• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

شرط کے ذریعے تخصیص: اصول الفقہ

ناصر رانا

رکن مکتبہ محدث
شمولیت
مئی 09، 2011
پیغامات
1,171
ری ایکشن اسکور
5,451
پوائنٹ
306
شرط کے ذریعے تخصیص:

تعریف: یہاں پر شرط سے لغوی شرط مراد ہے۔اور لغوی شرط کہتےہیں ”ایک چیز کو دوسری چیز کے ساتھ لٹکا دینا، معلق کردینا“

کلمات شرط بہت سارے ہیں، ’إِنْ‘ اور ’إِذَا‘ انہی میں سے ہیں۔ مثال کے طور پر: «إن نجح زيد فأعطه جائزة» اگر زید کامیاب ہوا تو میں اسے انعام دوں گا۔

گزشتہ مثال میں شرط کے ذریعے تخصیص کرنے کی صورت یہ ہےکہ اس شرط کے ذریعے زید کے مختلف حالات میں سے ناکامی والی حالت کو نکال دیا گیا ہے۔ کیونکہ اگر شرط نہ ہوتی تو زید کو ہر حال میں انعام دینا ضروری ہوجاتا۔

اللہ رب العالمین کا فرمان گرامی ہے: ﴿ وَإذَا ضَرَبْتُمْ فِي الأَرْضِ فَلَيسَ عَلَيكُمْ جُنَاحٌ أَن تَقْصُرُوا مِنَ الصَّلاةِ ﴾ [النساء:101] اور جب تم زمین پر چلو (یعنی سفر کرو)تو نماز قصر کرنے میں تم پر کوئی حرج (گناہ) نہیں۔

تو یہاں پر نماز قصر کرنے کو سفر کرنے کی شرط کے پورا ہونے پر معلق رکھا گیا ہے۔ تو اگر یہ شرط نہ ہوتی تو سفر ہو یا حضر ہر حال میں قصر کرنا جائز ہوتا۔ لیکن اس (نماز قصر کرنے)کو حالت سفر کے ساتھ خاص کیا گیا ہے۔

شرط کے ذریعے تخصیص کرنے کےلیے شرط کا مشروط سے ملا ہونا شرط ہے جیسا کہ استثناء میں بھی یہ شرط ہے۔


ترجمہ کتاب تسہیل الوصول از محمد رفیق طاہر
 
شمولیت
فروری 29، 2012
پیغامات
231
ری ایکشن اسکور
596
پوائنٹ
86
شرط کے ذریعے تخصیص:

تعریف: یہاں پر شرط سے لغوی شرط مراد ہے۔اور لغوی شرط کہتےہیں ”ایک چیز کو دوسری چیز کے ساتھ لٹکا دینا، معلق کردینا“

کلمات شرط بہت سارے ہیں، ’إِنْ‘ اور ’إِذَا‘ انہی میں سے ہیں۔ مثال کے طور پر: «إن نجح زيد فأعطه جائزة» اگر زید کامیاب ہوا تو میں اسے انعام دوں گا۔

گزشتہ مثال میں شرط کے ذریعے تخصیص کرنے کی صورت یہ ہےکہ اس شرط کے ذریعے زید کے مختلف حالات میں سے ناکامی والی حالت کو نکال دیا گیا ہے۔ کیونکہ اگر شرط نہ ہوتی تو زید کو ہر حال میں انعام دینا ضروری ہوجاتا۔

اللہ رب العالمین کا فرمان گرامی ہے: ﴿ وَإذَا ضَرَبْتُمْ فِي الأَرْضِ فَلَيسَ عَلَيكُمْ جُنَاحٌ أَن تَقْصُرُوا مِنَ الصَّلاةِ ﴾ [النساء:101] اور جب تم زمین پر چلو (یعنی سفر کرو)تو نماز قصر کرنے میں تم پر کوئی حرج (گناہ) نہیں۔

تو یہاں پر نماز قصر کرنے کو سفر کرنے کی شرط کے پورا ہونے پر معلق رکھا گیا ہے۔ تو اگر یہ شرط نہ ہوتی تو سفر ہو یا حضر ہر حال میں قصر کرنا جائز ہوتا۔ لیکن اس (نماز قصر کرنے)کو حالت سفر کے ساتھ خاص کیا گیا ہے۔

شرط کے ذریعے تخصیص کرنے کےلیے شرط کا مشروط سے ملا ہونا شرط ہے جیسا کہ استثناء میں بھی یہ شرط ہے۔


ترجمہ کتاب تسہیل الوصول از محمد رفیق طاہر
ناصر بھایئ اسی اصول کہ تحت اگر آیت کے اگلے حصہ پر غور کیا جائے تو ایک شرط اور ملتی ھے :

وَإِذَا ضَرَبۡتُمۡ فِى ٱلۡأَرۡضِ فَلَيۡسَ عَلَيۡكُمۡ جُنَاحٌ أَن تَقۡصُرُواْ مِنَ ٱلصَّلَوٰةِ إِنۡ خِفۡتُمۡ أَن يَفۡتِنَكُمُ ٱلَّذِينَ كَفَرُوٓاْ‌ۚ

" نماز کو کم کرکے پڑھو بشرطیکہ تم کو خوف ہو کہ کافر لوگ تم کو ایذا دیں گے"

اب اس شرط کو کس اصول کے تحت حزف کیا گیا ھے ؟؟

(نوٹ: یہ اعتراض ایک اہل قرآن (منکر حدیث) کی طرف سے وارد کیا گیا ھے، حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے تو اس حکم کی تخصیص ھوتی ھے، اس لئے جواب اصولی چاہیے وہ بھی قرآن ہا لغت کے اعتبار سے)
 
Top