• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

شادی میں گواہ کا غیر مسلم ہونا؟

شمولیت
جولائی 24، 2012
پیغامات
37
ری ایکشن اسکور
150
پوائنٹ
66
اسلام علیکم؟
ہمارے یہاں کل پانچ ماہ قبل ایک شادی ہوئی، جس میں گواہ کے طور پر جن اشخاص کا نام دیے گیے ہیں، ان میں سے ایک کا تعلق قادیانیئت سے ہے،(جس کا علم اب ہوا ہے) کیا شریعی اعتیبار سے یہ نکاح درست قرار پائے گا یا غیر درست ہوگا؟
اگر غیر درست ہوگا تو اس کا کوئی متبادل بتایں، فلحال لڑکا اور لڑکی کو علحدہ کیا گیا ہے۔ اس لئے جواب کا شدید انتیظار رہیگا۔
جزاک اللہ خیر۔۔۔۔
 

گڈمسلم

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 10، 2011
پیغامات
1,407
ری ایکشن اسکور
4,912
پوائنٹ
292
اسلام علیکم؟
ہمارے یہاں کل پانچ ماہ قبل ایک شادی ہوئی، جس میں گواہ کے طور پر جن اشخاص کا نام دیے گیے ہیں، ان میں سے ایک کا تعلق قادیانیئت سے ہے،(جس کا علم اب ہوا ہے) کیا شریعی اعتیبار سے یہ نکاح درست قرار پائے گا یا غیر درست ہوگا؟
اگر غیر درست ہوگا تو اس کا کوئی متبادل بتایں، فلحال لڑکا اور لڑکی کو علحدہ کیا گیا ہے۔ اس لئے جواب کا شدید انتیظار رہیگا۔
جزاک اللہ خیر۔۔۔۔
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ
بیان صورت میں اصل توجہ کا مرکز یہ بات ہونی چاہیے اور اس پر شرعی رہنمائی فراہم کی جانی چاہیے کہ گواہوں کا نفس نکاح (اگر گواہ نہ ہوں تو گواہوں کی عدم موجودگی میں نکاح باطل ٹھہرے گا یا گواہ غیر مسلم ہوں یا مسلم اور غیر مسلم مکس ہوں تو نکاح درست ہوگا یا باطل) پر کوئی اثر ہوتا ہے یا نہیں ؟

مذکورہ بات میں دو باتیں سمجھ آتی ہیں، اور ان پر توجہ کی جانی چاہیے
1۔ قادیانی شخص سے لاعلمی۔۔۔ اور لاعملی شریعت میں معتبر ہے یا نہیں؟۔ ایک آدمی کو ایک کام کا پتہ ہی نہیں تو پھر شریعت اس کو مکلف ٹھہراتی ہے یا نہیں؟۔ یا اس پر سزا کاتصور ذہن میں لانا تکلیف مالا یطاق ہے یا نہیں ؟
2۔ گواہی یا گواہوں کا تعلق نکاح کی شرائط میں سے ہے یا نہیں ؟ اگر شرائط میں سے ہے تو کیا یہ ایسی شرط ہے جس کے مکمل نہ ہونے کی صورت میں نکاح باطل ٹھہرے گا ؟
میرے خیال میں نکاح درست ہے۔ میاں بیوی کی علیحدگی غلط اقدام ہے۔ واللہ اعلم ۔۔۔باقی اہل علم حضرات بیان مسئلہ پر تفصیلی بات پیش کریں گے۔ ان شاءاللہ
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
اسلام علیکم؟
ہمارے یہاں کل پانچ ماہ قبل ایک شادی ہوئی، جس میں گواہ کے طور پر جن اشخاص کا نام دیے گیے ہیں، ان میں سے ایک کا تعلق قادیانیئت سے ہے،(جس کا علم اب ہوا ہے) کیا شریعی اعتیبار سے یہ نکاح درست قرار پائے گا یا غیر درست ہوگا؟
اگر غیر درست ہوگا تو اس کا کوئی متبادل بتایں، فلحال لڑکا اور لڑکی کو علحدہ کیا گیا ہے۔ اس لئے جواب کا شدید انتیظار رہیگا۔
جزاک اللہ خیر۔۔۔۔
فتوی تو ظاہر ہے علماء کا کام ہے اور الحمد للہ جواب دیا بھی جا چکا ہے ۔
لیکن اس مسئلہ کے متعلق اپنے ایک بھائی شفقت الرحمن بن مبارک علی حفظہ اللہ کی بات نقل کرنا چاہتا ہوں جو کافی اچھی محسوس ہوئی ہے ۔
یہاں دو باتیں ہیں :
نکاح کے وقت گواہوں کا موجود ہونا ۔
کاغذی کاروائی میں گواہوں کے نام دینا ۔
آج کل جو نکاح ہوتے ہیں عام طور ان میں بہت سارے لوگ نکاح کے وقت موجود ہوتے ہیں اور وہ سب اس نکاح کے گواہ ہوتے ہیں ۔
اگر صورت حال واقعتا ایسی ہے تو پھر کاغذی طور پر دیے گئے دو ناموں میں سے کسی ایک یا دونوں کا غیر معتبر ثابت ہونا مضر نہیں ۔ واللہ أعلم ۔
 

