• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سیرت حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
760
پوائنٹ
290
ہم سب کے سابقہ مراسلات پڑهیں ۔
آپ جس کو جو کہنا هو کہیں ۔ مجهے کب آپکے کہے کا حساب دینا هے ۔ جیسا کہ کہا احباب نے اپنی ذمہ داری پوری کی ۔
آپ کا اعلان آپ کے پاس ہی رکهیں ۔
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
محترم ،
اپ نے مجھے بات مکمل کرنے نہیں دی بہرحال چند حوالے احادیث کی کتب سے اور آئمہ کے حوالے سے نقل کر دیتا ہوں
سب سے پہلے قرآن کی آیت
اور ہم نے تم سے پہلے مرد ہی (پیغمبر بنا کر) بھیجے جن کی طرف ہم وحی بھیجتے تھے۔ اگر تم نہیں جانتے تو جو یاد رکھتے ہیں ان سے پوچھ لو (۷) اور ہم نے ان کے لئے ایسے جسم نہیں بنائے تھے کہ کھانا نہ کھائیں اور نہ وہ ہمیشہ رہنے والے تھے(سوره انبیاء )
صحابہ کرام رضی الله عنہم بہت پاکیزہ ہستیاں ہیں انہوں نے ہمیں دین پہنچایا ہے اپ نے شاید یہ سمجھ لیا کہ ان کی نہ وفات ہونی تھی اور نہ ان پر ضعف آنا تھا اپ جن فتوحات کا ذکر فرما رہے ہے وہ عمر رضی الله عنہ کے دور کی بات ہے اور میں اس کے ٤٠ سال بعد کی بات کر رہا ہوں جب حسین رضی الله عنہ بھی جو نبی صلی الله علیہ وسلم کے دور میں بچے تھے اس وقت ٦٠ سال کی عمر کے لگ بھگ تھے تو جو صحابہ اس وقت جوان تھے وہ اس وقت کس عمر میں ہوں گے ان میں سے زیادہ تر وفات پا گئے تھے اور جو تھے وہ بڑھاپے کی عمر میں تھے اور ظلم ایسا تھا کہ مرتے وقت حدیث سنا کر گیے ہیں صحت کی حالت میں حدیث بھی نہیں سناتے تھے اپ کو اندازہ نہیں ہے کیونکہ اپ لوگ صرف تاریخ کے رطب و یابس میں پڑ گئے ہیں اس وقت جو ان کے جسم میں طاقت تھے اس کے حساب سے کرتے تھے اتنی بڑی افواج کا مقابلہ کرنا آسان نہ تھا اس پر کہ ان کا آخری لیڈر بھی دنیا سے چلا گیا تھا علی رضی الله عنہ کے ساتھ مل کر کیا صحابہ کرام نے جنگ نہیں لڑی تھی ابن عباس رضی الله عنہ آخر تک ان کے ساتھ تھے مگر جب وہ شہید کر دیے گئے تو انہوں نے حالات پر صبر کر لیا جیسے ابن عمر نے کیا تھا اسی طرح امر بالمروف اور نہی ان منکر زبان سے کرتے تھے اور جب تابعین اس کو بدل سکنے کے قابل ہوۓ تو کیا مروان کے خلاف جمام جم پر اس کے خلاف جہاد نہیں کیا تھا تو چند روایات اس حوالے سے کہ ظلم اتنا تھا کے مرتے وقت حدیث بتا کر گئے اس سے پہلے حدیث نہیں بتاتے تھے .

17856 اٹیچمنٹ کو ملاحظہ فرمائیں

[FONT=times new roman, serif]یہ پڑھ لیں اس میں عبیداللہ بن زیاد صحابی رضی اللہ عنھ کس بے ادبی کا مظاہرہ کر رہا ہےمگر وہ خاموش رہے دوسری روایت پڑھیں اس میں معقل بن یسار رضی اللہ عنھ جب مرنے لگے تو حدیث بیان کررہے ہیں اگر زندہ رہنےکی امید ہوتی تو نھ بیان کرتے۔
17859 اٹیچمنٹ کو ملاحظہ فرمائیں

[/FONT]

