• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

شرعی اصطلاحات کا مفہوم تبدیل کیا جارہا ہے

شمولیت
دسمبر 10، 2011
پیغامات
12
ری ایکشن اسکور
52
پوائنٹ
23
قرآن حکیم میں اہل کتاب کی کارستانیاں تفصیل سے ذکر کی گئی ہیں۔ان میں سے ایک نارواجسارت ان کی یہ بھی تھی کہ کتاب اپنے ہاتھ سے لکھتے ہیں اور دعوی کرتے ہیں کہ یہ اللہ کی جانب سے ہے۔اللہ کی نازل کردہ شریعت میں تحریف کرنا اور اس میں اپنی خواہشات داخل کرنا انسان کا بڑا محبوب مشغلہ رہا ہے۔آج بھی اس کی طبیعت جب کبھی انگڑائی لیتی ہے تو اس تاریخی جرم کا ارتکاب کرگزرتا ہے اور خوش ہوتا ہے کہ جنت تو اپنے دادا کی میراث ہے ہی، رندی سے شغل فرمالینے میں حرج ہی کیا ہے۔لیکن وہ یہ بھول جاتا ہے کہ امت محمدیہ کے بارے میں رحمت عالم ﷺ کی پیش گوئی یہ ہے کہ وہ ضلالت پر مجتمع نہیں ہوگی۔حق کا چراغ روشن ہی رہے گا خواہ وہ دنیا کے کسی گوشے ہی میں کیوں نہ ہو۔
شریعت کی ایک خاص اصطلاح منافق ہے۔اس کا اطلاق اس انسان پر ہوتا ہے جو زبان سے کلمہ پڑھتا ہو،مسلمانوں کے درمیان رہتا ہو لیکن وہ دل سے مسلمان نہ ہو بلکہ اسلام کا دشمن ہو اور مسلمانوں کے خلاف سازشیں کرتا ہو۔مدینہ منورہ میں یہ گروہ موجود تھا اور آئے دن اسلام دشمنوں کے ساتھ مل کر نبی اکرم ﷺ اور آپ کے صحابہ کو اذیت پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا تھا۔لیکن چونکہ اس کا تعلق دل کے اندرون سے تھا ،اس لیے کسی کو متعین طور پر اس صفت سے متصف کرنا آسان نہیں تھا کیوں کہ دل کے رازہائے سربستہ سے واقفیت صرف ایک ذات کو ہے،اس کے علاوہ کوئی نہیں جانتا کہ کس کے دل میں کیا ہے۔منافقین کو وعید سنادی گئی کہ وہ جہنم کے سب سے نچلے طبقے میں رکھے جائیں گے جہاں سزا دوسرے طبقات سے کچھ سوا ہی ہوگی۔کتب سیرت سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ نبی اکرم ﷺ کو ان کے بارے میں معلوم تھا اور آپ کے ذریعے بعض صحابہ کرام کو بھی ان کے بارے میں کچھ علم تھا لیکن اس کے باوجود ہمیں مدینہ کے تمام منافقین کے نام نہیں ملتے ۔صرف منافقین کے سردار کا نام ملتا ہے اور اس کا بھی یہ حال ہے کہ جب اس کے مخلص بیٹے نے اس کی وفات کے بعد آپ ﷺ سے درخواست کی کہ اپنا کرتا مرحمت فرمادیں تاکہ باپ کو کفن پہنادوں اور اس کے جنازے کی نماز پڑھ دیں تو آپ نے دونوں خواہشات پوری کردیں جب کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ آپ ﷺ کا دامن پکڑ کر عرض کررہے تھے کہ اس منافق کی نماز جنازہ نہ پڑھیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عہد رسالت میں متعین طورپر کسی کو نفاق کی صفت سے متصف کرنے کی روایت نہیں تھی۔
