرحوم‘ دعوت اسلامی کا چلتا پھرتا نمونہ تھے۔


میں نے 35 سالہ رفاقت کے دوران ان کی کوئی بات اور کوئی حرکت‘ اسلام اور اسوہ رسول سے ہٹی ہوئی نہیں دیکھی۔ میرا ان سے ایک ہی بات پر اختلاف تھا کہ وہ پان کھاتے تھے۔ شہر لاہور میں‘ مارچ 1953ء میں‘ جب ہم لوگوں کو گرفتار کر کے لاہور سینٹرل جیل میں لے جایا گیا۔ ہم لوگ دیوانی گھر وارڈ کے صحن میں مولانا مودودی صاحب کی اقتدا میں مغرب کی نماز پڑھ رہے تھے کہ دیوانی گھر وارڈ کا باہر کا دروازہ کھٹ سے کھلا اور 14' 15 فوجی اور جیل افسر اور وارڈر احاطے میں داخل ہوئے۔ اور جہاں ہم نما ز پڑھ رہے تھے وہاں قریب آکر کھڑے ہو گئے۔

ہم نے باقی نماز مکمل کر لی تو ان میں سے بڑ ے فوجی افسر نے جو مارشل لا کورٹ کا صدر تھا‘ اس نے پوچھا: ”مولانا مودودی صاحب کون ہیں؟“
مولانا نے عرض کیا: ”میں ابوالاعلیٰ مودودی ہوں“،

تواس نے کہا: ”آپ کو قادیانی مسئلہ کتاب تصنیف کرنے پر موت کی سزا دی جاتی ہے۔ اس کے خلاف کوئی اپیل نہیں ہو سکتی ہے۔ آپ گورنر جنرل سے رحم کی اپیل کر سکتے ہیں“۔

مولانا نے بلا توقف فرمایا: ”مجھے کسی سے کوئی رحم کی اپیل نہیں کرنی ہے۔ زندگی اور موت کے فیصلے زمین پر نہیں آسمان پر ہوتے ہیں۔ اگر وہاں پر میری موت کا فیصلہ ہو چکا ہے تو دنیا کی کوئی طاقت مجھے موت سے نہیں بچا سکتی اور اگر وہاں سے میری موت کا فیصلہ نہیں ہوا ہے تو دنیا کی کوئی طاقت میرا بال بھی بیکا نہیں کر سکتی“۔

اس کے بعد اسی افسر نے کہا: ” آپ نے مارشل لا کے بارے میں روزنامہ تسنیم میں جو بیان دیا ہے اس پر آپ کو سات سال قید بامشقت کی سزا دی جاتی ہے“۔

کوئی آدھ گھنٹے کے بعد ہیڈ وارڈن اور ان کے ساتھ کچھ دوسرے وارڈر آئے اور انھوں نے کہا: ”مولانا مودودی صاحب تیار ہو جائیں‘ وہ پھانسی گھر جائیں گے“۔

اس پر مولانا مودودی صاحب نے اطمینان سے اپنا کھلا پا جامہ تنگ پاجامے سے بدلا‘ جو وہ گھر سے باہر جاتے وقت پہنا کرتے تھے۔ سر پر اپنی سیاہ قراقلی ٹوپی پہنی اور چپلی اتارکر سیاہ گر گابی جوتا پہنا اور اپنا قرآن مجید لے کر اور ہم سب سے گلے مل کر نہا یت اطمینان سے پھانسی گھر روانہ ہو گئے ۔

اب مولانا امین احسن اصلاحی صاحب ‘ مولانا مودودی صاحب کی قمیص ‘ پاجامہ اور ٹوپی کبھی سینے سے لگاتے اور کبھی اپنے سر پر رکھتے‘ کبھی آنکھوں پر لگاتے اور بے تحاشہ روتے ہوئے کہتے جاتے کہ:”مجھے یہ تو معلوم تھا کہ مولانا مودودی صاحب بہت بڑے آدمی ہیں‘ لیکن مجھے یہ معلوم نہیں تھا کہ خد ا کے ہاں مودودی صاحب کا اتنا بڑا مرتبہ اور مقام ہے“ ۔

چودھری محمد اکبر صاحب بھی روتے ہوئے کمرے سے باہر نکل کر صحن میں چلے گئے اور میں بھی روتا ہوا صحن میں ایک طرف نکل گیا اور ساری رات اسی طرح سے گزرگئی۔

اگلی صبح ایک وارڈر نے آ کر بتایا: ”مولانا مودودی صاحب تو عجیب آدمی ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ ان کو یہ اندازہ ہی نہیں کہ ان کے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔
وہ پھانسی گھر گئے‘ وہاں کا لباس پہنا‘ جنگلے سے باہر پانی کے گھڑے سے وضو کیا اور عشاء کی نماز پڑھی اور ٹاٹ پر لیٹ کر تھوڑی دیر بعد خراٹے مارنے لگے۔ حالانکہ ان کے آس پاس پھانسی گھرکے د وسر ے قیدی چیخ و پکار میں مصروف تھے“۔

