• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

شدت پسندی کا غیر اسلامی سفر، خوارج سے داعش تک

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,423
پوائنٹ
521
السلام علیکم


شدت پسندی کا غیر اسلامی سفر، خوارج سے داعش تک
سید عاصم محمود
ہفتہ 20 دسمبر 2014

عالم اسلام کے ان گروہوں کا تاریخی قصّہ جنھوں نے بتدریج انتہا پسندی کو اپنا لیا۔


14 دسمبر کے ایکسپریس سنڈے میگزین میں آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل (ر) حمید گل کا ایک فکر انگیز اور معلومات سے بھر پور انٹرویو شائع ہوا۔ اس میں انہوں نے انکشاف کیا کہ داعش (اماراتِ شام و عراق) کی فکری بنیادیں ’’الاخوان‘‘ کے نظریات پر استوار ہیں اور یہ کہ تنظیم کا حقیقی ٹارگٹ سعودی عرب میں حکومت قائم کرنا ہے۔

الاخوان جدید عرب مملکت سعودیہ کے بانی، شاہ عبدالعزیز (1953-1876ء) کی بنائی ہوئی مذہبی فوج تھی جس نے سعودیہ کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا۔ لیکن یہ فوج پھر شدت پسندی کے باعث اعتدال کی راہ سے ہٹ گئی۔ الاخوان کے متعلق مزید جاننے سے قبل ذرا اسلام میں شدت پسندی کی تاریخ کا مختصر جائزہ لے لیجیے۔

اللہ تعالی قران پاک میں فرماتے ہیں:

’’ہم نے تم (مسلمانوں) کو امت ِمعتدل بنایا ہے تاکہ تم لوگوں پہ گواہ بنو اور پیغمبر ( ﷺ) تم پہ گواہ بنیں۔‘‘
(البقرہ۔ 143)

درج بالا آیت کریمہ کی تفسیر کرتے ہوئے مفسرین نے مسلمانوں کو ’’اُمتِ وسط‘‘ لکھا ہے… یعنی اعتدال کا راستہ اختیار کرنے والی اُمت! آیت کی تشریح کرتے ہوئے علامہ عبداللہ یوسف علی لکھتے ہیں: ’’اسلام کا جوہر یہ ہے کہ وہ افراط وتفریط کا قائل نہیں اور اعتدال کی راہ اپناتا ہے۔ وہ فہمیدہ و متین اور عملی مذہب ہے۔‘‘

اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ انسانی زندگی کا احاطہ کرنے والے تمام چار بڑے شعبوں… اخلاق، عقائد، عبادات اور شریعت (قوانین) میں اسلام ’’وسطا‘‘ کی تلقین کرتا ہے۔ جو مسلمان یہ معتدل راستہ اختیار نہ کرے، وہ نہ صرف صراط مسقتیم سے بھٹکتا بلکہ تباہ و برباد ہو کے رہتا ہے۔ یہ پیشن گوئی نبی کریمﷺ ہی نے فرما دی تھی۔ آپ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے:

’’دین (پہ عمل کرنا) آسان ہے۔ جس کسی نے بھی اسے پیچیدہ و سخت بنایا، وہ ہلاک ہو کر رہا۔ لہذا سیدھے رہو، اعتدال کی راہ پہ چلو اور (دوسروں کو) خیر کی باتیں بتاؤ۔‘‘
(البخاری)

تاریخ ِاسلام افشا کرتی ہے کہ جن مسلمانوں نے قران وسنّت کو جھٹلاتے ہوئے شدت پسندی اپنائی، وہ تباہ ہو کر رہے۔ ایسا پہلا گروہ خوارج کا تھا جس نے طویل عرصہ عالم اسلام میں قتل وغارت گری پھیلائے رکھی۔ اس کے بعد چھوٹے موٹے بھٹکے ہوئے گروہ آتے رہے یہاں تک کہ بیسویں صدی میں الاخوان سامنے آئے۔

آل سعود یا خاندانِ سعود کا مرکز ریاض تھا جس پر 1890ء میں مخالف قبیلے، آل رشید نے قبضہ کر لیا۔ چناںچہ شاہ عبدالعزیز المعروف ابن سعود والدین کے ہمراہ کویت چلے گئے۔ ابن سعود ایک دلیر اور زیرک انسان تھے۔
1901ء کے موسم بہار میں انہوں نے آل رشید سے ٹکر لینے کا فیصلہ کیا۔ ان کے ساتھ محض 200 سپاہی تھے۔

ابن سعود نے عرب علاقے، نجد پہنچ کر آل رشید کے حلیف قبائل پر حملے کیے تاہم انہیں زیادہ کامیابی نہیں ملی۔ موسم خزاں ہونے تک بیشتر سعودی سپاہی واپس کویت چلے گئے مگر ابن سعود نے ہمت نہ ہاری۔

15 جنوری 1902ء کو انہوں نے محض چالیس سپاہیوں کے ساتھ ریاض پر حملہ کیا اور اسے فتح کر لیا۔ رشیدی والی، عجلان اپنے قلعے کے سامنے مارا گیا۔ ریاض فتح ہوا، تو آل سعود کے سابقہ حلیف قبائل ابن سعود سے آملے۔ یوں ان کی قوت بڑھتی چلی گئی۔ حتیٰ کہ 1912ء تک نجد سمیت بیشتر وسطی عرب ان کے قبضے میں آگیا۔

