• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سینہ پر هاتھ باندهنے کے دلائل ! محدث زبیر علی زئی رحمہ الله

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
292
پوائنٹ
165
نماز میں ہاتھ سینے پر یا زیر ناف باندھنے چاہیئں ؟
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
محترم! لگتا ہے کہ +پ غیر مقلدین کو اس سے کوئی غرض نہیں کہ کوئی کیسے ہاتھ باندھتا ہے صرف سینہ پر باندھ لے تو ٹھیک ورنہ غلط!!!!!اس وڈیو کا بھی لب لباب یہی ہے کہ فلاں حدیث بھی ضعیف اور فلاں بھی ضعیف مگر یہ اس سے قوی وغیرہ وغیرہ۔
محترم! ہاتھ باندھنے کے صحیح طریقہ پر کیا آپ لوگ متفق ہیں کہ سیدھے ہاتھ کی ہتھیلی التے ہاتھ کی ہتھیلی کی پشت پر گٹ کے قریب رکھیں اور الٹے ہاتھ کو پکڑ لیں اور سیدھے ہاتھ کا کچھ حصہ الٹے ہاتھ کی ذراع (کلائی) پر بچھا دیں۔ اگر اس پر اتفاق ہے تو پھر آگے بڑھتے ہیں۔
والسلام
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
نماز میں ہاتھ باندھنے کا کیا حکم ہے؟

الحمد للہ:

اول:

نماز میں ہاتھ باندھنے کا مطلب یہ ہے کہ : قیام کے دوران دائیں ہاتھ کو بائیں پر رکھے، یہ نماز میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت شدہ عمل ہے، اور جمہور اہل علم نماز میں ہاتھ باندھنے کے قائل ہیں۔

ابن قدامہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:

" نماز میں دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر رکھنا : بہت سے اہل علم کے مطابق نماز کے ثابت شدہ طریقے میں شامل ہے، یہ عمل علی ، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہما کیساتھ ساتھ نخعی، ابو مجلز، سعید بن جبیر، ثوری، شافعی اور اصحاب الرائے سے مروی ہے، ابن المنذر نے اسے مالک سے بھی نقل کیا ہے" انتہی


"المغنی" (1/281)

دائمی فتوی کمیٹی کے علمائے کرام کا کہنا ہے:

"نماز میں ہاتھ باندھنے کا طریقہ یہ ہے کہ: دائیں ہاتھ کی ہتھیلی کو بائیں ہاتھ پر رکھا جائے، جبکہ "سدل" یہ ہے کہ ہاتھوں کو پہلوؤں کی طرف لٹکا دیا جائے، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز میں قراءت کے وقت اپنا دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ پر رکھا ، اور اسی طرح رکوع سے اٹھنے کے بعد قومہ کی حالت میں بھی اسی طرح ہاتھ باندھے، اس عمل نبوی کو احمد، اور مسلم نے وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے، وہ کہتے ہیں:

"انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ابتدائے نماز میں تکبیر کیساتھ رفع الیدین کرتے ہوئے دیکھا، پھر آپ نے اپنا کپڑا [اوپر لی ہوئی چادر وغیرہ]سمیٹ کر اپنا دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ پر رکھا، اور جس وقت رکوع میں جانے لگے تو کپڑے کے اندر سے ہاتھ باہر نکال کر رفع الیدین کیساتھ تکبیر کہی ، اور رکوع میں چلے گئے، پھر جب "سمع اللہ لمن حمدہ" کہا تو پھر رفع الیدین کیا، اور جب آپ سجدے میں گئے تو اپنی دونوں ہتھیلیوں کے درمیان سجدہ فرمایا"

اور احمد و ابو داود کی حدیث میں الفاظ یوں ہیں: "آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ کی ہتھیلی، پَہُنچَا[ہتھیلی اور کلائی کا درمیانی جوڑ]، کلائی پر رکھا"

اور ابو حازم سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ: "لوگوں کو حکم دیا جاتا تھا کہ ہر شخص نماز میں اپنا دایاں ہاتھ بائیں بازو پر رکھے" ابو حازم یہ بیان کرنے کے بعد کہتے ہیں: مجھے اس عمل کے بارے میں یہی علم ہے کہ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل ہے" احمد ، بخاری

