• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

شادی کا حکم

شمولیت
دسمبر 31، 2017
پیغامات
60
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
23
اسلام علیکم!
کیا شادی کرنا لازمی اور فرض یا واجب ہے؟ یا پھر تمام عمر بغیر شادی کے بھی رہا جا سکتا ہے جیسے کہ آج کل کچھ لوگ ساری عمر شادی نہیں کرتے۔ اور کیا شادی میں کسی مجبوری کے بغیر تاخیر بھی کر سکتے ہیں مثلا 30 ، 35 سال کی عمر میں شادی کرنا؟
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
نکاح: اہمیت و ضرورت اور ترغیب و تاکید
حافظ محمد ساجد اسید ندوی

نکاح کیا ہے ؟

انسانی معاشرہ دو صنفوں (یعنی مردو عورت) سے مل کر وجود میں آتا ہے، مرد کے ساتھ عورت کی تخلیق کا مقصد کیا ہے ؟بنیادی طور پر اس کا مقصد مرد و عورت کے باہمی تعلق اور ملاپ کے ذریعے انسانی نسل کو آگے بڑھانا اور پروان چڑھانا ہے، جیساکہ قرآن مجید کی بہت سی آیات اور نبی اکرمﷺ کے فرامین سے واضح ہوتا ہے، اسی مقصد کی تکمیل کیلئے دونوں صنفوں کے درمیان فطری طور پر جنسی کشش رکھی گئی ہے، اس فطری کشش کے نتیجے میں جنسی قوت اور شہوانی طاقت کے وجود اور آغاز کے ساتھ ہی یہ دونوں صنفیں ایک دوسرے کی ضرورت محسوس کرتی اور ایک دوسرے سے سکون ڈھونڈنے لگتی ہیں۔
ہم دیکھتے ہیں کہ انسانوں کی طرح دیگر مخلوقات میں بھی یہ جنسی میلان اور ازدواجی و صنفی کشش کی یہ صورت موجود ہے، پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انسان یا دوسرے لفظوں میں مکلف مخلوق (یعنی انسان و جن ) کو اس سلسلے میں دیگر مخلوقات سے کونسی چیز ممتاز اور الگ کرتی ہے ؟
اس کا جواب کچھ اس طرح ہے کہ مرد و عورت کے در میان جو صنفی کشش اور شہوانی خوا ہش رکھی گئی ہے اس کی تکمیل و تسکین کی دو صورتیں تھیں۔
ایک یہ کہ ان کو اس بات کا اختیار دیا جائے کہ وہ آزادانہ طور پر جس طرح چاہیں اپنی جنسی ضرورت پوری کریں اور شہوت کی پیا س بجھائیں۔
دوسری صورت یہ تھی کہ انہیں ایک مضبوط ومستحکم اور شریفانہ نظام کے ذریعہ ایک دوسرے سے جوڑ دیا جائے اور اس خواہش کی تسکین و تکمیل کا موقع دیا جائے۔
ہر عقل رکھنے والا شخص یہ فیصلہ کر سکتا ہے کہ پہلی صورت دیگر حیوانات اور جانداروں کے لائق تو ہو سکتی ہے لیکن انسانوں کے مناسب بہر حال نہیں، اسلئے کہ انسان صرف ایک حیوانی وجود کا نام نہیں ہے بلکہ وہ ایک متمدن اور سماجی مخلوق کی حیثیت سے وجود میں آیا ہے اور اس حیثیت سے اس کے کاندھوں پر فرائض اور ذمہ داریاں ڈالی گئی ہیں، ان ذمہ داریوں کی ادائیگی کیلئے وہ ایک خاص قسم کے ما حول اور مخصوص قسم کی تربیت و نگہداشت کا محتاج ہے اور اس کی یہ محتاجگی چند دنوں یا ہفتوں یا مہینوں تک نہیں بلکہ سالہا سال کے طویل عرصے تک قائم رہتی ہے۔
پہلی صورت میں جو نقشہ سامنے آتا ہے وہ یہ کہ مرد چند گھڑیوں کیلئے عورت سے مل کر اور لطف اندوز ہو کر اس سے اور اس ملاپ کے نتیجے سے خود کو الگ کر لے اور حمل، ولادت(پیدائش)، رضاعت(دودھ پلانے ) اور اس کے بعد پرورش و نگہداشت وغیرہ کی ساری ذمہ داریوں اور تکلیفوں کی سزاوار ایک اکیلی کمزور و ناتواں عورت ٹھہرے، ظاہر سی بات ہے کہ ایک اکیلی عورت تنہا اس ذمہ داری کی ادائیگی کیلئے کیسے تیار ہو سکتی ہے ؟اس لئے پہلی بات تو ہے کہ وہ اس ذمہ داری کا بوجھ اٹھانے کیلئے تیار ہی نہ ہو گی اور اگر ہو بھی جائے تو اس کی کماحقہ ادائیگی سے قاصر اور عاجز ہی رہے گی۔
اس طرح دوسری صورت ہی کے ذریعہ نسلِ انسانی کا تسلسل و بقا اور تمدن کا تحفظ وجود میں آسکتا ہے، اسلئے کہ اس سے مستقل وابستگی اور تعلق کی صورت میں خاندانی نظام کی تشکیل عمل میں آتی ہے اور مرد و عورت ماں اور باپ کی شکل میں مشترکہ طور پر فرائض کی تقسیم کے ساتھ بچوں کی پرورش و پرداخت اور تربیت و کفالت کے ذمہ دار ٹھہرتے ہیں۔
شریعتِ اسلامیہ میں پہلی صورت کو ’’زنا و بدکاری‘‘ سے تعبیر کیا گیا ہے اور اسے قبیح ترین جرم قرار دے کر اس کیلئے سخت اخروی عقاب و عذاب کی وعید کے ساتھ سنگین دنیوی سزائیں بھی متعین کی گئی ہیں، اگر زناکار مرد و عورت غیر شادی شدہ ہوں تو سوکوڑے اور ایک سال کی جلاوطنی کی سزا متعین کی گئی ہے اور اگر شادی شدہ ہوں توسنگساری یعنی پتھر مار مارکر ہلاک کر دینے کا حکم دیا گیا ہے۔ (تفصیل کیلئے دیکھئے راقم کی کتاب ’’پاکیزہ نسل اور صالح معاشرہ کیوں اور کیسے ؟‘‘)
شریعت اسلامیہ میں نہ صرف یہ کہ زنا سے بچنے کی سخت تاکید کی گئی ہے بلکہ اس کے اسباب و دواعی سے بھی دور اور بہت دور رہنے کی تلقین کی گئی ہے، قرآن مجید میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے :۔
{وَلَاتَقْرَبُوا الزِّنَا اِنَّہ کَانَ فَاحِشَۃً وَّسَاءَ سَبِیْلاً}
’’خبردار زنا کے قریب بھی نہ پھٹکنا کیونکہ وہ بڑی بے حیائی ہے اور بہت ہی بری راہ ہے ‘‘ (الاسراء :۳۲)
شیخ عبد الرحمن بن ناصرالسعدی رحمہ اللہ اس آیت کریمہ کی تفسیرمیں تحریر فرماتے ہیں :۔
’’زنا کے قریب بھی جانے کی ممانعت مطلق عملِ زنا کی ممانعت سے زیادہ مؤثر اور بلیغ ہے، اسلئے کہ یہ ممانعت زنا کے ساتھ اس کے مقدمات و دواعی کی ممانعت کو بھی شامل ہے ‘‘ ( تفسیر کلام المنان ۴/۲۷۵)

