• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

شب قدر کا رمضان کی آخری دس طاق راتوں میں تلاش کرنا۔ اس باب میں عبادہ بن صامت سے روایت ہے

محمد زاہد بن فیض

سینئر رکن
شمولیت
جون 01، 2011
پیغامات
1,957
ری ایکشن اسکور
5,787
پوائنٹ
354
حدیث نمبر: 2017
حدثنا قتيبة بن سعيد،‏‏‏‏ حدثنا إسماعيل بن جعفر،‏‏‏‏ حدثنا أبو سهيل،‏‏‏‏ عن أبيه،‏‏‏‏ عن عائشة ـ رضى الله عنها ـ أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ تحروا ليلة القدر في الوتر من العشر الأواخر من رمضان ‏"‏‏.‏

ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے اسماعیل بن جعفر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابوسہیل نے بیان کیا، ان سے ان کے باپ مالک بن عامر نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، شب قدر کورمضان کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں ڈھونڈو۔


حدیث نمبر: 2018
حدثنا إبراهيم بن حمزة،‏‏‏‏ قال حدثني ابن أبي حازم،‏‏‏‏ والدراوردي،‏‏‏‏ عن يزيد،‏‏‏‏ عن محمد بن إبراهيم،‏‏‏‏ عن أبي سلمة،‏‏‏‏ عن أبي سعيد الخدري ـ رضى الله عنه ـ‏.‏ كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يجاور في رمضان العشر التي في وسط الشهر،‏‏‏‏ فإذا كان حين يمسي من عشرين ليلة تمضي،‏‏‏‏ ويستقبل إحدى وعشرين،‏‏‏‏ رجع إلى مسكنه ورجع من كان يجاور معه‏.‏ وأنه أقام في شهر جاور فيه الليلة التي كان يرجع فيها،‏‏‏‏ فخطب الناس،‏‏‏‏ فأمرهم ما شاء الله،‏‏‏‏ ثم قال ‏"‏ كنت أجاور هذه العشر،‏‏‏‏ ثم قد بدا لي أن أجاور هذه العشر الأواخر،‏‏‏‏ فمن كان اعتكف معي فليثبت في معتكفه،‏‏‏‏ وقد أريت هذه الليلة ثم أنسيتها فابتغوها في العشر الأواخر وابتغوها في كل وتر،‏‏‏‏ وقد رأيتني أسجد في ماء وطين ‏"‏‏.‏ فاستهلت السماء في تلك الليلة،‏‏‏‏ فأمطرت،‏‏‏‏ فوكف المسجد في مصلى النبي صلى الله عليه وسلم ليلة إحدى وعشرين،‏‏‏‏ فبصرت عيني رسول الله صلى الله عليه وسلم ونظرت إليه انصرف من الصبح،‏‏‏‏ ووجهه ممتلئ طينا وماء‏.‏

ہم سے ابراہیم بن حمزہ نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے عبدالعزیز بن ابی حازم اور عبدالعزیز دراوردی نے بیان کیا، ان سے یزید بن ہاد نے، ان سے محمد بن ابراہیم نے، ان سے ابوسلمہ نے اور ان سے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے اس عشرہ میں اعتکاف کیا کرتے جو مہینے کے بیج میں پڑتا ہے۔ بیس راتوں کے گزر جانے کے بعد جب اکیسویں تاریخ کی رات آتی تو شام کو آپ گھر واپس آ جاتے۔ جو لوگ آپ کے ساتھ اعتکاف میں ہوتے وہ بھی اپنے گھروں میں واپس آ جاتے۔ ایک رمضان میں آپ جب اعتکاف کئے ہوئے تھے تو اس رات میں بھی (مسجد ہی میں) مقیم رہے جس میں آپ کی عادت گھر آجانے کی تھی، پھر آپ نے لوگوں کو خطبہ دیا اور جو کچھ اللہ پاک نے چاہا، آپ نے لوگوں کو اس کا حکم دیا، پھر فرمایا کہ میں اس (دوسرے) عشرہ میں اعتکاف کیا کرتا تھا، لیکن اب مجھ پر یہ ظاہراً ہوا کہ اب اس آخری عشرہ میں مجھے اعتکاف کرنا چاہئے۔ اس لیے جس نے میرے ساتھ اعتکاف کیا ہے وہ اپنے معتکف ہی میں ٹھہرا رہے اور مجھے یہ رات (شب قدر) دکھائی گئی لیکن پھر بھلوادی گئی۔ اس لیے تم لوگ اسے آخری عشرہ (کی طاق راتوں) میں تلاش کرو۔ میں نے (خواب میں) اپنے کو دیکھا کہ اس رات کیچڑ میں سجدہ کر رہا ہوں۔ پھر اس رات آسمان پر ابر ہوا اور بارش برسی، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نماز پڑھنے کی جگہ (چھت سے) پانی ٹپکنے لگا۔ یہ اکیسویں کی رات کا ذکر ہے۔ میں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صبح کی نماز کے بعد واپس ہو رہے تھے۔ اور آپ کے چہرہ مبارک پر کیچڑ لگی ہوئی تھی۔


