• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سید ابوالاعلی مودودی، جیل سے پھانسی کی سزا تک

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
محمد علی جواد بھائی میں نے بطور مثال کچھ واٹس اپ گروپس میں ہونے والی گفتگو کا حوالہ نقل کیا ہے
میری ذاتی رائے محفوظ ہے مجھے تاریخ سے بطور خاص شغف ہے اور برصغیر پاک وہند کے مسلمانان پر تاریخی معاملات میں گمراہی میں مبتلا کرنے میں سید مودودی کا مرکزی کردار ہے بلکہ سب صحابہ کو ایک معتبر رائے بنانے میں تمام تر ذمہ داری انہی کی ہے کہ تحقیق کے نام پر کسی بھی صحابی کو کچھ بھی کہہ لیا جائے جبکہ ہمارا یہ موقف نہیں ہے اس کے علاوہ حجیت حدیث پر بھی ان کا موقف منھج سلف سے ہٹ کر تھا لیکن بات یہ ہے کہ صرف سید مودودی ہی کیوں بے شمار احناف ہیں جو بہت قدآور ہیں اور عوام پر اس کے اثرات بھی کہیں گہرے ہیں اور فکر مودودی ان کے پاس بھی ہے لیکن ان تمام باتوں کے باوجود میں انہیں رافضی ، شیعہ یا کافر نہیں کہتا اور ان کا معاملہ اللہ کے سپرد کیا ہوا ہے باوجود اس کے مجھے ان سے شدید اختلاف ہے
تلک امۃ قد خلت لھا ما کسبت ۔۔۔۔
اور اگر ہماری امت کے کبار اجتماعی فتوی دیتے ہیں تو پھر صورت حال یقینا دوسری ہو گی لیکن ایسا نہیں ہے
البتہ بقدر گمراہی اسے واضح کرنا چاہیے لیکن حکمت اور تدبر کے ساتھ اور مناسب فورم پر جہاں ضرورت ہو ضرور بات کی جائے لیکن اسے ایشو بنانے میں مضرات کہیں زیادہ ہیں
السلام و علیکم و رحمت الله -

محترم فیض الابرار صاحب - میں آپ کی بات سے بلکل متفق ہوں- دین اور دینی شخصیات سے متعلق آپ کے خیالات متعدل لیکن بڑے جامع ہوتے ہیں- صحیح کہا آپ نے کسی کے فاسد خیالات پر حتمی طور پر کفر یا رافضی یا ناصبی ہونے کا فتویٰ لگانا کوئی مستحسن عمل نہیں- لیکن کیا کریں ہمارے معاشرے میں تربیت ہی اسطرح کی دی جاتی ہے کہ صرف تیلی کی ضرورت ہوتی ہے- آگ خود بہ خود بھڑک اٹھتی ہے- ہاں البتہ یہ کہنے میں کوئی مضائقہ نہیں کہ فلاں انسان یا عالم فلاں طبقہ فکر سے متاثر ہے- سید مودودی نے تاریخ کے حوالے سے اپنے باطل نظریات کا پرچار ضرور کیا لیکن شاید میں نے پچھلی پوسٹ میں یہ بھی کہا تھا کہ ان کا تفیہم القرآن میں موجود دین سے متعلق علمی تجزیہ اپنی جگہ منفرد کاوش ہے - کاش مودودی صاحب اپنی تفہیم تک ہی محدود رہتے - لیکن جوش خطابت میں ان معاملات پر بھی طبع آزمائی کر بیٹھے جن پر وہ مکمل دسترس نہیں رکھتے تھے - پھر اس زمانے میں انھیں سیاست میں انے کا بھی شوق چرایا - اور ہمارے ہاں اسمبلی میں آنے کے لئے دینی حمیت کو خیر آباد کہنا پڑتا ہے- کیا رافضی یا کیا اہل حدیث یا کیا دیوبندی- ہر فرقے سے ہاتھ ملانا پڑتا ہے - مودودی صاحب کا بھی یہی خیال تھا کہ بنو امیہ خاندان کے خلاف اس طرح کی ایک کتاب تصنیف کرکے وہ شیعہ برداری کو متاثر کرکے اپنے ساتھ ملالیں گے - سیاسی طور پر تو وہ ناکام ہو گئے لیکن عوامی شہرت کے باعث وہ ناصرف شیعوں کے ہیرو بن گئے بلکہ اہل سنّت کے بھی بہت سے علما ء کو اپنے باطل افکار سے گمراہ کر بیٹھے-