لیکن آج اس شرعی اصطلاح کا استعمال بڑی فراخ دلی سے کیا جارہا ہے۔بعض اصحاب جبہ ودستار کی کوئی تقریر منافقین کے ذکر ”جمیل “سے خالی نہیں ہوتی بلکہ ایسا لگتا ہے کہ منافقین ان کے دل ودماغ پر مسلط ہوچکے ہیں اور وہ سوتے جاگتے،اٹھتے بیٹھتے اور چلتے پھرتے ان کے خطرناک عزائم سے ملت کو آگاہ فرمانے کا فریضہ انجام دے رہے ہیں۔جن حضرات کی فقاہت اتنی مضمحل ہو کہ وہ اپنے سیاسی مخالفین کو منافق کہہ کر یاد کریں،کیا آپ کو توقع ہے کہ وہ اسلام کی بلکہ عہد سلف کے اسلام کی ترجمانی فرمائیں گے۔یاد رکھئے!ایسے لوگ اسلام کے نہیں بلکہ صرف اپنی خواہشات کے غلام ہوتے ہیں،ان سے کسی خیر کی توقع کار عبث ہے۔آپ ان سے ان کا منصب چھین لیجیے،جلد ہی معلوم ہوجائے گا کہ ان کی جہد ومساعی کی معراج کیا تھی۔کفر اور نفاق دو ایسے الفاظ ہیں کہ وہ جب زبان سے ادا ہوتے ہیں تو اپنا اثر دکھلاتے ہیں۔جس کے بارے میں یہ استعمال ہوئے ہیں یا تو وہ کفر اور نفاق سے متصف قرار پاتا ہے یا پھر کہنے والا خود ہی کفر ونفاق سے متصف ہوجاتا ہے۔اسے کہتے ہیں دودھاری تلوار۔ جب وار کردیا تو زخم لگنا ہی لگنا ہے چاہے دشمن کو لگے یا خود وار کرنے والا لہو لہان ہوجائے۔حیرت کی بات یہ ہے کہ ان اصطلاحات کو عام لوگ نہیں بلکہ بعض خواص استعمال کرتے ہیں اور ایک خاص پس منظر میں ان کا استعمال کرتے ہیں۔اسے کہتے ہیں بصیرت اور بصارت سے محرومی۔دنیا میں اس کا نہ کوئی علاج ہے اور نہ اس کا کوئی حل۔قیامت قریب ہے۔اس طرح کے پر فریب تنازعات کا فیصلہ احکم الحاکمین فرمائے گا جو دلوں میں پیدا ہونے والے تمام وسوسوں سے باخبر ہے۔
اسلام کی ایک دوسری اصطلاح امیر اور سربراہ اسلام ہے۔اس کی سمع وطاعت فرض ہے۔اس کے ہاتھ پر بیعت کرنا اور پھر عہد وفا نبھانا واجب ہے۔خواہ اس کا حکم ہمارے دل پر کتنا ہی شاق کیوں نہ گزرے۔صرف ایک شرط اسلام نے عائد کی ہے کہ اس سے کفر صریح کا اظہار ہونے لگے تو اس کی سمع وطاعت کا جوا اتار پھینکنا ہے۔یہ حکم کیوں دیا گیا ہے؟اگر اس کی تفصیلات درکار ہوں تو کتب احادیث میں ”کتاب الامارة“میں وارد احادیث کا مطالعہ کرلیں۔ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ امیر وقت ہی مسلمانوں کا نگراں، محافظ اور ان کے تعلق سے تمام امور کا جواب دہ ہوتا ہے۔ان کے مجرمین کو سزائیں دیتا ہے،ان کے تمام تنازعات کا فیصلہ کرتا ہے،ان کے لیے بیت المال قائم کرتا ہے اور ان کے غربا ومساکین کی کفالت کرتا ہے۔کوئی دشمن ان پر چڑھ دوڑے تو وہ جہاد کا اعلان کرتا ہے اور مرتے دم تک ان کی حفاظت کرتا ہے۔ایک صاف ستھرا معاشرہ وجود میں لاتا ہے جہاں نیکیوں کی برسات ہوتی ہے اور برائیاں اس کے قریب بھی پھٹکنے نہیں پاتیں۔ایسے امیر کے پاس قوت نافذہ ہوتی ہے اور وہ بزور اسلامی احکام کا نفاذ کرتا ہے۔ان فرائض کی انجام دہی کے نتیجے میں اس کے حقوق یہ متعین کیے گئے ہیں کہ خوشی اور ناراضگی ہر حال میں اس کی اطاعت کی جائے،وہ اگر کچھ غلط بھی کررہا ہے تو اس سے چشم پوشی کی جائے،اس کے حق میں دعا کی جائے اور کچھ کہنا ہی ہے تو خاموشی سے اس کی خدمت میں اپنے ناصحانہ کلمات پہنچادیے جائیں۔
