• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

شرح اسماءِ حسنٰی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
فائدہ: (2) یہ اسم مبارک ذاتی ہے عربی اور دیگر زبانوں میں اسی طرح مستعمل ہے۔ تحریر ہو یا تقریر۔ اللہ کا مترادف لفظ کسی بھی زبان میں نہیں ہے۔ دوسری زبانوں میں جو بھی الفاظ استعمال ہوتے ہیں وہ سب معبود یعنی الٰہ کے معنی میں ہیں۔
مصباح اللغتہ ص15 میں ہے۔
الا لہ معبود جمع الھہ اللہ ذات واجب الوجود کا نام، اسی طرح فارسی زبان میں خدا کا لفظ ہے لیکن اس سے مراد بھی صفاتی نام ہے۔
غیاث اللغات ص174 میں ہے۔
"خدا بالضم بمعنی مالک و صاحب چوں لفظ خدا مطلق باشد بر غیر ذات باری تعالی اطلاق نہ کنند مگر در صورتیکہ بچیزے مضاف شود چونکہ خدا و دہ خدا و گفتہ اند کہ خدا بمعنے خو آیند است چہ مرکب ست از کلمہ خود و کلمہ آصیغہ امر ست از آمدن و ظاہر ست کہ امر بترکیب اسم معنی اسم فاعل پیدا میکند و چوں حق تعالی بظہور خود بدیگرے محتاج نیست لہذا باین صفت خواند نداز رشیدی د خیابان و خان آرز و درسراج اللغات نیز از علامہ دوانی و امام فخر الدین رازی ہمین نقل کردہ"
خدا (خ کی پیش کے ساتھ) یعنی مالک اور ساتھی اور اس اکیلے لفظ کا سوا اللہ کی ذات کے اور کسی کے لیے استعمال نہ ہو گا۔ مگر اور لفظ کے ساتھ مضاف کر کے اسے غیر اللہ کے لیے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔ مثلا۔ خدا یعنی گھر کا مالک ، عزت والایا خدا بمعنی رئیس و بزرگ (برہان قاطع ص241-243 ج2)۔ اور کہتے ہیں کہ خدا بمعنی خود آئندہ (خود آنے والا) یہ لفظ مرکب ہے دو کلمات کا "خود" اور "آ" سے "آ" امر کا صیغہ ہے لیکن دوسرے کلمے کے ملنے سے اسم فاعل کے معنے دیتا ہے۔ چونکہ اللہ تعالی نے اپنی قدرت کی نشانیاں بغیر کسی کی محتاجی کے ظاہر کی ہیں اسی لیے اسے "خدا" کہتے ہیں۔
علامہ محمد حسین البرھان کتاب برھان قاطع قاطع362ج1 میں لکھتے ہیں: "وباذال نکتہ دارہم خواندہ اند" یعنی لفظ خدا کو خذا ذال سے بھی پڑھا جاتا ہے۔ جیسے ہمارے یہاں بلوچ حذا کہتے ہیں۔ اس بحث سے یہ ثابت ہوا کہ یہ لفظ صفاتی ہے اور الٰہ کے مختلف معنوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ:۔مالک ساتھی، رفیق وغیرہ۔ اور یہ لفظ اسم اللہ کے مترادف یا ہم معنی نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فارسی میں لکھتے اور پڑھتے وقت اسم اللہ استعمال ہوتا ہے مگر یہ لفظ یعنی خدا پڑھتے اور لکھتے وقت الٰہ کے معنی میں استعمال ہوسکتا ہے۔
اسی طرح انگریزی زبان میں لفظ "گاڈ" God بھی الٰہ کے معنی میں استعمال ہوتا ہے یعنی معبود۔ مگر لفظ اللہ کا مترادف نہیں۔ المورد انگریزی عربی مصنف منیر البعلبکی ص393 میں ہے۔
(1) الٰہ ، رب، معبود (2) حاکم، قوی۔ (God)
God فیروز اللغات ص 1044 میں گاڈ بمعنی "GOD" لکھے ہیں۔
ثابت ہوا کہ انگریزی کا لفظ GOD بھی الٰہ کے معنی میں ہے، مگر اسم اللہ کا بدل یا مترادف نہیں ہے۔ علامہ مرمدک پکتھال قرآن کے انگریزی ترجمے کے شروع میں ص4 پر سورہ فاتحہ کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
Translator's note: I have retained the word ALLAH through out because there is no corresponding word in English. The word Allah (the stress is on the last syllable) has neither femenine nor plural and has never been applied to any thing other than the unimaginable supreme being. I have used the word "God" only where the corresponding word Ilah is found in the Arabic.
