• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

شادی سے پہلے بیوی کو کس طرح پہچانے گا کہ وہ محبت کرنے والی اور بچے پیدا کرنے والی ہے؟

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,409
پوائنٹ
562
بے چاری بانجھ عورت یا لڑکی کا کیا قصور کہ اس سے نکاح کرنے کےلیے کوئی راضی نہ ہو ؟
یہ کس نے کہہ دیا کہ کوئی راضی نہیں۔ شادی کا بنیادی مقصد نسل انسانی کو آگے بڑھانا ہے۔ لہٰذا اگر کوئی پہلی شادی کر رہا ہے اور اسے معلوم ہوگیا ہے کہ فلاں لڑکی یا عورت بانجھ ہے تو اسے پہلی شادی اس سے نہیں کرنی چاہئے۔ البتہ جو لوگ دوسری یا تیسری شادی کر رہے ہیں، وہ بانجھ یا دیگر جسمانی معذور خاتون سے شادی کرسکتے ہیں بلکہ کرنا چاہئے۔ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ایسی ہی سن رسیدہ خاتون سے بھی شادی کی تھی جو ازدواجی تعلقات میں بھی دلچسپی نہیں رکھتی تھیں اور انہوں نے اپنی ’باری‘ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو دے دی تھی۔
صرف ایک حدیث سے متعلقہ موضوع پر کوئی ”حتمی رائے“ قائم نہیں کرنی چاہئے بلکہ اس موضوع سے متعلق تمام احادیث اور سیرت کا مطالعہ کرنا چاہئے۔
 

ماریہ انعام

مشہور رکن
شمولیت
نومبر 12، 2013
پیغامات
498
ری ایکشن اسکور
377
پوائنٹ
164
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

لڑکے یا لڑکی کے رشتے کی تلاش میں شریعت جو ہمیں رہنمائی فراہم کرتی ہے اس کا ایک اہم پہلو کفوہے۔۔۔۔کفو سے مراد یہ ہے کہ لڑکا یا لڑکی اپنے دینی معاملہ‘ معاشرتی سٹیٹس‘ تعلیم‘ ظاہری شکل وصورت ‘وغیرہ میں ایک دوسرے کے برابر یا قریب قریب ہوں۔۔۔فقہاء نے بہت سے فقہی معاملات کی بنیاد اسی اہم اصول پر رکھی ہے۔۔۔۔
لہذا دیگرمعاملات کی طرح تعلیم میں بھی میں سمجھتی ہوں بیوی کو کفو ہونا چاہیے۔۔۔رہی شوہر کوقوام سمجھنے کی بات تو صحیح تعلیم و تربیت کبھی عورت کو اپنی نسوانیت سے بغاوت پر نہیں ابھارتی۔۔۔اقبال نے کہا تھا

جس علم کی تاثیر سے زن ہوتی ہے نازن
کہتے ہیں اسی علم کو اربابِ نظر موت
بے گانہ رہے دین سے اگر مدرسہ زن
ہے عشق و محبت کے لیے علم وہنر موت