اس اصطلاح کو آج وہ لوگ استعمال کررہے ہیں جو غیر اسلامی حکومتوں میں دینی تنظیموں کے سربراہ بنائے گئے ہیں۔جن کے اندر نہ تقوی ہے اور نہ خلوص،جو جوڑ توڑ کرکے اور اپنی خاص لابی تیار کرکے منصب امارت پر متمکن ہوئے ہیں ۔جو خود کو کسی معاملہ میں جواب دہ نہیں سمجھتے،مسلمانوں کی زکاة اور عطیات کو باپ کی میراث سمجھتے ہیں اور اپنی خواہش کے مطابق خرچ کرتے ہیں،جن کے پاس نہ قوت نافذہ ہے اور نہ عام مسلمانوں کے دکھوں کا کوئی علاج فراہم کرنے کی استعداد اور صلاحیت۔انھیں امارت کے دینی فرائض کا کوئی علم نہیں لیکن اپنے دینی حقوق کا تذکرہ لہک لہک کر کرتے ہیں اور عام مسلمانوں سے یہ کہتے ہیں کہ اپنے دینی سربراہوں کی غلط پالیسیوں پر تنقید نہ کرو بلکہ ان کے حق میں مصلی پر بیٹھ کر دعا کرو کہ اللہ ان کوصراط مستقیم دکھائے۔ان غریبوں نے نہ معلوم کہاں سے علوم شرعیہ کی تعلیم حاصل کی ہے اور اپنے دینی مزاج کی تشکیل کی ہے کہ سب کچھ الٹا ہوگیا ہے۔انھیں یاد رکھنا چاہیے کہ اسلام میں سربراہ مملکت کی سمع وطاعت کو اللہ اور اس کے رسول کی سمع وطاعت کے پہلو میں رکھا گیا ہے لیکن وہی سربراہ مملکت اس کا مستحق ہے جو اپنے فرائض ادا کرتا ہو اور جسے اپنے فرائض کی ادائیگی میں کوئی دشواری نہ ہوتی ہو۔جو مسلمانوں کو تحفظ فراہم کرتا ہو اور مسلمان جسے اپنے غموں کا مداوا سمجھتے ہوں۔اس اسلامی اصطلاح کو اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کرنا اور اپنے مخالفین کو زیر کرنے کے لیے نصوص کتاب وسنت کو کام میں لانا اس کی معنوی تحریف ہے۔
مجھے یاد آتا ہے ،ایک معتبر عالم دین نے اپنے ایک خط میں زکوة کے اجتماعی نظام پر گفتگو کرتے ہوئے ایک دینی جماعت کے بڑے اور چھوٹے امیر کے بارے میں لکھا تھا کہ وہ مسلمانوں سے کہتے پھرتے ہیں اور اپنا یہ عقیدہ ومسلک بنائے ہوئے ہیں کہ جو مسلمان ان کے قائم کردہ بیت المال میں زکوة نہیں دیتے ،ان کی زکوة ادا نہیں ہوتی چنانچہ لوگ امیر کی سمع وطاعت کے دینی جذبے سے سرشار ہوکر اپنی ساری زکوة ان کے گھر بھیج دیتے ہیں کیوں کہ ان کا گھر ہی بیت المال بنا ہوا ہے۔لیکن جب کوئی منچلا ان سے سوال کرتا ہے کہ حضرت اس زکوة کا حساب کتاب کہاں ہے،کس نے کتنا دیا اور آپ نے اسے کہاں خرچ کیا تو معصومیت سے جواب دیا جاتا ہے کہ اللہ کے رسول کے زمانے میں رجسٹر کہاں تھے۔حساب کتاب کا ریکارڈ رکھنا سنت نبوی کے خلاف ہے۔غیر اسلامی ملکوں میں آج بھی بہت سے لوگ بیت المال قائم کرنے کے شوقین ہیں،ہمارے اس ملک میں بھی جگہ جگہ سے اس کی آوازیں بلند ہوتی ہیں اور کچھ لوگ مسلمانوں کے دینی جذبات کا استحصال کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں اور لاکھوں روپیہ بیت المال میں جمع کرلیتے ہیں لیکن خرچ کیسے کرتے ہیں،اس کی تفصیلات نہ پوچھیں تو آپ عافیت میں رہیں گے۔اگر کوئی گھپلہ ہوجائے یا غبن کا حادثہ پیش آجائے تو جو امیر اس کا تدارک کرنے کی اہلیت نہیں رکھتا،اسے کس نے یہ حق دے دیا کہ مسلمانوں کی زکوة اکٹھا کرکے اس طرح اسے ضائع ہونے کے لیے آزاد چھوڑ دے۔