• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سینے پر ہاتھ باندھ کر نماز پڑھنا صحیح ہے یا نہیں؟چار امام کا کیا تصور ہے؟یہ فقہ کہلاتے ہیں یا فرقہ،

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
سینے پر ہاتھ باندھ کر نماز پڑھنا صحیح ہے یا نہیں؟چار امام کا کیا تصور ہے؟یہ فقہ کہلاتے ہیں یا فرقہ، مسلک؟


لنک
نماز میں حالت قیام میں ہاتھ باندھنے نہ باندھنے میں اختلاف ہے، مالکیہ ارسال کرتے ہیں، باقی تین ائمہ وضع کے قائل ہیں اور اسی کو سنت کہتے ہیں، پھر حنفیہ ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے کو افضل کہتے ہیں، شوافع ناف سے اوپر اور سینہ کے نیچے ہاتھ باندھنے کو افضل کہتے ہیں۔ اور امام احمد رحمہ اللہ سے دو روایتیں ہیں، ناف سے نیچے ہاتھ باندھنا افضل ہے اور ناف کے اوپر سینہ کے نیچے ہاتھ باندھنا افضل ہے، دونوں قول ہیں۔ اور حنابلہ عام طور پر شوافع کے موافق عمل کرتے ہیں، غرض چاروں ائمہ متفق ہیں کہ سینہ پر ہاتھ باندھنا صحیح نہیں ہے، یہ رائے صرف غیرمقلدین کی ہے جو اجماع کا انکار کرنے کی وجہ سے گمراہ فرقہ ہے، ویسے نماز بہرصورت ہوجاتی ہے، اگر ہاتھ نہ باندھے تو بھی نماز ہوجاتی ہے۔

اماموں کا تصور صرف اس قدر ہے کہ وہ قرآن وحدیث کے شارح ہیں، اصول کی روشنی میں نصوص کا جو مطلب ائمہ سمجھتے ہیں وہ بیان کرتے ہیں، اس میں کبھی اختلاف بھی ہوجاتا ہے، اسی طرح استنباطی مسائل میں بھی کبھی اختلاف ہوجاتا ہے، پس جس شخص کو جس امام سے عقیدت ہے اس کو اسی کی پیروی کرنی چاہیے، تقلید میں تلفیق حرام ہے۔

چار فقہیں چار فرقے نہیں ہیں، بلکہ مسلک ہیں، یعنی دین پر عمل کی راہیں ہیں۔چاروں فقہیں صحیح ہیں اور سعودی عرب میں چاروں فقہوں پر عمل کرنے والے لوگ موجود ہیں، حرم کے ائمہ حنبلی ہیں اور وہ اپنے مسلک پر عمل کرتے ہیں۔ اور حرم کے ائمہ اور وہاں کے لوگوں کے بارے میں بریلوی جو کچھ کہتے ہیں وہ ان کی جہالت کی باتیں ہیں۔


 
Last edited:
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
@اشماریہ بھائی اوپر والے اور یہ والے فتویٰ کے بارے میں آپ کیا کہے گے -

کیا آپ کے علماء لوگوں کو گمراہ نہیں کر رہے ہیں

41675: نماز ميں سينے پر ہاتھ باندھنے كا طريقہ

نماز ميں نمازى اپنا داياں ہاتھ بائيں پر كيسے ركھے ؟

الحمد للہ:

نماز ميں داياں ہاتھ بائيں پر ركھنے كے دو طريقے ہيں:

پہلا طريقہ:

دائيں ہتھيلى بائيں ہاتھيلى، كلائى اور جوڑ پر ركھى جائے.

اس كى دليل ابو داود اور نسائى شريف كى درج ذيل حديث ہے:

وائل بن حجر رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں ميں نے كہا: ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو ضرور ديكھوں كہ آپ نماز كس طرح ادا كرتے ہيں، چنانچہ ميں نے ان كى طرف ديكھا: رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كھڑے ہوئے اور تكبير تحريمہ كہہ كر رفع اليدين كيا حتى كہ دونوں ہاتھ كانوں كے برابر ہو گئے، پھر رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اپنا داياں ہاتھ بائيں ہتھيلى كى پشت اور جوڑ اور كلائى پر ركھا.... الى آخر الحديث "

سنن ابو داود حديث نمبر ( 726 ) سنن نسائى حديث نمبر ( 889 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے اس حديث كو صحيح سنن ابو داود ميں صحيح قرار ديا ہے.