مولانا مودودی صاحب کو پھا نسی کی سزا کا اعلان ہوتے ہی ملک بھر میں ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں احتجاج شروع ہو گیا۔

انڈونیشیا کی اسلامی پارٹی کے وزیر اعظم ڈاکٹر ناصر صاحب نے حکومت پاکستان سے کہا کہ: ”پاکستان کو مودودی صاحب کی ضرورت نہیں تو دنیا بھر کے مسلمانوں کو ان کی ضرورت ہے ۔ پاکستان ان کو انڈو نیشیا بھجوا دے“۔

سعودی عرب نے اس سزا کے خلاف شدید احتجاج کیا۔ علیٰ ھذا القیاس بہت سے دوسرے ممالک کے مسلمانوں نے بھی اور پاکستان میں تو ہرجگہ سے احتجاج ہوا ۔ اس احتجاج کا نتیجہ یہ ہوا کہ تیسرے ہی روز حکومت پاکستان نے اعلان کر دیا کہ مولانا مودودی صاحب اور مولانا عبد الستار خاں نیازی صاحب کی سزاے موت عمر قید میں تبدیل کر دی گئی ہے ۔ چنانچہ مولانا مودودی صاحب کو پھانسی گھر سے جیل کے بی کلاس وارڈ میں منتقل کر دیا گیا۔

سید ابو الاعلیٰ مودودی صاحب کی یہ عمر قید عملاً ۱۴ سال قید با مشقت کی تھی ۔ اگر چہ یہ مارشل لا کورٹ کے تحت دی گئی تھی اور مارشل لا ختم ہو جانے کے بعد اسے ختم ہو جانا چاہیے تھا‘ لیکن مارشل لا کے تحت سارے احکام اور سزاﺅں کو انڈمنٹی ایکٹ کے تحت بر قرار رکھا گیا
تھا ‘اس لےے یہ سزائیں مارشل لا اٹھ جانے کے باوجود بھی قائم اور جاری تھیں۔

جماعت اسلامی نے مولانا مودودی صاحب کی سزا کو کالعدم کرانے کے سلسلے میں لا ہور ہائی کورٹ میں میاں منظور قادر ایڈوو کیٹ کے ذریعے سے رٹ دائر کردی اور ہائی کورٹ نے رٹ منظور کرتے ہوئے سید ابو الاعلیٰ مودودی صاحب کو رہا کرنے کا حکم دے دیا‘ چنانچہ مولانا مودودی صاحب ۲۸ مئی ۱۹۵ء کو ڈسٹرکٹ جیل ملتان سے رہا ہو کر گھرآ گئے۔

مولانا مودودی صاحب کی سزا ے موت کے خلاف رٹ کی اس کارروائی کو اللہ تعالیٰ نے میاں منظور قادر صاحب کو منکر خدا سے ایک مومن و مسلم میں تبدیل کرنے کا ذریعہ بھی بنا دیا ۔ ہوا یوں کہ اس سلسلے میں ان سے میرا رابطہ اور بے تکلفی ہوئی تو میں نے ایک روزتفہیم القرآن کا پورا سیٹ لے جا کر میاں منظور قادر صاحب کی خدمت میں پیش کیا تو انھوں نے فرمایا: ”میاں صاحب‘ آپ کو تو معلوم ہو گا کہ میں تو خدا کو نہیں مانتا“۔

میں نے عرض کیا:”میاں منظورقادر صاحب‘ آپ نے ہزاروں کتابیں ہر فن میں پڑھی ہیں‘ ان کو بھی پڑھ ڈالیں۔آپ کو معلوم تو ہو کہ مولانا مودودی کیا کہتے ہیں اور کیسے آدمی ہیں؟“ چنانچہ انھوں نے تفہیم القرآن کا سیٹ لے کر رکھ لیا۔

میاں منظور قادر صاحب کچھ عرصے بعد جگر کے کینسر میں مبتلا ہو گئے۔ وہ علاج کے لیے سی ایم ایچ لاہور میں داخل ہو گئے۔ میں ان کی عیادت کے لیے گیا تو کافی مضحمل تھے۔ مجھ سے فرمایا :
Mian Sahib, now I have made peace with my Lord.Now I am prepared to meet Him.

اور کچھ عرصے بعد ان کا انتقال ہو گیا ۔ انّا للہ و انّا الیہ راجعون!