دوسری صورت کا نام’’ نکاح‘‘ ہے، مرد کے ساتھ عورت کی تخلیق کے مقصد کی تکمیل کا واقعی ذریعہ بس نکاح ہی ہے، نکاح نہ صرف یہ کہ نسل انسانی کی افزائش اور تربیت و نگہداشت کا بے خطر اور محفوظ وسیلہ ہے بلکہ اس کے ذریعہ مرد و عورت کے درمیان جو محبت و تعلق وجود میں آتا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے، یہ محبت و تعلق مردو عورت کو لطف ومسرت سے بھرپور جنسی زندگی گزارنے اور حقیقی شہوانی لذت وسکون سے ہمکنار ہونے کا ایسا موقع فراہم کرتا ہے کہ اس کی نظیر پیش کرنا ناممکن ہے،
اللہ کے رسولﷺ نے اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے یوں ارشاد فرمایا ہے :
(( لَمْ یُرَ لِلْمُتَحَابَّیْنِ مِثْلُ التَّزْوِیْجِ ))
’’دو آپس میں محبت کرنے والوں کے لئے شادی کی مثل کوئی چیز نہیں دیکھی گئی‘‘ (صحیح ابن ماجہ کتا ب النکاح: ۱۵۹۷)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
انسانی زندگی میں نکاح کی اہمیت و ضرورت