نجد اور پڑوسی علاقے، الحصا میں میں ہزارہا عرب بدو مقیم تھے۔ ابن سعود عرب مصلح، محمد عبدالوہاب کے پیروکار تھے اور ان کا خیال تھا کہ یہ بدو اسلامی تعلیمات کے مطابق زندگی بسر نہیں کرتے۔ چناں چہ ابن سعود نے مختلف علاقوں میں ’’حجرہ‘‘ نامی بستیاں بسا دیں جن کی تعداد 1929ء تک ’’سوا سو‘‘ تک پہنچ گئی تھی۔

ان بستیوں میں ہزارہا بدو بسائے گئے۔ انہیں محمد عبدالوہاب کے نظریات پر مبنی اسلامی تعلیمات کے مطابق زندگی بسر کرنا سکھایا گیا۔ نیز بتایا گیا کہ کھیتی باڑی کیونکر کی جاتی ہے، نیز مختلف ہنر بھی سکھائے گئے۔ جب ان بستیوں میں کئی ہزار نوجوان بدو مذہبی تعلیم و تربیت پا چکے، تو ان پر مشتمل ایک خصوصی فوج ’’الاخوان‘‘ تشکیل دی گئی۔ یہ 1914ء کی بات ہے۔ الاخوان نے پھر عرب علاقوں کی فتوحات میں آل سعود کا بڑھ چڑھ کر ساتھ دیا۔ حتیٰ کہ 1925ء تک موجودہ سعودی مملکت میں شامل سبھی علاقے فتح ہو گئے۔ تاہم اسی دوران ابن سعود اور الاخوانی رہنماؤں کے مابین اختلافات نے بھی جنم لیا۔

الاخوان فوج تقریباً پچاس ہزار سپاہیوں پر مشتمل تھی۔ ہوا یہ کہ وہ اپنے نظریات کے سلسلے میں بہت کٹر ہو گئے۔ وہ ہر قسم کی اچھی بری تبدیلی کے خلاف تھے اور اسے بدعت سمجھتے۔ مثلاً اہل مغرب سے وابستہ ہر شے کا استعمال ان میں ممنوع تھا۔ چناں چہ وہ گاڑی میں نہ بیٹھتے اور اونٹوں پر سفر کرتے۔ صرف مسلمان ہنرمندوں کی بنائی ہوئی قدیم طرز کی بندوقیں استعمال کرتے۔ مزید برآں اپنے نظریات دوسروں پر نافذ کرتے ہوئے انہوں نے شدت پسندی اختیار کرلی۔ اگر مفتوحہ علاقے کے عرب مرد، خواتین، حتیٰ کہ بچے بھی ان کی تعلیمات پر عمل نہ کرتے، تو انہیں قتل کر دیا جاتا۔

الاخوانیوں کے مقابلے میں ابن سعود اور ان کے حامی علما زیادہ روادار تھے۔ وہ جو علاقہ فتح کرتے، وہاں کے معززین کو یقین دلاتے کہ مقامی طرز زندگی، روایات اور رسوم کو بدلا نہیں جائے گا۔ مگر طاقتور الاخوانی رہنما ان کی ایک نہ سنتے اور اپنی مرضی کرتے۔ یہ الاخوانی ہی ہیں جنہوں نے مکہ مکرمہ، مدینہ منورہ اور دیگر عرب مقامات میں واقع صحابہ کرام، اولیائے کرام وغیرہ کے مزار شہید کر ڈالے۔


ابن سعود اور الاخوانیوں کے مابین پہلا سنجیدہ اختلاف 1925ء میں پیدا ہوا۔ ابن سعود عرب میں حکومت تشکیل دے کر عراق، شام اور اردن پر حملہ نہیں کرنا چاہتے تھے جہاں یورپی طاقتیں ڈیرہ ڈالے بیٹھی تھیں۔ جبکہ الاخوانی رہنماؤں کا اصرار تھا کہ پڑوسی ممالک پر بھی دھاوا بولا جائے تاکہ وہ بھی سعودی سلطنت میں شامل ہو سکیں۔

جب ابن سعود نے الاخوانی رہنماؤں کی درخواست رد کی، تو 1927ء میں ان کے ایک گروہ نے بغاوت کر دی۔ ان الاخوانی رہنماؤں کا دعویٰ تھا کہ ابن سعود حقیقی نظریات پر عمل پیرا نہیں رہے، چنانچہ مرتد ہو چکے اور اب ان کا قتل جائز ہے۔
ان باغی رہنماؤں میں سلطان بن بجاد العتیبی (قبیلہ عتیبہ)، فصیل الدویش (مطیر)، ضیدان بن حثلین (عجمان)، ندا بن نھیر (شمر) اور مناحی بن حفیظ (الدواسر) شامل تھے۔

عتیبہ، مطیر اور عجمان بڑے عرب قبائل میں شمار ہوتے تھے لہٰذا ان کی بغاوت پورے نجد اور حجاز میں پھیل گئی۔ وہ پھر ابن سعود کے حلیف قبائل کو نشانہ بنانے لگے۔ ان کی فوج تیس ہزار سپاہ پر مشتمل تھی۔ آنے والے برسوں میں ابن سعود کی فوج اور الاخوانیوں میں کئی لڑائیاں ہوئیں۔ چونکہ الاخوانی کا بنیادی ہتھیار تلواریں اور نیزے تھے، لہٰذا وہ مشین گنوں اور توپوں کے سامنے نہ ٹھہر پاتے۔ اس کے باوجود مذہبی جوش انہیں معرکہ آرائی پر ابھارتا رہتا۔