نسائى شريف كے حاشيہ ميں سندى رحمہ اللہ كا كہنا ہے:

( پھر رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اپنا داياں ہاتھ بائيں ہتھيلى كى پشت اور جوڑ اور كلائى پر ركھا )

الرسغ: يہ ہتھيلى اور كلائى كے جوڑ كا نام ہے، اور اس سے مراد يہ ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ہاتھ اس طرح ركھا كہ دائيں ہتھيلى جوڑ پر آگئى اس سے يہ لازم آتا ہے كہ ہتھلى كا كچھ حصہ بائيں ہتھيلى پر اور كچھ حصہ كلائى پر ہو " انتہى.

دوسرا طريقہ:

دائيں ہاتھ بائيں پر باندھا جائے.

نسائى رحمہ اللہ تعالى نے وائل بن حجر رحمہ اللہ تعالى سے روايت كيا ہے وہ بيان كرتے ہيں:

" ميں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو ديكھا: جب رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نماز ميں كھڑے ہوتے تو اپنا داياں ہاتھ بائيں پر ركھتے "

سنن نسائى حديث نمبر ( 887 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح نسائى ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى " صفۃ صلاۃ النبى صلى اللہ عليہ وسلم " ميں رقمطراز ہيں:

" اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم اپنا داياں ہاتھ بائيں ہتھيلى، جوڑ اور كلائى پر ركھتے تھے، اور اپنے صحابہ كو بھى اس كا حكم ديا، اور بعض اوقات دائيں ہاتھ كے ساتھ بائيں كو پكڑتے، اور دونوں ہاتھ سينے پر باندھتے " انتہى.


ديكھيں: صفۃ صلاۃ النبى صلى اللہ عليہ وسلم صفحہ نمبر ( 68 ).

واللہ اعلم .

http://islamqa.info/ur/41675
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
نماز میں سینے پر ہاتھ باندھنے کی حدیث

شروع از عبد الوحید ساجد بتاریخ : 07 November 2013 10:26 AM
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
نماز میں سینے پر ہاتھ باندھنے کی حدیث باحوالہ درکار ہے،جواب دیکر عند اللہ ماجور ہوں۔؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
نماز میں سینے پر ہاتھ باندھنے کی متعدد احادیث ،مختلف کتب احادیث میں موجود ہیں۔جن میں سے دو صحیح احادیث پیش خدمت ہیں۔

حَدَّثَنَا أَبُو تَوْبَةَ، حَدَّثَنَا الْهَيْثَمُ يَعْنِي ابْنَ حُمَيْدٍ، عَنْ ثَوْرٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ مُوسَى، عَنْ طَاوُسٍ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «يَضَعُ يَدَهُ الْيُمْنَى عَلَى يَدِهِ الْيُسْرَى، ثُمَّ يَشُدُّ بَيْنَهُمَا عَلَى صَدْرِهِ وَهُوَ فِي الصَّلَاةِ» سنن ابوداؤد:ـکتاب الصلوٰة:باب وضع الیمنی علی الیسری فی الصلوٰة،حدیث نمبر759۔
ہم سے ابوتوبہ نے بیان کیا انہوں نے کہا: ہم سے ہیثم یعنی ابن حمید نے بیان کیاانہوں نے ، ثور سے روایت کیا انہوں نے ، سلیمان بن موسی سے روایت کیا انہوں نے طاؤس کے حوالہ سے نقل کیا ، انہوں نے کہا کہ:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے دوران میں اپنا دایاں ہا تھ بائیں کے اوپر رکھتے اور انہیں اپنے سینے پر باندھا کرتے تھے۔

اس حدیث کو امام البانی نے صحیح کہا ہے۔

عَنْ وَائِلِ بِنْ حُجْرٍ قَالَ صَلَّیْتُ مَعَ رَسُوْلِ اﷲِ ﷺ فَوَضَعَ یَدَہٗ الْیُمْنٰی عَلیٰ یَدِہِ الْیُسْرٰی عَلیٰ صَدْرِہِ (صحیح ابن خزیمہ ص۲۴۳ج۱)
وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺکے ساتھ نماز پڑھی تو آپ نے اپنا دایاں ہاتھ مبارک اپنے بائیں ہاتھ مبارک کے اوپر اپنے سینے مبارک پر رکھا ۔