حافظ محمد ساجد اسید ندوی

نکاح انسان کی فطری اور ذاتی ضرورت بھی ہے اور سماجی و معاشرتی ضرورت بھی، اس طرح انسانی زندگی میں نکاح کو غیر معمولی اہمیت و عظمت حاصل ہے۔
انسان کے کاندھوں پر احکام و فرائض کا جو بوجھ ڈالا گیا ہے وہ اس کی اس حیثیت کی بناپر ہے کہ وہ عاقل ہونے کے ساتھ ایک متمدن اور سماجی مخلوق ہے، تمدن وسماج کا وجود خاندانوں کے وجود سے وابستہ ہے جبکہ خاندانوں کا وجود مردو عورت کے مابین بہتر و منظم اور پائیدار ومستحکم تعلق کا مرہونِ منت ہے، اس حیثیت سے غور کیجئے تو تمام احکام و فرائض اور ہر قسم کی عبادات و معاملات کی صحیح انجام دہی مرد و عورت کے صحیح تعلق پر موقوف ہے، اس طرح نکاح انسان کی فطری اور سماجی ضرورت ہونے کے ساتھ ساتھ دینی اور شرعی ضرورت بھی ہے، اللہ کے رسولﷺ نے نکاح کی اہمیت کے اس پہلو کو واضح کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:۔
(( اِذَاتَزَوَّجَ الْعَبْدُ فَقَدِ اسْتَکْمَلَ نِصْفَ الدِّیْنِ ))
’’جب بندہ نکاح کرتا ہے تو اس کا نصف دین مکمل ہو جاتا ہے ‘‘
(بیہقی، الصحیحہ :۶۲۵)
اور اسی حوالے سے آپﷺ کی یہ حدیث بھی قابلِ مطالعہ ہے، آپﷺ نے ارشاد فرمایا:۔
((وَفِیْ بُضْعِ اَحَدِکُمْ صَدَقَۃٌ ))
’’تم میں سے ایک کی شرمگاہ (کے ذریعہ ہم بستری) میں صدقہ ہے ‘‘
صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے آپﷺ کی یہ بات سن کر عرض کیا:
(( یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ اَیَاْتِیْ اَحَدُنَا شَہْوَتَہٗ وَیَکُوْنُ لَہٗ فِیْھَا اَجْرٌ؟ ))
’’اے اللہ کے رسول!ہم اپنی شہوت پوری کریں اور اس پر ہمیں ثواب سے نوازا جائے ؟ ‘‘
تو آپﷺ نے فرمایا:۔
(( اَرَأَیْتُمْ لَوْوَضَعَھَا فِیْ حَرَامٍ اَکَانَ عَلَیْہِ فِیْھَا وِزْرٌ؟ فَکَذَالِکَ اِذَا وَضَعَھَافِی الْحَلَالِ کَانَ لَہٗ اَجْرٌ ))
’’بتلاؤ اگر آدمی اپنی شرمگاہ حرام جگہ پر استعمال کرے تو کیا وہ گناہ گار نہیں ہو گا ؟، اسی طرح جب وہ اسے حلال جگہ پر استعمال کر رہا ہے تووہ اجر کا مستحق ہے ‘‘ (بخاری :۵۳۵۴، مسلم:۱۶۲۸)
نکاح اور اسلام


جس نکاح کے ساتھ انسان کی ایسی گوناگوں ضرورتیں وابستہ ہیں کیسے ممکن تھا کہ اسلام جو دین فطرت ہے اسے اہمیت نہ دیتا اور اپنی تعلیمات و ہدایات کے ساتھ اس کی طرف توجہ نہ کرتا؟اسلام نے نکاح یا بالفاظ دیگر ازدواجی زندگی کو غیر معمولی اہمیت دی ہے، اس اہمیت کا اندازہ اس بات سے کیا جا سکتا ہے کہ اسلام نے نہ صرف یہ کہ نکاح کے سلسلے میں ترغیب و تاکید سے کام لیا ہے بلکہ اسے آسان سے آسان تر بنانے کے ساتھ ان تمام باتوں کو بھی دور کرنے کا پورا اہتمام کیا ہے جن سے نکاح کی راہ میں رکاوٹیں پیدا ہوں۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
نکاح کا شرعی حکم