بہرحال مقابلوں میں یکے بعد دیگرے الاخوانی رہنما مارے گئے یا گرفتار ہو کر قید ہوئے۔ چناںچہ بغاوت سرد پڑتی گئی۔ آخر 1930ء تک باغی الاخوانی قبائل دوبارہ ابن سعود کے مطیع ہو گئے۔ تاہم جن لوگوں کے باپ، بھائی اور بیٹے خانہ جنگی میں مارے گئے، ان میں نفرت اور بدلے کی آگ بھڑکتی رہی۔

یہ آگ 20 نومبر 1979ء کو دوبارہ بھڑکی جب جھیمان بن محمد کی قیادت میں چار سو افراد نے خانہ کعبہ پر قبضہ کرلیا۔ جھیمان کا تعلق قبیلہ عتیبہ سے تھا اور اس کے باپ دادا ابن سعود کی فوج سے لڑتے مارے گئے تھے۔ چنانچہ وہ بغاوت اور آل سعود کے (بظاہر) غیر شرعی اقدامات کی داستانیں سنتا نوجوان ہوا۔

جھیمان یہ دیکھ کر پیچ و تاب کھاتا کہ سعودیہ میں یورپی رسوم و رواج در آئے ہیں۔ خواتین کام کرنے لگیں۔ گھروں میں ٹی وی دیکھا جانے لگا۔ کرنسی نوٹ پر بادشاہ کی تصویر چھپنے لگی۔ کھلاڑی بازو و ٹانگیں برہنہ کر کے فٹ بال کھیلنے لگے۔ اس نے یہ بھی قرار دیا کہ علماء (محمد عبدالوہاب کے فکری وارث) حکمرانوں کے زرخرید غلام بن چکے۔ وہ دولت اور اعزاز و اکرام لے کر حکومتی احکامات درست قرار دیتے ہیں۔ چناںچہ چودہویں صدی ہجری کے پہلے دن اس نے ہم خیال ساتھیوں کے ساتھ خانہ کعبہ پر قبضہ کر لیا۔ اللہ کے گھر کو شدت پسندوں سے خالی کرانے کے مشن میں شنید ہے کہ پاکستانی کمانڈوز نے بھی حصہ لیا۔

جنرل (ر) حمید گل سمجھتے ہیں کہ خوارج اور الاخوانیوں کے انتہا پسندانہ مذہبی نظریات دور حاضر میں داعش سمیت وہ بعض گروہ اپنا چکے جو عالم اسلام میں اپنے ہی بھائی بندوں سے برسرپیکار ہیں۔ ان میں اعتدال، رواداری، صبر وبرداشت اور نرمی کی اعلیٰ صفات تقریباً عنقا ہیں۔انہی میں پاکستان کے طالبانی گروہ بھی شامل ہیں جنھوں نے حال ہی میں اسکول کے طلبہ کو بے رحمی سے نشانہ بنا کر اپنی انتہا پسندی کا ثبوت دیا۔

صفت ِاعتدال کے علاوہ رواداری بھی دین اسلام کی بہت بڑی خصوصیت ہے۔ زور زبردستی سے اپنے نظریات منوانا، کسی انسان کو مسلمان بنانا اور قیدیوں سے ظالمانہ سلوک کرنا اللہ تعالیٰ اور پیارے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حقیقی تعلیمات سے کُھلی روگردانی ہے۔ نبی کریم ﷺ نے جبر و طاقت نہیں نرمی و رواداری سے ہی عرب میں اسلام پھیلایا۔ اللہ تعالیٰ بھی سورہ سجدہ میں مسلمانوں پہ عیاں کرتے ہیں:

(مفہوم)’’ہم نے ہر قوم کے لیے ایک شریعت مقرر کر دی ہے جس پر وہ عمل کرتے ہیں۔ اے مسلمانو! تم انہیں اسلام کی طرف بلاؤ، مگر ان سے جھگڑا نہیں کرو۔ جن باتوں میں اختلاف ہے، خدا روز قیامت خود ان کا فیصلہ کرے گا۔ ‘‘
(آیت 67 تا 69)

لیکن دنیائے اسلام میں داعش اور ان جیسے بعض دوسرے بظاہر اسلامی گروہ غیر مسلموں حتیٰ کہ مسلمانوں کے خلاف جو بھیانک قتل و غارت کرنے میں مصروف ہیں، اسے دیکھ کر لگتا ہے کہ وہ نعوذ باللہ خدا تعالیٰ کے اختیار بھی اپنے ہاتھوں میں لے چکے۔ سوال یہ ہے، کیا یہ گروہ صحیح اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہیں؟ اور دیکھنا چاہیے کہ عالم اسلام میں ان کی وجہ سے جو فساد و افتراق پھیل چکا ، اس سے فائدہ کون اٹھا رہا ہے؟

ح
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,423
پوائنٹ
521
السلام علیکم

خمینی انقلاب

16 جنوری 1979 شاہ ایران (رضا شاہ پہلوی) اور ان کے خاندان کو ملک سے فرار ہونا پڑا۔

1 فروری 1979 آیت اللہ خمینی چودہ سال کی ملک بدری اور عراق اور فرانس میں رہنے کے بعد ملک واپس آ گئے۔