یہ حاکم کے بارے میں روایت ہے جو بیان نہیں کر رہے اور فرمایا اگر اب بھی زندہ رہنے کی امید ہوتی تو نہ بتاتا یہ حاکم عمر رضی الله عنہ نہیں تھے جو عدل کی بات سن لیتے تھے یہ عبیداللہ بی زیاد تھا قریش کا چھوکرا ظالم جس کے ظلم سے بچنے کے لئے مرتے وقت حدیث بیان کی ہے اور پہلی میں صحابی کی عزت کس طرح کی جاتی تھی اور اپ ان کو رحمہ اللہ لکھتے ہو

پڑھا یہ مسلم کی روایت ہے تاریخ کے رطب و یابس نہیں ہیں
دوسری روایت پڑھیں یہ بھی مسلم میں ہے عمران بن حصین رضی الله عنہ کس طرح مرتے وقت حدیث بتارہے ھیں اور یہ بھی فرما رھے ھیں کہ اگر میں زندہ رہ جاؤ تو نہ بتانا غور سے پڑھیں


17858 اٹیچمنٹ کو ملاحظہ فرمائیں

مسلم کتاب الحج
[FONT=times new roman, serif]یہ ظلم صرف اس کو نظر آئے گا جو یزید کے کارنامے حدیث سے ڈھونڈے گا مگر اپ کو اب بھی نظر نہیں آئے گا[/FONT]

اب ذرا بخاری پر نظر ڈالتے ہیں
17860 اٹیچمنٹ کو ملاحظہ فرمائیں
کتاب العیدین رقم ٩٥٦

اس میں مروان خطبہ دے رہا ہے ابو سعید خدری رضی الله عنہ نے اس بدعت سے اس کو روکنے کی کوشش کی یہ بتاؤ جمعہ میں اتنے لوگ ہوتے ہے کیوں اس کو اس بدعت سے نہیں روکا اورابو سعید خدری رضی الله عنہ کا ساتھ اس بدعت کے روکنے میں کیوں نہ دیا مگر یہ اپ کوسمجھ نہیں آئے گا کیونکھ اپ کو دین اور صحابہ کی عزت نہیں یہ بنو مروان اوربنوامیہ کے چھوکرے پیارےاور عزیز ہیں


اب ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ کا بھی پڑھ لیں کہ وہ حدیث نہیں بتا سکتے تھے کیونکہ ان کو جان کا خوف تھا

17861 اٹیچمنٹ کو ملاحظہ فرمائیں
کتاب العلم رقم ١٢٠

ابوہریرہ رضی الله عنہ کیوں حدیث نہیں بتا رہے ان کو حدیث بتانے میں اپنی جان کا خوف کیوں ہے ابن ہجر نے لکھا ہے اس میں حکمران کے بارے میں باتیں تھی اور اگر مروان اتنا نیک تھا اس کو کیوں نہ بتا دیا وہ بقول اپ لوگوں کے اس دور میں تو امن تھا مسلمان چین سے زندگی بسر کر رہے تھے اس چین کی زندگی میں حدیث کیوں نہیں بتا رہے ایک حوالہ بھی حدیث کی کتب سے پیش کر دو کہ خلفاء راشدین کے دور میں حدیث بتانا جرم تھا اور صحابہ کرام مرتے وقت حدیث بتاتے تھے اس سے پہلے بتا نہیں سکتے تھے ایک روایت صرف ایک میرا اعلان ہے کہ میں یزید ، مروان ابن زیاد ان سب جو اعتراضات ان سے رجوع اور ان سب کو رحمہ الله لکھوں گا
آگے اور لکھ رہا ہوں
اگر احادیث و روایت کو بغیر سوچے سمجھے بیان کریں گے تو ایسی ہی خرافات قلم سے نکلیں گی جو آپ کے قلم سے نکل رہی ہیں- قرآن تو صحابہ کرام رضوان الله آجمعین کے بارے میں واضح گواہی دے رہا ہے کہ :


یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مَنۡ یَّرْتَدَّ مِنۡکُمْ عَنۡ دِیۡنِہٖ فَسَوْفَ یَاۡتِی اللہُ بِقَوْمٍ یُّحِبُّہُمْ وَیُحِبُّوۡنَہٗۤ ۙ اَذِلَّۃٍ عَلَی الْمُؤْمِنِیۡنَ اَعِزَّۃٍ عَلَی الْکٰفِرِیۡنَ ۫ یُجَاہِدُوۡنَ فِیۡ سَبِیۡلِ اللہِ وَلَا یَخَافُوۡنَ لَوْمَۃَ لَآئِمٍ ؕ ذٰلِکَ فَضْلُ اللہِ یُؤْتِیۡہِ مَنۡ یَّشَآءُ ؕ وَاللہُ وَاسِعٌ عَلِیۡمٌ ۔(سوره المائدہ آیت 54)
ا

اے ایمان والو تم میں جو کوئی اپنے دین سے پھرے گا تو عنقریب اللہ ایسے لوگ لائے گا کہ وہ اللہ کے پیارے اور اللہ ان کا پیارا۔ مسلمانوں پر نرم اور کافروں پر سخت اللہ کی راہ میں لڑیں گے اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہ ڈریں گے- یہ اللہ کا فضل ہے جسے چاہے دے اور اللہ وسعت والا علم والا ہے ۔

یہ آیات صحابہ کرام رضوان الله اجمعین کی شان میں نازل ہوئیں یہی لوگ اللہ تعالیٰ کے راستہ میں جہاد کرنے والے ہیں اور اللہ کی اطاعت اور اس کی حدود کو قائم رکھنے والے ہیں اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر میں ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہیں ڈرتے اور نہ ہی انہیں کوئی روکنے والا ان کاموں سے روک سکتا ہے، اس کے برخلاف منافقین زمانہ ءحوادثات سے ڈرتے رہتے ہیں۔(تفسیر ابن کثیر، ص: ۷۳ ۲، ۲۱۸ ۴۔ تفسیر قرطبی، ص: ۱۴۳ ۶۔

اور آپ فرما رہے ہیں کہ صحابہ کرام رضوان الله اجمعین کی زبانیں بنو امیہ خاندان کے خلفاء و حاکموں کے خوف سے گنگ ہو گئی تھیں؟؟- اب یا تو آپ قرآن کی اس واضح گواہی کو قبول کرلیں یا اپنے پسندیدہ علماء کی ان روایت سے متعلق باطل تاویلات کو قبول کرلیں جو بنو امیہ مخالف ہیں- اور اگر آپ کو اتنا ہی شوق ہے بغض صحابہ کا تو مسلم شریف کی اس روایت کے بارے میں آپ کیا کہیں گے ؟؟ جس میں ہے کہ -

فَقَالَ عُمَرُ نَعَمْ فَأَذِنَ لَهُمْ فَدَخَلُوا ثُمَّ جَائَ فَقَالَ هَلْ لَکَ فِي عَبَّاسٍ وَعَلِيٍّ قَالَ نَعَمْ فَأَذِنَ لَهُمَا فَقَالَ عَبَّاسٌ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ اقْضِ بَيْنِي وَبَيْنَ هَذَا الْکَاذِبِ الْآثِمِ الْغَادِرِ الْخَائِنِ- (صحیح مسلم ۔ جلد سوم ۔ حدیث 80)- حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا ان کے لئے اجازت ہے وہ اندر تشریف لائے پھر وہ غلام آیا اور عرض کیا کہ حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ تشریف لائے ہیں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا اچھا انہیں بھی اجازت دے دو حضرت عباس کہنے لگے اے امیر المومنین میرے اور اس جھوٹے گناہ گار دھوکے باز خائن کے درمیان فیصلہ کر دیجئے-