صحت حدیث :۔ امام ابن خزیمہ اپنی صحیح کے متعلق شروع میں اپنی شرط اس طرح ذکر کرتے ہیں ۔

المختصر من المسند الصحیح عن النبی ﷺ بِنَقْلِ الْعَدْلِ عَنِ الْعَدْلِ مَوْصُوْلاً اِلَیْہِ ﷺ مِنْ غَیْرِ قَطعٍ فِیْ اَثْناَئِ الْاِسْنَادَ وَلاَ جَرح فِیْ نَاقِلِی الْاَخْبَارِ الَّتِیْ نَذْکُرُہَا بِمَشِیْئَۃِ اﷲِ تَعَالیٰ (ابن خزیمہ ص۲ ج ۱ )
یہ مختصر صحیح احادیث کا مجموعہ ہے جو رسول اللہ ﷺ تک صحیح اور متصل سند کیساتھ پہنچتی ہیں اور درمیان میں کوئی راوی ساقط یا سند میں انقطاع نہیں ہے اور نہ تو راویوں میں سے کوئی راوی مجروح یا ضعیف ہے ۔

اس سے ثابت ہوا کہ یہ حدیث بالکل صحیح اور سالم ہے۔

اور نماز میں سینے پر ہاتھ باندھنا نبی کریم کی سنت مبارکہ ہے۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
فتوی کمیٹی
محدث فتوی
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,898
پوائنٹ
436
اگر ہاتھ نہ باندھے تو بھی نماز ہوجاتی ہے۔

پس جس شخص کو جس امام سے عقیدت ہے اس کو اسی کی پیروی کرنی چاہیے، تقلید میں تلفیق حرام ہے۔

چار فقہیں چار فرقے نہیں ہیں، بلکہ مسلک ہیں، یعنی دین پر عمل کی راہیں ہیں۔چاروں فقہیں صحیح ہیں-

@اشماریہ بھائی افطار کر کے انشاءللہ ضرور ان باتوں کی وضاحت کر دیں گے -
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
@اشماریہ بھائی اوپر والے اور یہ والے فتویٰ کے بارے میں آپ کیا کہے گے -

کیا آپ کے علماء لوگوں کو گمراہ نہیں کر رہے ہیں

41675: نماز ميں سينے پر ہاتھ باندھنے كا طريقہ

نماز ميں نمازى اپنا داياں ہاتھ بائيں پر كيسے ركھے ؟

الحمد للہ:

نماز ميں داياں ہاتھ بائيں پر ركھنے كے دو طريقے ہيں:

پہلا طريقہ:

دائيں ہتھيلى بائيں ہاتھيلى، كلائى اور جوڑ پر ركھى جائے.

اس كى دليل ابو داود اور نسائى شريف كى درج ذيل حديث ہے:

وائل بن حجر رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں ميں نے كہا: ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو ضرور ديكھوں كہ آپ نماز كس طرح ادا كرتے ہيں، چنانچہ ميں نے ان كى طرف ديكھا: رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كھڑے ہوئے اور تكبير تحريمہ كہہ كر رفع اليدين كيا حتى كہ دونوں ہاتھ كانوں كے برابر ہو گئے، پھر رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اپنا داياں ہاتھ بائيں ہتھيلى كى پشت اور جوڑ اور كلائى پر ركھا.... الى آخر الحديث "

سنن ابو داود حديث نمبر ( 726 ) سنن نسائى حديث نمبر ( 889 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے اس حديث كو صحيح سنن ابو داود ميں صحيح قرار ديا ہے.

نسائى شريف كے حاشيہ ميں سندى رحمہ اللہ كا كہنا ہے:

( پھر رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اپنا داياں ہاتھ بائيں ہتھيلى كى پشت اور جوڑ اور كلائى پر ركھا )

الرسغ: يہ ہتھيلى اور كلائى كے جوڑ كا نام ہے، اور اس سے مراد يہ ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ہاتھ اس طرح ركھا كہ دائيں ہتھيلى جوڑ پر آگئى اس سے يہ لازم آتا ہے كہ ہتھلى كا كچھ حصہ بائيں ہتھيلى پر اور كچھ حصہ كلائى پر ہو " انتہى.

دوسرا طريقہ:

دائيں ہاتھ بائيں پر باندھا جائے.