میں ایسی خاتون کو جانتی ہوں جو کوئین میری کالج میں پروفیسر ہیں اپنے شوہر سے کہیں زیادہ تعلیم یافتہ ہیں ۔۔شوہر سے کہیں زیادہ کما رہی ہیں لیکن انھوں نے کبھی اس بات کو تسلیم ہی نہیں کیا کہ میری کمائی سے گھر چل رہا ہے۔۔۔بلکہ ہمیشہ اپنے شوہر کو اعتماد دیا ہے۔۔دوسری طرف ایک ایسی خاتون ہیں جو اپنے شوہرسے تعلیم اور عقل میں کچھ کم ہیں ۔۔اپنے شوہر کو انھوں نے ہمیشہ اپنے سر کا تاج بنایا ہے۔۔۔آج ان کی شادی کو اٹھائیس سال ہو چکے ہیں لیکن ان کے شوہر کبھی ان سے خوش نہیں ہوئے۔۔۔
تعلیم کے دروازے شریعت نے کبھی بھی خواتین پر بند نہیں کیے۔۔۔آپﷺ نے عورتوں کی نعلیم کے لیے ایک دن خاص کیا ہوا تھا۔۔۔ازواجِ مطھرات میں سے کچھ قرآن کی حافظہ تھیں۔۔۔حضرت عائشہ کی فقاہت کے کیا کہنے۔۔۔؟؟؟؟
گویا خلاصہ بحث یہ ہے کہ اگر کوئی خاتون اپنے شوہر کو اہمیت نہیں دیتی تو قصور تعلیم کا نہیں بلکہ تربیت کا ہے جس کی ہمارے معاشرے میں شدید کمی ہے
کسی نے کیا خوب کہا تھا
عقل مند عورت اپنے شوہر کو بادشاہ بناتی ہے اور خود ملکہ بنتی ہے۔۔۔جبکہ بیوقوف خاتون اپنے شوہر کو کم تر حیثیت دیتی ہے اور خود ایک فقیر کی بیوی بنتی ہے
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,409
پوائنٹ
562
  1. تو کیا عورت کوزیادہ ’’تعلیم‘‘ حاصل نہیں کرنی چاہیئے۔۔؟
  2. تعلیم انسان میں عقل وشعور پیدا کرتی ہے ،اگر گھمنڈ و غرور پیدا ہو تو وہ تعلیم نہیں کچھ اورہے۔
  3. بہت سی پڑھی لکھی خواتین بھی ایسے معاملات کی حامل ہو تی ہیں اور کچھ ان پڑھ خواتین سے بھی ان معاملات کی توقع نہیں کی جا سکتی۔۔۔
  4. بات کسی اور طرف نکل جائے گی لیکن عمومی طور پر لڑکیاں چاہتی ہیں کہ لڑکا ہماری نسبت زیادہ پڑھا و تو بھی تعلیم کو قصور وار گردانا جاتا ہے کہ نہ اتنا پڑھتی تو نہ یہ سوچتی ۔مرد کی تعلیم کون دیکھتا ہے ؟؟اسے تو کاروبار ،نوکری سے سروکار ہوتا ہے ۔۔۔
  5. اگر لڑکی پڑھے لکھے نہ تو ان پڑھ گنوار کہہ کر مسترد کر دیا جا تا ہے ۔۔۔۔اس میں قصور تعلیم زیادہ کم ہونے کا نہیں اپنے عقل و فہم اور سب سے بڑھ کر تربیت کا ہے ۔۔ ۔۔
ماشاء اللہ آپ نے بہت عمدہ طریقے سے آج کی پڑھی لکھی لڑکیوں کی ”ترجمانی“ کی ہے۔اللہ کرے زور قلم اور زیادہ تاکہ کھلے مکالمہ کے ذریعہ اکثر لڑکیوں کے ذہنوں میں اٹھنے والے سوالات کا تجزیہ کیاجاسکے۔
  1. جی نہیں عورت کو تعلیم ضرور حاصل کرنی چاہئے، جتنی اس میں ہمت اور قابلیت ہے۔ مشہور مقولہ ہے کہ ایک مرد اگر تعلیم حاصل کرتا ہے تو ایک فرد تعلیم یافتہ ہوتا ہے۔ لیکن اگر ایک عورت تعلیم یافتہ ہوتی ہے تو پوری ایک نسل تعلیم یافتہ ہوجاتی ہے۔ لیکن تعلیم اور شادی کو ایک دوسرے سے مکس اَپ نہیں کرنا چاہئے۔ شادی کرنے کا مطلب تعلیم کو فل اسٹاپ لگانا ہرگز نہیں ہے۔ گو کہ ہمارے معاشرے میں ایسا سمجھ لیا گیا ہے۔ دنیا بھر میں ایسا کہیں نہیں ہے۔ فیملی سسٹم نہ ہونے کے سبب ترقی یافتہ ممالک کی جامعات میں مائیں اپنے ننھے ننھے بچوں کے ساتھ بھی جامعات آتی ہیں اور ہر جامعہ میں ڈے کیئر سینٹر بھی ہوا کرتا ہے۔ ہمارے ہاں فیملی سسٹم موجود ہے۔ لہٰذا لڑکیاں شادی اور بچوں کی پیدائش کے بعد بھی اپنی ہر قسم کی تعلیم جاری رکھ سکتی ہیں۔ ایک مثال: کہا جاتا ہے کہ میڈیکل کی تعلیم سب سے مشکل ہے۔ اور عموماً لڑکے اور بالخصوص لڑکیوں کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ پاس آؤٹ کرکے، ہاؤس جاب کر کے ہی شادی کرے۔ ہماری بیٹی کراچی کے ایک بڑے میڈیکل کالج میں پڑھتی ہے۔ اس کی ایک کلاس میٹ سہیلی کے اب تک دو بچے ہوچکے ہیں اور وہ تعلیم بھی ساتھ ساتھ حاصل کر رہی ہے۔ شادی ایک اسلامی فریضہ ہے جبکہ اعلیٰ پیشہ ورانہ تعلیم معاشرے یا فرد کی ضرورت تو ہوسکتی ہے لیکن یہ ”فرض عین“ ہر گز نہیں۔ لہٰذا اگر کسی کو اعلیٰ تعلیم کا شوق ہو تو اسے ”مشکل حالات“ اور ہارڈ ورک کے لئے بھی تیار رہنا چاہئے اور مناسب وقت پر شادی کو اس لئے نہیں ٹالنا چاہئے کہ ابھی تو ہم پڑھ رہے ہیں۔ بہت سی خواتین نے اپنی رسمی تعلیم میں ”وقفہ“ بھی کیا اور بچوں کے بڑے ہوتے ہی دوبارہ تعلیمی ادارہ جوائن کرلیا۔ ایک ماں اور بیٹی نے ایک ساتھ جامعہ کراچی سے ایم ایسی سی کیا۔ ہمیں ایسی اچھی مثالوں کو فالو کرنا چاہئے۔
  2. دنیوی تعلیم کے ساتھ اگر دینی تعلیم و شعور نہ ہو تو آج کل صرف دنیوی تعلیم بالعموم گھمنڈ اور غرور ہی پیدا کرتی ہے۔ لڑکے اور لڑکیوں دونوں میں۔ اس سے انکار ممکن نہیں۔ تعلیم بذات خود کوئی ”مقصد“ نہیں ہے بلکہ مقصد کے حصول کا ”ذریعہ“ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اگر کسی لڑکے کو دوران تعلیم ہی اچھی ملازمت یا اچھا کاروبار مل جائے تو وہ اعلیٰ تعلیم کی طرف توجہ نہیں دیتا۔ لڑکیوں کو چونکہ بالعموم ملازمت یا کاروبار نہیں کرنا ہوتا بلکہ تعلیم سے اپنا ”اسٹیٹس“ بلند کرنا اور شعور و آگہی حاصل کرنا ہوتا ہے۔ لہٰذا وہ شادی کے بعد بھی اپنی تعلیم جاری رکھ سکتی ہیں۔ سادہ بی اے اور ایم اے وغیرہ تو پرائیویٹ بھی کیا جاسکتا ہے۔ سائنس اور پیشہ ورانہ تعلیم کے لئے یا تو شادی کے بعد کچھ وقفہ کرلیا جائے یا ہارڈ ورک کرتے ہوئے دونوں فرائض انجام دئے جائیں۔ اگر کوئی لڑکی ”اکڑ“ جائے کہ نہیں مجھے تو ہر حال میں پہلے تعلیم ”مکمل“ کرنی ہے۔ خواہ کتنے ہی مناسب رشتے چھوٹ جائیں تو یہ گھمنڈی رویہ دانشمندانہ ہرگز نہیں ہے۔ آج کل ویسے بھی آبادی میں لڑکوں کی تعداد کم اور لڑکیوں کی تعداد زیادہ ہے۔ پھر نکمے، بے روزگار اور جرائم میں ملوث ہونے کے سبب اچھے لڑکے مزید کم بچ جاتے ہیں۔ لہٰذا کسی لڑکی کو تعلیم کے کسی بھی مرحلہ پر کوئی اچھا رشتہ ملے اور اس کے والدین اصرار کریں تو فوراً شادی کرلینی چاہئے ورنہ پھر ساری عمر پچھتانا بھی پڑ سکتا ہے۔ آج صرف پاکستان میں لاکھوں لڑکیاں، جو اعلیٰ تعلیم یافتہ اور بر سر روزگار بھی ہیں، محض اسی گھمنڈ اور ضد کی وجہ سے اوور ایج ہوکر تنہا زندگی گزار رہی ہیں۔
  3. درست