نیز نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی حدیث میں یہ ثابت نہیں ہے کہ انہوں نے اپنے دونوں ہاتھوں کو نماز میں قیام کے دوران نیچے لٹکایا ہو"

"فتاوى اللجنة الدائمة" (6/365، 366)

دوم:

دونوں ہاتھوں کو باندھنے کی جگہ سینے پر ہے۔

چنانچہ ابن خزیمہ: (479) میں وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیساتھ نماز ادا کی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ پر رکھا اور انہیں سینے پر باندھا۔
البانی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو "تحقیق صحیح ابن خزیمہ " میں صحیح کہا ہے۔

نیز البانی رحمہ اللہ اپنی کتاب: "صفة صلاة النبي صلى الله عليه وسلم" (ص 69) میں کہتے ہیں:

"دونوں ہاتھوں کو سینے پر باندھنا ہی سنت میں ثابت ہے، جبکہ اس سے متصادم کوئی بھی عمل یا تو ضعیف ہے، یا پھر بے بنیاد ہے" انتہی

سندی رحمہ اللہ سنن ابن ماجہ پر اپنے حاشیہ میں کہتے ہیں:

"مختصر یہ ہے کہ : جس طرح ہاتھوں کو چھوڑنے کی بجائے انہیں باندھنا ہی سنت ہے، اسی طرح یہ بھی ثابت ہے کہ دونوں ہاتھوں کو باندھنے کی جگہ سینہ ہی ہے، کوئی اور جگہ نہیں ہے، جبکہ یہ حدیث کہ: "سنت یہ ہے کہ ہتھیلی کو ہتھیلی پر رکھ کر نماز میں ناف کے نیچے باندھا جائے" تو اس حدیث کے ضعیف ہونے پر سب متفق ہیں" انتہی

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:

"نماز میں ناف کے نیچے ہاتھ باندھنا ہی [حنبلی] مذہب میں مشروع عمل ہے اور یہی قول مشہور ہے، اس بارے میں علی رضی اللہ عنہ کی ایک روایت بھی ہے کہ: "سنت یہ ہے کہ ہتھیلی کو ہتھیلی پر رکھ کر نماز میں ناف کے نیچے باندھا جائے" اسے ابو داود نے روایت کیا ہے، اور نووی ،ابن حجر رحمہما اللہ سمیت دیگر ائمہ کرام نے اسے ضعیف قرار دیا ہے۔

جبکہ کچھ اہل علم اس بات کے قائل ہیں کہ ہاتھوں کو ناف سے اوپر باندھا جائے، اس بارے میں امام احمد نے واضح لفظوں میں صراحت کی ہے۔

جبکہ دیگر اہل علم اس بات کے قائل ہیں کہ دونوں ہاتھوں کو سینے پر باندھے، اور یہی موقف صحیح ترین ہے، تاہم اس بارے میں صریح نصوص کے بارے میں کچھ نقد کیا گیا ہے، لیکن بخاری کی روایت سہل بن سعد والی سے اس بات کی واضح تائید ہوتی ہے کہ ہاتھوں کے باندھنے کی جگہ سینہ ہی ہے، نیز سینے پر ہاتھ باندھنے کے بارے میں سب سے اچھی حدیث -اگرچہ اس پر کچھ نہ کچھ نقطہ چینی کی گئی ہے- وہ وائل بن حجر رضی اللہ عنہ والی روایت ہے کہ : "نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دونوں ہاتھوں کو سینے پر باندھا کرتے تھے""
"الشرح الممتع" (3/36، 37)

سوم:

دونوں ہاتھوں کو باندھنے کا طریقہ دو طرح ہے:

1- اپنی دائیں ہتھیلی بائیں ہتھیلی، پَہُنچَا[ہتھیلی اور کلائی کا درمیانی جوڑ]اور کلائی پر رکھے۔

2- اپنے دائیں ہاتھ سے بائیں ہاتھ کو پکڑ لے۔

ان دونوں کیفیات کے دلائل سوال نمبر: (41675) کے جواب میں ملاحظہ کریں۔

واللہ اعلم.

اسلام سوال و جواب

http://islamqa.info/ur/59957
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
نماز ميں سينے پر ہاتھ باندھنے كا طريقہ


نماز ميں نمازى اپنا داياں ہاتھ بائيں پر كيسے ركھے ؟

الحمد للہ:

نماز ميں داياں ہاتھ بائيں پر ركھنے كے دو طريقے ہيں:

پہلا طريقہ:

دائيں ہتھيلى بائيں ہاتھيلى، كلائى اور جوڑ پر ركھى جائے.