یہی حال غیر اسلامی ملکوں میں مضاربت کا ہے۔کتنے لوگ اسلام کے نام پر میدان میں آئے اور مسلمانوں کو برباد کرکے جیل چلے گئے یا پھر پردے سے غائب ہوگئے۔مضاربت کے لیے بھی قوت نافذہ ضروری ہے جہاں یہ قوت دستیاب نہ ہو،مالی معاملات میں صرف اخلاقی بنیادوں پر کام کرنا آسان نہیں ہے۔اسلام اپنے کئی ایک احکام وقوانین کے لیے ایک سیٹ اپ چاہتا ہے۔جب تک وہ موجود نہیں ہے،اس سے متعلق کوئی ذمہ داری لینا خود کو ہلاک کرنا ہے۔
اسلام سے متعلق ایک اور اصطلاح کا استعمال بڑے زور وشور سے ہورہا ہے۔اس اصطلاح کو بھی بڑی چالاکی سے اپنی جھوٹی آرزووں کی تکمیل کے لیے کچھ لوگ استعمال کرتے ہیں۔وہ اصطلاح ہے :منہج سلف کی۔منہج سلف کو ایک اصطلاح کے طور پر استعمال کیا جاتا رہا ہے۔سلف کا لفظ بالعموم اس حدیث کے پس منظر میں بولا جاتا ہے جس میں نبی اکرم ﷺ نے تین ادوار کو سب سے بہتر اور اچھا قرار دیا ہے۔قرون مشہود لہا بالخیر سے بھی اس کی تعبیر پیش کی جاتی ہے۔اسلام کی تاریخ میں جب باطل عقائد کے فرقوں نے جنم لیا اور مسلمانوں کو مختلف گروہوں اور فرقوں میں تقسیم کیا گیا تو ہر فرقے کی اپنی ترجیحات طے ہوگئیں اور ان ترجیحات کو ان فرقوں نے اپنی دعوت وتبلیغ کا محور قرار دے دیااور پوری شریعت کو اپنے فرقوں کے ذہنی پس منظر میں رکھ کر دیکھنے کی روایت چل پڑی۔ایسے نازک حالات میں صلحائے امت نے امت کو صحیح اسلام سے وابستہ رکھنے کے لیے اس لفظ کو ایک اصطلاح کے طور پر استعمال کیا اور مسلمانوں کو بتایا کہ تمھاری ان ترجیحات کی کوئی شرعی حیثیت نہیں ہے بلکہ اسلام صرف وہ ہے جو قرون مشہود لہا بالخیر میں تھا۔جس چیز کی جو شرعی حیثیت اس دور میں تھی،وہی شرعی حیثیت ہمیشہ رہے گی،اس میں کسی طرح کی تبدیلی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔لیکن اس پہلو سے دیکھا جائے تو منہج سلف کی تعبیر وتشریح کا معاملہ دور حاضر میں ابھی مزید ریسرچ وتحقیق کا طالب ہے۔علمائے متقدمین نے کتب عقائد میں جو بحثیں اٹھائی ہیں ،وہ ان کے اپنے دور کے لحاظ سے انتہائی اہم ہیں لیکن ہمارے اس دور میں ان مباحث کو زندہ کرنا ایک اور آزمائش سے امت کو دوچار کرنا ہے۔قرون مشہود لہا بالخیر کا مطالعہ اس پہلو سے ضروری ہے کہ وہاں نقطہائے نظر کے اختلاف کو کس حد تک انگیز کیا جاتا تھا اور کس طرح تمام لوگ نصوص سے استدلال کرتے تھے۔اپنے سے مخالف نقطہ نظر رکھنے والے کے خلاف کس طرح کے الفاظ استعمال کیے جاتے تھے اور مخالفین پر اس کا کیا رد عمل ہوتا تھا۔اسی طرح عقاید ،عبادات،معاملات اور اخلاقیات کے باب میں سلف کا منہج اور ان کا طریقہ کیا تھا۔خود سربراہ مملکت ہونے کے ناطے رسول اکرم ﷺ کی حیات طیبہ کیسی تھی؟صحابہ کرام کے یہاں دینی ترجیحات کیا تھیں؟وہ مسلمانوں اور غیر مسلموں کے ساتھ کس قسم کے رویے اپناتے تھے؟ان کی سماجی زندگی کس نوعیت کی تھی؟مختصر یہ کہ ایک نمونے کا دور ہمارے سامنے اس طرح آجائے کہ ایک ایک چیز نمایاں اور واضح ہو اور ہم یہ کہہ سکیں کہ اس معاملے میں منہج سلف یہ ہے۔