نسائى رحمہ اللہ تعالى نے وائل بن حجر رحمہ اللہ تعالى سے روايت كيا ہے وہ بيان كرتے ہيں:

" ميں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو ديكھا: جب رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نماز ميں كھڑے ہوتے تو اپنا داياں ہاتھ بائيں پر ركھتے "

سنن نسائى حديث نمبر ( 887 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح نسائى ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى " صفۃ صلاۃ النبى صلى اللہ عليہ وسلم " ميں رقمطراز ہيں:

" اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم اپنا داياں ہاتھ بائيں ہتھيلى، جوڑ اور كلائى پر ركھتے تھے، اور اپنے صحابہ كو بھى اس كا حكم ديا، اور بعض اوقات دائيں ہاتھ كے ساتھ بائيں كو پكڑتے، اور دونوں ہاتھ سينے پر باندھتے " انتہى.


ديكھيں: صفۃ صلاۃ النبى صلى اللہ عليہ وسلم صفحہ نمبر ( 68 ).

واللہ اعلم .

http://islamqa.info/ur/41675
ایک تو مجھے ہر جگہ ٹیگ نہیں کیا کریں۔ جہاں واقعی کچھ پوچھنا مقصود ہو وہاں ٹیگ کیا کریں۔ ایسا نہ ہو کہ لولی آل ٹائم کی طرح میں آپ کی ٹیگنگ پر بھی توجہ دینا چھوڑ دوں۔
اب ذرا آپ وضاحت فرما دیں کہ کس بات میں گمراہ کرنے کا کہہ رہے ہیں؟
اگر اس مسئلے کے بارے میں تو یہ اختلافی مسئلہ ہے۔ جو دو احادیث آپ نے پیش فرمائی ہیں ان میں پہلی میں سلیمان بن موسی مجروح راوی ہے اور یہ ہے بھی مرسل۔ جب کہ مرسل احناف کے ہاں تو مقبول ہوتی ہے لیکن آپ لوگوں کے ہاں غالباً نہیں ہوتی تیسری بات یہ حدیث مضطرب بھی ہے۔ دوسری حدیث میں مؤمل بن اسماعیل ضعیف راوی ہے اور ثقہ روات پر زیادتی کر رہا ہے۔ ثقہ راوی کی زیادتی تو قبول ہوتی ہے لیکن ضعیف راوی کی نہیں۔
ان میں سے پہلی حدیث پر میں ایک تھریڈ میں بات کر چکا ہوں۔
لیکن جب بھی کوئی اختلافی مسئلہ ہوتا ہے تو اس میں علماء کسی جانب کی حدیث ضعیف ہونے کے باوجود بھی قبول کرتے ہیں اور یہی اجتہادی امر ہوتا ہے اس لیے میں کسی کو متہم نہیں کرتا۔

اور اگر اس بارے میں کہہ رہے ہیں کہ سینے کے اوپر ہاتھ باندھنا کسی امام کا مسلک نہیں ہے تو میری معلومات کی حد تک یہ صحیح ہے۔ ائمہ کا مسلک سینے پر ہاتھ باندھنا یعنی اس کے نچلے حصے میں یا عند الصدر (جیسا کہ غالبا حافظ ابن حجرؒ نے تصریح کی ہے) ہے۔ سینے کے اوپر فوق الصدر ائمہ میں سے شاید کسی کا مسلک نہیں ہے۔
واللہ اعلم
 