1 اپریل 1979 ایران کو ایک ریفرنڈم کے بعد اسلامی جمہوریہ ایران بنا دیا گیا۔
-------------

اِس کے علاوہ ایک اور واقع یہ بھی ہے کہ ایک دفعہ سعودی حکومت نے صلیبی ملک جرمنی کی شہزادی کو خانہ کعبہ کی سیر کروائی تھی جبکہ اُن پاک اور مقدس علاقوں میں غیر مسلم لوگوں کا داخلہ منع ہے۔
فروری 1979 ملکہ برطانیہ (Queen Elizabeth) نے عریبین گلف (کویت 12-14 فروری 1979، البحرین 14-17 فروری 1979، قطر 21-24 فروری 1979، ، دبئی ابوظہبئی الامارات 24-27 فروری 1979، سلطنت عمان 28 فروری 1979 سے 2 مارچ 1979) اور سعودی عرب 17-20 فروری 1979 کو ویزٹ کیا۔

نیچے سپوئلر میں لنکس دئے گئے ہیں ان پر کلک کریں اور تصاویر دیکھ سکتے ہیں، 1979 میں کنگ خالد، بعد کے کنگ شاہ عبداللہ مرحوم اور حالیہ کنگ شاہ سلمان بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔ ملکہ برطانیہ کا لباس بھی دیکھ سکتے ہیں اور ائرپورٹ الریاض کا استعمال ہوا تھا۔

تصویر 1 لنک
Queen Elizabeth II is escorted by King Khalid of Saudi Arabia, far right, after her arrival at Riyadh Airport on Feb. 17, 1979. Second right is the Queen's husband the Duke of EdinburghQueen Elizabeth Visit Saudi Arabia 1979

تصویر2 لنک

The Queen arrives in Saudi Arabia in 1979

تصویر 3 لنک
Saudi Arabia, 1979 - arriving in Riyadh on Concorde and escorted by King Khaled

تصویر 4 لنک
The Queen diplomatically dressed in a long dress and turban style hat during an official tour In Saudi Arabia in 1979

تصویر 5 لنک
Queen Elizabeth ll is escorted by King Khalid during a royal visit to Saudi Arabia in February of 1979

----------


4 اپریل 1979ء کو ذوالفقار علی بھٹو کو راولپنڈی ڈسٹرکٹ جیل میں تختہ دار پر پہنچا کر ان کی زندگی کا چراغ گل کر دیا گیا۔
----------

مولانا مودودی علیہ الرحمۃ کا انتقال 22؍ ستمبر 1979ء کو امریکہ میں ہوا، مولانا مئی 1979ء کے اواخرمیں بغرض علاج امریکہ تشریف لے گئے، وہاں آپ کا آپریشن ہوا، اس کے بعد آپ کی حالت مزید نازک ہو گئی، چند دن کے بعد دل کا دورہ پڑا، اور اس کے کچھ گھنٹوں بعد آپ مالک حقیقی سے جاملے۔ اناللہ وانا الیہ راجعون۔
----------

4 نومبر 1979 کو تہران میں واقع امریکی سفارتخانے پر جو در حقیقت جاسوسی کا ایک بڑا اڈہ تھا، ایرانی طلباء نے قبضہ کر لیا جو 444 روز رہا، 52 امریکیوں کو یرغمال بنا لیا۔ ان کا مطالبہ تھا کہ شاہ کو ایران کے حوالے کیا جائے جو کہ امریکہ میں زیرِ علاج تھے۔ آیت اللہ خمینی نے امریکہ کے جاسوسی اڈے پر قبضے کو دوسرا انقلاب قراردیا۔
-----------

یکم محرم الحرام مطابق 20 نومبر 1979ء منگل کی صبح امام حرم شیخ عبد اللہ بن سبیل نے نماز فجر کا سلام پھیرا ہی تھا کہ چند آدمیوں نے امام صاحب کو گھیرے میں لے لیا ان میں سے کچھ لائوڈ سپیکر پر قابض ہو گئے اس وقت حرم شریف میں ایک لاکھ کے قریب نمازی موجود تھے۔ ان حملہ آوروں کا سرغنہ 27 سالہ محمد بن عبد اللہ قحطانی تھا جس نے چار سال تک مکہ یونیورسٹی میں اسلامی قانون کی تعلیم حاصل کی تھی۔ اس کا دست راست جہیمان بن سیف العتیبہ تھا۔ ان لوگوں نے بڑی باریک بینی سے پلاننگ کر کے جنازوں کا بہروپ بنا کر چارپائیوں کے ذریعے اسلحہ کی بڑی مقدار تہہ خانوں میں جمع کر لی تھی۔ جب تمام تیاریاں مکمل ہو گئیں تو اچانک حرم کے تمام دروازے بند کر کے ان پر اپنے مسلح افراد کھڑے کر دئیے۔ایک آدمی نے عربی میں اعلان کیا کہ مہدی موعود جس کا نام محمد بن عبدا للہ ہے آ چکا ہے۔ نام نہاد مہدی نے بھی مائیک پر اعلان کیا کہ میں نئی صدی کا مہدی ہوں میرے ہاتھ پر سب لوگ بیعت کرینگے۔ اس گمراہ ٹولے نے مقام ابراہیم کے پاس جا کر گولیوں اور سنگینوں کے سائے میں لوگوں کو دھمکاتے ہوئے بیعت شروع کروا دی۔ اللہ تعالیٰ نے ابابیل پاکستان سے بھیجے، پاکستان کے فوجی جرنل ضیاء الحق نے ابابیل بھیجنے کی پیشکش کی، ابابیل کے اس دستے کی کمان سابق فوجی سربراہ جنرل پرویز مشرف نے کی جو اس وقت پاکستانی گوریلا فوج میں میجر کی حثیت سے خدمات سر انجام دے رہے تھے۔ اور دنیا نے دیکھا کہ میجر پرویز مشرف نے ایسا کامیاب اپریشن کیا کہ دنیا اس دن سے پاکستان کی فوجی صلاحیتوں کو مان گئی تھی۔ بغیر کسی نقصان کے یہ اپریشن مکمل کیا اور بیت اللہ کو باغیوں سے آزاد کرایا۔ مرتدین کا مکمل صفایا کرنے کے بعد 7 دسمبر 1979ء کو دوبارہ حرم شریف کو عبادت کیلئے کھولا گیا۔
----------