منہج سلف کا ایک نمونہ سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی سیرت سے سامنے آتا ہے۔بلوائی مدینہ گھیرے ہوئے ہیں،ان کی جان لینے پر آمادہ ہیں،صحابہ کرام عرض کرتے ہیں کہ اجازت دیں،تلوار سے ان کا جواب دیا جائے لیکن خلیفہ راشد کی زبان مبارک سے یہ الفاظ نکلتے ہیں کہ میں اپنی جان بچانے کی خاطر شہر نبوی میں خون خرابہ نہیں ہونے دوں گا۔پوچھا جاتا ہے کہ مسجد نبوی پر ان کا قبضہ ہے،وہی امامت وخطابت کا کام انجام دیتے ہیں۔کیا ان کے پیچھے ہماری نماز ہوجائے گی؟کیا ہم ان کے پیچھے نماز پڑھیں؟فرمایا:ایک یہی کام تو وہ نیکی کا کررہے ہیں،اس کام میں ان کا ساتھ دو۔سیرت عثمانی کا یہ باب منہج سلف کی جو تصویر پیش کرتا ہے اگر اس کی تفصیل پیش کردی جائے تو جتنے منہجی میدان میں ہیں ،ان میں سے کسی کا پتا نہیں لگے گا۔یہاں اپنی جان نہیں صرف انا کی تسکین کی خاطر پوری تنظیم کو برباد کردیا جاتا ہے اور منہجیت پر آنچ نہیں آتی۔دعوت وتبلیغ کے رواں دواں قافلے کو روک دیا جاتا ہے ،کیوں کہ وہاں ہماری قصیدہ خوانی نہیں ہوتی۔اچھے سے اچھے دینی کام کو بے وقعت بتایا جاتا ہے کیوں کہ اس کی کرسی صدارت تمام تر خواہش کے باوجود میرے قبضے میں نہیں آئی۔سیدنا ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ نے درخواست کی تھی کہ مجھے کسی علاقے کا گورنر بنادیں۔نبی کریم ﷺ نے اس موقع پر انھیں جو نصیحت کی تھی ،وہی اسلام کا اصول اور ضابطہ بن گئی کہ ابوذر!منصب طلب کروگے تو تنہا چھوڑ دیے جاوٴگے لیکن اگر منصب دیا جائے گا تو اللہ کی نصرت اور حمایت تمھارے ساتھ رہے گی۔اس منہج سلف کی روشنی میں اپنے قبیلے کا جائزہ لیتا ہوں تو افسوس ہوتا ہے کہ ہم کس منہ سے منہج سلف کی بات کرتے ہیں جب کہ شب وروز کی تمام جہد ومساعی کا محور صرف اپنی امارت اور سیادت کا استحکام ہے۔اس کے لیے کتنے جتن کیے جاتے ہیں۔اللہ ہماری حالت پر رحم فرمائے ۔بہتر ہے کہ دنیا کو ایک دنیا دار کی طرح برتیں،دین ،اسلام اور منہج سلف کا حوالہ دے کر دنیا کو برتنا بدترین جرم ہے۔یہی تو وہ جرم تھا جس میں اہل کتاب کے علما گرفتار ہوگئے تھے اور اللہ نے انھیں ملعون قرار دے دیا۔
اصطلاحات اور بھی ہیں جن کو مسخ کرکے اپنا کام چلایا جارہا ہے لیکن ان کی تفصیل کے لیے تو کوئی کتاب درکار ہوگی۔ایک آخری اصطلاح کا ذکر کرکے گفتگو ختم کروں گا۔وہ اصطلاح ہے شرک اور بدعت کی۔توحید کے مقابلے میں شرک اور سنت کے مقابلے میں بدعت کی اصطلاح مروج ہے۔مسلمانوں میں شرک بھی ہے اور وہ بدعت میں بھی گرفتار ہیں۔اس کے جہاں کئی ایک اسباب ہیں،ایک بڑا سبب ان کی جہالت اور اسلام سے عدم واقفیت ہے۔وہ اسلام سے ،اس کے جملہ شعائر سے،اللہ سے ،رسول سے،قرآن سے اور حدیث سے بے انتہا پیار کرتے ہیں۔ان کی محبت کا عالم یہ ہے کہ اگر انھیں معلوم ہوجائے کہ فلاں بدبخت نے ہمارے نبی کی شان میں گستاخی کی ہے تو اس کو اوپر پہنچانے کی فکر میں لگ جاتے ہیں۔