اس كى دليل ابو داود اور نسائى شريف كى درج ذيل حديث ہے:

وائل بن حجر رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں ميں نے كہا: ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو ضرور ديكھوں كہ آپ نماز كس طرح ادا كرتے ہيں، چنانچہ ميں نے ان كى طرف ديكھا: رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كھڑے ہوئے اور تكبير تحريمہ كہہ كر رفع اليدين كيا حتى كہ دونوں ہاتھ كانوں كے برابر ہو گئے، پھر رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اپنا داياں ہاتھ بائيں ہتھيلى كى پشت اور جوڑ اور كلائى پر ركھا.... الى آخر الحديث "

سنن ابو داود حديث نمبر ( 726 ) سنن نسائى حديث نمبر ( 889 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے اس حديث كو صحيح سنن ابو داود ميں صحيح قرار ديا ہے.

نسائى شريف كے حاشيہ ميں سندى رحمہ اللہ كا كہنا ہے:

( پھر رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اپنا داياں ہاتھ بائيں ہتھيلى كى پشت اور جوڑ اور كلائى پر ركھا )

الرسغ: يہ ہتھيلى اور كلائى كے جوڑ كا نام ہے، اور اس سے مراد يہ ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ہاتھ اس طرح ركھا كہ دائيں ہتھيلى جوڑ پر آگئى اس سے يہ لازم آتا ہے كہ ہتھلى كا كچھ حصہ بائيں ہتھيلى پر اور كچھ حصہ كلائى پر ہو " انتہى.

دوسرا طريقہ:

دائيں ہاتھ بائيں پر باندھا جائے.

نسائى رحمہ اللہ تعالى نے وائل بن حجر رحمہ اللہ تعالى سے روايت كيا ہے وہ بيان كرتے ہيں:

" ميں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو ديكھا: جب رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نماز ميں كھڑے ہوتے تو اپنا داياں ہاتھ بائيں پر ركھتے "

سنن نسائى حديث نمبر ( 887 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح نسائى ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى " صفۃ صلاۃ النبى صلى اللہ عليہ وسلم " ميں رقمطراز ہيں:

" اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم اپنا داياں ہاتھ بائيں ہتھيلى، جوڑ اور كلائى پر ركھتے تھے، اور اپنے صحابہ كو بھى اس كا حكم ديا، اور بعض اوقات دائيں ہاتھ كے ساتھ بائيں كو پكڑتے، اور دونوں ہاتھ سينے پر باندھتے " انتہى.

ديكھيں: صفۃ صلاۃ النبى صلى اللہ عليہ وسلم صفحہ نمبر ( 68 ).

واللہ اعلم .

الاسلام سوال و جواب

http://islamqa.info/ur/41675
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
292
پوائنٹ
165
شیخ مکرم زبیر علی زئی رحمہ اللہ نے سینے پر ہاتھ باندھنے کی حدیث اصل کتاب سے پیش فرمائی ہے ،
اور آپ کہہ رہے ہیں کہ یہ طریقہ ثابت نہیں ، !۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔انا للہ و انا الیہ راجعون،
آپ کی عجیب زبر دستی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شیخ مکرم زبیر علی زئی صاحب نے جو حدیث پیش فرمائی اس کی عبارت درج ذیل ہے :
’’ عن قبيصة بن هلب، عن أبيه، قال: " رأيت النبي صلى الله عليه وسلم ينصرف عن يمينه وعن يساره، ورأيته، قال، يضع هذه على صدره "
سیدنا ھلب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ :
میں نے دیکھا رسول اللہ ﷺ نماز میں ہاتھ اپنے سینے پر رکھتے ‘‘
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
محترم! لوگوں کو دھوکہ کیوں دیتے ہو فراڈ کیوں کرتے ہو؟؟؟؟؟ اندھی تقلید سے کیوں باز نہیں آتے؟؟؟؟؟ مذکورہ حدیث مکمل لکھتے ہوئے کیوں ڈر لگا؟؟؟؟؟؟؟ اور یہ بھی بتا دیتے کہ پورے ذخیرہ احادیث میں اس سند سے یہی ایک حدیث ہے۔ پوری حدیث یوں ہے؛

