• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

شرح اسماءِ حسنٰی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
الْخَالِقُ (اندازہ کرنے والا)

کیونکہ اصل خلق بمعنی تقدیر کے ہیں: مثلا خلقت الشئ خلقا اذا قدرتہ ۔ قرآن کریم میں ہے۔ وَتَخْلُقُونَ إِفْكًا ۚ ۔۔ ﴿١٧۔ العنکبوت ، اور تم جھوٹا اندازہ کرتے ہو۔ یعنی اللہ تعالی خلق کا مقدر ( اندازہ مقرر کرنے والا) پیدا کرنے والا، ابھارنے اور مکمل کرنے والا اور اس کی تدبیر کرنے والا ہے۔ فَتَبَارَكَ اللَّـهُ أَحْسَنُ الْخَالِقِينَ ﴿١٤۔ المومنون، اللہ کی ذات بابرکت سب سے بہتر بنانے والی ہے۔ زجاج نے بھی اسی طرح کہا ہے۔
--------------------------------------------------------------
مزید شرح منجانب: محترم اسحاق سلفی حفظہ اللہ
(1)پہلے سے موجود مثال کے بغیر کسی شئی کو ایجاد کرنے والا۔ عدم سے وجود میں لانے والا ۔(ايجاد الشيء وإبداعه على غير مثال سابق، )
علامہ راغب کہتے ہیں :إبداع الشّيء من غير أصل ولا احتذاء،
(2)ایک شیئ سے دوسری شیئے پیدا کرنے والا ۔جیسے : تم سب کو ایک جان سے پیدا کیا ( خَلَقَكُمْ مِنْ نَفْسٍ واحِدَةٍ [النساء/ 1] ، خَلَقَ الْإِنْسانَ مِنْ نُطْفَةٍ [النحل/ 4]انسان کو مادہ تولید سے پیدا کیا (الراغب )
(۳) (کسی چیز کو بنانے کیلئے )اندازہ لگانا ، الصحاح جوہری میں ہے :
[خلق] الخَلْقُ: التقديرُ. يقال: خَلَقْتُ الأديمَ، إذا قَدَّرْتَهُ قبل القطع.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور جس چیز کا حقیقت میں وجود ہی نہ لیکن انسان اس کا جھوٹا وجود گھڑلے اس کو قرآن نے ’’ خلق ‘‘
کہا ہے :
{وَتَخْلُقُونَ إِفْكاً} العنكبوت، یعنی تم جھوٹ گھڑتے ہو ۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
 
Last edited:

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
الْبَارِئُ (پیدا کرنے والا)

اس حیثیت سے کہ وہ موجد ہے (الغزالی)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
الْمُصَوِّرُ (صورت عطا کرنے والا)

یعنی خوبصورت ترتیب دیکر بنانے والا (الغزالی) اور ہر صورت کو بغیر کسی نقل یا مثال کے بنانے والا۔ (الزجاج)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
الْغَفَّارُ (ڈھانپنے والا)

دنیا میں گناہوں اور برائیوں کو عمدہ طریقے سے ڈھانپنے والا اور آخرت میں عذاب کے بجائے درگزر کرنے والا۔ (الغزالی) یہ اسم مبارک فعال کے وزن پر مبالغہ کا صیغہ ہے(بیھقی) جس کے معنی ہیں بار بار بڑے بڑے گناہ بخشنے اور ڈھانپنے والا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
الْقَهَّارُ (زبردست)

وہ زبردست ہے۔ سرکش اور دشمن پر قوت اور غلبہ سے، مخالفین پر آیات اور دلائل سے اور عام مخلوق پر موت کے ذریعہ۔ ہر موجود چیز اس کی قدرت کے آگے عاجز ہے اور اس کے قبضہ میں ہے۔ (الزجاج و الغزالی)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
الْوَهَّابُ (بہت زیادہ دینے والا)

بغیر کسی معاوضہ یا غرض کے (الزجاج)۔ بغیر مانگے عطا کرنے والا۔
علامہ قاضی محمد سلیمان منصور پوری شرح اسماء الحسنیٰ میں ص69 پر تحریر فرماتے ہیں:
"وہاب وہ ہے کہ عطاہائے صوری و معنوی اور عطیات دنیوی و اخروی کا مالک وہی ہے۔ یہی اسم ہے جو بتلاتا ہے کہ بندہ کے پاس اس کے گھر کی کوئی شے نہیں اور جو کچھ ہے وہ سب داد الٰہی اور جودنامتناہی کا نتیجہ ہے۔"
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
الرَّزَّاقُ (رزق دینے والا)