مولانا مودودی صاحب کو چا ر مرتبہ گرفتار کیا اور جیل بھیجا گیا ۔
  • پہلی مرتبہ ۴ اکتوبر ۱۹۴۸ء کو جہاد کشمیر کے بارے میں جھوٹا الزام لگا کر اور اس بار مولانا امین احسن اصلاحی صاحب کو اور مجھے بھی ان کے ساتھ گرفتار کر کے نیو سینٹرل جیل ملتان میں نظر بند رکھا گیا اور ۲۰ ماہ بعد اس وقت رہا کیا گیا‘ جب ایک اور نظر بند ی کے سلسلے میں ہائی کورٹ نے یہ فیصلہ دے دیا کہ پنجاب پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت نظر بندی میں دو مرتبہ ہی چھ چھ ماہ کی تو سیع ہو سکتی ہے ۔ اس سے زیا دہ تو سیع نہیں ہو سکتی۔ ہم لوگ اس وقت اسی پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت تیسری توسیع کے تحت قید بھگت رہے تھے۔ اس لیے ہم لوگوں کو بھی حکومت کو رِہا کرنا پڑا۔
  • دوسری مرتبہ مولانا مودودی صاحب لاہور شہر کے مار شل لاء کے تحت ۲۸ مارچ ۱۹۵۳ء کو گرفتار ہوئے تو ان کے ساتھ مولانا امین احسن اصلاحی صاحب اور میرے علاوہ جماعت کے ۵۵‘ ۵۶ نمایاں ارکان بھی گرفتار کر لیے گئے۔ مولانا مودودی صاحب کو سزائے موت اور بعد ازاں اسے عمر قید میں تبدیل کر دیا گیا اور وہ ۲۶ ماہ بعد اس بنا پر رہا ہوئے کہ جس انڈ منٹی ایکٹ کے تحت مولانا کی سزا بر قرارتھی وہی خلاف قانون پایا گیا۔
  • تیسری مرتبہ مولانا مودودی صاحب ۴ جنوری ۱۹۶۴ء کو جماعت اسلامی خلافِ قانون قرار دیے جانے پر گرفتار ہوئے اور ان کے ساتھ جماعت کے ۵۵‘ ۵۶ دوسرے سرکردہ ارکان جماعت بھی گرفتار ہوئے۔ پھر مولانا مودودی صاحب اور دوسرے سب نظر بند بھی ۹ ستمبر ۱۹۶۴ء کو اس وقت رِہا ہوئے‘ جب کہ سپریم کورٹ پاکستان نے جماعت پر پابند ی کو منسوخ اور مولانا مودودی سمیت تمام نظربند ارکانِ جماعت کی رہائی کا حکم دے دیا ۔
  • چوتھی مرتبہ مولانا مودودی صاحب ۱۹۶۷ء میں اس لیے گرفتار اور نظر بند کیے گئے کہ عیدالفطر‘ جمعہ یا جمعرات کو پڑ رہی تھی اور جنرل محمد ایوب خاں صاحب کو ان کے بعض درباریوں نے ڈرا دیا تھا کہ عید جمعہ کے روز ہوئی تو دو خطبے ہوں گے‘ یعنی ایک عید کا اور دوسرا جمعہ کا ‘ اور ایک دن میں دو خطبوں کا ہونا حکومت کے لیے منحوس اور خطرہ بھی ہو سکتا ہے ۔ چنانچہ جنرل محمد ایوب صاحب نے اپنے خوشامدی علماء کے ذریعے چاند بدھ کی شام کو ہی دکھا دیا تاکہ عید جمعرات کو ہی ہو جائے۔ مولانا مودودی صاحب اور تین چار اور بڑے علماے کرام نے سرکاری چاند کوماننے سے انکار کر دیا۔ اس پر جنرل محمد ایوب صاحب کی حکومت نے مولانا مودودی صاحب کو گرفتار کر کے راتوں رات لاہور سے لے جا کر بنوں میں نظر بند کر دیا اور دو ماہ بعد ان کو رِہا کیا ۔
ح
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
اس میں کوئی شک نہیں کہ قرآن فہمی میں جو کردار سید مودودی کا ہے وہ پاکستان میں کسی اور کا نہیں ہے ان کے بعد اگر کوئی اور قرآن فہمی کے حوالے سے نظر اآتا ہے تو وہ ڈاکٹر اسرار احمد ہیں اور اتنے بڑے پیمانے پر عوامی سطح پر تیسرا نام نظر نہیں آتا
یہ میری ذاتی رائے ہے اس سے کوئی بھی اختلاف کر سکتا ہے
 

سید طہ عارف

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 18، 2016
پیغامات
737
ری ایکشن اسکور
141
پوائنٹ
118
مولانا مودودی رحمہ اللہ کے بعض افکار سے اختلاف کیا جاسکتا ہے. لیکن دین اسلام کے لئے ان کے دل میں درد اور خلوص تھا اس سے انکار نہی کیا جاسکتا. اس کے علاوہ مغربی فلسفہ، قادیانیت، اور انکار حدیث کے فتنے کے خلاف ان کی خدمات بہترین ہیں. بالخصوص مغربی تھذیب سے متاثر جدید تعلیم یافتہ نوجوانوں کے شبھات جسطرح انھوں نے دور کیے اور کسی نے نہی کیے.

