14797 اٹیچمنٹ کو ملاحظہ فرمائیں
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
محترم شیخ
@اسحاق سلفی صاحب!
اللہ تعالی آپ کو جزائے خیر دے۔ آمین!
آپ نے فرمایا" جزیرۃ العرب اس وقت تک خراب نہ ہوگا جب تک مصر خراب نہ ہوجائے اور جنگ عظیم اس وقت تک نہ ہوگی جب تک کوفہ خراب نہ ہوجائے" (الفتن)۔
پھر فرمایا " عنقریب تم افواج کو پاؤ گے، شام میں، عراق میں اور یمن میں" ۔ عبداللہ بن حوالہ نے پوچھا"میرے لیے کیا حکم ہے؟" فرمایا تم شام کو لازم پکڑنا (للبہیقی) فرمایا ایمان فتنوں کے وقت میں شام میں ہوگا (للبہیقی) اور
آپ نےمتنبہ کرتے ہوئے فرمایا" جب شام میں فساد ہو تو تمہاری خیر نہیں (مسند احمد بن حنبل) اور
پھر اس حدیث پر غور کریں " قیامت قائم نہ ہوگی یہاں تک کہ اہل عراق کے اچھے لوگ شام کی طرف منتقل نہ ہوجائیں اور اہل شام کے شریر لوگ عراق کی طرف منتقل نہ ہوجائیں" اور
فرمایا "تم شام کو لازم پکڑے رہنا"(مسند احمد بن حنبل)
یہ وہ شام ہے جو امام مہدی کا ہیڈکوارٹر ہوگا، یہیں حضرت عیسی کا نزول ہوگا۔
یہیں سے ایک لشکر جہاد ہندکی نصرت کے لیے روانہ کیا جائے گا۔
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
یہ روایات کسی عالم نے نہیں لکھیں ، بلکہ کسی نے علم کے بغیر اپنی ضرورت کے تحت جمع کی ہیں ۔
اور لگتا ہے یہ کسی ایسے رائیٹر کا کارنامہ ہے جو ہمیں اس وقت شام والوں کی بیعت پر آمادہ کرنا چاہ رہا ہے ،و العلم عند اللہ
بہرحال حسب ارشاد ان روایات کی تحقیق پیش خدمت ہے :
22145 - حدثنا عبد الصمد، حدثنا حماد، عن الجريري، عن أبي المشاء وهو لقيط بن المشاء، عن أبي أمامة قال: لا تقوم الساعة حتى يتحول خيار أهل العراق إلى الشام، ويتحول شرار أهل الشام إلى العراق وقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " عليكم بالشام "
ابو امامہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
" قیامت قائم نہ ہوگی یہاں تک کہ اہل عراق کے اچھے لوگ شام کی طرف منتقل نہ ہوجائیں اور اہل شام کے شریر لوگ عراق کی طرف منتقل نہ ہوجائیں" اور
فرمایا "تم شام کو لازم پکڑے رہنا"(مسند احمد بن حنبل)
شیخ الالبانی فرماتے ہیں :
ضعيف موقوف.
أخرجه أحمد (5/ 249) ، ومن طريقه ابن عساكر في " تاريخ دمشق " (1/ 97 - دار الفكر) من طريق الجريري عن أبي المشاء - وهو:لقيط بن المشاء - عن أبي أمامة قال: ... فذكره موقوفاً، وزاد:
وقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " عليكم بالشام ".
قلت: وهذا إسناد ضعيف على وقفه، رجاله ثقات؛ غير (لقيط بن المشاء أبو المشاء) : لم يوثقه غير ابن حبان، وقال (5/ 344) :
" يخطئ ويخالف ".