حافظ محمد ساجد اسید ندوی

نکاح انبیاء اور رسل علیہم السلام کی انتہائی تاکیدی سنتوں میں سے ایک ہے، ارشاد ربانی ہے :

(ترجمہ) ’’ہم نے آپ سے پہلے بہت سے رسول بھیجے اور ہم نے ان سب کو بیوی اور بچوں والا بنا یا تھا ‘‘ (الرعد:۲۸)
اس سلسلے میں نبی اکرمﷺ کا ارشاد ہے :۔​
(( اَرْبَعٌ مِّنْ سُنَنِ الْمُرْسَلِیْنَ التَّعَطُّرُوَالنِّکَاحُ وَالسِّوَاکُ وَالْحَیَاءُ))
’’ چار باتیں رسولوں کی سنتوں میں سے ہیں، خوشبو استعمال کرنا، نکاح کرنا، مسواک کرنا اور حیا‘‘ (احمد: ۵/۴۱۲)

بغیر کسی عذر کے نکاح کرنے سے گریز کرنا مکروہ وناپسندیدہ حرکت ہے، نبی اکرمﷺ نے تین صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے جن میں سے ایک نے شادی نہ کرنے کا ارادہ ظاہر کیا تھا، فرمایا:۔​
(( أَنْتُمُ الَّذِیْنَ قُلْتُمْ کَذَاوَکَذَا، أَمَا وَاﷲِاِنِّیْ لَاَخْشَاکُمْ لِلّٰہِ وَأَتْقَاکُمْ لَہٗ، لٰکِنِّیْ أَصُوْمُ وَأُفْطِرُ وَاُصَلِّیْ وَاَرْ قُدُوَاَتَزَوَّجُ النِّسَاءَ فَمَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِیْ فَلَیْسَ مِنِّیْ))
’’کیا تم ہی لوگوں نے ایسا اور ایسا کہا ہے ؟خبردار!قسم اﷲ کی میں تم سے زیادہ اﷲ سے ڈرنے والا اور پرہیز گاری اختیا رکرنے والاہوں، اس کے باوجودمیں روزہ رکھتا ہوں اور نہیں بھی رکھتا ہوں رات کو نوافل ادا کرتاہوں اور سوتا بھی ہوں اور عورتوں سے نکاح بھی کرتا ہوں توجس شخص نے میرے طریقے سے رو گردانی کی وہ مجھ سے نہیں ‘‘

(بخاری کتاب النکاح:۵۰۶۳ مسلم ایضا:۱۴۰۱)
اسی طرح ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہاسے مروی ہے، آپﷺ نے فرمایا:۔​
(( اَلنِّکَاحُ مِنْ سُنَّتِیْ فَمَنْ لَّمْ یَعْمَلْ بِسُنَّتِیْ فَلَیْسَ مِنِّیْ وَتَزَوَّجُوْافَاِنِّیْ مُکَاثِرٌبِکُمُ الْاُمَمَ ))
’’نکاح میرا طریقہ ہے جس نے میرے طریقے پر عمل نہ کیا وہ مجھ سے نہیں، شادی کرو کیوں کہ میں تمہاری کثرت کے باعث امتوں پر فخر کرنا چاہتا ہوں ‘‘ (صحیح ابن ماجہ کتاب النکاح :۱۴۵۶)

جو شخص نکاح کی قدرت رکھتا ہو اور اسے برائی میں پڑنے کا خطرہ محسوس ہو رہا ہو اس کے لئے نکاح کرنا فرض اور واجب ہے ’’ اس لئے کہ زنا حرام ہے، اسی طرح وہ ساری چیزیں جو زنا کا سبب اور مقدمہ بنیں وہ بھی حرام ہوں گی، تو جو شخص اپنے بارے میں زنا میں پڑنے کا خطرہ محسو س کرے اس کے ذمہ لازم ہے کہ وہ خود سے اس خطرہ کو دور کرے، اس کا دور کرنا اگر نکاح ہی سے ممکن ہو تو پھر نکاح کرنا اس کیلئے واجب ہو گا‘‘ (السیل الجرار ۳/۲۴۳للشوکانی)
اور جو شخص نکاح کی خواہش و رغبت رکھنے کے باوجود نکاح کرنے سے قاصر اور عاجز ہو اسے روزوں کی پابندی کرنی چاہئے، سیدناعبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا:۔​
’’اے نوجوانوں کی جماعت!تم میں سے جسے نکاح کرنے کی استطاعت ہو اسے نکاح کر لینا چاہئے، کیونکہ نکاح نظر کو جھکانے والا اور شرمگاہ کو محفوظ رکھنے والا ہے اور جسے استطاعت نہ ہو اس کے لئے روزے کا اہتمام ضروری ہے اسلئے کہ روزہ اس کے لئے ڈھال ہے ‘‘
(بخاری کتاب النکاح :۵۰۶۰، مسلم:۱۴۰۰)