میں نے پورے ترجمے میں لفظ اللہ جوں کا توں رکھا ہے کیونکہ انگریزی زبان میں لفظ اللہ کا کوئی مترادف لفظ نہیں۔ لفظ اللہ کی نہ مونث ہے اور نہ ہی اس کی جمع ہے۔ یہ لفظ سوائے اس اعلی و برتر ہستی کے، جس کی ذات کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا کسی اور کے لیے کبھی استعمال نہیں ہو سکتا۔ میں نے اپنے ترجمے میں لفظ گاڈGOD صرف وہاں استعمال کیا ہے جہاں اس کا مترادف لفظ الٰہ عربی میں استعمال ہوا ہے۔
گذشتہ صفحات میں یہ بحث ہوچکی کہ لفظ اللہ کا کوئی اشتقاق نہیں، نہ اس کی مونث ہے نہ تثنیہ اور نہ ہی اس کی جمع ہے۔ جبکہ لفظ الٰہ کا اشتقاق بھی ہے اور اس کے لیے تثنیہ اور جمع کے الفاظ بھی ہیں۔
مترجم موصوف نے جہاں بھی لفظ اللہ آیا ہے وہاں انگریزی میں بھی وہی لفظ لکھا ہے۔ باقی لفظ الٰہ کے معنی گاڈ GOD لکھے ہیں ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
کچھ مثالیں پیش کی جاتی ہیں۔
misal.png

اس آیت میں دونوں نام ذکر کئے گئے ہیں۔ اسم مبارک اللہ کو اصل لفظ سے ادا کیا گیا ہے اور لفظ الٰہ کا ترجمہ گاڈGOD یعنی معبود کیا گیا ہے۔ اس لیے انگریزی میں لکھتے اور پڑھتے وقت لفظ اللہ کو بھی ALLAH ہی لکھا اور پڑھا جائیگا۔ مگر لفظ الٰہ کے معنی میں لفظ God استعمال کیا جاسکتا ہے۔ اسی طرح ہندی اور سنسکرت زبانوں میں بھی اسم اللہ کا کوئی مترادف نہیں۔ پرمیشور، پرماتما، ایشور اور بھگوان میں سے کوئی لفظ، لفظ اللہ کا متبادل نہیں۔
پرمیشور کے معنی سرتاج اللغہ ص 220 میں خدا اور پرماتما، اور فیروز اللغات ص 325 میں اعلٰی روح اور خدا لکھا ہے۔ ایشور کے معنی سرتاج اللغہ ص142 اور فیروزاللغات ص169 میں خدا لکھا ہے اور بگھوان کے معنی فیروزاللغات ص 266 میں خدا تحریر ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
سوامی دیانند ستھیارتھ پرکاش ص24 میں لکھتے ہیں، بھیج بمعنے خدمت و پرستش، جس کے اختیار میں تمام دولت و قدرت ہے اور جو پرستش کے قابل ہے، وہ ایشور بھگوان کے نام سے موسوم ہے۔ تمام الفاظ جن کے معنی اوپر لکھے گئے ہیں اگر ان کو تسلیم بھی کر لیا جائے تب بھی وہ لغایۃ (آخرکار) لفظ الٰہ کے مترادف ہوں گے۔ لیکن اگر لفظ بھگوان کا تجزیہ کیا جائے تو سنسکرت زبان میں اس کے معنی اور ہوتے ہیں۔ یہ لفظ دو الفاظ کا مرکب ہے۔ ایک "بھگ" جس کے معنی فیزوزاللغات ص 265 میں ہے۔ عورت کی اندام نہانی اور دوسرا لفظ "وان" جس کے بارے میں ص260 میں لکھا ہے کہ یہ ہندی کا لفظ ہے اور مذکر ہے اور معنی ہیں "والا" کسی اہم اسم کے ساتھ اس کے آخر میں استعمال ہوتا ہے۔ اس طرح بھگوان کے معنے ہوں گے "زنانہ مخصوص عضو والا"۔ اس کی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ ہندو "لنگ" یا دیویوں کی پوجا بھی کرتے ہیں جبکہ دیوی، دیوتا کی مونث ہے بمعنی کنواری، رانی، پاکباز اور نیک خاتون (سرتاج اللغات ص 417۔ فیروزاللغات ص680) اور دیوتا ہندی لفظ ہے۔ جس کے معنی خدا کا اوتار، بزرگ اور فرشتہ کے ہیں۔ (فیروز اور سرتاج صفحہ مذکورہ) الغرض سنسکرت میں بھی اسم ذاتی اللہ ہی لکھنا ہو گا۔ اور اوپر ذکر کئے گئے کسی بھی نام کو اللہ کے مترادف سمجھنا یا لفظ اللہ کی جگہ لکھنا اور پڑھنا غلط ہوگا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
عبرانی یا سریانی زبان میں لفظ "ایل " یا "ال" مستعمل ہے مگر اس میں بھی ربوبیت کے معنی ہیں، اس لیے وہ بھی الٰہ یا رب کا ترجمہ ہوگا۔ مگر اسم اللہ کا کوئی مترادف نہیں کیونکہ ال بمعنی الربوبیہ ہے۔ لسان العرب ص26ج11 میں ہے:
ترجمہ:
استاد فراء کا کہنا ہے کہ لفظ "ال" بمعنی قرابت (رشتہ داری) اور ذمہ داری اور عہد و اقرار کے لئے بھی ہے۔ اور کہا گیا ہے کہ "ال" اللہ کے ناموں میں سے ہے۔
حالانکہ یہ بات درست نہیں کیونکہ اللہ تعالی کے نام مشہور و معروف ہیں۔ جیسا کہ ان کا بیان قرآن وحدیث میں ہے۔ مگر کسی میں بھی یہ نام نہیں۔ اسی طرح دعا مانگنے والے یا اللہ یا رحمٰن یا رحیم وغیرہ۔ ناموں سے پکارتے ہیں، مگر کسی بھی دعا مانگنے والے سے کبھی یاال نہیں سنا۔ امام راغب "المفردات" ص19 میں فرماتے ہیں، ترجمہ: کہا گیا ہے کہ ال اور ایل اللہ کے نام ہیں مگر یہ بات درست نہیں۔
بہرحال یہ بات ثابت ہوئی کہ کسی بھی زبان میں اسم اللہ کے لیے کوئی بھی مترادف لفظ نہیں۔ جو بھی الفاظ ذکر کیے گئے ہیں ان سب کے اشتقاق ہیں اور ان کے مونث اور تثنیہ اور جمع کے صیغے بھی ہیں۔ مگر اسم اللہ کے لیے نہ مونث ہے نہ تثنیہ یا جمع اور نہ ہی اشتقاق، جیسا کہ اوپر ذکر ہوا۔ اس لیے ہر زبان میں لفظ اللہ اپنی اصلی حالت میں پڑھا جائیگا اور لکھا جائے گا۔ البتہ دیگر صفات کا ترجمہ دوسری زبانوں میں ہو سکتا ہے۔
(تنبیہ:- اس بحث سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ لفظ "اللہ" کا ترجمہ ممکن نہیں ہے اور جو لوگ اللہ کا ترجمہ خدا یا گاڈ God کے الفاظ کے ساتھ کرتے ہیں تو یہ ان کی بہت بڑی غلطی ہے۔ اسی طرح خدا یا گاڈ God, اللہ تعالی کے صفاتی ناموں میں سے بھی نہیں لہذا اللہ تعالی کو ان ناموں سے پکارنا بھی غلط ہے، کیونکہ اللہ تعالی کے ننانوے نام ہیں اور یہ نام ان میں شامل نہیں ہیں۔ قرآن کریم میں اللہ تعالی کو اسماء الحسنٰی ہی سے پکارنے کا حکم دیا گیا ہے لہذا باری تعالی کو "اللہ" کہہ کر یاد کیا جائے اور یا پھر کسی صفاتی نام سے پکارا جائے)۔"ابو جابر عبداللہ دامانوی"
فائدہ: (3) اسم شریف اللہ تمام اسماء الحسنٰی کےمعنی کو مستلزم ہے اور اجمالی طور پر ان سے پر دلالت کرتا ہے اور دیگر سب اسماء اس کی تشریح ہیں (مدارج السالکین لابن القیم ص32ج1)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