  4. مردوں میں بائی ڈیفالٹ ”حاکمیت“ کا جزبہ پایا جاتا ہے۔ مرد کو اللہ تعالیٰ نے بھی ایک درجہ بلند دیا ہے۔ اسے جسمانی اور ذہنی طور پر قوی بنایا ہے۔ وہ بیوی بچوں کا کفیل بھی ہے۔ اسی لئے وہ یہ چاہتا ہے کہ لڑکی اس سے سوشیل اسٹیٹس میں، تعلیم میں، اور دیگر معاملات میں ”تھوڑی کم“ ہو تاکہ اس پر ڈیپینڈنٹ رہے اور ”خود مختار و آزاد“ نہ ہوجائے۔ یہ ایک فطری بات ہے بالکل اسی طرح جیسے ہر باشعور لڑکی بھی یہی چاہتی ہے کہ اس کا شوہر اس سے بڑا، اس سے زیادہ طاقتور، اس سے زیادہ تعلیم یافتہ اور اس سے زیادہ مالدار ہو یا زیادہ کمانے والا ہو۔ یہ دونوں فطری جزبے ہیں جو اپنی اپنی جگہ درست ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ لیکن دونوں کو، بالخصوص لڑکیوں کو ”زمینی حقائق“ نظر انداز نہیں کرنے چاہئے۔ اسے یہ نہیں بھولنا چاہئے رشتہ کے حصول کے معاملہ میں لڑکوں کی نسبت اس کے پاس ”آپشنز“ بہت کم ہیں۔ مجموعی طور پر معاشرے میں لڑکے تعلیم میں پیچھے اور لڑکیاں آگے جارہی ہیں۔ لڑکے نکھٹو، اور جرائم میں بھی ملوث ہورہے ہیں۔ اس ”ماحول“ میں اگر کوئی لڑکی یہ ”ضد“ کرے کہ وہ اعلیٰ تعلیم پہلے حاصل کرے، بر سر روزگار بھی ہوجائے اور اس کے بعد اسے اپنے سے زیادہ تعلیم یافتہ اور اپنے سے زیادہ کمانے والا رشتہ ملے تو اسے کیا کہا جائے۔ یہ تو دو اور چار کی طرح ممکن ہی نہیں۔ شاید کچھ کو ایسا رشتہ مل جائے لیکن بھاری اکثریت کو ایسا رشتہ نہیں ملے گا۔ اور یہ یاد رکھئے کہ مرد جب تک اچھا کمانے والا نہ ہو اور لڑکی شادی شدہ نہ ہو، دونوں کی دنیوی زندگی اجیرن ہوجاتی ہے اور اجیرن دنیوی زندگی سے بہتر اخروی زندگی کا حصول ناممکن تو نہیں البتہ مشکل بہت بہت بہت ہوتا ہے۔
  5. ان پڑھ اور گنوار تو خیر لڑکیوں کو کبھی نہیں رہنا چاہئے۔ اسے کم از کم میٹرک انٹر ضرور پڑھنا چاہئے۔ واضح رہے کہ ہمارے نظام تعلیم میں ”تربیت“ نام کی کوئی شئے موجود نہیں ہے۔ لہٰذا رسمی تعلیم کے ساتھ ساتھ ”تربیت“ اسے اپنے گھر سے یا ساتھ ساتھ دینی تعلیم کے ذریعہ حاصل کرکے اس کا ”عملی مظاہرہ“ بھی کرنا چاہئے تاکہ ملنے جلنے والے اسے دیکھ کر بے ساختہ کہہ سکیں کہ گو بچی نے بہت زیادہ اعلیٰ تعلیم تو حاصل نہیں کی لیکن پڑھی لکھی، سمجھدار، سگھڑ، اور اچھی اوصاف کی مالکہ ہے۔ یہ تو جس گھر مین جائے گی، اسے روشن کردے گی۔
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,101
ری ایکشن اسکور
1,462
پوائنٹ
344
بے چاری بانجھ عورت یا لڑکی کا کیا قصور کہ اس سے نکاح کرنے کےلیے کوئی راضی نہ ہو ؟
یہ اللہ کی مرضی ہے، کوئی اندھا ہے تو کوئی بہرا ہےاور کوئی بانجھ ہےجس نے دوسری شادی کرنی ہے وہ کر سکتا ہے اور ایسی عورت سے شادی کرنا حرام نہیں ہے، جس کا دل چاہے وہ ایسی عورت سے نکاح کر بھی سکتا ہےح اسی طرح اگر کوئی عورت اپاہج ہو تو قصور اس کا بھی کوئ نہیں ہے یہ اللہ کی طرف سے آزمائش ہے، اس پر صبر کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے
 