نکاح اور سلف صالحین رحمہم اللہ

شریعت کی طرف سے نکاح کی خاص تاکید و ترغیب کی بنا پر بزرگانِ سلف نکاح کو بڑی اہمیت دیتے تھے اور تجرد(بغیر شادی) کی زندگی کو بڑی ذلت و حقارت کی نگاہ سے دیکھتے تھے، اس سلسلے میں یہ چند اقوال ملاحظہ فرمائیں :۔
سیدنا عبد اﷲ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں :۔
’’(بھائیو)نکاح کر لو، کیونکہ ازدواجی زند گی کا ایک دن غیر شادی شدہ زندگی کے اتنے اور اتنے برسوں کی عبادت سے بہتر ہے ‘‘
سیدنا عبداﷲ بن مسعودرضی اللہ عنہ کہتے ہیں :۔
’’اگر میری زندگی کے صرف دس روز رہ جائیں، تب بھی میں شادی کر لینا پسند کروں گا، تاکہ غیر شادی شدہ حالت میں رب کو منہ نہ دکھاؤں ‘‘ ( تحفۃ العروس مترجم الدارالسلفیۃ ممبئی ص۵۶، ۳۴)
سیدنا شداد بن اوس رضی اللہ عنہ اپنے لوگوں سے فرماتے :۔
’’میری شادی کا انتظام کرو، کیونکہ نبیﷺ نے مجھے وصیت کی ہے کہ میں غیر شادی شدہ حالت میں اللہ سے ملاقات نہ کروں ‘‘
( احکام القرآن للجصاص ۳/۳۵۴ )
تابعی جلیل حضرت طاؤوس رحمہ اللہ فرماتے ہیں :۔
’’ نوجوان کی عبادت اس وقت تک مکمل نہیں ہوتی جب تک کہ وہ نکاح نہ کر لے ‘‘ ( مصنف ابن ابی شیبہ ۴/۱۲۷)
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ​
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
کیا شادی کرنا لازمی اور فرض یا واجب ہے؟ یا پھر تمام عمر بغیر شادی کے بھی رہا جا سکتا ہے جیسے کہ آج کل کچھ لوگ ساری عمر شادی نہیں کرتے۔ اور کیا شادی میں کسی مجبوری کے بغیر تاخیر بھی کر سکتے ہیں مثلا 30 ، 35 سال کی عمر میں شادی کرنا؟
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ

قال عبد الله: كنا مع النبي صلى الله عليه وسلم شبابا لا نجد شيئا، فقال لنا رسول الله صلى الله عليه وسلم: «يا معشر الشباب، من استطاع الباءة فليتزوج، فإنه أغض للبصر وأحصن للفرج، ومن لم يستطع فعليه بالصوم فإنه له وجاء»
(صحیح بخاری: (5066) اور مسلم: (1400))
سیدنا عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ : "ہم نوجوان نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے ہمراہ تھے ہمارے پاس کچھ نہیں تھا، تو ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (نوجوانو! جس کے پاس نکاح کی ضروریات کی استطاعت ہے تو وہ شادی کر لے؛ کیونکہ شادی نظریں جھکانے اور شرمگاہ کو تحفظ دینے کا قوی ذریعہ ، اور جو استطاعت نہ رکھے تو وہ روزوں کی پابندی کرے؛ کیونکہ روزے شدت شہوت کو توڑ دیتے ہیں)"