الرحمن الرحیم

بہت بڑا مہربان۔نہایت رحم والا
امام بخاری اپنی صحیح میں ص642ج2کتاب التفسیر کے آغاز میں فرماتے ہیں: الرحمن الرحیم اسمان من الحرحمۃ الرحیم والراحم بمعنی واحد کالعلیم والعالم۔ یہ دونوں نام رحمت (مصدر) سے مشتق ہیں۔ رحیم اور راحم (رحم کرنے والا) ہم معنی ہیں۔ جیسے علیم اور عالم بمعنی علم رکھنے والا یا جاننے والا۔
امام اللغہ اسماعیل الجوہری الصحاحص1939ج5 میں فرماتے ہیں:-
ترجمہ: دونوں صفات رحمت سے مشتق ہیں اور لغت میں ان کی نظیر موجود ہے جیسے ندیم اور ندمان یعنی نادم اور پشیمان اور دونوں ہم معنی ہیں۔ دو ناموں کا تکرار تاکید کی خاطر جائز ہے حالانکہ دونوں کا اشتقاق اگر مختلف بھی ہو جیسے فلان جاد مجد (بمعنی مجتھد اور محقق) فرق صرف یہ ہے یہ اسم الرحمٰن خاص اللہ کےلیے ہے۔ کسی اور کے لیے اس کا استعمال جائز نہیں، یہی سبب ہے کہ اللہ تعالی نے اسے اپنے نام کے ساتھ شامل کیا ہے۔ جیسے فرمایا:
قُلِ ادْعُوا اللَّـهَ أَوِ ادْعُوا الرَّحْمَـٰنَ (بنی اسرائیل)
اے نبی کہہ دیجئے کہ اللہ کو اللہ کے نام سے پکارو یا رحمٰن کے نام سے پکارو۔
یہاں اس نام (الرحمٰن) کو اپنے ذاتی نام کے برابر کیا ہے جس میں اور کوئی شریک نہیں۔ مسیلمہ کذاب کو اس کے پیروکار "رحمان الیمامہ" کہہ کر پکارتے تھے مگر محض اسلام سے مذاق اور استہزا کی خاطر۔
تفسیر اسماء اللہ الحسنٰی للزجاج ص29 اور لسان العرب ص230ج12 میں ہے:
ترجمہ:صفت الرحمٰن فعلان کے وزن پر ہے اور وہ ان صیغوں میں سے ہے جو مبالغہ کے معنی کے لیے استعمال ہوتے ہیں ورحمتی وسعت کل شیء یعنی زیادہ رحمت کیونکہ اس کی رحمت ہر چیز کو شامل ہے۔ (سورہ اعراف)۔ اور وہ تمام رحم کرنے والوں سے زیادہ رحم کرنے والا ہے۔ وھو ارحم الراحمین۔(سورہ یوسف) اس لیے اہل لغت نے اس مبارک نام کا ترجمہ کیا ہے کہ وہ ذات جس کی رحمت کی کوئی انتہا نہ ہو۔ صفت رحیم بروزن فعیل فاعل کے معنی میں ہے، مثلا: راحم یعنی رحم کرنے والا یا سمیع بمعنی سامع (سننےوالا) اور قدیر بمعنی قادر یعنی قدرت رکھنے والا۔
 

جوش

مشہور رکن
شمولیت
جون 17، 2014
پیغامات
621
ری ایکشن اسکور
319
پوائنٹ
127
محمد یونس صاحب ماشاءاللہ آپنے لفظ جلالہ اور لفظ الہ کے بارے میں اچھی بحث کی ہے لیکن ایک بات ہمیشہ ذہن میں رہے کہ ۔علم۔ علم ہوتا ہے زبان کے بدلنے سے علم نہیں بدلتا،اور نہ ہی اس کا کوئی بدل ہوتا ہے اپکا نام ۔محمد یونس۔ہے دنیا کی کوئی زبان آپ استعمال کریں اسمیں آپ اہنا نام ۔محمد یونس۔ ہی لکھیں گے ورنہ آپکی پہچان ختم ہوجائیگی اسی طرح لفظ ۔اللہ۔ اللہ کا ذاتی نام ہے جو زبان کے بدلنے سے نہیں بدلے گا باقی نام صفاتی ہیں انکا دوسری زبان میں ترجمہ ہوگا ، اسی طرح لفظ ۔خدا۔ واضع نے علم ذاتی کیلئے وضع کیا ہے اسی وجہ سے کسی نے اس لفظ کو غیر اللہ کےلئے نہیں استعمال کیا ہے ہاں عیسائی لوگ غالبا ۔خداوند ۔ استعمال کرتے ہیں۔ اس لئے اس لفظ کو ۔الہ۔ کے معنی میں لینا غلط ہے ،واللہ اعلم بالصواب