کیا آپ حضرت علی رضی الله عنہ کے متعلق حضرت عباس رضی الله عنہ کے ان الفاظ کو قبول کریں گے- کیا حضرت علی رضی الله عنہ ایسے ہی تھے جسے حضرت عباس رضی الله نے ان کے بارے میں فرمایا؟؟ محترم روایات کو پرکھنے کا طریقہ یہی ہے کہ تمام روایات اور ان کے سیاق و سباق کو مد نظر رکھ کر اسماء و رجال و درایت کی روشنی میں ان کو پرکھا جائے نہ کہ تعصب کو دل میں رکھ کر جس پر جو جی میں آے تنقید و تنقیص شرو ع کری جائے -
 

abdullah786

رکن
شمولیت
نومبر 24، 2015
پیغامات
428
ری ایکشن اسکور
25
پوائنٹ
46
حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ایک وقت ایسا آیا کہ لوگ چھپ کر نماز پڑھتے تھے تاکہ فتنہ سے بچ سکیں یہ بھی بخاری سے پیش کر رہا ہوں۔
ہم سب کے سابقہ مراسلات پڑهیں ۔
آپ جس کو جو کہنا هو کہیں ۔ مجهے کب آپکے کہے کا حساب دینا هے ۔ جیسا کہ کہا احباب نے اپنی ذمہ داری پوری کی ۔
آپ کا اعلان آپ کے پاس ہی رکهیں ۔
محترم ،
انتہائی معذرت کے ساتھ جو اب اپ سے کہنے جا رہا ہوں یہاں پر کسی کے پاس بھی میرے دلائل کا کوئی مناسب اور بدلیل جواب نہیں اور خصوصا اپ تو ہر بحث میں کود جاتے ہے مگر جب دلائل سے بات کرنے کو کہا جاتا ہے یا اپ کو دلائل پیش کیے جاتے ہیں تو اپ ان القابات "رافضیت ،مودودیت ،شیعت کا رونا رو کر راہ فرار اختیار کر لیتے ہیں اپ کو میں بخاری اور مسلم سے بتایا کہ صحابہ کرام کس طرح کے حالات سے دوچار تھے یہ اپ کو میں بتا چکا ہوں اور حسب معمول آپ اسی قسم کا رد عمل پیش کر چکے ہیں جس کا میں تذکرہ کر آیا ہوں اسحاق سلفی صاحب میری نقاب کشائی کی آرزو لیے اب مجھے سے بات کرنے سے ایسے رخصت ہوۓ کے واپسی کا معلوم نہیں فیض ابرار صاحب مجھے احادیث سے بنو امیہ اور مروان کے اچھے کارنامے دکھانے گئے تو آج تک نہیں لوٹے ہیں ان روایات کا جو مفہوم میں نے سمجھا ہے اگر یہ غلط ہے تو پھر اپ بتا دو کہ انتے صحابہ کیوں یہ فرما رہے ہیں کہ میں جب مر جاؤ تو یہ حدیث بیان کرنا اس سے پہلے کسی کو مت بتانا اس کا پس منظر تحفہ الحواذی ترمزی کی شرح کتاب الحج تمتع میں پڑھو مجھے رافضی مودودی کہنے سے پہلے جمہور آئمہ کو کہو اپ نے لکھا تھا ابن قیم کا قول ان کا ایک اور قول سن لو اگر اسکین چاہیے تو بھیج دوں گا کہ نماز میں احداث بنو امیہ نے نکلے ہے یہ ابن قیم نےابن تیمیہ کے حوالے سے زاد المعاد میں بیان کیا ہے مجھے معلوم ہے اب نہ ابن قیم کو کوئی مودودی کہے گا اور نہ ابن تیمیہ کوبھی مودودی کہا جائے گا یہ سب آئمہ کا بیان کردہ ہے اور کتب احادیث میں موجود ہے اور اس کے مقابلے پر اپ لوگ تاریخ کے رطب و یابس میں گھیرے ہومجھے ابھی اور بھی لکھنا تھا بخاری سے ہی کہ کس طرح تابعین اور صحابہ کرام خاص طور پر ابن عمر رضی الله عنہ بیٹھے ہوتے تھے اور جمعہ کی نماز مغرب میں پڑھائی جاتی تھی فتح الباری تاخیر الصلاه کے باب میں موجود ہے مگر اب اپ کی بات نہیں کرنا چاہتے تو خیر کوئی بات نہیں اپ سب کے لئے خیردعا کرنے والا الله ہدایت دے .
 