ایسے میں سوویت یونین (روس) والے اپنی کرنی کر بیٹھے تھے۔ وہ کرسمس کے موقع پر افغانستان میں در آئے تھے۔ یہ دسمبر 1979 کی ایک اور اہم پیشرفت تھی۔ وہ جنگ 10 سال جاری رہی۔ سویت یونین کو 1989 میں افغان مزاحمت سے مجبور ہو کر واپس جانا پڑا۔ اس لڑائی میں ایک طرف تو افغان فوج کے نام پر روسی فوج لڑ رہی تھی تو دوسری طرف ساری دنیا کے مجاہدین روس کے خلاف بر سر پیکار تھے۔ امریکہ اور روس کے درمیان سرد جنگ کی وجہ سے امریکہ اس جنگ میں کھل کر نہیں کود سکتا تھا مگر امریکی سی آئی اے اور پاکستانی آئی ایس آئی نے کھل کر مجاہدین کی تربیت اور ہر طرح سے معاونت کی۔ اربوں ڈالر کا سرمایہ برطانیہ، امریکہ، سعودی عرب، پاکستان اور دوسرے ممالک نے روس کے خلاف مجاہدین کو دیا۔ پاکستان نے بھی اس جنگ میں حصہ لیا اور پاکستان نے ہزاروں مجاہدین روس کیخلاف لڑنے گئے۔
-----------

جھیمان کے نام پر ایک کتاب اردو ترجمہ کے ساتھ پبلش، تاثر ایسا کہ جیسے اسی نے لکھی ہو واللہ اعلم، یہ اسی کا کام ہے جو داعش کے نام پر کتابیں لکھ رہا ہے، اگر کسی مطالعہ کے لئے چاہئے ہو تو لنک ارسال کر دیا جائے گا۔
jahyman.png

والسلام
 
Last edited:
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
760
پوائنٹ
290
ایک منصفانہ تحریر
ہونا یہ چاہیئے کہ اس پر یہ نوٹ چسپاں کردیا جائے کہ "آپ یہاں جواب نہیں بهیج سکتے"
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,423
پوائنٹ
521
السلام علیکم

سمائل! ایسا نہیں ہوتا، رائے کا اختیار سب کو ہے، اس سے سامنے والے کی شخصیت کا بھی علم ہوتا ہے۔

والسلام
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
فروری 1979 ملکہ برطانیہ (Queen Elizabeth) نے عریبین گلف (کویت 12-14 فروری 1979، البحرین 14-17 فروری 1979، قطر 21-24 فروری 1979، ، دبئی ابوظہبئی الامارات 24-27 فروری 1979، سلطنت عمان 28 فروری 1979 سے 2 مارچ 1979) اور سعودی عرب 17-20 فروری 1979 کو ویزٹ کیا۔
نیچے سپوئلر میں لنکس دئے گئے ہیں ان پر کلک کریں اور تصاویر دیکھ سکتے ہیں، 1979 میں کنگ خالد، بعد کے کنگ شاہ عبداللہ مرحوم اور حالیہ کنگ شاہ سلمان بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔ ملکہ برطانیہ کا لباس بھی دیکھ سکتے ہیں اور ائرپورٹ الریاض کا استعمال ہوا تھا۔
سعودیہ میں آئی تھی ، لیکن عبداللہ ہندی صاحب نے تو اس کو حرمین میں داخل کرنے کا دعوی کیا تھا ؟
 

abuanas

مبتدی
شمولیت
ستمبر 15، 2016
پیغامات
4
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
2
السلام علیکم


شدت پسندی کا غیر اسلامی سفر، خوارج سے داعش تک
سید عاصم محمود
ہفتہ 20 دسمبر 2014

عالم اسلام کے ان گروہوں کا تاریخی قصّہ جنھوں نے بتدریج انتہا پسندی کو اپنا لیا۔


14 دسمبر کے ایکسپریس سنڈے میگزین میں آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل (ر) حمید گل کا ایک فکر انگیز اور معلومات سے بھر پور انٹرویو شائع ہوا۔ اس میں انہوں نے انکشاف کیا کہ داعش (اماراتِ شام و عراق) کی فکری بنیادیں ’’الاخوان‘‘ کے نظریات پر استوار ہیں اور یہ کہ تنظیم کا حقیقی ٹارگٹ سعودی عرب میں حکومت قائم کرنا ہے۔