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
ناظرین! الرحمۃ کا معنی لغت میں یوں ہے: الرقۃ والمغفرۃ والتعطف (القاموس)۔ دل کا نرم ہونا، معاف کرنا اور رحم کرنا۔ رقت کا تقاضا ہے کہ احسان اور نیکی کرنا۔ اس سے نرم دلی اور کبھی احسان کرنا بھی مراد لیا جاتا ہے اور اللہ کی رحمت اس کا بخشنا اور معاف کرنا تو اس کی صفت خاصہ ہے۔رحم کرنا بھی اس کی شان ہے۔
راقم الحروف کا کہنا ہے کہ اہل سنت اھل حدیث یعنی سلف صالحین کا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالی اپنی ذات و صفات میں، بے مثال ہے۔ رحمت لفظ کے معانی تو معلوم ہیں لیکن کیفیت کے ادراک سے مخلوق عاجز ہے۔
لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ ۖ وَهُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ ﴿١١۔شوریٰ
اس جیسی کوئی چیز نہیں۔ اور وہ سننے والا، دیکھنے والا ہے۔
اس طرح وہ رحمان و رحیم تو ضرور ہے لیکن اس کی رحمت کی وسعت کا کسی کو اندازہ نہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
فصل:- بعض لوگوں کا خیال ہے کہ لفظ رحمٰن کا کوئی اشتقاق نہیں کیونکہ وہ خاص اللہ کا نام ہے اور اگر وہ رحمت سے مشتق ہوتا تو کافر انکار نہ کرتے۔ قرآن میں ہے:
وَإِذَا قِيلَ لَهُمُ اسْجُدُوا لِلرَّحْمَـٰنِ قَالُوا وَمَا الرَّحْمَـٰنُ ﴿٦٠۔ الفرقان
اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ رحمان کو سجدہ کرو تو کہتے ہیں کہ رحمٰن کیا ہے؟
لیکن یہ صحیح نہیں۔ بلا شبہ یہ اللہ کا خاص نام ہے لیکن اشتقاق سے مانع نہیں اور کافروں کا انکار محض کفر اور عناد کی بناء پر ہے۔ اللہ تعالٰی خود فرماتے ہیں:
وَهُمْ يَكْفُرُونَ بِالرَّحْمَـٰنِ۔۔﴿٣٠۔ الرعد
وہ رحمن کا انکار کرتے ہیں
جمہور کا مسلک یہ ہے کہ یہ الرحمۃ سے مشتق ہے اور مبنی علی المبالغہ ہے، یعنی جس کی رحمت کی کوئی مثال نہیں۔ اس لیے اس نام کے لیے رحیم کی طرح نہ جمع ہے نہ تثنیہ۔
اشتقاق کے لیے یہ بھی دلیل ہے کہ سنن ترمذی میں (ص13ج2) عبداللہ بن عوف رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے میں نے سنا:
ترجمہ: اللہ تعالی کا فرمان ہے میں اللہ ہوں اور میں رحمٰن ہوں اور رحم کو میں نے پیدا کیا ہے اور اس کا نام (رحم) اپنے نام (رحمان) سے چیر کر نکالا ہے۔ پس جس نے اسے (رحم) کو ملایا تو میں بھی اسے ملاؤں گا اور جس نے اسے قطع کیا تو میں بھی اسے قطع کروں گا۔