دوسری حدیث
عن سهل بن سعد، أن امرأة جاءت رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقالت: يا رسول الله جئت لأهب لك نفسي، فنظر إليها رسول الله صلى الله عليه وسلم، فصعد النظر إليها وصوبه، ثم طأطأ رأسه، فلما رأت المرأة أنه لم يقض فيها شيئا جلست، فقام رجل من أصحابه، فقال: يا رسول الله إن لم يكن لك بها حاجة فزوجنيها، فقال: «هل عندك من شيء؟» فقال: لا والله يا رسول الله، قال: «اذهب إلى أهلك فانظر هل تجد شيئا؟» فذهب ثم رجع فقال: لا والله يا رسول الله ما وجدت شيئا، قال: «انظر ولو خاتما من حديد» فذهب ثم رجع، فقال: لا والله يا رسول الله ولا خاتما من حديد، ولكن هذا إزاري - قال سهل: ما له رداء - فلها نصفه، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «ما تصنع بإزارك، إن لبسته لم يكن عليها منه شيء، وإن لبسته لم يكن عليك شيء» فجلس الرجل حتى طال مجلسه ثم قام فرآه رسول الله صلى الله عليه وسلم موليا، فأمر به فدعي، فلما جاء قال: «ماذا معك من القرآن؟» قال: معي سورة كذا، وسورة كذا، وسورة كذا - [ص:193] عدها - قال: «أتقرؤهن عن ظهر قلبك؟» قال: نعم، قال: «اذهب فقد ملكتكها بما معك من القرآن»
(صحیح بخاری: (5030) اور مسلم: (1425)
ترجمہ :
سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک عورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آئی اور کہنے لگی: "اللہ کے رسول! میں اپنے آپ کو آپ کے حوالے کرنے آئی ہوں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کی جانب اوپر سے نیچے دیکھا پھر اپنا سر جھکا دیا، تو جب خاتون نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کے بارے میں کوئی فیصلہ نہیں فرمایا تو وہ بیٹھ گئی۔ اس پر صحابہ کرام میں سے ایک آدمی اٹھا اور عرض کیا: اللہ کے رسول! اگر آپ کو اس میں چاہت نہیں ہے تو پھر میری شادی اس سے کر دیجیے! تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (تمہارے پاس [حق مہر کے لیے ]کچھ ہے؟) تو اس نے کہا: "نہیں اللہ کے رسول میرے پاس کچھ نہیں ہے" تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (جاؤ گھر جا کر دیکھو کوئی چیز مل جائے) تو وہ آدمی چلا گیا اور پھر واپس آ کر کہنے لگا: "نہیں اللہ کے رسول! مجھے کچھ نہیں ملا" آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (جاؤ جا کر دیکھو چاہے کوئی لوہے کی انگوٹھی ہی ہو) تو وہ آدمی پھر جا کر واپس آ گیا اور کہنے لگا: " نہیں اللہ کے رسول! مجھے لوہے کی انگوٹھی بھی نہیں ملی، البتہ میری یہ لنگی ہے-حدیث کے راوی سہل کہتے ہیں ان کے پاس اوپر والی چادر نہیں تھی اور انہوں نے کہا اس میں سے آدھی اسے دیے دیتا ہوں" تو اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (تم اپنی لنگی سے کیا کرو گے، اگر تم پہنو گے تو اس کے تن پر کچھ نہیں ہوگا اور اگر وہ پہنے گی تو تمہارے تن پر کچھ نہیں ہو گا) یہ سن کر آدمی کافی دیر تک بیٹھا رہا ، پھر وہ کھڑا ہوا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اسے دیکھا کہ وہ جا رہا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اسے بلانے کا حکم دیا ، جب وہ قریب آیا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (تمہارے پاس قرآن کتنا ہے؟) تو وہ شخص سورتیں گنوانے لگا کہ فلاں فلاں سورتیں ہیں، تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (کیا یہ تمام سورتیں زبانی پڑھتے ہو؟) تو اس نے کہا: جی ہاں، اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (جاؤ میں نے تمہارا نکاح اس سے تمہیں یاد قرآن کے بدلے میں کر دیا ہے)
ـــــــــــــــــــــــــــــــ
الحمد للہ یہ دونوں حدیثیں آپس میں متناقض نہیں ہیں، بلکہ ہر حدیث اپنے خاص سیاق اور تناظر میں آئی ہے؛ چنانچہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث تمام نوجوانوں اور دیگر شادی کی رغبت رکھنے والوں کے کیلیے عمومی خطاب ہے اور اس خطاب میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ شادی کے لیے اخراجات کی استطاعت لازمی ہیں تا کہ خاوند اپنے کندھوں پر نفقہ، لباس اور رہائش کی صورت میں پڑنے والی ذمہ داری کو اچھے انداز سے نبھا سکے۔