مسند أحمد - (ج 44 / ص 451)
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ عَنْ سُفْيَانَ حَدَّثَنِي سِمَاكٌ عَنْ قَبِيصَةَ بْنِ هُلْبٍ عَنْ أَبِيهِ قَالَ
رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَنْصَرِفُ عَنْ يَمِينِهِ وَعَنْ يَسَارِهِ وَرَأَيْتُهُ قَالَ يَضَعُ هَذِهِ عَلَى صَدْرِهِ وَصَفَّ يَحْيَى الْيُمْنَى عَلَى الْيُسْرَى فَوْقَ الْمِفْصَلِ

ہلب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے دیکھا رسول اللہ ﷺ دائیں اور بائیں سے گھومتے تھے اور فرماتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ اس کو سینے پر رکھا۔ اور (راوئ حدیث) یحیٰ نے اپنا دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ کے (جوڑ) گٹ کے پاس رکھا۔
دونوں فقرے، جن کو واضح کیا ہے، ملاحظہ فرمائیں کیا اس میں کچھ تفاوت نظر آتا ہے۔ راوئ حدیث پہلے فقرہ کی تشریح میں جو عملاً دکھا رہے ہیں وہ کیا ہے؟ کیا اس نے سینہ پر ہاتھ باندھ کر دکھلائے ہیں یا کچھ اور کیا ہے؟
والسلام
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
292
پوائنٹ
165
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
نماز ميں داياں ہاتھ بائيں پر ركھنے كے دو طريقے ہيں:
پہلا طريقہ:

دائيں ہتھيلى بائيں ہاتھيلى، كلائى اور جوڑ پر ركھى جائے.
اس كى دليل ابو داود اور نسائى شريف كى درج ذيل حديث ہے:

وائل بن حجر رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں ميں نے كہا: ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو ضرور ديكھوں كہ آپ نماز كس طرح ادا كرتے ہيں، چنانچہ ميں نے ان كى طرف ديكھا: رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كھڑے ہوئے اور تكبير تحريمہ كہہ كر رفع اليدين كيا حتى كہ دونوں ہاتھ كانوں كے برابر ہو گئے، پھر رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اپنا داياں ہاتھ بائيں ہتھيلى كى پشت اور جوڑ اور كلائى پر ركھا.... الى آخر الحديث "
دوسرا طريقہ:

دائيں ہاتھ بائيں پر باندھا جائے.
نسائى رحمہ اللہ تعالى نے وائل بن حجر رحمہ اللہ تعالى سے روايت كيا ہے وہ بيان كرتے ہيں:

" ميں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو ديكھا: جب رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نماز ميں كھڑے ہوتے تو اپنا داياں ہاتھ بائيں پر ركھتے "
محترم! ان کا عربی متن بھی ساتھ لکھ دیتے تاکہ بات سمجھنی آسان ہوجاتی ۔
پہلے طریقہ کی حدیث؛
وائل بن حجر رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں ميں نے كہا: ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو ضرور ديكھوں كہ آپ نماز كس طرح ادا كرتے ہيں، چنانچہ ميں نے ان كى طرف ديكھا: رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كھڑے ہوئے اور تكبير تحريمہ كہہ كر رفع اليدين كيا حتى كہ دونوں ہاتھ كانوں كے برابر ہو گئے، پھر رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اپنا داياں ہاتھ بائيں ہتھيلى كى پشت اور جوڑ اور كلائى پر ركھا.... الى آخر الحديث "

دوسرے طریقہ کی حدیث؛
" ميں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو ديكھا: جب رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نماز ميں كھڑے ہوتے تو اپنا داياں ہاتھ بائيں پر ركھتے "

محترم یہ دو طریقے کیوں کر ہیں؟ کیا جب ’’داياں ہاتھ بائيں ہتھيلى كى پشت اور جوڑ اور كلائى پر ركھیں‘‘ تو ’’دایاں ہاتھ بائیں پر‘‘ ہی رہتا ہے کہیں اور تو نہیں چلا جاتا!!!!!!!!