امام ترمذی نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے اور فرماتے ہیں کہ اس باب میں ابو سعید خدری، عبداللہ بن ابی اوفیٰ، عامر بن ربیعہ، ابور ھریرہ اور جبیر بن معطم رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث منقول ہیں۔ یہ حدیث اشتقاق کے بارے میں نص صریح ہے۔ اس لیے انکار یا مخالفت کی کوئی گنجائش نہیں۔(القرطبی ص 103-104ج1)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
فصل:- دونوں اسم مبارک ہم معنی ہیں اور اللہ کے فضل و رحم پر دلالت کرتے ہیں مگر ہر ایک میں معنی کے لحاظ سے کوئی نہ کوئی خوبی ہے۔ اسی لیے دونوں نام یہاں ایک ساتھ آئے ہیں۔
امام ابو اسحٰق الزجان شرح اسماء اللہ الحسنٰی ص 58 میں فرماتے ہیں:
ترجمہ: بعض مفسرین کا قول ہے کہ رحمٰن وہ ہے جو کہ پوری مخلوق پر رحم کرتا ہے، جس نے ان سب کو پیدا کیا اور ان کے لیے روزی کو کشادہ کیا اور رحیم وہ ہے جس کی رحمت خاص اپنے مومن بندوں کے لیے ہے جس نے ان کو ایمان کا راستہ دکھایا اور آخرت میں ان کو دائمی ثواب اور اجر عطا فرمائے گا جو ختم نہ ہونے والا ہے۔
مستدرک حاکم (ص515ج1) میں ایک دعا مذکور ہے جس کے الفاظ ہیں:
رحمٰن الدنیا والاخرۃ ورحیمھما۔ اے دنیا و آخرت میں رحمٰن ورحیم۔ باوجود ایک لفظ سے مشتق ہونے کے، دونوں کو یہاں الگ الگ ذکر کرنے میں حکمت یہ ہے کہ رحمٰن بروزن فعلان میں مبالغہ کا معنی ہے مثلا فلان غضبان (فلاں غضبناک ہے) واناء ملیان (برتن بھرا ہوا ہے)۔ اس صورت میں کہتے ہیں جب آدمی غصے سے اور برتن پانی سے بھرا ہوا ہو۔ ان دونوں ناموں کا ملاپ انتہائی خوبی کا باعث ہے۔ دوسرا سبب یہ ہے کہ تکرار سے تاکید کے معنی نکلتے ہیں۔ امام بیہقی کتاب الاسماء والصفات ص49-50 میں تحریر کرتے ہیں کہ:
ترجمہ: امام ابو عبداللہ الحلیمی الجرجانی فرماتے ہیں:- رحمان وہ ہے جو تمام اسباب کو ظاہر کرے مثلا انسان اور جنوں کو اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا اور ان کو حکم بھی دیا اور سی سبب(عبادت) کو پوری طرح واضح کیا۔ عبادت کے طریقے، حدود اور شرائط بتلائے اور ان کے لیے جوارح اور قوتیں پیدا کیں، مقامات، اور علامات مقرر کیں اور ان کو مخاطب کر کے عبادت کا وزن ان پر ڈالا۔ (قبول کرنے کی صورت میں) خوشخبری دی اور (نہ قبول کرنے کی صورت میں) ڈرایا۔ اور سوچنے سمجھنے کے لیے مہلت دی۔ اس طرح ان کی پیدائش کے سبب (عبادت) کی خوبی ظاہر ہوئی۔ نافرمان اور گناہ گاروں کے لیے اتمام حجت ہوگئی۔
رحیم وہ ہے جو ہر عامل کو اس کے عمل پر پورا اجر دے اور کسی کا عمل ضائع نہ کرے اور نہ اسکی کوششوں کو ختم کرے بلکہ اپنی رحمت سے دوگنے درجات دے۔
امام خطابی سےنقل کرتے ہیں:-
ترجمہ:رحمان وہ ہے جس کی رحمت تمام مخلوقات پر محیط ہے جس میں مومن، کافر ، صالح وغیر صالح سب شامل ہیں۔ جو سب کو رزق مہیا کرے اور ان کے لیے معاش و ضروریات کا اہتمام کرے اور رحیم کی صفت صرف مومنین کے لیے ہے جیسے قرآن میں ہے (ترجمہ) وہ مومنوں کے لیے مہربان ہے۔ الاحزاب