abdullah786

رکن
شمولیت
نومبر 24، 2015
پیغامات
428
ری ایکشن اسکور
25
پوائنٹ
46
اگر احادیث و روایت کو بغیر سوچے سمجھے بیان کریں گے تو ایسی ہی خرافات قلم سے نکلیں گی جو آپ کے قلم سے نکل رہی ہیں- قرآن تو صحابہ کرام رضوان الله آجمعین کے بارے میں واضح گواہی دے رہا ہے کہ :


یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مَنۡ یَّرْتَدَّ مِنۡکُمْ عَنۡ دِیۡنِہٖ فَسَوْفَ یَاۡتِی اللہُ بِقَوْمٍ یُّحِبُّہُمْ وَیُحِبُّوۡنَہٗۤ ۙ اَذِلَّۃٍ عَلَی الْمُؤْمِنِیۡنَ اَعِزَّۃٍ عَلَی الْکٰفِرِیۡنَ ۫ یُجَاہِدُوۡنَ فِیۡ سَبِیۡلِ اللہِ وَلَا یَخَافُوۡنَ لَوْمَۃَ لَآئِمٍ ؕ ذٰلِکَ فَضْلُ اللہِ یُؤْتِیۡہِ مَنۡ یَّشَآءُ ؕ وَاللہُ وَاسِعٌ عَلِیۡمٌ ۔(سوره المائدہ آیت 54)
ا

اے ایمان والو تم میں جو کوئی اپنے دین سے پھرے گا تو عنقریب اللہ ایسے لوگ لائے گا کہ وہ اللہ کے پیارے اور اللہ ان کا پیارا۔ مسلمانوں پر نرم اور کافروں پر سخت اللہ کی راہ میں لڑیں گے اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہ ڈریں گے- یہ اللہ کا فضل ہے جسے چاہے دے اور اللہ وسعت والا علم والا ہے ۔

یہ آیات صحابہ کرام رضوان الله اجمعین کی شان میں نازل ہوئیں یہی لوگ اللہ تعالیٰ کے راستہ میں جہاد کرنے والے ہیں اور اللہ کی اطاعت اور اس کی حدود کو قائم رکھنے والے ہیں اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر میں ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہیں ڈرتے اور نہ ہی انہیں کوئی روکنے والا ان کاموں سے روک سکتا ہے، اس کے برخلاف منافقین زمانہ ءحوادثات سے ڈرتے رہتے ہیں۔(تفسیر ابن کثیر، ص: ۷۳ ۲، ۲۱۸ ۴۔ تفسیر قرطبی، ص: ۱۴۳ ۶۔

اور آپ فرما رہے ہیں کہ صحابہ کرام رضوان الله اجمعین کی زبانیں بنو امیہ خاندان کے خلفاء و حاکموں کے خوف سے گنگ ہو گئی تھیں؟؟- اب یا تو آپ قرآن کی اس واضح گواہی کو قبول کرلیں یا اپنے پسندیدہ علماء کی ان روایت سے متعلق باطل تاویلات کو قبول کرلیں جو بنو امیہ مخالف ہیں- اور اگر آپ کو اتنا ہی شوق ہے بغض صحابہ کا تو مسلم شریف کی اس روایت کے بارے میں آپ کیا کہیں گے ؟؟ جس میں ہے کہ -

فَقَالَ عُمَرُ نَعَمْ فَأَذِنَ لَهُمْ فَدَخَلُوا ثُمَّ جَائَ فَقَالَ هَلْ لَکَ فِي عَبَّاسٍ وَعَلِيٍّ قَالَ نَعَمْ فَأَذِنَ لَهُمَا فَقَالَ عَبَّاسٌ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ اقْضِ بَيْنِي وَبَيْنَ هَذَا الْکَاذِبِ الْآثِمِ الْغَادِرِ الْخَائِنِ- (صحیح مسلم ۔ جلد سوم ۔ حدیث 80)- حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا ان کے لئے اجازت ہے وہ اندر تشریف لائے پھر وہ غلام آیا اور عرض کیا کہ حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ تشریف لائے ہیں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا اچھا انہیں بھی اجازت دے دو حضرت عباس کہنے لگے اے امیر المومنین میرے اور اس جھوٹے گناہ گار دھوکے باز خائن کے درمیان فیصلہ کر دیجئے-