Last edited:

T.K.H

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 05، 2013
پیغامات
1,121
ری ایکشن اسکور
330
پوائنٹ
156
یہ کس نے کہہ دیا کہ کوئی راضی نہیں۔ شادی کا بنیادی مقصد نسل انسانی کو آگے بڑھانا ہے۔ لہٰذا اگر کوئی پہلی شادی کر رہا ہے اور اسے معلوم ہوگیا ہے کہ فلاں لڑکی یا عورت بانجھ ہے تو اسے پہلی شادی اس سے نہیں کرنی چاہئے۔ البتہ جو لوگ دوسری یا تیسری شادی کر رہے ہیں، وہ بانجھ یا دیگر جسمانی معذور خاتون سے شادی کرسکتے ہیں بلکہ کرنا چاہئے۔ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ایسی ہی سن رسیدہ خاتون سے بھی شادی کی تھی جو ازدواجی تعلقات میں بھی دلچسپی نہیں رکھتی تھیں اور انہوں نے اپنی ’باری‘ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو دے دی تھی۔
صرف ایک حدیث سے متعلقہ موضوع پر کوئی ”حتمی رائے“ قائم نہیں کرنی چاہئے بلکہ اس موضوع سے متعلق تمام احادیث اور سیرت کا مطالعہ کرنا چاہئے۔
گویا آپ نے تسلیم کر لیا کہ بانجھ عورت یا لڑکی اپنی اور مرد کی پہلی شادی کےلیے ” اچھوت “ ہے۔
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
انا للہ وانا الیہ راجعون۔ جب اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے تو پھر اس میں کسی قسم کا شک شبہ کیسا؟ ۔۔ کیا اللہ کے نبی معاذاللہ ہمیں ایسی بات کا حکم دیں گے کہ علم غیب کے بنا جس کو پورا کرنا ممکن نہ ہو ؟ آپ کا مسئلہ یہ ہے کہ آپ اس مرض کا شکار ہیں جو اکثر کم علم سلفی حضرات کو لاحق ہوجاتا ہے کہ جس بات کو من نہ مانے اس پر شک شروع ہوجاتا ہے ۔ اور سب سے پہلا حکم اس پر ضعیف ہونے کا لگایا جاتا ہے ہے جیسے کہ جناب نے محض اپنے خیال سے حدیث کو ضعیف کہنے کی کوشش کی ۔
عموماََ جب کسی لڑکی سے رشتہ کرنا ہوتا ہے تو اسے خاندان یا جاننے والوں سے اس کے متعلق اور اس کے گھر والوں کے متعلق معلوم کیا جاتا ہے ۔ اب اگر کوئی لڑکی اپنے بہن بھائیوں اور عزیز واقارب سے محبت سے پیش آنے والی ہے تو محبت اس کی صفت ہوگی۔ اور یہی مطلوب ہے۔ جہاں تک بچے جننے کا تعلق ہے تو اس کا پتہ اس کی ماں یا دیگر شادی شدہ بہنوں کو دیکھ کر لگایا جاسکتا ہے ۔ ( دورِ جدید میں سائنس کا ایک شعبہ جنیٹکس ہے جو اسی علم سے متعلق ہے کہ ایک خاندان میں ایک جیسے جینز کس طرح ایک جیسی صفات منتقل کرتے ہیں ) ۔ باقی کس کو کتنی اولاد ملنی ہے یہ تقدیر کی بات ہے۔