ideal_man

رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
258
ری ایکشن اسکور
498
پوائنٹ
79
فتوی تو ظاہر ہے علماء کا کام ہے اور الحمد للہ جواب دیا بھی جا چکا ہے ۔
لیکن اس مسئلہ کے متعلق اپنے ایک بھائی شفقت الرحمن بن مبارک علی حفظہ اللہ کی بات نقل کرنا چاہتا ہوں جو کافی اچھی محسوس ہوئی ہے ۔
یہاں دو باتیں ہیں :
نکاح کے وقت گواہوں کا موجود ہونا ۔
کاغذی کاروائی میں گواہوں کے نام دینا ۔
آج کل جو نکاح ہوتے ہیں عام طور ان میں بہت سارے لوگ نکاح کے وقت موجود ہوتے ہیں اور وہ سب اس نکاح کے گواہ ہوتے ہیں ۔
اگر صورت حال واقعتا ایسی ہے تو پھر کاغذی طور پر دیے گئے دو ناموں میں سے کسی ایک یا دونوں کا غیر معتبر ثابت ہونا مضر نہیں ۔ واللہ أعلم ۔
نکاح میں دو گواہ کی شرط لازم ہے، یا لوگوں میں اس نکاح کا اعلان کافی ہے۔ محدث فتوی کے مطابق
اہل تشیع مذہب میں متعہ میں گواہوں کی ضرورت ہے نہ نکاح میں دو گواہ لازم ہیں ان کے ہاں گواہ مستحب ہے۔
ملاحظہ فرمائیں ان کی سائٹ پر موجود مضمون سے اقتباس
مخالفین کا دعوی ہے کہ متعہ حرام ہے کیونکہ اس میں "گواہ" لازمی نہیں۔
یہ بات بالکل درست ہے کہ عقدِ متعہ بغیر گواہوں کے بھی بالکل درست منعقد ہو جاتا ہے۔
بنیادی طور پر یہ مسئلہ عقد متعہ کا نہیں، بلکہ اہل تشیع کے مطابق نکاح دائمی میں بھی دو گواہوں کی موجودگی لازمی شرط نہیں، بلکہ مستحب ہے۔ یعنی بہت زیادہ زور دیا جاتا ہے کہ یہ تاکید ہے کہ دو گواہوں کو مقرر کر لو، مگر عقد ان کے بغیر بھی بالکل درست منعقد ہو جاتا ہے۔
بہرحال مخالفین نے عقد متعہ کا انکار کرنے کے لیے ایک عذر گواہوں کا بھی پیش کرتے ہیں، حالانکہ یہ براہ راست گواہوں کے متعلق ایک فقہی اختلاف ہے اور اس بنیاد پر عقد متعہ کو حرام نہیں ٹہرایا جا سکتا، کیونکہ اگر آپ کے فقہ کے نزدیک گواہ لازمی ہیں تو آپ 2 گواہ کر کے عقد متعہ کر لیں۔
تو آپ کو اعتراض کرنا ہے تو گواہوں کی شرط پر کریں، نہ کہ عقد متعہ پر۔
اہل تشیع حضرات گواہوں کے متعلق جو فاسد نظریہ رکھتے ہیں اور اسی سے اپنے مذہبی نکاح پر دو گواہوں کی شرط کا باطل مانتے ہیں، ملاحظہ فرمائیں
فریق مخالف سے پہلا سوال:
اسلام مکمل نظریہ حیات ہے اور ہر صدی ہر زمانے کے لیے ہے۔
اس صدی میں انگریزوں کے آنے سے قبل تک نکاح پڑھاتے وقت ساتھ میں کسی نکاح فارم کے کاغذات پر نہیں کیے جاتے تھے، بلکہ سب کچھ زبانی کلامی ہوتا تھا۔ اب ذرا تصور کیجئے:
۔ اگر میاں وبیوی مارکیٹ جاتےہیں تو کیا وہ اپنے ساتھ اپنے اُن دو بیرونی گواہوں کو اپنے ساتھ ڈھو کر لے جاتے ہیں؟
نہیں، وہ سادگی سے گواہی دیتے تھے ہیں کہ وہ میاں اور بیوی ہیں اور انکی یہ گواہی بطور مسلمان مرد اور مسلمان عورت کی گواہی کے قبول کی جاتی ہے اور کافی سمجھی جاتی ہے۔
۔ چلیں ماضی میں چلتے ہیں۔اور ماضی میں لوگ اپنی بیویوں کے ساتھ سفر پر روانہ ہوتے ہیں اور دوسرے شہروں اور دوسرے ملکوں میں جا پہنچتے تھے۔
سوال یہ ہے کہ کیا وہ ان نئے شہروں و ملکوں میں اپنے اُن "دو" عدد بیرونی گواہوں کو ساتھ ساتھ ڈھو کر لیے پھرتے تھے کہ جہاں کسی نے پوچھا آپکا کیا رشتہ ہے تو وہیں نکال کر ان دو گواہوں کو کھڑا کر دیا؟ نہیں، بلکہ ان دونوں میاں بیوی کی دی گئی دو گواہیوں پر مکمل اعتماد کیا جاتا تھا۔
چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ اسلامی شریعت مسلمان شوہر وبیوی کی دو گواہیوں کو کافی جانتے ہوئے قبول کر رہی ہے۔چنانچہ آج جب دعوی کیا جاتا ہے کہ یہ دو عدد بیرونی گواہ ایک "لازمی" شرط ہے تو یہ ایک ایسا "تضاد" ہے جسکا جواب وہ پچھلے 1400سو سالوں سے نہیں دیا جا سکا ہے اور نہ آئندہ کبھی دیا جائے گا۔ چنانچہ مان لیجئے یہ دو عدد زائد گواہان ایک مستحب فعل ہے، مگر نکاح کی لازمی شرط نہیں۔
یہ ہے اہل تشیع حضرات کے ہاں گواہوں کا مقصود