یعنی ایک تو یہ موقوف روایت ہے ، قول رسول ﷺ نہیں ۔دوسرا یہ کہ اس کی سند بھی ضعیف ہے ‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۲- حدثنا محمد، ثنا بحر، ثنا ابن وهب، قال: وأخبرني معاوية، عن صفوان بن عمرو، عن عبد الرحمن بن جبير بن نفير، عن كعب، قال: «الجزيرة آمنة من الخراب حتى تخرب أرمينية، ومصر آمنة من الخراب حتى تخرب الجزيرة، والكوفة آمنة من الخراب حتى تخرب مصر، ولا تكون الملحمة حتى تخرب الكوفة، ولا تفتح مدينة الكفر حتى تكون الملحمة، ولا يخرج الدجال حتى تفتح مدينة الكفر» (المستدرک علی الصحیحین )
[التعليق - من تلخيص الذهبي] 8428 - منقطع واه )
والاثر من اسرائیلیات التی اشتہر بروایتہا کعب الاحبار ،وقال فیھا الذہبی :منقطع واہ ۔
یعنی یہ محض اسرائیلی روایت ہے ۔(کوئی حدیث یا صحابی کا قول نہیں )
ورواه ابو عمرو الداني في (السنن الواردة في الفتن ج4 --ص800 )
کعب احبار کہتے ہیں کہ : جزیرۃ العرب اسوقت تک امن میں رہے گا، جب تک آرمینیا برباد نہیں ہوتا ۔اور مصر اس وقت تک خراب نہیں ہوگا جب تک جزیرہ عرب محفوظ ہے ۔اور جبتک مصر تخریب کا شکار نہیں ہوتا اس وقت تک کوفہ محفوظ و مامون رہے گا ۔اور مسلمانوں اور کفار کے درمیان ایک عظیم جنگ اس وقت تک نہیں ہوگی، جب تک کوفہ خراب نہ ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہی روایت (السنن الواردة في الفتن ) میں اس طرح ہے :
- حدثنا عبد الرحمن بن عثمان، قال: حدثنا قاسم بن أصبغ، قال: حدثنا أحمد بن زهير، قال: حدثنا عبد الجبار بن عاصم، قال: حدثنا إسماعيل بن عياش، عن بعض، أصحابه قال: وجدت في كتاب خالد بن معدان: قال عبد الله , عن كعب الحبر قال: " الجزيرة آمنة من الخراب حتى تخرب أرمينية , ومصر آمنة من الخراب حتى تخرب الجزيرة , والكوفة آمنة من الخراب حتى تكون الملحمة , قال: ولا يخرج الدجال حتى تفتح القسطنطينية "
( السنن الواردة في الفتن وغوائلها والساعة وأشراطها )
اس کی تخریج میں ڈاکٹر رضاء اللہ بن ادریس لکھتے ہیں :
والاثر من اسرائیلیات التی اشتہر بروایتہا کعب الاحبار ،وقال فیھا الذہبی :منقطع واہ ۔
یعنی یہ محض اسرائیلی روایت ہے ۔(کوئی حدیث یا صحابی کا قول نہیں )
اور بے بنیاد بات ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
باب في سكنى الشام
باب: شام میں رہنے کی فضیلت کا بیان۔
عن ابن حوالة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " سيصير الامر إلى ان تكونوا جنودا مجندة جند بالشام وجند باليمن وجند بالعراق " قال ابن حوالة: خر لي يا رسول الله إن ادركت ذلك فقال: " عليك بالشام فإنها خيرة الله من ارضه يجتبي إليها خيرته من عباده فاما إن ابيتم فعليكم بيمنكم واسقوا من غدركم فإن الله توكل لي بالشام واهله ".
(سنن ابی داود ،حدیث نمبر: 2483 ۔۔و السنن الکبری للبیہقی )
عبداللہ بن حوالہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عنقریب ایسا وقت آئے گا کہ تم الگ الگ ٹکڑیوں میں بٹ جاؤ گے، ایک ٹکڑی شام میں، ایک یمن میں اور ایک عراق میں“۔ ابن حوالہ نے کہا: اللہ کے رسول! مجھے بتائیے اگر میں وہ زمانہ پاؤں تو کس ٹکڑی میں رہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنے اوپر شام کو لازم کر لو، کیونکہ شام کا ملک اللہ کی بہترین سر زمین ہے، اللہ اس ملک میں اپنے نیک بندوں کو جمع کرے گا، اگر شام میں نہ رہنا چاہو تو اپنے یمن کو لازم پکڑنا اور اپنے تالابوں سے پانی پلانا، کیونکہ اللہ نے مجھ سے شام اور اس کے باشندوں کی حفاظت کی ذمہ داری لی ہے ۱؎“۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
وقد أخرجہ: مسند احمد (۴/۱۱۰)
(صحیح) وضاحت: ۱؎ : شام فتنوں سے محفوظ رہے گا اور وہاں کے رہنے والوں کو اللہ فتنہ کے ذریعہ ہلاک نہیں کرے گا۔
اور فضائل شام پر مستقل کتابیں موجود ہیں،علامہ البانی کی تحقیق کے ساتھ ایک مفید کتاب ::
تخريج أحاديث فضائل الشام ودمشق لأبي الحسن علي بن محمد الربعي
پڑھیں ۔۔اب تو شاید اردو میں بھی آچکی ہے ۔کہیں دیکھی ہے لیکن یاد نہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اپنی دعاؤں میں بندہ کو یاد رکھیں ۔۔۔والسلام