حدیث نمبر: 2019
حدثنا محمد بن المثنى،‏‏‏‏ حدثنا يحيى،‏‏‏‏ عن هشام،‏‏‏‏ قال أخبرني أبي،‏‏‏‏ عن عائشة ـ رضى الله عنها ـ عن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ التمسوا ‏"‏‏.

مجھ سے محمد بن مثنیٰ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے یحییٰ قطان نے بیان کیا، ان سے ہشام بن عروہ نے کہا کہ مجھے میرے والد نے خبر دی، انہیں عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (شب قدر کو) تلاش کرو۔


حدیث نمبر: 2020
حدثني محمد،‏‏‏‏ أخبرنا عبدة،‏‏‏‏ عن هشام بن عروة،‏‏‏‏ عن أبيه،‏‏‏‏ عن عائشة،‏‏‏‏ قالت كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يجاور في العشر الأواخر من رمضان،‏‏‏‏ ويقول ‏"‏ تحروا ليلة القدر في العشر الأواخر من رمضان ‏"‏‏.‏

مجھ سے محمد بن سلام نے بیان کیا۔ انہوں نے کہا ہمیں عبدہ بن سلیمان نے خبر دی، انہیں ہشام بن عروہ نے، انہیں ان کے والد (عروہ بن زبیر) نے اور انہیں ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف کرتے اور فرماتے کہ رمضان کے آخری عشرہ میں شب قدر کو تلاش کرو۔


حدیث نمبر: 2021
حدثنا موسى بن إسماعيل،‏‏‏‏ حدثنا وهيب،‏‏‏‏ حدثنا أيوب،‏‏‏‏ عن عكرمة،‏‏‏‏ عن ابن عباس ـ رضى الله عنهما ـ أن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ التمسوها في العشر الأواخر من رمضان ليلة القدر في تاسعة تبقى،‏‏‏‏ في سابعة تبقى،‏‏‏‏ في خامسة تبقى ‏"‏‏.‏

ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے وہیب بن خالد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ایوب سختیانی نے بیان کیا، ان سے عکرمہ نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، شب قدر کو رمضان کے آخری عشرہ میں تلاش کرو، جب نو راتیں باقی رہ جائیں یا پانچ راتیں باقی رہ جائیں۔ (یعنی ۱۲ یا ۳۲ یا ۵۲ ویں راتوں میں شب قدر کو تلاش کرو)


حدیث نمبر: 2022
حدثنا عبد الله بن أبي الأسود،‏‏‏‏ حدثنا عبد الواحد،‏‏‏‏ حدثنا عاصم،‏‏‏‏ عن أبي مجلز،‏‏‏‏ وعكرمة،‏‏‏‏ قال ابن عباس ـ رضى الله عنهما ـ قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ هي في العشر،‏‏‏‏ هي في تسع يمضين أو في سبع يبقين ‏"‏‏.‏ يعني ليلة القدر‏.‏ قال عبد الوهاب عن أيوب‏.‏ وعن خالد عن عكرمة عن ابن عباس التمسوا في أربع وعشرين‏.‏