مجھے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ دو طریقے بنا کرشخصیات کو خوش کرنا چاہتے ہو رہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت انہیں متلون مزاج بنادو۔ إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ

محترم! غلطی انسان سے ہوتی ہے اگر اصلاح کرلے تو کوئی پکڑ نہیں اور اگر شیطان کی طرح انا کا مسئلہ بنا لے اور تکبر میں آجائے تو نقصان اٹھائے گا۔

والسلام
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
292
پوائنٹ
165
سینہ پر ہاتھ باندھنے کی سینہ زوری ہو رہی ہے
ہاتھ کیسے باندھیں اسے سیکھنے کی کوشش نہیں ہورہی
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
292
پوائنٹ
165
ہاتھ باندھنے کا طریقہ
محترم قارئین کرام!ہاےھ باندھنے کا صحیح طریقہ یوں ہے؛
سیدھے ہاتھ کی ہتھیلی الٹے ہاتھ کی پشت پر گٹ کے قریب رکھیں اور سیدھے ہاتھ سے الٹے ہاتھ کو پکڑیں اور سیدھے ہاتھ کی کچھ انگلیاں الٹے ہاتھ پر بچھا دیں۔
ہاتھ باندھنے کا یہ طریقہ کسی بھی حدیث کے خلاف نہیں تمام احادیث کے مطابق ہے۔ لیکن تعصب، ضد، عناد اور ہٹ دھرمی کی انتہا دیکھیں کہ اس طرح ہاتھ باندھنے کو ’’غیر مقلدین‘‘ بدعت کہتے ہیں۔ جو طریقہ تمام احادیث کے مطابق ہے وہ بدعت ہؤا اور جو طریقہ زبیر علی زئی نے عملاً کرکے دکھایاوہ تمام احادیث کے مخالف ہونے کے باوجود مسنون ہی رہا!!!!!!
غیر مقلدین کی تقریباً تمام کتب (جو حقیقتا نقل در نقل ہیں اور دلائل سے ان کوئی واسطہ نہیں) میں اسی طریقہ پر زور دیا گیا ہے۔ بھلا ایسا کیوں کیا گیا اور اس کو آنکھیں بند کرکے قبول کرلیا گیا اس کے پیچھے صرف احناف دشمنی پوشیدہ ہے۔ احناف کی پیش کردہ احادیث کو بھی رد کرنے کے لئے ایڑھی چوٹی کا زور لگایا جاتا ہے یہاں تک کہ صحیح بخاری اور مسلم کی احادیث پر بھی اعتراضات وارد کر دیئے جاتے ہیں۔ مگر اپنے علماء کی بات بلا چوں چرا تسلیم کر لی جاتی ہے۔ اندھی تقلید کا کون شکار ہے ؟؟؟؟؟
اللہ کرے کہ غیر مقلدین کو حق کا ساتھ دینے کی توفیق اللہ تعالیٰ عطا فرمادے۔ آمیں یا رب العالمین
والسلام
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
غیر مقلدین کی تقریباً تمام کتب (جو حقیقتا نقل در نقل ہیں اور دلائل سے ان کوئی واسطہ نہیں) میں اسی طریقہ پر زور دیا گیا ہے۔ بھلا ایسا کیوں کیا گیا اور اس کو آنکھیں بند کرکے قبول کرلیا گیا اس کے پیچھے صرف احناف دشمنی پوشیدہ ہے۔ احناف کی پیش کردہ احادیث کو بھی رد کرنے کے لئے ایڑھی چوٹی کا زور لگایا جاتا ہے یہاں تک کہ صحیح بخاری اور مسلم کی احادیث پر بھی اعتراضات وارد کر دیئے جاتے ہیں۔ مگر اپنے علماء کی بات بلا چوں چرا تسلیم کر لی جاتی ہے۔ اندھی تقلید کا کون شکار ہے ؟؟؟؟؟
آپ بھی اس قدر سیخ پا ہورہے ہیں ، اس کی وجہ بھی شاید یہی ہو مخالف کو کسی کا ’’ دشمن ‘‘ ثابت کرسکیں ، ورنہ تو یہ اختلافی مسئلہ ہے ، اور اہل حدیث کے علاوہ کئی ایک لوگ سینے پر ہاتھ باندھنے کا موقف رکھتے ہیں ۔
یہ سینہ زوری والے رویے کا اظہار ، کسی مسلک و مذہب کے ساتھ خاص نہیں ، یہ ہر فرد کی اپنی طبیعت کا حصہ ہے ۔ ذلک فضل اللہ یؤتیہ من یشاء ۔
 
Top