جب کہ اسلام میں نکاح کے لئے دو گواہ کی جو شرط عائد کی گئی ہے وہ اس لئے عائد نہیں کی گئی کہ اگر وہ کسی اجنبی جگہ جاتے ہیں تو انہیں پوچھا جائے گا اور پھر گواہ طلب کئے جائیں گے، بلکہ یہ اس گواہی کا تعلق میاں و بیوی کے درمیان کے معاملہ پر ہے، ممکن ہے دونوں میں سے کوئی ایک اس نکاح سے مکر جائے۔


کئی واقعات نظر آتے ہیں، کہ عورت نے دعوی کردیا کہ فلاں شخص میرا شوہر ہے اس سے میرا نکاح ہوا ہے، کوئی مرد کسی عورت پر دعوی کربیٹھے کہ فلاں میری بیوی ہے۔
ایسے واقعات عموما پیش آتے رہتے ہیں، لہذا دو گواہ کی شرط اسی لئے ہے کہ کوئی دھوکہ، فراڈ، جعلسازی سے کام لیتے ہوئے اپنے مذموم مفادات حاصل نہ کرسکے۔


یہ ہے اہل تشیع کی جہالت۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسے جہالت کا نام دیا جائے۔۔۔۔۔۔ یا اسلام کے خلاف فساد فی الارض
 
Top