الله سب کو ہدایت دے (آمین)-
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
جی آج کل ایک مخصوص سوچ کے تحت سید مودودی کے باطل افکار کا تعاقب بہت شدو مد سے کیا جا رہا ہے تاکہ لوگوں کو بتایا جا سکے کہ سید مودودی امت اسلامیہ کے لیے کتنا بڑا فتنہ تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
شیخ ! میں ان معاملات میں اتنا حساس نہیں ہوں ، مودودی صاحب امت اسلامیہ کے لیے جو کچھ ہیں ، سب کے سامنے ہے ، کسی کے کہنے سے ان کی حیثیت و حقیقت مسخ نہیں ہوسکتی ۔
مودودی صاحب کی تحریروں سے محسوس ہوتا ہے کہ وہ اسلام اور اہل اسلام کے لیے مخلص تھے ، اور اعداء اسلام سے انہیں شدید نفرت تھی ، وہ بحیثیت مسلمان مفتخر نظر آتے ہیں ، اس زمانے میں یہ خوبی کم نہیں ۔
لیکن بہر صورت یہ بھی حقیقت ہے ، کہ وہ عالم نہیں تھے ، اس کے باوجود وہ خود پسندی کا ایسا شکار ہوئے کہ ’ فکر و دانش ‘ سے اوپر اٹھ کر ’ تحقیق و تدقیق ‘ کی وادی میں جا قدم جمایا ، جو جمنے کی بجائے پھسلتا رہا ۔
جس طرح ان کی خوبیوں سے فائدہ ہوا ، اسی طرح ان کی خامیوں کا نقصان بھی ہوا ۔ کوئی دونوں بیان کرے ، یا ایک ہی بیان کرے ، اگر اس کی بات درست ہو ، تو ماننے میں تامل نہیں ہونا چاہیے ۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
شیخ ! میں ان معاملات میں اتنا حساس نہیں ہوں ، مودودی صاحب امت اسلامیہ کے لیے جو کچھ ہیں ، سب کے سامنے ہے ، کسی کے کہنے سے ان کی حیثیت و حقیقت مسخ نہیں ہوسکتی ۔
مودودی صاحب کی تحریروں سے محسوس ہوتا ہے کہ وہ اسلام اور اہل اسلام کے لیے مخلص تھے ، اور اعداء اسلام سے انہیں شدید نفرت تھی ، وہ بحیثیت مسلمان مفتخر نظر آتے ہیں ، اس زمانے میں یہ خوبی کم نہیں ۔
لیکن بہر صورت یہ بھی حقیقت ہے ، کہ وہ عالم نہیں تھے ، اس کے باوجود وہ خود پسندی کا ایسا شکار ہوئے کہ ’ فکر و دانش ‘ سے اوپر اٹھ کر ’ تحقیق و تدقیق ‘ کی وادی میں جا قدم جمایا ، جو جمنے کی بجائے پھسلتا رہا ۔
جس طرح ان کی خوبیوں سے فائدہ ہوا ، اسی طرح ان کی خامیوں کا نقصان بھی ہوا ۔ کوئی دونوں بیان کرے ، یا ایک ہی بیان کرے ، اگر اس کی بات درست ہو ، تو ماننے میں تامل نہیں ہونا چاہیے ۔
لیکن اگر صرف ایک ہی پہلو کو اس قدر اجاگر کیا جائے کہ دوسرا پہلو نظر انداز ہو جائے تو یہ علمی رویہ نہیں ہے آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ میں کس پس منظر میں کہہ رہا ہوں کہ سرے سے سید مودودی کی خدمات کا کلیہ ہی انکار کر دیا جائے اور انہیں بطور باطل کی علامت کے پیش کیا جائے منکر حدیث و منکر قرآن پیش کیا جائے اور ان سے کوئی خیر سرزد ہوا ہی نہیں یہ علمی غلو ہے جس سے بچنا چاہیے
اگر سید مودودی کی تحریروں کے اقتباسات پیش کر کے کچھ ثابت کیا جا نے کی کوشش کی جا سکتی ہے تو سید مودودی نے جن لوگوں کی کتب سے استنباطات کیے ان کتب میں بھی قیاس آرائیوں کی ایک فصل موجود ہے تو ان غلط افکار اور توہین صحابہ کے حوالے سے صرف مودودی کی گرفت کیوں سب کیوں نہیں
اس لیے بہتر تو وہی ہے جو آپ نے کہا اعتدال پرستی بہترین منھج ہے
 
Top