الاخوان جدید عرب مملکت سعودیہ کے بانی، شاہ عبدالعزیز (1953-1876ء) کی بنائی ہوئی مذہبی فوج تھی جس نے سعودیہ کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا۔ لیکن یہ فوج پھر شدت پسندی کے باعث اعتدال کی راہ سے ہٹ گئی۔ الاخوان کے متعلق مزید جاننے سے قبل ذرا اسلام میں شدت پسندی کی تاریخ کا مختصر جائزہ لے لیجیے۔

اللہ تعالی قران پاک میں فرماتے ہیں:

’’ہم نے تم (مسلمانوں) کو امت ِمعتدل بنایا ہے تاکہ تم لوگوں پہ گواہ بنو اور پیغمبر ( ﷺ) تم پہ گواہ بنیں۔‘‘
(البقرہ۔ 143)

درج بالا آیت کریمہ کی تفسیر کرتے ہوئے مفسرین نے مسلمانوں کو ’’اُمتِ وسط‘‘ لکھا ہے… یعنی اعتدال کا راستہ اختیار کرنے والی اُمت! آیت کی تشریح کرتے ہوئے علامہ عبداللہ یوسف علی لکھتے ہیں: ’’اسلام کا جوہر یہ ہے کہ وہ افراط وتفریط کا قائل نہیں اور اعتدال کی راہ اپناتا ہے۔ وہ فہمیدہ و متین اور عملی مذہب ہے۔‘‘

اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ انسانی زندگی کا احاطہ کرنے والے تمام چار بڑے شعبوں… اخلاق، عقائد، عبادات اور شریعت (قوانین) میں اسلام ’’وسطا‘‘ کی تلقین کرتا ہے۔ جو مسلمان یہ معتدل راستہ اختیار نہ کرے، وہ نہ صرف صراط مسقتیم سے بھٹکتا بلکہ تباہ و برباد ہو کے رہتا ہے۔ یہ پیشن گوئی نبی کریمﷺ ہی نے فرما دی تھی۔ آپ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے:

’’دین (پہ عمل کرنا) آسان ہے۔ جس کسی نے بھی اسے پیچیدہ و سخت بنایا، وہ ہلاک ہو کر رہا۔ لہذا سیدھے رہو، اعتدال کی راہ پہ چلو اور (دوسروں کو) خیر کی باتیں بتاؤ۔‘‘
(البخاری)

تاریخ ِاسلام افشا کرتی ہے کہ جن مسلمانوں نے قران وسنّت کو جھٹلاتے ہوئے شدت پسندی اپنائی، وہ تباہ ہو کر رہے۔ ایسا پہلا گروہ خوارج کا تھا جس نے طویل عرصہ عالم اسلام میں قتل وغارت گری پھیلائے رکھی۔ اس کے بعد چھوٹے موٹے بھٹکے ہوئے گروہ آتے رہے یہاں تک کہ بیسویں صدی میں الاخوان سامنے آئے۔

آل سعود یا خاندانِ سعود کا مرکز ریاض تھا جس پر 1890ء میں مخالف قبیلے، آل رشید نے قبضہ کر لیا۔ چناںچہ شاہ عبدالعزیز المعروف ابن سعود والدین کے ہمراہ کویت چلے گئے۔ ابن سعود ایک دلیر اور زیرک انسان تھے۔
1901ء کے موسم بہار میں انہوں نے آل رشید سے ٹکر لینے کا فیصلہ کیا۔ ان کے ساتھ محض 200 سپاہی تھے۔

ابن سعود نے عرب علاقے، نجد پہنچ کر آل رشید کے حلیف قبائل پر حملے کیے تاہم انہیں زیادہ کامیابی نہیں ملی۔ موسم خزاں ہونے تک بیشتر سعودی سپاہی واپس کویت چلے گئے مگر ابن سعود نے ہمت نہ ہاری۔

15 جنوری 1902ء کو انہوں نے محض چالیس سپاہیوں کے ساتھ ریاض پر حملہ کیا اور اسے فتح کر لیا۔ رشیدی والی، عجلان اپنے قلعے کے سامنے مارا گیا۔ ریاض فتح ہوا، تو آل سعود کے سابقہ حلیف قبائل ابن سعود سے آملے۔ یوں ان کی قوت بڑھتی چلی گئی۔ حتیٰ کہ 1912ء تک نجد سمیت بیشتر وسطی عرب ان کے قبضے میں آگیا۔

نجد اور پڑوسی علاقے، الحصا میں میں ہزارہا عرب بدو مقیم تھے۔ ابن سعود عرب مصلح، محمد عبدالوہاب کے پیروکار تھے اور ان کا خیال تھا کہ یہ بدو اسلامی تعلیمات کے مطابق زندگی بسر نہیں کرتے۔ چناں چہ ابن سعود نے مختلف علاقوں میں ’’حجرہ‘‘ نامی بستیاں بسا دیں جن کی تعداد 1929ء تک ’’سوا سو‘‘ تک پہنچ گئی تھی۔