کیا آپ حضرت علی رضی الله عنہ کے متعلق حضرت عباس رضی الله عنہ کے ان الفاظ کو قبول کریں گے- کیا حضرت علی رضی الله عنہ ایسے ہی تھے جسے حضرت عباس رضی الله نے ان کے بارے میں فرمایا؟؟ محترم روایات کو پرکھنے کا طریقہ یہی ہے کہ تمام روایات اور ان کے سیاق و سباق کو مد نظر رکھ کر اسماء و رجال و درایت کی روشنی میں ان کو پرکھا جائے نہ کہ تعصب کو دل میں رکھ کر جس پر جو جی میں آے تنقید و تنقیص شرو ع کری جائے -

محترم ،
میں اس روایت کا مفہوم بھی جانتا ہوں کہ یہ ایک غصے کی حالت ہے اس کو ائمہ نے بھی اسی ضمن میں لیا ہے مگر جو گالیاں نعوذ باللہ علی رضی الله عنہ کو دی گئی اس کو آئمہ نے بیان کیا ہے مگر وہ روایات جن سے اپ اس روایت کے تحت جان چھوڑا رہے ہو ان کا سیاق بھی اور ہے اور سباق بھی اور ہے وہ اس ضمن میں ہی نہیں جو اپ بیان کر رہے ہیں اس میں صاف ہے کہ مرتے وقت حدیث بتا رہے ہیں اس سے پہلے نہیں کس کا خوف ہے یہ کیوں نہیں بتا رہے ہیں اس کا جواب دیں آئمہ کے اقوال پڑھے اس حوالے سے آئمہ نے صاف لکھا ہے کے جان کے خوف کی وجہ سے نہیں بتا رہے تھے اور نماز کے دیر سے پڑھنے کے حوالے سے فتح الباری سے پڑھیں تابعین کے اقوال ہے کہ جب ان سے کہا گیا اٹھ کر نماز پڑھ لیں وقت جا رہا ہے تو فرماتے ہے جان دینی ہے کیا اور نماز کون پڑھاتا تھا حجاج ،مروان ابن زیاد ، اور حاکم کون تھے ، یزید ، مروان ،عبدالمالک بن مروان ،اور بخاری سے تاخیر نماز کے باب میں انس بن مالک رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ اب مجھے نبی صلی الله علیہ وسلم کے زمانے کی کوئی بات نظر نہیں آتی ہے تابعین نے کہا نماز تو ہے اس پر انہوں نے فرمایا یہ نماز ہے ظھر ٹام عصر میں پڑھتے ہے اور عصر مغرب میں اس سے انداز کرو اس وقت تک دین کیا کیا مٹی پلید کی ہے ان لوگوں نے کہ اس دور میں ٨٠ یا ٩٠ ہجری میں لوگ لیٹ نماز کو وقت پر سمجھ کا پڑھ رہے ہیں تو اب اس لئے تو نہیں پڑھتے ہے یہ گزری ہے اسلام پر جس کا اپ کو اندازہ بھی نہیں ہیں تاریخ کے رطب و یابس سے باہر آؤ اور بخاری پڑھو یہ تاخیر الصلاه کا باب ہی پڑھ لو یہ دین برباد انھوں نے کیا ہے جن کا اپ دفاع کرتے ہو
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
اس طرح کے ملتے جلتے موضوعات پر فورم پر دونوں طرف سے اتنا لکھا جا چکا ہے ، اور اس تکرار کے ساتھ لکھا جا چکا ہے کہ شاید کچھ نئی بات سامنے نہ آئے ، لہذا کم از کم اس فورم کی حد تک اس موضوع پر بات بالکل نہ کریں ، اور جتنے بھی احباب اس قسم کی بحثوں میں شریک رہے ، میری ان سے گزارش ہے کہ دیگر اہم اور مفید موضوعات میں بھی اپنا حصہ ڈالیں ، لوگوں اور بھی بہت سارے مسائل کی حاجت ہے ، چاروں طرف اسلامی تاریخ کے متنازعہ مسائل کو بکھیرنے کی بجائے ، عوام کو پیش آمدہ مسائل کے حل کی طرف توجہ کریں ۔
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top