ہم سے عبداللہ بن ابی الاسود نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبدالواحد بن زیاد نے بیان کیا، ان سے عاصم بن سلیمان نے بیان کیا، ان سے ابومجلز اور عکرمہ نے، ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا شب قدر رمضان کے (آخری) عشرہ میں پڑتی ہے۔ جب نو راتیں گزر جائیں یا سات باقی رہ جائیں۔ آپ کی مراد شب قدر سے تھی۔ عبدالوہاب نے ایوب اور خالد سے بیان کیا، ان سے عکرمہ نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ شب قدر کو چوبیس تاریخ (کی رات) میں تلاش کرو۔


حدیث نمبر: 2023
حدثنا محمد بن المثنى: حدثنا خالد بن الحارث: حدثنا حميد: حدثنا أنس،‏‏‏‏ عن عبادة بن الصامت قال: خرج النبي صلى الله عليه وسلم ليخبرنا بليلة القدر،‏‏‏‏ فتلاحى رجلان من المسلمين،‏‏‏‏ فقال: (خرجت لأخبركم بليلة القدر،‏‏‏‏ فتلاحى فلان وفلان فرفعت،‏‏‏‏ وعسى أن يكون خيرا لكم،‏‏‏‏ فالتمسوها في التاسعة والسابعة والخامسة).‏

ہم سے محمد بن مثنی نے بیان کیا، ان سے خالد بن حارث نے بیان کیا، ان سے حمید طویل نے بیان کیا، ان سے انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا اور ان سے عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں شب قدر کی خبر دینے کے لیے تشریف لا رہے تھے کہ دو مسلمان آپس میں جھگڑا کرنے لگے۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں آیاتھا کہ تمہیں شب قدر بتادوں لیکن فلاں فلاں نے آپس میں جھگڑا کر لیا۔ پس اس کا علم اٹھا لیا گیا اور امید یہی ہے کہ تمہارے حق میں یہی بہتر ہو گا۔ پس اب تم اس کی تلاش (آخری عشرہ کی) نو یا سات یا پانچ (کی راتوں) میں کیا کرو۔

صحیح بخاری
کتاب لیلۃ القدر
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
تشریح : لیلۃ القدر کا وجود، اس کے فضائل اور اس کا رمضان شریف میں واقع ہونا یہ چیزیں نصوص قرآنی سے ثابت ہیں، جیسا کہ سورۃ قدر میں مذکور ہے۔ اور اس بارے میں احادیث صحیحہ بھی بکثرت وارد ہیں۔ پھر بھی آج کل کے بعض منکرین حدیث نے لیلۃ القدر کا انکار کیا ہے جن کا قول ہرگز توجہ کے قابل نہیں ہے۔

علامہ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں واختلف فی المراد الذی اضیفت الیہ اللیلۃ فقیل المراد بہ التعظیم کقولہ تعالیٰ و ما قدروا اللہ حق قدرہ و المعنی انہا ذات قدر لنزول القرآن فیہا یعنی یہاں قدر سے کیا مراد ہے، اس بارے میں اختلاف ہے، پس کہا گیا ہے کہ قدر سے تعظیم مراد ہے جیسا کہ آیت قرآنی میں ہے یعنی ان کافروں نے پورے طور پر اللہ کی عظمت کو نہیں پہچانا۔ آیت شریفہ میں جس طرح قدر سے تعظیم مراد ہے۔ یہاں بھی اس رات کے لیے تعظیم مراد ہے۔ اس لیے کہ یہ رات وہ ہے جس میں قرآن کریم کا نزول شروع ہوا۔ قال العلماءسمیت لیلۃ القدر لما تکتب فیہا الملئکۃ من الاقدار لقولہ تعالیٰ فیہا یفرق کل امر حکیم ( فتح ) یعنی علماءکا ایک قول یہ بھی ہے کہ اس کا نام لیلۃ القدر اس لیے رکھا گیا کہ اس میں اللہ کے حکم سے فرشتے آنے والے سال کی کل تقدیریں لکھتے ہیں۔ جیسا کہ آیت قرآنی میں مذکور کہ اس میں ہر محکم امر لکھا جاتا ہے۔