ہر جاندار کے لیے رزق پیدا کرے اور رزق کو حاصل کرنے کے اسباب مہیا کرے اور ان تک پہنچائے۔ رزق دو قسم کا ہے۔ ایک ظاہری یعنی قوت (غذا) اور طعام جو جسم کے کام آئے۔ اور دوسرا باطنی جو ایمان کے لیے قلب کی روشنی اور دین کے لیے رہنمائی بنے۔ ظاہر رزق کا فائدہ جسم کے لیے اور باطنی رزق ابدی زندگی یعنی آخرت کے لیے ہے۔ دونوں اقسام کا وہی مالک ہے اور وہی اپنی مہربانی سے اسے اپنے بندوں تک اسے پہنچاتا ہے۔ مگر جس کے لیے چاہے اپنی مرضی کے مطابق ہر دو رزق کشادہ فرما دے یا تنگ کردے۔ (الغزالی) اور بقول زجاج رزق کے اصل معنی ہیں کسی کو بھی کسی چیز سے نفع حاصل کرنے کی اچھی طرح اجازت دی جائے۔ قرآن میں ہے۔
وَمَن رَّزَقْنَاهُ مِنَّا رِزْقًا حَسَنًا فَهُوَ يُنفِقُ مِنْهُ سِرًّا وَجَهْرًا ۖ۔۔﴿٧٥۔ النحل
اور جس کو ہم نے اپنی طرف سے اچھی روزی دی، سو وہ اس میں سے خرچ کرتا ہے پوشیدہ اور ظاہر۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
الْفَتَّاحُ (کھولنے والا)

یعنی حق اور باطل کے درمیان۔ اس طرح کہ حق کو ظاہر اور باطل کو گم کر دے۔
(الزجاج) اور اپنی مہربانی سے بند چیز کو کھول دے اور رہمنائی و نشاندہی سے مشکل کو حل کر دے۔ انبیاء علیہم السلام کو فتح عطا فرمائے۔ فرمایا:
إِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُّبِينًا ﴿١۔ الفتح
(اے نبی) ہم نے آپ کو ظاہر فتح دی۔
اپنے خاص بندوں کے دلوں سے پردہ ہٹائے۔ غیب اور رزق کی چابیاں اس کے ہاتھ میں ہیں (الغزالی)۔ علامہ قاضی محمد سیلمان منصور پوری ص71 پر لکھتے ہیں:
"فتاح وہی ہے جو مشکلات، مہمات(کی گرہوں) کو کھول دیتا ہے۔ فتاح وہی ہے جو دل کو حق کے لیے کھول دیتا ہے۔ فتاح وہی ہے جو زبان پر علوم کو جاری فرما دیتا ہے۔ فتاح وہی ہے جو اہل حق اور باطل کے درمیان فیصلہ فرماتا ہے۔ فتاح وہی ہے جو صادقین سے صدق کو ظاہر کرتا ہے۔ کاذبین کی اصلیت سب پر کھول دیتا ہے۔ اہل ایمان کو اس کی ذات مقدس سے کشائش ظاہری و باطنی کی اُمید رکھنی چاہئیے۔"
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
الْعَلِيمُ (جاننے والا)

اس کے علم کا کمال یہ ہے کہ ہر شیے پر اس کا علم محیط ہے۔ ظاہر ہو یا پوشیدہ، چھوٹی ہو یا بڑی، اول ہو یا آخر۔ الغرض اسکا علم اتنا کامل ہے کہ کسی اور علم والے کے لیے تصور بھی ممکن نہیں۔ (الغزالی) فعیل کے وزن پر مبالغہ کا صیغہ ہے یعنی بہت زیادہ اور ہربات جاننے والا۔ (بیھقی)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
الْقَابِضُ۔۔الْبَاسِطُ

(تنگی کرنے والا۔۔کشادگی کرنے والا)​

ادب کا تقاضہ ہے کہ ان دونوں کا ذکر ایک ساتھ کیا جائے، کیونکہ اللہ تعالی کی پوری قدرت دونوں ناموں کو ایک ساتھ ذکر کرنے کے بعد ہی ظاہر ہوتی ہے۔ مثلا الي فلان قبض امري وبسطه یعنی میری تنگی اور کشادگی فلاں آدمی کے ہاتھ میں ہے۔ اس پورے جملے سے کہنے والے کا یہ مقصد ظاہر ہوتا ہے کہ میرے سارے کام اس کے حوالے ہیں۔ اس طرح دونوں صفات کو جمع کرنے سے مقصد ہوگا کہ مخلوق کے سارے کام اللہ تعالی کے زیر قدرت ہیں (الزجاج)۔ یعنی وہ اللہ جو موت کے وقت روحوں کو قبض کرتا ہے اور زندہ کرتے وقت ارواح کو اجسام کے لیے کھولتا ہے۔ دنیا والوں سے صدقات قبول کرتا ہے اور فقراء و مساکین کا رزق کشادہ کرتا ہے۔ کبھی تو دنیا والوں کا رزق اتنا کشادہ کرتا ہے کہ بھوک کا نام بھی نہ رہے اور کبھی فقر کے لیے اتنی تنگی کرتا ہے کہ اس میں کوئی طاقت نہ رہے۔ وہی اللہ ہے جو اپنے بندوں کو قبضہ میں لے کر اتنی تنگی کرے کہ وہ اس سے غافل نہ ہوں اور اپنی مہربانی سے اسطرح کشادگی کہ اس کی طرف تقرب حاصل کریں۔ (الغزالی)
 
Top