حدیث کے عربی الفاظ میں لفظ: "الباءة" سے مراد شادی کی ضروریات ہیں، تو صاحب شریعت صلی اللہ علیہ و سلم نے اس اصول کو بیان کیا ہے کہ شادی محض ایک بندھن نہیں ہے کہ حلال طریقے سے اپنی شہوت پوری کی جائے اور بس ، بلکہ شادی ایک ذمہ داری ہے اور اس ذمہ داری کا بوجھ مردوں کی عورتوں پر سرپرستی کی صورت میں ہوتا ہے۔

"نیز اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ جو شخص نکاح کرنے سے عاجز ہو تو وہ روزے رکھے؛ کیونکہ روزہ شہوت کم کر دیتا ہے اور شیطان کی چالوں کو کم کرتا ہے، لہذا روزہ بھی عفت اور آنکھیں جھکا کر رکھنے کے اسباب میں شامل ہے"
مجموع فتاوى ابن باز" (3 /329)

كما أن في قوله صلى الله عليه وسلم : ( مَنْ اسْتَطَاعَ منكُم الْبَاءَةَ فَلْيَتَزَوَّجْ ) دليلا على أن المشروع لمن استطاع الباءة وتكاليف النكاح ، أن يبادر إلى النكاح .
قال علماء اللجنة : " المبادرة بالزواج للشاب هو السنة لمن استطاع تكاليف الزواج ، والقيام بالحقوق الزوجية " انتهى من "فتاوى اللجنة الدائمة" (18 /6) .
راجع جواب السؤال رقم : (9262) .

جیسے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان: (جس کے پاس نکاح کی ضروریات کی استطاعت ہے تو وہ شادی کر لے) یعنی جس شخص کے پاس شادی کی ضروریات اور اخراجات پوری کرنے کی استطاعت ہو تو وہ فوری شادی کر لے۔

دائمی فتوی کمیٹی کے علمائے کرام کا کہنا ہے کہ:
"شادی کے اخراجات اٹھانے اور ازدواجی حقوق ادا کرنے کی استطاعت رکھنے والے شخص کے لیے فوری شادی کرنا سنت ہے " انتہی
"فتاوى اللجنة الدائمة" (18 /6)

ـــــــــــــــــــــــــــــــ

جبکہ دوسری حدیث میں کسی خاص شخص کا معاملہ ہے کہ ایک غریب شخص نے شادی اور عفت کا ذریعہ اختیار کرنا چاہا تو نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اس شخص کی شادی ایک ایسی خاتون سے فرما دی جو اپنے آپ کو نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر پیش کرنے کے لیے آئی تھی۔ تو اس حدیث میں اس بات کی دلیل ہے کہ اگر خاوند دین دار ، اللہ تعالی کے بارے میں صحیح عقیدہ اور نظریہ رکھتا ہو اور عورت کی صورت حال بھی ایسی ہی ہو تو محض غربت شادی کے لیے رکاوٹ نہیں بن سکتی، کیونکہ ایسی صورت میں اللہ تعالی کے اس فرمان کو مد نظر رکھنا ہو گا:

(وَأَنْكِحُوا الْأَيَامَى مِنْكُمْ وَالصَّالِحِينَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَإِمَائِكُمْ إِنْ يَكُونُوا فُقَرَاءَ يُغْنِهِمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ)
ترجمہ: تم میں سے جو مرد عورت بے نکاح ہوں ان کا نکاح کر دو اور اپنے نیک بخت غلام لونڈیوں کا بھی، اگر وہ مفلس بھی ہوں گے تو اللہ تعالی انہیں اپنے فضل سے غنی بنا دے گا اللہ تعالی کشادگی والا علم والا ہے۔ [النور:32]

چنانچہ اللہ تعالی پر مکمل توکل، عفت کی جستجو اور اللہ تعالی سے فضل کی امید اور طلب کے ساتھ امید ہے کہ ایسے شخص کو اللہ تعالی اپنے فضل سے غنی فرما دے اور اپنی طرف سے ڈھیروں رزق عطا فرمائے۔