اس رات کے بارے میں علماءکے بہت سے اقوال ہیں جن کو حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے تفصیل کے ساتھ لکھا ہے۔ جنہیں46 اقوال کی تعداد تک پہنچا دیا ہے۔ آخر میں آپ نے اپنا فاضلانہ فیصلہ ان لفظوں میں دیا ہے۔ وارجحہا کلہا انہا فی و ترمن العشر الاخیر و انہا تنتقل کما یفہم من احادیث ہذا الباب یعنی ان سب میں ترجیح اس قول کو حاصل ہے کہ یہ مبارک رات رمضان شریف کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں ہوتی ہے۔ اور یہ ہر سال منتقل ہوتی رہتی ہے جیسا کہ اس باب کی احادیث سے سمجھا جاتا ہے۔ شافعیہ نے اکیسویں رات کو ترجیح دی ہے اور جمہو رنے ستائیسویں رات کو مگر صحیح تر یہی ہے کہ اسے ہر سال کے لیے کسی خاص تاریخ کے ساتھ متعین نہیں کیا جاسکتا ہے۔ یہ ہر سال منتقل ہوتی رہتی ہے اور یہ ایک پوشیدہ رات ہے۔ قال العلماءالحکمۃ فی اخفاءالقدر لیحصل الاجتہاد فی التماسہا بخلاف ما لوعینت لہا لیلۃ لاقتصر علیہا کما تقدم نحوہ فی ساعۃ الجمعۃ یعنی علماءنے کہا کہ اس رات کے مخفی ہونے میں یہ حکمت ہے تاکہ اس کی تلاش کے لیے کوشش کی جائے۔ اگر اسے معین کر دیا جاتا تو پھر اس رات پر اقتصار کر لیا جاتا۔ جیسا کہ جمعہ کی گھڑی کی تفصیل میں پیچھے مفصل بیان کیا جا چکا ہے۔ مترجم کہتا ہے کہ اس سے ان لوگوں کے خیال کی بھی تغلیط ہوتی ہے جو اسے ہر سال اکیسویں یا ستائیسویں شب کے ساتھ خاص کرتے ہیں۔

مختلف آثار میں اس رات کی کچھ نشانیاں بھی بتلائی گئی ہیں، جن کو علامہ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے مفصل لکھا ہے۔ مگر وہ آثار بطور امکان ہیں۔ بطور شرط کے نہیں، جیسا کہ بعض روایات میں اس کی ایک علامت بارش کاہونا بھی بتلایا گیا ہے۔ مگر کتنے ہی رمضان ایسے گزر جاتے ہیں کہ ان میں بارش نہیں ہوتی، حالانکہ ان میں لیلۃ القدر کا ہونا برحق ہے۔ پس بہت دفعہ ایسا ہونا ممکن ہے کہ ایک شخص نے عشرہ آخر کی طاق راتوں میں قیام کیا اور اسے لیلۃ القدر حاصل بھی ہو گئی، مگر اس نے اس رات میں کوئی امر بطور خوارق عادت نہیں دیکھا۔ اس لیے حافظ صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں فلا نعتقد ان لیلۃ القدر لا ینالہا الا من رای الخوارق بل فضل اللہ واسع یعنی ہم یہ اعتقاد نہیں رکھتے کہ لیلۃ القدر کو وہی پہنچ سکتا ہے جو کوئی امر خارق عادت دیکھے، ایسا نہیں ہے بلکہ اللہ کا فضل بہت فراخ ہے۔

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا تھا، حضور ! میں لیلۃ القدر میں کیا دعا پڑھو؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتلایا کہ یہ دعا بکثرت پڑھا کرو اللہم انک عفو تحب العفو فاعف عنی ) یا اللہ ! تو معاف کرنے والا ہے اور معافی کو پسند کرتا ہے پس تو میری خطائیں معاف کردے۔

امید ہے کہ لیلۃ القدر کی شب بیداری کرنے میں بخاری شریف کا مطالعہ فرمانے والے معزز بھائی مترجم و معاونین سب کو اپنی پاکیزوں دعاؤں میں شامل کر لیا کریں۔
شنیدم کہ در روز امید و بیم بداں رابہ نیکاں بہ بخشد کریم
آمین