آدم علیہ السلام کے بعد دنیا نے یہ پہلی مرتبہ پڑھا ہے جناب کی تحریر میں کہ بغیر ماں کے بھی کوئی پیدا ہوا ہو ۔


ویسے آپ کے لیئے بہتر یہ ہے کہ آپ اپنے لیئے خود ہی فتاوٰی تحریر کر لیا کریں ۔ کیونکہ آپ کو مفتی کی نہیں ڈاکٹر کی ضرورت ہے ۔
محترم عبد الله صاحب -

آپ نے میرا مراسلہ پڑھے بغیر ہی مجھ پر تیروں کی برسات کردی - میں نے خود سے اس حدیث کو ضعیف قرار نہیں دیا بلکہ صرف اس کی تخریج یا مفہوم کو صحیح طور پر بیان کرنے کی درخواست کی تھی -جس کی حافظ عمران صاحب نے تشریح کر دی -الله ان کو جزاء دے (آمین)-

ویسے بھی اجتہادی غلطی کس سے نہیں ہوتی - کیا نامور مجتہدین میں روایت کو پرکھنے کے معاملے میں یا اس کے صحیح مفہوم کو سمجھنے کے معاملے میں کبھی اختلاف نہیں ہوا ؟؟ یا کیا ہم یہ کہ سکتے ہیں کہ ان کو کوئی مرض لا حق تھا کہ وہ روایات کو پرکھنے میں شک کرتے تھے - اور تو اور صحابہ کرام رضوان الله اجمعین میں اکثر روایات کو سمجھنے کے معاملے میں اختلاف ثابت ہے - اور وہ تو یہ الفاظ تک استمعال کرتے تھے کہ : "تیری ماں تجھے روے میں نے نبی کریم سے یہ سنا ہے" - تو کیا نعوز باللہ ہم یہ که سکتے ہیں کہ ان پاک ہستیوں کو کوئی مرض لا حق تھا یا ان کو کسی طبیب کے پاس جانے کی ضرورت تھی؟؟ جیسا کہ آپ مجھے مشورہ دے رہے ہیں -میں نے صرف اس حدیث کا مفہوم جاننے کی کوشش کی تھی - اور میں که سکتا ہوں کہ مجھ سے غلطی ہوسکتی ہے کسی روایت کو سمجھنے کے معاملے میں -

مزید یہ کہ حدیث کا علم جاننے والوں سے کبھی پوچھیے گا کہ حدیث نبوی کو پرکھنے کے لئے صرف روایت کا اصول ہی کافی نہیں درایت کا اصول کو بھی دیکھنا پڑتا ہے - ابن جوزی نے تو یہاں تک کہ دیا ہے کہ جو حدیث درایت کی رو سے صحیح ثابت نہیں اس کی روایت بھی اگر صحیح ہو تو اس کو رد کر دیا جائے گا- تو کیا آپ ابن جوزی کے بارے میں یہ کہ سکتے ہیں کہ ان کو کوئی مرض لاحق تھا ؟؟

امام بخاری رح اور امام مسلم رح کی صحیین امام مہدی رح سے متعلق روایات سے خالی ہیں - جب کے ان کے استادوں کے پاس مہدی رح سے متعلق روایات موجود تھیں - تو کیا ہم بخاری اور مسلم کے بارے میں کہ سکتے ہیں کہ انھیں کوئی مرض لا حق تھا -کہ انہوں نے امام مہدی رح سے متعلق روایات کو اپنی کتابوں میں جگہ نہیں دی -؟؟