ان بستیوں میں ہزارہا بدو بسائے گئے۔ انہیں محمد عبدالوہاب کے نظریات پر مبنی اسلامی تعلیمات کے مطابق زندگی بسر کرنا سکھایا گیا۔ نیز بتایا گیا کہ کھیتی باڑی کیونکر کی جاتی ہے، نیز مختلف ہنر بھی سکھائے گئے۔ جب ان بستیوں میں کئی ہزار نوجوان بدو مذہبی تعلیم و تربیت پا چکے، تو ان پر مشتمل ایک خصوصی فوج ’’الاخوان‘‘ تشکیل دی گئی۔ یہ 1914ء کی بات ہے۔ الاخوان نے پھر عرب علاقوں کی فتوحات میں آل سعود کا بڑھ چڑھ کر ساتھ دیا۔ حتیٰ کہ 1925ء تک موجودہ سعودی مملکت میں شامل سبھی علاقے فتح ہو گئے۔ تاہم اسی دوران ابن سعود اور الاخوانی رہنماؤں کے مابین اختلافات نے بھی جنم لیا۔

الاخوان فوج تقریباً پچاس ہزار سپاہیوں پر مشتمل تھی۔ ہوا یہ کہ وہ اپنے نظریات کے سلسلے میں بہت کٹر ہو گئے۔ وہ ہر قسم کی اچھی بری تبدیلی کے خلاف تھے اور اسے بدعت سمجھتے۔ مثلاً اہل مغرب سے وابستہ ہر شے کا استعمال ان میں ممنوع تھا۔ چناں چہ وہ گاڑی میں نہ بیٹھتے اور اونٹوں پر سفر کرتے۔ صرف مسلمان ہنرمندوں کی بنائی ہوئی قدیم طرز کی بندوقیں استعمال کرتے۔ مزید برآں اپنے نظریات دوسروں پر نافذ کرتے ہوئے انہوں نے شدت پسندی اختیار کرلی۔ اگر مفتوحہ علاقے کے عرب مرد، خواتین، حتیٰ کہ بچے بھی ان کی تعلیمات پر عمل نہ کرتے، تو انہیں قتل کر دیا جاتا۔

الاخوانیوں کے مقابلے میں ابن سعود اور ان کے حامی علما زیادہ روادار تھے۔ وہ جو علاقہ فتح کرتے، وہاں کے معززین کو یقین دلاتے کہ مقامی طرز زندگی، روایات اور رسوم کو بدلا نہیں جائے گا۔ مگر طاقتور الاخوانی رہنما ان کی ایک نہ سنتے اور اپنی مرضی کرتے۔ یہ الاخوانی ہی ہیں جنہوں نے مکہ مکرمہ، مدینہ منورہ اور دیگر عرب مقامات میں واقع صحابہ کرام، اولیائے کرام وغیرہ کے مزار شہید کر ڈالے۔


ابن سعود اور الاخوانیوں کے مابین پہلا سنجیدہ اختلاف 1925ء میں پیدا ہوا۔ ابن سعود عرب میں حکومت تشکیل دے کر عراق، شام اور اردن پر حملہ نہیں کرنا چاہتے تھے جہاں یورپی طاقتیں ڈیرہ ڈالے بیٹھی تھیں۔ جبکہ الاخوانی رہنماؤں کا اصرار تھا کہ پڑوسی ممالک پر بھی دھاوا بولا جائے تاکہ وہ بھی سعودی سلطنت میں شامل ہو سکیں۔

جب ابن سعود نے الاخوانی رہنماؤں کی درخواست رد کی، تو 1927ء میں ان کے ایک گروہ نے بغاوت کر دی۔ ان الاخوانی رہنماؤں کا دعویٰ تھا کہ ابن سعود حقیقی نظریات پر عمل پیرا نہیں رہے، چنانچہ مرتد ہو چکے اور اب ان کا قتل جائز ہے۔
ان باغی رہنماؤں میں سلطان بن بجاد العتیبی (قبیلہ عتیبہ)، فصیل الدویش (مطیر)، ضیدان بن حثلین (عجمان)، ندا بن نھیر (شمر) اور مناحی بن حفیظ (الدواسر) شامل تھے۔

عتیبہ، مطیر اور عجمان بڑے عرب قبائل میں شمار ہوتے تھے لہٰذا ان کی بغاوت پورے نجد اور حجاز میں پھیل گئی۔ وہ پھر ابن سعود کے حلیف قبائل کو نشانہ بنانے لگے۔ ان کی فوج تیس ہزار سپاہ پر مشتمل تھی۔ آنے والے برسوں میں ابن سعود کی فوج اور الاخوانیوں میں کئی لڑائیاں ہوئیں۔ چونکہ الاخوانی کا بنیادی ہتھیار تلواریں اور نیزے تھے، لہٰذا وہ مشین گنوں اور توپوں کے سامنے نہ ٹھہر پاتے۔ اس کے باوجود مذہبی جوش انہیں معرکہ آرائی پر ابھارتا رہتا۔

بہرحال مقابلوں میں یکے بعد دیگرے الاخوانی رہنما مارے گئے یا گرفتار ہو کر قید ہوئے۔ چناںچہ بغاوت سرد پڑتی گئی۔ آخر 1930ء تک باغی الاخوانی قبائل دوبارہ ابن سعود کے مطیع ہو گئے۔ تاہم جن لوگوں کے باپ، بھائی اور بیٹے خانہ جنگی میں مارے گئے، ان میں نفرت اور بدلے کی آگ بھڑکتی رہی۔

یہ آگ 20 نومبر 1979ء کو دوبارہ بھڑکی جب جھیمان بن محمد کی قیادت میں چار سو افراد نے خانہ کعبہ پر قبضہ کرلیا۔ جھیمان کا تعلق قبیلہ عتیبہ سے تھا اور اس کے باپ دادا ابن سعود کی فوج سے لڑتے مارے گئے تھے۔ چنانچہ وہ بغاوت اور آل سعود کے (بظاہر) غیر شرعی اقدامات کی داستانیں سنتا نوجوان ہوا۔