شیخ الحدیث حضرت مولانا عبید اللہ صاحب مدظلہ فرماتے ہیں :
ثم الجمہور علی انہا مختصۃ بہذہ الامۃ و لم تکن لمن قبلہم قال الحافظ و جزم بہ ابن حبیب وغیرہ من المالکیۃ کالباجی و ابن عبدالبر و نقلہ عن الجمہور صاحب العدۃ من الشافعیۃ و رجحہ و قال النووی انہ الصحیح المشہور الذی قطع بہ اصحابنا کلہم و جماہیر العلماءقال الحافظ وہو معترض بحدیث ابی ذر عند النسائی حیث قال فیہ قلت یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اتکون مع الانبیاءفاذا ماتوا رفعت قال لا بل ہی باقیۃ و عمدتہم قول مالک فی الموطا بلغنی ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تقاصر اعمار امتہ عن اعمار الامم الماضیۃ فاعطاہ اللہ لیلۃ القدر و ہذا یحتمل التاویل بل یدفع الصریح فی حدیث ابی ذر انتہی۔ قلت حدیث ابی ذر ذکرہ ابن قدامہ 179/3 من غیر ان یعزوہ لاحد بلفظ قلت یا نبی اللہ اتکون مع الانبیاءما کانوا فاذا قبضت الانبیاءو رفعوا رفعت معہم او ہی الی یوم القیامۃ قال بل ہی الی یوم القیامۃ و اما اثر الموطا فقال مالک فیہ انہ سمع من یثق بہ من اہل العلم یقول ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اری اعمار الناس قبلہ او ماشاءاللہ من ذلک فکانہ تقاصر اعمار امتہ ان لا یبلغوا من العمل مثل الذی بلغ غیرہم فی طول العمر فاعطاہ اللہ لیلۃ القدر خیر من الف شہر.... قلت و اثر الموطا المذکور یدل علی ان اعطاءلیلۃ القدر کان تسلیۃ لہذہ الامۃ القصیرہ الاعمار و یشہد لذلک روایۃ اخری مرسلۃ ذکرہا العینی فی العمدۃ ( ص : 129، ص : 130 ج11 )
جمہور کا قول یہی ہے کہ یہ بات اسی امت کے ساتھ خاص ہے اور پہلی امتوں کے لیے یہ نہیں تھی۔ حافظ نے کہا اسی عقیدہ پر ابن حبیب اور باجی اور ابن عبدالبر علماءمالکیہ نے جزم کیا ہے۔ اور شافعیہ میں سے صاحب العدہ نے بھی اسے جمہور سے نقل کیا ہے۔ حافظ نے کہا کہ یہ حدیث ابوذر رضی اللہ عنہ کے خلاف ہے جسے نسائی نے روایت کیا ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہے میں نے کہا یا رسول اللہ یہ رات پہلے انبیا کے ساتھ بھی ہوا کرتی تھی کہ جب وہ انتقال کرجاتے تو وہ رات اٹھا دی جاتی۔ آپ نے فرمایا کہ نہیں، بلکہ وہ رات باقی ہے اور بہترین قول امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کا ہے جو انہوں نے موطا میں نقل کیا ہے کہ مجھے پہنچا ہے کہ رسو ل اللہ علیہ وسلم کو اپنی امت کی عمریں کم ہونے کا احساس ہوا جب کہ پہلی امتوں کی عمریں بہت طویل ہوا کرتی تھیں۔ پس اللہ تعالیٰ نے آپ کو لیلۃ القدر عطا فرمائی جس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کو تسلی دینا مقصود تھا جن کی عمریں بہت چھوٹی ہیں اور یہ رات ایک ہزار مہینے سے بہتر ان کو دی گئی۔ ( ملخص )