محترم ذرا اس آیت کو بھی پڑھ لیں اور جو اس کے مطابق عمل نہیں کرتا اس پر تنقید کریں تو بہتر ہو گا-

وَالَّذِينَ إِذَا ذُكِّرُوا بِآيَاتِ رَبِّهِمْ لَمْ يَخِرُّوا عَلَيْهَا صُمًّا وَعُمْيَانًا سوره الفرقان ٧٣
اور وہ لوگ کہ جب انہیں ان کے رب کی آیتوں سے سمجھایا جاتا ہے تو ان پر بہرے اندھے ہو کر نہیں گرتے- (یعنی تحقیق کرتے ہیں تقلید نہیں )-


والسلام -
 
Last edited:

حافظ اختر علی

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 10، 2011
پیغامات
768
ری ایکشن اسکور
732
پوائنٹ
317
گویا آپ نے تسلیم کر لیا کہ بانجھ عورت یا لڑکی اپنی اور مرد کی پہلی شادی کےلیے ” اچھوت “ ہے۔
جناب عالی!آپ نے بات بالکل اور رخ دے دیا ہے۔کیا آپ کے علم میں نہیں کہ کئی ایسے شادی شدہ افراد موجود ہیں کہ بیوی کے گھر کو دیکھا جائے تو اولاد کی اللہ تعالیٰ نے رونقیں لگائی ہوئی ہیں اور بہنوں میں سے کسی ایک کے گھر اولاد کا نام ونشان دور دور تک نظر نہیں آتا۔اس کو کیا کہیں گے؟
اس لیے یہاں چھوت چھات کی بحث نہیں بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک فطرتی خواہش کے پیش نظر ایک احتیاطی شکل دی ہے کہ اولاد ہر شادی شدہ کی بہت بڑی خواہش ہوتی ہے اس لیے کہیں ایسا نہ ہو کہ پتہ ہونے کے باوجود وہ نکا ح کر لے اور اولاد نہ ہونے کی صورت میں گھریلو ناچاقی پیدا ہو اور یہ مقدس رشتہ ٹوٹنے کی حد تک پہنچ جائے اس لیے پہلے ہی محتاط کر دیا کہ غور سے معاملہ طے کرنا۔
میرا خیال ہے کہ بات کچھ سمجھ آ گئی ہو گی۔ان شاء اللہ
 

حافظ اختر علی

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 10، 2011
پیغامات
768
ری ایکشن اسکور
732
پوائنٹ
317
گویا آپ نے تسلیم کر لیا کہ بانجھ عورت یا لڑکی اپنی اور مرد کی پہلی شادی کےلیے ” اچھوت “ ہے۔
اولاد ہونا یا نا نہ ہونا تو اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے لیکن انسان کو ظاہری اسباب اپنے طور پر اختیار کرنے اجازت موجود ہے۔
 

T.K.H

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 05، 2013
پیغامات
1,121
ری ایکشن اسکور
330
پوائنٹ
156
اولاد ہونا یا نا نہ ہونا تو اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے لیکن انسان کو ظاہری اسباب اپنے طور پر اختیار کرنے اجازت موجود ہے۔
کیا آپ اس بات کی ضمانت دےسکتے ہیں کہ بانجھ عورت یا لڑکی ہمیشہ بانجھ ہی رہے گی ؟ ویسے ہر کوئی اپنی ہی خوشی کو ترجیح دینا پسند کرتا ہے کسی دوسرے کی خوشی کو ترجیح دینا ہر ایک کے بس کی بات نہیں۔ کم از کم وہ لوگ جو بانجھ عورت یا لڑکی کو ” اچھوت “ سمجھتے ہیں ان کے لیے یہ مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے چاہے وہ دوسرا جنم بھی لیں لیں۔ میں یہاں ” تقدیر“ کی بحث نہیں کر رہا بلکہ لوگوں کی ” ہمت و حوصلے“ کا رونا رو رہا ہوں۔
 
Top