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
امام غزالی المقصد الاسنٰی ص 35 میں لکھتے ہیں:
ترجمہ: دونوں اسماء میں فرق یہ ہے کہ الرحمٰن اپنے بندوں پر ہر طرح سے مہربان ہے مثلا
اولا: انہیں وجود بخشا۔ ثانیا: انہیں ایمان کی طرف ہدایت کی اور نیک بختی اور سعادت حاصل کرنے کے اسباب سے مطلع کیا۔ ثالثا: آخرت میں انہیں سعادت عطا فرمائے گا۔ رابعا: اپنے بندوں کو اپنی زیارت کا شرف عطا فرمائے گا۔
تفسیر قرطبی میں ص105ج1 میں ہے:
ترجمہ: علامہ عزرمی کا کہنا ہے "رحمٰن" وہ ہے کہ جس کے لطف و کرم سے سب خواہ دوست ہوں یا دشمن برابر مستفید ہوں۔ مثلا بارش اور انسانی حواس (بصارت، سماعت وغیرہ) اور اسی طرح دوسری عام نعمتیں۔ رحیم وہ ہے جو مومنوں کے لیے خصوصی طور پر مہربان ہے۔ مثلا انہیں ہدایت کرنا اور ان پر خصوصی نوازش کرنا۔ عبداللہ مبارک کہتے ہیں کہ رحمان وہ ہے کہ جب بھی اس سے مانگا جائے تو بخش دے اور رحیم وہ ہے کہ جب اس سے سوال نہ کیا جائے تو وہ ناراض ہوجائے۔
لسان العرب ص230 ج12 میں ہے:
ترجمہ: ابو علی فارسی فرماتے ہیں: اگرچہ اسم الرحمان میں استغراق کے معنی ہیں یعنی رحمت عام ہے تاہم اپنی خاص رحمت کا ذکر کرنے کے لیے صفت رحیم کا ذکر فرمایا۔ قرآن میں ہے اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ ۔ اپنے پروردگار کے نام سے پرھ جس نے عالم کو پیدا کیا۔
یہاں لفظ "خلق" میں عام پیدائش کا ذکر ہے جس میں انسان اور دیگر مخلوق شامل ہے، تاہم اس کے بعد انسان کی تخصیص کی۔ فرمایا خَلَقَ الْإِنسَانَ مِنْ عَلَقٍ ۔ یعنی انسان کو خون کے لوتھڑے سے پیدا کیا۔ اس لیے کہ انسان کی پیدائش میں اللہ تعالی کی حکمت و قدرت اور صناعی کی کافی نشانیاں ہیں اس قسم کی دیگر مثالیں بھی ہیں۔
حافظ ابن قیم (بدائع الفوائد ص24ج1) میں فرماتے ہیں:
ترجمہ: اسم رحمٰن اس طرف رہنمائی کرتا ہے کی رحمت اللہ تعالی کی صفت ہے جو اس کی ذات سے قائم ہے اور اسم رحیم اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اس کی رحمت کا تعلق مرحوم سے ہے یعنی جس پر رحمت کرے۔ اس وجہ سے پہلے نام میں اس کی صفت ذاتی ہے یعنی وہ خود مہربان ہے اور موخرالذکر میں صفت بطور فعل ہے یعنی عملا اپنی مخلوق کے لیے رحم کرنے والا ہے۔
ان عبارات سے یہ بات واضح ہوئی کہ دونوں اسم رحمت سے مشتق ہیں اور دونوں میں مبالغہ کے معنی ہیں، مگر دونوں میں الگ الگ خوصیات ہیں اور ان دونوں کا جمع ہونا انتہائی موزوں اور جامعیت کے لحاظ سے مناسب ہے۔الرحمٰن کو الرحیم سے مقدم کرنے میں بھی یہی حکمت ہے۔ عام کے بعد خاص کو ذکر کیا گیا تا کہ یہ بات واضح ہو کہ اللہ تعالی مہربان تو سب کے لیے ہیں لیکن خصوصی مہربانی صرف مومنین کے لیے ہے۔ اس لیے اس میں ایمان کی ترغیب ہے۔
 
Top