سورۃ شریفہ انا انزلناہ فی الیلۃ القدر کے شان نزول میں واحدی نے اپنی سند کے ساتھ مجاہد سے نقل کیا ہے کہ ذکر النبی صلی اللہ علیہ وسلم رجلا من بنی اسرائیل لبس السلاح فی سبیل اللہ الف شہر فعجب المسلمون من ذلک فانزل اللہ تعالیٰ عزوجل انا انزلناہ الخ قال خیر من الذی لبس السلاح فیہا ذلک الرجل انتہی۔ و ذکر المفسرون انہ کان فی الزمن الاول نبی یقال لہ شمسون علیہ السلام قاتل الکفرۃ فی دین اللہ الف شہر و لم ینزع الثیاب و السلاح فقالت الصحابۃ یا لیت لنا عمراً طویلا حتی نقاتل مثلہ فنزلت ہذہ الایۃ و اخبر صلی اللہ علیہ وسلم ان لیلۃ القدر خیر من الف شہر الذی لبس السلاح فیہا شمسون فی سبیل اللہ الی آخرہ ذکر العینی یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی اسرائیل میں سے ایک شخص کا ذکر فرمایا جس نے ایک ہزار مہنے تک اللہ کی راہ میں جہاد کیا تھا۔ اس کو سن کر مسلمانوں کو بے حد تعجب ہوا، اس پر یہ سورۃ شریفہ نازل ہوئی۔ مفسرین نے کہا ہے کہ پہلے زمانے میں ایک شمسون نامی نبی تھے۔ جو ایک ہزار ماہ تک اللہ کے دین کے لیے جہاد فرماتے رہے اور اس تمام مدت میں انہوں نے اپنے ہتھیار جسم سے نہیں اتارے، یہ سن کر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بھی اس طویل عمر کے لیے تمنا ظاہر کی تاکہ وہ بھی اس طرح خدمت اسلام کریں۔ اس پر یہ سورۃ نازل ہوئی، اور بتلایا گیا کہ تم کو صرف ایک رات ایسی دی گئی ہے جو عبادت کے لیے ایک ہزار سے بہتر و افضل ہے۔
 

hadi zia

مبتدی
شمولیت
نومبر 18، 2014
پیغامات
13
ری ایکشن اسکور
6
پوائنٹ
13
السلام علیکم
مجھے اس حدیث کا مکمل حوالہ چاہیے
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا تھا، حضور ! میں لیلۃ القدر میں کیا دعا پڑھو؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتلایا کہ یہ دعا بکثرت پڑھا کرو
(اللہم انک عفو تحب العفو فاعف عنی ) یا اللہ ! تو معاف کرنے والا ہے اور معافی کو پسند کرتا ہے پس تو میری خطائیں معاف کردے۔
جزاک اللہ خیرا
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
السلام علیکم
مجھے اس حدیث کا مکمل حوالہ چاہیے
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا تھا، حضور ! میں لیلۃ القدر میں کیا دعا پڑھو؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتلایا کہ یہ دعا بکثرت پڑھا کرو
(اللہم انک عفو تحب العفو فاعف عنی ) یا اللہ ! تو معاف کرنے والا ہے اور معافی کو پسند کرتا ہے پس تو میری خطائیں معاف کردے۔
جزاک اللہ خیرا
صحیح سنن ابن ماجہ ، حدیث نمبر 3119 ۔
 

hadi zia

مبتدی
شمولیت
نومبر 18، 2014
پیغامات
13
ری ایکشن اسکور
6
پوائنٹ
13
میں نے بہت تلاش کیا ، مگر مجھے اس حوالے پر یہ حدیث نہیں ملی
پلز مکمل حوالہ معلوم ہے تو بتا دیں ،
حدیث نمبر کے ساتھ باب بھی
کتاب بھی
جزاک اللہ خیرا
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
سنن ابن ماجہ ، ابواب الدعاء ، باب الدعاء بالعفو والعافیۃ ، حدیث نمبر 3850 ۔
سنن ابن ماجہ مترجم(دار السلام ) سے صفحے کی تصویر ملاحظہ فرمائیں :
upload_2015-7-3_1-44-36.png
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
شب قدر کی دعاء


عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ:‏‏‏‏ قُلْتُ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَرَأَيْتَ إِنْ عَلِمْتُ أَيُّ لَيْلَةٍ لَيْلَةُ الْقَدْرِ مَا أَقُولُ فِيهَا؟
قَالَ:‏‏‏‏ قُولِي:‏‏‏‏ " اللَّهُمَّ إِنَّكَ عُفُوٌّ كَرِيمٌ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّي ".
قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.

ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ میں نے کہا: اللہ کے رسول ﷺ! اگر مجھے معلوم ہو جائے کہ کون سی رات لیلۃ القدر ہے تو میں اس میں کیا پڑھوں؟ آپ نے فرمایا: ”پڑھو «اللَّهُمَّ إِنَّكَ عُفُوٌّ كَرِيمٌ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّي» ”اے اللہ! تو عفو و درگزر کرنے والا مہربان ہے، اور عفو و درگزر کرنے کو تو پسند کرتا ہے، اس لیے تو ہمیں معاف و درگزر کر دے“۔ (سنن الترمذی ۔۔ حدیث نمبر: 3513 )
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

تخریج دارالدعوہ: سنن ابن ماجہ/الدعاء ۵ (۳۸۵۰) (تحفة الأشراف : ۱۶۱۸۵) (صحیح)قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (3850)
صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني: حديث نمبر 3513
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سنن ابن ماجہ ، باب : الدعاء بالعفو والعافية
باب: عفو اور عافیت کی دعا کا بیان۔
حدیث نمبر: 3850
عَنْ عَائِشَةَ ، أَنَّهَا قَالَتْ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ ، أَرَأَيْتَ إِنْ وَافَقْتُ لَيْلَةَ الْقَدْرِ مَا أَدْعُو ، قَالَ:‏‏‏‏"تَقُولِينَ:‏‏‏‏ اللَّهُمَّ إِنَّكَ عَفُوٌّ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّي".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! اگر مجھے شب قدر مل جائے تو کیا دعا کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ دعا کرو «اللهم إنك عفو تحب العفو فاعف عني» ”اے اللہ تو معاف کرنے والا ہے اور معافی و درگزر کو پسند کرتا ہے تو تو مجھ کو معاف فرما دے“۔

تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/الدعوات ۸۵ (۳۵۱۳)، (تحفة الأشراف : ۱۶۱۸۵)، وقد أخرجہ : مسند احمد (۶/۱۷۱، ۱۸۲، ۱۸۳، ۲۰۸) (صحیح) قال الشيخ الألباني: صحيح
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
" اللَّهُمَّ إِنَّكَ عُفُوٌّ كَرِيمٌ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّي "
’’ کریم ‘‘ کے الفاظ غیر ثابت ہیں ۔ شیخ البانی رحمہ اللہ نے اس کی وضاحت فرمائی ہے :
(تنبيه) : وقع في "سنن الترمذي " بعد قوله: "عفو" زيادة: "كريم "! ولا أصل لها في شيء من المصادر المتقدمة، ولا في غيرها ممن نقل عنها، فالظاهر أنها مدرجة من بعض الناسخين أو الطابعين؛ فإنها لم ترد في الطبعة الهندية من " سنن الترمذي " التي عليها شرح "تحفة الأحوذي " للمباركفوري (4/ 264) ، ولا في غيرها. وإن مما يؤكد ذلك: أن النسائي في بعض رواياته أخرجه من الطريق التي أخرجها الترمذي، كلاهما عن شيخهما (قتيبة بن سعيد) بإسناده دون الزيادة.
وكذلك وقعت هذه الزيادة في رسالة أخينا الفاضل علي الحلبي: "مهذب عمل اليوم والليلة لابن السني " (95/202) ، وليست عند ابن السني؛ لأنه رواه عن شيخه النسائي- كما تقدم- عن قتيبة، ثم عزاه للترمذي وغيره! ولقد كان اللائق بفن التخريج أن توضع الزيادة بين معكوفتين كما هو المعروف اليوم [] ، وينبه أنها من أفراد الترمذي. وأما التحقيق فيقتضي عدم ذكرها مطلقاً؛ إلا لبيان أنه لا أصل لها، فاقتضى التنبيه.

( الصحیحۃ ج 7 ص 1012 تحت حدیث 3338)
 

طاہر اسلام

سینئر رکن
شمولیت
مئی 07، 2011
پیغامات
843
ری ایکشن اسکور
732
پوائنٹ
256
آج شب البیت العتیق میں پتا نہیں کن بھائی نے درس دیا ہے؛مجھے فون آیا کہ جناب یہاں یہ فرما رہے ہیں کہ یہ رات پورے سال میں کوئی بھی ہو سکتی ضروری نہیں کہ رمضان میں ہو؛اسی طرح جفت رات بھی ہو سکتی؛عرض کیا کہ ہے تو رمضان کے آخری عشرے میں لیکن جفت کی بات میں کچھ وزن ہے؛میرے خیال میں لوگوں کو زیادہ تشویش میں نہیں ڈالنا چاہیے؛وہ پریشان ہو جاتے ہیں اور معاملے کو سمجھ نہیں پاتے۔
 
Top