کسی بدبخت نے انگریزوں کے عہد حکومت میں ہمارے نبی کی شان میں گستاخی کی تھی اور ایک بدبودار کتاب تحریر کی تھی۔ایک مسلمان شرابی کو جب یہ بات معلوم ہوئی تو اس نے کہا:اس کی یہ جرأت، ہمارے محترم نبی کی شان میں گستاخی کرے گا چنانچہ اس کا کام تمام کرکے جیل چلا گیا اور پھر درجہ شہادت پاکر سرخرو ہوا۔اسی جیسے ایک واقعہ کے بارے میں علماء کا ایک وفد علامہ اقبال سے ملا کہ فلاں جج جو اس کیس کو دیکھ رہا ہے،آپ کا کلاس فیلو یا شناسا ہے۔اس سے سفارش کردیں کہ اس کی سزا عمر قید میں تبدیل ہوجائے۔علامہ نے پوچھا:سزا یافتہ خود کیا کہتا ہے؟جواب دیا گیا کہ وہ بار بار سر عدالت اپنے قاتل ہونے کا اقرار کرتا ہے اور کہتا ہے کہ جو بھی اس طرح کی گستاخی کرے گا،اسے اوپر پہنچانے کا کام کرتا رہوں گا۔جب اس سے یہ کہا جاتا ہے کہ انکار کردے تو اس کا جواب ہوتا ہے کہ وکیل صاحب !زندگی میں یہی ایک نیک کام کیا ہے ،اس سے بھی انکار کرنے کی آپ نصیحت فرمارہے ہیں۔ علامہ نے تھوڑی دیر بعد سر اٹھایا اور علماء کے وفد کو جواب دیا:جب وہ خود درجہ شہادت پر فائز ہونا چاہتا ہے تو ہمیں اور آپ کو کس نے حق دیا کہ اس سے اس کا یہ مقام بلند چھین لیں۔اس دراز نفسی کے لیے معذرت خواہ ہوں،عرض صرف یہ کرنا تھا کہ مسلمانوں کی اکثریت آج بھی دین سے نابلد ہے۔ہم جن کو علما کہتے ہیں وہ بھی شریعت سے کما حقہ واقف نہیں ہیں۔اس لیے دعوت وتبلیغ کا ایسا نظام قائم کرنا ضروری ہے جس میں ہر مسلمان تک دین کی باتیں تفصیل سے پہنچ جائیں۔اس کے باوجود بھی وہ حجت تمام نہیں ہوتی جو انبیائے کرام کے ذریعے ہوتی ہے۔ایک امتی تادم آخریں ایک انسان سے یہ توقع رکھتا ہے کہ وہ نصیحت قبول کرلے گا اور اپنے عقائد اور اعمال کو اسلام کے سانچے میں ڈھال لے گا۔
اس دعوتی مہم کے بجائے ہماری دل چسپی اس میں بڑھتی جارہی ہے کہ فلاں نے اپنی کتاب میں اور فلاں نے اپنی تقریر میں یہ جملہ کہا اور لکھا ہے۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ بدعتی ہے،وہ مشرک ہے،وہ عقیدہ وحدة الوجود کا قائل ہے جو سراپا کفر اور شرک ہے۔کسی غلط فہمی یا کسی تاویل کے نتیجے میں کسی کی بات مبتدعانہ ہوسکتی ہے،شرکیہ اور کفریہ ہوسکتی ہے لیکن اسے متعین طور پر کافر ،مشرک اور بدعتی کہنا درست نہیں ہے۔اہل سنت کی تمام کتب عقائد میں گناہ کبیرہ کے مرتکبین کو دائرہ اسلام سے خارج نہ کرنے کے بھر پور دلائل موجود ہیں اور ان فرقوں کو غلط بتایا گیا ہے جو کبائر کے مرتکبین کو مخلد فی النار قرار دیتے ہیں۔یہ بحث کسی دوست نے رسالہ میں ابھاری تھی اور وہ بہت زور دار تھی۔مجھے یاد آتا ہے کہ وہ ڈاکٹر ذاکر نائک صاحب کے بارے میں کسی کی تنقید کا جواب دے رہے تھے۔ان کی بحث سے اندازہ ہوا کہ انھوں نے اس موضوع پر وسیع مطالعہ کیا ہے۔آں محترم سے درخواست کروں گا کہ اس موضوع پر مفصل تحریر لکھیں اور بات بات پر مسلمانوں کو بدعتی اور مشرک کہنے کی جو ہوا چل پڑی ہے،اس پر بند لگائیں۔اس سلسلے میں جہاں سعودی عرب کے مفتیان کرام کی تحریروں سے استفادہ کیا جاتا ہے،وہاں یہ بھی ضروری ہے کہ علامہ البانی رحمہ اللہ کی تحریریں ضرور پیش نظر رہیں کیوں کہ وہ خالص منہج سلف کے ترجمان ہیں،کسی جتھے کی ترجمانی کرنے سے اللہ نے انھیں محفوظ رکھا ہے۔