جھیمان یہ دیکھ کر پیچ و تاب کھاتا کہ سعودیہ میں یورپی رسوم و رواج در آئے ہیں۔ خواتین کام کرنے لگیں۔ گھروں میں ٹی وی دیکھا جانے لگا۔ کرنسی نوٹ پر بادشاہ کی تصویر چھپنے لگی۔ کھلاڑی بازو و ٹانگیں برہنہ کر کے فٹ بال کھیلنے لگے۔ اس نے یہ بھی قرار دیا کہ علماء (محمد عبدالوہاب کے فکری وارث) حکمرانوں کے زرخرید غلام بن چکے۔ وہ دولت اور اعزاز و اکرام لے کر حکومتی احکامات درست قرار دیتے ہیں۔ چناںچہ چودہویں صدی ہجری کے پہلے دن اس نے ہم خیال ساتھیوں کے ساتھ خانہ کعبہ پر قبضہ کر لیا۔ اللہ کے گھر کو شدت پسندوں سے خالی کرانے کے مشن میں شنید ہے کہ پاکستانی کمانڈوز نے بھی حصہ لیا۔

جنرل (ر) حمید گل سمجھتے ہیں کہ خوارج اور الاخوانیوں کے انتہا پسندانہ مذہبی نظریات دور حاضر میں داعش سمیت وہ بعض گروہ اپنا چکے جو عالم اسلام میں اپنے ہی بھائی بندوں سے برسرپیکار ہیں۔ ان میں اعتدال، رواداری، صبر وبرداشت اور نرمی کی اعلیٰ صفات تقریباً عنقا ہیں۔انہی میں پاکستان کے طالبانی گروہ بھی شامل ہیں جنھوں نے حال ہی میں اسکول کے طلبہ کو بے رحمی سے نشانہ بنا کر اپنی انتہا پسندی کا ثبوت دیا۔

صفت ِاعتدال کے علاوہ رواداری بھی دین اسلام کی بہت بڑی خصوصیت ہے۔ زور زبردستی سے اپنے نظریات منوانا، کسی انسان کو مسلمان بنانا اور قیدیوں سے ظالمانہ سلوک کرنا اللہ تعالیٰ اور پیارے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حقیقی تعلیمات سے کُھلی روگردانی ہے۔ نبی کریم ﷺ نے جبر و طاقت نہیں نرمی و رواداری سے ہی عرب میں اسلام پھیلایا۔
اللہ تعالیٰ بھی سورہ سجدہ میں مسلمانوں پہ عیاں کرتے ہیں:

(مفہوم)’’ہم نے ہر قوم کے لیے ایک شریعت مقرر کر دی ہے جس پر وہ عمل کرتے ہیں۔ اے مسلمانو! تم انہیں اسلام کی طرف بلاؤ، مگر ان سے جھگڑا نہیں کرو۔ جن باتوں میں اختلاف ہے، خدا روز قیامت خود ان کا فیصلہ کرے گا۔ ‘‘
(آیت 67 تا 69)
لیکن دنیائے اسلام میں داعش اور ان جیسے بعض دوسرے بظاہر اسلامی گروہ غیر مسلموں حتیٰ کہ مسلمانوں کے خلاف جو بھیانک قتل و غارت کرنے میں مصروف ہیں، اسے دیکھ کر لگتا ہے کہ وہ نعوذ باللہ خدا تعالیٰ کے اختیار بھی اپنے ہاتھوں میں لے چکے۔ سوال یہ ہے، کیا یہ گروہ صحیح اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہیں؟ اور دیکھنا چاہیے کہ عالم اسلام میں ان کی وجہ سے جو فساد و افتراق پھیل چکا ، اس سے فائدہ کون اٹھا رہا ہے؟

ح
 

abuanas

مبتدی
شمولیت
ستمبر 15، 2016
پیغامات
4
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
2
اللہ تعالیٰ بھی سورہ سجدہ میں مسلمانوں پہ عیاں کرتے ہیں:

(مفہوم)’’ہم نے ہر قوم کے لیے ایک شریعت مقرر کر دی ہے جس پر وہ عمل کرتے ہیں۔ اے مسلمانو! تم انہیں اسلام کی طرف بلاؤ، مگر ان سے جھگڑا نہیں کرو۔ جن باتوں میں اختلاف ہے، خدا روز قیامت خود ان کا فیصلہ کرے گا۔ ‘‘
(آیت 67 تا 69)
 

abuanas

مبتدی
شمولیت
ستمبر 15، 2016
پیغامات
4
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
2

م کے لیے ایک شریعت مقرر کر دی ہے جس پر وہ عمل کرتے ہیں۔ اے مسلمانو! تم انہیں اسلام کی طرف بلاؤ، مگر ان سے جھگڑا نہیں کرو۔ جن باتوں میں اختلاف ہے، خدا روز قیامت خود ان کا فیصلہ کرے گا۔
‘‘
(آیت 67 تا 69)[/QUOTE]

؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
 

abuanas

مبتدی
شمولیت
ستمبر 15، 2016
پیغامات
4
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
2
برائے مہربانی آیت کا درست حوالی دیں
 
Top