Sent from my SM-G360H using Tapatalk
 

سید طہ عارف

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 18، 2016
پیغامات
737
ری ایکشن اسکور
141
پوائنٹ
118
اس کے علاوہ توحید فی الحاکمیہ کا جو شعور آج امت میں پایا جاتا ہے اس میں مولانا محترم کی جدوجہد کا بڑا کردار ہے

Sent from my SM-G360H using Tapatalk
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
مولانا مودودی ہمارے ہاں دور حاضرکی ایک بڑی علمی شخصیت کی بنا پر تو ضرور جانے جاتے ہیں- لیکن جنہوں نے مولانا کو قریب سے دیکھا ہے یا ان کی کتب کو بغور پڑھا ہے وہ اگر تعصب کی عینک اتار کر مودودی صاحب کے افکار و نظریات کا جائزہ لیں گے تو انھیں یہ چیز صاف نظر آے گی کہ دین کے حوالے سے مولانا کے نظریات میں ہمہ وقت بہت اتار چڑھاؤ رہا ہے- کبھی تفہیم القرآن میں قبر پرستی کو واضح شرک کہتے ہیں - لیکن اپنی کتاب رسائل و مسائل میں ایک سائل کا جواب دیتے ہیں - "کہ قبر پرست کو مشرک کہنا صحیح نہیں" -ایک طرف کبھی اسی رسائل و مسائل میں حضرت علی رضی الله عنہ کی فضیلت سے متعلق ایک روایت کو جھوٹا قرار دیتے ہیں تو دوسری طرف اپنی بدنام زمانہ کتاب "خلافت و ملوکیت" میں اہل بیت کی فضیلت بیان کرتے ہوے اور حضرت عثمان غنی رضی الله عنہ اوران کے اہل خانہ کی تنقیص کرتے ہوے رافضیوں تک کو مات دے دیتے ہیں- کبھی تفہیم القرآن میں بخاری و مسلم کی تعریف و توصیف میں قلابے ملاتے ہے تو کبھی بخاری و مسلم ہی کی اکثر صحیح روایات (جیسے حضرت ابراہیم کے تین جھوٹ، یا حضرت سلیمان علیہ سلام کا ایک رات میں اپنی ١٠٠ بیویوں سے مباشرت والی روایات) کو اپنے زاتی درایتی اصولوں کی بنا پر رد کردتے ہیں- غرض مولانا مودودی کے نظریات و افکار کبھی ٩٠ تو کبھی ١٨٠ ڈگری کے اینگل پر گھومتے رہے ہیں - یہی وجہ ہے کہ ان کی ایجاد کردہ جماعت "جماعت اسلامی " ٥٠ ٦٠ سال گزارنے کے باوجود ملک میں دین اسلام کے حوالے سے کوئی انقلابی کام نہیں کر سکی- (واللہ اعلم)-
 

سید طہ عارف

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 18، 2016
پیغامات
737
ری ایکشن اسکور
141
پوائنٹ
118
جماعت اسلامی کی ناکامی کا راز میری ناقص رائے میں جمھوریت کے ذریعہ اسلام لانے کی کوشش ہے

Sent from my SM-G360H using Tapatalk
 

سید طہ عارف

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 18، 2016
پیغامات
737
ری ایکشن اسکور
141
پوائنٹ
118
ایک طالب حق کو چاہیے کہ وہ مولانا کی صحیح باتوں کو لے اور غلط باتوں کو چھوڑے. مولانا بھی ایک انسان تھے ان سے بھی غلطی ہوسکتی ہے.

Sent from my SM-G360H using Tapatalk
 

سید طہ عارف

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 18، 2016
پیغامات
737
ری ایکشن اسکور
141
پوائنٹ
118
کچھ لوگ ان کی غلطیوں کی وجہ سے ان کو زیرو سے ملٹپلائے کردیتے ہیں. یہ طرز عمل درست نہی.
افسوس سے کہنا پرتا ہے کہ جس قدر یہ طرز عمل غلط ہے اتنا ہی اہل دیوبند کے اکثر علما اسے اپناتے ہیں. اور اکثر نے مولانا کی کتب کو خود نہی پڑھا ہوتا محض اپنے مشائخ کی تقلید میں اپنے مخالفین کو ضال اور مضل کہ رہے ہوتے ہیں

Sent from my SM-G360H using Tapatalk
 
Top