---- رفیق احمد رئیس سلفی
Welcome to Freelancer.co.in Mumbai
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
بہترین ، بہر صورت اگر کوئی اصطلاح غلط استعمال ہوتی ہے ، تو اس ’ غلطی ‘ کی حوصلہ شکنی ہونی چاہیے ، نہ کہ مطلقا ان اصطلاحات سے لوگوں کو برگشتہ کیا جائے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
عمر رضی اللہ عنہ کا اُسے "منافق" متعین کرنا پہلے جملے سے ثابت ہوتا ہے جبکہ مصنف کے اگلے جملے سے اس کی نفی کی جارہی ہے۔۔ مجھےکچھ سمجھ نہیں آیا۔

اقتباس نہیں لیا جاسکا۔۔
اس لیے دونوں جملے کاپی کر دیئے ہیں۔۔

جب کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ آپ ﷺ کا دامن پکڑ کر عرض کررہے تھے کہ اس منافق کی نماز جنازہ نہ پڑھیں۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عہد رسالت میں متعین طورپر کسی کو نفاق کی صفت سے متصف کرنے کی روایت نہیں تھی۔
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,410
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
حَدَّثَنَا خَلَّادٌ حَدَّثَنَا مِسْعَرٌ عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ عَنْ أَبِي الشَّعْثَاءِ عَنْ حُذَيْفَةَ قَالَ إِنَّمَا كَانَ النِّفَاقُ عَلَى عَهْدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَمَّا الْيَوْمَ فَإِنَّمَا هُوَ الْكُفْرُ بَعْدَ الْإِيمَانِ.
ہم سے خلاد نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا ہم سے مسعر نے بیان کیا ‘ ان سے حبیب بن ابی ثابت نے بیان کیا ‘ ان سے ابو الشعثاءنے بیان کیا اور ان سے حذیفہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں نفاق تھا آج تو ایمان کے بعد کفر اختیار کرنا ہے ۔
صحيح البخاري»» كِتَابُ الفِتَنِ»» بَابُ إِذَا قَالَ عِنْدَ قَوْمٍ شَيْئًا، ثُمَّ خَرَجَ فَقَالَ بِخِلاَفِهِ
بات سیدھی سی ہے، نفاق فی العقیدہ کا فتوی کسی پر نہیں لگایا جاسکتا، یہ دل کے معاملہ ہے، اور دلوں کا حال صرف اللہ جانتا ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ کا بذریعہ وحی مطلع کرنا تو ممکن تھا، اب ایسی کوئی صورت نہیں، اسی لئے سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ نے یہ بات خوب واضح کر کے بتلا دی۔
کسی کو منافق کہنے میں ہمارے معاشرے میں بہت تساہل پایا جاتا ہے، یوں تو منافق فی العمل کی بات ہو تو پھر بھی کسی حد تک درست ہے، لیکن ہمارے معاشرے میں لوگوں کو منافق فی العمل اور منافق فی العقیدہ کا فرق بھی معلوم نہیں ہوتا، لیکن اس کا استعمال بہت آسانی سے کرتے ہیں۔
 
Top