كما روى الترمذي (1655) وحسنه عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : ( ثَلَاثَةٌ حَقٌّ عَلَى اللَّهِ عَوْنُهُمْ : الْمُجَاهِدُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ، وَالْمُكَاتَبُ الَّذِي يُرِيدُ الْأَدَاءَ ، وَالنَّاكِحُ الَّذِي يُرِيدُ الْعَفَافَ ) وحسنه الألباني في "صحيح الترمذي" .
وقد بوّب الإمام البخاري رحمه الله للحديث بقوله : " بَاب تَزْوِيجِ الْمُعْسِرِ ؛ لِقَوْلِهِ تَعَالَى : ( إِنْ يَكُونُوا فُقَرَاءَ يُغْنِهِمْ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ ) " ، قال الحافظ رحمه الله : " قَوْله : لِقَوْلِهِ تَعَالَى : ( إِنْ يَكُونُوا فُقَرَاء يُغْنِهِمْ اللَّه مِنْ فَضْله ) هُوَ تَعْلِيل لِحُكْمِ التَّرْجَمَة , وَمُحَصِّله أَنَّ الْفَقْر فِي الْحَال لَا يَمْنَع التَّزْوِيج , لِاحْتِمَالِ حُصُول الْمَال فِي الْمَآل " انتهى .
قال علي بن أبي طلحة ، عن ابن عباس: " رغبهم الله في التزويج ، وأمر به الأحرار والعبيد، ووعدهم عليه الغنى ، فقال : ( إِنْ يَكُونُوا فُقَرَاءَ يُغْنِهِمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ ) .
وعن ابن مسعود قال : " التمسوا الغنى في النكاح "

"تفسير ابن كثير" (6 /51)
جیسے کہ ترمذی: (1655) میں ہے اور امام ترمذی نے اسے حسن بھی قرار دیا ہے کہ: سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (تین لوگوں کی مدد کرنا اللہ تعالی پر حق ہے: مجاہد فی سبیل اللہ، مکاتب [آزادی کا خواہاں]غلام جو اپنی قیمت ادا کرنا چاہتا ہے، اور نکاح کرنے والا شخص جو عفت چاہتا ہے) اس حدیث کو البانی رحمہ اللہ نے صحیح ترمذی میں حسن قرار دیا ہے۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث پر عنوان لکھتے ہوئے کہا ہے: "باب ہے تنگ دست کی شادی کے متعلق؛ کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
(إِنْ يَكُونُوا فُقَرَاءَ يُغْنِهِمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ) اگر وہ مفلس بھی ہوں گے تو اللہ تعالی انہیں اپنے فضل سے غنی بنا دے گا۔"

حافظ ابن حجر اس کے تحت لکھتے ہیں کہ: "(إِنْ يَكُونُوا فُقَرَاءَ يُغْنِهِمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ) اگر وہ مفلس بھی ہوں گے تو اللہ تعالی انہیں اپنے فضل سے غنی بنا دے گا۔ یہ در حقیقت عنوان کا سبب اور علت ہے، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ: اگر ابھی فی الوقت مال میسر نہیں ہے تو یہ شادی کے لیے مانع نہیں؛ کیونکہ یہ ممکن ہے کہ بعد میں انہیں دولت مل جائے" ختم شد

علی بن ابو طلحہ اور ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ: "اللہ تعالی نے جوانوں کو شادی کی ترغیب دلائی اور آزاد و غلام سب کو شادی کا حکم دیا اور پھر شادی پر انہیں دولت مند کرنے کا وعدہ بھی دیا، اور فرمایا: (إِنْ يَكُونُوا فُقَرَاءَ يُغْنِهِمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ) اگر وہ مفلس بھی ہوں گے تو اللہ تعالی انہیں اپنے فضل سے غنی بنا دے گا ۔"

ایسے ہی ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ: "نکاح کے ذریعے دولت تلاش کرو"
"تفسیر ابن كثیر" (6 /51)
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ماخوذ از : الاسلام سوال وجواب
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
اسلام میں شادی کے شرعی حکم اور اس کے اہم مسائل کو سمجھنے کیلئے آپ
شیخ الحدیث مولانا محمد علی جانباز ؒ کی بہترین تصنیف " احکام النکاح " ڈاؤن لوڈ کرکے پڑھیں ۔
ڈاؤن لوڈ احکام النکاح
ــــــــــــــــــــــــــــ
 
Top