راجا

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 19، 2011
پیغامات
733
ری ایکشن اسکور
2,574
پوائنٹ
211
ایک تو مجھے ہر جگہ ٹیگ نہیں کیا کریں۔ جہاں واقعی کچھ پوچھنا مقصود ہو وہاں ٹیگ کیا کریں۔ ایسا نہ ہو کہ لولی آل ٹائم کی طرح میں آپ کی ٹیگنگ پر بھی توجہ دینا چھوڑ دوں۔
اب ذرا آپ وضاحت فرما دیں کہ کس بات میں گمراہ کرنے کا کہہ رہے ہیں؟
اگر اس مسئلے کے بارے میں تو یہ اختلافی مسئلہ ہے۔ جو دو احادیث آپ نے پیش فرمائی ہیں ان میں پہلی میں سلیمان بن موسی مجروح راوی ہے اور یہ ہے بھی مرسل۔ جب کہ مرسل احناف کے ہاں تو مقبول ہوتی ہے لیکن آپ لوگوں کے ہاں غالباً نہیں ہوتی تیسری بات یہ حدیث مضطرب بھی ہے۔ دوسری حدیث میں مؤمل بن اسماعیل ضعیف راوی ہے اور ثقہ روات پر زیادتی کر رہا ہے۔ ثقہ راوی کی زیادتی تو قبول ہوتی ہے لیکن ضعیف راوی کی نہیں۔
ان میں سے پہلی حدیث پر میں ایک تھریڈ میں بات کر چکا ہوں۔
لیکن جب بھی کوئی اختلافی مسئلہ ہوتا ہے تو اس میں علماء کسی جانب کی حدیث ضعیف ہونے کے باوجود بھی قبول کرتے ہیں اور یہی اجتہادی امر ہوتا ہے اس لیے میں کسی کو متہم نہیں کرتا۔

اور اگر اس بارے میں کہہ رہے ہیں کہ سینے کے اوپر ہاتھ باندھنا کسی امام کا مسلک نہیں ہے تو میری معلومات کی حد تک یہ صحیح ہے۔ ائمہ کا مسلک سینے پر ہاتھ باندھنا یعنی اس کے نچلے حصے میں یا عند الصدر (جیسا کہ غالبا حافظ ابن حجرؒ نے تصریح کی ہے) ہے۔ سینے کے اوپر فوق الصدر ائمہ میں سے شاید کسی کا مسلک نہیں ہے۔
واللہ اعلم
سینے کے اوپر نہیں، سینے پر ہاتھ باندھنے کے مسلک کی ائمہ سے نفی کی گئی ہے۔ جو کہ صریح کذب بیانی ہے۔ جب ایک مذہب کے مفتیوں کا یہ حال ہوگا تو عوام الناس بے چارے کیا کریں۔ آپ بھی بات گھما گئے اور اصل سوال پر بات نہیں کی۔
ویسے کمال ہے سینے پر ہاتھ باندھنے کی کوئی حدیث بھی احناف کے نزدیک صحیح نہیں ہے اور پھر بھی پچاس فیصد سے زائد احناف سینے پر ہی ہاتھ باندھتے ہیں ۔۔ حنفی خواتین۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
سینے کے اوپر نہیں، سینے پر ہاتھ باندھنے کے مسلک کی ائمہ سے نفی کی گئی ہے۔ جو کہ صریح کذب بیانی ہے۔ جب ایک مذہب کے مفتیوں کا یہ حال ہوگا تو عوام الناس بے چارے کیا کریں۔ آپ بھی بات گھما گئے اور اصل سوال پر بات نہیں کی۔
ویسے کمال ہے سینے پر ہاتھ باندھنے کی کوئی حدیث بھی احناف کے نزدیک صحیح نہیں ہے اور پھر بھی پچاس فیصد سے زائد احناف سینے پر ہی ہاتھ باندھتے ہیں ۔۔ حنفی خواتین۔
گڈ ورک
اور کوئی حدیث صحیح نہیں ہونے کے باوجود سو فیصد اہل حدیث سینے پر ہاتھ باندھتے ہیں۔ کیا خیال ہے؟
موقع ہونا چاہیے اعتراض کا جناب کے پاس۔
 

راجا

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 19، 2011
پیغامات
733
ری ایکشن اسکور
2,574
پوائنٹ
211
گڈ ورک
اور کوئی حدیث صحیح نہیں ہونے کے باوجود سو فیصد اہل حدیث سینے پر ہاتھ باندھتے ہیں۔ کیا خیال ہے؟
موقع ہونا چاہیے اعتراض کا جناب کے پاس۔
ارے بھائی، اگر جواب دینا مقصود تھا تو پہلے اصل سوال پر نظر کرم فرماتے:
سینے کے اوپر نہیں، سینے پر ہاتھ باندھنے کے مسلک کی ائمہ سے نفی کی گئی ہے۔ جو کہ صریح کذب بیانی ہے۔ جب ایک مذہب کے مفتیوں کا یہ حال ہوگا تو عوام الناس بے چارے کیا کریں۔ آپ بھی بات گھما گئے اور اصل سوال پر بات نہیں کی۔
باقی سینے پر ہاتھ باندھنے کی احادیث احناف کے نزدیک ضعیف ہیں، اس کے باوجود وہ اس پر عمل پیرا ہیں، یہ اعتراض تو بنتا ہے۔
اہلحدیث کے نزدیک تو سینے پر ہاتھ باندھنے والی احادیث ثابت ہیں، لہٰذا وہ سو فیصد احادیث پر عمل کرتے ہیں، احناف کی مانند منافقت ، دو رخی اختیار نہیں کرتے۔ اس پر کیا اعتراض ہے جناب کا؟ واضح فرمائیے۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
ارے بھائی، اگر جواب دینا مقصود تھا تو پہلے اصل سوال پر نظر کرم فرماتے:


باقی سینے پر ہاتھ باندھنے کی احادیث احناف کے نزدیک ضعیف ہیں، اس کے باوجود وہ اس پر عمل پیرا ہیں، یہ اعتراض تو بنتا ہے۔
اہلحدیث کے نزدیک تو سینے پر ہاتھ باندھنے والی احادیث ثابت ہیں، لہٰذا وہ سو فیصد احادیث پر عمل کرتے ہیں، احناف کی مانند منافقت ، دو رخی اختیار نہیں کرتے۔ اس پر کیا اعتراض ہے جناب کا؟ واضح فرمائیے۔
اصل سوال کا سیدها سا جواب تو یہ ہے کہ جس دارالافتا کا یہ فتوی ہے وہاں سے پوچھ لیں۔ مجھ سے کیوں پوچھ رہے ہیں۔

ویسے ہمارے یہاں تین اصطلاحات استعمال ہوتی ہیں۔ سینے پر، فوق السرۃ اور تحت السرۃ۔ ان میں سے سینے پر وہ مقام کہلاتا ہے جہاں آپ لوگ عمل کرتے ہیں۔ اس پر اگر ائمہ اربعہ میں سے کسی کے عمل کا حوالہ ہو تو عنایت فرمائیے۔

احناف قیاس پر ضعیف حدیث کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس طرح تو احناف آپ سے بہتر ہوئے کہ وہ تحت السرۃ اور علی الصدر دونوں پر عمل کر لیتے ہیں۔ اور آپ صرف علی الصدر پر عمل کرتے ہیں۔ اور یہ احادیث آپ کے نزدیک ثابت بھی ہیں جو کہ حیرت کی بات ہے۔ خیر ہوں گی۔
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
گڈ ورک
اور کوئی حدیث صحیح نہیں ہونے کے باوجود سو فیصد اہل حدیث سینے پر ہاتھ باندھتے ہیں۔ کیا خیال ہے؟
موقع ہونا چاہیے اعتراض کا جناب کے پاس۔
نماز میں داہنے ہاتھ سے بایاں ہاتھ پکڑنا"


( جلد کا نمبر 5; صفحہ 307)

سوال نمبر: 1 - فتوی نمبر:16099

س 1: میں کچھ لوگوں کو دیکھتا ہوں کہ نماز میں اپنا دائيں ہاتھ بائیں ہاتھ پر رکھتے ہیں، ایسا کیوں کرتے ہیں، اسکی کیا دلیل ہے؟

ج 1: نماز میں داہنے ہاتھ سے بایاں ہاتھ پکڑنا اوراسے قیام کی حالت میں سینہ پر رکھنا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے، جیسا کہ
حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ نے كہا ہے کہ انہوں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ جب آپ نماز شروع کرتے تو اپنے ہاتھ اٹھاتے اور تکبیرکہتے ، پھر اپنے کپڑے سدھارلیتے ، پھر اپنے بائیں ہاتھ پر داہنا ہاتھ رکھ لیتے۔
اس حدیث کی امام نسائی، ابن حبان اور ابن خزیمہ نے تخریج کی ہے، اسکی تائید قبیصہ بن ہلب الطائی کی حدیث سے ہوتی ہے جسے امام احمد نے اپنی مسند میں نقل کیا ہے۔

وبالله التوفيق۔ وصلى الله على نبينا محمد، وآله وصحبه وسلم۔


علمی تحقیقات اور فتاوی جات کی دائمی کمیٹی




ممبرممبرممبرنائب صدرصدر
بکر ابو زیدعبد العزیزآل شيخصالح فوزانعبدالرزاق عفیفیعبدالعزیز بن عبداللہ بن باز


 
Top